نئی دہلی:کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے بدھ کے روز لکشدیپ کے مرکزی خطے میں نئے ضابطے کے مسودے پر مرکزی حکومت کو نشانہ بنایا اور الزام لگایا کہ ساگر میں واقع ہندوستان کا یہ زیور تباہ کیا جارہا ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ لکشدیپ کے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔راہل گاندھی نے ٹویٹ کیا ہے کہ ساگر میں لکشدویپ ہندوستان کا زیورہے۔ اقتدار میں بیٹھے جاہل بنیاد پرست اسے ختم کررہے ہیں۔ میں لکشدویپ کے لوگوں کے ساتھ کھڑاہوں۔کانگریس نے منگل کو اس معاملے پر مرکزی حکومت سے استدعا کی تھی کہ وہ فوری طور پر ان مسودوں کو واپس لے اور پرفل کھوڑا پٹیل کو ایڈمنسٹریٹر کے عہدے سے ہٹائے۔پارٹی کی جنرل سکریٹری پریانکا گاندھی واڈرا نے کہا تھا کہ کانگریس لکشدویپ کے لوگوں کے ساتھ کھڑی ہے اور اپنے ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لیے لڑے گی۔کانگریس کے جنرل سکریٹری کے سی وینوگوپال نے بھی پیر کو صدر رام ناتھ کووند کو ایک خط لکھا تھا جس میں لکشدیپ کے ایڈمنسٹریٹر پرفل پٹیل کو واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔اس کے علاوہ انہوں نے صدر سے بھی کہا ہے کہ وہ پرفل پٹیل کے دور میں لیے گئے فیصلوں کو منسوخ کریں۔اطلاعات کے مطابق مسودہ ضوابط کے تحت لکشدیپ سے شراب کے استعمال پر پابندی ختم کردی گئی ہے۔ اس کے علاوہ جانوروں کے تحفظ کا حوالہ دیتے ہوئے گائے کے گوشت سے تیار کردہ مصنوعات پر پابندی کا حکم دیا گیا ہے۔ لکشدیپ کی زیادہ تر آبادی ماہی گیروں پر منحصر ہے ، لیکن حزب اختلاف کے رہنماؤں کا الزام ہے کہ پرفل پٹیل نے کوسٹ گارڈ ایکٹ کی خلاف ورزی کی بنا پر ساحلی علاقوں میں ماہی گیروں کی جھونپڑیوں کو توڑنے کا حکم دیا ہے۔
کانگریس
اپوزیشن لیڈر غلام نبی آزاد کی وداعی پرراجیہ سبھا میں جو کچھ ہوا، اس پر لوگ اپنی اپنی سمجھ کے مطابق تبصرے کررہے ہیں۔ بعض حلقوں میں یہ اندیشے ظاہر کئے جارہے ہیں کہ وزیراعظم نے غلام نبی آزاد کی وداعی کے وقت جو قیمتی آنسو بہائے ہیں، وہ دراصل انھیں رام کرنے کے لیے ہیں، کیونکہ وہ آزاد کو کشمیر میں ’بی جے پی کا مسلم چہرہ‘ بنانا چاہتے ہیں۔یوں بھی غلام نبی آزاد نے جب سے کانگریس کی مستقل قیادت کا سوال اٹھایا ہے تب سے وہ پارٹی کے بعض لیڈروں کی آنکھوں میں کھٹک رہے ہیں۔ ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ کانگریس میں ان کا قافیہ تنگ ہوچکا ہے اور وہ اپنی نئی راہ تلاش کررہے ہیں۔ مگر جو لوگ غلام نبی آزاد اور ان کی سیا ست کو جانتے ہیں ان کے لیے یہ باتیں انہونی اور ناقابل یقین ہیں۔ میں بھی اپنے آپ کو ان لوگوں میں شمار کرتا ہوں جو غلام نبی آزاد اور ان کی سیاست کا قریب سے مطالعہ کرتے رہے ہیں۔ 