جے پور:تجارت اور صنعت کے مرکزی وزیرپیوش گوئل نے کہاہے کہ کسانوں کو مضبوط بنانانریندر مودی حکومت کی ترجیح رہی ہے اوران کا خیال ہے کہ اگر کسان کو بااختیار بنایا گیا تو ملک مزید مضبوط ہوگا۔یہاں صحافیوں سے گفتگوکرتے ہوئے پیوش گوئل نے کہا کہ مرکزمیں مودی حکومت مسلسل چھے سالوں سے کسانوں کی زندگیوں میں تبدیلی لانے ، ان کی پیداوار بڑھانے اورپیداوارکی صحیح قیمت حاصل کرنے کے لیے انتھک محنت کر رہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ حکومت نے اپنے اقدامات کے ذریعے کسانوں کا اعتماد اور دل جیت لیاہے۔مرکزی حکومت کے ذریعہ لائے گئے زرعی قوانین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے گوئل نے کہا کہ کسان برسوں سے پابندیوں میں بندھے ہوئے ہیں اور ان سے چھٹکارا پانے کے لیے مرکزی حکومت نے گذشتہ مہینوں میں متعدد تغیراتی اقدامات اٹھائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مودی سرکار ہر بحران میں کسانوں کے ساتھ کھڑی ہے اور حقیقت ملک کے سامنے ہے۔ انہوں نے کہا کہ کاشتکاروں کے مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے انہیں مختلف بندھنوں سے آزاد کرایا گیا ہے۔اب وہ کسی بھی جگہ اپنا اناج بیچنے کے لیے آزادہیں۔
کسان
نئی دہلی:کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے وزیر اعظم نریندر مودی سے اپیل کی ہے کہ وہ ملک اور کسانوں کے مفاد میں کسان بل فوری طور پر واپس لیں۔ راہل گاندھی نے وزیر اعظم مودی سے کہا ہے کہ وہ کسانوں کو کم سے کم سپورٹ قیمت کی ضمانت دیں۔ انہوں نے کہاہے کہ ملک بھر کے کسانوں کے مطالبے درست ہیں۔ ایک ویڈیوپیغام جاری کرتے ہوئے راہل گاندھی نے ٹوئیٹ کیاہے کہ کسان کے مطالبات مناسب ہیں، مودی جی ، ملک کی آواز سنیں۔ جے کسان ،جے ہندوستان۔راہل گاندھی حکومت کومسلسل بے روزگاری،کسان،مہنگائی اورمعاشی بدحالی پرگھیررہے ہیں اورعوام کی آوازمضبوطی کے ساتھ اٹھارہے ہیں۔
بنگلورو:کرناٹک کے تمکورکی ایک عدالت میں بالی ووڈاداکارہ کنگنا رناوت کے خلاف فوجداری مقدمہ درج کیاگیاہے۔ کسانوں کی توہین کرنے کاالزام لگاتے ہوئے کنگنا رناوت کے خلاف مقدمہ درج کیاگیاہے۔ دائرمقدمے میں کہاگیاہے کہ کنگنارناوت نے ٹویٹ کرکے زرعی بل کی مخالفت کرنے والے کسانوں کی توہین کی ہے۔اس ٹویٹ کے حوالے سے کسانوں نے کئی جگہوں پراحتجاج بھی کیاہے۔ تاہم بعدمیں وضاحت دیتے ہوئے کنگنارناوت نے کہاکہ انہوں نے کسانوں کی توہین نہیں کی ہے۔واضح ہوکہ کسان تنظیمیں ملک بھرمیں مرکزی حکومت کے زراعت بل کے خلاف سراپااحتجاج ہیں۔
قوانین واپس نہیں کیے گئے تو دہلی کاسفر ہوگا،کسانوں کامرکزی حکومت کو انتباہ
