نئی دہلی:یوپی کے گینگ ریپ کے مبینہ کیس میں لاء (قانون) کے 510 طلبہ نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ایس اے بوبڑے کو خط لکھا ہے۔ قانون کے طلبہ نے سپریم کورٹ سے معاملے میں مداخلت کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے مجرم افسران کے خلاف کاروائی کی اپیل کی ہے۔ نوئیڈا کے دو قانون کے طلبہ نے اس خط پر دستخط کئے ہیں۔ مختلف یونیورسٹیوں اور کالجوں کے لاء طلباء کا نام درج ہے۔ خاص طور پر رات گئے متاثرہ بچی کی لاش کوجلانے پر طلبہ نے اعتراض کیا ہے۔خط میں لکھا گیا ہے کہ انسانی بنیادوں پر حکومت ہند نے حکومت پاکستان سے ایک دہشت گرد اجمل قصاب کی لاش لے جانے کی درخواست کی، یہ الگ بات ہے کہ حکومت پاکستان نے اسے قبول نہیں کیالیکن ہاتھرس میں یہ انسانیت پسندی اس خاندان کے ساتھ نہیں دکھائی گئی جس نے پوری زندگی ہندوستان میں بسر کی۔ وہ گھریلو لڑکی جس نے انتہائی گھناؤنے جرم میں اپنی جان گنوا دی۔اس خط میں مزید لکھا گیا ہے کہ پولیس نے مبینہ طور پر ایک بیان دیا ہے کہ فیملی سے مردہ بچی کی لاش کو جلا دینے کی اجازت لی گئی تھی، جبکہ متعدد مواقع پر متاثرہ کے اہل خانہ نے کہاہے کہ آخری رسومات ان کی مرضی کے خلاف انجام دی گئیں۔ پولیس کے پاس اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے ایسے دستاویزات موجود نہیں ہیں۔
گینگ ریپ
(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
ہاتھرس گینگ ریپ اور یوگی و مودی سرکار کی بے حسی کا ایک تجزیہ
یہ نیو انڈیا ہے !
ریپ، گینگ ریپ یہاں جائز ہے ۔ یہاں لوگ، اعلیٰ ذات والے شدت پسند ، زعفرانی رنگ والے ہندوتوادی ، خاکی وردی پوش درندے ، یہ سب ہی اقلیتوں، پچھڑوں پر ظلم کرنے کے لیے آزاد ہیں ۔ اگر مسلمانوں کی عبادت گاہیں گرائی جائیں اور سب کے سب مجرم کیمرے کی آنکھ میں قید ہو جائیں اور سارے مجرموں کے چہرے روز نکلتے سورج کی طرح سب کے سامنے ہوں تب بھی عدالت انہیں باعزت بری کردیتی ہے، کیونکہ جو ٹھوس ثبوت عدالت کے سامنے پیش کیے گئے ہیں، عدالت کی نظر میں وہ بےبنیاد ہیں، پھسپھسے ہیں ۔ دیکھ ہی لیں بابری مسجد کی شہادت کے سارے مجرم بری ہی ہو گئے ۔ یہاں سب کی نظروں کے سامنے دھنٌا سیٹھوں کو غریبوں کی خوراک، غریبوں کی سواریاں اور غریبوں کے جھونپڑے دے دیئے جاتے ہیں اور کوئی غریب اُف نہیں کرتا، کیونکہ اُف کر ہی نہیں سکتا، اُف کرنے کی یہاں اجازت نہیں ہے ۔ کسانوں سے اس کی روزی روٹی کا سہارا چھین لیا جاتا ہے اور سارا میڈیا، چند ایک کو چھوڑ کر، واہ واہ کرتا ہے ۔ کسان سوال کرتے ہیں تو لاٹھیاں کھاتے ہیں ۔ یہاں اگر کوئی حقوقِ انسانی کی تنظیم کالے چہروں کو بے نقاب کرتی ہے، اکثریت کے ڑعم میں مبتلا فسادیوں اور نیتاؤں کے ہاتھوں ایک فرقے کی نسل کشی کو ساری دنیا کے سامنے اجاگر کرتی ہے تو اسے تنگ کر کے یہاں سے کھدیڑ دیا جاتا ہے یا اسے خود اپنا بوریا بستر لپیٹنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی مثال لے لیں ۔
