تحریر:اپوروانند(پروفیسردہلی یونیورسٹی،دہلی)
ترجمہ:نایاب حسن
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولیس نے جوکیا،اسے کیاکہاجائے؟کیاپولیس لااینڈآرڈربحال کرنے کا اپنا فرض نبھارہی تھی؟جب پولیس اہل کار لائبریری میں زبردستی گھس رہے تھے،کھڑکیاں توڑ رہے تھے، آنسوگیس اور مرچ کے گولے داغ رہے تھے،اندر گھس کر طلباوطالبات پر حملہ کررہے تھے،توکیاوہ لااینڈآرڈربحال کررہے تھے؟جامعہ کی وائس چانسلر نے بیان دیاہے کہ ان کی اجازت کے بغیر پولیس یونیورسٹی کیمپس میں گھسی اور وہاں موجودطلباپر حملہ کیا،وائس چانسلر سے پہلے چیف پراکٹر نے بھی بیان دیا کہ پولیس بغیر اجازت لیے احاطے میں گھس گئی،اس کا کیاجواب ہے پولیس کے پاس؟پولیس کابیان ہے کہ پہلے پتھر بازی ہوئی اور بسوں میں آگ لگائی گئی،اس کے بعد اس کے پاس طاقت کے استعمال کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا تھا،جنھوں نے یہ کیاتھا،انھیں پکڑنے کے لیے انھیں جامعہ میں گھسنا پڑا۔ اگر پولیس اہل کاروں کے بیان کوہی مان لیں،توصاف ہے کہ تشددطلبانے نہیں کیاتھا،دن کے ساڑھے تین بجے احتجاج پرامن تھا،اس کے بعد کچھ غیر سماجی عناصر نے تشدد شروع کیا اور ایک بس میں آگ لگادی گئی۔اس بیان سے ظاہر ہے کہ پولیس طلباکو تشدد کے لیے ذمے دار نہیں مانتی ہے،پھر اس نے انتقامی جذبات کیساتھ جامعہ کیمپس پر حملہ کیوں کیا؟کیوں لائبریری اور ہاسٹل پر حملہ کیا؟کیوں پولیس طلباکویونیورسٹی احاطے سے نکال کر مجرموں کی طرح ہاتھ اوپرکرواتے اور پریڈکراتے ہوئے باہر لے گئی؟کیاان کے پاس ہتھیار تھے؟ان کی بے عزتی کرنے کا حق پولیس کوکس نے دیا؟جواحتجاج رات تک پرامن تھا،اس میں تشدد کیسے ہوا؟بس میں آگ کس نے لگائی؟یہ سب جانچ کے ذریعے ہی معلوم ہوسکتا ہے؛لیکن جس کے لیے کسی جانچ کی ضرورت نہیں،وہ صاف ہے اور وہ ہے پولیس کی زیادتی۔پولیس جوکچھ کررہی تھی،وہ کوئی نظم وقانون کی بحالی نہیں تھی؛بلکہ احتجاج کی جرأت کرنے والے طلباکو سبق سکھانے کا عمل تھا،پولیس انھیں سزا دے رہی تھی،جواس کاکام نہیں ہے۔
نیوزویب سائٹ”دی وائر“نے اسپتال میں داخل جس طالب علم سے بات کی،اس نے بتایاکہ وہ اور کچھ دوسرے طلبا لائبریری میں پڑھ رہے تھے اور انھوں نے اندر سے دروازہ بھی بند کرلیاتھاکہ جلوس میں شامل کوئی شخص باہر سے اندر نہ آئے،تبھی پولیس نے دروازہ توڑدیا اور ان سب کو پیٹنا شروع کردیا،پیٹتے ہوئے انھیں باہر کھدیڑا گیا۔طالب علم نے بتایاکہ پولیس گالیاں دے رہی تھی،یہ خاص کر مسلمانوں کی تذلیل کرنے والی گالیاں تھیں،اس طالب علم کو پولیس نے سیڑھیوں سے نیچے ڈھکیل دیا،اس کا پاؤں ٹوٹ گیااور وہ چل نہیں پارہاتھا؛لیکن پولیس نے یہ زحمت نہیں کی کہ اسے اٹھاکر اسپتال لے جائے؛بلکہ اس سے بھاگنے کوکہا اور پیٹتی رہی،اسے اٹھاکر اسپتال لے جانے کاکام باقی طلبانے کیا،جنھوں نے اس کی چیخ سنی تھی۔ابھی وہ طالب علم ٹوٹے پاؤں کے ساتھ اسپتال میں ہے۔اس سے ایک بہت ہی بھولااور شاید ضروری سوال ایک صحافی نے کیا کہ پولیس نے ایسا کیوں کیا؟اس کا جواب پولیس کو سننا چاہیے اور اپنے بارے میں سوچنا چاہیے،اس نے کہاکہ اس کے علاوہ کیاوجہ ہوسکتی ہے کہ پولیس نے یہ سوچ لیاہے کہ مسلمان کو پیٹو!گالی دینے کو پولیس اہل کار اپنی تہذیب کا حصہ مان سکتے ہیں،شاید اس کے بغیر انھیں سامنے والے پر ظلم کرنے کی انرجی نہیں ملتی ہے،کیابغیر گالی دیے کسی کوماراجاسکتاہے؟آخر ہندوستانی پولیس اسے معمولی بات کیوں سمجھتی ہے؟
