پارلیمنٹ کامانسون اجلاس شروع ہوچکاہے،کرونا کےکیس 50 لاکھ کے قریب پہنچ چکےہیں اور لاک ڈاؤن کےسائے میں یہ اجلاس ہورہاہے،تیس ارکانِ پارلیمنٹ کی کورونا رپورٹ پازیٹو آئی ہے،یہ اجلاس اس لئے بھی اہم ہےکہ اس باربہت کچھ بدلاہواہے،ایوان سےوقفۂ سوالات کاسیشن اس سال ختم کردیاگیا ہے، کروڑوں لوگ بیروزگار ہیں،بھوک سےلاکھوں لوگوں کی جان اب تک جاچکی ہے،ملکی کی جی ڈی پی آخری سطح پر پہنچ چکی ہے،سرحد پرچین اورنیپال بری نظرگاڑے ہوئےہیں،کشمیرمیں لوگوں کی زندگیاں دن بہ دن اجیرن ہورہی ہیں،لوگوں کےاوپر خوف ودہشت کاسایہ ہے،مہنگائی بڑھتی جارہی ہے،لوگوں کے پاس پیسے نہیں ہیں،ہزاروں لوگوں کا کاروبار برباد ہوچکاہے،کسان خودکشی کررہے ہیں ،ڈیزل اورپٹرول کی قیمت روزبڑھ رہی ہے،ملک کا سفرجاری ہے لیکن ایک ایسے راستے کی جانب جہاں سے نکلنا بہت آسان نہیں ہے،وہاں پہنچنے کے بعد واپسی کاکوئی راستہ نہیں،گھپ اندھیراہے،ایسے میں ملک کا کیا ہوگا؟ یہ ملک اپنا سنہرا مستقبل کیسے حاصل کرےگا؟یہ سوال آپ کے ذہن میں بھی ہوگا؟ ملک کاایک باوقار شہری ہونےکی حیثیت سے یہ سوال آپ کے ذہن میں ضرور ہونا چاہئے،لیکن اس سوال کا جواب کون دے گا؟آخر ملک کواس راہ پر لےجانے کا ذمے دار کون ہے؟ وہ کون ہےجوملک کوٹکڑے ٹکڑے اوربرباد کرناچاہتاہے؟اگر ہم نے ان سوالوں پرابھی غور نہیں کیا اورملک کوایسے ہی چھوڑدیا تو پھر یاد رکھئے کہ اس ملک کی تباہی وبربادی کی ذمہ داری ہم پر بھی عائد ہوگی ،لہذا ہم اپنی ذمے داریوں سے راہ فرار اختیار نہیں کرسکتے،دہلی میں فساد کے نام پر حیوانیت کا جوننگا ناچ ناچا گیا،اور دوسرا گجرات بنایا گیا یہ سب اچانک نہیں ہوا،بلکہ ایک منظم پلان کے تحت دہلی کو دوسرا گجرات بنانے کی پوری کوشش کی گئی،یہ سلسلہ ابھی ختم نہیں ہواہے،اب اس کی آڑ میں بے قصور مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے سلاخوں کے پیچھ ڈالا جارہاہے،یہ کتنی عجیب بات ہے کہ مسلمانوں کے خلاف ہی یہ فساد برپاکیاگیا،درجنوں لوگوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا، مسلمانوں کے کاروبار اور گھربارکو لوٹاگیا،عزت وآبرو کو پامال کیاگیا اوراب مجرم بھی مسلمان ہی بنائے جارہےہیں،اسی جرم میں ابھی ایک روز قبل ڈاکٹر قاسم رسول الیاس کے صاحب زادے،عمرخالد جو جے این یو کے اسٹوڈینٹ ہیں ان کو گرفتار کیاگیا اورعدالت نےدس دن کی پولس ریمانڈ پر انھیں بھیج دیاہے،عمر خالد کی پہ پہلی گرفتاری نہیں ہے،بلکہ جب سے ملک میں لاک ڈاؤن شروع ہواہے تب سے ہزاروں نوجوانوں کواب تک جھوٹے الزام میں گرفتار کرکے جیل رسید کیا جا چکاہے،شرجیل امام، خالد سیفی اور دیگر بہت سے نوجوانوں کوجھوٹا الزام لگاکر جیلوں میں ٹھونس دیاگیاہے،خالد سیفی کی بیوی اور عمر خالد کی والدہ آج دہلی پریس کلب میں انصاف کی گہار لگارہی ہیں، کیا آپ جانتے ہیں کہ آخر چن چن کر مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں کیوں ہورہی ہیں انہیں پس دیوار زنداں کیوں کیاجارہاہے؟کیاہے ان کا جرم ؟