جی یہ نیو انڈیا ہے! یہاں ہر وہ بات جو حکومت کے حق میں اور عوامی مفادات کے خلاف ہو، وہ نیو نارمل ہے ۔ مآب لنچنگ نیو نارمل ہے، بیف کے بہانے دہشت گردی کے الزام میں گرفتاری نیو نارمل ہے ۔ اور گینگ ریپ، اور ریپ کے بعد متاثرہ کی زبان کاٹ لینا، اس کے ہاتھ پیر توڑ دینا، ریڑھ کی ہڈی کو فریکچر کر دینا نیو نارمل ہے ۔ اگر متاثرہ مرجائے تو اس کے والدین اور بھائی کی اجازت کے بناء اس کی لاش رات کے اندھیرے میں جلا دینا نیو نارمل ہے ۔ متاثرین کو ان کے گھر میں مجرم کی طرح بندی بنا دینا نیو نارمل ہے ۔ اپوزیشن چلٌاے ، میڈیا متاثرین سے ملنا چاہے تو ان پر سخت ترین قدغن لگا دینا نیو نارمل ہے ۔ جی تالیاں بجائیں، خوشیاں منائیں کہ اب ہم سب اس نیو انڈیا کے شہری ہیں جہاں ہر عوام مخالف پالیسی، اقدام اور سرگرمی نیو نارمل ہے ! اب ہم اس نیو انڈیا میں سانس لیتے ہیں جہاں آنے والے کل کو سانس لینا بھی ممکن نہیں رہ جائے گا ۔
ہاتھرس کے بولگڑھی گاوں کے اس دلت پریوار کی یہی حالت بنا دی گئی ہے جس کی ایک جواں سال بیٹی کو، جسے اب ہاتھرس کی بیٹی کہا جا رہا ہے،اعلیٰ ذات کے ٹھاکروں نے ریپ کیا اور پھر اس قدر پیٹا کہ چند روز بعد وہ اسپتال میں چل بسی ۔ پولیس نے نہ اس کو فوری طبی سہولت دی نہ ہی ملازمین کے خلاف فوری کارروائی کی نہ ہی گینگ ریپ کے الزام کو قوی کرنے کے لیے فوری جانچ کروائی ۔ اب اس کی لاش جبرا جلانے کے بعد اس کے پریوار کو گھر کے اندر قید کر دیا گیا ہے، موبائل چھین لیے گئے ہیں، پولس کے اعلیٰ افسر اور ڈی ایم جن کا نام پروین کمار ہے، اس پریوار کو مسلسل دھمکا رہے ہیں کہ میڈیا آج یہاں ہے، کل نہیں رہے گا، آپ سرکار کی بات مان لیں ۔ سرکار کی بات مان لینے کے کئی مطلب نکالے جا سکتے ہیں، ایک تو یہ کہ یہ کہہ دیں کہ ان کی بیٹی کا ریپ نہیں ہوا ہے، یا یہ کہ مجرموں کو پہچاننے سے انکار کردیں یا پھر یہ کہ پوری طرح خاموش ہو کر بیٹھ جائیں اور یوگی سرکار جو معاوضہ دے اسے خوشی سے قبول کر لیں اوربیٹی کے ریپ اور اس کی دردناک موت کو دماغ سےنکال کر پولیس کو سارے معاملے پر سفیدی پوتنے دیں ۔ ایک پریوار کو آزادی کے ساتھ دکھ منانے کی چھوٹ بھی نہیں ہے ۔ یہی تو کسی کو سانس لینے سے روکنا ہے ۔ یو پی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ،جن کا فلسفہ ہے کہ کوئی اگر تمہیں مارے تو اسے پٹک کر مارو، اب ہاتھرس معاملہ میں زبردست عوامی غصے اور اپوزیشن کے سخت ترین احتجاجات کے بعد یہ کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ یو پی میں ماتاؤں اور بہنوں کے سمان سوابھیمان کو گزند پہنچانے والے کو ملیا میٹ کر دیا جائے گا، ماں بہن کی حفاظت کی
یو پی سرکار پابند ہے، لیکن اس بے شرمی اور بےغیرتی سے بھرے بیان کو حقیقت کی روشنی میں دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ سب ہوا میں کہا جا رہا ہے ۔ ہاتھرس کے بعد بلرام پور میں ایک دلت لڑکی کا گینگ ریپ ہوا، وہ بھی مر گئی، اعظم گڑھ میں ایک چھوٹی بچی کی عصمت تار تار کی گئی، بھدوہی میں ایک نابالغ دلت بچی کو ریپ کرنے کے بعد اس کے سر پر اینٹوں سے اتنی ضربیں لگائی گئیں کہ وہ مر گئی ۔ یہ اتنی بربریت ان زانیوں میں کہاں سے سما گئی ! شایداقتدار کو اپنے باپ داداؤں کی جاگیر سمجھنے والوں کی خاموشی نے انہیں ہر طرح کے ظلم کی چھوٹ دے رکھی ہے ۔ یہ خاموشی کوئی ایک دن کی نہیں ہے برسہا برس کی ہے ۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے تازہ اعداد و شمار نیو انڈیا کی، جو وزیراعظم نریندر مودی اور وزیراعلیٰ یوگی کا انڈیا ہے، حقیقت اجاگر کرتے ہیں ۔ مودی راج میں 2019ء میں ملک بھر میں خواتین کے خلاف جرم کے 405861 واقعات ہوئے ہیں جن میں سے 59853 واقعات یوگی کے یو پی کے ہیں ۔ جی ہاں یو پی عورتوں پر بالخصوص دلت عورتوں پر جرائم کے معاملے میں ساری ریاستوں میں سرفہرست ہے ۔ سال2018ء کے مقابلے خواتین کے خلاف ملک بھر میں جرائم میں 7 اعشاریہ 3 فیصد کا اضافہ ہوا ہے ۔ ہر روز ریپ کی 87 وارداتیں ہوتی ہیں ۔ بی جے پی کی حکومت والی ریاست آسام میں عورتوں کے خلاف جرائم کا فیصد سب سے زیادہ ہے جبکہ یو پی میں بچیوں کے خلاف سب سے زیادہ جنسی زیادتی کے معاملات ہیں 7444 ۔ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو ریکارڈ ہوئے ہیں جو ریکارڈ ہونے سے رہ گئے ہیں وہ کتنے ہیں اس کا کوئی اندازہ نہیں ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ قتل اور اغوا کی وارداتیں گھٹی ہیں لیکن نیو انڈیا میں جہاں بیٹی بچاو بیٹی پڑھاو کا نعرہ لگایا جاتا ہے ریپ کی وارداتیں بڑھتی ہی چلی جا رہی ہیں ۔ ویسے بھی کٹر ہندوتوادی ساورکر نے ریپ کو دوسروں کے خلاف ایک ہتھیار کی طرح استعمال کرنے کی آزادی دے رکھی ہے ۔اور پھر انتظامیہ اور پولیس کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں، ان میں دلتوں، پچھڑوں اور اقلیتوں کا بھلا شامل نہیں ہے ۔ مثلاً یہ دیکھیں کہ قانون کہتا ہے کہ کسی لڑکی کے پرائیوٹ پارٹ کو چھونا یا اس کو جنسی طور پر ہراساں کرنا بھی ریپ ہے مگر یو پی پولیس کے اعلی افسر، ایڈیسنل ڈی جی پی پرشانت کمار یہ کہتے ہوئے شرم نہیں محسوس کرتے کہ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کہتی ہے کہ لڑکی، مطلب ہاتھرس کی بیٹی، کے جسم پر مادہ منویہ نہیں ملا لہٰذا یہ مان لیا جائے کہ لڑکی کا ریپ نہیں ہوا ہے ۔ یہ وہی اے ڈی جی پی ہیں جو سارے میڈیا کو جبرا یہ قائل کروا رہے تھے کہ ہاتھرس کی بیٹی کا انتم سنسکار گھر والوں کی اجازت سے کیا گیا ہے ۔ میڈیا جسے بولگڑھی گاوں میں گھسنے نہیں دیا جا رہا ہے، جیسے ایمرجنسی لگی ہو اور یہ روک پورے ایک مہینے کے لیے ہے ! بھلا یوگی سرکار کیا چھپانا چاہتی ہے؟ کیوں میڈیا پر ناجائز پابندی لگا رکھی ہے؟ کیوں دفعہ 144 لگائی گئی ہے؟ کیا صرف اس لیے کہ جب کانگریس کے راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی اور دوسری سیاسی پارٹیوں کے لیڈران متاثرین سے ملنا چاہیں تو ان سے دھکا مکی کی جائے، لاٹھیاں برسائی جائیں؟ یوگی سرکار اس کام کی ماہر ہے، لوگوں نے دیکھا ہی ہے کہ کیسے سی اے اے اور این آر سی مخالف احتجاجیوں پر یوگی کی پولیس نے لاٹھیاں ہی نہیں گولیاں چلائی ہیں، املاک قرق کی ہے اور یو اے پی اے جیسے سخت ترین قانون کے تحت انہیں کال کوٹھڑیوں میں ڈالا ہے ۔ اصل میں ہم سب دوسروں پر ہو رہے مظالم پر اپنی آنکھیں بند رکھنے کے عادی ہو چکے ہیں اس لیے بیٹیوں کی عصمتیں تار تار ہو رہی اور وہ جان سے ماری جا رہی ہیں ۔ پیچھے مڑ کر دیکھیں تو گجرات اور مظفر نگر کے فسادات نظر آئیں گے جہاں ریپ کو ایک فرقے کے خلاف ہتھیار کی طرح استعمال کیا گیا تھا ۔ ایسا نہیں کہ سول سوسائٹی نے شور نہیں مچایا یا معاملے عدالت میں نہیں گئے ۔ سب ہوا لیکن ہم انہیں ہی کرسیوں پر بٹھاتے رہے جو قصورواروں کے سرپرست تھے ۔ گجرات میں ایک بلقیس بانو کے سوا کس کو انصاف ملا، وہ بھی اس لیے کہ بلقیس بانو ڈٹی رہی ۔ عشرت جہاں اور کوثر بی آج بھی انصاف سے محروم ہیں، ان کی روحیں تڑپ رہی ہوں گی ۔ یہ بھی تو ہندوستان کی بیٹیاں تھیں ۔ مظفر نگر کے خاطیوں کو تو یوگی سرکار نے آنکھیں بند کر کے معافی دے دی ! معافی پانے والوں میں وہ ’ مجرم‘ شامل ہیں جو مظفر نگر کے فسادات کے دوران عصمت دری اور عصمت دری کی شکار خواتین کے بچوں کے قتل میں ملو ث تھے ۔ مظفر نگر فسادات کے دوران اپنی عزت وآبرو کھونے والی عورتیں آج بھی انصاف کے لئے آواز اٹھارہی ہیں ، یہ سب بھی ’ ہندوستان کی بیٹیاں‘ ہیں ۔ گورکھپور کے فسادات کے دوران ، جس کا الزام یوگی آدتیہ ناتھ کی اشتعال انگیز تقریر کو جاتا ہے ( اب یوگی نے خود پر چلنے والے اس معاملے کو ختم کردیا ہے ۔ کیونکہ خود ہی سیاّں ہیں اور خود ہی کوتوال ) بے آبرو ہونے والی خواتین بھی ’ ہندوستان کی بیٹیاں‘ تھیں ۔۔۔ اور یہ سب ہندوستان کی بیٹیاں ہونے کے ناطے وزیراعظم مودی کی بھی بیٹیاں ہوئیں ، مگر یہ آج تک انصاف کے لئے بھٹک رہی ہیں ۔ مودی جی کی زبان سے نہ ان سب کے لیے اور نہ ہی ہاتھرس کی بیٹی کے لیے کوئی ایک لفظ نکلا ہے ۔ نہ ہی ان کا یہ تحریر لکھے جانے تک کوئی ٹوئٹ آیا ہے ۔ اصل میں بی جے پی میں جو سیاست دان شامل ہیں ان میں سے بہت سے ہیں جن پر عورتوں کے خلاف جنسی زیادتی اور جرم کے معاملات درج ہیں ۔ اناو کے ریپ اور بی جے پی کے رکن اسمبلی کلدیپ سینگر کی مثال لے لیں جسے اب ریپ اورقتل کے جرم میں سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا ہے ۔ چونکہ یہ برسراقتدار ٹولے کا رکن اسمبلی تھا اس لیے اس کی گرفتاری بڑے دنوں تک ٹلتی رہی تھی ۔ سارے ملک کی طرف سے دبائو پڑنے کے بعد اسے گرفتا ر کیاگیا تھا ۔ یہ سیاست کی گندگی کا ایک معمولی سا نمونہ تھا۔ یوپی کی کرسی پر جو ’یوگی‘ براجمان ہے وہ ذات کا ٹھاکر ہے، سینگر بھی ٹھاکر لہٰذا اس کا ٹھاکر ذات سے ہونا کام آیا ۔ ریاست کے اعلیٰ پولس افسران بھی ٹھاکر ہی ہیں ۔ تو یہاں کسی کی گرفتاری کا فیصلہ چاہے، وہ عصمت دری کا مجرم ہی کیوں نہ ہو، اس کی سیاست کے رنگ ’ہرا‘ ، ’گیروا‘ ، ’لال‘ اور اس کی ذات پات کی بنیاد پر ہی کیا جاتا ہے اس لیے انصاف کی امید کم ہی نہیں بلکہ ہوتی ہی نہیں ہے ۔ کٹھوعہ میں ننھی آصفہ کے ریپ اور قتل کا معاملہ مہینوں اس لیے دبا رہا کہ وہ بچی مسلمان تھی اور ملزم غیر مسلم تھے اور ان غیر مسلم ملزمین کے پیچھے ساری بی جے پی پارٹی کھڑی ہوئی تھی ۔ اب بی جے پی کا معاملہ لے لیں؛ اس پارٹی کا ریکارڈ بڑا ہی عجیب وغریب ہے۔ ’ایسوسی ایشن فار ڈیمو کریٹک ریفارم‘ (اے ڈی آر) کی ایک رپورٹ پر غور کریں جس میں بتایاگیا ہے کہ کوئی 48 ؍ممبران پارلیمنٹ و ممبران اسمبلی نے یہ اعتراف کیا ہے کہ ان پر خواتین سے متعلق جرائم کے معاملات درج ہیں ۔ ان میں سب سے زیادہ بی جے پی کے قانون ساز ہیں ۔ ان کی تعداد 12 ہے۔ بھاجپائی قصور واروں میں یوپی کے اناو ریپ معاملے کے رکن اسمبلی کلدیپ سنگھ سینگر کا نام بھی شامل ہے۔ جن قانون سازوں پر خواتین سے متعلق جرائم کے معاملات درج ہیں ان میں 45 ممبران اسمبلی اور تین ا یم پی ہیں۔ اب یہ بھی دیکھ لیں کہ ان پر الزامات کیسے کیسے ہیں ۔ ان پر عورتوں پر مجرمانہ حملے سے لے کر اغوا، جبراً شادی کرنے اور عصمت دری تک کے معاملات درج ہیں ۔ گھریلو تشدد اور عورتوں کی ٹرافکنگ کے معاملات بھی ان پر ہیں ۔ جی ہاں ہمارے ممبران اسمبلی اور ممبران پارلیمنٹ میں ایسے بھی ہیں جو عصمت دری کے ملزم ہیں بالخصوص بی جے پی کے ۔ (سوشل میڈیا پر تو بی جے پی کو لوگوں نے ’بھارتیہ بلاتکار پارٹی‘ تک لکھ دیا ہے) ۔ سوامی چنمیا نند بی جے پی کی واجپئی سرکار میں وزیر مملکت برائے داخلہ تھے، ان پر 2019ء میں ایک طالبہ نے، جو ان ہی کے کالج میں زیر تعلیم تھی ، جنسی زیادتی کا الزام لگایا تھا لیکن یوگی نے انہیں کلین چٹ دے دی، اب وہ دودھ کے دھلے ہیں ۔ یہ لمبی فہرست ہے نام گنوانے کا موقعہ نہیں ہے لیکن یہ کہنے سے کوئی ڈر بھی نہیں ہے کہ بی جے پی میں بہت سارے چہرے ایسے ہیں جنہیں سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے تھا ۔ ہاتھرس ریپ معاملہ میں کیا ہوگا کچھ کہا نہیں جا سکتا ہے ۔ آلہ آباد ہائی کورٹ نے از خود اس معاملے کا نوٹس لیا ہے، متاثرین اور پولیس اہلکاروں کو طلب کیا ہے، دیکھتے ہیں کہ وہاں کیا ہوتا ہے ۔ اب تو عدالتیں جب تک کوئی مبنی بر انصاف فیصلہ نہ دے دیں یقین کرنے کو دل نہیں چاہتا کہ انصاف ہوگا ۔ بابری مسجد معاملہ میں دو فیصلوں نے عدالتوں پر سے بھروسہ تقریباً ختم کر دیا ہے ۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس رنجن گگوئی نے تمام ثبوتوں کو نظر انداز کر کے بابری مسجد کی زمین رام مندر کے لیے سونپ دی اور راجیہ سبھا میں جا کر بیٹھ گئے ۔ اور سی بی آئی کی خصوصی عدالت کا جو فیصلہ ابھی ابھی آیا ہے اس پر کیا کہا اور کیا لکھا جائے سمجھ میں نہیں آتا ۔جج صاحب نے تو سارے ہی ثبوت ردی کی ٹوکری میں پھینک کر 28 سال کے مقدمے کے ملازمین کو چند منٹ کے اندر ہی باعزت بری کر دیا ۔ یہ انصاف کا خون ہے، انصاف کے نام پر ناانصافی ہے ۔ لہذا ہاتھرس میں بھی ممکن ہے ایسا ہی انصاف کر دیا جائے ۔ اعلیٰ ذات کے منصف کو ثبوت ممکن ہیں نظر ہی نہ آئیں ۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہوگی اور مودی دونوں پر دباو بنا رہے ۔ کانگریس، ترنمول، عام آدمی پارٹی اور دیگر پارٹیاں شور مچاتی رہیں، ہم جانتے ہیں کہ یہ سب سیاست ہے، لیکن سیاست تو نربھیا اور کرپشن کے نام پر بی جے پی نے بھی کی تھی، جیسے کو تیسا ! مظاہرے ہوں احتجاج ہوں تاکہ نیو انڈیا کے حکمرانوں کی کچھ تو نیند آڑے ۔ اگر اتنا بھی نہ کیا گیا تو پھر یہ تو نیو انڈیا ہے ہی، یہاں سب نیو نارمل ہے ۔ ریپ اور گینگ ریپ اور بربریت میں اضافہ ہی ہوتا جائے گا اور وہ بھی، جو خود کو محفوظ سمجھتے ہیں، اپنی بہو بیٹیوں کو زانیوں کے ہاتھوں سے بچا نہیں سکیں گے ۔
پس نوشت : میڈیا بڑا خفا ہے، سوائے ارنب گوسوامی کے ریپبلک چینل کے ۔ کاش کہ یہ خفگی پہلے سے ہوتی، کاش کہ میڈیا گودی میں جاکر نہ بیٹھا ہوتا ۔ اگر ایسا ہوتا تو بہت کچھ بدلا ہوا ہوتا ۔ اچھا ہے کہ میڈیا پر جب پڑی ہے تو اسے کچھ ہوش آیا ہے ۔ امید یہی رکھنی چاہیے کہ یہ ہوش برقرار رہے گا ۔ ویسے یہ امید سچ ثابت ہو گی اس کا یقین بالکل نہیں ہے ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ہاتھرس کیس کے ملزمین کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے یوگی حکومت:چندر شیکھر آزاد
نئی دہلی:بھیم آرمی چیف چندرشیکھر آزاد نےہاتھرس گینگ ریپ کیس میں مجرموں کو بچانے کی ذمے دار یوگی حکومت کو ٹھہرایا ہے۔ جب چندر شیکھر آزاد سے ہاتھرس گینگ ریپ معاملے میں انتظامیہ کی طرف سے متاثرہ افراد کے اہل خانہ کو چھپانے اور تشدد کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہاکہ واقعے کوچھپانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اگر چوروں کی طرح چھپانے کی کوشش نہیں کی گئی توبیٹی کی لاش کو اس طرح نہیں جلایا جاتا۔ اترپردیش حکومت کسی بھی طرح مجرم کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ کچھ افسروں اور ملازمین کو معطل کردیا گیا ہے، اس سے کچھ نہیں ہونے والا ہے کیونکہ وہ وہی کر رہے تھے جو وزیراعلیٰ انہیں بتا رہے تھے۔انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح لڑکی کے کنبہ کو یرغمال بنایا گیا ، اس خاندان کو میڈیا سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی،جیسے اتر پردیش میں داخل ہوتے ہی بنیادی حقوق ختم ہوجاتے ہیں، جس طرح سے اے ڈی جی کا بیان آتا ہے کہ عصمت دری نہیں ہوئی۔ جس طرح سے نارکو ٹیسٹ کی بات کی جارہی ہے، اس لیے مجھے لگتا ہے کہ کہیں نہ کہیں یہ اسی ٹریک پر کیس آرہا ہے، جیسا کہ اناؤ کیس میں ہوا تھا کہ مقتولہ کے چچا کو بند کردیا جاتاہے۔ بی جے پی لیڈر کے معاملے میں ہو ا تھا کہ لڑکی پر ہی مقدمہ درج کرکے جیل بھیج دیا گیا تھا۔ اس معاملے میں بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔ متاثرہ افراد کے اہل خانہ پر الزام لگا کر حکومت یہ ظاہر کرنا چاہتی ہے کہ اتر پردیش میں جرم نہیں ہو رہا، لوگ سیاست کر رہے ہیں۔چندر شیکھر آزاد نے مزید کہاکہ یہاں جمہوریت ہے، آئین بھی ہے لیکن آمریت بھی ہے۔ یوپی حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ دفعہ 144 نافذ ہے، وہیں پڑوس میں ملزمین کے حق میں کہ پنچایت ہوجاتی ہے۔ امتیازی سلوک توہو رہا ہے۔ اب نارکو ٹیسٹ کا یہ مطالبہ بھی ملزم پارٹی کا ہی ہے، جسے وزیر اعلی نے پورا کیا۔ وہ متاثرین کا مطالبہ توپورا نہیں کرسکتے ہیں۔
نئی دہلی:اترپردیش کے ہاتھرس میں ایک 20 سالہ دلت لڑکی کی مبینہ عصمت دری اور اسپتال میں داخل ہونے کے دوران موت ہونے کے بعد ملک میں ناراضگی پائی جاتی ہے ۔ اپوزیشن جماعتیں ریاست کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ جمعرات کے روز کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی جو متاثرہ اہل خانہ سے ملنے کے لئے ہاتھرس جارہے تھے، ان کے ساتھ دھکامکی ہوئی ۔ شیوسینا کے رہنما سنجے راوت نے اس پر سخت رد عمل کا اظہار کیا اور اسے ملکی جمہوریت کا گینگ ریپ قرار دیا۔شیوسینا کے ممبر پارلیمنٹ سنجے راوت نے کہا کہ راہل گاندھی قومی سطح کے سیاستدان ہیں۔ ہمارے کانگریس سے اختلافات ہوسکتے ہیں، لیکن پولیس نے ان کے ساتھ جوسلوک کیا اس کی کوئی حمایت نہیں کرسکتا۔ان کا کالر پکڑا گیا اور زمین پر دھکیل دیا گیا۔ یہ ایک طرح سے ملک کی جمہوریت کا گینگ ریپ ہے۔ اس کی تحقیقات ہونی چاہئے۔ کنگنا رناوت کے بارے میں راوت نے کہا کہ ممبئی میں ایک اداکارہ کا غیرقانونی تعمیرشدہ دفتر تھوڑا سا ٹوڑدیا ، اس وقت حکمران جاگ گئے جیسے آسمان ان پر ٹوٹ پڑا ہو۔ ایک لڑکی کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے، لیکن اس کے بارے میں کوئی سوال نہیں پوچھ سکتا ہے۔ میں نے ملک کی تاریخ اور ملک کی روایت میں ایسا واقعہ کبھی نہیں دیکھا۔