ترجمہ:نایاب حسن
یونیورسٹی کی طالب علمانہ زندگی سے متعلق میری یادیں دواداروں سے وابستہ ہیں۔میری پرورش جواہر لال نہرویونیورسٹی کے احاطے میں ہوئی،جہاں میرے والد رشیدالدین خان تاسیسی اساتذہ میں سے ایک تھے۔جے این یو میں میں نے سیاسی مناقشہ و اختلافِ رائے کا کلچر دیکھا۔شام کا وقت گنگاڈھاباپر گزارتے، جہاں دوتین طلبہ کھڑے ہوکر کسی سیاسی مسئلے پر گفتگو کررہے ہوتے۔دوسراجامعہ ملیہ اسلامیہ کا ماس کمیونکیشن ریسرچ سینٹر(ایم سی آرسی)جہاں سے میں نے ماسٹرزکیا،یونیورسٹی کے دیگر حصوں سے ہمارا زیادہ رابطہ نہیں ہوتا تھا، مگر ایم سی آرسی کا اپنا سیاسی ماحول ہوتا تھا۔ہم دستاویزی فلم سازی کی ٹریننگ حاصل کر رہے تھے،جس کی وجہ سے سیاسیات سے آگاہی ہماری تعلیم کا ضروری عنصرتھا۔
اسی وجہ سے جب میں دیکھتاہوں کہ جامعہ کے طلبہ ہاتھ اٹھائے چل رہے اور یونیورسٹی کیمپس سے باہرنکالے جارہے ہیں،تویہ منظر میرے ذہن میں جم جاتاہے،میرے لیے یہ نقطہئ تحول ہے۔اگر طالب علموں کو کچھ غلط محسوس ہوتاہے اوروہ اپنا احتجاج درج کروانا چاہتے ہیں،توآپ انھیں ایسا کرنے سے روک کیسے سکتے ہیں؟سارابحث مباحثہ باہری عناصر کے بارے میں ہورہاہے،مگر ہم نے دیکھاہے کہ طلبہ کو لائبریری سے کھینچ کر پیٹاگیا،یہ میرے لیے ناقابلِ یقین تھا۔آخر ایک کے بعد دوسری یونیورسٹی(جامعہ،جے این یو اور اے ایم یو) میں ایسا کیوں ہورہاہے؟
طلبہ کسی بھی ملک کے اجتماعی شعو رکے محافظ ہوتے ہیں۔بڑے ہونے کے بعد ہمارے اندر کچھ خرابی،سستی اور مختلف معاملات کے تئیں لاپروائی آجاتی ہے، مگرملک کے طلبہ ایسے نہیں ہوتے۔ان کے پاس ایک مثالیہ ہوتاہے۔اکثر و بیشتر ہمیں اپنے بچوں سے شکایت ہوتی ہے کہ وہ غیر سیاسی ہیں،انھیں دنیاکی کوئی خبر نہیں،بس اب جبکہ وہ سیاسی حالات و تغیرات پر اپنے ردعمل کا اظہار کررہے ہیں،تو ہمیں خوش ہونا چاہیے کہ انھیں اپنے ملک کی فکر ہے۔آپ انھیں احتجاج سے کیسے روک سکتے ہیں؟آپ کو ان کے ساتھ بات کرنی چاہیے،نہ کہ انھیں مارنے اور ہاسٹلز و لائبریری کوتباہ کرنے کے لیے پولیس کوبھیجنا چاہیے۔اگر آپ طلبہ کے درمیان احتجاج کے کلچر کو ختم کردیں گے،تو یہ اس ملک کے لیے نہایت افسوسناک دن ہوگا؛کیوں کہ طلبہ ہی ملک کا مستقبل ہوتے ہیں،جامعہ سانحے میں ایسی بے شمار غلطیاں کی گئی ہیں۔
