نئی دہلی:ہندوستان میں کورونا وائرس کے 80472 نئے کیسز کے بعد بدھ کے روز ملک میں متاثرہ افراد کی کل تعداد بڑھ کر 62 لاکھ سے زیادہ ہوگئی۔ وہیں صحت مند ہونے والے افراد کی تعداد بھی 5187825 ہوگئی ہے، جس سے صحت یابی کی شرح 83.33 فیصد ہوگئی ہے۔وزارت صحت کے مطابق ملک میں کل کیسزبڑھ کر 6225763 ہو گئے جبکہ مزید1179 افراد کی ہلاکت کے بعد اموات کی تعداد 97497 ہوگئی۔ان اعدادوشمار کے مطابق اس وقت ملک میں 940441 مریض زیر علاج ہیں، جو کل کا کیسز کا 15.11 فیصد ہے۔ ملک میں کورونا وائرس سے اموات کی شرح 1.57 فیصد ہے۔ ہندوستان میں 7 اگست کو کورونا کیسز 20 لاکھ، 23 اگست کو 30 لاکھ، 5 ستمبر کو 40 لاکھ، 16 ستمبر کو 50 لاکھ اور 28 ستمبر کو 60 لاکھ کو عبور کرچکے تھے۔انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم آر) کے مطابق ملک میں 29 ستمبر تک مجموعی طور پر 74196729 نمونوں کا ٹیسٹ کیا گیا تھا، جن میں سے 1086688 نمونوں کا منگل کو ٹیسٹ کیا گیا تھا۔اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں مرنے والے 1179 افراد میں سے 430 افراد مہاراشٹرا سے تھے۔ اس کے علاوہ کرناٹک سے 136، پنجاب کے 75، تمل ناڈو سے 70، اترپردیش کے 63، مغربی بنگال سے 62، دہلی سے 48، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ سے 39 اور آندھرا پردیش کے 35 افراد شامل تھے۔وزارت کے مطابق ملک میں اب تک مجموعی طور پر 97497 افراد وائرس کی وجہ سے ہلاک ہوچکے ہیں۔ مہاراشٹرا میں سب سے زیادہ 36181 اموات ہیں۔ اس کے بعد تمل ناڈو میں 9453 افراد، کرناٹک میں 8777، آندھرا پردیش میں 5780، اتر پردیش میں 5715، دہلی میں 5320، گجرات میں 3439، پنجاب میں 3359، اور مدھیہ پردیش میں 2281 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔وزارت صحت نے بتایا کہ انفیکشن سے مرنے والے 70 فیصد سے زیادہ مریض دیگر بیماریوں میں بھی مبتلا ہیں۔
کورونا وائرس
نئی دہلی:ملک میں کورونا کا قہر مسلسل بڑھ رہا ہے۔ گزشتہ کچھ دنوں سے روزانہ 85000 سے زیادہ کورونا کیسز رپورٹ ہورہے ہیں۔ اس دوران ہندوستان میں کورونا ٹیسٹنگ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ملک میں گذشتہ 9 دنوں میں 1 کروڑ ٹیسٹ کیے گئے ہیں۔ ہندوستان امریکہ کے بعد دنیا کا دوسرا سب سے زیادہ ٹیسٹ کرنے والا ملک ہے۔ تاہم ہندوستان کی آبادی کو دیکھتے ہوئے فی دس لاکھ ٹیسٹ کے حساب سے ٹیسٹوں کی تعداد بہت کم ہے۔ہفتہ کو وزارت صحت کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 85362 نئے کیسز درج ہوئے ہیں۔ اب تک مجموعی طور پر 5903932 کیسزرپورٹ ہوئے ہیں۔ وہیں گذشتہ 24 گھنٹوں میں 1089 مریض کورونا سے ہلاک ہوئے جبکہ اب کل تک 93379 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ جن پانچ ریاستوں میں گذشتہ 24 گھنٹوں میںسب سے زیادہ نئے کیسزدرج ہوئے ہیں ان میں مہاراشٹر پہلے نمبر پر ہے۔ مہاراشٹرا میں کورونا کے 17794 نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ اس کے بعد آندھرا پردیش میں 7073، کرناٹک8655 ،تمل ناڈو میں 5,679، اوراتر پردیش میں 4,256 کیسز درج کیے گئے ہیں۔ اسی طرح گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مہاراشٹرا میں سب سے زیادہ 416 مریض ہلاک ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ کرناٹک میں 86، اترپردیش میں 84، تمل ناڈو میں 72 اور پنجاب میں 68 اموات ہوچکی ہیں۔
نئی دہلی:ہندوستان سمیت دنیا بھر میں 180 سے زیادہ ممالک میں کورونا وائرس قہر جاری ہے ۔ اب تک 3.25 کروڑ سے زیادہ لوگ اس کا شکار ہوچکے ہیں۔ اس وائرس نے 9.88 لاکھ سے زیادہ افراد کو اپنی زد میں لیا ہے۔ یہاں تک کہ ہندوستان میں کورونا کیسز روزانہ بڑھ رہے ہیں۔ وزارت صحت کے ذریعہ ہفتہ کی صبح جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں کورونا کیسز کی تعداد5903932 ہوگئی ہے۔ گذشتہ 24 گھنٹوں میں (جمعہ کی صبح آٹھ بجے سے ہفتہ صبح آٹھ بجے تک)، کورونا کے 85362 نئے کیسزرپورٹ ہوئے ہیں۔گزشتہ کچھ دنوں سے کورونا سے صحت یاب ہونے والے افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ چوبیس گھنٹوں میں 93420 مریض ٹھیک ہوئے ہیں۔ اس دوران ملک میں 1089 لوگوں کی موت ہوئی ہے ۔ اب تک مجموعی طور پر 4849584 مریض ٹھیک ہو چکے ہیں۔ 93379 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ 960969 ایکٹیوکیسز ہیں۔ صحت یابی کی شرح کے بارے میں بات کریں اس میں معمولی اضافے کے بعد یہ 82.14 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ مثبت شرح 6.36 فیصد ہے۔ 25 ستمبر کو 1341535 کورونا کے نمونے ٹیسٹ کئے گئے۔ اب تک مجموعی طور پر 70269975 نمونے ٹیسٹ ہو چکے ہیں۔واضح رہے کہ ہندوستان امریکہ کے بعد دوسرا سب سے زیادہ ٹیسٹ کرنے والا ملک بن گیا ہے، حالانکہ ہندوستان کی آبادی کے پیش نظر فی 10 لاکھ ٹیسٹ کے حساب سے ٹیسٹوںکی تعداد اب بھی بہت کم ہے۔ ہندوستان کی تقریبا تمام ریاستوں سے کورونا مریض سامنے آ رہے ہیں۔ بہت سی ریاستیں ایسی بھی ہیں جو اس وبا سے پاک ہوچکی تھیں، لیکن کورونا کی دوسری لہر کے بعد ان ریاستوں میں ایک بار پھر کیسز میں اضافہ ہواہے۔ کورونا سے سب سے زیادہ متاثرریاست مہاراشٹرہے۔
مشہور گلوکار ایس پی بالاسبرمنیم کا 74 سال کی عمر میں انتقال،کورونا وائرس سے تھے متاثر
نئی دہلی:ہندی، تیلگو، ملیالم اور تمل سمیت 16 زبانوں میں تقریباً40000 گانوں کو آواز دینے والے مشہور گلوکار ایس پی بالاسبرمنیم کا انتقال ہوگیا۔ ایس پی بالاسبرمنیم طویل عرصے سے اسپتال میں داخل علاج تھے اور انہیں کورونا وائرس کا انفیکشن بھی ہوا تھا۔ گلوکار ایس پی بالاسبرمنیم کے بیٹے چرن نے بتایا ہے کہ ان کے والد کا انتقال آج سہ پہر 1.45 بجے ہوگیا ۔ وہ 74 سال کے تھے۔ ایس پی کو 5 اگست کو کورونا انفیکشن ہوا تھا اور وہ وینٹی لیٹر پر تھے۔ آج سلمان خان نے بھی ان کی صحت کے بارے میں ٹویٹ کیاتھا۔ایس پی بالاسبرمنیم نیلور کے تیلگو گھرانے میں پیدا ہوئے تھے اور ان کے والد ایس پی تھے۔ بالاسبرمنیم آرٹسٹ تھے۔ ایس پی بالاسبرمنیم بالی ووڈ میں سلمان خان کی آواز رہ چکے اور انہوں نے ’میں پیار کیا‘ اور ‘’ آپ کے ہیں کون‘ جیسی فلموں میں گانے گائے تھے۔ ایس پی بالاسبرمنیم پلے بیک گلوکار کے علاوہ میوزک ڈائریکٹر، اداکار، ڈبنگ آرٹسٹ اور فلم پروڈیوسر بھی تھے۔ ایس پی بالاسبرمنیم 6 بار قومی فلم کا ایوارڈ بھی جیت چکے ہیں۔ایس پی بالاسبرمنیم کے نام سب سے زیادہ تر فلمی گانوں میں آواز دینے کاگینز ورلڈ ریکارڈ درج ہے۔ ایس پی بالاسبرمنیم کو پدم شری (2001) اور پدم بھوشن (2011) سے بھی نوازا گیا تھا۔ انہیںایس پی بی اور بالوکے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ بالی ووڈ میں ایس پی بالاسبرمنیم نے ’میں پیار کیا‘، ’ہم آپ کے ہیں کون‘،’آندھا کانون‘، ’ساجن‘،’ 100 ڈیز‘، ’چنئی ایکسپریس‘ اور ’انگار‘ جیسی فلموں میں اپنی آواز دے چکے تھے۔