پٹیالہ:پٹیالہ شہر کی گلیوں میںآس پاس کے درجنوں دیہاتوں سے آنے والے کسانوں کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے۔ شہر کے منی سیکریٹریٹ کے قریب ان کسانوں کا اجتماع بہت بڑا ہوتا جارہا ہے اورتقریباََ دوکلومیٹر سڑک کسانوں سے بھری ہوئی بسوں اورٹریکٹروں سے بھری ہوئی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم نے آج احتجاج نہیں کیا تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔اگران قوانین پر عمل درآمدکیاگیاتوپنجاب کے کسان بربادہوجائیں گے۔کسانوں نے کہا کہ ہم ابھی اپنے گھروں سے باہر آئے ہیں اور دہلی کانپ رہی ہے ، اگر یہ قوانین واپس نہیں کیے گئے تو دہلی کا سفر کریں گے۔ ان میں ہر عمر اور ہر طبقے کے کسان شامل ہیں۔کسانوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اب ہزاروں کسان بسوں کی چھت پر چڑھ کر اپنے قائدین کی باتیں سن رہے ہیں۔بھارتیہ کسان یونین کے پٹیالہ ضلعی صدر منجیت سنگھ دیال نے یہ کہتے ہوئے سب کی تعریف کی کہ یہ قوانین کسانوں کی موت کے وارنٹ کے مترادف ہیں۔ اس کے بارے میں ان کاکہناہے کہ اگرپنجاب کاکسان پورے ملک میں سب سے زیادہ خوشحال ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ یہاں کےمنڈی سسٹم اور ایم ایس پی کا ملاپ ہے۔
کسان ترمیمی ایکٹ کے خلاف تحریک بہارپہنچی،آرجے ڈی 25 ستمبرسے سڑکوں پراترے گی
پٹنہ:آر جے ڈی کسان بل کوایک اہم انتخابی مسئلہ کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ پارٹی کسانوں کی کمر پر ہاتھ ڈال کر ووٹ حاصل کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔تیجسوی یادو کی قیادت میں پارٹی کارکنان اور لیڈران 25 ستمبر سے سڑکوں پراحتجاج کریں گے۔تیجسوی یادونے بدھ کے روز پریس کانفرنس میں کہاہے کہ کسانوں کے ساتھ دھوکہ کیا جارہا ہے۔ پارٹی اس کو برداشت نہیں کرے گی اور ہر سطح پر لڑنے کے لیے تیارہے۔ ایک سوال کے جواب میں تیجسوی یادونے کہا کہ آر جے ڈی ہمیشہ سے کسانوں کے ساتھ رہی ہے اور رہے گی۔ وہ اس مسئلے پر ہر لڑائی لڑنے کے لیے تیارہے۔تیجسوی یادو نے وزیر اعظم پر طنزیہ لہجے میں کہا کہ جن کاشتکاروں نے پیٹ بھر ا آج ان پر حملہ کیا جارہا ہے۔ کسانوں کی اذیت کو بیان کرتے ہوئے تیجسوی یادونے کہا کہ آر جے ڈی ان کے ساتھ ہے۔ جے جوان اورجے کسان کا نعرہ ہمیشہ رہا ہے ، اسی بنا پر حکومت سے جوابات طلب کیے جائیں گے۔بدھ کے روز تیجسوی یادونے آر جے ڈی آفس سے تشہیر ی رتھ کو بھی روانہ کیا۔
فیصل فاروق
مہاراشٹر میں راتوں رات دیویندر فرنویس کی حلف برداری اور ڈرامائی انداز میں حکومت سازی کے خلاف داخل کی گئی عرضی پر سپریم کورٹ نے گزشتہ دنوں تاریخی فیصلہ سنایا۔ کورٹ نے مہاراشٹر میں نہ صرف اراکین اسمبلی کی خرید و فروخت کا اندیشہ ظاہر کیا بلکہ جمہوری قدروں کے تحفظ کی وکالت کی اور عام شہری کے اُس حق کو تسلیم کیا کہ اُسے اچھی اور بہتر حکومت فراہم کی جاۓ۔ سپریم کورٹ نے منگل کو جیسے ہی کہا کہ بدھ کی شام ۵/بجے تک دیویندر فرنویس کو اکثریت ثابت کرنی ہوگی، تو اُن کے پیروں تلے زمین کھسک گئی۔ فیصلے کے کچھ ہی دیر بعد پہلے نائب وزیراعلیٰ اجیت پوار نے استعفیٰ دیا۔ اُس کے بعد یہ کہتے ہوئے کہ اُن کے پاس اکثریت نہیں ہے، فرنویس کو بھی استعفیٰ دینا پڑا۔
