شمیم اکرم رحمانی
شہریت ترمیمی بل نہ صرف لوک سبھا اور راجیہ سبھا دونوں ایوانوں سے منظورہوچکا ہے بلکہ مکمل قانون کی شکل اختیار کرچکاہے مورخہ 13دسمبر 2019 کو صدرجمہوریہ نے بھی حسب توقع اس متنازع اور مسلم کش بل کو منظوری دےکر اس کی قانونی حیثیت پر مہر ثبت کردی ہے جو اس بات کی طرف بہت واضح اشارہ ہے کہ مسلمانان ہند کے خلاف مٹھی بھر شرپسند عناصر منظم ہیں اور سب کچھ کرگزرنے کا غلط جذبہ رکھتےہیں یہ بل چونکہ ہندوستانی ثقافت پر اب تک کا سب سے بڑا حملہ ہے اسلئے ہندوستان چیخ رہاہے پتہ پتہ بوٹا بوٹا ماتم کناں ہے لوگوں گھروں سے نکل چکے ہیں اور ملک سراپا احتجاج بنا ہواہے خاص طور پر مسلمانوں میں چینی کی کیفیت صاف محسوس کی جارہی ہے بچہ بچہ بل کی سنگینی کااحساس کررہاہے اور سوچ رہا ہے کہ پتہ نہیں آنے والے ایام کتنے خطرناک ہونگے اور انہیں مسلمان ہونے کے جرم میں کس قدر اذیتوں کاسامناکرناہوگا ؟
مدارس کے بجائے یونیورسٹیوں کے طلبا نے اس لڑائی کو ایک تحریک کی شکل دے دی ہے خاص طور پر جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طلبا نے سب کچھ کرگزرنے کی قسم کھارکھی ہے ان کے عزائم بہت بلند ہیں اتنے بلند کہ انہیں الفاظ کے ذریعے بیان نہیں کئے جاسکتے نونہالان ملت کے جذبے کو دیکھ کر سینہ فخر سے بلند ہوجاتاہے وہ سب کے سب اقبال حقیقی شاہیں ہیں جن میں عقابی روح کی کارفرمائی صاف دیکھی جاسکتی ہے:
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظرآتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
اقبال
دوسری طرف فرقہ پرستوں میں خوشی کا ماحول ہے اسلئے کہ ان کی سوسالہ جدوجہدبظاہر کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہوئی نظرآرہی ہے وہ پوری قوت کے ساتھ اس معاملہ کو ہندومسلم بناکرپیش کرناچاہتےہیں اور اس کے لیے سرعام جھوٹ فریب عیاری اور دھوکہ دہی کا سہارا لے رہے ہیں لیکن خوش کن بات یہ ہے کہ غیر مسلموں کی بڑی تعداد فرقہ پرستوں کے کھیل کو سمجھ رہی ہے اسی لئے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کے ساتھ مل کر وہ بھی احتجاجی مظاہرے کا حصہ بن رہے ہیں آسام اور تریپورہ کے بعد مغربی بنگال کیرل بہار جیسی مزید کچھ ریاستوں میں زبردست بلکہ پرتشدد مظاہرے ہوئے ہیں جس کا سلسلہ ہنوز جاری جاری ہے احتجاجی مظاہرے اس قدر شدید ہورہے ہی کہ پولس آنسو گیس چھوڑرہی ہے اور حق کےلئے لڑنے والوں پر لاٹھیاں برسارہی ہیں کچھ جگہوں سے گولی چلنے کی بھی اطلاعات موصول ہوئی ہیں انٹرنیٹ سروسزکا بند کرنا توعام سی بات ہے چھ ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے شہریت ترمیمی بل کے سلسلے میں صاف صاف کہا ہے کہ یہ متنازعہ بل ان کی ریاستوں میں نافذ نہیں ہوسکےگا جو اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ یہ لڑائی ہند بنام مسلم کے بجائے انصاف بنام ناانصافی ہے چونکہ یہ بل دستورِ ہند کے ساتھ ساتھ مسلم مخالف بھی ہے اس لئے مسلمانوں میں ناراضگی فطری طور پر زیادہ ہے لیکن طاہرہے کہ اگر یہ احتجاجات بل کی واپسی کے لئے موثر نہ ہونے تو آنے والے ایام ملک کے حق میں بڑے مضرت رساں ثابت ہونگے اسلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ جلد از جلد ان احتجاجات کوموثربنانے کی فکر کی جائے میرے خیال سے تین کام فوری طور پرذمہ داروں کوکرناچاہیےـ
1- احتجاجی مظاہرے کے سلسلے جاری رہیں احتجاج کے شرکا ایسے نعروں سے ہرممکن اجتناب کریں جس سے فرقہ پرستوں کو فائدہ اٹھانے کا موقع ملے ذمہ داروں کی کوشش یہ ہو کہ یہ منتشر قوتیں کسی طرح ایک ہوجائیں تاکہ اجتماعیت میں مزید قوت پیدا ہوسکے اس دوران جتنے وزراء اعلیٰ اور ایم پی اس بل کے خلاف ہیں ان سے مسلم قیادتیں ملاقات کریں اور انہیں ساتھ لےکر کوئی لائحہ عمل طے کریں ان سے چوکنا رہتے ہوئے ان کی مدد لیں تاکہ تحریک کو سیاسی پشت پناہی حاصل ہوسکےـ
2_احتجاج کے دوران زخمی ہونے والوں کی ہرممکن دادرسی کی جائے اور ان کے علاج و معالجہ میں چھوٹی بڑی مسلم تنظیمیں اپناکردار اداکریں خاص طور پر احتجاج میں شامل ہونے والے نوجوان طلبہ کے ساتھ ہرطرح کا تعاون کریں اور چونکہ وقت بہت زیادہ نازک ہے اسلئے کریڈٹ کےلئے بیان بازیوں سے اجتناب کریں ـ
3_عام مسلمان جو احتجاجات میں کسی وجہ سے شامل نہیں ہوسکتے ہیں وہ اللہ کی طرف رجوع کریں نمازوں اور دوسری عبادتوں کااہتمام کریں اور چوکنا رہیں
ہم مذکورہ مشوروں پر عمل کرکے ان احتجاجی مظاہروں کو کامیاب بناسکتے ہیں اور بہتر نتائج حاصل کرسکتےہیں خداکرے کہ یہ احتجاجات بہترانقلاب کا پیش خیمہ ہو:
نجاتِ دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلےچلوکہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
فیض احمد فیض