اسلامی تاریخ کا بہت ہی عظیم اورمشہورکردارہےارطغرل غازی-ترکی کی خلافتِ عثمانیہ کے بانی عثمان اول کے والد محترم کا نام ارطغرل تھا۔ارطغرل کے معنی عقابی شخص یا عقابی سپاہی کے آتے ہیں 1191ءکے آس پاس ان کی ولادت ہوئی،جب کہ 1281ء ان کا سن وفات بتایاجاتاہے۔یہ ترک اوغوز کی شاخ قائی قبیلہ کے سردار سلیمان شاہ کے بیٹے تھے۔یہ انتہائی درجہ کے بہادر،نڈر،بے خوف،عقلمند،ایماندار اوربارعب سپاہی تھے۔ساری عمر سلجوقی حکومت کے وفادار رہے۔سلطان علاء الدین کیقباد نے ارطغرل غازی کی بے لوث اورجرأت مندانہ وایماندارانہ خدمات سے متأثر ہوکر ان کو”سوغوت“ اوراس کے نواح میں واقع دوسرے شہر بطور جاگیر عطاکئے،اورساتھ ہی سردار اعلیٰ کا عہدہ بھی مرحمت کیا۔ارطغرل غازی کی سیاسی سوجھ بوجھ اورفطری بہادری نے تمام ترک قبائل کو ان کاگرویدہ بنادیا،اور تمام ترک قبائل ان کے ماتحت آگئے۔ان کی زندگی کے آخری ایام میں سلجوقی سلطنت بہت کمزور ہوگئی تھی جب کہ پورے اناطولیہ (موجودہ ترکی) پر منگول قابض ہوچکے تھے۔ان حالات سے وہ بہت پریشان تھے اورچاہتے تھے کہ ایک عظیم اسلامی سلطنت کا قیام عمل میں آناچاہیے۔ان کی اس خواہش کو ان کے چھوٹے بیٹے عثمان اول نے پوراکیا اورایک عظیم الشان سلطنت،سلطنتِ عثمانیہ کی بنیاد رکھی۔ارطغرل غازی زندگی بھر اسلام کی سربلندی کی خاطر باطل طاقتوں سے نبرآزما رہے وہ اپنے زمانے میں صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی نظیرتھے۔
آج کل نوجوانوں میں مقبول اورچرچوں میں رہنے والا مشہور ترکی ڈرامہ ”ارطغرل غازی“ اِنہی ارطغرل غازی کی عقابی شخصیت کو سامنے رکھ کر فلمایاگیا ہے۔یہ ڈرامہ ترکی حکومت کی سربراہی میں تیارکیاگیا ہے۔اس ڈرامے کی دوسوسے زیادہ قسطیں ہیں اورمسلسل کئی برسوں سے یہ جاری ہے۔عوام و خواص دونوں طبقوں میں اس ڈرامہ کو یکساں مقبولیت حاصل ہے۔افسوس یہ ہے کہ بعض نوجوان علما و فضلا کو بھی اس کے دیکھنے کا ایسا شوق ہواکہ وہ نہ صرف اس کی تائید کررہے ہیں بلکہ آگے بڑھ کر اس کے فضائل ومناقب بھی بیان کررہے ہیں،اورجو علمااس کے خلاف بات کررہے ہیں انہیں قدامت پرستی کا طعنہ دے رہے ہیں۔حالاں کہ یہ ڈرامہ کئی طرح کی خرابیوں کا مجموعہ ہے۔غورکرنے سے یہ خرابیاں ہر ذی شعور کے سامنے ظاہرہوجائیں گی۔
اس ڈرامے کی پہلی خرابی یہ ہے کہ اس میں تاریخی سچائی سے انحراف کیا گیا ہے۔کیوں کہ غازی ارطغرل کی مستند تاریخ محفوظ نہیں ہے۔دوسری خرابی یہ ہے کہ اس میں حسین عورتوں کا کردار بھی شامل کیا گیا ہے۔ظاہر ہے یہ عورتیں دیکھنے والوں کے لئے نامحرم ہیں لہذا! اِن کو دیکھنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہوگا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نامحرم عورتوں کو دیکھنا آنکھ کا زنا قراردیا ہے۔نامحرم خواتین پر نظرڈالنا ایسا گناہ ہے جو بھیانک گناہوں تک لے جاتاہے۔
اس ڈرامے کی تیسری خرابی یہ بھی ہے کہ اس میں عشق و معاشقہ کے مناظر پیش کئے گئے ہیں۔سب جانتے ہیں کہ اس طرح کے مناظر معاشرہ کے لئے اوربالخصوص نوجوان نسل کے لئے کس قدر مہلک اوراخلاق سوز ثابت ہوتے ہیں۔علما نے لکھا ہے کہ فحش ناول یا جرائم پیشہ لوگوں کے حالات پر مشتمل قصے یا فحش اشعار لہوِ حرام میں داخل ہیں۔
پانچویں خرابی جو اظہرمن الشمس ہے،یہ ہے کہ یہ سراسر لایعنی اورعبث چیز ہے۔اس سے نہ دینی فائدہ ہے اورنہ دنیوی فائدہ .محض تضییع اوقات ہے۔اس طرح کی چیزیں روحانیت کے لئے بہت نقصان دہ ہوتی ہیں۔
اس ڈرامے کی چھٹی خرابی یہ ہے کہ اس میں تصویر یں ہیں جب کہ تصویر کا حرام ہونا ہرزمانہ میں تمام علماکے نزدیک مسلم رہاہے۔تصویر کے سلسلے میں علما کا شدت پسند رویہ اس حدیث کی بنیاد پر ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن سب سے سخت عذاب تصویر بنانے والوں کو ہوگا۔
یہ ساری خرابیاں اورکئی قسم کے گناہ ”ارطغرل“ڈرامے میں جمع ہیں یہی وجہ ہے کہ تمام دارالافتاؤں نے ”ارطغرل“ ڈرامے کو دیکھنا حرام قراردیا ہے۔
جو لوگ اس کو یکھنے کے جواز پر اصرار کررہے ہیں یقینا ان کا یہ نظریہ غلط اورراہِ راست سے ہٹاہواہے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس کو دیکھنے سے انقلابی کیفیت اوربہادرانہ عزائم پیداہوتے ہیں تو میں اِن لوگوں سے کہوں گا کہ اگر وہ یہ صفات پیداکرناچاہتے ہیں تو انہیں قرآن و حدیث اورسیرتِ رسول وسیرت صحابہ سے وابستہ ہونا چاہیے۔اس سے صالح انقلاب کے جذبات بھی پیدا ہوں گے اوراخلاق وکردار میں پاکیزگی اوربلندی بھی آئے گی۔
ہماری اس تحریر کی تائید دارالعلوم دیوبند کے فتویٰ سے بھی ہوتی ہے۔اس لئے اس سلسلے میں دارالعلوم دیوبند سے صادر ہونے والا فتویٰ پیش کیا جارہاہے۔طوالت کے خوف سے صرف جواب پر اکتفا کیا جارہاہے.!