بی جے پی نے اجیت پوار کے بھروسے ہی مہاراشٹر میں حکومت بنانے کا قدم اٹھایا تھا اور اُسے پوری اُمید تھی کہ اجیت پوار اپنے ساتھ این سی پی کے کچھ اراکین اسمبلی کو توڑ کر لائیں گے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ بی جے پی آخر تک اقتدار اور ای ڈی، سی بی آئی جیسی ایجنسیوں کی طاقت پر منحصر رہی۔ صدر جمہوریہ اور مہاراشٹر کے گورنر تک کا ’استعمال‘ کیا گیا اور راتوں رات ’غیر مماثل شادی‘ کرا دی گئی۔ اتنا ہی نہیں صبح صبح گھر کے بڑوں، وزیراعظم اور وزیر داخلہ نے ٹویٹر کے ذریعہ سے اپنا ’آشیرواد‘ بھی دے دیا تھا۔
مہاراشٹر میں شیوسینا، بی جے پی کے مابین وزیراعلیٰ کا عہدہ تنازعہ کا باعث رہا۔ اِسی تنازعہ کو لے کر مہاراشٹر میں سیاست کا ’ ہائی وولٹیج مہا ڈرامہ‘ چلا۔ واضح رہے کہ مہاراشٹر کی ۲۸۸/اسمبلی نشستوں کیلئے ۲۱/اکتوبر کو انتخابات ہوئے تھے۔ نتائج کا اعلان ۲۴/اکتوبر کو کیا گیا تھا۔ ریاست میں حکومت بنانے کیلئے کسی پارٹی یا متحدہ محاذ ’مہا وکاس اگھاڑی‘ کا دعویٰ نہ پیش کرنے کے سبب ۱۲/نومبر کو صدر راج نافذ کر دیا گیا تھا۔ شیوسینا اور بی جے پی نے ساتھ مل کر یہ الیکشن لڑا تھا لیکن جب شیوسینا نے وزیراعلیٰ کے عہدے کا مطالبہ کیا تو بی جے پی کے ساتھ شیوسینا کا ۳۰/سالہ قدیم اتحاد ختم ہو گیا اور اِس طرح مہاراشٹر میں سیاسی بحران پیدا ہوا۔
مزے کی بات یہ رہی کہ لوگوں نے صبح اخبار میں پڑھا تو اُدھو ٹھاکرے وزیراعلیٰ تھے اور جب ٹیلیویژن دیکھا تو پتہ چلا کہ کوئی اور وزیراعلیٰ بن چکا ہے۔ لوگ نیند کی آغوش میں تھے اور تختہ پلٹ دیا گیا۔ مہاراشٹر میں ایسا سیاسی ڈرامہ پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ پہلے کبھی اِس طرح طاقت کے بنیاد پر جمہوریت کا مذاق نہیں بنایا گیا تھا۔ کانگریس کے سینئر لیڈر احمد پٹیل جنہوں نے کانگریس، این سی پی اور شیوسینا میں اتحاد کیلئے گفت و شنید میں مرکزی کردار ادا کیا تھا، نے اِس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’اُنہوں (بی جے پی) نے غیر قانونی طریقہ سے اقتدار حاصل کرنے کیلئے جس طرح ہمارے آئین اور اعلیٰ عہدوں کو نقصان پہنچایا ہے، اُس کی تلافی کیلئے دہائیاں درکار ہوں گی۔‘‘
