(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
لیجیے اس معاملے کو بھی فرقہ وارانہ رنگ دے دیا گیا ! آٹھ رہی تھی آواز سشانت سنگھ راجپوت کے لیے انصاف کی لیکن درمیان میں بات آ گئی ایودھیا، رام مندر اور کشمیر کی ۔ اداکارہ کنگنا رناؤت نے باقاعدہ وچن لے لیا ہے کہ وہ صرف ایودھیا پر ہی نہیں کشمیر پر بھی فلم بنائیں گی ۔ انہوں نے اپنے اس دفتر کو، جس پر ممبئی میونسپل کارپوریشن کا ہتھوڑا چلا ہے، رام مندر قرار دے دیا ہے اور ہتھوڑا چلوانے والوں یعنی شیوسینکوں کو، بلکہ وزیراعلیٰ مہاراشٹر ادھو ٹھاکرے کہنا زیادہ درست ہوگا، مغل شہنشاہ بابر بنا دیا ہے ! شیوسینا کے ایم پی سنجے راؤت کہاں چپ رہنے والے تھے، کنگنا کو انہوں نے جو جواب دیا اس میں شہید بابری مسجد کا نام لے آئے کہ ہم شیوسینک بابر کہاں ہو سکتے ہیں ہم نے تو بابری مسجد توڑی تھی ۔ لوگ یہ سوال کر سکتے ہیں کہ سشانت سنگھ راجپوت کی خودکشی سے بھلا ایودھیا، بابری مسجد، رام مندر اور کشمیر کا کیا لینا دینا ہے !؟ ویسے یہ سوال کوئی کرے گا نہیں اور اگر کسی نے یہ سوال کر بھی لیا تو میڈیا اسے ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دے گا کیونکہ میڈیا کو، یہاں بات گودی میڈیا کی ہو رہی ہے، خوب پتہ ہے کہ اس کا بھلا ایسے سوالوں کو نہ سننے ہی میں ہے ۔ اور لوگ جانتے ہیں کہ گودی میڈیا ان دنوں کس کی ڈگڈگی پر بندر کی طرح ناچ رہا ہے ۔ اگر نہیں جانتے تو جان لیں، ان دنوں گودی میڈیا کسی اور کی نہیں بی جے پی کی گود میں بیٹھا ہوا ہے ۔ بی جے پی کے ذکر سے لوگ اس سوال کے جواب تک کچھ حد تک پہنچ جائیں گے کہ سشانت خودکشی معاملے میں ایودھیا، رام مندر ،بابری مسجد اور کشمیر کی بات کیوں کی جا رہی ہے، اور یہ بھی اندازہ کرلیں گے کہ کنگنا رناؤت کیوں ادھو ٹھاکرے کو بابر بنانے پر تلی ہوئی ہیں، اور کیوں سنجے راؤت کانگریس اور این سی پی جیسی سیکولر کہلانے والی سیاسی جماعتوں کی مدد سے مہاراشٹر کی سرکار چلانے کے باوجود یہ دعویٰ کرنے پر مجبور ہیں کہ ہم نے تو بابری مسجد توڑی تھی ۔ جی! صحیح سمجھے، سارا معاملہ سیاسی رنگ میں رنگ گیا ہے بلکہ اسے سیاسی رنگ دے دیا گیا ہے ۔ مرکزی سرکار بمقابلہ ادھو سرکار ۔ آنے والے دنوں میں اس میں اور بھی نمک مرچ لگایا جا سکتا ہے ۔ لوگ یہ سوال بھی اٹھا سکتے ہیں کہ ایک فلم اداکار کی خودکشی کا معاملہ کیوں اتنی اہمیت اختیار کر گیا کہ بی جے پی اور شیوسینا یا مرکز اور ریاست ایک دوسرے کے مقابل ہیں؟ اس سوال کے تین جواب ہیں، ایک تو یہ کہ بہار اسمبلی انتخابات سر پر ہیں اور چونکہ سشانت سنگھ راجپوت بہار کے تھے لہٰذا بی جے پی کو یہ لگ رہا ہے کہ سشانت کی بات کرکے وہ بہار کے لوگوں کے جذبات سے کھیل کر ان کے ووٹ حاصل کر سکتی ہے ۔ دوسرا یہ کہ ادھو ٹھاکرے کو نشانہ بنا کر بی جے پی مہاراشٹر میں اپنی سرکار نہ بن پانے کا بدلہ لے سکتی اور موقع کا فائدہ اٹھا کر ریاستی سرکار کو کمزور کرکے پھر اپنی حکومت بنانے کی کوشش کر سکتی ہے ۔ آپریشن لوٹس ابھی بند نہیں ہوا ہے ۔ اور یہ کہ گودی میڈیا جسقدر ہاؤ ہلا کرے گا لوگوں کو اسی قدر مزہ آئے گا اور وہ ملک کی اور اپنی بدتر سے بدترین ہوتی صورتحال کو بھولے رہیں گے ۔ ان تینوں نکات پر بات کرنی ہے لیکن پہلے سشانت سنگھ معاملہ میں اب تک کی پیش رفت پر ایک نظر ڈال لیں ۔
