نئی دہلی:ملک میں کرونا وائرس سے بچاؤ اور احتیاط کے درمیان مرکزی وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن نے عوام کو یقین دلایا ہے کہ اکتوبر کے آخر تک اس سلسلے میں پوراخاکہ تیار ہوجائے گا۔ جولائی 2021 کے آخر تک تقریباً 25 کروڑ افراد کوویکسی نیشن کا انتظام کیا جائے گا۔ مرکزی وزیر نے کہا کہ وہ امیونیٹی تو بڑھاتا ہے لیکن اس کے وسیع پیمانے پر اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ایسی دوا کا مثبت کردار ابھی تک سمجھ میں نہیں آیا ہے ۔ کرونا سے بچانے کے لئے وٹامن کی گولیوں پر انہوں نے کہا کہ طبی مشورے کے بغیر کبھی بھی کوئی دوا نہیں لینی چاہیے ۔ وٹامن سی ہمارے مدافعتی نظام کو مستحکم کرتا ہے اور بیماریوں سے لڑنے کے لئے قوت فراہم کرتا ہے۔ لیکن قدرتی غذا کے ذریعہ جسم میں غذائی اجزا کی فراہمی بہترین اور بہتر طریقہ ہے۔پنجاب میں کوڈ کے بہانے مریضوں کے اعضاء نکالے جانے کی فواہ پر انہوں نے کہا کہ کورونا کی وجہ سے مرنے والوں کو کوئی نہیں چھوتا،خصوصی نگرانی میں آخری رسومات کیلئے بھیجی جاتی ہے۔لاش سے اعضاء نکالے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پولیو اور روبیلا ویکسین کے دوران بھی ایسی ہی افواہ پھیلائی گئی اور عوام کی طرف سے طبی ٹیم کو مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔روسی ویکسین SPUTNIK-V کے تیسرے مرحلے کے ٹرائل کے سوال پر مرکزی وزیر نے کہا کہ حکومت اس سلسلے میں عوام کو ذہن میں رکھتے ہوئے کوئی فیصلہ کرے گی۔
کرونا وائرس
ہے کر ونا جا ن لیوا اس سے ر ہنا ہو شیار
اسکو نہ ہلکے میں لینا آپ ہرگز میرے یار
جو کہے سر کار اس بار ے میں اس کو مانئے
ور نہ ہے نقصا ن ا پنا ہی ہما را جا نئے
کو ئی نہ سا زش ہے اس میں نہ کسی کی د شمنی
ہے یہ بیما ری حقیقت میں اسے سمجھیں سبھی
ہے و با جیسا مَرَ ض جو پھیلتا ہے چھو ت سے
یعنی لمسِ با ہمی ، بیجا جو ہیں کر توت سے
یو ں تو ہے صد یوں پر انی یہ بیما ر ی جا ن لیں
ا ب یہ پھیلی ہے نئی صورت میں اسکو ما ن لیں
سرد یوں میں یہ شروع ہوتی ہے دنیا میں کہیں
پھر سفر کر تی ہے ا تنا تیز کہ کچھ حد نہیں
آ د می سے آ د می پر ڈ ا لتی ہے یہ ا ثر
اس طر ح کہ آ د می کو بھی نہیں ہو تی خبر
وائرس ایسا ہے کہ دکھتا نہیں آنکھوں سے یہ
ایک سے پھر دوسرے کو چِت کرے سانسوں سے یہ
اس کا ہے کو ئی قبیلہ اور نہ کو ئی دھر م
یہ نہیں رکھتی کسی عہد ے نہ دو لت کا بھر م
اس کی نظروں میں برابر ہندو مسلم سکھ سبھی
اس کی زد پہ جو بھی آیا و ہ نہیں بچتا کبھی
اس سے لڑنا ہے ہمیں مِل کر بڑی ہمت کے ساتھ
جنگِ آزا د ی لڑ ی تھی جس طرح جرأت کے ساتھ
تب کہیں جا کے نکا لا ہم اسے دے پا ئیں گے
اور تر قی کی طر ف اس د یس کو لے جا ئیں گے
بند مُٹھی کی طرح مِل جُل کے مضبو طی کے ساتھ
صرف با تیں نہ کریں تھا میں غر یبوں کے بھی ہاتھ