نئی دہلی:سعودی عرب نے کورونا وائرس کے انفیکشن کے بڑھتے ہوئے معاملات کے تناظر میں منگل کو ہندوستان آنے اور جانے والی پروازیں معطل کردی ہیں۔ یہ معلومات ایک سرکاری دستاویز میں دی گئی ہیں۔ منگل کو جاری کردہ ایک حکم میں سعودی عرب سول ایوی ایشن اتھارٹی (جی اے سی اے) نے کہا ہے کہ وہ سعودی عرب میں رہنے والے افراد سمیت مندرجہ ذیل ممالک (ہندوستان، برازیل اور ارجنٹائن) سے آمدورفت کو معطل کر رہا ہے۔ غیر ملکی ہندوستانیوں کی ایک بڑی تعداد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں مقیم ہے۔ پانچ دن پہلے، ایئر انڈیا ایکسپریس نے کہا تھا کہ دبئی سول ایوی ایشن اتھارٹی (ڈی سی اے اے) نے 28 اگست اور 4 ستمبر کو اپنی پرواز پر 24 گھنٹے کی روک لگائی ہے کیونکہ دو مسافروں کی آمد کی وجہ سے جو کورونا وائرس انفیکشن سے متعلق تصدیق نامہ رکھتے ۔ ایئر انڈیا ایکسپریس نے ایک دن کے قیام کے بعد ہفتہ سے دبئی کے لئے پرواز شروع کی۔ متحدہ عرب امارات (یواے ای) کی حکومت کے قواعد کے مطابق ہندوستان سے سفر کرنے والے ہر مسافر کو سفر سے 96 گھنٹے پہلے ہی آر ٹی پی سی آر ٹیسٹ کرانا ہوگا اور اس کے پاس ٹیسٹ میں کسی بھی قسم کے انفیکشن کی تصدیق ہونے والا سرٹیفکیٹ ہونا ضروری ہے۔
ناظم ادارہ کہف الایمان ٹرسٹ، حیدرآباد(تلنگانہ)
اُن دوستوں کی ،بزرگوں کی رائے بالکل صحیح اور حق بجانب ہے کہ online تعلیم ہر گز صحبت کا بدل نہیں ہے اور براہ راست، بالمشافہ، فیس ٹو فیس پڑھنے میں جو نورانیت ،برکت اور جو صفات کا منتقل ہونا اور جو تاثیر ہے،وہ online میں ہر گز نہیں ہو سکتی ہے۔ ہمارے اکابر اور سنت و شریعت کا عام طریقہ بھی یہ نہیں رہا اور اس کے کچھ نہ کچھ side effects ہونے کا بھی اندیشہ ہے کہ بچہ فون لے نہیں پا تا تھا لے لے گا ۔ بہت دیر تک بیٹھنے کی وجہ سے اور کان میں head phones لگانے کی وجہ سے صحت کا نقصان ہوگا وغیرہ وغیرہ۔
ان ساری باتوں کا اعتراف کرتے ہوئے،سر آنکھوں پر رکھتے ہوئے،اکابر جواب اجازت دے رہے ہیں اور اس کا رواج ضروری ہو چکا ہے اس کی وجوہات یہ ہیں:
1)ہم تدریس کتنی دیر کرییں گے، ڈھائی گھنٹہ کریں گے یا آٹھ گھنٹے ؟باقی کے اوقات کتنے گھروں میں تعلیم تربیت کے لیے گذر سکتے ہیں؟
2) عام طور پر یہ بات عرض کی جا رہی ہے۔ ہماری طرف سے online تو سبھی ہیں تبلیغی بھی ہیں اور غیر تبلیغی بھی ، مامور بھی ہے امیر بھی، شاگرد بھی ہے استاذ بھی ہے،بالعموم بیوی بھی ہے شوہر بھی ہے، بچے بھی ہیں ماں باپ بھی ہیں، online سبھی ہیں۔اس online ہونے کو تدریس کے لیے استعمال کرنا ہے، online ہوکر متکلم اور مخاطب کا رابطہ کردینا ہے، online ہونے کا ایک صحیح مصرف اور صحیح میدان ان کو بناکر دینا ہے۔
3) تیسرا پہلو جو غور کرنے کا ہے، وہ یہ ہے کہ مستقل حل کے طور پر ہم online نظام کو پیش نہیں کر رہے ہیں،یہ اصلی حل نہیں ہے،اضطراری حل ہے،emergency کا solution ہے،temporary ہے دائمی نہیں ہے، اخف الضررین اور اھون البلیتین اور نہ ہونے سے ہونا بہتر ہے،اس لئے اس کو موجودہ وقت میں رواج دیا جا رہا ہے،کتنے گاؤں، کتنے علاقے،کتنی بستیاں،کتنے گھرانے ایسے ہیں کہ جو خود تعلیم وتعلم کا سلسلہ شروع کرسکتے ہیں اورشروع کریں گے تو کون سی کتاب کتنی دیر پڑھیں گے،یہ سوچا جائے،عملی طور پر تقریباً چھ مہینے ہر آدمی نے تو تجربہ کرلیا، رمضان میں تو کسی قدر نماز، روزہ کا معمول رہا لیکن رمضان کے بعد سب کا وقت کیسے تباہ ہو رہا ہے، سستی، کاہلی،مختلف قسم کے امراض فون کا غلط استعمال،بچوں کے جھگڑے، شرارتیں، بیوی شوہر کے درمیان اُلجھن،خود ہمارے دعوت کے ساتھیوں میں بھی انفرادی ملاقاتوں کے نہ ہونے،ایک دوسرے کے سکھ دکھ میں حصہ نہ لینے کی وجہ سے بزدلی کی کیفیت،پست ہمتی کی کیفیت،مایوسی یا بے حسی کی کیفیت،اس طرح کی کیفیات کے مقابلہ میں بہت ضروری ہے ان کے ہمت و حوصلے کو oxygen دینے کا اور اس کا ایک ذریعہ یہ online تدریس بھی ہو سکتی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ آقا -صلی اللہ علیہ وسلم- نے خطوط کے ذریعے بھی تعلیم دی ہےاور کسی درجہ میں خطوط کا ایک بدل اس کو بھی سمجھا جا سکتا ہے ، اُن دوستوں کو سوچنا چا ہیے جو اس کا انکار کر رہے ہیں اور ان کی طبیعتیں ابھی تک منشرح نہیں ہوئی ہیں۔ اگر ہم online تعلیم شروع نہیں کریں گے تو باطل افکارکی online اشاعت شروع ہوچکی ہے اور اب ہماری نسلیں اُن سے زیادہ جڑتی جارہی ہیں ،گمراہ فکر کے حاملین کے قریب ہوتی جارہی ہیں۔
ہم نے حج میں خود یہ منظر دیکھا کہ ہمارے خیمے کی عورتیں ہمارے حلقے کو چھوڑ کر وہاں جاکر تفسیر سن رہی ہیں ،میرے محلے میں خود اس قسم کا حلقہ چلتا ہے جس میں لوگ جمع ہوکر online ان گمراہ افراد کے بیانات وغیرہ سنتے ہیں،غامدی صاحب کا فتنہ،گوہر شاہی کا فتنہ،الحاد کے فتنے،خدا بیزاری کے فتنے،کتنے ہزاروں challenges ہیں۔ اگر ہم نے اب شروع نہیں کیا تو یہ فراغت اور فرصت ہماری نسلوں کو ہمارے ہاتھ سے کھودینے کا ذریعہ نہیں بنے گی؟
میں زیادہ گفتگو کرکے اس تحریر کو دراز کرنا نہیں چاہتا لیکن اتنے پہلو ایک سمجھ دار آدمی کے لیے کافی ہیں ۔
اب تک ایسی emegency کی صورت حال ،عالمی وبا کی صورت حال پچھلے ساٹھ ستر سال میں پیش نہیں آئی اس لئے یہ طریقہ سوچا نہیں گیا،اب یہ وبا پیش آئی ہے،اب ہمارے اکابر اسے نظر تحسین سے دیکھ رہے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے خود فرمایاکہ: اب میں خود بھی online پڑھنے پڑھانے کا طریقہ سوچ رہا ہوں اور اسی طریقے سے ہمارے شہر کے بزرگان اور دوسرے لوگ کئی اس موضوع پر آ چکے ہیں۔
ایک اور پہلو سوچنے کا ہے جب ہر گھر اسکول بن چُکا ہے تو ہر گھر مدرسہ کیوں نہیں بن سکتا ہے؟ یا ہر گھر فحاشی کا اڈہ ،عریانیت کا اڈہ، فضولیات کا اڈہ اور گیمز کی مصروفیت کا ٹھکانہ بن سکتا ہے، تو مدرسہ اور دینی تعلیم کا ٹھکانہ آن لائن طریقے سے کیوں نہیں بن سکتا؟
یہ لوگ خود ہی اپنے دلوں پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ گھر میں جس ماحول کے بنانے کی بات کہی جا رہی ہے، وہ بات بھی کیسے کہی جائے گی؟ اور اس بات کو لے کر چلنے والا عوام میں کتنابڑا طبقہ ہے؟ جب حالات کھلے تھے تب کتنے تھے؟ اب کتنے لوگ رہیں گے؟زمینی صورت حال سے نا واقفیت،میدانی صورت حال سے نا واقفیت کے نتیجے میں اس قسم کے شبہات ہیں۔ حضرت مولانا پیر ذو الفقار صاحب دامت برکاتہم کی ویب سائٹ” E-MAHAD "دیکھیے ۔ امریکہ اور مختلف دنیا کے چپے چپے کی عورتوں نے کیسے کیسے اُن کے courses سے استفادہ کیا ہے۔ online عالم کورس کرنے والے دسیوں، سیکڑوں شاگرد ہیں، جو دنیا بھر سے حضرت سے اور کئی onlineاداروں سے جڑے ہوئے کام کر رہے ہیں۔آپ ہمت وحوصلے کے ساتھ آگے بڑھیے۔
وہ مشاعروں میں قہقہہ لگاتے ہوئے حکومت کو چیلنج کرتا تھاـ اس کا قہقہہ مشہور تھا،سیاہ چہرے پر طنز کی بجلیاں کوندتیں اور اس کی مسکراہٹ سے ہزاروں تیر برستے اور کروڑوں لہو لہان ہو جاتے،میں کیوں لکھتا اس پر ؟ لکھتا تو سنجیدہ مہذب دانشوروں کے درمیان نشانہ بن جاتا،بازارواور مشاعرہ باز،یہ کوئی شاعری ہے ؟ مگر ایوان سیاست میں اس کے نام سے زلزلہ آ جاتا تھا،جب وہ کہتا تھا:
تمہارے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
اور اتنا کہہ کر وہ تیز قہقہہ لگاتا جیسے حکمرانوں کو تنبیہ کر رہا ہو کہ سنبھل جاؤ،ہم بھی کسی آندھی ، کسی طوفان سے کم نہیں، ہم سے مت ٹکراؤ ـ
سنجیدہ فلسفوں کا کاروبار کرنے والو، جدیدیت اور پختہ ادب کی پہچان رکھنے والو ، ایک کہانی سنو، ایک ملاح تھا،اس کی کشتی میں ایک دانشور سوار ہوا، دانشور نے پوچھا ، کیا تاریخ سے تمہاری واقفیت ہے ؟ ادب سے ہے ؟ سائنس سے ہے ؟ جغرافیہ سے ہے؟ ملاح ہر بار انکار میں گردن ہلا دیتا اور دانشور ہر سوال کے بعد کہتا ، نہیں جانتے ، تمہاری زندگی بیکار ہے، اس درمیان کشتی میں پانی بھرنے لگا،ملاح نے دانشور سے سوال کیا”آپ تیرنا جانتے ہیں؟ ” دانشور نے انکار کیاـ نہیں جانتا،دریا میں کودنے سے قبل ملاح نے کہا ، پھر آپ کی زندگی بیکار ہے،
طوفان آ چکا،آندھیوں نے ہزاروں گھر پھونک دیے، بند کمروں میں ادب کی نمائش کرنے والے کیا جانیں کہ راحت اندوری کیا تھا ؟ منور رانا کی ضرورت کیوں ہے ؟ فسطائی طاقتیں پوری شدّت اور منصوبوں کے ساتھ مذہب ،مشترکہ وراثت اور تہذیب پر حملہ کر رہی ہیں، دانشوری کو طاق پر رکھیے،کیا آپ حکومت کے ایسے منصوبوں کو خاک میں ملا سکتے ہیں ؟ منور رانا اور راحت اندوری جیسوں کی آواز پوری دنیا کو ہلا دینے کی طاقت رکھتی ہے،سنجیدہ ادب لکھنے والوں اور سنجیدہ قاری کا قصور یہ ہے کہ وہ ابن صفی کو تو ضروری تسلیم کرتا ہے مگر راحت اندوری تک پہچنے میں روح فنا ہو جاتی ہے، آزادی یوں ہی مل گئی ؟ کیا اس وقت یہ پروپیگنڈا ضروری نہیں تھا کہ غلامی کی مخالفت کی جائے، آزادی کی چیخ کو آواز دی جائے اور اس وقت آزادی کے نغمے کس نے نہیں لکھے، سب نے لکھے، ہم آج اس مہذب دور میں زیادہ غلامی کے شکار ہیں، موب لنچنگ ، فسادات ، دو قانون، مسلمانوں کا الگ ، غیر مسلموں کا الگ،کوئی ادیب ہے جو مسلمانوں کے لئے جنگ کر رہا ہو،جنگ راحت کرتا تھا، ڈرتا نہیں تھا،بیباک تھا،کپل شرما شو میں بھی دو بار دعوت ملی، دونوں دفعہ چھا گیا اور پیغام بھی دے گیا کہ تمہارے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے ـ
مزہ چکھا کے ہی مانا ہوں میں بھی دنیا کو
سمجھ رہی تھی کہ ایسے ہی چھوڑ دوں گا اسے
ایک ہی ندی کے ہیں یہ دو کنارے دوستو
دوستانہ زندگی سے موت سے یاری رکھو
یہ سانحہ تو کسی دن گزرنے والا تھا
میں بچ بھی جاتا تو اک روز مرنے والا تھا
گھر سے یہ سوچ کہ نکلا ہوں کہ مر جانا ہے
اب کوئی راہ دکھا دے کہ کدھر جانا ہے
بہت غرور ہے دریا کو اپنے ہونے پر
جو میری پیاس سے الجھے تو دھجیاں اڑ جائیں
آنکھ میں پانی رکھو ہونٹوں پہ چنگاری رکھو
زندہ رہنا ہے تو ترکیبیں بہت ساری رکھو
ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گے
کم سے کم راہ کے پتھر تو ہٹاتے جاتے
ہے میرے چاروں طرف بھیڑ گونگے بہروں کی
کسے خطیب بناؤں کسے خطاب کروں
وہ گونگا نہیں تھا ، بولنا جانتا تھا، وہ اپنی قیمت پہچانتا تھا، وہ جنگجو تھا، جب ضرورت ہوتی ، وہ بیدار کرنے آ جاتا، اب کورونا نے حقیقت سامنے رکھ دی اور یہ سوال خدا سے بھی ہے،خدا ، میرے خدا ، راحت کا جرم سنگین اور سیاسی ایوانوں میں بیٹھے خداؤں کو معافی ؟ یہ کیسا انصاف میرے خدا؟ کورونا اپنے ساتھ کیسے کیسے لوگوں کو لے گیا ، ان لوگوں کو جن کے دم سے زندگی اور کائنات کا حسن باقی تھا اور جو نفرتیں پھیلا رہے ہیں ، جو آگ لگا رہے ہیں ، جو ملک کو زخمی کر رہے ہیں ، تیری خوبصورت دنیا میں داغ لگا رہے ہیں ، انھیں زندہ رہنے کے لئے چھوڑ رکھا ہے یہ تفریق کیوں خدا ؟ یہ کیسا انصاف ؟
میں پھر ان سوالوں پر آتا ہوں ـ آزادی کے بعد کے فرقہ وارانہ فسادات، ادب کا خیمہ خاموش رہا، 1984ہوا پھر1992، کوئی ہلچل اس خیمے میں نظر نہیں آئی، کچھ ہلکی پھلکی علامتی کہانیاں لکھ دی گئیں۔1992 کے بعد کا منظر نامہ دیکھ لیجئے ـ خاموشی کی روایت قائم ہے، سیاسی عدم بیداری کی فضا قلم کے محافظ پیدا نہیں کرتی ـ جدیدیت کے علمبردار وں کو کوئی غرض نہیں کہ ملک کہاں جا رہا ہےـ بیمار مریضوں ،سوکھی انتڑیوں کے باسی مردہ قصّوں میں اگر زندگی کی حرارت نہیں تو یہ قصّے فقط الفاظ کی بھول بھلیاں کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں،ترقی پسند زندہ مکالمے کرتے تھے،بیانات دیتے تھے ۔حق کے لئے جنگ کرتے تھے ۔ 1992کے بعد کا عام رویہ ہے کہ ادب کو عام اذہان اور مسائل میں کوئی دلچسپی نہیں۔نیند میں سویے ادیبوں پر آپ فخر کر سکتے ہیں تو کیجئے،لیکن وہ ادیب ہی کیا جسے بدلتے سیاسی منظر نامے کی چیخ سنائی نہ دے ـ
راحت یہ چیخ سنتا تھااور جب وہ لکھتا تھا تو اس کی چیخ ساری دنیا کی چیخ بن جاتی تھی:
ہم اپنی جان کے دشمن کو اپنی جان کہتے ہیں
محبت کی اسی مٹی کو ہندوستان کہتے ہیں
’میرے اندر سے ایک ایک کرکے سب ہوگیا رخصت
مگر اندر جو باقی ہے اسے ایمان کہتے ہیں‘
میں من کی بات بہت من لگا کے سنتا ہوں
یہ تو نہیں ہے تیرا اشتہار بولتا ہے
کچھ اور کام اسے جیسے آتا ہی نہیں
مگر وہ جھوٹ بہت شاندار بولتا ہے
میں اس کے چہرے کو دیکھتا، حضرت بلال حبشی کی یاد تازہ ہو جاتی ـ وہ چہرے سے سیاہ مگر اندر سے تندور اور ایسے تندور کی ابھی ضرورت تھی،جب اسلام کی عظمت کا آفتاب بلند ہوا ، مکہ کی وادیوں سے اذاں کی جو پہلی آواز گونجی وہ حضرت بلال کی تھی، مودی کی اس انداز میں خبر کون لے گا کہ وہ جھوٹ بہت شاندار بولتا ہے،کون کہے گا ، تمھارے باپ کا ہندوستان،یہ راحت ہی کہہ سکتے تھے اور راحت ہی چلے گئےـ اپنے نغموں سے اقلیتوں کے زخم پر مرہم رکھنے والا ، راحت پہنچانے والا چلا گیاـ
ترجمہ:محمد ابراہیم خان
کورونا وائرس سے متعلق پائی جانے والی باتیں اب بھول بھلیوں کا درجہ حاصل کرچکی ہیں۔ جو بھی اس گم تاڑے میں داخل ہوا پھر اس کا پتا نہ چل سکا۔ معلومات اور غلط بیانی کا فرق مٹ سا گیا ہے۔ بہت کچھ بیان کیا جارہا ہے۔ اِس میں خالص معلومات بھی ہیں، ابہام زدہ باتیں بھی ہیں، شدید غلط بیانی بھی ہے اور صریح جھوٹ بھی۔ کورونا وائرس سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے خواہش مند بہت کوشش کرنے پر بھی درست معلومات تک نہیں پہنچ پاتے۔ دعوؤں اور الزام تراشی کا بازار گرم ہے۔ قیاس آرائیاں ہیں، ابہام ہے اور تضادات ہیں۔ ایک بات پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے … اور وہ یہ کہ پورے یقین سے کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔
صریح جھوٹ:
کم ہی لوگ ہیں، جو اس بات کو سمجھتے نہ ہوں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے جھوٹ بولنا ایسا ہی عمل ہے جیسا سانس لینا۔ جس طور لوگ سانس لیے بغیر نہیں جی سکتے اُسی طور ڈونلڈ ٹرمپ جھوٹ بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ یہی سبب ہے کہ غور کیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی صدر کورونا وائرس کے حوالے سے ایک الگ حقیقت کو دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ چین کا اپنا بیانیہ ہے اور امریکا کا اپنا۔ دونوں میں سے ہر ایک کی کوشش ہے کہ کورونا وائرس کے حوالے سے اُسی کی بات درست تسلیم کی جائے۔ کورونا وائرس کے حوالے سے صدر ٹرمپ کی قومی سطح کی یومیہ بریفنگ دنیا بھر میں دیکھی جاتی ہیں۔ جو کچھ وہ کہتے ہیں وہ یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں۔ ایک طرف تو کورونا وائرس کے ہاتھوں لاک ڈاؤن نافذ ہے اور سماجی فاصلے پر زور دیا جارہا ہے اور دوسری طرف صدر ٹرمپ اور اُن کے قریبی ساتھی اپنی سیاسی بنیاد والی (یعنی ری پبلکن) ریاستوں میں ایسے اقدامات کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں جن کے نتیجے میں سماجی فاصلہ برقرار رکھنا انتہائی دشوار ہو جاتا ہے۔
امریکی صدر کا ایک پرانا شوق یہ ہے کہ خود کو خوب سراہا جائے اور ہر معاملے میں ہر الزام دوسروں کے سروں پر تھوپ دیا جائے۔ انہوں نے کئی بار چین، عالمی ادارۂ صحت اور سابق امریکی انتظامیہ کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ اب اس سے بڑا لطیفہ کیا ہوگا کہ صدر ٹرمپ نے اوباما انتظامیہ پر کورونا وائرس کی موثر ویکسین کا معقول ذخیرہ نہ چھوڑنے کا الزام عائد کیا ہے۔ تب تو کورونا وائرس تھا ہی نہیں پھر ویکسین کہاں سے آتی؟
غلط بیانی:
اعلیٰ ترین سطح پر بیٹھی ہوئی کوئی شخصیت اگر کوئی بات گھما پھراکر کہے اور کچھ بھی واضح نہ ہونے دے تو زیادہ حیرت نہیں ہوتی کیونکہ یہ ایک شخصیت کا معاملہ ہے لیکن اگر بیشتر حکومتی یا ریاستی ادارے الجھے ہوئے انداز سے کام کرنے لگیں تو لوگ محسوس کرتے ہیں کہ معاملات کو کچھ کا کچھ پیش کیا جارہا ہے، جھوٹ بولا جارہا ہے۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ نام نہاد ماہرین کی مدد سے سرکاری اداروں نے یہ بات کس بنیاد پر کہہ دی کہ کورونا وائرس کی روک تھام میں فیس ماسک کا کوئی اہم کردار نہیں۔ اور جبکہ امریکا لاک ڈاؤن ختم کرنے اور تمام سرگرمیاں بحال کرنے کی طرف جارہا ہے، وہی سرکاری ادارے کہہ رہے ہیں کہ کورونا وائرس کی روک تھام میں فیس ماسک کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں!
کوئی بھی شخص بہت آسانی سے اندازہ لگاسکتا ہے کہ جب یہ کہا گیا تھا کہ کورونا وائرس کی روک تھام میں فیس ماسک کا کچھ خاص کردار نہیں تب امریکا میں ماسک کی فراہمی بہت کم تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ مریضوں اور طبی عملے کے لیے بھی پورے ماسک نہیں تھے تو عوام کے لیے کہاں سے لائے جاتے؟ جب ماسک کو قدرے غیر اہم بتایا گیا تھا تب دراصل اس کی ذخیرہ اندوزی کی روک تھام مقصود تھی۔ اب معاملہ یہ ہے کہ حکومت اگر اِس طور بیان بدلے تو اداروں پر سے عوام کا اعتماد اٹھ جاتا ہے۔
بے سمت کرنے والی معلومات:
مکمل غلط بیانی ایک طرف رہی، امریکا بھر میں کمزور، بے بنیاد اور بے سمت کرنے والی معلومات اِس طور پھیلائی گئی ہیں گویا کھیتوں کو کھاد دی جارہی ہو۔ دائیں بازو کا مین اسٹریم میڈیا ڈونلڈ ٹرمپ کو صدر کے منصب پر دوسری مدت کے لیے بھی فائز دیکھنے کا خواہش مند ہے۔ اس نے نام نہاد ماہرین کا سہارا لے کر یکے بعد دیگرے کمزور معلومات عوام کے ذہنوں میں ٹھونسنے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ اپریل کے وسط میں جب امریکا میں کورونا وائرس کے ہاتھوں واقع ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد ۲۹ ہزار سے زائد ہوچکی تھی تب دائیں بازو کے ایک ماہر نے دعویٰ کیا کہ امریکا میں ہر سال سوئمنگ پولز میں حادثاتی طور پر ہلاک ہونے والوں کی تعداد اس سے زیادہ ہوتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ سینٹر فور ڈزیز کنٹرول نے امریکا میں بھر میں سوئمنگ پولز میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد ۳۷۰۰ بتائی ہے۔ اور کسی نے اس ماہر کو یہ بتانے کی بھی زحمت گوارا نہ کی کہ سوئمنگ پول میں حادثات رونما ہوتے ہیں، متعدی امراض نہیں لگا کرتے۔ ایک اور نام نہاد ماہر نے اسکول کھولنے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ امریکا بھر میں اسکول کھولنے سے ’’صرف‘‘ دو یا تین فیصد بچوں سے محروم ہو جانے کا خطرہ برقرار رہے گا! اس جاہلانہ بات پر اس نام نہاد ماہر کو بعد میں معافی مانگنا پڑی۔
عالمگیر وبا نے امریکا میں بھی پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ ایسے میں دائیں بازو کے عناصر کا بدحواس ہونا ذرا بھی حیرت انگیز نہیں۔ سیدھی سی بات ہے، وبا مکمل طور پر قابو میں نہیں آرہی۔ ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ایسے میں انتہائی دائیں بازو والوں کے فرد کا دوبارہ صدر بننا بہت مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ وبائی امراض سے متعلق سی ڈی سی ماہرین ڈاکٹر فوشی اور ڈاکٹر ڈیبورا برکس کو ابتدائی مرحلے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بہت سراہا تھا۔ اُن دونوں کے بارے میں یہ تاثر دیا گیا تھا کہ کورونا وائرس کی وبا سے بچاؤ کے سلسلے میں جو بھی رائے وہ دیں گے وہ حتمی اور انتہائی کارآمد ہوگی۔ بعد میں جب ڈاکٹر فوشی کی رائے ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ انتخاب کے حوالے سے کچھ زیادہ کارگر ہوتی دکھائی نہیں دی تب انہیں دھمکیاں بھی دی گئیں۔ اس حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ خاموش رہے۔ دونوں ماہرین کی صلاحیتوں سے کوئی انکار نہیں کرسکتا مگر کورونا وائرس واقعی اتنا عجیب ثابت ہوا کہ اُس کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنے میں دونوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
کورونا وائرس کے مریضوں اور ہلاکتوں کی ممکنہ تعداد بتانے کے حوالے سے امریکا میں بیشتر سرکردہ ڈاکٹروں نے جو ماڈل اختیار کیا وہ غلط نکلا۔ پہلے یہ کہا گیا کہ کورونا وائرس کے بارے میں ضرورت سے کچھ زیادہ ہی شور مچایا گیا ہے۔ پھر جب انہوں نے ممکنہ اموات کے اعداد و شمار بتائے تو لوگ حیران رہ گئے کیونکہ حقیقی اموات سے یہ اعداد و شمار خاصے کم رہے۔ بہت سوں نے قوم کو اس وبا کے بارے میں بتانے کے حوالے سے انتہا پسندی کا مظاہرہ کیا اور حد سے گزر گئے۔ دونوں ہی معاملات میں لوگ اس قابل نہ رہے کہ کسی پر پوری طرح بھروسا کرسکیں۔
کورونا وائرس سے واقع ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں بھی جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں اُنہوں نے عوام کا اعتماد متزلزل کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ری پبلکن پارٹی کی حکومت والی ریاستوں میں کم ہلاکتیں دکھائی گئیں۔ بعد میں ڈاکٹروں کے اس بیان نے بھی معاملات کو مزید الجھا دیا کہ انہیں ہدایت کی گئی تھی کہ اموات کے اسباب بیان کرتے وقت ریاست کے سیاسی جھکاؤ کا خیال رکھا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب تک کوئی بھی اس پوزیشن میں نہیں کہ صرف کورونا وائرس کے ہاتھوں ہونے والی ہلاکتوں کی اصل تعداد بتاسکے۔ جو لوگ مختلف امراض میں پہلے ہی سے مبتلا تھے ان کی اموات کے اسباب میں کورونا وائرس کو بھی شامل کرلیا گیا اور پھر یہ تمام اموات کورونا وائرس کے کھاتے میں ڈال دی گئیں۔ اس کے نتیجے میں شدید نوعیت کا ابہام پیدا ہوا ہے۔
کورونا وائرس میں مبتلا ہونے پر جن لوگوں کو اسپتال لایا گیا، ان میں سے بیشتر پہلے ہی سے مختلف امراض میں مبتلا تھے۔ نیو یارک اور اس کے نواح میں موجود اسپتالوں میں کام کرنے والی نارتھ ویل ہیلتھ آرگنائزیشن نے بتایا ہے کہ نیویارک میں کورونا وائرس میں مبتلا مریضوں میں ۵۷ فیصد پہلے ہی سے ہائپر ٹینشن کے، ۳۳ فیصد ذیابیطس کے اور ۴۱ فیصد موٹاپے کے مریض تھے۔ یہ سب کچھ اس بات کا واضح غمّاز ہے کہ ماہرین اب تک کورونا وائرس کے ہاتھوں ہونے والی اموات کے حوالے سے محض قیاس آرائی کی بنیاد پر کام کر رہے ہیں۔ کسی کو بالکل درست اندازہ نہیں کہ کورونا وائرس کے ہاتھوں واقعی کتنی ہلاکتیں واقع ہوئیں۔
