پرنسپل، سی ایم کالج،دربھنگہ
تقسیمِ وطن کے بعد اردو افسانوی ادب کو قدرے زیادہ فروغ ملا اور تقسیم ہند وپاک کی المناکیوں اور غمناکیوں کو موضوع بنایا جانے لگا۔ ظاہرہے کہ اس سیاسی جبرنے انسانی معاشرے کے شیرازے کو بکھیر کر رکھ دیا تھا ۔ انسانی قدروں اور جذبوںکا آئینہ ٹوٹ کر ریزہ ریزہ بکھر گیا تھا اور ہر ایک ٹکڑے میں انسانی معاشرے کی تصویر ادھوری ادھوری نظر آرہی تھی۔چوں کہ فنکار حساس ہوتا ہے اور تغیرِ زمانہ کے اثرات اس کے ذہن ودل پر عوام الناس سے زیادہ مرتسم ہوتے ہیں ۔ بالخصوص تخلیقی فنکار اپنے گرد ونواح کا عکاّس ہوتا ہے اور وہ اپنے گہرے مشاہدات وتجربات کی بنیاد پر تخلیقی عمل سے دوچار ہوتا رہتا ہے اوریہ عمل قصداً نہیں بلکہ فطری طورپر انجام پاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک تخلیقی فنکار کا فکروفن آپ بیتی نہیں رہتا بلکہ جگ بیتی بن جاتا ہے۔ لیکن اس عمل کو وہی فنکار انجام دے سکتا ہے جسے نہ صرف ہیئتی تجربے پر مہارت حاصل ہو بلکہ دنیائے فسوں میں حقیقت کے چاند ستارے ٹانکنے کاہنر بھی آتا ہو۔انجم عثمانی ایک ایسے ہی فنکار ہیں جنہیں نہ صرف افسانہ نگاری کی تکنیک پر عبور حاصل ہے بلکہ موضوعاتی تقاضوں کو پورا کرنے کا ہنر بھی انہیں خوب خوب آتا ہے ۔
ظاہر ہے کہ انجم عثمانی نصف صدی سے صنف افسانہ کے پودوں کی آبیاری اپنے خونِ جگر سے کر رہے ہیں۔ وہ دنیائے ادب میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں ۔ وہ پیشہ وارانہ طورپر دوردرشن سے وابستہ رہے ہیں اور خصوصی طورپر ادبی پروگراموں کے روحِ رواں رہے ہیں۔ ان کے چار افسانوی مجموعے ’’شب آشنا(۱۹۷۸ء)، سفر در سفر(۱۹۸۴ء)، ٹھہرے ہوئے لوگ(۱۹۹۵ء ) اور’’کہیںکچھ کھو گیا ہے (۲۰۱۱ء)‘‘۔ میری خوش قسمتی ہے کہ دو دہائیوں سے انجم عثمانی سے میرے ذاتی مراسم ہیں اور ان کے مذکورہ تمام افسانوی مجموعوں کا میں سنجیدہ قاری رہا ہوں ۔ اس تبصرہ سے قبل بھی ان کے افسانوی مجموعوں پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتا رہا ہوں ۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں کہ انجم عثمانی اپنے ہم عصروں میں اس لئے امتیازی حیثیت رکھتے ہیں کہ ان کے افسانوں کے عنوان اور پلاٹ غزلیہ شاعری کے شعر کی طرح ذہن میں جگہ بنا لیتے ہیں۔ بڑے سے بڑے پلاٹ کو بھی مختصراً پیش کرنے کا سلیقہ انجم عثمانی کا اختصاص ہے ۔ وہ دریا کو کوزے میں بندکرنے کا جادوئی ہنر رکھتے ہیں۔ جملے کی ساخت اور پھر زیریں لہروں کی طرح معنی کا اہتمام کوئی انجم عثمانی سے ہی سیکھ سکتا ہے۔