جو ہد ا یت ہم کو د ی آیو ش نے ا س کو جا ن لیں
وہ دوائیں لینے کی ہم سب دلوں میں ٹھان لیں
مند ر و مسجد ہو گر جا ، گر دو ا رہ آ شر م
ہر جگہ قا نو ن شکنی سے بچیں ر کھیں بھر م
ہو ا گر کھا نسی یا نزلہ ، چھینک دردِ سر ا گر
اک طرف ہو کر رہیں آرام سے بس ا پنے گھر
سا نس لینے میں ا گر د قت ہو ئی محسو س تو
پھر کر یں جلد ی خبر مستشفیء سر کار کو
د و د ھ میں ہلد ی ملا کر پیجئے گا را ت کو
آپ کی صحت بنے گی ما نئے بھی با ت کو
اور یو گا بھی کر یں یعنی کہ ورزش جسم کی
نا ر مل تا کہ ر ہے ہر د م ہی سوزش جسم کی
شر بتِ نز لہ علی گڑ ھ کا مفیدِ جا ن ہے
ہے گھر یلو سی د و ا ، لینا بہت آ سا ن ہے
سی وِ ٹا من کے ہیں جتنے پھل ، بہت ہیں کا م کے
چینی و ہند ی ہوں یا مل جا ئیں ملکِ شا م کے
لیکے پانی گرم اس میں ڈ ا لیں د و چٹکی نمک
غر غر ہ کر لیجئے گا ہفتہ یا د س د ن تلک
چا ئے تُلسی کی بنا کر پیجئے شا م و سحر
خود پئیں سب کو پلائیں جو بھی آئے اپنے گھر
مسجدوں میں ہے ا جاز ت ا ب نمازوں کی ہمیں
سا ٹھ سے او پر کے جو ہیں وہ نمازیں گھر پڑ ھیں
اور جو بچے ہیں دس سے کم وہ گھر ہی میں رہیں
ساتھ ا می کے نمازیں ا پنے ہی گھر پر پڑ ھیں
جو تے چپل ا پنے با ہر ہی نکا لیں د یکھ کر
ذ ہن میں ر کھّیں ہمیشہ یہ کہ ہے اللہ کا گھر
ٹو پیاں اوڑ ھیں نہ مسجد کی ا بھی و قتِ نما ز
تو لیوں سے خود بچیں اور دوسروں کو رکھیں با ز
گھر سے ہی کرکے وضو آنا ہے مسجد میں جنا ب
سُنتیں بھی گھر پہ پڑھ کر پائیے اسکا ثوابِ
صف بنا ئیں فا صلہ ر کھ کر بقد رِ د و قد م
پھر کھڑے ہونے میں رکھیں فاصلہ مثلِ حر م
ہاتھ صابن سے بہت اچھی طرح سے دھوکے جائیں
گھر پہ بھی دھونا ہے پھر سے جس گھڑی مسجد سے آئیں
کھانسی کھُر کا چھینک نزلہ ہو تو مسجد کو نہ جائیں
اپنے گھر کو ہی نمازوں کے لئے مسجد بنا ئیں
منہ پہ ر کھیں کو ئی کپڑا یا کو ئی د ستی رومال
پھر کرونا کچھ ضرر کر دے نہیں اس کی مجال
ہر وضو کے وقت دھوئیں ہاتھ صابن سے ضرور
اس طرح سے توڑ سکتے ہیں کُرونا کا غرور
جن علا قوں میں کُر ونا ہے بہت زیا دہ و ہاں
مسجدوں میں ہیں وہی پا بند یاں بعد از اذاں
جتنے ہیں حمّام مسجد کے انہیں رکھنا ہے بند
تا کہ پھیلے نہ کوئی حمّام سے کو ئی بھی گند
جا نماز یں سا تھ لے آئیں عبا دت کے لئے
جیب میں قر آن بھی ر کھّیں تلا وت کے لئے
ہے اجازت کہ کریں مسجد میں لوگوں کو سلام
ہے منع لیکن ملا نا ہا تھ یا پھر ا ستلا م
کیجئے نہ کا م مسجد میں کو ئی ایسا جنا ب
جس سے قانو نی پکڑ ہو جائے اے عز ت مآ ب
ہر و با ر ہتی ہے تھو ڑے دن، نہیں رہتی سد ا
یہ بھی ا ب جا نے کو ہے تیار، بس کیجیے د عا
قاسمی کی ہے دعا ، اللہ دے ہم کو نجا ت
اس و با ئے جا ن لیو ا کی کٹے تا ر یک ر ا ت
نورنگ دوا خانہ بنگلور (08025478397 /9448344458)
ایم ودود ساجد