پولیس کے پاس اپنے بچاؤ کے لیے ایک وجہ ہے کہ بس میں آگ لگنے کی وجہ سے اسے سختی کرنی پڑی،اگراسے مان بھی لیں،توپولیس نے جوکیا،وہ سختی نہیں،ظلم تھا۔جس وقت یہ خبر آرہی تھی،اسی وقت یہ بھی معلوم ہواکہ پولیس نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے احاطے میں گھس کر بھی طلباپر حملہ کیاہے۔بتایاگیاکہ یونیورسٹی انتظامیہ نے پولیس کوبلایاتھا۔جب پولیس کے اس تشددکو روکنے کی کوشش کی جارہی تھی،تولوگوں نے کہاکہ دہلی میں پولیس نے جوکیا،اس کے ساتھ ساتھ علی گڑھ میں بھی پولیس کارروائی ہوئی،اس کی ہدایت بہت اوپر سے تھی،توپولیس کی موقع کے مطابق خود فیصلے کی طاقت کاکیاہوگا؟
عام طورپر بھارت کی پولیس خود کو سسٹم کی غلام اورتابع مانتی ہے،عوام کووہ اپنا مخالف مانتی ہے اورجوکمزور ہے،کسی بھی طرح جس کی حیثیت کم ہے اسے کچلنا وہ اپنا فرض مانتی ہے۔بھارت میں دلت اور مسلمان سب سے کم سماجی حیثیت کے مانے جاتے ہیں؛اس لیے ان پر پولیس کی طاقت کا قہر جلدی اور آسانی سے گرتا ہے،اس وقت پولیس کے مظالم میں ایک قسم کی چستی و تیزی بھی دکھائی پڑتی ہے۔پولیس عوام کے احتجاج کو غیر ضروری اور ناجائز بھی مانتی ہے۔بھارت کے طلبانے دیکھاکہ ہانگ کانگ میں طلبااور عام شہریوں کا احتجاج کتنا لمباچلا،وہاں بھی پولیس نے کارروائی کی؛لیکن اس میں اور بھارت کی پولیس کے رویے میں خاص فرق دیکھاجاسکتا ہے۔
ابھی شہریت کے قانو ن میں تبدیلی کو لے کر جو بھی احتجاج ہورہاہے،کہاجاسکتاہے کہ وہ شمال مشرق(بہ شمول آسام)کوچھوڑدیں توزیادہ تر مسلمانوں کا احتجاج ہے،ان کے ساتھ وہ لوگ شامل ہیں،جنھیں مذہبی غیر جانب دار کہہ کر متہم کیاجاتارہاہے،عام ہندو،مسلمانوں کی تکلیف اورناراضگی کو سمجھ نہیں پارہا،اس کو کیسے سمجھایاجائے؟یہ کام کون کرے؟اگر پورا ہندی میڈیا سرکار اور بھارتیہ جنتا پارٹی کا پرچارک ہوجائے،تو عوام کو صحیح خبریں اور معلومات کیسے ملیں؟انگریزی میڈیا میں پھر بھی اس قانون کی مذمت ہورہی ہے؛لیکن ہندی میڈیانے اس کی حمایت میں پرچار کوہی اپنا دھرم مان لیاہے،وہ خود کو ہندوتووادی میڈیا ہی مان کر چل رہاہے۔ایسی حالت میں ہندوعوام کوکون بتائے کہ مسلمان بھارت میں اپنی برابری کے حق کے لیے لڑرہے ہیں اور ان کا یہ حق توہے ہی،فریضہ بھی ہے۔جواپنی برابری کے حق کے لیے نہیں لڑتا، وہ انسان کیسے ہوسکتاہے؟
کیب
شہریت ترمیمی بل کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباکا زور داراحتجاج،پولیس کا لاٹھی چارج،درجن بھر سے زائد طلبا وطالبات زخمی

جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ پر پولس آنسو گیس کے گولے داغتے ہوئے
نئی دہلی:نئی شہریت ترمیمی بل کے خلاف پورے ملک میں زبردست احتجاج جاری ہے۔اب یہ احتجاج شمال مشرقی ریاستوں سے دہلی اورمختلف شہروں تک پہنچ گیاہے۔آج یہاں بعد نماز جمعہ ملک کی مرکزی یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبااور ٹیچراسوسی ایشن کی جانب سے جامعہ سے پارلیمنٹ تک احتجاجی مارچ کا اعلان کیاگیا تھاچنانچہ بعد نماز جمعہ طلباو عوام کا ایک جم غفیر احتجاج کے لیے نکلا مگر پولیس کی طرف سے انہیں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔پولیس نے پرامن طریقے سے احتجاج کرنے والے طلباپر لاٹھی چارج کیے،ان پر آنسوگیس چھوڑا گیا اور انھیں راستے میں ہی روک دیاگیا۔ذرائع کے مطابق پولیس کے لاٹھی چارج میں درجن بھر سے زائد طلباو طالبات کو شدید چوٹیں آئی ہیں جنہیں فوری طورپر مقامی ہولی فیملی ہسپتال میں داخل کیاگیاہے۔جبکہ کئی طلباکو حراست میں بھی لیاگیاہے۔اُدھر علی گڑھ میں بھی اے ایم طلباکی جانب سے زبردست احتجاجی مارچ نکالاگیاتھاجسے روکنے کی ہر کوشش ناکام ہوگئی،اطلاعات کے مطابق اس احتجاج میں کم و بیش دس ہزار طلباوطالبات نے شرکت کی۔مقامی ضلع انتظامیہ کی جانب سے علی گڑھ میں انٹرنیٹ کی سروس فوری طورپرمعطل کردی گئی ہے اور بہت سے طلباکے خلاف ایف آئی آربھی درج کیاگیاہے۔
شمیم اکرم رحمانی
سیاسی جماعتوں کے مسلم لیڈران کاہمیشہ سے یہ المیہ رہاہے کہ یہ لوگ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد یا کسی سیاسی عہدہ پر براجمان ہوجانے کے بعد مسلمان نہیں رہتے ؛بلکہ پارٹی کے وفادار غلام بن زندگی گزارتے ہیں ،ان کے لیے خدا ،رسول، قرآن اور ایمان بہت بعد کی چیزیں ہوتی ہیں یا وہ بھی نہیں ہوتیں، ان کا چلنا ،بیٹھنا، اٹھنا، بولنا اور خاموش رہنا پارٹی کے طے شدہ ایجنڈے کے تحت ہوتاہے اور وہ بھی ایمان کی قیمت پر، قوم ملک اور ملت کےلئے ہرگزنہیں ،دو تین لوگوں کے استثنا کے ساتھ یہی اب تک کی تاریخ رہی ہے۔
تازہ معاملہ نتیش کمار کے ایک مسلم ایم ایل سی صاحب کہاہے ،جناب مولانا یاسر ندیم الواجدی کے شو میں تشریف لائے والےتھے ،جہاں لائیو انہیں این آرسی کے تعلق سے گفتگو کرنی تھی؛ لیکن جب پروگرام کا وقت ہوا، تو اچانک معذرت خواہ ہوئے، وجہ یہ بتائی کہ اس معاملے میں پارٹی کااسٹینڈ کلیر نہیں ہے؛ بلکہ اس سے آگےبڑھ کر ڈھٹائی سے یہ بھی کہا کہ این آرسی مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے، مولانا واجدی نے اس ریکارڈنگ کو ایک وڈیو کی شکل میں اپنے فیسبک پر اپلوڈ کردیا ہے، جسے ہر کوئی دیکھ اور سن سکتاہے۔
موصوف جس انداز سے ایم ایل سی منتخب ہوئے تھے، اس کی وجہ سے ان سے ایسی قبیح حرکت کی امید نہ تھی، ان کی پہلے کی دوچار گفتگو سے اندازہ بھی ہورہاتھا کہ جناب عالی مسلمانانِ ہند کے روشن مستقبل کے لئے جدجہد کررہےہیں اورکریں گے بھی؛ لیکن کیا کیاجائے کہ اس دنیا میں زیادہ ترچیزوں کا وجود خلافِ توقع ہی ہوتارہاہے، بالخصوص مسلمان ہند کےساتھ:
نہیں منّت کشِ تابِ شنیدن داستاں میری
خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں میری
اقبال
نام لئے بغیر ہم جس ایم ایل سی صاحب کی بات کررہےہیں ،وہ تنہا نہیں ہیں ؛بلکہ جے ڈی یو میں موجود دوسرے مسلم لیڈرز بھی وہی کچھ کہیں گے، جو ہمارے ایم ایل سی صاحب نے کہا ہے، پرشانت کشور نام کا کوئی شخص تو بہتر رخ اپناسکتاہے ؛لیکن پارٹی میں موجود خالداور غلام رسول نام کے لوگ نہیں؛ کیونکہ پارٹی نے اگر انہیں باہرکاراستہ دکھادیا،تو وہ کہیں کے نہیں رہیں گے:
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشناکردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
اقبال
مولانا محمود مدنی کے این آرسی پر دیے گئے بے تکے بیانات کے ساتھ ساتھ مذکورہ واقعے نے بھی ہمیں جھنجھوڑ کررکھ دیاہے۔ این آر سی جیسے خطرناک معاملے پر ایم ایل سی صاحب کی خاموشی؛ بلکہ دبے لفظوں میں حمایت نے ایک بار پھر ہمیں سبق دیاہے کہ ہمیں کسی بھی سوکالڈ سیکولرجماعت اور اس کے چمچے پراعتماد کرنے سے نہ صرف بازرہناہوگا؛بلکہ کسی طرح کی چھوٹی موٹی قیادت کھڑی کرنی ہوگی یا پہلے سے کھڑی قیادت کے گرد جمع ہوناہوگا اور اس ڈر کو ختم کرناپڑے گا کہ ہمارے متحدہونے سے ہندوبھائی بھی متحدہوجائیں گے ؛اس لئے کہ وہ تو متحدہوچکے ہیں ،دستور ہند کے باقی رہتے ہوئے اگر ہم نے متحدہ سیاسی محاذ کی تشکیل نہ کی اور مسلکی یا ذاتی مفادات کو بالائے طاق نہ رکھا، تو آنے والےایام مزید سخت ہوںگے اور یکے بعد دیگرے ہرطرح کےمسلک و مشرب سے منسک مسلمانوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا، پھریہ کہ ہمارےاتحاد کی بنیاد کسی مذہب کی دشمنی نہیں ہونی چاہیے؛ بلکہ سیاسی ناانصافیوں کے خلاف جدجہد ہونی چاہیے، جس کی اجازت آئین ہند نے ہمیں دےرکھی ہے ،مجھے پتہ ہے کہ یہ اتحاد عوام سے نہیں، خواص کے چاہنےاور ہرطرح کی قربانیاں دینےکےلیے تیار رہنےسےہوگا ،عوام کی حیثیت ہمیشہ اس جانور کی سی رہی ہے ،جس کورسی پکڑکرچرواہاجدھر چاہتاہے ،لےجاتاہے!
صفدرا مام قادری
صدر شعبۂ اردو، کا لج آف کا مرس ،آرٹس اینڈ سائنس ،پٹنہ
جب سے ملک نریندر مودی اور امت شاہ کی مٹھی میں قید ہوا ہے، لوگوں پر چوطرفہ مار پڑ رہی ہے۔ نوجوانوںکے لیے روزگار نہیں، پیشے وران آہیں بھر رہے ہیں، کسان خود کُشی پر مجبور ہیں، گھریلو صنعتیں اور چھوٹی معیشت زوال کی آخری منزلوں میں ہیں، سامان کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں، دن کے اُجالے میں جان اور آبرو پہ سب کی بن آئی ہے۔ عورتیں اور لڑکیاں غلیظ ذہنیت کا شکار ہورہی ہیں۔مجرم کھلی شاہ راہ پہ چل رہے ہیں، سماجی خدمت گار جیل میں ہیں اور حکومت کے لیے راوی چین لکھتا ہے۔ کسی وزیر کو شرم نہیں آتی ہے اور بڑے عہدے دار وں کو ان چھوٹے چھوٹے مسئلوں کے مقابلے عالمی سطح پر سیر و تفریح میں زیادہ لطف آتا ہے۔
جمعہ کے اخبارات میں یوپی اور حیدرآباد سے دو طرح کی خبریں آئیں۔ اترپردیش میں اجتماعی آبروریزی کا شکار ہوئی ایک خاتون کو آگ سے زندہ جلانے کی کوشش ہوتی ہے۔ اسے جلانے والے وہ لوگ تھے جو اس کے مقدمے میں ملزم تھے اور انھیں اسی روز ضمانت ملی تھی۔ حیدر آباد میں خاتون ڈاکٹر کے ساتھ جو ظالمانہ واقعہ پیش آیا، اس کے ملزمین کو پولیس کسٹڈی سے بھاگتے ہوئے مار گرایا گیا۔ کہیں سے پولیس کی تعریف بھی ہوئی کہ اس نے ان ملزمین کو ان کے کام کے حساب سے سزا دے دی۔ مگر اترپردیش میں جو ہوا، اسے کیا کہا جائے گا؟ جسے زندگی کی سزا ملی ہوئی تھی، اسے انھی ملزمین نے جان لے لینے کی کوشش کی۔ نوے فی صدی جل چکی وہ خاتون شاید ہی بچ سکے۔ حیدرآباد میں اگر پولیس نے ان کے جرم کے مطابق قرارِ واقعی سزا دی تب یہ سوال قائم ہوتا ہے کہ اترپردیش پولیس نے ضمانت یافتہ ملزمین پر نگاہ کیوں نہیں رکھی؟ اور متاثرہ خاتون کے تحفظ کے لیے پہلے سے انتظامات کیوں نہیں کیے گئے؟ کمال تو یہ ہے کہ ایسے سوال جب سوشل میڈیا میں اٹھے تو یو پی کے ایک وزیر نے یہ بھی کہا کہ جب سماج میں اتنی شدت پسندی آجائے گی تو بھگوان رام بھی ہوتے تو سب کی حفاظت کی گارنٹی نہیں لے سکتے تھے۔ جب حکومت چلانے والے خود کو اس قدر معذور سمجھیں تو عام آدمی کو یہ سمجھ میں آجانا چاہیے کہ اب سِوِل وار یا خانہ جنگی میں زیادہ دیر نہیں اور قانون کا راج کاغذ پہ لکھا ہوا ایک بے مطلب کا حکومتی جملہ ہے۔
جمہوریت کو دنیا کے ہر گوشے میں جو پذیرائی حاصل ہوئی اور ملوکیت پر اس نے اپنا تفوق ثابت کیا، اس کا بنیادی سبب یہی تھا کہ یہ نظامِ حکومت لوگوں کے ذریعہ، لوگوں کے لیے اور لوگوں کا ہے۔ کہتے ہیں کہ ووٹ پانے کے بعد کسی کو یہ یاد ہی نہیں رہتا کہ اسے کیوں ووٹ دے کر حکومت سازی کا موقع دیا گیا۔ بار بار یہ ہوتا ہے کہ حکومت بن گئی مگر عوام خود کو ٹھگے ہوئے محسوس کرتے ہیں۔ جے پرکاش نارائن ہندستانی جمہوریت میں عوامی نمایندوں کی واپسی کے حقوق کو بھی شامل کرنا چاہتے تھے مگر اس کے لیے کم سے کم سیاست داں تو تیار نہیں ہوسکتے۔ حکومت جب پارلیمنٹ میں پالیسیاں بناتی ہے، اس وقت اس کا اثر آخری آدمی پر کس قدر پڑے گا، اس کو سوچنے والا اس زمانے میں شاید ہی کوئی ملے۔ بلکہ اس بات پر غور و فکر زیادہ ہے کہ اس سے ریلائنس کو کیا ملے گا اور اڈانی کی مجموعی سرمایہ کاری میں کتنے فی صد کا اضافہ ہوگا۔ عوامی فلاح سے دور ذاتی فلاح یا بڑی طاقتوں کو مزید طاقت دینے والی حکومتوں کے دور میں اگر عام طور پر بے اطمینانی نظر آتی ہے تو اس پر حیرت نہیں ہونی چاہیے۔
موجودہ حکومت کے وزرا اور ممبرانِ پارلیمنٹ کے بیانات سے اگر منتخب سطریں جمع کرکے شایع کردی جائیں تو ہمیں یقین ہے کہ لطیفوں کی سب سے بڑی کتاب وہی بنے گی۔ اس حکومت کے وزرا کی منطقی قوت کا یہ عالم ہے کہ ان کے بیانات منطق کے طلبا کے کورس میں شامل کرنا چاہیے کہ کیسے غیر منطقی گفتگو کی جاسکتی ہے یا منطق اور غیرمنطق میںکیا فرق ہوتاہے؟ ایک بار منموہن سنگھ کی حکومت کے دوران جب ایل۔پی۔جی۔ سلنڈروں پر کتنا سبسیڈی دیا جائے، اس بابت فیصلہ کرنے میں اس زمانے کے وزیر رشید مسعود نے عوامی بیان دیا تھا کہ ان کے گھر ایک سلینڈر سے پانچ مہینے کھانا پکتا ہے۔ اسی طرح جب پیاز کی قیمتوں پر پارلیمنٹ میں بحث ہوئی تو جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے پی ایچ۔ ڈی۔ کرکے وزیرِ خزانہ بنیں محترمہ نے بڑی سادگی سے یہ جواب دیا کہ ہم پیاز کھاتے ہی نہیں، اس لیے نہ ہمیں اس کی ضرورت ہے اور نہ اس کی قیمتوں سے کوئی سروکار۔ یہ راگ وزیرِ صحت اشونی چوبے نے بھی الاپا اور بتایا کہ پیاز، لہسن اور گوشت وغیرہ سے ان کی زندگی کا تعلق ہی نہیں ہے، اس لیے پیاز کی قیمتوں سے انھیں کیا غرض؟ انفارمیشن ٹکنالوجی کے وزیر جو کبھی مشہور وکیل مانے جاتے تھے، انھوںنے ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کی شرحیں بڑھانے کے فیصلے کی مجبوری کی وجہ کانگریس کی سابقہ حکومتوں کو قرار دیا۔ پچھلے الیکشن میں ساکشی مہاراج تو کہہ ہی دیا تھا کہ اگر ووٹ نہ دوگے تو ہم شاپ دیں گے اور قوم کو بربادی کا دن دیکھنا ہوگا۔ مینکا گاندھی نے مسلمانوں کے علاقے میں جاکر یہ کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ آپ لوگ ہمیں ووٹ نہیں دیتے اور جیتنے پر ہمارے پاس کام کے لیے آتے ہیں۔ اب کی بار ووٹ نہیں دیا اور میں جیت گئی تو اس کا خمیازہ آپ کو بھگتنا پڑے گا۔ اترپردیش کے موجودہ وزیر اعلا اپنے الیکشن کی ریلیوں میں نعرہ ہی لگواتے تھے کہ تم ایک ماروگے تو ہم بیس ماریںگے۔
یہ مثالیں کسی ایک سیاسی جماعت کو تختۂ مشق بنانے کے لیے نہیں پیش کی گئی ہیں۔ یہ اقتدار کی طاقت ہے کہ وہ اندھا، بہرا، گونگا اور لنگڑا بنا دیتی ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے ڈکٹیٹروں کو اچانک بہت برے دن دیکھنے پڑے۔ خود اپنے ہاتھوں سے اپنی جان لے لینی پڑی۔ حکومت کا نشہ آدمی کو صرف بے مروت اور بے فیض نہیں بناتا بلکہ اس سے عقل و خرد کی ساری پونجی چھین لیتا ہے۔ گائوں سے لے کر دلی تک بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈروں کی بولی سنیے تو یہ اصول اپنے آپ سمجھ میں آجائے گا کہ کس طرح منصب کی طاقت میں سب اندھے ہوئے ہیں مگر کہا گیا ہے کہ گیدڑ کی جب موت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف رُخ کرتا ہے۔ کسی خاتون کی آبرو ریزی ہوئی تو چار ایسے لوگ بھی بولنے والے سامنے آگئے کہ آبرو ریزی کی وجہ ان کا مغربی طرزِ لباس ہے۔ سو برس پہلے کا یاد کیجیے کہ عورتوں کو مدرسے اور اسکول تک اس لیے نہیں بھیجا جاتا تھا کیوںکہ یہ مان رکھا گیا تھا کہ وہاں پہنچنے سے ان کے کردار پہ حرف آئے گا۔ ایک طویل مدت تک اسی لیے انھیں پڑھنے بھی نہیں دیا گیا۔ اس پر بھارتیہ جنتا پارٹی میں کوئی زیادہ ہنگامہ آرائی بھی نہیں ہوئی۔
ابھی گوڈسے کے حوالے سے گاندھی واد تختۂ مشق بنا ہوا ہے۔ گوڈسے کے ہم خیال پارلیمنٹ سے لے کر اس کے باہر قدم قدم پر نظر آتے ہیں۔ ابھی سماج وادی پارٹی کی راج سبھا رکن مشہور اداکارہ جیا بچن نے حیدرآباد واقعے پر تقریر کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ایسے ملزمین کی لوگوں کو چوک چوراہے پر جان لے لینی چاہیے۔ اگلے ہی دن پولیس نے ان کی جان لے لی۔ یہ انکائونٹر سچ ہے یا جھوٹ، یہ تو پتا نہیں معلوم بھی ہو پائے گا یا نہیں؟ پولیس کئی بار حکومت یا عوامی جذبات کے مطابق اپنا کام سادھنے میں یدِ طولیٰ رکھتی ہے۔