الجواب
Fatwa : 172-30T/D=03/1441
سیریل یا فلم کیسی بھی ہو اس میں کم از کم تین خرابیاں ، یعنی ویڈیو گرافی، رقص وموسیقی اور اجنبی عورتوں کی موجودگی ضرور پائی جاتی ہیں اور یہ تینوں امور ناجائز ہیں، چنانچہ تصویر کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ تصویر بنانے والوں کو قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا، ان سے کہا جائے گا کہ جو تم نے بنایا ہے اس کو زندہ کرو! (بخاری، اللباس ، عذاب المصورین، رقم: ۵۹۵۰) اور میوزک کے بارے میں آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اللہ نے مجھے تمام جہانوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا، اور لہو و لعب اور گانے بجانے کے آلات کو ختم کرنے کا حکم دیا، (مشکاة ، حدود ، بیان خمر، فصل ثالث: ۳۶۵۴) اور بے پردہ اجنبی عورتوں کی موجودگی میں جو قباحت ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ پھر وہ فلمیں جن میں سلاطین اسلام کی تاریخ بیان کی جاتی ہے ان میں ایک مزید خرابی یہ ہے کہ لوگ ایسی فلمیں دیکھنے کو گناہ ہی نہیں سمجھتے، یا ہلکا سمجھتے ہیں، اور گناہ کو ہلکا سمجھنا یا گناہ ہی نہ سمجھنا زیادہ خطرناک گناہ ہے۔ اور سلسلہ وار فلموں کے دیکھنے کی لوگوں کو جو لت لگتی ہے اس میں ضیاع وقت، نمازوں کا چھوٹنا ، اور دیگر ضروری کاموں سے غفلت ، مذکورہ بالا خرابیوں پر مستزاد ہیں۔ جب کہ یہ بات معلوم ہے کہ کوئی جائز کھیل تماشہ بھی اگر فرائض و واجبات میں کوتاہی کا سبب بننے لگے تو وہ ناجائز ہو جاتا ہے ۔ اس طرح کی تاریخی فلموں میں ایک خرابی یہ ہوتی ہے کہ بہت سارے واقعات محض فرضی یا مبالغہ آمیزی پر مبنی ہوتے ہیں۔ جس میں کذب و افتراء اور غیبت تک کی نوبت آجاتی ہے۔
مختصرا یہ کہ سوال میں مذکورہ نوعیت کے سیریل، تصویر کشی، موسیقی، بے پردہ اجنبی عورتوں کی موجودگی، کی وجہ سے ناجائز ہیں، اور گناہ کو ہلکا سمجھنے ، فرائض و واجبات میں غفلت اور دوسری خرابیوں کی وجہ سے اس حرمت میں اور شناعت آجاتی ہے۔ آپ نے اچھا کیا کہ یہ سیریل نہیں دیکھا۔
آپ کی آخری بات کے سلسلے میں گزراش ہے کہ مذکورہ سیریل فحش فلموں سے بچنے کا حل نہیں ہیں، اس لئے کہ یہ سیریل خود ناجائز ہیں، گویا دونوں زہر ہیں کوئی ہلکا کوئی تیز۔ لہٰذا ضروری ہے کہ دونوں سے بچنے کی فکر کی جائے۔ اور یہ انسان کے اپنے ارادے اور عادت بنانے پر مبنی ہے۔ اس کے لئے ناجائز چیزیں اختیار کرنے کی ضرورت نہیں؛ بلکہ مباح ذرائع اختیار کیے جاسکتے ہیں، مثلاً: قرآن کریم کی تلاوت اور اس کے معانی اور تفسیر، اچھے بامعنی اشعار اور نعتیہ کلام سننا مجاہدین اور اولیاء اللہ کے حیرات انگیز واقعات کو پڑھنا، سننا اپنایا جاسکتا ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،دارلعلوم دیوبند
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)