"….تبلیغی جماعت کے خلاف لیا جانے والا ایکشن
ہندوستانی مسلمانوں کو دی جانے والی بالواسطہ وارننگ۔”
پورے ملک میں تین ہزار سے زیادہ غیر ملکی تبلیغی افراد کو لاک ڈاؤن کے بہانے جس طرح پولیس‘میڈیا‘ شرپسند گروہوں اورحکومتوں کے ذریعہ ستایا گیا اس سے پورا ملک واقف ہے۔۔۔ انہیں مسجدوں سے گرفتار کیا گیا‘ ان پر کورونا پھیلانے کے الزامات عاید کئے گئے‘ انہیں کورنٹائن سینٹروں میں ڈالا گیا‘ ہفتوں تک وہاں ستانے کے بعد انہیں جیلوں میں ٹھونس دیا گیا۔ان پرآئی پی سی اور دوسرے کئی ایکٹ کے تحت مختلف دفعات میں مقدمات قائم کئے گئے۔اترپردیش میں سہارنپور اور ہریانہ میں نوح کی مقامی عدالتوں کے علاوہ تامل ناڈو‘ کرناٹک اور دہلی کی ہائی کورٹس نے بھی بہت سے غیر ملکی تبلیغی شہریوں کو راحت دی۔ان میں بہت سے اپنے ملکوں کو لوٹ بھی گئے۔
لیکن اِسی طرح کے ایک مقدمہ میں بمبئی ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بنچ نے جو فیصلہ سنایا ہے وہ ہندوستان کی تاریخ میں آبِ زر سے لکھا جائے گا۔اس فیصلہ نے ہر اُس نکتہ کو شامل کرلیا ہے جس پر ملک کے تمام انصاف پسند طبقات اور خاص طور پر ہندوستانی مسلمان گزشتہ 6 سال سے تڑپ رہے ہیں۔۔۔ میں نے اس سلسلہ میں اپنے یوٹیوب چینل VNI کیلئے جو تازہ ویڈیو ایپی سوڈ بنایا ہے اس میں اپنے انداز سے اس فیصلہ کا جائزہ لیا ہے۔میں نے خیال ظاہر کیا ہے کہ اگر مجھ سے محض ایک سطر میں اس فیصلہ کے بارے میں رائے ظاہر کرنے کیلئے کہا جائے تو میں کہوں گا کہ : میرے لئے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ یہ فیصلہ انسانوں کا لکھا ہوا ہے یا آسمان سے فرشتے اتر کر آئے اور انہوں نے اپنے قلم سے یہ فیصلہ لکھ دیا۔
گزشتہ روز میرے ہزاروں احباب نے مجھ سے خواہش ظاہر کی کہ اس فیصلہ کی تفصیل اور اس کا جائزہ پیش کروں۔لیکن میں سروائیکل کی بڑھی ہوئی تکلیف کے سبب ایسا نہ کرسکا۔آج جو کچھ وقت معمول کے کام کاج اور دو مختلف ویڈیوز کی شوٹنگ کے بعد بچا ہے اس میں ممبئی ہائی کورٹ کے متعلقہ فیصلہ کی تلخیص پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
مہاراشٹرکے ضلع احمد نگر میں 29 غیر ملکی شہریوں کو پولیس نے گرفتار کرکے ان پر ڈزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ‘ پینڈیمک ایکٹ‘ فارنرس ایکٹ اور ویزا ایکٹ کے علاوہ آئی پی سی کی دفعات 270, 269, 188, 144 کے تحت مقدمات قائم کئے تھے۔اس کے علاوہ ان کے 6 ہندوستانی میزبانوں کو بھی ماخوذ کیا گیاتھا۔۔۔ گزشتہ 21 اگست 2020 (جمعہ) کو تین مختلف پیٹشنوں پر ہائی کورٹ کے جسٹس ٹی وی نلواڈے اور جسٹس ایم جی سیولکر کی بنچ نے 58 صفحات پر مشتمل فیصلہ سناتے ہوئے ان کے خلاف تمام ایف آئی آر کو منسوخ کرنے کا حکم دینے کے علاوہ جو کچھ کہا اس کی تلخیص یہ ہے :