آج ہندستان میں ہر کونے میںبد امنی اور بے چینی ہے۔ جے۔ این۔یو۔ میں طلبا لاٹھی کھا رہے ہیں اور دلی یونی ورسٹی میں اساتذہ کی پٹائی ہورہی ہے۔ بنارس ہندو یونی ورسٹی میں بہ زورِ بازو دبنگ طالب علم یونی ورسٹی میں فیصلے بدلوالیتے ہیں۔ مکیش امبانی جب جیسا چاہیے پارلیمنٹ اور کابینہ سے اپنے من مطابق فیصلے کرالیں۔ پارلیمنٹ میں شب خونی فیصلے ہوتے ہیں اور ضدی انداز میں وزیر داخلہ یا وزیر اعظم قانون بنانے کے درپے ہوتے ہیں ۔ یہ جمہوری ملک کا طور نہیں اور نہ ہی یہ ایسا ملک اور قانون ہے جس کے لیے ہمارے بزرگوں نے اپنے خون بہائے تھے۔ حکومت سلجھے ہوئے انداز سے اور ایک متوازن تصور کے ساتھ چلتی ہے اور حکومت چلانے والوں کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پہلے بھی منتخب افراد نے ہی حکومت چلائی اور ان کے بعد بھی عوام کے انتخاب کے نتیجے میں جو اکثریتی پارٹی ہوگی، اسے ہی سرکار بنانی ہے۔ ایسے میں خیالات کا ایک تسلسل اور کام کرنے کا ایک سلسلہ نہیں ہوگا تو ڈھچکے لگیںگے۔ کبھی کبھی زیادہ ڈھچکے لگتے ہیں تو رسی ٹوٹ جاتی ہے۔ ابھی ملک کے سامنے جو رکاوٹیں نظر آرہی ہیں، اگر بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنا راستہ نہیں بدلا تو یہ ملک خانہ جنگی کے راستے پر بڑھ جائے گا۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ممکن ہے اس میں قتل و خون اور جنگ و جدال کا سلسلہ اور بڑھ جائے۔ مگر تب لوگ حکومت اکھاڑ پھینکیںگے۔ نریندر مودی اور امت شاہ کو اپنے آس پاس چند غیر منسلک افراد کو رکھنا چاہیے جو انھیں ملک کی سچی صورت حال کو بتا سکیں یا ان کی آنکھوں پر پڑے پردوں کو ہٹا سکیں ۔ ورنہ ووٹ دینے والی قوم پچھتا تے پچھتاتے ایک دن بغاوت کے راستے تک پہنچ جائے گی۔ ہمیں ان خطروں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
احمدالیاس نعمانی
کیب يعنی Citizenship amendment bill ہماری پارلیمنٹ میں عنقریب پیش کیا جانے والا ایک بل ہے، اس بل کے مطابق پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے ہجرت کرکے آنے والے تمام غیر مسلم افراد کو ہندوستان کی شہریت حاصل ہوگی، جب کہ مسلمانوں کو نہیں ہوگی۔
اس کی خطرناکی کا اصل پہلو یہ ہے کہ آسام میں ہونے والی این آر سی میں جو 19 لاکھ سے زائد افراد غیر ملکی قرار دیے گئے ہیں ان میں سے تقریبا 14 لاکھ ہندو ہیں جنہیں اس بل کے پاس ہونے کے بعد ملک کی شہریت مل جائے گی، جب کہ 5 لاکھ کے قریب جو مسلمان ہیں ان کو شہریت نہیں ملے گی، وہ اس ملک میں غیر ملکی ہوں گے، یعنی انہیں ان کی زمینوں، جائیدادوں اور مکانوں سے بالجبر بے دخل کردیا جائے گا اور لے جاکر ڈٹنشن سینٹرز میں داخل کردیا جائے گا جہاں وہ اور ان کی اگلی نسلیں نہ جانے کب تک جیل سے بدتر حالت میں رہنے پر مجبور ہوں گی۔