ہر شہری کو آئین کی پاسداری کرنی چاہئے خاص طور پر آئینی عہدوں پر فائز افراد کو۔ میڈیا نے بھلے ہی گورنر بھگت سنگھ کوشیاری کی غیر آئینی اور غیر جمہوری حرکت کو ’کوشیاری کی ہوشیاری‘ کہا ہو لیکن حقیقت میں یہ گورنر موصوف کی ’ذہانت‘ کا کمال نہیں تھا بلکہ اُس ’ذہنیت‘ کا نتیجہ تھا جو اُنہیں ’شاکھا‘ سے حاصل ہوئی ہے۔ آدھی رات کو آئین کی روح کے منافی فیصلہ کرتے ہوئے موصوف کو یہ بھی یاد نہیں رہا کہ اِس وقت وہ ’پرچارک‘ یا ’شاکھا پَرمُکھ‘ نہیں ہیں بلکہ ملک کی ایک اہم ریاست کے پُروقار عہدے پر فائز ہیں۔ اپنی غلطی مان کر کوشیاری جی کو کچھ اخلاقیات کا مظاہرہ کرتے ہوئے استعفیٰ دے دینا چاہئے۔
مہاراشٹر میں حکومت بنانے کیلئے تمام تر حربوں کا سہارا لینے کے بعد بھی بی جے پی کو منہ کی کھانی پڑی۔ اِس سے پہلے ہریانہ میں بی جے پی زور شور سے ریاست کی ٩٠/میں سے ۷۵/سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے کا دعویٰ کر رہی تھی لیکن اُسے ۴٠/سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا اور نئی نئی وجود میں آئی دشینت چوٹالہ کی جَن نایک جنتا پارٹی کے ساتھ اتحاد کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ کانگریس سے پاک ہندوستان کا نعرہ بلند کرنے والی بی جے پی خود ہندوستان کے نقشہ سے اپنے خاتمے کی جانب بڑھ رہی ہے۔ اگرچہ بی جے پی کی حکومت ابھی بھی ۱۷/ریاستوں میں ہے مگر رقبہ کے لحاظ سے بڑی اور خصوصی ریاستیں ہاتھ سے نکل چکی ہیں۔
امیت شاہ کی قیادت میں بی جے پی کے سامنے یہ پہلا موقع ہے جب وہ اتنی نشستیں جیتنے کے بعد بھی اقتدار سے باہر ہوگئی۔ امیت شاہ اب اِس خوش فہمی سے باہر نکلیں کہ اُنہیں کوئی ہرا نہیں سکتا، وہ ناقابلِ شکست ہیں۔ مہاراشٹر سے قبل بی جے پی گوا اور ہریانہ جیسی ریاستوں میں اکثریت سے دور ہونے کے باوجود حکومت بنانے میں کامیاب رہی تھی۔ کرناٹک میں بی جے پی نے حکومت بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی لیکن مہاراشٹر میں شرد پوار کی سیاسی پختگی نے اُس کی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا۔ مہاراشٹر میں شہ اور مات کے کھیل میں شرد پوار نے ثابت کر دیا کہ وہ مہاراشٹر کی سیاست کے مردِ آہن ہیں۔
بہرحال، مہاراشٹر میں جو کچھ بھی ہوا اُس سے بی جے پی کی شبیہ کو نقصان ہوا ہے بلکہ اُس کی وجہ سے پارٹی کے وقار اور وزیراعظم کی شبیہ کو بھی زبردست دھکا لگا ہے۔ اِس سیاسی اُٹھا پٹخ میں شیوسینا سب سے زیادہ فائدے میں رہی اور بی جے پی نقصان میں۔ کل تک شیوسینا کو نائب وزیراعلیٰ کا عہدہ نہیں مل رہا تھا لیکن اب وزارت اعلیٰ کی کرسی مل گئی جبکہ اُس کے ارکان اسمبلی کی تعداد این سی پی کے ارکان اسمبلی سے کچھ ہی زیادہ ہے۔ مہاراشٹر میں بی جے پی کی اِس ذلت آمیز شکست سے دیویندر فرنویس پر مرزا صادق شرر دہلوی کا یہ شعر صادق آتا ہے:
نہ خدا ہی مِلا نہ وصالِ صَنم
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے