ترجمہ:نایاب حسن
ایک دوست نے حال ہی میں گفتگو کے دوران مجھ سے کہا:”اب تو کالم لکھنا پہلے سے کہیں زیادہ آسان ہوگا؛کیوں کہ اب تو آپ کے پاس انٹرنیٹ ہے‘‘۔ یہ ان کا فی البدیہ تبصرہ تھا ، جس کا میں نے بھی فی البدیہ جواب دیا: "کئی ناحیوں سے آسان اور کئی اعتبار سے پہلے سے زیادہ مشکل۔” گفتگو زیادہ دیر تک جاری نہیں رہی؛ لیکن میں اپنے دوست کے اس مفروضے کے بارے میں سوچتا رہا ۔
میں 1980 کی دہائی سے مین سٹریم اخبارات کے لیے کالم نگاری کر رہاہوں۔ جب میں اس پیشے میں آیا،اس وقت انٹرنیٹ کا وجود نہیں تھا اور سائنس فکشن کو نظر انداز کرکے چلیں تواُس ڈیجیٹل سونامی کی بھی لوگوں کو کوئی خبر نہیں تھی،جس نے جلد ہی جدید زندگی کے بارے میں ہر قسم کے خیالات و تصورات اور طرزِ عمل کو بدل کر رکھ دیا۔ بہ طور کالم نگارمیرے تجربات کے اعتبار سے انٹرنیٹ کا عروج سب سے بڑی انقلابی تبدیلی تھی؛لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس سے ہم جیسے لوگوں کاکام آسان ہوا ہے؟ہمارے کام میں پہلے سے زیادہ معنویت آئی ہے؟انٹرنیٹ کے اثرات کے بارے میں کتابیں،مضامین،سائنٹفک مقالات مسلسل لکھے جارہے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ یہ سیلاب ابھی رکنے والا نہیں ہے۔ دانشوران اور سماجی ناقدین آنے والے کئی سالوں تک اس نئی روحِ عصر کے جواز میں دلائل فراہم کرتے رہیں گے۔ میں یہ کام دوسروں کے لیے چھوڑتاہوں کہ وہ تیس ہزار فٹ سے ڈیجیٹل لینڈ سکیپ کی منظر کشی کرے۔ میں ایک ایسے شخص کو نظر آنے والی زمینی صورتحال کے بارے میں بات کرنا چاہتاہوں جو رائے سازی و تجزیہ نگاری کے شعبے سے تب سے وابستہ ہے،جب ٹائپ رائٹر پر لکھا جاتا تھا۔
بہت سی چیزیں دیکھنے میں زبردست نظر آتی ہیں۔ان لوگوں کے لیے (گوگل) سرچ انجن ایک معجزہ ہے،جن کے کالمز تحقیق سے لدے پھندے ہوتے ہیں۔ جو معلومات اب چند کلکس سے حاصل ہوجاتی ہیں،وہ پہلے کئی گھنٹوں اور دنوں میں ملتی تھیں۔ میں آپ کو ایک سادہ مثال دیتا ہوں ۔ نوے کی دہائی کے وسط میں جب امریکہ کی دونوں پارٹیوں کے پروٹیکشنسٹ جاپان کے خلاف ماحول بنارہے تھے ،تو مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ اٹلی اور جرمنی کے خلاف پاپولسٹوں ناراضگی کے بارے میں لکھا جائے۔ دو دوسرے تجارتی شرکا(اور سابق کے دشمن) جن کے ساتھ امریکہ ایک بڑا تجارتی نقصان اٹھا رہا تھا۔ اب مطلوبہ تفصیلات کے حصول کے لیے مجھے امریکی حکومت کے شعبۂ کامرس میں کال کرنا تھا(میرے ڈیسک پر وفاقی حکومت کی فون ڈائریکٹری ہوتی تھی،جسے ہر چھ ماہ بعد اپ ڈیٹ کیا جاتا تھا)اور صبر آمیزی کے ساتھ شعبے کے ایک ایسے ملازم تک پہنچنا تھا،جو حکومت کے بیرونی تجارتی معاملات سے متعلق تفصیلات پر مشتمل دستاویزتلاش کرکے مجھے فیکس یا میل کردے۔
کسی بنیادی اعداد و شمار یا تاریخی حوالے کو اس طرح تلاش کرناواقعی کوئی کارنامہ ہوسکتا ہے۔ مگر آج کے آن لائن معلومات کے سمندر کی موجودگی میں یہ عہدِ وسطیٰ کی جاں کاہی معلوم ہوتی ہے۔ کالم نگاری کے دوران میں مختلف قسم کے ریسرچز کی ہارڈ کاپی سے رجوع کرتا ہوں اوراسی کو قابل اعتماد سمجھتارہا ہوں،مگر آج میں ساری دنیا کی معلومات گوگل سرچ کے ذریعے حاصل کرسکتا ہوں۔ اپنے ڈیسک سے اٹھے بغیر میں سپریم کورٹ میں پیش کردہ کسی وکیل کی بریفنگ کا مطالعہ کر سکتاہوں،اپنی دادی یا نانی کے زمانے کے مشہور گانے سن سکتاہوں،آسمان کا کوئی بھی ستارہ دیکھ سکتاہوں اور1968کے صدارتی انتخاب کی کمپیننگ کا مشاہدہ کر سکتاہوں۔