”…قدرتی آفات یا وبا کے بحران کے وقت سیاسی حکومتوں کو کسی بلی کے بکرے کی تلاش ہوتی ہے۔ حالات و واقعات سے ایسا لگتا ہے کہ (کورونا کے دوران) تبلیغی جماعت کے ان لوگوں کو بلی کے بکرے کے طور پر منتخب کیا گیا.ان کے خلاف کی جانے والی کارروائی‘ سی اے اے اور این آرسی کے خلاف کئے جانے والے مظاہروں کے پس منظر میں ہندوستانی مسلمانوں کو بالواسطہ طور پر دی جانے والی ایک وارننگ تھی۔”
"….. جس مواد پر بحث ہوئی ہے اس کی روشنی میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں یا غیر ملکی تبلیغیوں کے ذریعہ کوئی پریشانی یا مزاحمت نہیں کھڑی کی گئی بلکہ دوسروں کے ذریعہ ان کے خلاف پریشانی اور مزاحمت کاماحول بنایاگیا۔….”
"…. میڈیا کے ذریعہ بڑا اور غیر مطلوب پروپیگنڈہ کرکے ایک ایسی تصویر بنانے کی کوشش کی گئی کہ جیسے یہ غیر ملکی ہی کورونا پھیلانے کے ذمہ دار ہیں۔ حکام کو توبہ کرنی چاہئے اور اس ایکشن سے جو نقصان ہوچکا ہے اس کی تلافی کرنی چاہئے۔”
"….. حکومت مختلف ملکوں کا شہری ہونے یا مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے کی بنیاد پر لوگوں کے ساتھ مختلف سلوک نہیں کرسکتی۔ ہندوستان کے اتحاد اور اس کی سلامتی کے لئے سماجی اور مذہبی رواداری ایک عملی ضرورت ہے اور ہندوستان کے آئین کی رو سے اسے لازمی قرار دیا گیا ہے۔”
عدالت نے فیصلہ میں ایک کمال کا اضافہ کرتے ہوئے ایک ضمنی عنوان لگایا۔: بدنیتی کا پس منظرـ اس ضمن میں عدالت نے لکھا:
”…..عدالت نے غور کیا ہے کہ حکام کو ایسی ہدایات جاری کرنے کیلئے کس چیز نے اکسایا۔جنوری 2020 سے کچھ پہلے سے ملک میں مختلف مقامات پر مظاہرے منعقد ہوئے تھے۔ مظاہروں میں زیادہ تر شریک ہونے والے مسلمان تھے۔ان کا خیال ہے کہ شہریت کا ترمیمی قانون 2019 مسلمانوں کے ساتھ امتیاز کرتا ہے۔وہ این آر سی کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے۔یہ کہا جاسکتا ہے کہ (تبلیغی جماعت کے خلاف) اس ایکشن سے ان کے دلوں میں خوف بٹھایا گیا۔اس ایکشن نے بالواسطہ طورپر ہندوستانی مسلمانوں کو ایک وارننگ دی کہ کسی بھی چیز کیلئے مسلمانوں کے خلاف کسی بھی قسم کا ایکشن لیا جاسکتا ہے۔ یہ اشارہ بھی دیا گیا کہ غیر ملکی مسلمانوں کے ساتھ تعلق رکھنے کے خلاف بھی ایکشن لیا جائے گاـ ایسا ایکشن ان غیر ملکیوں کے خلاف نہیں لیا گیا جو دوسرے مذاہب کے تھے۔”
”..غیر ملکی شہریوں پر ایسی کوئی پابندی نہیں ہے کہ وہ مذہبی مقامات کی زیارت نہیں کرسکتے یا وہ مذہبی سرگرمیوں اور عبادات میں شرکت نہیں کرسکتے۔مہاراشٹر پولیس نے میکانکی طور پر ایکٹ کیا اور بادی النظر کے شواہد کے بغیراور اپنا دماغ لگائے بغیر فردِ جرم عاید کردی۔ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ ریاستی حکومت نے سیاسی مجبوریوں کے تحت کارروائی کی اور پولیس نے بھی خود کو حاصل اختیارات کا استعمال کرنے کی جرات نہیں دکھائی.”
عدالت نے تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں کے بارے میں لکھا:
”….. یہ سرگرمی 50 سال سے جاری ہے۔۔۔تبلیغی جماعت مسلمانوں کا کوئی الگ فرقہ یا مسلک نہیں ہے بلکہ یہ جماعت مسلمانوں کے درمیان اصلاح کا کام کرتی ہے۔ہر دور میں کچھ مدت کے بعد مذہب کے پیروکاروں کو اصلاح حال کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ تبلیغی دوسروں کا مذہب تبدیل نہیں کراتے۔غیر ملکی تبلیغی تو اردو یا ہندی بھی نہیں جانتے جو یہاں ’دھرم پریورتن‘ کے لئے مطلوب زبانیں ہیں۔یہ لوگ عربی اور فرینچ جانتے ہیں۔ انہوں نے یہاں کسی بھی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی۔
"…اس حقیقت کو کہ مسجدوں نے ان غیر ملکی تبلیغیوں کو پناہ دی‘ایک جرم کے طورپر نہیں لیا جانا چاہئے تھا۔لاک ڈاؤن کے دوران اپنے گھروں کو لوٹنے والے مزدوروں کے لئے گرودواروں نے بھی تو اپنے دوروازے کھول دئے تھے۔۔۔۔ حکام نے ایسا کوئی مواد پیش نہیں کیا کہ لاک ڈاؤن یا حکام کی ہدایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسجدوں نے عام شہریوں کے لئے بھی اپنے دروازے کھول دئے تھے۔”
پس نوشت:
عدالت سے پولیس نے فیصلہ کے خلاف اپیل کرنے کی مہلت مانگی لیکن عدالت نے یہ کہہ کر اپیل کو مسترد کردیا کہ ان غیر ملکیوں کو ہندوستان سے واپس بھیجنے میں بھی کافی وقت لگ سکتا ہے۔۔۔۔ اس کے علاوہ دو رکنی بنچ کے جسٹس ایم جی سیولکر نے کہا کہ تبلیغیوں کے خلاف تمام ایف آئی آر ختم کرنے والے فیصلہ کے حصہ سے میں اتفاق رکھتا ہوں تاہم جسٹس ٹی وی نلواڈے کی بعض دوسری آراء پر میرا مختلف مشاہدہ ہے۔ ابھی جسٹس سیولکر کا علاحدہ مسودہ نہیں آیا ہے جس میں انہوں نے اپنے دلائل دئے ہیں۔کلیدی فیصلہ بہر حال جسٹس ٹی وی نلواڈے نے ہی لکھا ہے۔
ہندوستان میں کرونا وائرس آہستہ آہستہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے، مریضوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے تین سے چار ہزار کے درمیان روزانہ کرونا مریض دریافت ہورہے ہیں، جو ایک مشکل ترین اور تکلیف دہ مرحلہ ہے، مریضوں کی تعداد 85 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے، اور مرنے والوں کی تعداد بھی ڈھائی ہزار سے زیادہ ہوگئی ہے، اور تین ہزار کے قریب پہنچا ہی چاہتی ہے،حالانکہ اس تکلیف دہ صورت حال کے باوجود اطمینان بخش پہلو یہ ہے کہ تیس ہزار سے زائد مریضوں نے کرونا وائرس کو شکست دے دی ہے اور صحت یاب ہو کر اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہیں ـ
کرونا وائرس کے قہر سے بچنے کے لئے عالمی ادارۂ صحت نے مختلف احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہونے کا مشورہ دیا تھا، جن کو لوگوں نے اپنی زندگیوں میں شامل کرلیا ہے اور ان تدابیر کو روز مرہ کے معمولات کا حصہ بنا لیا ہےـ
