ڈاکٹر مشتاق احمد
پرنسپل، سی ایم کالج، دربھنگہ
موبائل:9431414586
ای میل:[email protected]
آزادیئ وطن کے بعد جن قلم کاروں نے اردو زبان وادب کے پودوں کی آبیاری اپنے خونِ جگر سے کرنے کا عہد کیا اور تمام عمر اپنے اس عہدِ ابدی پر قائم ودائم رہے ان میں ابو اجمل محمد طارق جمیلی (یکم اکتوبر ۳۳۹۱ء۔۳/ اپریل۹۱۰۲ء)کی شخصیت امتیازی حیثیت کی حامل ہے۔ پروفیسر طارق جمیلی کا آبائی وطن ضلع مظفرپور تھا لیکن ان کی شناخت کا ضامن ان کی جائے عمل پورنیہ بنی۔ وہ ۹۵۹۱ء سے اپنی آخری سانس تک پورنیہ کے ہو کر ہی رہے۔واضح ہو کہ پروفیسر طارق جمیلی کا گھرانہ علمی وادبی تھا۔ ان کا آبائی وطن مہرتھا، ضلع مظفرپور تھا، ان کے والد محمد جمیل اپنے وقت کے مشہور ومعروف وکیل تھے۔ شعروشاعری کا چسکہ انہیں بچپن سے ہی لگ گیا تھا کہ ان کے گھر کا ماحول ادبی تھااور شعر وشاعری کی محفلیں منعقد ہوتی رہتی تھیں۔اپنی طالب علمی کے زمانے میں پٹنہ یونیورسٹی کے ادبی وعلمی ماحول میں پروان چڑھے اور جب ملازمت درکار ہوئی تو پورنیہ کا رخ کیا۔ صوبہئ بہار میں پورنیہ کو ایک غیر معمولی تہذیبی وعلمی خطہ کی حیثیت حاصل ہے۔ عہدِ مغلیہ اور پھر عہدِ برطانیہ کی حکومت میں بھی پورنیہ علم وادب کا مرکز رہا ہے۔ شیخ کفایت اللہ کی تصنیف ”ودیادھر“ (۸۲۷۱ء)کے مطالعے سے نہ صرف پورنیہ کا ادبی بلکہ اس علاقے کی تہذیبی وتمدنی زرخیزی کابھی علم ہوتا ہے۔ مجھے یاد آرہا ہے کہ مولانا اکمل یزدانی نے اردو رسالہ ”انسان“ کا ایک خصوصی شمارہ شائع کیا تھا جس میں پورنیہ، کشن گنج اور گردو نواح کی علمی وادبی شخصیات کا بھرپورتعارف اور تھا ساتھ ہی ساتھ اس علاقے کی علمی وادبی سرگرمیوں کا دستاویز موجود تھا۔
جہاں تک پروفیسر طارق جمیلی کی ادبی اور علمی خدمات بالخصوص اردو زبان کے فروغ کے لئے جد وجہدکا سوال ہے تو وہ ایک تاریخی کردار کے حامل ہیں۔ انہوں نے نہ صرف اردو کے استاد کی حیثیت سے درس وتدریس کے فرائض انجام دئے بلکہ پورنیہ میں اردو تحریک کو استحکام بخشا۔ واضح ہو کہ ۰۶۹۱ء میں پورنیہ کالج، پورنیہ سیمانچل کا ایک اہم علمی وادبی ادارہ تھا۔ اردو کے نامور افسانہ نگار کلام حیدری اور فضلِ امام جیسے جےّد عالم پورنیہ کالج پورنیہ میں بہ حیثیت اردو استاد مامور تھے۔پروفیسر کلام حیدری کی جگہ پر ہی پروفیسر طارق جمیلی بحال ہوئے تھے کہ کلام حیدری نے اپنے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔وفا ملک پوری کی موجودگی نے پورے سیمانچل کو شعری فضا سے ہم کنار کردیا تھا۔
قصہ مختصر یہ کہ ۰۶۹۱ کی دہائی میں جب اردو زبان وادب دورِ تغےّر سے ہمکنار تھا کہ ترقی پسند تحریک کا زور کم ہو رہا تھا اور جدیدیت کا چراغ روشن ہو رہا تھا اس دور میں پروفیسر طارق جمیلی نہ صرف ترقی پسندیت کے علمبردار رہے بلکہ پورنیہ کو ترقی پسندوں کا ایک گہوارہ بنا دیا۔انہوں نے ۰۶۹۱ء میں ”پورنیہ اردو سوسائٹی“ کی داغ بیل ڈالی اور اس سوسائٹی کے ذریعہ پورنیہ شہر اور گردو نواح میں اردو زبا ن کی ترقی کے لئے جس خلوص کے ساتھ عملی کوششیں کیں اس نے انہیں نہ صرف اس علاقے میں قبولیت بخشی بلکہ اردو کا سپہ سالار بنا دیا۔
پروفیسر جمیلی اردو زبان وادب کے فروغ کے تئیں خود کو وقف کرچکے تھے۔ تخلیقی اور تحریکی دونوں سطحوں پر وہ مسلسل فعّال ومتحرک رہے اور نہ خود تصنیف وتالیف کے تئیں سنجیدہ رہے بلکہ اپنے ہم عصروں اور بالخصوص نئی نسل کے قلم کاروں کو اردو شاعری، افسانہ نگاری، تنقید وتحقیق کی طرف راغب کرتے رہے۔ آج پورنیہ اور اطراف میں درجنوں ایسے نامور قلم کار ہیں جوپروفیسر طارق جمیلی کے پروردہ ہیں۔ میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے پروفیسر طارق جمیلی سے بارہا ملنے کا موقع ملا اور ان کی علمی وادبی سنجیدہ گفتگو سے مستفیض بھی ہوا۔ یوں تو اپنی طالب علمی کے زمانہ سے ہی ان سے متعارف تھا کہ ہمارے استادِ محترم پروفیسر اخترالحسن مرحوم ان کا خوب خوب تذکرہ کرتے تھے۔ پورنیہ اور کشن گنج کاجب کبھی ذکر آتا تو پروفیسر طارق جمیلی، پروفیسر احمد دانش اور پروفیسر محمد عثمان کا نام ضرورلیتے اور ان سبھوں کی خدمات پر بھی روشنی ڈالتے۔ تصنیف وتالیف کے شعبے میں پروفیسر طارق جمیلی اور احمد دانش نے شہر پورنیہ کو قومی سطح پر ایک نئی شناخت دی۔ بعد کے دنوں میں نئی نسل کے قلم کاروں نے سیمانچل کی پہچان کو استحکام بخشا۔
پروفیسر طارق جمیلی کی شخصیت ہمہ جہت تھی۔ وہ بہ یک وقت شاعر، افسانہ نگار، انشائیہ نگار، ڈرامہ نگار، محقق، ناقد اور سماجی مصلح بھی تھے۔ ان کی تصانیف میں ”شکست کی آواز“ (ڈرامہ۔۰۸۹۱ء)، ”آگ اور پانی“(۰۸۹۱ء)، ”آزاد شرارے“ (انشائیوں کا مجموعہ۔۷۸۹۱ء) افسانوی مجموعہ ”قلم جاگ رہاہے“(۷۰۰۲ء)ان کی تحقیقی وتنقیدی کتاب ”عرش گیاوی: حیات وخدمات“(۹۰۰۲ء)، شعری مجموعہ ”جذبِ دروں“ (۹۰۰۲ء) قابلِ ذکر ہیں۔ ویسے ایک طویل نظم ”پورنیہ“ ۵۸۹۱ء میں شائع ہوئی تھی جس کو قومی سطح پر پذیرائی ملی تھی۔وہ ایک مہذب انسان تھے اور مذہب کے تئیں کشادہ ذہن رکھتے تھے۔انہوں نے سورہ یسٰین کا ترجمہ کیا تھا جو کتابی صورت میں ۹۰۰۲ء میں شائع ہوا تھا۔ اس کے علاوہ مختلف موضوعات پر ان کے مضامین اور تاثرات شائع ہوتے رہتے تھے۔ سیمانچل کے ادبی اور علمی جلسوں کی وہ جان تھے اور جس جلسے میں وہ موجود ہوتے اس جلسے کا وقار بڑھ جاتا تھا۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ۵۱۰۲ء میں سرسید احمد خاں پر جناب امام برادرس نے اپنے کالج میں دو روز ہ قومی سمینار کا انعقاد کیا تھا۔ راقم الحروف بھی شامل تھا۔ اس سمینار کے اختتامیہ جلسے میں پروفیسر طارق جمیلی نے سرسید احمد خاں کی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ اگر سرسید تحریک جنم نہیں لیتی تو شاید ہندوستان کا مسلمان عصری تعلیم سے اب تک نابلد ہوتا۔ انہوں نے سرسید کی زندگی اور ان کی خدمات کے بہت سے ایسے تاریک گوشوں پر روشنی ڈالی جو اب تک پردہئ ُخفا میں تھے۔
غرض کہ ادب اور زندگی دونوں کے تئیں ان کا ایک واضح اور صحت مند نظریہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جس علمی وادبی جلسوں میں جاتے سامعین ان کی تعمیری فکر ونظر سے نہ صرف استفادہ کرتے بلکہ ان کی دانشوری کے قائل بھی ہو جاتے۔ان کی کئی کتابیں بہار کی مختلف یونیورسٹیوں کے نصاب میں داخل ہیں۔بالخصوص ان کا ڈرامہ ”شکست کی آواز“،”آگ اور پانی“ کو علمی وادبی حلقے میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی اور اسے کئی جگہوں پر اسٹیج بھی کیا گیا تھا بلکہ اس ڈرامے کے ہدایت کار کے طورپر بھی پروفیسر طارق جمیلی کو کافی شہرت ملی تھی۔ مگر افسوس کہ اردو ادب کی تاریخ میں انہیں وہ مرتبہ نہیں دیا گیا جس کے وہ حقدار تھے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ نئی نسل ان کے ادبی اورعلمی کارناموں پر اپنے قلم کو جنبش دے اور ایماندارانہ تجزیہ پیش کرے کہ پروفیسر طارق جمیلی کے ساتھ انصاف ہو سکے۔ مجھے خوشی ہے کہ ان کے انتقال کے بعد فوراً پورنیہ میں ان کی شخصیت اور خدمات پر ایک قومی سمینار کا انعقاد ہوا ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا کہ پروفیسر طارق جمیلی نے سیمانچل میں اردو زبان وادب کے فروغ کے لئے جو مخلصانہ خدمات انجام دی ہیں وہ ایک مثالی کارنامہ ہے۔مجھے ان کا ایک شعر یاد آر ہا ہے اسی پر اپنی گفتگو ختم کرنے کی اجازت چاہتا ہوں:اک چہرہ ہوں میں بھی مجھے اس کی نہ خبر تھی
آئینہ دیا جس نے مرے ہاتھو وہ تم ہو
Tag: