مسعود جاوید
ملی تنظیموں کے کاموں میں ازدواجیت duplication کیوں ہے ؟
دہلی کے فساد زدہ علاقوں میں ١٩ مساجد کی نہ صرف بے حرمتی کی گئی بلکہ ان مسجدوں میں آگ زنی اور توڑ پھوڑ سے عمارتوں کو نقصان بھی پہنچایا گیا۔ ان کی مرمت کے لئے اٹھ کھڑا ہونا ضروری بھی تھا اور ملت اسلامیہ کی غیرت و حمیت کا تقاضہ بھی۔ اس کے لئے جو تنظیمیں اور افراد سامنے آئے ہیں وہ بلاشبہ قابل ستائش ہیں ۔
مگرایک طرف دہلی وقف بورڈ نے دہلی کے فساد زدہ علاقوں میں ٥ متاثرہ مساجد کی مرمت کا کام شروع کرانے کا اعلان کیا ہے وہیں دوسری طرف جمعیت نے بھی بینر لگا کر بعض مساجد کی مرمت کا کام شروع کیا ہے۔ اسی طرح ریلیف کے کاموں میں مختلف تنظیمیں کام کر رہی ہیں مختلف تنظیموں اور افراد کی طرف سے چندے کی اپیل کی جا رہی ہے۔ یہ کار خیر ہے اللہ انہیں جزاۓ خیر سے نوازے ۔ مگرکیا یہ بہتر نہیں ہوتا کہ مختلف تنظیمیں اور ورک گروپس اپنی اپنی سرگرمیوں کے حدود اربعہ اور job description طے کریں اور اسی مخصوص کام میں سرگرم رہیں ؟
حالیہ فساد کی نوعیت بتاتی ہے کہ یہ روایتی فرقہ وارانہ فسادات سے مختلف منظم حملے تھے جس میں نشانے بر نہ صرف جان بلکہ عبادتگاہیں اور معاشی ذرائع بھی تھے۔ایسی تباہ کاریوں کی باز آبادکاری کے لئے مختلف جہتوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے :
١- زخمیوں کا فوری مناسب اور مکمل علاج
٢- جن زخمیوں کے کاندھوں پر گھر کے اخراجات کی ذمہ داریاں تھیں ان کی مکمل شفایابی تک ان کنبوں کی کفالت-
٣- حکومت سے معاوضہ/ امداد حاصل کرنے کے لئے ان کی کاغذی کارروائی میں معاونت-
٤- گرفتار ہونے والوں کو قانونی امداد بہم پہنچانا-
٥- جو متاثرین اپنے گھروں کو چھوڑ کر کیمپوں یا دیگر محفوظ مقامات پر پناہ لۓ ہوئے ہیں ان کی اپنے گھروں کو واپس جانے کے لئے کاؤنسلنگ اور ان کے غیر مسلم پڑوسیوں کے ساتھ بھائی چارگی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی میٹنگ کا انعقاد-
٦- جن کی دکان ریہڑی ٹھیلے بیٹری رکشے فساد کے دوران تباہ کر دیے گۓ ان کو رقم دے کر دوبارہ شروع کرانا-
٧- فساد زدہ علاقوں کے بچوں کے اسکولوں میں جاکر مسلم اور غیر مسلم بچوں کے درمیان دوستی کرانے اور جو کچھ ہوا اسے بھول کر نارمل زندگی بسر کرنے کی تلقین کرانا اور سنجیدہ اساتذہ سے از سر نو بہتر ماحول بنانے کی درخواست کرنا۔
اگر اس طرح محدود متعین ذمے داریوں کے ساتھ کام کیا جائے تو انشاءاللہ بہت موثر اور اچھا نتیجہ برآمد ہوگا اور مستقبل کے لئے ایک پیٹرن اور مجرب میکانزم کے طور پر لیا جائے گا۔
ہر شخص اور ہر جماعت و جمعیت متاثرین کے لئے اشیاے خوردونوش اور کپڑے مہیا کرانے میں کیوں مصروف ہے؟ رضاکارانہ کام کرنے والے ایک میٹینگ کر کے اپنے اپنے expertise اختصاصات کے مطابق کام بانٹ کیوں نہیں لیتے ؟
میری طرح شاید آپ کو بھی یہ سوال پریشان کرتا ہوگا کہ ہر جماعت، جمعیت ، اور این جی اوز سیلاب سے متاثرین لوگوں کے لئے ریلیف کے کام میں اتنی دلچسپی کیوں لیتی ہے؟ آفات ناگہانی کے وقت امداد پہنچانے کی سعی بلا شک قابل ستائش ہے لیکن اسی وقت ساری تنظیمیں کیوں متحرک ہوتی ہیں؟ کیا باقی کے دنوں میں ملت کے مسائل کم درجہ کے ہوتے ہیں؟
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)