برہمن وادی ہندوتو کی یہ پرانی مہم رہی ہے کہ یا تو اپنے میں سما لو یا اپنی طرح بنا لو اور ایسا ہوا بھی، تاہم مسلم سماج کے متعلق وہ ایسا نہیں کرسکا اس کا سیکولر اور غیر سیکولر کہے جانے والے، سب کو افسوس ہے، اس پر راقم سطور نے 300 صفحات پر مشتمل کتاب "سنگھ بانی ڈاکٹر ہیڈ گیوار:حیات و تحریک”میں حوالے کے ساتھ بحث کی ہے، آج تک یہ نہیں بتایا گیا کہ شامل ہو جانے والوں کو دیا کیا ہے اور کیا دے سکتے ہیں؟ حیدر آباد جاتے ہوئے ٹرین میں ہمیں اجین کے ایک سادھو، اپنے شاگردوں کے ساتھ مل گئے، انہوں نے داڑھی، ٹوپی، کرتا پاجامہ میں دیکھ کر اسلام کے متعلق کچھ پوچھا، انہوں نے باتوں باتوں میں آں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے حوالے سے سوال کیا کہ تلوار کو اتنی اہمیت کیوں دی؟ ہم نے سوال کیا کہ پرسو رام کو آپ جانتے ہیں؟ انہوں نے ہتھیار کیوں اٹھایا تھا؟ کہا ظلم و ظالم کو ختم کرنے کے لیے، ہم نے کہا پھر آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر اعتراض کیوں ہے؟ اس حوالے سے بات چیت آگے بڑھی اور ان کو لگا کہ ہم گھر رہے ہیں تو کہنے لگے کہ بات ایک سی ہے، ہم نے کہا بات ایک سی نہیں ہے،رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم آخری نبی اور تاریخ کے اجالے میں ہیں، پرسو رام کے ساتھ تاریخ نہیں ہے ،آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم خالق قدیر کے پیغمبر ہیں، رائج معنی میں اوتار نہیں، بھگوان کے لیے کسی کے گھر جنم لینا، بھائی بیٹا ہونا، اس کا ماں باپ ہونا، اس پر سوال کھڑا کرتا ہےـ رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم انسان ہیں، خدا نہیں، بلکہ خدا کے پیغمبر ہیں، یہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بذات خود اعلانیہ بتایا ہے، بات بالکل صاف ہے، پرسو رام کے متعلق ایسا نہیں ہےـ
رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے دفاع میں ظلم کے خلاف تلوار اٹھائی تھی اور صرف قصور وار کو سزا دی، اس کی پوری برادری کے بے قصور، غیر متعلق افراد کو نہیں، اسلامی شریعت میں ثار ممنوع، حرام اور جرم ہے، ثار کا معنی ہے قصور وار قاتل فرد کی سزا قبیلے، برادری کو دیناـ پرسو رام نے سہستر ارجن اور اس کے بیٹوں کے جرم کی سزا پوری کشتری برادری کو قتل کی شکل میں دی ہے، ایک بار نہیں، 21بار پوری دھرتی سے کشتریوں کا صفایا کر دیا، ظاہر ہے کہ بات ایک سی نہیں ہے، ہاں یہ بات یکساں ہے کہ ظلم و ظالم کے خلاف تلوار اٹھانا غلط نہیں ہے، اس پر اعتراض صحیح نہیں ہے، پرسو رام سے ہمیں کوئی دقت نہیں ہے، ہم نے رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچ کر مسئلے کو حل اور بات صاف کر لی ہےـ پہلے کے معاملے کو بعد کی حالت سے ٹھیک کیا جا سکتا ہے، بر عکس نہیں ہو سکتا ہے، ہم مستقبل کی طرف بڑھ رہے ہیں، آپ ہم کو کچھ نہیں دے سکتے ہیں، اس لیے گھر واپسی اور ہندوتو کو اپنانے کی بات میں کوئی دم اور دلیل نہیں ہے، ہمیں پرسو رام اور رام کو چھوڑنے کی ضرورت نہیں ہے، رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنانے کی ضرورت ہے، ہمیں اپنی طرح بنانے کی کوشش بے فائدہ ہے، جو ہمیں دے سکتے ہیں وہ ہمارے پاس ہے، رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کو پانے کا مطلب ہے پہلے اور بعد دونوں کا سب کچھ پا لینا،رام کو لے کر کوئی تنازعہ نہیں ہے، محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنانے کا بنیادی معاملہ ہے، ایسی حالت میں ہم پورے ہو جاتے ہیں، پہلے کی سرکار کا موجودہ سرکار اور حالات میں بنائے قانون پر چلنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ماضی کی سرکار کے وجود کو خارج کر رہے ہیں اور وجود کے منکر ہیں، حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم آخری نبی اور ابد تک جاری سرکار ہے، عظیم اور معروف کردار سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے کے ہیں بعد میں پہلے بھی ہے ، بس ماننے کرنے کو سمجھنے کی ضرورت ہے، ماننے کا مسئلہ تو طے ہے، پہلے کے ہم منکر نہیں ہیں، بس بعد کے حساب سے کرنے کی بات ہے، اس سے بات بن جاتی ہےـ