کسی بھی ملک کی عظمت اس سے عیاں ہوتی ہے کہ وہاں کی تعلیم گاہیں /یونیورسٹیزکتنی اچھی ہیں۔آج امریکہ (جوکہ بہت سی مشکلات کا جنم داتابھی ہے)کی طاقت و قوت کا ایک اہم وسیلہ وہاں کا مضبوط تعلیمی کلچر اوراس کی لیڈرزپیدا کرنے کی صلاحیت ہے۔بالکل اسی طرح ہندوستان میں بھی زیادہ ترلیڈرز،معمارانِ قوم،نظریہ ساز،مفکرین اور منتظمین جے این یو،اے ایم یواور ڈی یو کے تعلیم یافتہ ہیں۔ہمیں طلبہ پر”ٹکڑے ٹکڑے گینگ“کا لیبل لگانے یاانھیں پس دیوارِ زنداں ڈالنے کی بجاے یونیورسٹیوں کے ماحول کومزید مؤثروفعال بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
فی الوقت تو یونیورسٹیز میں ایسا ماحول ابھر رہاہے،جس میں اختلافِ رائے کی گنجایش نہیں ہے،ایسا کرنے کو ملک دشمنی سے تعبیر کیاجاتا ہے؛حالاں کہ اگر ہم اپنی حکومت سے سوال کرتے یا اس کی تنقید کرتے ہیں،تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ایک فعال جمہوریت ہے۔گزشتہ چھ سال کے عرصے میں ایسا بیانیہ تخلیق کیاگیاہے کہ حکومت ہی ملک ہے،اگر آپ حکومت سے سوال کرتے ہیں،توگویا اپنے ملک پر سوال کھڑے کررہے ہیں،یہ ایک خطرناک رجحان ہے۔ایک حکومت کبھی بھی ملک نہیں ہوسکتی،سرکاریں تو آنی جانی ہوتی ہیں۔
ہم ایک ایسی صحت مند جمہوریت میں رہتے ہیں جہاں معاشرے کے کسی بھی طبقے سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شخص کھڑاہوکر سرکارکے کسی بھی فیصلے پر وزیر اعظم،وزیر داخلہ یا کسی بھی وزیر سے سوال کرسکتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو،توپھر جمہوریت اور ڈکٹیٹرشپ میں کیا فرق رہ جائے گا؟جے این یو اور جامعہ میں مختلف پارٹیوں کے لیڈرزآکر طلبہ سے گفتگو کرتے رہتے ہیں۔اگر ایک طالب علم جو سوچتااور سمجھتاہے،اسے مضبوطی سے بیان کرنے کی اسے اجازت نہیں ہے،توپھر ہمیں یہ دعویٰ نہیں کرنا چاہیے کہ ہم ایک ڈیموکریسی میں رہتے ہیں۔
میں کبھی اپنی مسلم شناخت کے تئیں اتنازیادہ حساس نہیں رہا،جتناکہ آجکل ہوں؛کیوں کہ اس سے پہلے کبھی مجھے اس کا احساس ہی نہیں ہوا۔میریعملی زندگی میں کوئی مذہبی عنصر نہیں،میرامذہب میرے کلچر اور قومی وراثت میں پوشیدہ ہے۔جب میں اپناکام کرتا یا لوگوں سے ملتاجلتاہوں،اس دوران میری زندگی پر میری مذہبی شناخت کا عمل دخل صفر ہوتاہے،مذہب کوانسانی کی ذاتی زندگی تک محدودہونا چاہیے،مگرآج ہر چیزکومذہب کے چشمے سے دیکھاجانے لگاہے۔میری پرورش اس پختہ یقین کے ساتھ ہوئی ہے کہ ہندوستان ایک نہایت مضبوط سیکولر ملک ہے۔آج میں خود سے سوال کرتاہوں کہ کیامیں بے وقوف ہوں؟میں اس بات کونہیں مانتاکہ آج ملک میں جوکچھ ہو رہا ہے،اس کے تئیں ملک کا اکثریتی طبقہ مطمئن ہے،اگر میں ایسا ماننے لگوں،تومیراآئیڈیاآف انڈیا ہی زمیں بوس ہوجائے گا۔