بہر کیف!اس وقت میرے پیشِ نظر ڈاکٹر عقیل احمد کی مرتبہ کتاب ’’انجم عثمانی کے افسانے اور تجزیے ‘‘ ہے ۔ یہ کتاب موضوع اور مواد دونوں اعتبار سے غیر معمولی ادبی اہمیت کی حامل ہے۔ ڈاکٹر عقیل احمد ایک سنجیدہ اورمحتاط قلم کار ہیں ۔ وہ غالب اکیڈمی ،نظام الدین نئی دہلی کے روحِ رواں ہیں ۔ کلاسیکی ادب پر ان کی گہری نظر ہے اور تحقیق وتنقید میںبھی دخل رکھتے ہیں ۔اس کتاب میں مرتب نے انجم عثمانی کے شاہکار افسانوں کا تجزیہ پیش کیا ہے اوریہ تجزیے اردو کے مختلف تخلیقی فنکاروں جن میں بیشتر افسانہ نگار ہیں ، ان کے رشحاتِ قلم کا نتیجہ ہے۔ مثلاً افسانہ ’’شہرگریاںکا مکیں‘‘ کا تجزیہ رتن سنگھ ،پروفیسر اسلم جمشید پوری ، افسانہ ’’جنگل‘‘ کا تجزیہ ڈاکٹرنگارعظیم،’’صدقہ کامشرف عالم ذوقی،’’پیربھائی‘‘ کا شوکت حیات،’’مشاعرہ جار ی ہے‘‘کا ثروت خان، ’’ایک ہاتھ کا آدمی‘‘سلیم شہزاد،’’اغوا‘‘ کا پروفیسرعلی احمد فاطمی اور ’’ورثہ ‘‘ کا پروفیسر گوپی چند نارنگ نے تجزیہ کیا ہے ۔ اس کے علاوہ بھی کئی مشہور افسانے کے تجزیے شامل ہیں۔ مرتب ڈاکٹر عقیل احمد نے اپنے پرمغز مقدمہ میں بجا لکھا ہے کہ’’ اس مجموعہ میںانجم عثمانی کی وہ کہانیاں ہیں جن سے ان کے فن کی شناخت قائم ہوئی ہے ۔ اختصار نویسی اور ایک خاص تہذیبی فضا کے درد کو بیان کرنے والے افسانہ نگار کے طورپرانہیں پہچانا گیا ، اس موضوع کونہ ان سے پہلے کسی نے اپنایا نہ بعد میں ‘‘ ۔اس میںکوئی شک نہیں کہ مختصر کہانی کے معیار ووقار کو بلند کرنے میں انجم عثمانی نے نمایاں خدمات انجام دئے ہیں ۔ پروفیسر علی احمد فاطمی نے یہ اعتراف کیا ہے کہ ’’وہ گمشدہ تہذیب کے اوراق تو پیش کرتے ہی ہیں لیکن ساتھ ہی گمشدگی کی جمالیات بھی پیش کرتے ہیں ۔ ان کا یہی وصف ہے جو انہیں ہم عصروں میں ممتاز ومنفرد کرتا ہے ‘‘ ۔ عصرِ حاضر کے قد آور فکشن نگار مشرف عالم ذوقی بھی انجم عثمانی کی اختصار نویسی کے فن کو ان کی انفرادیت قرار دیتے ہیں۔ بقول ذوقی’’ان کا کہانیوںکوٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کی ضرورت ہے کہ ان میں ایک جہانِ معنی آباد ہے ۔یہاں اختصار نویسی کا جوہر اس لئے ہے کہ ہر لفظ کے پیچھے ایک سلگتی ہوئی تاریخ کی آہ دفن ہے ‘‘۔
مختصر یہ کہ یہ کتاب انجم عثمانی کے تخلیقی جہات اور فکری ونظری کائنات کو سمجھنے کا ایک نسخۂ کیمیا ہے ۔ جن لوگوں نے انجم عثمانی کے دیگر افسانوی مجموعوں میں شامل افسانوں کو نہیں بھی پڑھا ہے تو وہ اس کتاب کی قرأت کے ذریعہ انجم عثمانی کی افسانہ نگاری کے بحر ذخار سے گوہر نایاب حاصل کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر عقیل احمد قابلِ مبارکباد ہیں کہ انہوں نے عہدِ حاضر کے ایک قد آور افسانہ نگار کے افکارونظریات کی دنیا سے جہانِ ادب کے قارئین کو روشناس کرانے کی علمی وادبی کوشش کی ہے ۔ ان کا یہ کارنامہ قابلِ ستائش ہے ۔ فیصل انٹر نیشنل سے یہ کتاب ۲۰۱۹ء میں شائع ہوئی ہے ۔ ۱۶۸؍ صفحات پر محیط اس کی قیمت ۲۰۰؍ روپے ہے ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)