احتیاطی تدابیر میں سوشل ڈسٹینسنگ انتہائی اہمیت کی حامل ہے، اس کو پورے طور نافذ کرنے کے لئے لاک ڈاؤن کا نفاذ عمل آیا ، جس کے ذریعے کرونا وائرس کی رفتار کو کرنے کی کوشش کی گئی، ہمارے ملک میں لاک ڈاؤن کے تین مرحلے پایۂ تکمیل کو پہنچ چکے ہیں،چوتھا مرحلہ بھی شروع ہوا چاہتا ہے، جس کی جانب وزیراعظم نیندر مودی نے اپنی تقریر میں اشارہ کردیا تھا، معاشی سرگرمیاں معطل ہیں، البتہ لاک ڈاؤن کے چوتھے مرحلے میں مزید رعایتوں کی توقع کی جارہی ہے، حالانکہ اِن رعایتوں سے معیشت کو استحکام نصیب ہوگا یا نہیں یہ بھی بڑا سوال ہے، معاشی نظام کو مکمل طور پر درست ہونے میں کتنا وقت لگے گا، اس سلسلے میں یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے، لاک ڈاؤن کے کتنے مراحل نافذ کیے جائیں گے ؟ یہ سوال حکومت کے لیے مشکل ترین ہے ، وزیراعظم نے پہلے ہی جان بھی اور جان بھی کا نعرہ دیا ہے، وہ معاشی صورت حال کو بھی بہتر رکھنا چاہتے ہیں اور کرونا وائرس سے بھی لوگوں کا تحفظ چاہتے ہیں، جس کا عملی نمونہ لاک ڈاؤن 3 میں نظر آیا اور کرونا وائرس کی صورت حال کے مدنظر ملک کو مختلف حصوں(ریڈ زون، اورنج زون، گرین زون،) میں تقسیم کرکے معاشی نظام کو شروع کرنے کی کوشش کی گئی، جس کی کامیابی اور ناکامی ظاہر ہے، آگے سفر انتہائی مشکل ہے، کرونا وائرس کو شکست دینا اور معاشی مسائل کو حل کرنا مشکل کام ہے، جس کے لئے وزیراعظم نے ایک بڑے پیکیج کا اعلان بھی کیا ہے، جس کی تفصیلات وزیر خزانہ پیش کر رہی ہیں، تین مراحل ہمارے سامنے آچکے ہیں، جن میں مزدوروں کسانوں اور چھوٹے کاروباریوں سے متعلق اعلانات کیے گئے ہیں، جن کے مطالعے سے یہ بَات واضح ہوگئی ہے، ان اسکیموں کے ذریعے تینوں طبقات کو فوائد حاصل ہوں گے، لیکن ان کے چولہوں کی ٹھنڈی آگ میں حدت آجائے، اس کا امکان بظاہر نظر نہیں آتا ہے، فوری طور پور آسانی کی صورت حال نظر نہیں آتی، قرض دینا،ٹیکس جمع کرنے کی مدت میں توسیع کردینا، کسانوں کے لیے مختلف قسم کی کھیتیوں کے لئے اسکیمس کا اعلان کرنا اچھے اقدامات ہیں ، ضرورت مند افراد تک ان کا پہنچنا بھی ایک اہم مرحلہ ہےاور بروقت مدد پہنچنا بھی بڑا اہم پہلو ہے، بہرحال آپ بھی وزیر خزانہ کے جملوں کو پڑھیے اور غور کیجئے، آپ کو کیا ملا؟اگر آپ کو فوائد حاصل ہوئے تو خوشی کی بات ہے اور اگر فوری طور پر آپ کو مدد پہنچی ہے تو زہے نصیب ـ
گذشتہ دو مہینوں میں سب سے زیادہ جس طبقے نے پریشانیاں اور تکالیف برداشت کی ہیں، وہ مزدوروں کا طبقہ ہے، لاک ڈاؤن ہونے کے بعد بے روزگاری، بھوک کی شدت کرایہ ادا کرنے کی صورت باقی نہیں رہی، تو بے گھر ہوئے، مزدوروں کی زندگی کے یہ سب سے مشکل ترین ایام کہے جائیں تو غلط نہیں ہوگا، ایسی ایسی تصویریں دیکھی ہیں، جن کو دیکھ کر کسی بھی انسان کی روح کانپ جاتی ہے، مزدوروں نے بھوکے میلوں کا سفر طے کیا، جو گھروں کو