ان کا جرم صرف یہ ہے کہ انھوں نے بھارت کی ظالم وجابر حکومت کوللکارا،ان کی ناانصافی کے خلاف آواز بلندکی،ملک کے کروڑوں مسلمان جو مایوسی کے دور سے گزر رہےتھے ان کےاندر امید کی کرن پیداکی، ہمت وحوصلہ عطاکیا،انھوں نے اپنی قوم کو یہ بتایا کہ اگربھارت جمہوری ملک ہے تو ہمیں یہاں اپنے بنیادی حقوق ملنا چاہئے اور جہاں حق ملتا نہیں وہاں حقوق مانگے نہیں جاتے بلکہ چھین کر لیاجاتاہے اور اس کے لئے جمہوری طریقہ اپنایاجاتاہے،ملک کی ممتاز یونیورسٹی جامعہ ملیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے شروع ہونے والا یہ احتجاجی مظاہرہ ایک تحریک کی شکل میں تبدیل ہوگیا،جو دسمبر 2019 میں شروع ہوا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ تحریک پورے ملک میں پھیل گئی،جس کو "تحریک شاہین باغ” کہا جاتاہے۔ تقریبا چار ماہ چلنے والی اس طویل تحریک نے حکومت کےایوانوں میں لرزہ پیدا کردیاتھا،یہ تحریک جسے شاید دنیا کی سب سے بڑی تحریک ہونے کااعزاز حاصل ہے اگریہ کامیاب ہوجاتی تو ملک میں انقلاب ضرور آتا، لیکن ایک سازش کے تحت، منظم پلان کے ذریعے کرونا کی آڑ میں زبردستی اس تحریک کو اپریل کے مہینے میں ختم کروادیاگیا،اس تحریک نے لوگوں کے اندر عجیب قوت پیدا کردی،100 دنوں سے زائد چلنے والی یہ پرامن اور بےمثال تحریک سے گھبراکر اس سنگھی حکومت نے دہلی کو دوسرا گجرات بنانے کا خفیہ پلان کرلیااور پھر پوری دنیا نے یہ تماشا دیکھا کہ حکومت اپنے مکروہ عزائم کس طرح پورے کرتی ہے۔
تاریخ کامطالعہ کیا جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ دنیا میں بہت سی تحریکیں اٹھیں کبھی بعض وجوہات کی بنا پر کچھ ناکام بھی ہوئیں اور کبھی کامیابی نے ان کی قدم بوسی کی،ایسی بہت سی تحریکیں تاریخ کی کتابوں میں آپ کومل جائیں گی،زندہ قومیں اپنی جدوجہد ہمیشہ جاری رکھتی ہیں جب تک وہ اپنے مشن میں کامیاب نہ ہو جائیں،ایک ایسے وقت میں جبکہ حکومت میں بیٹھے کچھ فرقہ پرست لوگ مسلمانوں کےلئے ملک کی زمین تنگ کررہے ہیں، ایسے میں ہمارے اوپر لازم ہے کہ ہم ملک کے تحفظ اور اپنے حقوق کی بازیابی کےلئے تحریک شاہین باغ کو زندہ رکھیں اور جمہوری طریقے سے اپنا حق حاصل کریں، ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ ہمارے حقوق پلیٹ میں سجاکر ہمیں کوئی پیش نہیں کرسکتا،1974 کی بات ہے اسی ہندوستان میں ریاست بہار میں اس وقت جب کانگریس کی حکومت تھی،عبدالغفور وزیراعلیٰ تھے،پٹنہ یونیورسٹی اور دیگر تعلیمی اداروں میں حکومت کے خلاف ایک تحریک شروع ہوئی،یہ تحریک اپنے مطالبات کےحل کےلئے شروع کی گئی تھی،اس کو مضبوط اور متحرک بنانے کےلئے طلبہ کی ایک یونین بنائی گئی،لالو یادو کو اس کی صدارت سونپی گئی،اس میں کچھ اور لوگوں کو بھی شامل کیاگیا جن میں،محمد شہاب الدین مرحوم،رام ولاس پاسوان اور بی جےپی کے سشیل کمارمودی وغیرہ شامل تھے،اس