یہ تو آسام کے پس منظر میں اس کی خطرناکی ہے، اگر حکومت کےارادے کے مطابق پورے ملک میں این آر سی ہوا تو لاکھوں نہیں کروڑوں ہندوستانی مسلمانوں کو اسی آفت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، جن میں ہم آپ بھی ہوسکتے ہیں۔
یعنی اس بل کا مقصد بس یہ ہے کہ ظالمانہ این آر سی کی زد پر صرف مسلمان آئیں، ہندووں کو صاف بچالیا جائے۔
اگر یہ بل پاس نہ ہوسکا تو چونکہ این آر سی کی زد پر مسلمانوں سے کہیں زیادہ ہندو آجائیں گے (جیسا کہ آسام میں ہوا) اس لیے این آر سی یقینا ٹل جائےگا۔ این آر سی کا سارا طوفان مسلم دشمنی ہی میں تو اٹھایا گیا ہے، کیب اسی کا راستہ صاف کرنے کی ایک کوشش ہے، جسےناکام بنانا ہر حال میں بہت ضروری ہے۔
ایک سوال یہ ہے کہ کیا کیب کو پاس ہونے سے روکا جاسکتا ہے؟ اس سوال کا جواب ہے: جی ہاں، اسے روکا جاسکتا ہے۔ اس کا آسان اور فطری طریقہ تو یہ تھا کہ اس بل کے خلاف ایسی لابنگ کی جائے کہ یہ راجیہ سبھا میں پاس نہ ہوسکے۔ یہ کچھ مشکل کام نہیں ہے، ماضی قریب میں ہی ہم نے دیکھا تھا کہ طلاق سے متعلق بل جب پہلے پیش ہوا تو پرسنل لا بورڈ کے بعض افراد نے اس کے خلاف لابنگ کی تو یہ بل پاس نہ ہوسکا، لیکن پھر جب دوبارہ پیش ہونے پر لابنگ نہیں کی گئی تو یہ پاس ہوگیا۔
لیکن چونکہ یہ لابنگ کا کام ملی تنظیموں کے ذریعہ ہونا تھا اور افسوس کہ وہ مہر بلب ہیں بلکہ ان میں سے ایک تنظیم کے ذمہ داران تو کھلے عام این آر سی کی حمایت کر چکے ہیں اس لیے اب راجیہ سبھا میں موجود اپوزیشن کے ممبران کو یہ احساس دلانا ضروری ہے کہ تمام مسلمانوں کی نگاہ آپ پر ہے، اگر آپ نے اس بل کی صاف حمایت کی، یا واک آوٹ اور غیر حاضر رہ کر اس ظالمانہ بل کی درپردہ حمایت کی تو سمجھ لیجیے کہ آپ کی پارٹی کو ہمارا ووٹ کبھی نہیں ملے گا، ہم آپ کو اپنے بدترین دشمنوں میں شمار کریں گے، یقین جانیے کہ اگر امت یہ احساس دلانے میں کامیاب ہوگئی تو ان شاء اللہ یہ بل پاس نہ ہوسکے گا، جیسے طلاق کا بل پہلی مرتبہ ناکام ہوا تھا، لیکن اگر امت نے آواز بلند نہ کی، شور نہ مچایا تو سمجھ لیجیے کہ لاکھوں یا کروڑوں مسلمانوں کی زمینیں اور مکانات ضبط ہوں گے اور وہ ڈٹنشن سینٹرس نامی بدترین جیل میں ہوں گے۔
سوشل میڈیا کے اس زمانے میں تنظیموں کے خاموش رہنے کے باوجود بھی شور مچانا اور اپنی فکر وناراضگی کا احساس دلانا کچھ مشکل نہیں اگر ہم باشعور ہوں۔
سوشل میڈیا سے ہی شور مچالیجیے، ہنگامہ کردیجیے، بعض اپوزیشن پارٹیز کچھ سرگرم ہورہی ہیں، آپ کی آواز ان کو اور زیادہ مخالفت پر آمادہ کرے گی۔ یہ وقت کا سب سے بڑا اور فوری توجہ طلب کام ہے، کم از کم اتنا تو کریے کہ اس بل کے خلاف ایک مختصر سی تحریر ہی سہی، چند جملے ہی سہی لکھ کر فیس بک یا ٹویٹر وغیرہ پر پوسٹ کیجیے، اپنے جاننے والوں کو اس بل کی خطرناکی سے آگاہ کیجیےاور ان سے بھی کچھ کہنے، لکھنے اور بولنے کی درخواست کیجیے۔