امریکا میں کورونا ٹیسٹنگ کا معاملہ بھی ابہام سے خالی نہیں۔ نیو یارک میں ٹیسٹنگ کے حوالے سے بہت سی باتیں پھیلائی گئیں۔ عوام کورونا ٹیسٹ کا نتیجہ مثبت آنے پر بھی یقین کرنے کو تیار نہیں ہوتے تھے کہ انہیں یہ وائرس لگ چکا ہے۔ بات ایسی الجھی ہوئی نہیں کہ سمجھ میں نہ آسکے۔ ماہرین خود بھی پوری طرح نہیں جانتے تھے کہ کوئی بھی شخص کس بنیاد پر کورونا وائرس میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ اینٹی باڈیز کے حوالے سے کی جانے والی بحث الجھی ہوئی ہے اور کوئی بھی اس حوالے سے ہر بات کو درست ماننے کے لیے تیار نہیں۔
سماجی فاصلے کے حوالے سے بھی یہی کہا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے اپنائے جانے والے پروٹوکول عجیب رہے ہیں اور ان پر پوری طرح عمل بھی نہیں کرایا جاسکا۔ ایک تازہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ بہت سے لوگ کورونا وائرس کا شکار اس لیے نہیں ہوئے کہ انہوں نے لوگوں سے تعلقات برقرار رکھے تھے۔ اسٹورز میں لوگ بڑی تعداد میں جمع ہوتے رہے مگر ایسا کرنے سے کچھ خاص نقصان نہیں پہنچا۔
نرسنگ ہومز اور اسپتالوں پر کورونا وائرس کا حملہ خاصا تیز اور ہمہ گیر تھا۔ بعض معاملات میں تو پورے خاندان کورونا وائرس کے شکار پائے گئے۔ نرسنگ اسٹاف کے لیے مشکلات غیرمعمولی رہیں۔ امریکا میں ریاستی حکومتیں قرنطینہ مراکز قائم کرنے میں ناکام رہیں۔ نیو یارک میں جب کورونا وائرس کا عفریت بے لگام ہوکر ناچ رہا تھا تب ریاستی گورنر نے بتایا کہ جن لوگوں میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے ان میں سے ۶۶ فیصد کو ریاست کے طے کردہ پروٹوکول کے مطابق گھروں میں قرنطینہ کیا گیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ان میں سے کچھ باتیں درست یا حقیقت پر مبنی بھی ہوں مگر کورونا کی وبا کو سیاسی رنگ دیے جانے کے باعث عوام اس حوالے سے اتنے ’’بے حِس‘‘ ہوچکے ہیں کہ اب وہ کسی بھی بات پر پوری طرح یقین کرنے کو تیار نہیں۔
کورونا وائرس کے ہاتھوں ہونے والی ہلاکتیں اپنی جگہ مگر حقیقت یہ ہے کہ ’’حقیقت‘‘ کو کورونا وائرس کے ہاتھوں واقع ہونے والی پہلی ہلاکت کا درجہ حاصل ہوچکا ہے۔ اس پورے معاملے میں اتنی تضاد بیانی اور غلط بیانی کی گئی ہے کہ ماہرین کی باتوں پر بھی لوگوں کا اعتماد اٹھ گیا ہے۔ نہ تو کسی بھی بات میں قطعیت پائی جاتی ہے اور نہ ایسے ماہرین ہی پائے جاتے ہیں جن پر پوری طرح بھروسا کیا جاسکے۔
سائنس دان اب بھی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کورونا وائرس کا اگر کوئی مثبت پہلو ہے تو یہ کہ اب ہم جان چکے ہیں کہ فطری علوم و فنون میں پیش رفت ارتقائی طریق سے ہوتی ہے، انقلابی طریق سے نہیں یعنی سب کچھ بتدریج ہوتا ہے۔ کورونا وائرس نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ہم فطری علوم و فنون کے ماہرین کو بہت زیادہ وقعت دے بیٹھتے ہیں اور جب بھی کسی موضوع پر کچھ نہیں سُوجھتا تو ماہرین کی کہی ہوئی ہر بات کو درست تسلیم کرلیتے ہیں۔
(بہ شکریہ معارف ریسرچ جرنل)
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
چَنگ چِنگ تو اِن
ترجمہ: محمد عمید فاروقی
اس وقت جب کہ دنیا بھر میں امریکا سمیت تمام ممالک کی حکومتیں اور عوام کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کی کوششیں کر رہے ہیں ، تائیوان کا تجربہ اس وبا سے نمٹنے میں کافی معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
تائیوان کو ۲۰۰۳ء میں SARSوائرس سے نمٹنے کا تجربہ ہوچکا تھا۔ اسی وجہ سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے خلاف بھی تائیوان بہت تیزی سے حرکت میں آیا ۔تائیوان میں ہیلتھ انشورنس کی شرح ۹ء۹۹ فی صد ہے اور گلوبل ہیلتھ کئیر انڈیکس کے مطابق یہ دنیا کا بہترین ہیلتھ کیئر سسٹم ہے۔جلد ردِ عمل، وبا سے تحفظ کی ایک جامع حکمت عملی، میڈیکل ڈیٹا کا موجود ہونا اور معلومات فراہم کرنے کے نظا م کی وجہ سے تائیوان میں کورونا وائرس کے بہت کم واقعات سامنے آئے۔کورونا وائرس کے خلاف تائیوان کے ردعمل میں دنیا کے لیے کچھ ایسے سبق موجود ہیں جو اس وبا کے خلاف اقدامات میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔
کورونا وائرس کے خلاف اقدامات کے آغاز میں ہی ملکوں کو وبائی امراض سے تحفظ کے محدود وسائل، طبی آلات کی کمی اور عوام میں خوف و ہراس کی صورت حال کا سامان کرنا پڑرہا ہے۔ جیسے ہی وائرس بڑے پیمانے پر پھیلنا شروع ہوا تو برطانیہ ، اٹلی اور دیگر ممالک نے طبی سہولیات کی کمی کے باعث ان کا استعمال وائرس سے متاثرہ ان مریضوں کے لیے مخصوص کردیا جن کی حالت نازک تھی۔ اس وائرس کے بارے نسبتاً کم معلومات ہونے کی وجہ سے عوامی سطح پر اس کے بارے میں آگہی پھیلانا پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔
تائیوان میں Central Epidemic Situation Command Center کے تحت اطلاعات اور آگہی دینے کے لیے ایک پلیٹ فارم بنایا گیا ۔ اس پلیٹ فارم سے روزانہ کی بنیاد پر پریس کانفرنس کی جاتی، جس میں تازہ صورت حال کے حوالے سے اطلاعات دی جاتیں ۔ اسی طرح متعلقہ سرکاری ادارے بھی تازہ ترین اطلاعات فراہم کرتے رہتے۔ حکومت نے وائرس کے حوالے سے درست رہنمائی فراہم کرنے کے لیے خاکوں اور دیگر بصری ذرائع کا استعمال بھی کیا۔ حکومت نے سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر ماسک اور دیگر حفاظتی اشیا کی طلب اور رسد کا نظام وضع کیا، جس میں عوام کے ہیلتھ انشورنس کے ڈیٹا کو مد نظر رکھ کر ماسک کی فراہمی کا انتظام کیاگیا۔
اس قسم کے بحران سے معاشرے کا غریب طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔اس وجہ سے حکومتو ں کو چاہیے کہ وہ نجی شعبے کے ساتھ مل کر ایک نظام وضع کریں، جس سے ہر فرد کی بنیادی ضروریات کو پورا کیا جاسکے۔ تائیوان میں این جی اوز کا ایک وسیع نیٹ ورک موجود ہے۔ مقامی حکومتوں نے ان تنظیموں کے ساتھ مل کر کورنٹائین ریلیف کا کام شروع کردیا اور ایسے افراد کو جو گھروں میں خود کو الگ نہیں رکھ سکتے تھے انھیں ہوٹل کے کمروں میں آئیسو لیشن میں رکھا۔بعض جگہوں پر حکومت کی جانب سے فنڈ بھی جمع کیا گیا، جس سے ضرورت مند افرا د کو کم قیمت میں ماسک اور دیگر حفاظتی سامان فراہم کیا گیا۔
تائیوان میں اطلاعات اور رابطے کا مضبوط انفرااسٹرکچر موجود ہے۔کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے دوران حکومت نے نجی میڈیا کمپنیوں کے ساتھ مل کر وائرس سے بچاؤ کی تدابیر پر مبنی پیغامات نشرکیے۔حکومت نے سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر ایسے نقشے بھی جاری کیے، جن میں ملک بھر میں ۶ ہزار سے زائد میڈیکل اسٹورز کی نشاندہی کی گئی جہاں ماسک اور دیگر حفاظتی سامان دستیاب تھا۔
حالیہ تاریخ میں یورپ اور امریکا نے SARSجیسی وبا کا سامنا نہیں کیا ۔ اسی وجہ سے یہاں کے لوگ ابھی کورونا وائرس سے پیدا ہونے والے بحران سے نمٹنا سیکھ رہے ہیں۔ سب سے پہلے تو اس غلط فہمی کو دور ہونا چاہیے کہ کورونا وائرس موسمی بخار کی ہی شدید قسم ہے۔ ماہرین کے مطابق کورونا وائرس سے متاثر ہونے اور ہلاک ہونے کی شرح موسمی بخار کی نسبت زیادہ ہے۔اس وبا سے تحفظ کی بہترین حکمت عملی اپنے طرز زندگی میں تبدیلی لا نا ہے۔مغربی معاشروں میں جہاں Social Distancingاور Self-Quarantine جیسے نئے تصورات سامنے آئے ہیں، وہیں ملاقات کے دوران ہاتھ ملانے، گلے ملنے اور بوسے لینے جیسی عادات کو بھی ترک کیا جارہا ہے۔
سوشل میڈیا کے دور میں حکومتوں کو چاہیے کہ وہ عوام کا اعتماد حاصل کریں اور انھیں درست معلومات اور رہنمائی فراہم کریں ۔ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ کورونا وائرس کے خوف سے بہت سی بے بنیاد اور غلط خبریں بھی گردش کرنے لگتی ہیں، جن سے معاشرے میں خوف و ہراس پیدا ہوتا ہے۔یہ معاملہ دنیا بھر کے لیے چیلنج بنا ہوا ہے۔ اسی لیے حکومتوں کو چاہیے کہ وہ افواہوں کو پھیلنے سے روکنے کے لیے خبروں اور معلومات کی بروقت فراہمی کو یقینی بنائیں۔ تائیوان نے افواہوں کو روکنے کے لیے Taiwan Fact Check Center قائم کیا جہاں کسی بھی غلط معلومات کی نشاندہی ہونے پر ۶ منٹ کے اندر اس کی تحقیق کرکے اس پر وضاحت جاری کردی جاتی ہے۔
کورونا وائرس سے بچاؤ اور اس پر قابو پانے کے لیے حکومتوں اور عوام کی مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ اس بحران سے ہمیں یہ تو معلوم ہو گیا ہے وبا کسی جغرافیائی سرحد کی پابند نہیں ہوتی۔ سابق امریکی صدر اوباما نے کہا تھا کہ ’’آزادی خوف سے زیادہ طاقتور ہے‘‘۔ میں موجودہ صورت حال میں اس جملے میں کچھ ترمیم کروں گا کہ ’’باہمی امداد خوف سے زیادہ طاقتور ہے‘‘۔ عالمی سطح پر معلومات اور طبی سہولیات کے تبادلے سے اس وائرس کے اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔
اگر کوئی ملک تمام سیاسی اختلافات اور تعصبات کو ایک طرف رکھ کر وبا سے بچاؤ کے مربوط اور بر وقت انتظامات کرلے تو یہ گڈ گورننس کی طرف ایک اہم قدم ہوگا ، جو وبا سے نمٹنے کا ایک موثر طریقہ ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
کورونا وائرس کی خطرناکی اپنی جگہ لیکن اس کی آڑ میں مسلمانوں کے تئیں نفرت کا جو وائرس لوگوں کے ذہنوں میں ڈالا اور ان کے خلاف جو ایک ماحول بنایا جا رہا ہے وہ اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے ـ یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے جس کو کامیاب بنانے کیلیے نہ صرف یہ کہ موجودہ فاشسٹ حکومت میڈیا کا استعمال کر رہی ہے بلکہ اس میں ڈاکٹروں کا بھی اہم رول ہے اور ان دونوں کی اجتماعی کوششوں سے ہی مسلمانوں، خصوصا جماعتیوں کو بطورِ ویلن پیش کر کے ملک بھر میں کورونا کو پھیلانے کا ٹھیکرا ان کے سر پھوڑا جا رہا ہے؛ تا آں کہ کورونا کے جتنے بھی پوزیٹیو کیسیز سامنے آرہے ہیں ان میں اکثریت مسلمانوں کی دکھائی جارہی ہے جو صرف اور صرف دھوکہ ہے، فریب ہے ـ در اصل ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جن کا رپورٹ نیگیٹیو ہونے کے باوجود پوزیٹیو بنا کر دے دیا جاتا ہے اور میڈیا ٹرائل کے ذریعہ ان کے نام کو زیادہ سے زیادہ اچھالا جاتا ہے نیز تبلیغی جماعت سے وابستہ لوگوں کو پکڑ کر زبردستی قرنطینہ میں رکھ دیا جاتا ہے جہاں کوئی بھی انکا پرسانِ حال نہیں ہوتا ـ یہ محض سنی سنائی خبر نہیں بلکہ ایک واقعہ ہے جو ہمارے متعلقین میں سے بھی ایک صاحب کے ساتھ پیش آیا ہے؛ چناں چہ چیک اپ کرانے پر جب انکا رپورٹ پوزیٹیو آیا تو انہیں تشفی نہیں ہوئی اور انہوں نے دوسری جگہ جانچ کروائی تو نتیجہ نیگیٹیو نکلا نیز اس طرح کے واقعات دوسری جگہوں پر بھی پیش آچکے ہیں ـ ظاہر ہےکہ یہ صرف اتفاق نہیں بلکہ منصوبہ بند سازش ہے جس میں حکومت بہت حد تک کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے اور اسی کامیابی کا نتیجہ ہیکہ ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف ہو رہے پروپیگنڈے کے ایسے درجنوں واقعات سامنے آچکے ہیں جن میں مسلمانوں کا سماجی بائکاٹ کیا جا رہا ہے، ماب لنچنگ کی جا رہی ہے، انکو دکانوں سے واپس کردیا جا رہا ہے، ہاسپٹل میں ایڈمٹ کرنے سے منع کیا جا رہا ہے، مساجد پر حملے کیے جا رہے ہیں ـ یہ مسلم مخالف وہ واردات ہیں جن کو لاک ڈاؤن کے ایام میں انجام دیا گیا ہے؛ یعنی ایک وبا جو ہم پر عذاب بن کر آئی تھی اس کو بھی ان نفرت کے پجاریوں نے سیاسی محاذ آرائی کیلیے استعمال کرلیا اور کورونا کو ٹوپی پہنا کر اس طور پر پیش کردیا گیا کہ مسلمان ہی اس کے حقیقی ذمہ دار ہیں نیز ان کا یہ حربہ اس وقت مزید کامیاب ہوجاتا ہے جب بھارتیوں کے تئیں اپنی ہمدردی جتانے اور انہیں مورکھ بنانے کیلیے وزیرِ اعظم ایک ہندوانہ رسم لے کر آجاتے ہیں، جس کو بعض عاقبت نا اندیش مسلمان بھی اپنی دیش بھکتی ثابت کرنے کیلیے کر گزرتے ہیں اور اگر ان مشرکانہ افعال کا ارتکاب کرنے سے بچتے ہیں تو لوگوں کی مسلم مخالف ذہنیت کو مزید تقویت پہنچ جاتی ہے اور انہیں پختہ یقین ہوجاتا ہے کہ کورونا کو پھیلانے والے یہی مسلم سماج کے لوگ ہیں نیز دوسری طرف لوگوں کو اپنے حکم کی تعمیل میں سر بہ سجود دیکھ کر حکومت کو اپنی کامیابی کا اندازہ بھی ہوجاتا ہے اور نیا حوصلہ بھی ملتا ہے ـ یہ چو طرفہ گیم ہے جو حیرت انگیز بھی ہے، تاسف آمیز بھی ہے اور سبق آموز بھی؛ کیوں کہ اس سے پہلے بھی گزشتہ چند سالوں میں جس طرح کے حالات رہے اور مسلمانوں کے خلاف جس طرح سے نفرت کی کھتیاں کی گئیں وہ ”الكفر ملة واحدة“ کی دلیل و نظیر ہیں اور ان تمام واقعات و شواہد سے یہ نتیجہ اخذ کرلینا ہوشمندی کے منافی بالکل نہیں ہوگا کہ اس قوم سے اتحاد کی توقع فضول ہے ـ
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ڈاکٹر مشتاق احمد
پرنسپل سی ۔ایم ۔کالج دربھنگہ
9431414586
کورونا وائرس ایک قدرتی آفت ہے اور اس سے اس وقت پوری دنیا جوجھ رہی ہے اور ہر ملک اپنے شہری کی حفاظت کیلئے اپنے طور پر ہر قسم کی کوشش کر رہا ہے کیوں کہ اس وبا نے انسانی معاشرے کو خوف و ہراس میں جینے پر مجبور کر دیا ہے ۔اب تک لاکھوں افراد اس وبا کے شکار ہو گئے ہیں اور چالیس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو گئے ہیں ۔دنیا بھر میں اس وبا سے مقابلہ کرنے کے لئے طبی معائنہ اور خود ساختہ بندی کو ضروری اقدامات کے طور پر اپنایاجارہاہےـ امریکہ اور اٹلی جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی اس کی کوئی دوا تلاش نہیں کر سکے ہیں ۔چین جہاں سے یہ وبا پھیلی ہے اس نے بھی ایک علاقے ووہان میں لاک ڈاؤن کر کے ہی قابو پایا ہے ۔اس لئے اپنے ملک میں بھی یہی ترکیب اپنائی گئی ۔اگر چہ کچھ دیر سے یہ قدم اٹھایا گیا لیکن ملک کے عوام نے اس وبا سے لڑنے کیلئے جو حوصلہ دکھایا ہے وہ قابل ذکر ہی نہیں بلکہ قابل تحسین ہے ۔مگر آفسوس ہے کہ ہمارے ملک کی میڈیا جو اب صرف اور صرف حکومت کی خیر خواہی اور مذہبی منافرت پھیلانے کو ہی صحافت سمجھتی ہے اور ایسا اس کی مجبوری بھی ہے کہ موجود حکومت بھی اس طرح کی روش کو پسند کرتی ہے ۔اس نے اس قدرتی آفت کو بھی مذہبی رنگ دے کر ملک میں نفرت پیدا کرنے کی مذموم سازش کی ہے ۔جہاں تک تبلیغی جماعت کی جانب سے کی گئی کوتاہی کا سوال ہے تو اس پر ٹھیک اسی طرح تبصرہ کرنے کی ضرورت تھی جس طرح دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں میں بھی لاک ڈاؤن شروع ہو جانے کی وجہ سے لوگ وہاں سے باہر نکل نہیں سکے اور انتظامیہ کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا کہ ان کو باہر بھیج سکے ۔ایسی صورتحال میں صرف سرکاری ذرائع ہی مدگار ہو سکتے تھے ۔