کل جب آپ نے "شاہین باغ” کیا تھا تو پنجاب کے سکھ حضرات نے آپ کا ساتھ دیا تھا۔ آج انہیں ضرورت ہے۔ آج پنجاب کے کسان مشکل میں ہیں ۔ ان کے ساتھ محض اظہار یکجہتی کے طور پر ہی سہی ہمیں کھڑا ہونا چاہیے۔
کیا ہماری تمام جماعتیں،جمعیتیں اور تنظیمیں مشترکہ یا انفرادی طور پر ایک بیان بھی جاری نہیں کرسکتیں؟ اور پھر ان کسانوں میں صرف سکھ یا ہندو ہی نہیں ہیں بلکہ مسلمان بھی ہیں ؛ لیکن اصل عنصر تو اشو ہے۔ان کا اشو حقیقی ہے۔ان کا مطالبہ جائز، جمہوری اور قانونی ہے۔
پنجاب کے جانباز کسانوں نے دکھادیا ہے کہ سرکاروں سے کس طرح لڑا جاتا ہے۔ آج صبح فجر کے وقت جب محض 100 میٹر کے فاصلہ سے دہلی پولیس ان پر آنسو گیس کے ماڈرن گولے پھینک رہی تھی تو وہ نعرے لگارہے تھے :
آنسو گیس کے گولے نہیں ہم پر تم گولی چلاؤ
ہمارے اظہار یکجہتی کا کوئی اثر ہو یا نہ ہو اور ہمارے اظہار یکجہتی کا مستقبل میں کوئی "جوابی فیض” حاصل ہو یا نہ ہو خیرِ امّت ہونے کے ناطے یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کا ادنی درجہ میں ہی سہی’ ساتھ دیں ۔ گزشتہ شب افروز عالم ساحل نے بتایا تھا کہ دہلی کی کچھ مسجدوں کے ذمے داروں نے اعلان کیا ہے کہ وہ پریشان حال کسانوں کے لئے اپنی عبادت گاہوں کے دروازے کھول رہے ہیں اور ان کے کھانے پینے کا بھی انتظام کر رہے ہیں۔
Tag: