وزیر اعظم مودی اگرچہ رام لیلا میدان سے یہ اعلان کرچکے ہیں کہ ان کی حکومت این آر سی پر غور نہیں کر رہی ہے، لیکن ان کے وزیر داخلہ امت شاہ اپنے پارلیمانی وغیرپارلیمانی بیانات کے ذریعے این آر سی کے نفاذ پر اصرار کرتے آئے ہیں۔ حکومت این آر سی کے پہلے قدم این پی آر کے نفاذ کا اعلان کرچکی ہے۔ ملک بھر میں مظاہرے ہو رہے ہیں اور فاشسٹ تنظیمیں اپنے تمام تر وسائل اس پورے قضیے کو مسلمان بنام حکومت بنانے کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ 9 اگست 2019 کو ہم نے این آر سی کے تعلق سے ایک تفصیلی تحریر لکھی تھی، جس کو کچھ لوگوں نے افواہ اور ڈر پھیلانے کا الزام لگاکر مسترد کردیا تھا۔ ہم نے اپنی اُس تحریر کا آغاز اس دعا سے کیا تھا کہ خدا کرے جو کچھ ہم لکھ رہے ہیں وہ کبھی سچ ثابت نہ ہو۔ اِس تحریر کا آغاز بھی میں اسی دعا کے ساتھ کرنا چاہوں گا کہ اللہ تعالی مسلمانان ہند کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور کبھی ان کو مصیبتوں میں گرفتار نہ کرے۔
کچھ باتیں ناگوار ہونے کے باوجود ایسی ہوتی ہیں کہ اگر ان کا تحلیل وتجزیہ نہ کیا جائے، تو حقیقی صورتحال کا ادراک نہیں ہوپاتا۔ ایک بڑی تعداد اب اس بات کو تسلیم کرنے لگی ہے کہ اگر این آر سی ملک میں نافذ ہوتا ہے، تو لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگ حق شہریت سے محروم ہوسکتے ہیں، جس کے نتیجے میں ان کو جائیدادوں سے بے دخل کیا جا سکتا ہے، ملازمتوں سے برطرف کیا جاسکتا ہے اور ڈٹینشن کیمپس میں بھی ڈالا جاسکتا ہے۔ جو لوگ ان خدشات کو آج بھی افواہ تسلیم کرتے ہیں، انہیں بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس پورے قصے میں جس لفظ کا ذکر نہیں ہے وہ ہے نسل کشی۔ این آر سی نافذ ہونے کی صورت میں نسل کشی فوری شروع نہیں ہوگی، بلکہ گزشتہ سو سال میں ہونے والی مختلف نسل کشیوں کی تاریخ پر نظر ڈالیں، تو ظالم معاشرہ مظلوموں پر ظلم کی بنیاد پڑنے کے تیس سال کے آس پاس حملہ آور ہوتا ہے اور کمزوروں کی نسل کشی کر دیتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ ظلم وستم کا سلسلہ مختلف شکلوں میں جاری رہتا ہے۔ گزشتہ سو سال میں ہونے والی تین بڑی نسل کشیوں کو ہم بطور مثال پیش کر سکتے ہیں:
1- زار روس کی موت کے بعد ولادیمیرلینن نے سوویت یونین کی بنیاد رکھی۔ زار کی موت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یوکرین نے روس سے اپنی آزادی کا اعلان کر دیا تھا۔ لینن نے 917 میں یوکرین پر دوبارہ قبضہ کی مہم کا آغاز کیا اور تین چار سال کی جدوجہد کے بعد قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ 1924 میں لینن کے مرنے کے بعد اسٹالن اس کا جانشین بنا۔ اس ظالم حکمران کو یہ برداشت نہیں تھا کہ اس کے ماتحت علاقوں میں کسی بھی طرح کی آواز اس کے خلاف اٹھے۔ چنانچہ 1929 میں اس نے پانچ ہزار سے زائد یوکرینی پروفیسرز، سائنس داں، ماہرین تعلیم اور مذہبی قائدین کو گرفتار کرلیا اور ان کی بڑی تعداد کو بغیر کسی مقدمے کے قتل کر دیا گیا یا باقی بچ جانے والوں کو ڈیٹینشن کیمپس میں بھیج دیا گیا۔ یوکرین کی 80 فیصد آبادی زراعت پیشہ تھی۔ ان کسانوں میں کچھ ایسے بھی تھے جن کی ملکیت میں 24 ایکڑ سے زائد زمینیں تھیں اور یہ لوگ نسبتا امیر تھے۔ یوکرین میں ان لوگوں کو "کُلاک” کہا جاتا تھا۔ اسٹالن کو یہ خدشہ تھا کہ زمین داروں کے اسی طبقے کے ذریعے دوبارہ بغاوت ہو سکتی ہے، لہذا اس نے اس طبقہ کے افراد کو تمام انسانی اور شہری حقوق سے محروم کردیا۔ ان کو سرکاری طور پر "عوام دشمن” اور "ملک دشمن” قرار دیا گیا، ان کی نسل کشی کی گئی اور بچ جانے والوں کو سائبیریا کے جنگلات میں قائم ڈیٹینشن سینٹرز میں بند کردیا گیا۔ اسٹالن کے ذریعے کی جانے والی اس نسل کشی میں سات لاکھ لوگوں نے اپنی جانیں گنوائیں۔ ظلم کی بنیاد پڑنے کے بارہ سالوں بعد یہ نسل کشی ہوئی۔
2- سنہ 1933 میں، دس سالہ سیاسی جدوجہد کے بعد ہٹلر نے جرمنی کا اقتدار سنبھالا۔ یہودی اس ملک میں صدیوں سے رہتے چلے آرہے تھے، وہ اپنے آپ کو وطنی اعتبار سے جرمن اور مذہبی اعتبار سے یہودی قرار دیتے تھے۔ انہوں نے اپنے ملک کے لیے دوسرے جرمنوں کے شانہ بشانہ قربانیاں بھی دیں تھی۔ لیکن ہٹلر نے نسل پرستی کا سہارا لیکر اقتدار پر قبضہ کیا اور انیس سو پینتیس میں نوریمبرگ لا ملک میں نافذ کردیا، جس کے نتیجے میں یہودیوں کی جرمن شہریت چھین لی گئی، غیر یہودیوں کے ساتھ ان کے شادی بیاہ کو غیر قانونی قرار دیا گیا، فوج اور پولیس کی ملازمتوں سے ان کو نکالا گیا، اسکولوں اور کالجوں سے بھی ان کو محروم کر دیا گیا۔ اس عرصے میں یہودیوں کے خلاف ہٹلر کے وزیر جوزف جوبیلس نے جرمنی میں پروپیگنڈا مہم شروع کی، ان کو جرمنوں کا دشمن اور ملک کا غدار قرار دیا گیا۔ اخبارات میں یہود مخالف مضامین شائع ہونے لگے، جگہ جگہ ان کے خلاف پوسٹرز لگنے لگے، جرمن فلم انڈسٹری بھی ان کے خلاف میدان میں آگئی، فلموں میں ان کو ملک دشمن دکھایا جانے لگا اور آخرکار اسکولوں کا نصاب بھی بدل دیا گیا۔ انیس سو انتالیس میں ہٹلر نے اپنے زیر نگیں علاقوں میں کانسنٹریشن کیمپس کی تعمیر کا حکم دیا اور 1942 سے سرکاری فوجیوں نے بڑے پیمانے پر یہودیوں کا قتل عام کرنا شروع کردیا۔ لاکھوں کی تعداد میں ان کو کانسنٹریشن کیمپس میں لایا جاتا اور گیس چیمبرز میں بند کرکے ہلاک کردیا جاتا۔ ان کی ہلاکت پر نفرت کے پروپیکینڈے سے متاثر جرمنوں میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی۔ یہودیوں سے جرمنی کی شہریت چھینے جانے کے سات سال کے بعد ان کی نسل کشی کی گئی۔
3- برما نے انیس سو بیاسی میں سٹیزن شپ قانون ملک میں متعارف کرایا اور روہنگیا مسلمانوں کو شہریت سے محروم کردیا۔ اس قانون سے پہلے بھی روہنگیا کوئی اچھی حالت میں نہیں تھے۔ دو سے زائد بچے پیدا کرنا قانونا جرم تھا، ان کی بہت سی زمینیں چھین لی گئیں تھی اور ان کی ایک بڑی تعداد کو صفائی کرمچاری قرار دے دیا گیا تھا۔ لیکن 1982 کے شہریت قانون کے بعد ان پر ظلم میں اضافہ ہوا اور دو ہزار سترہ میں ان کی نسل کشی شروع ہوگئی، خواتین کی اجتماعی عصمت دری کی گئی، گھروں کو مسمار کردیا گیا اور روہنگیا کی پوری نسل کو ملک دشمن قرار دے دیا گیا۔ اس ظلم میں برمی فوج کے ساتھ مقامی بودھ آبادی نے بھی پورا حصہ لیا۔ مقامی لوگوں کو یہ لالچ تھا کہ روہنگیا کے خاتمہ کے بعد ان کی زمینیں مقامی لوگوں کے ہی قبضے میں آنی ییں۔ روہنگیا کے خلاف نسل کشی ظلم کی بنیاد پڑنے کے 35 سال کے بعد شروع ہوئی۔
ان تین مثالوں سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ نسلی یا مذہبی آبادی کی شہریت ختم کرنے کے فورا بعد اس کی نسل کشی کا آغاز نہیں ہوا، بلکہ چند سالوں تک اکثریتی آبادی میں نفرت کا پروپیگنڈا کرکے پہلے ماحول بنایا گیا اور پھر مقصد کو انجام دیا گیا۔ نسل کشی اچانک نہیں ہوتی ہے، بلکہ فاشسٹ طاقتیں اس کے لیے اسٹیج تیار کرتی ہیں، اس کے پیچھے کئی سالوں کی محنت ہوتی ہے، تب جاکر نسل کشی کا جرم انجام دیا جاتا ہے۔
"جینوسائڈ واچ” نامی ادارے کے صدر ڈاکٹر جارج اسٹانٹن نے نسل کشی کے دس ادوار لکھے ہیں۔ ذیل میں مختصراً ان ادوار کو بھارت کی موجودہ صورت حال سے موازنہ کرکے ذکر کیا جاتا ہے۔ آپ ان ادوار کو غور سے پڑھیے اور خود فیصلہ کیجیے کہ بھارت اس وقت کہاں کھڑا ہے۔ کیا نسل کشی محض ایک فریب ہے یا واقعی ایک خوفناک امکان ہے۔ یہ ادوار کچھ اس طرح ہیں:
1- کلاسیفیکیشن: ملک کے عوام کو نسلی، لسانی اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم کیا جاتا ہے، "ہم اور وہ” کے درمیان آبادی کو بانٹ دیا جاتا ہے، نسل کشی کی طرف یہ پہلا قدم ہے۔
بھارت میں یہ تقسیم یوں تو بہت پرانی ہے، لیکن آزادی کے بعد سے اب تک اس تقسیم میں شدت ہی پیدا ہوئی ہے۔
2- سمبلائزیشن: یہ نسل کشی کی طرف دوسرا قدم ہے، اس درجے میں آکر مختلف نسلی اور مذہبی گروہوں کے مختلف لباس اور رنگ متعین ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ یہ چیز فطری ہیں اور یہ ضروری نہیں ہے کہ الگ رنگ ولباس کا نتیجہ نسل کشی ہی ہو، لیکن جب رنگ ولباس سے اچھے اور برے کی پہچان ہونے لگے تو سمجھ لیجیے کہ نسل کشی کی طرف دوسرا قدم اٹھا لیا گیا ہے۔
کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں ہے، ملک کے وزیراعظم نے حال ہی میں توڑ پھوڑ کرنے والوں کو ان کے لباس سے پہچاننے کی بات کہی ہے۔
3- ڈسکریمنیش: یعنی نسلی امتیاز۔ غالب گروہ اقلیتوں کے معاشرتی اور قانونی حقوق رفتہ رفتہ چھیننا شروع کردیتا ہے۔ حتی کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ مغلوب گروہ کی شہریت بھی سلب کرلی جاتی ہے، جس سے ان پر ظلم وستم کی راہ ہموار ہوجاتی ہے۔ بھارت میں چند ماہ کے اندر، طلاق ثلاثہ کے خلاف قانون لاکر شریعت میں مداخلت کا راستہ کھول دیا گیا، بابری مسجد کو اکثریتی معاشرے کی تسلی کی خاطر عدالتی نظام کے تحت چھینا گیا، یکساں سول کوڈ کسی بھی وقت لایا جاسکتا ہے، این آر سی اور این پی آر کے ذریعے شہریت چھینے جانے کا آغاز ہوچکا ہے۔ آسام میں بہت سے بھارتیوں کی شہریت پہلے ہی ختم کی جاچکی ہے۔
4- ڈی ہیومنائزیشن: اس درجے پر آکر غالب گروہ مغلوب کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرنا شروع کردیتا ہے۔ مغلوب گروہ کو جانور کے برابر سمجھ لیا جاتا ہے اور ان کو معاشرے کا ناسور اور کینسر تصور کیا جاتا ہے۔ اس پروپیگنڈے کو بڑھاوا دینے کے لیے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بھی سرگرم ہوجاتا ہے۔