سارا معاملہ 14 جون کو فلم اداکار سشانت سنگھ کی خودکشی کی المناک واردات سے شروع ہوا تھا، تب سے لے کر اب تک اس میں کئی موڑ آئے ہیں ۔ سشانت کی خودکشی کی تفتیش ہو تو رہی ہے لیکن اس تعلق سے خبریں اب پس منظر میں چلی گئی ہیں، ساری توجہ پہلے ڈرگس اور فلم مافیا کی طرف مڑ ی اور اب کنگنا اور ادھو ٹھاکرے کی لڑائی پر سب کی توجہ ہے ۔ جہاں تک ڈرگس اور فلم مافیا کا سوال ہے تو فلمی دنیا پر اس طرح کا الزام پہلی دفعہ نہیں لگا ہے، فلمی دنیا اور جرائم پیشہ افراد کے درمیان تعلقات کی داستان بڑی لمبی ہے، اس میں مستان مرزا اور داؤد ابراہیم سے لے کر چھوٹا راجن اور ارون گاؤلی تک نہ جانے کتنے مافیا سرغنہ کے نام آئے ہیں، لیکن ایسے تعلقات اگر تھے بھی تو چند چھوٹی موٹی فلمی شخصیات تک محدود تھے، بڑی شخصیات پر یہ الزام ثابت نہیں کیا جا سکا ۔ یہ خبر بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ایک زمانے میں انڈرورلڈ کا کالا دھن فلم سازی میں لگتا تھا مگر یہ سلسلہ اب جاری نہیں رہا ۔ فلمی دنیا میں ایسے اداکاروں اور فلم سازوں نیز ہدایت کاروں کے چرچے بھی رہے ہیں جو ڈرگس لیتے رہے ہیں، لیکن کنگنا رناؤت نے جس طرح سے ساری فلم انڈسٹری کو ڈرگس سے جوڑ دیا ہے اس میں کوئی سچائی نہیں ہے ۔ اگر کنگنا کی مانیں تو سارے ٹاپ کے اسٹار کیا رنبیر کپور، رنویر سنگھ اور کیا دیپیکا پڈکون سب ہی ڈرگس لیتے ہیں، ریا چکرورتی تو ان کے مطابق ایک نچلے درجہ کی نشیڑی ہیں ۔ صرف یہی نہیں انہوں نے سشانت راجپوت کی خودکشی کو فلمی دنیا کے بھائی بھتیجہ واد سے جوڑ کر اداکار کی موت کا الزام کرن جوہر، آدتیہ چوپڑا، سلمان خان اور شاہ رخ خان جیسی بڑی اور اہم شخصیات کے سر منڈھنے کی بلکہ خودکشی کے معاملہ کو قتل ثابت کرنے کی بھی کوشش کی ہے ۔ فلمی دنیا نے ان کے الزامات کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دیا ہے ، اس وجہ سے کنگنا کا غصہ، جو ناجائز ہے، مزید تیز ہو گیا ہے ۔ سشانت سنگھ راجپوت کی خودکشی کے بعد بی جے پی میڈیا سیل نے ادھو ٹھاکرے کی ریاستی سرکار کو گھیرنے کا موقع تلاش لیا، سشانت کے اہل خانہ سی بی آئی انکوائری چاہتے تھے جبکہ مہاراشٹر کی ریاستی سرکار پولیس انکوائری سے مطمئن تھی ۔ سشانت کے والد کو یہ لگ رہا تھا کہ ریا چکرورتی، جو سشانت کے ساتھ جیون ساتھی کی طرح رہتی تھی، نے ان کے بیٹے کو خودکشی کی طرف مائل کیا اور اس کے کروڑوں روپیے ہڑپ لیے ۔ بہار کی نتیش کمار کی سرکار نے، جو بی جے پی کی بیساکھی پر چل رہی ہے، سی بی آئی انکوائری کی منظوری دے دی، ممبئی پولیس کو تفتیش کرنے سے روک دیا گیا، ممبئی پولیس کے طریقہ کار پر انگلی اٹھی مگر عدالت نے اسے تفتیش میں لاپروائی کا قصوروار قرار نہیں دیا ۔ ادھو سرکار پر ریاست اور ممبئی اور ملک کے ان کے سیاسی حریف ریا چکرورتی کو بچانے کی کوشش کا الزام لگاتے رہے، شیوسینا کے نوجوان قائد آدتیہ ٹھاکرے کا، جو وزیراعلیٰ کے صاحبزادے ہیں، نام بھی اس معاملہ میں لپیٹ لیا گیا، کل کے پکے شیوسینک اور آج کے پکے شیوسینا حریف نارائن رانے نے اور بی جے پی کی سرکار میں وزیراعلیٰ رہے دیویندر فڈنویس نے ریاستی سرکار پر تیز حملے شروع کر دیے لیکن کسی کے پاس بھی ادھو سرکار کو کمزور کرنے کے لیے، اور اس کے خلاف لگائے گیے الزامات کو سچ ثابت کرنے کے لیے کچھ نہیں تھا ۔ سی بی آئی بھی سشانت معاملہ میں اب تک کچھ تلاش نہیں کر سکی ہے ۔ ہاں منشیات کی چھان بین میں جو باتیں سامنے آئی ہیں ان سے سشانت کے کردار پر ہی سوالیہ نشان لگ گیا ہے ۔ ریا چکرورتی سے نارکوٹکس ڈپارٹمنٹ نے جو پوچھ گچھ کی ہے اس سے پتہ چلا ہے کہ وہ نشہ کے عادی تھے اور ریا چکرورتی پر لاک ڈاؤن کے دوران ڈرگس کی فراہمی کے لیے دباؤ ڈالا تھا ۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ وہ فلمی اداکاراؤں سے تعلقات بنانے میں ماہر تھے لیکن کبھی کسی کے ساتھ ان کی جمی نہیں ۔ ان کی پہلی ساتھی اداکارہ انکیتا لوکھنڈے بھی انہیں چھوڑ گئی تھی ۔
ان کے ڈاکٹروں کے مطابق وہ ڈپریشن اور اینزائٹی کے شکار تھے، انہیں یہ لگتا تھا کہ کوئی ان سے پیار نہیں کرتا ہے ۔ حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ ریا چکرورتی ان کے ساتھ رہتی، علاج اور دواؤں کے بارے میں ڈاکٹروں سے بات کرتی تھی لیکن سشانت کے گھر والے ایسے مواقع پر ان کے ساتھ نہیں ہوتے تھے ۔ بہرحال سی بی آئی اور ای ڈی نے خودکشی اور مالی معاملات کی چھان بین شروع کی جو اطلاعات کے مطابق اب تک بے نتیجہ رہی ہے ، لیکن این سی بی نے ڈرگس معاملہ کی چھان بین کرتے ہوئےاداکارہ ریا چکرورتی کو گرفتار کر لیا ہے ۔ گرفتاری کے بعد جہاں کچھ لوگ پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ سشانت کو بس اب انصاف ملنا ہی چاہتا ہے وہیں ایک حلقہ یہ کہتا نظر آ رہا ہے کہ خودکشی کی ایک واردات کو میڈیا نے تفریح میں بدل کر انتہائی سنگ دلی کا ثبوت دیا ہے ۔ سشانت کے والد کے کے سنگھ میڈیا کے سرکس سے ناخوش ہیں، ان کے وکیل وکاس سنگھ نے کنگنا کی بعض باتوں سے تو اتفاق کیا ہے لیکن اکثر باتوں سے عدم اتفاق کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ کنگنا کا اپنا ایجنڈا ہے ۔ یہ ایجنڈا کیا ہے؟ اس سوال کا جواب ان کے بعض ٹوئٹ سے واضح ہوجاتا ہے ۔ ایک ایجنڈا تو فلمی دنیا کی اپنی ناپسند اور مودی سرکار کی نکتہ چینی کرنے والی ٹولی کو نشانہ بنانا ہے ۔ اور دوسرا بی جے پی کو ادھو ٹھاکرے کی سرکار پر بندوق چلانے کے لیے اپنا کندھا پیش کرنا ہے، اور انہوں نے دونوں کام اب تک بڑی خوبی سے کیے ہیں ۔ کنگنا نے اپنے ایجنڈے کے تحت ممبئی پولیس پر جو الزام لگایا ہے وہ توہین کے زمرہ میں آتا ہے ۔ کنگنا نے کہا کہ وہ فلم مافیا سے زیادہ ممبئی پولیس سے ڈر محسوس کرتی ہیں اس لیے وہ بجائے اس کے ہماچل پردیش کی پولیس یا مرکز سے سیکورٹی لینا پسند کریں گی ۔ بات سشانت سنگھ راجپوت کی خودکشی کے تناظر میں تھی، لیکن توہین آمیز تھی ۔ اور پھر بات اسی پر نہیں رکی، کنگنا نے ممبئی بلکہ مہاراشٹر کو پاکستان مقبوضہ کشمیر کہہ دیا، وہ بھی دو بار ۔ شیوسینا کا ردعمل مناسب تھا کہ اگر ممبئی پولیس سے ڈر لگتا ہے تو ممبئی نہ آئیں ۔ مقبوضہ کشمیر قرار دینے پر شیوسینا نے پہلے والی شیوسینا جیسے ، جب بال ٹھاکرے زندہ تھے، شدید ترین ردعمل کا اظہار تو نہیں کیا لیکن کنگنا کو دھمکی دی کہ ممبئی نہ آئیں ۔ عامر خان اور شاہ رخ خان تو کئی بار ایسی دھمکیوں سے گزر چکے ہیں ۔
2006ء میں عامر کی فلم رنگ دے بسنتی اور فنا کاگجرات میں بی جے پی نے پرتشدد بائیکاٹ کیا تھا ۔ فلم پی کے، کے خلاف مظاہرہ کیا گیا تھا ۔ جب فلم مائی نیم از خان نمائش کے لیے پیش ہو رہی تھی تب شاہ رخ خان کے خلاف شیوسینا نے احتجاج کیا تھا، کانگریس کی اس وقت کی مہاراشٹر کی سرکار کو انہیں سیکورٹی دینی پڑی تھی ۔ ان دونوں کو کئی بار پاکستان چلے جانے کا بدبختانہ مشورہ بھی دیا گیا تھا ۔ تب ملک یا ریاست میں ایسا شور شرابہ نہیں ہوا تھا جیسا کہ کنگنا کے لیے ہوا ہے ۔ بی ایم سی نے کنگنا کے دفتر پر ہتھوڑا چلایا تو ایک ہنگامہ برپا ہوگیا جبکہ گجرات کی بی جے پی سرکار مودی مخالف معطل آئی پی ایس افسر سنجیو بھٹ کا، جو آج جیل میں ہیں، مکان منہدم کر چکی ہے ۔ ممبئی میں شیوسینا بی جے پی کی سرکار کامیڈی کنگ کپل شرما کی املاک پر ہتھوڑا چلوا چکی ہے، انہوں نے اس وقت کے وزیراعلیٰ فڈنویس پر نکتہ چینی کر دی تھی جس کی انہیں سزا ملی تھی ۔ یہ ہوتا رہا ہے، حالانکہ نہیں ہونا چاہیے، اور یہی کنگنا کے ساتھ ہوا ہے ۔ لیکن ایک فرق کے ساتھ، کنگنا سب کہہ کر بھی مظلوم اور دیش بھکت ہیں ۔ اب کنگنا رناؤت سیدھے شیوسینا پر نشانہ سادھ رہی ہیں، پہلے اسے سونیا سینا کہا پھر سونیا گاندھی کودرمان میں کھینچ لائیں کہ شیوسینا نے ایک عورت کی بے عزتی کی ہے اس لیے خاموش نہ رہو ۔ مقصد کانگریس کو شیوسینا سے دور کرنا ہے۔ اور یہی نہیں کنگنا تو تڑاک پر بھی اتر آئی ہیں، وزیراعلیٰ ادھو ٹھاکرے کو تو کہہ کر مخاطب کر رہی ہیں، ظاہر ہے کہ یہ زبان شیوسینا منظور نہیں کر سکتی ۔ لیکن فی الحال شیوسینا خاموش ہے، وہ کنگنا کو جواب دے کر بی جے پی کے جال میں پھنسنا نہیں چاہتی ۔ کیونکہ بی جے پی اسے بہار اسمبلی انتخابات میں بھنا سکتی ہے ۔ کنگنا کو ایک مظلوم کی صورت میں پیش کرکے وہ بہار کے رائے دہندگان کو یہ باور کراسکتی ہے کہ بہار کے نوجوان اداکار سشانت سنگھ کے لیے کنگنا نے آواز اٹھائی اس لیے اسے نشانہ بنایا جارہا ہے، کنگنا نے ایودھیا اور کشمیر پر فلم بنانے کا اعلان کیا ہے، ہندتوا کی بات کی ہے اس لیے بیچاری نشانے پر ہے ۔ اب بی جے پی اپنے پروپگنڈا میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں یہ الگ بات ہے مگر پروپیگنڈا کے کچھ اثرات ضرور پڑ سکتے ہیں ۔ کم از کم اسے ایک جذباتی موضوع بنا کر وہ حقیقی سوالوں سے دامن تو بچا ہی سکتی ہے ۔ بےروزگاری کا مسئلہ، کورونا کا مسئلہ، مہاجر مزدوروں کے غصے کا مسئلہ، بڑھتی مہنگائی،بدتر ہوتی معیشت، دن بہ دن زور پکڑتی فرقہ پرستی، ریاست بہار کے ترقی کی دوڑ میں پچھڑنے کا مسئلہ اور نوجوانوں کے مستقبل کی تباہی کا مسئلہ ۔ مسائل کا ایک انبار ہے جن کا سامنا کرنے سے بچنے کے لیے کنگنا کا کندھا کھوج لیا گیا ہے ۔ میڈیا جو تفریح پروس رہا ہے اس میں الجھ کر عوام تاریک مستقبل اور آنے والی تباہی سے بے خبر ہیں بلکہ بے خبر رکھے جا ر ہے ہیں ۔
بی جے پی کی کوشش ہے کہ وہ اصل مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹا کر بہار کو فتح کرلے ۔ اور ادھو ٹھاکرے کی سرکار کو کمزور کرکے کسی طرح پھر مہاراشٹر میں بھگوا لہرا دے ۔ کنگنا کی ماں بی جے پی میں شامل ہو چکی ہیں، بیٹی بھی آج نہ سہی کل بی جے پی میں ہو گی، ویسے نظریاتی طور پر وہ بھاجپائی ہیں ہی ۔ انہیں بل ڈوزر چلنے کے بعد کشمیری پنڈتوں کی مظلومیت کا احساس ہوا ہے اس لیے وہ کشمیر پر فلم بنائیں گی ۔ کشمیری عوام جس کرب سے گزر رہے ہیں اس کی انہیں پروا نہیں ہے جیسے کہ دہلی کے فساد متاثرین کے دکھ درد کی یا اس سے بھی پہلے گجرات کے مظلومین کی انہیں پروا نہیں ہے ۔ اب ایودھیا اور کشمیر پر کنگنا کی فلموں میں کیا ہوگا اس کا خوب اندازہ کیا جا سکتا ہے، مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی، اور بی جے پی کو اس وقت یہی مطلوب ہے ۔ بہرحال سشانت سنگھ راجپوت کی خودکشی کا معاملہ اب فرقہ وارانہ ہوگیا ہے ۔ شیوسینا آگ میں گھی ڈالنے سے بچ رہی ہے کیونکہ اس کی حکومت ہے اور جیسا کہ معروف خاتون صحافی سجاتا آنندن نے کہا ہے شیوسینا کو بھی پتہ ہے کہ کنگنا کو بی جے پی کا مضبوط سہارا حاصل ہے ۔ ادھو اور آدتیہ ٹھاکرے کی شیوسینا جیسا کہ مراٹھی کے مشہور صحافی نکھل واگلے کا کہنا ہے اب بہت بدل گئی ہے ۔ مگر شیوسینا آسانی سے ہار ماننے والی نہیں ہے، وہ فلمی دنیا میں اِن ڈائرکٹ کنگنا رناؤت کے کاروبار کو برباد کر سکتی ہے ۔ اور اگر اسے یہ لگا کہ اب معاملہ اس کی عزت کا ہے تو اس کا ردعمل ڈائرکٹ بھی ہو سکتا ہے ۔ فی الحال شیوسینا اس لیے خاموش ہے کہ وہ حکومت میں ہے، لاء اینڈ آرڈر کی برقراری کی ذمہ داری اس کی ہے، لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال خراب ہوئی تو سارا الزام اس کے سر جائے گا اور بی جے پی کو مہاراشٹر میں حکومت سازی میں ناکام بنانے کے لیے ادھو ٹھاکرے سے بدلہ چکانے، حکومت میں اختلافات پیدا کرنے اور اپنی حکومت کے قیام کی کوشش تیز تر کرنے کا سنہرا موقع ہاتھ لگ جائے گا ۔ یہ موقع ادھو ٹھاکرے دینا نہیں چاہتے، اسی لیے کنگنا کے خلاف شیوسینا کا ردعمل پھیکا ہے، لیکن آنے والے دنوں میں کنگنا کے لیے مشکلات یقینی ہیں ۔