سدرشن ٹی وی کے معاملہ میں اب لگتا ہے کہ مرکزی حکومت سپریم کورٹ کے تیور کو دیکھ کر گھبرا گئی ہے۔ آج اس سلسلہ میں پانچویں سماعت تھی۔۔ ایک خاص منصوبہ کے تحت اس مقدمہ میں مداخلت کاروں (فریقوں) کی تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے۔۔۔کافی مداخلت کاروں کو اجازت دیتے رہنے کے بعد آج سپریم کورٹ نے ایک اور فریق کی مداخلت کی درخواست پر ناگواری کا اظہار بھی کیا۔۔ ایشیا نیٹ ٹی وی کے بانی ششی کمار کی طرف سے کلی سوارم راج ایڈوکیٹ نے کہا کہ مجھے بھی Intervene کرنا ہے۔اس پر جسٹس چندر چوڑ نے کہا کہ کسی نہ کسی مرحلہ پر سماعت کو ختم ہونا ہے۔ ہر اچھی چیز کا ایک خاتمہ ہوتا ہے۔
آج کارروائی شروع ہوتے ہی مرکزی حکومت کے وکیل اور سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے سدرشن ٹی وی کو آج چار صفحات کا نوٹس جاری کیا ہے اور اس کا جواب 28 ستمبر کی شام پانچ بجے تک مانگا ہے۔اگر کوئی جواب موصول نہ ہوا تو یکطرفہ فیصلہ کردیا جائے گا۔یہ ایک تفصیلی شو کاز نوٹس ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مرکزی حکومت کے مطابق پروگرام میں بیان کردہ حقائق بادی النظر میں پروگرام کوڈ کے مطابق نہیں ہیں۔۔ انہوں نے عدالت سے کہا کہ کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ عدالت 28 ستمبر تک کارروائی کو موخر کردے۔
اس پر جسٹس چند رچوڑ نے کہا کہ اگر ہم نے اُس وقت کیس کو نہ سنا ہوتا تو اب تک تو تمام ایپی سوڈ دکھائے جاچکے ہوتے۔۔ اس پر تشار مہتا نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ عدالت کی مداخلت آخری راستہ ہونا چاہئے۔۔ اس پر خاتون ایڈوکیٹ شاہ رخ عالم نے کہا کہ اگر کیس نہ سناجائے تو کیا ایک آئینی عدالت‘ عدالتی صوابدید کیلئے سیلابی راستہ کھول سکتی ہے۔۔ اس پر تشار مہتا نے کہا کہ میں نے عدالتی صوابدید کی بات کی ہی نہیں۔۔ جسٹس چند ر چوڑ نے کہا کہ ایڈوکیٹ شاہ رخ اپنے حلف نامہ پر بات کر رہی ہیں۔شاہ رخ نے کہا کہ حکومت مسلسل بے عملی اور صوابدید کے مطابق کارروائی کا مظاہرہ کرتی رہی ہے۔
بہر حال جسٹس چندر چوڑ نے کہا کہ میں اس سلسلہ میں اپنے ساتھی ججوں سے بات کرکے بتاتا ہوں۔کچھ وقفہ کے لئے بنچ کے مائک اور کیمرے خاموش کردئے گئے۔بنچ نے جب کارروائی شروع کی تو سابق سول سروینٹس کے گروپ کے وکیل انوپ جارج چودھری نے کہا کہ پٹیشنر کی حیثیت سے مجھے سماعت کو موخر کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ایڈوکیٹ گوتم بھاٹیا نے کہا کہ باوجود اس کے کہ اگر حکومت نے اس اشو کو حل کردیا تب بھی وسیع تناظر والے نکات تو قائم ہیں۔اس پر بنچ نے کہا کہ ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ اگر حکومت نے کوئی فیصلہ لے لیا تومعاملہ ختم ہوجائے گا۔
جسٹس چندر چوڑ نے پوچھا کہ کیا مرکزی وزارت اطلاعات ونشریات کے سامنے پٹیشنر اپنا موقف رکھیں گے؟ اس پر تشار مہتا نے کہا کہ قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔ہم صرف سدرشن ٹی وی کو سنیں گے۔
اس پر جسٹس کے ایم جوزف نے قدرے شدت کے ساتھ کہا کہ اگر کوئی شکایت کی جائے تو آپ کو شکایت کنندہ کو سننا ہے۔ فطری انصاف کا اصول اس کا متقاضی ہے کہ آپ ان کو سنیں۔۔کیا پٹیشنر کی بات کو سننا غیر قانونی ہوگا؟ اس پر تشار مہتا نے کہا کہ اگر 10ہزار شکایتیں موصول ہوں تو ہم ان کو نہیں سن سکتے۔میں اس کو قبول کرنا نہیں چاہتا۔وزارت اطلاعات ونشریات کے فیصلہ لینے کے بعد آپ اس کا جائزہ لے سکتے ہیں۔
