میں نے آن لائن تدریس کا آغاز سولہ سال پہلے سنہ 2004
میں کیا تھا۔ اُس زمانے میں یاہو میسنجر کے ذریعے تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا، بھارت میں اس وقت یاہو میسنجر نوجوان لڑکے لڑکیوں میں گپ شپ کرنے کے لیے جانا جاتا تھا۔ انٹرنیٹ شہروں میں بھی سست ہوا کرتا تھا، اس لیے یہ "شب گزار لوگ” لکھ کر ہی کام چلاتے تھے۔ امریکہ میں براڈ بینڈ سروس متعارف ہو چکی تھی، اس لیے میسنجر کی آڈیو سروس سے کام چل جایا کرتا تھا۔ 2003 میں اسکائپ متعارف ہوچکا تھا، جب ہم اس سے متعارف ہوے تو ہم نے میسنجر کو چھوڑ کر اسکائپ کو اپنا لیا۔ اس میں ویڈیو کی بھی عمدہ سہولت تھی۔ لیکن ایک آن لائن درس گاہ کے لیے جو لوازمات درکار تھے وہ دستیاب نہ تھے، یہاں تک کہ دوہزار نو میں ایک خطیر رقم خرچ کرکے دہلی کی ایک آئی ٹی کمپنی سے اپنا ایک سافٹ ویئر تیار کرایا جس میں وہ تمام لوازمات جیسے وائٹ بورڈ، اسکرین شیرنگ اور کلاس ریکارڈنگ وغیرہ تمام سہولیات تھیں، لیکن بھارتی کمپنیوں کے مشہور زمانہ غیر پیشہ ورانہ رویوں کی وجہ سے سالانہ اس سافٹ ویئر کو چلانے پر بڑی رقم خرچ کرنے کے باوجود میں زیادہ عرصہ تک اس کو باقی نہ رکھ سکا، یہاں تک کہ دو ہزار گیارہ میں "وِز آئی کیو” نامی ایک آن لائن تعلیمی سافٹ ویئر متعارف ہوا اور میں نے اس کا استعمال گزشتہ سال تک کیا۔ اب زوم، اسٹریم یارڈ اور گوگل میٹ کا دور چل رہا ہے اور ہم بھی زمانے کے ساتھ بدل رہے ہیں، لیکن ہمارے لیے یہ تبدیلی ممکن بھی ہے اور نسبتا آسان بھی۔
یہ پوری کہانی اس لیے لکھی تاکہ قارئین کو میرے سولہ سالہ آن لائین تدریسی تجربہ کا اندازہ ہوسکے۔ اپنے اس تجربے کی روشنی میں کہہ سکتا ہوں کہ مدارس کے نصاب کی آن لائن تدریس ان علاقوں میں جہاں مدارس نہیں ہیں یا ان افراد کے لیے جن کا اپنی گھریلو ذمےداریوں کی وجہ سے مدارس میں داخلہ لینا تقریبا ناممکن ہے، مناسب ہی نہیں بلکہ وقت کا تقاضہ ہے۔ اسی طرح آج کے دور میں مدارس کے طلباء کی ایک بڑی تعداد کرونا کی وجہ سے اپنے گھروں پر فارغ بیٹھی ہے، اگر ان طلبہ کے لیے قلیل مدتی علمی فکری اور لسانی کورسز کی آن لائن تعلیم کا انتظام ہو جائے تو یہ ان کے وقت کا بہترین استعمال ہوگا، یا چھوٹے مدارس عارضی طور پر اپنے مدرسین وطلبہ کی خاطر اگر آن لائن تعلیم کا آغاز کردیں تو بھی درست ہے، لیکن کچھ حلقوں کی طرف سے یہ بات شدت کے ساتھ دہرائی جا رہی ہے کہ بڑے مدارس میں بھی آن لائن تعلیم کا آغاز کر دینا چاہیے۔ ایک صاحب صاحب ٹی وی ڈبیٹ میں یہ کہتے ہوے بھی پائے گئے کہ ایک زمانے میں مذہبی طبقے نے پرنٹنگ پریس کی مخالفت کی تھی تو دیکھو آج ہم دوسروں کے مقابلے میں ترقی کے میدان میں کتنے پیچھے رہ گئے ہیں۔ ان کے مطابق آج اگر ہم نے آن لائن تدریس کا منہج اختیار نہیں کیا تو ہم دوسروں کے مقابلے میں پھر پیچھے رہ جائیں گے۔