اس اصول کا بھارت کے موجودہ حالات سے موازنہ کیجیے۔ گائے کے مقابلے ایک مسلمان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اب تک سینکڑوں لوگوں کو ایک جانور کی وجہ سے ہجومی تشدد کے ذریعے ہلاک کردیا گیا۔ میڈیا میں کھلم کھلا یہ کہا جارہا ہے کہ اگر گائے کا احترام نہیں کرسکتے تو جاؤ پاکستان۔ اکثریت کو اقلیت کے خلاف غیر انسانی سلوک پر بھڑکانے کے لیے میڈیا مکمل طور پر سرگرم عمل ہے اور کھلم کھلا مسلمانوں کو ذلیل کیے جانے کا عمل دن رات جاری ہے۔
5- آرگنائزیشن: نسل کشی ہمیشہ منظم ہوتی ہے، اس کے لیے کبھی حکومت کھل کر میدان میں آجاتی ہے اور کبھی ملیٹنٹ گروہوں کا سہارا لیا جاتا ہے اور ان کو تیار کیا جاتا ہے۔ جارج اسٹانٹن کے مطابق دارفور میں سوڈانی فوج کے ذریعے "جنجاویڈ” نامی گروپ کا اسی لیے استعمال کیا گیا۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ بھارت میں آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کو بھی مختلف مواقع پر حکومتی سرپرستی حاصل رہی ہے۔
یہ واضح رہے کہ دو ہزار سترہ میں سی آئی اے نے بجرنگ دل کو ملیٹنٹ گروپ قرار دیا ہے اور حالیہ مظاہروں کے بعد پولیس ایکشن میں بجرنگ دل نیز آر ایس ایس کے کارندوں کی بربریت اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہ گئی ہے۔
6- پولرائزیشن: اس اسٹیج پر اکثریت اور اقلیت کے تعلقات کو بری طرح سے مجروح کیا جاتا ہے، بین المذاھب شادیوں پر پابندی عاید کی جاتی ہے، اکثریتی سماج کی معتدل شخصیات کو نشانہ بنایا جاتا ہے، ان کو گرفتار یا قتل کردیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اقلیتی سماج کی لیڈر شپ کو ختم کیا جاتا ہے۔
بھارت میں گوری لنکیش اور ان جیسی بہت سی آوازوں کو دبایا جارہا ہے۔ جن کو قتل نہیں کیا جاسکتا، ان پر مقدمات قائم کیے جارہے ہیں۔ مسلم لیڈر شپ اولا تو موجود نہیں ہے اور جو ہے، اس کا نمبر ابھی نہیں آیا ہے، کیوں کہ اکثریتی سماج میں ابھی بہت سی معتدل اور انصاف پسند آوازیں باقی ہیں جو فاشسٹ طاقتوں کے نشانے پر ہیں۔
7- پرپریشن: اس مرحلے میں نسل کشی کی ٹریننگ ہوتی ہے، لوگوں کو ہتھیار چلانے کی مشق کرائی جاتی ہے، ان کو یہ بتایا جاتا ہے کہ آخری حل یہی ہے۔ جرمنوں میں یہود کے خلاف فائنل سلوشن کی صدا بلند کی گئی تھی۔ لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ اگر ہم نے یہ قدم نہیں اٹھایا تو ہم ختم ہوجائیں گے۔
بھارت میں ہتھیار چلانے کی ٹریننگ کس تنظیم کے افراد منظم طریقے سے حاصل کررہے ہیں، یہ بتانے اور ثابت کرنے کی اب ضرورت نہیں ہے۔ ان فاشسٹ طاقتوں کی طرف سے یہ بتایا جارہا ہے کہ مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے اور دوہزار پچاس تک مسلمان اکثریت میں آجائیں گے۔ سی اے اے نامی قانون کے ذریعے اکثریت کو یہ میسج دیدیا گیا کہ جن ملکوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں انھوں نے اقلیتوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے ہیں، پاکستان میں آزادی کے وقت تیئیس فیصد ہندو تھے جو اب صرف تین فیصد رہ گئے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ مشہور جرنلسٹ پرسوں واچپئ کے مطابق آر ایس ایس حلقوں میں یہ بات عام ہے کہ ہندو راشٹر کا قیام اگر ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔
8- پرسیکیوشن: یعنی اقلیتی گروہ کو سب سے پہلے اکثریتی سماج سے ممتاز کردیا جاتا ہے، ان کے علاقے الگ کردیے جاتے ہیں، اپنے علاقوں میں ان کو جگہ نہیں دی جاتی ہے، بلکہ اقلیتی برادری کے لوگوں کی زمینیں اور جائدادیں ضبط کرلی جاتی ہیں، ان کو ڈٹینشن یا کانسنٹریشن کیمپس میں ڈال دیا جاتا ہے۔
بھارت میں اقلیتیں اپنے لباس اور بہت سی معاشرتی خصوصیات کی بنا پر پہلے ہی ممتاز ہیں۔ تقریبا ہر شہر میں مسلم آبادی الگ ہے۔ مسلمانوں کو اکثریتی علاقوں میں رہنے کے لیے مکانات مشکل ہی سے ملتے ہیں۔ مختلف صوبوں میں ڈٹینشن کیمپس کی تعمیر جاری ہے۔ آسام میں بہت سے لوگوں کو پہلے ہی ڈٹینشن کیمپ میں ڈالا جاچکا ہے۔
9- ایکسٹرمنیشن: یعنی اس مرحلے پر آکر قتل عام شروع ہوتا ہے، جس کو عالمی قانون کی زبان میں نسل کشی کہا جاتا ہے۔ عورتوں کا ریپ کیا جاتا ہے، لاشوں کی بے حرمتی کی جاتی ہے، اس مرحلے پر فوج بھی ملیٹنٹ گروپس کے ساتھ مل جاتی ہے اور اقلیتوں کے خلاف غیر انسانی سلوک کرتی ہے اور لاکھوں لوگوں کو قتل کردیتی ہے اور ان کی لاشوں کو اجتماعی قبروں میں ڈال دیا جاتا ہے۔
10- ڈینایل: یعنی انکار۔ عموما مندرجہ بالا تمام مراحل میں اور خصوصا نسل کشی کے بعد حکومت کی طرف سے انکار کیا جاتا ہے کہ کسی بھی قسم کی نسل کشی سر زد ہوئی ہے۔ حکومت آزادانہ انکوائری میں رکاوٹ بنتی ہے اور کبھی اپنا جرم تسلیم نہیں کرتی۔ وہ امتیازی قانون بناتی بھی ہے اور اس کو تسلیم بھی نہیں کرتی ہے۔
آپ سی اے اے کو ہی دیکھ لیجیے کہ یہ واضح طور پر ایک امتیازی قانون ہے، لیکن حکومت اس کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
یہ دس ادوار ہمارے خود ساختہ نہیں ہیں، بلکہ ڈاکٹر جارج اسٹانٹن کی ریسرچ کا حصہ ہیں، البتہ ہم نے بھارت کے حالات سے موازنہ کرکے کچھ اضافات ضرور کیے ہیں۔ آپ خود اندازہ لگائیے کہ ہم ان دس ادوار میں سے کس دور میں چل رہے ہیں۔ جس طرح فاشسٹ طاقتوں کے لیے یہ صورت حال "ابھی نہیں تو کبھی نہیں” کا مصداق ہے، ملک کے انصاف پسند لوگوں اور اقلیتوں کے لیے بھی "کرو یا مرو” جیسی صورت حال ہے۔ اگر کچھ لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ سی اے اے کا ملک کے مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے کیوں کہ وزیر اعظم بھی زور دیکر یہ بات کہہ چکے ہیں، تو ایسے لوگ یا تو خواب خرگوش میں گرفتار ہیں، یا اپنے پرانے کرپشن اور دنیوی مفادات کی وجہ سے "مجبور” ہیں۔ آج اگر ملک خاموش بیٹھ گیا اور این پی آر کا عمل شروع ہوگیا تو حالات آئندہ چند سالوں میں کیا ہوں گے، اس کا اندازہ ان سطور کے پڑھنے کے بعد بآسانی لگایا جاسکتا ہے۔ لیکن میری دعا یہی ہے کہ خدا کرے کہ میں غلط ہوں، خدا کرے کہ میں غلط ہوں، خدا کرے کہ میں غلط ہوں۔