ایڈوکیٹ سنجے ہیگڑے نے ( حکومت کے وکیل سے) پوچھا کہ کیا آپ زکوۃ فاؤنڈیشن آف انڈیا کو سننا پسند کریں گے کیونکہ اس اشو کے محور میں ہمارا نام آرہا ہے۔اس پر تشار مہتا نے کہا کہ یہ فیصلہ کرنا حکومت کا کام ہے۔اس پر جسٹس چندر چوڑ نے کہا کہ کم سے کم پٹیشنرکو تو سنئے۔تشار مہتا نے کہا کہ مائی لارڈس ہم نہیں سن سکتے۔ایک بُری حقیقت نے عدالت کو متوجہ کیا لیکن اسے بُری نظیر نہیں بنایا جاسکتا۔جسٹس چندر چوڑ نے کہا کہ پٹیشنر وزارت اطلاعات ونشریات کے سامنے اپنا موقف رکھنا چاہتا ہے۔اس پر انوپ جارج چودھری نے کہا کہ ہم تو عدالت میں ہی استدلال کرنا چاہیں گے۔اور اگر حکومت کا فیصلہ ہمارے خلاف ہوا تو ہم اسے چیلنج بھی کریں گے۔
اس کے بعد جسٹس چندر چوڑ نے فیصلہ لکھوادیا۔انہوں نے کہا کہ چونکہ حکومت نے سدرشن ٹی وی کو نوٹس جاری کردیا ہے اور اس کا جواب 28 ستمبر تک مانگا ہے اس لئے سماعت موخر کی جارہی ہے۔نوٹس پر قانون کے مطابق عمل آوری ہونی چاہئے اور حکومت کے ذریعہ لئے گئے فیصلہ کی رپورٹ عدالت کے سامنے رکھی جانی چاہئے۔اگلی سماعت 5 اکتوبر کو ہوگی۔اور 15ستمبر کو پروگرام پر جو اسٹے دیا گیا تھا وہ جاری رہے گا۔
مدھو کشور کے وکیل روی شرما نے کہا کہ میری موکل کے ذریعہ سدرشن ٹی وی پر دئے گئے بیان کو نفرت آمیز بیان قرار دیا گیا ہے لہذا مجھے 15منٹ درکار ہیں۔اس پر جسٹس چندر چوڑ نے کہا کہ ہم مداخلت کاروں کو عدالت کے قیمتی 15منٹ نہیں دے سکتے۔آپ اپنی بات تحریری طورپر داخل کرا سکتے ہیں۔اس پر مدھو کشور کے وکیل نے کہا کہ ہمارے خلاف جو الزامات لگائے گئے ہیں مجھے ان کا جوب دینا ہے۔اس پر جسٹس چندر چوڑ نے توجہ نہ دیتے ہوئے اعلان کردیا کہ اب عدالت 5 اکتوبر کو دن میں دو بجے سماعت کرے گی۔
میرا تجزیہ:
جو حکومت سدرشن پر الزامات کے باوجود اور پروگرام کے ٹریلر میں شرانگیز منافرت کے باوجود اسے پروگرام دکھانے کی اجازت دے کر 28 اگست سے 21 ستمبر تک سپریم کورٹ میں اس کا دفاع کر رہی تھی آج پانچویں سماعت میں اسے اچانک کیا سوجھی کہ اس نے سدرشن کو بقول اس کے ایک سخت نوٹس جاری کردیا۔
میرا تجزیہ یہ ہے کہ حکومت ہر حال میں سدرشن کو بچانا چاہتی ہے اور اس کی آڑ میں ارنب گوسوامی اور امیش دیوگن جیسے زہریلے اینکروں اور ان کے چینلوں کی ناک میں ممکنہ طور پر نکیل ڈالے جانے پر پیشگی باندھ لگانا چاہتی ہے۔ عدالت اس وقت سدرشن کے علاوہ وسیع تر نکات سن رہی ہے اور تین میں سے دو سینئر جج اس معاملے میں سخت رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں ۔۔۔ اسی لئے حکومت نے نوٹس کا ڈرامہ کیا ہے اور کوئی سخت فیصلہ لینے سے عدالت کو روکنے کی کوشش کی ہے۔
(واضح رہے کہ تیسری جج جسٹس اندو ملہوترا نے پانچ سماعتوں میں اب تک صرف ایک مرتبہ تبصرہ میں حصہ لیا ہے) اس پر بہر حال اس سے زیادہ نہ میں کوئی تبصرہ کروں گا اور نہ احباب کو کرنا چاہئے ۔
اب زکوٰۃ فاؤنڈیشن کا بدلا ہوا رویہ بھی ملاحظہ کیجئے۔ آج حکومت کے مذکورہ بالا اقدام پر اس نے ستائش کا پٹارا کھول کر رکھ دیا۔انگریزی میں ان کے وکیل نے ایک بیان جاری کرکے کہا ہے کہ زکوٰۃ فاؤنڈیشن آف انڈیا حکومت کے اس اقدام پر والہانہ شکریہ ادا کرتی ہے۔ حیرت ہے کہ زکوٰۃ فاؤنڈیشن کو دہلی ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں حکومت کے اب تک کے رویہ اور پھر سدرشن کو اجازت دینے اور ابتدا کے چار ایپی سوڈ دکھادئے جانے کے بعد بھی حکومت پر اتنا پیار آرہا ہے کہ وہ ایک منصوبہ کے تحت چلی گئی ایک چال پر اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے زمین پر بچھے جارہے ہیں ۔۔ اسی منافقت نے ملت کو بے وقعت بناکر رکھ دیا ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)