ایک فلم ساز کے طورپر(حتی کہ اس وقت بھی جب میں مین سٹریم فلمیں بناتاہوں) میں مانتاہوں کہ ان فلموں کا ایک سیاسی پس منظر ہونا چاہیے،مین سٹریم سنیماایک طاقت ورمیڈیم ہے،میں گندااسکرین پلے، ایڈیٹنگ یا سنیماٹوگرافی کو برداشت کرسکتاہوں،مگر گندی سیاست کوکبھی برداشت نہیں کرسکتا۔ایک فلم ساز جو راہ بھی منتخب کرتاہے،اس کی سیاست میں اس کی عکاسی ہونی چاہیے۔یہ ایک ایسا میڈیم ہے، جس کے راستے میں ناظرین تک رسائی رکھنے والے فارمیٹ کے ذریعے اپنا اسٹیٹ مینٹ اور سوال پہنچاتا رہوں گا۔فلم بجرنگی بھائی جان میں چکن والاگانا،جسے بچے بہت پسند کرتے ہیں،نہایت ہی سیاسی ہے،اس میں بیف بین کا ایشواٹھایاگیاہے۔
ہرآدمی نہیں بولتا،ہمارے سلیبرٹیز بہت زیادہ خوف زدہ ہیں؛کیوں کہ وہ بہت کمزوربھی ہیں؛حالاں کہ ان میں سے بہتوں کا اپنا سیاسی نظریہ ہے اور وہ بعض مخصوص ایشوزپر اپنی ایک مضبوط رائے رکھتے ہیں۔بہر کیف میں ان کے بارے میں کوئی فیصلہ صادر نہیں کرسکتا اورنہ ان سے پوچھ سکتاکہ وہ کیوں نہیں بول رہے؟میں بس امید کرسکتاہوں کہ ابھی اور زیادہ لوگ بولیں گے۔مغربی ممالک کے پاس شاید کچھ ایسے حفاظتی ذرائع ہیں،جن کی وجہ سے ان کا سسٹم کام کررہاہے،مگر ہمارے یہاں کے ایسے حفاظتی ذرائع نے شاید کام کرنا بند کردیاہے۔آج ایک طاقت ورو آزادمیڈیا اس ملک میں موجودہی نہیں ہے۔ایک ہی ادارہ تھا،جو شہریوں کے لیے کھڑا رہتاتھا اور وہ میڈیا تھا،ایک ہی چیز تھی جس کی وجہ سے حکومت کسی کے ساتھ بھی غلط کرنے سے ڈرتی تھی کہ میڈیامیں اس کی خبرآجائے گی،مگر آج ہم ایسے اخبارات اور نیوزچینلس کو انگلیوں پر شمار کرسکتے ہیں،جوخود مختار ہیں۔اگرمیڈیاجوکہ معاشرے کا نگراں سمجھاجاتاہے،وہ ختم ہوجائے یا گھٹنے ٹیک دے،تویہ اس ملک کی بڑی بد قسمتی ہے۔
ایک ہی چیز بچی ہے جس کے ذریعے ہم اپنا تحفظ کرسکتے ہیں اوروہ یہ ہے کہ سول سوسائٹی بیداررہے اور بولتی رہے،چاہے گھرسے باہر سڑکوں پر نکل کراور مظاہرہ کرکے ہو،سوشل میڈیاپر اپنی آراکا اظہار کرکے ہو یا میڈیامیں اپنی بات رکھ کر ہو،طلبہ بھی اسی سول سوسائٹی کا حصہ ہیں۔ہم سب سیاسی کارکن نہیں ہوسکتے،نہ اس کی ضرورت ہے،ہمیں بس عام شہری کی حیثیت سے اپنی رائے اور خیالات کا بغیر کسی خوف کےاظہار کرنا چاہیے۔ہمیں اپنے ملک کوبچاناہے،ہماراملک کسی بھی چیز سے بڑا ہے۔
(مضمون نگار معروف فلم سازہیں اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علم رہ چکے ہیں)