پہنچے وہ خوش نصیب ہیں، بہت سوں کو بھوک نے نگل لیا بہت سے حادثات کی نذر ہوگئے، سیاسی گلیاروں میں مزدوروں کے کرایہ پر بحثیں ہو رہی ہیں، اور گاڑیوں کے پہیوں تلے کچل دیے جارہے ہیں، ابھی اترپردیش کے اوریا سے خبر موصول ہوئی کہ 24 مریض حادثے کی نذر ہوگئے، جو ڈی سی ایم میں سوار ہو کر اپنے گھر لوٹ رہے تھے، ساڑھے تین بجے حادثہ ہوا، ٹرک نے ڈی سی ایم کو ٹکر ماری، سورج نکلنے سے قبل ہی ان لوگوں کی زندگی کا سورج غروب ہوگیا، اپنے گھر والوں سے ملنے کا خواب لے کر دنیا سے رخصت ہوگئے، گھر اب ان لوگوں کی لاشیں جائیں گی، حکومت اب ضرورت کام کررہی ہے، معاملے کی جانچ ہوگی، بدھ کو مظفرنگر کے روہانہ میں بس نے چھ مزدوروں کو کچل دیا تھا، وہ بھی گھر پہنچنے میں ناکام رہے، ملک کے مختلف حصوں سے مزدوروں کے سلسلے میں تکلیف دہ خبریں موصول ہوتی رہی ہیں، حاملہ عورتوں نے پیدل سفر طے کیا ہے، بچوں نے بھوک کی شدت برداشت کی ہے، مزدوروں کے لئے مشکل ترین وقت گذرا ہے، بروقت منصوبہ بند طریقے سے مدد پہنچائی جاتی تو صورت حال کچھ اور ہوتی، کیا مزدوروں کے لئے گھر پہنچنے کا انتظام پہلے نہیں کیا جا سکتا تھا؟اس وقت مریضوں کی تعداد کم تھی، وائرس پھیلنے کا خطرہ بھی کم تھا، اور اگر حکومت مزدوروں کی ہجرت نہیں چاہتی تھی، تو ان کے کھانے پینے اور رہنے کے لیے مناسب انتظامات کیے جاتے، اب مزدور گھروں کو جارہے ہیں، حکومت اس میں تعاون کر رہی ہے، مزید تعاون کی ضرورت ہے، لیکن ایسے میں یہ سوال بھی پیدا ہورہا ہے کہ مریض گھروں سے کب اور کیسے لوٹیں گے؟ ان کے بغیر معاشی نظام کس طرح حرکت پزیر ہوگا؟ گھر جانے کے بعد مزدور کس طرح اپنی زندگی کا سفر آگے بڑھائیں گے، منریگا کے تحت ضرور انہیں کچھ فائدہ حاصل ہوگا، لیکن آخر اس سے کتنے لوگ فائدہ اٹھاسکتے ہیں، مزید یہ کہ مزدوروں سے متعلق قوانین میں تبدیلی نے مزدوروں کے لیے مزید مشکل صورت حال پیدا کردی ہے، اب ان سے 12 گھنٹے کام لیا جاسکے گا، جس کے لئے مزید مزدوری بھی انہیں نہیں دی جائے گی، حکومت کو اس جانب غور کرنا چاہیے مزدور ہماری معیشت کا اہم ترین حصہ ہیں، ان کے بغیر معاشی ترقی کا خواب محض خواب ہے، جس کو شرمندۂ تعبیر نہیں کیا جاسکتا ہے مزدوروں کا تعاون کیجئے اور ان کے حقوق کا تحفظ کیجئےـ
ہم میں سے ہر شخص کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ غریبوں اور مزدوروں کا تعاون کرے، اگر کسی کے پاس دو روٹیاں ہیں، تو ڈیڑھ کھائے، اور آدھی غریب کے لئے بچائے، اس مشکل وقت میں غریبوں کا تعاون کریں، ہر شخص یہ پختہ ارادہ کرے کہ اپنے گاؤں میں اپنے پڑوس میں کسی کو بھوک سے نڈھال نہیں ہونے دیں گے اور کرونا وائرس سے بچنے کے لئے احتیاطی تدابیر پر عمل کریں، حکومتِ ہند بھی غریبوں مزدوروں کی جانب خاص توجہ مرکوز کرےـ
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)