جیسا کہ تبلیغی جماعت انتظامیہ نے مقامی انتظامیہ یعنی نظام الدین پولس اسٹیشن کے انچارج انسپکٹر سے مل کر مسجد میں رہ گئے ملکی اور غیر ملکی افراد کو کہیں دوسری جگہ لے جانے کی گزارش کی تھی ۔مگر اس وقت کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا اور جب زعفرانی میڈیا نے شور مچایا تو دہلی حکومت اور مرکزی حکومت نے جماعت کو ہی مورد الزام ٹھہرا دیا ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعت کے سربراہ مولانا سعد اللہ کاندھلوی کو بھی کوئی تدبیر کرنی چاہئے تھی اوراگر اعلیٰ حکام سے رابطہ کیا گیا ہوتا تو یہ نوبت نہیں آتی۔لیکن اس وقت جس طرح مسلمانوں کی صفوں میں دراڑ نظر آ رہی ہے وہ ٹھیک نہیں ہے ۔جماعت اسلامی ہو کہ تبلیغی جماعت یا پھر کوئی دیگر مسلکی جماعت اس سے ہمارا نظریاتی اختلاف اپنی جگہ لیکن اس وقت جماعت کے بہانے پوری قوم کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ملک میں یہ غلط پیغام دیا جا رہا ہے کہ مسّلم طبقے کی وجہ سے کورونا پھیل گیا ہے یہ بات بے بنیاد اور گمراہ کن ہے ۔اس لئے مسّلم طبقے کے جو لوگ اس وقت تبلیغی جماعت کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں وہ اپنے حق میں بھی بہتر نہیں کر رہے ہیں ۔اگر تبلیغی جماعت کا عمل غیر قانونی ہوگا تو اس پر قانون اپنا کردار ادا کرے گا لیکن ہمیں اس سازش کا شکار نہیں ہونا چاہئے جو کسی کے اشارے پر قومی میڈیا نے کی ہے ۔
اس وقت ملک میں چندہی صحافی ہیں جو حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کر رہے ہیں اور وہ اپنے اپنے طریقے سے حکومت کی ناکامی کو اجاگر کرنے کا صحافتی فریضہ انجام دے رہے ہیں اور اس سے حکومت کی نیند ار گئی ہےـ لاک ڈاؤن شروع ہونے کے بعد لاکھوں افراد دہلی کی سڑک پر نکل آئے اور بے چارے مزدور طبقے کے پاس کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں تھا اور پھر دہلی کی سرکار نے جان بوجھ کر ان غریب عوام کو دہلی سے بھگانے کی سازش کی ۔جس کویہاں کے صرف چند صحافیوں نے اور غیر ملکی میڈیا نے بھارت سرکار کی ناکامی قرار دیا ۔پھر جس طرح اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی ادتیہ ناتھ اور کرناٹک کے وزیر اعلیٰ یدیو رپا نے لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کی اس کی بھی مذمت ہونے لگی اور مدھیہ پردیش میں جو سیاسی ڈرامہ ہوا اس کو بھی چند حقیقت پسندانہ عزائم رکھنے والے صحافی طول دینے میں لگے ہوئے ہیں اور سوشل میڈیا پر کافی زور شور سے حکومت کی ناکامیوں کو اجاگر کرنے میں لگے ہوئے ہیں جس سے بین الاقوامی برادری میں مرکزی حکومت کی بدنامی ہوئی ہے کہ اس نے لاک ڈاؤن کے نفاذ میں کوتاہی کی ہے ۔اور غریب عوام کو جو پریشانی اچانک لاک ڈاؤن شروع ہونے سے ہوئی ہے اس پر بھی تبصرہ ہونے لگا تھا اس سے بچنے کیلئے اور ملک کےعوام کے اندر جو غم و غصّہ پیدا ہونے لگا تھا اس کا رخ بدلنے کی غرض سے یہ شو شہ جان بوجھ کر زعفرانی میڈیا کے سہارے چھوڑا گیا ۔اس لئے تبلیغی جماعت کی اس معمولی غلطی کو ہوا دے کر پوری مسلم قوم کو نشانہ بنایا گیا ۔ورنہ ملک بھر کے مندروں اور گرودواروں میں بھی مجبور لوگ پھنسے ہوئے ہیں ۔ٹرینوں بسوں اور ہوائی اڈے بھی بند کر دئے گئے ایسے وقت میں کوئی کہاں جا سکتا تھا ۔اس حقیقت کو حکومت بھی خوب سمجھتی ہے کہ اس نے قدرے تاخیر سے کورونا جیسی مہلک وبا پر فیصلہ کیا اور اچانک لاک ڈاؤن شروع ہونے سے پریشانی بڑھی ہے ۔مگر اب حکومت کو اپنا چہرہ بچانا ہے اور اس کے لئے ملک کی فضا میں مذہبی منافرت پھیلانے سے زیادہ فائدہ اٹھا یا جا سکتا تھا اس لئے ملک کی بے ضمیر میڈیا نے تبلیغی جماعت کا بہانہ بناکر ملک میں قومی اتحاد کی جو مثالی فضا قائم ہو رہی تھی اس کو نقصان پہنچایا ہے ۔واضح رہے کہ اس وباکے پھیل جانے کے بعد اتر پردیش کے بلند شہر میں ایک ہندو نعش کی مسلمانوں نے سمسان میں آخری رسوم ادا کی تو سیکڑوں مسلمان مزدوروں کی ہندو بھائیوں نے مدد کی ۔ ملک میں ایک ایسی انسانی ہمدردی کی فضا قائم ہو رہی تھی جو موجود سیاست کے لئے خطرہ ہے اس لئے اس قدرتی آفت کے وقت بھی فرقہ واریت کو زندہ رکھنے کی کوشش کی گئی ہے ـ تبلغی جماعت کی غلطی قبول، مگر خدا کے واسطے اس سازش کو بھی سمجھیں کہ کس منصوبے کو پورا کرنے کے لئے اچانک قومی میڈیا کا رخ مسلمانوں کی طرف موڑا گیا ہے ۔اور ایک تیر سے دو شکار کیا گیا ہے ۔
اسلام کے پانچ ستون ہیں ؛ کلمہ، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج ۔
زکوٰۃ ضرورت سے زیادہ پسماندہ مال و دولت یعنی
surplus money in term of cash or kind or both
جس کی مالیت 87.47 گرام سونا یا 612.35 گرام چاندی یا اس کے برابر روپے پیسے وغیرہ ہو اور اس پر سال گزر گیا ہو تو اس مال پر سالانہ % 2.5 مستحقین زکوٰۃ کو دینا فرض ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے زکوٰۃ کے آٹھ مستحقین کا ذکر قرآن میں کیا ہے۔ جن میں فقیر، یعنی جس کے پاس چھ ماہ کے لئے نان نفقہ کا نظم ہو۔ مسکین جو فقیر سے قدرے بہتر حالت میں ہو یعنی جس کے پاس چھ ماہ سے زائد کا نظم ہو۔ اسی طرح تیسرا مستحق وہ شخص ہے جس کی گردن قرض میں پھنسی ہو۔ چوتھا مستحق مسافر ہے۔ اس چوتھے قسم کے مستحق کے بارے میں میرے ذہن میں واضح تصویر نہیں تھی اس لئے کہ آج کے بینکنگ ،اے ٹی ایم اور ڈیجیٹل ٹرانزیکشن کے دور میں کسی مسافر کو کیا دشواری ہو سکتی ہے اگر نقد روپے خرچ ہو گۓ یا جیب کٹ گئی یا کسی بھی طرح ختم ہو گۓ تو الیکٹرانک ٹرانزیکشن تو ہے۔ لیکن اس مہلک وباء کورونا وائرس نے لوگوں کے لیے جو بحرانی کیفیت پیدا کیا ہے اس سے سمجھ میں آیا کہ آج کے ڈیجیٹل دور میں بھی ” عابر سبیل” ہیں، بے یار و مددگار مسافر ہیں جو ممبئی سے راجستھان تلنگانہ سے اتر پردیش دہلی سے بہار اور بنگال یہاں تک کہ نیپال تک لوگ پیدل سفر کرنے پر مجبور ہیں ہوائی جہاز ٹرین بس سب بند ہیں اور دوسری طرف لوگ اس قدر دہشت زدہ ہیں کہ ایسے بیچ میں پھنسے ہوئے لوگوں کو نہ ہوٹل میں نہ دھرم شالا میں اور نہ مسافر خانہ میں قیام کی اجازت دی جا رہی ہے۔ زیادہ تر ان میں یومیہ مزدور، چھوٹی چھوٹی فیکٹریوں میں کام کرنے والے اور کنسٹرکشن ورکرز ہیں۔
زکوٰۃ جس مہینے میں حولان حول یعنی سال پورا ہو جائے اس وقت نکالنا ہے مگر عموماً لوگ رمضان المبارک کے مہینے میں نکالتے ہیں اور وہ اس لئے کہ رمضان المبارک میں ہر نیکی کا اجر دو گنا ہو جاتا ہے۔ اللہ جزائے خیر عطا کرے ان حساس طبیعت اہل خیر حضرات کو جنہوں نے حالات کی سنگینی کو محسوس کیا اور زکوٰۃ کی رقم لوک ڈاؤن سے متاثر افراد میں اسی وقت تقسیم کرنے پر راضی ہو گۓ۔ اللہ سے دعا گو ہوں کہ اللہ انہیں دو گنا نہیں دس گنا اجر سے نوازے آمین۔
مذہب کےلیے کورونا نے کیا چیلنج پیش کیا ہے؟ اس پر کافی بحث ہوچکی اور یہ بات واضح ہوچکی کہ جسے ہمارے لال بجھکڑ اپنے تئیں مذہب کےلیے چیلنج سمجھتے ہیں وہ چیلنج مذہب کےلیے نہیں بلکہ مذہب کے متعلق ایک بے بنیاد تصور کےلیے ہے؛ ایک ایسے تصور کےلیے جو مذہب نے پیش ہی نہیں کیا۔ مثال کے طور پر دوا ، علاج، تدبیر سے مذہب نے نہ صرف یہ کہ روکا نہیں بلکہ اس کا حکم بھی دیا ہے۔ اسی طرح مذہب نے خدا کو پکارنے کو کسی خاص جگہ یا وقت کے ساتھ مخصوص کیا ہی نہیں بلکہ اس کا تو دعوی ہی یہ ہے کہ:
دل کے آئینے میں ہے تصویرِ یار
جب ذرا گردن جھکائی ، دیکھ لی!