تنظیم کا نام "بہار چھاتر سنگھرش سمیتی”رکھاگیا،بعد میں اسی کو وسعت دیکر جے پرکاش نارائن کی قیادت میں قومی تحریک کی شکل دے دی گئی،اور پھراسے” سمپورن کرانتی "کے نام سے موسوم کردیاگیا،اس تحریک کواتنا مضبوط کردیاگیا کہ اس کے ذریعے نہ صرف بہار حکومت کو اکھاڑ پھینکا گیا بلکہ اس کی آندھی نے اس وقت بھارت کی سب سے مضبوط لیڈر اورخاتون آہن کہلانے والی اندرا گاندھی کی حکومت کو بھی ہلا دیا،اورپھر بالآخر اندرا گاندھی کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا،اس تحریک سے ہمیں سبق لے کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے،عزم مستحکم،ثابت قدمی اور جہد مسلسل کے ذریعہ ہمیں اپنی لڑائی کوجاری رکھنا ہوگا،تحریک شاہین باغ نے گھٹا ٹوپ اندھیرےمیں میں امید کی ایک نئی کرن پیداکی ہے،نیا ولولہ اور جوش عطا کیا ہے، شاہین باغ تحریک نے ہمیں بہت کچھ سکھایاہے،آئیے پھرسے اسے تازہ کریں،اس عزم کے ساتھ کہ جب تک ہمیں ہمارے حقوق نہیں دیے جاتے،ہمارے مطالبات کو تسلیم نہیں کیاجاتا،ہمارے ساتھ عدل وانصاف نہیں کیاجاتا ہماری تحریک جاری رہنی چاہئے،سی اے اے اوراین آرسی لاکر تم ہمیں ہرگز خوف زدہ اور دونمبر کا شہری نہیں بناسکتے،قیادتیں ہمیشہ جدوجہداورقربانیوں کےذریعے ہی پیدا ہوتی ہیں،جوقیادت جدوجہد اور قربانی، جاں فشانی اورجہد مسلسل کی وجہ سے وجود میں آتی ہیں،یہی کارگر ہوتی ہیں اور قوم کی نیا پار لگانے کی صلاحیت رکھتی ہیں،آج مسلم لیڈران کے ساتھ بھی متعصبانہ رویہ اختیار کیاجارہا ہے،چاہے وہ ڈاکٹر کفیل خان ہوں،اعظم خان ہوں،مختارانصاری اور عتیق احمد ہوں یاپھر پورے ملک سے گرفتار کئے جارہے ہزاروں مسلم نوجوانوں کا مسئلہ ہو، جن کو جھوٹے اور غلط الزام کے تحت جیلوں میں بھرا جارہاہے،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ سمیت ملک کی دیگر یونیورسٹیوں سے چن چن کر مسلم نوجوانوں کوگرفتار کیاجارہاہے اور ان کے خلاف یواے پی اے کے تحت شکنجہ کسا جارہاہے، یوپی کی سنگھی اور فرقہ پرست یوگی حکومت ان دنوں چن چن کر انتقامی کارروائی انجام دے رہی ہے،جس کی لپیٹ میں وہ لوگ بھی ہیں جنھوں نے تحریک شاہین باغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیاتھا اورلکھنؤ وغیرہ میں سی اے اے اوراین آرسی کے خلاف احتجاجی مظاہرے میں اہم کردار اداکیاتھا،یوپی حکومت نے اسپیشل فورس بھی تشکیل دی ہے،جوبغیر کسی نوٹس کے جب چاہے اور جس کوچاہے گھرمیں گھس کرگرفتارکرسکتی ہے اور کارروائی کرسکتی ہے۔ سابق رکن پارلیمنٹ عتیق احمد جو یوپی کے الہ آباد سے تعلق رکھتے ہیں،ان کی پچیس کروڑ روپئے کی پراپرٹی یوپی پولس نے ضبط کرلی ہے۔ ایسے ہی یوپی کے سابق رکن اسمبلی مختار انصاری کے خلاف لگاتار کارروائی کرتے ہوئے ان کی املاک کو ضبط کرنے اورعمارت کومسمار کرنے کاسلسلہ جاری ہے،لکھنؤ میں مختار انصاری کی دو منزلہ عمارت جو تقریباً آٹھ ہزار اسکوائر فٹ پرمشتمل تھی اس کو منہدم کردیاگیا،انتظامیہ کاالزام ہے کہ اس عمارت کوغیر قانونی طور پرتعمیر کیاگیاتھا،میڈیا رپورٹ کے مطابق پولس انتظامیہ سمیت دوسو سے زیادہ پولس اہلکاروں نے 20سے زیادہ جے سی بی مشینوں کی مددسے انہدامی کارروائی انجام دی،یوگی حکومت کے مطابق عمارت کے تعمیر ہونے سے لے کر زمیں دوز کرنے تک کانہ صرف یہ کہ کرایہ وصول کیاجائےگا بلکہ اس کو منہدم کرنے میں جوخرچ آیاہے اس کی بھی وصولی کی جائےگی،اتناہی نہیں ان کی بیوی اورسالےوغیرہ پرگینگسٹرایکٹ کامقدمہ بھی درج کیاگیاہے،کیا یہ فرقہ پرستی نہیں ہے؟ کیا یہ تغلقی فرمان نہیں ہے؟ کیایہ مسلم دشمنی نہیں ہے؟ کیااب بھی ہم خاموش تماشائی بنے رہیں گے؟ رکن پارلیمنٹ اعظم خان فیملی سمیت جیل میں ہیں ان کی تعمیر کردہ ملک کی ایک ممتاز دانش گاہ محمد علی جوہر یونیورسٹی کو تہس نہس کردیاگیا،دہلی میں ڈاکٹر ظفرالاسلام کے خلاف جھوٹا مقدمہ دائر کیاگیا اورانہیں ابھی تک پریشان کیاجارہاہے۔ کیاآپ نہیں سوچتے کہ آخر یہ ملک کس رخ پر جارہاہے؟مسلمانوں کی شناخت کومٹایاجارہاہے،ایسے وقت میں اب ہمارے لئے کونسا دوسراراستہ باقی بچتاہے؟عدلیہ سمیت میڈیا،مقننہ اور ملک کےدیگر اہم ادارے سب مسلم دشمن ہوچکے ہیں،کل عدالت عظمی نے سدرشن نیوز چینل کے ایک پروگرام پر بین لگادی جومسلم مخالف تھا، یہ ایک اچھا فیصلہ سنایاگیا لیکن سوال یہ ہے کہ اس چینل کوجوکام کرنا تھاوہ کرچکا،اب اس فیصلہ سےکیاحاصل ہوگا؟اس نے اب تک جو ملک میں نفرت کی فضا ہموار کی اس کا کیاہوگا؟ایسے حساس مسائل پر عدالت عظمی پہلے کیوں غور نہیں کرتی،گذشتہ کئی ماہ سے ملک کامیڈیا مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا رہا ہے، کیوں اس پراب تک خاموشی اختیارکی گئی؟سدرشن نیوز چینل کا جومقصد تھاوہ تو پوراہوچکا کیونکہ وہ اس مسلم مخالف پروگرام کاکافی حصہ دکھا چکاہے،کچھ ایپی سوڈز باقی ہیں،کتاب میں کیاچیز ہے اس کو جاننے کےلئے پوری کتاب پڑھنے کی ضرورت نہیں ہوتی،اخبار میں کیاہے اس کےلئے صرف اخبار کااداریہ پڑھ لینا کافی ہوتاہے اوراس کتاب کا مقدمہ پڑھ لینا کافی ہوتاہے،ایسے ہی یہ چینل کیاچاہ رہاتھا اسے نے جواب تک اپنا پروگرام نشر کیا اس میں اس کا مقصد پورا ہوگیا،اب روک لگانے کا کیافائدہ ہوگا؟ اصل سوال یہ ہے۔
بہر حال ملک کے مسلمانوں کےلئے یہ وقت انتہائی نازک ہے اورہمیں مصلحت کوشی کی چادر اتارکر اپنی بقا وتحفظ کےلئے اور حقوق کی بازیابی کےلئے جدوجہد کرنا ہوگا،اگر ہم نے پھر بھی بےحسی اور خاموشی کامظاہرہ کیاتو انجام بہت براہوگا،خدانہ کرے ایساہو،اس لئے ایک زندہ اور باضمیر قوم ہونے کاثبوت پیش کرتے ہوئے اپنے حقوق کی بازیابی کےلئےتحریک شاہین باغ کوزندہ اور ملک میں ایک نئے انقلاب کی راہ ہموار کریں،ورنہ توایسے ہی کبھی ٹاڈا،پوٹا اور کبھی یواے پی اےاورسی اےاے و این آرسی جیسے کالے قوانین کے ذریعے ہم پرظلم وستم کاپہاڑ توڑا جاتارہےگا۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)