اور بھی اچھی بات یہ ہے کہ میں قارئین کونہ صرف اپنی کسی تحقیق کا حوالہ دے سکتا ہوں؛بلکہ میں اپنے کالم کے دوران ہی اس تحقیق کا ہائپر لنک بھی دے سکتاہوں کہ وہ براہِ راست اس کا مطالعہ کر سکیں۔ یہ لنکس میرے لیے اپنے زاویۂ نگاہ کو ثابت کرنے،اپنی دلیل کو پختہ کرنے اور ایسے اشارے دینے میں معاون ثابت ہوتی ہیں،جو کسی کالم کی چار سمتوں سےماورا ہوتے ہیں۔ میں ان لنکس کا ایسی معلومات کے حوالے کے لیے بھی استعمال کر سکتاہوں،جن کی ضرورت نہیں ہوتی یا اس طرح میں مزید معلومات کے خواہاں قارئین کی رہنمائی کر سکتا ہوں۔ حتی کہ میں ان لنکس کو ایسی باتیں کہنے کے لیے بھی استعمال کر سکتاہوں جو عام حالات میں نہیں کہی جاسکتیں۔ مثال کے طورپر میں نے 2012 میں فحاشی کے موضوع پر ایک کالم لکھا تھا،جس میں میں نے ایک کیبل پروگرام کا حوالہ دیا تھا،جس میں Fسے شروع ہونے والے ایک لفظ کو صرف چار منٹ میں 38مرتبہ استعمال کیاگیا تھا۔ میں اپنی تحریر میں اس منظر کی عکاسی نہیں کر سکتا تھا،مگر متعلقہ ویڈیو کا لنک دے سکتا تھا،سو میں نے بطور حوالہ وہ لنک دےدیا۔
بلاشبہ کالموں یا مضامین میں بطور حوالہ استعمال کیے گئے لنکس مطبوعہ اخبار یا رسالہ پڑھنے والے کے کام کے نہیں ہوتے اور اِس وقت بھی ایسے لاکھوں لوگ ہیں جو مطبوعہ چیزیں پڑھتے ہیں(خدا انھیں سلامت رکھے)مگر انٹرنیٹ کےدور میں سارا صارفی ارتکاز آن لائن مطالعے پر ہے۔
انٹرنیٹ کی غیر معمولی وسعت نے ایک کالم نگار کے کام کو جتنا بہتر اور نفع بخش بنایاہے،اسی قدر اس میں تکدر،ناگواری اور تناؤ کے اسباب بھی موجود ہیں۔ آپ کا تجربہ مختلف ہوسکتا ہے ،مگر میں یہ سمجھتاہوں کہ ’’ڈیجیٹل فرسٹ‘‘کے ماحول(جس میں آج کالم اور تجزیاتی مضامین لکھے جارہے ہیں)کا فیوز اتنا کمزور ہے کہ کبھی بھی آراو افکار کے بازار میں دھماکہ ہوسکتا ہے۔ سوشل میڈیا کی گندگی،آن لائن کمینٹ کی بدبو اور ٹرولز کی خباثت تو انٹرنیٹ پر معمول کی چیزیں ہیں۔ آن لائن حملوں کو ذہن میں رکھے بغیر آجکل تو لکھناہی مشکل ہے۔ میرا یہ احساس ہے کہ وہاں لوگ عوامی ڈسکورس،مخاطبہ و مباحثہ میں کم سے کم اور عوامی کشمکش ، دھکا مکی میں زیادہ حصہ لیتے ہیں۔ میرے قارئین نے زبانی طورپر ہمیشہ میری رائے کی شدت سے مخالفت کی ہے،مگر جب وہ کاغذ پر لکھ کر مجھے میل کرتے ہیں،تو میری باتوں کی تصدیق بھی کرتے ہیں۔
کسی زمانے میں محض سرخی پڑھ کر کسی کا غصے سے پھٹ پڑنا عجیب سمجھا جاتا تھا، مگر آج یہ ایک عام بات ہے۔ آج زیادہ تر قارئین کو کسی کالم میں پیش کردہ دلائل کو سمجھنے یا اس کی خصوصیات کے ادراک سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ صرف یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کسی موضوع پر ان کا پہلے سے جو خیال ہے اس کی تائید کی گئی ہے یانہیں؟وہ جس نظریے کے خلاف ہیں،اسے اچھی طرح سمجھنا نہیں چاہتے؛بلکہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ ہر حال میں اس نظریے کی ایسی تیسی کی جائے،اسے مسترد کیا جائے اور اس کا تمسخر اڑا یاجائے۔
اخبارات میں شائع ہونے والے ادارتی کالمز ٹوئٹ کی طرح نہیں ہوتے،مگر آج ہم ایک ایسے ماحول میں جی رہے ہیں،جہاں بہت سے سیاسی مباحثے،اقدامات اور پالیسی سازی مطبوعہ اخباروں کے ادارتی کالمز کی بجاے سوشل میڈیا پوسٹس کی بنیادوں پر کی جاتی ہے۔ یہ ماحول بتدریج سوشل میڈیا کے تابع ہوچکا ہے،مگر اس کے نتائج اچھے ہرگز نہیں ہیں۔ آپ کسی بھی حقیقی لکھاری،صحافی و کالم نگار سے پوچھ سکتے ہیں۔
(مضمون نگار معروف امریکی صحافی اور کالم نویس ہیں ۔ان کا یہ مضمون دی بوسٹن گلوب نامی امریکی اخبارمیں شائع ہوا ہے۔)