ان پہلوؤں پر اچھی خاصی گفتگو ہوچکی۔ اب ذرا دیکھتے ہیں کہ کورونا وائرس نے لبرلزم کےلیے کیا چیلنجز پیدا کیے ہیں اور ہمارے لبرل دوست، اگر وہ واقعی شوقیہ نہیں بلکہ حقیقی لبرل ہیں، تو وہ ان چیلنجز کے متعلق کیا راے رکھتے ہیں؟ کیا ان چیلنجز کے بعد وہ لبرلزم سے تائب ہو کر "مشرف بہ کوئی اور ازم ” ہوجائیں گے یا وہ لبرلزم کےلیے کوئی عذرخواہی پیش کرنے کو ترجیح دیں گے؟
ان چیلنجز میں ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ کورونا وائرس نے فرد کی آزادی کے تصور کو یکسر ختم کرکے رکھ دیا ہے اور فرد کی مرضی، اس کی آزادی، اس کے حق پر معاشرے اور ریاست کے حق کو قطعی فوقیت دے دی ہے۔ اس فوقیت کے کئی مظاہر ہیں۔
مثلاً کون سا فرد کہاں جانا چاہتا ہے، یہ اس کی مرضی نہیں ہوگی، بلکہ ہم دیکھیں گے کہ کیا اس کے جانے میں ہمارا نقصان تو نہیں ہوگا؟ چنانچہ ہم ضروری سمجھیں تو اس کی مرضی کے بغیر اسے "قرنطینہ” کے نام پر قید کرسکتے ہیں۔ وہ چیخے،چلائے، اپنے "شہری حقوق ” اور "شخصی آزادی” کے واسطے دے، لیکن ہم نہیں سنیں گے۔
یہ بات صرف ملک کے اندر ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کی ہی نہیں ہے، نہ ہی کسی دوسرے ملک کے شہری کو اپنے ملک میں داخلے کی اجازت نہ دینے کی حد تک ہے، بلکہ اپنے ہی شہریوں کو اپنے ہی ملک میں، اپنے ہی گھر میں ، اپنے ہی لوگوں میں آنے کی اجازت ہم تب تک نہیں دیں گے جب تک ہم مطمئن نہ ہوں کہ اس سے ہمیں خطرہ تو نہیں ہے!
اور ہاں، ہم صرف یہی نہیں دیکھیں گے کہ ہمیں اس سے خطرہ ہے کہ نہیں ، بلکہ ہم ہی یہ اختیار رکھتے ہیں کہ اس کے بارے میں فیصلہ کریں کہ اسے خطرہ ہے کہ نہیں ہے! "میرا جسم، میری مرضی” کی بات کہاں رہ گئی؟ اب تو تمھارا جسم، ہماری مرضی کا وقت ہے۔ چنانچہ تم چاہو یا نہ چاہو، ہم تمھیں تمھارے مفاد کی خاطر قرنطینہ میں رکھیں گے، تمھیں تمھاری مرضی کے خلاف کھانا دیں گے، تمھیں تمھاری مرضی کے خلاف دوا دیں گے، تمھاری مرضی کے خلاف تمھارے ٹسٹ کریں گے، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم تمھیں قیدِ تنہائی کی سزا دیں، اور یہ سب کچھ ہم تمھارے مفاد میں کریں گے کیونکہ تم اپنے مفاد کا درست فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہو، تم جان ہی نہیں سکتے کہ تمھارے حق میں کیا بہتر ہے۔ جیسے ہم معاشرے کےلیے خطرے کا باعث بننے والے مجرموں کو قید کرتے ہیں، جیسے ہم معاشرے کا سکون برباد کرنے والے پاگلوں کو پاگل خانے میں ڈالتے ہیں، ایسے ہی معاشرے میں وائرس پھیلانے والے فرد کو ہم معاشرے سے کاٹ دیں گے۔
وہ جو ہمیں کہا جاتا تھا کہ مریض کی مرضی کے بغیر اس کے ٹسٹ نہیں کیے جاسکتے، مریض کی مرضی کے بغیر اس کا علاج نہیں کیا جاسکتا، مریض کی مرضی کے بغیر اس کے جسم کے ساتھ کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا، مریض اپنی زندگی اور اپنے جسم کے متعلق فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتا ہے، اور کوئی دوسرا اس کے مفاد کا فیصلہ کرنے کا مجاز نہیں ہے، وہ سارا کچھ تو محض افسانہ ثابت ہوگیا۔ اب یہ سارا کچھ کیا جاسکتا ہے ، مریض کی مرضی ہو یا نہ ہو، بلکہ اس کی مرضی کی ایسی کی تیسی!
اچھا، اور وہ جو ہمیں کہا جاتا تھا کہ جمہوریت سب سے اعلی و ارفع نظام ہے، آمریت بری چیز ہے، جبر ناجائز ہے، وہ ساری باتیں بھی تو محض کہانیاں ہی ثابت ہوگئیں کیونکہ چین اور جنوبی کوریا نے دکھا دیا کہ کورونا وائرس سے نمٹنے کا بہترین طریقہ جبر اور آمریت ہے۔ لوگوں کو ٹیں ٹیں نہ کرنے دو، ریاستی طاقت کا بھرپور استعمال کرو، کسی پر ذرا بھی شبہ ہو کہ وہ وائرس زدہ ہے تو زبردستی اسے الگ تھلگ کرو، بعد میں ثابت ہوا کہ اسے وائرس نہیں تھا تو کوئی مسئلہ نہیں، اسے فارغ کردو، لیکن جب تک مطمئن نہ ہو اسے ہلنے نہ دو، پوری ریاستی مشینری کو جنگی بنیادوں پر وائرس کے خلاف متحرک کردو، تبھی تم اطمینان کی سانس لے کر کہہ سکو گے کہ چین اور جنوبی کوریا کی طرح ہم نے بھی وائرس پر قابو پالیا ہے!
اس سب کچھ میں شخصی آزادی اور انسانی حقوق پامال ہوتے ہوں تو ہوتے رہیں۔ انسان ہی نہیں ہوگا تو اس کے حقوق کا کیا سوال؟ چند انسانوں پر سختی کرکے ، ان پر جبر کرکے، ان کی آزادی سلب کرکے، ان کے حقوق پامال کرکے، ہم باقی انسانوں کو بچالیں گےاور ان کی زندگیوں کو محفوظ اور خوبصورت بنالیں گے۔ اس وقت مجبوری کی حالت ہے۔ ہمیں ایمرجنسی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ حالات وہ نہیں رہے کہ ہم شخصی آزادی کی لگژری افورڈ کرسکیں۔ بوقتِ ضرورت، دوسروں کے مفاد میں ، ان کی مرضی کے بغیر فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ ہم حالتِ جنگ میں ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔
اچھا؟ لیکن یہ سب مان لوں تو میں لبرل کہاں بچتا ہوں؟ لبرل عقیدے کے مطابق تو یہ سب کچھ ناجائز ہے۔ فرد ہی یہ فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتا ہے کہ اس کے حق میں کیا بہتر ہے اور کیا نہیں۔ کسی اور کے پاس یہ اختیار نہیں۔ ریاست تو شرِّ محض ہے۔ لبرلزم نے ریاست کو صرف مجبوری کی حد تک مانا تھا۔ لیکن آپ نے تو مجبوری کا دائرہ اتنا پھیلا دیا ہے کہ فرد کی آزادی بے معنی ہوگئی ہے۔ فرد، جو لبرلزم کے عقیدے کے مطابق ایک انتہائی خود غرض اکائی ہے، کیوں یہ سب کچھ برداشت کرے ؟