بھارت میں جہاں آج بھی بیشتر علاقوں میں انٹرنیٹ کی اچھی سہولت موجود نہیں ہے اور اگر ہے تو ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد بھی ہے جو اپنی مالی حیثیت کی بنا پر اسمارٹ فون نہیں رکھ سکتی، یہ وہ ملک ہے جہاں لائٹ بھی لگژری اشیاء میں شامل ہے، انٹرنیٹ تو بعد کی چیز ہے۔ پچھلے ماہ گجرات کے ایک بڑے مدرسے کے استاذ نے مجھ سے رابطہ کیا تاکہ ان پریشانیوں کا تکنیکی حل نکالا جا سکے۔ لیکن خراب انفراسٹرکچر کی وجہ سے کسی بھی طرح کا حل بھارت جیسے پچھڑے ہوئے ملک میں ممکن نہیں ہے۔ نیز تعلیم کا اگر کوئی حل نکل بھی گیا تو تربیت کا حل کیسے نکلے گا۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہمارے مدارس ہمارا شعار ہیں اور دشمن کے لیے آنکھ کا شہتیر۔ ان کی دیرینہ تمنا ہے کہ مدارس کل کے بجائے آج بند ہو جائیں۔ جس ملک میں تبلیغی جماعت کے اجتماعات سے کرو نا پھیلتا ہو، لیکن سپریم کورٹ کے حکم سے جگنناتھ یاترا میں کرونا کو داخلے کی اجازت نہ ہو، جہاں عید کی نماز سے کورونا کے انتشار کا سخت خطرہ ہو، لیکن شہید بابری مسجد کی مقبوضہ زمین پر مندر کی سنگ بنیاد کے موقع پر این ایس جی اور بلیک کمانڈوز کی سخت سکیورٹی کی وجہ سے کورونا کو داخلے کی اجازت نہ ہو، ایسا ملک جہاں ایک تعداد کورونا کے علاج کے طور پر تھالی نہ پیٹنے والوں کو غدار وطن کہتی ہو، ایسے ملک میں مدارس ہی امت مسلمہ کے تشخص کا أخری سہارا ہیں۔ اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ مہینے دو مہینے میں تمام مدارس حسب سابق کھل جائیں گے اور اسلام کے ان قلعوں میں وہی ایمانی ہوائیں پھر چلنے لگیں گی، جو چند ماہ پہلے تک چل رہیں تھی، تو آپ خواب غفلت میں ہیں۔ ایسی صورت حال میں آن لائن تدریس کا آغاز دراصل تعلی پسندی کا شکار قوم کو یہ کہنے کا موقع دے گا کہ جب آپ کے یہاں تعلیم جاری ہے تو پھر آپ مدارس کو دوبارہ کھلوا کر، کورونا کیوں پھیلانا چاہتے ہیں۔ اس لیے بڑے مدارس اس طریقہ کار کو اختیار کیے بغیر ہی مستقبل میں تعلیم کا حسب سابق آغاز کرنے کے لیے دباؤ بنانے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ ویسے بھی حالات پر نظر رکھنے والے کھل کر نہ سہی لیکن نجی مجلسوں میں یہ کہنے لگے ہیں کہ مدارس کا پچھلی حالت پر لوٹنا اب بہت مشکل ہے۔ کورونا ضرور موجود ہے، لیکن کورونا کی أڑ میں "چانکیہ نیتیوں” کی ہولناکی کسی وبا سے کم نہیں ہے اور اصل مسئلہ یہ ہے کہ "قضية ولا أبا حسن لها”، پیچیدہ معاملہ درپیش ہے لیکن اس کو حل کرنے کے لیے کوئی علی رضی اللہ عنہ جیسا زیرک اور قائد موجود نہیں ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)