71 سالہ غلام نبی آزاد نے اپنا سیاسی کیریر 1973میں جموں وکشمیر میں بلاک کانگریس سے شروع کیا تھا جہاں سے وہ صوبائی وزیراعلیٰ کی کرسی تک پہنچے۔وہ سب سے پہلے 1980میں مہاراشٹر سے لوک سبھا کے ممبر چنے گئے تھے اور یہیں سے 1990 میں پہلی بار راجیہ سبھا کے لئے ان کا انتخاب عمل میں آیا ۔اس کے بعد 1996 سے 2006 تک وہ جموں وکشمیر سے ایوان بالا کے ممبر رہے۔اس دوران انھیں تین سال کے مختصر عرصہ کے لیے جموں وکشمیر کے وزیراعلیٰ کی ذمہ داریاں سونپی گئیں اور اس کے بعد دوبارہ 2009میں انھیں ایوان بالا کا ممبر چن لیا گیا۔2014 میں انھیں پارٹی نے راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر کی ذمہ داری سونپی، جس سے وہ اب سبکدوش ہورہے ہیں۔اس طویل سفر میں ان کی سب سے بڑی پونجی کانگریس قیادت کاوہ اعتماد ہے جوانھیں ہمیشہ حاصل رہا ہے۔ یہ اعتماد انھوں نے پارٹی سے اپنی اٹوٹ وفاداری کی بنیاد پر حاصل کیا ہے۔ ریٹائرمنٹ سے قبل راجیہ سبھا میں انھیں جو الوداعیہ دیا گیا،اس پر چہ میگوئیوں کا بازار اس لیے گرم ہے کہ وزیر اعظم نے اس موقع پر تین بارآبدیدہ ہوکران کو خراج تحسین پیش کیا اور ان کی انسانی ہمدردی کے جذبہ کو سراہا۔اس موقع پر اپنی الوداعی تقریر کے دوران خود غلام نبی آزاد بھی آبدیدہ ہوئے۔
میں ایک اخبار نویس کے طور پر گزشتہ تیس برس سے راجیہ سبھا کی کارروائی کا مشاہدہ کررہا ہوں اور پریس گیلری میں بیٹھ کر میں نے دلچسپ نظارے دیکھے ہیں۔ایوان میں ریٹائر ہونے والے ممبران کو الوداعیہ دینا کوئی نئی بات نہیں ہے۔جب بھی کسی ممبر کی معیاد پوری ہوتی ہے تو اسے عزت سے خوش کن الفاظ کے ساتھ وداع کیا جاتاہے۔ اگر کوئی خاص ممبر سبکدوش ہوتا ہے تو تمام پارٹیوں کے لیڈران اس کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ یہ روایت صرف راجیہ سبھا میں ہے کیونکہ اس کے ممبران کا انتخاب اور ریٹائرمنٹ وقتاً فوقتاً ہوتا رہتا ہے جبکہ لوک سبھا میں یہ روایت نہیں ہے کیونکہ وہاں کے ممبران کا انتخاب ایک ہی وقت میں یعنی عام انتخابات کے موقع پر ہوتا ہے اور وہ سبھی ایک ساتھ لوک سبھا کی مدت ختم ہونے کے ساتھ ریٹائر ہوجاتے ہیں۔راجیہ سبھا جسے عرف عام میں ’ہاؤس آف ایلڈرز‘ بھی کہا جاتا ہے ایک ایسی جگہ ہے جہاں سنجیدہ بحث ومباحث ہوتے ہیں، کیونکہ اس کے لیے عام طورپرتجربہ کار اور جہاندیدہ لوگوں کا انتخاب عمل میں آتا ہے۔ حالانکہ یہ روایت اب دم توڑ رہی ہے اور ایوان بالا میں ہرقسم کے لوگ پہنچ رہے ہیں۔ممبران کی وداعی تقریب میں اکثر دلچسپ مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں اور اس موقع پر شعر وشاعری بھی خوب ہوتی ہے۔ غلام نبی آزاد نے بھی اپنی وداعی تقریر میں کئی شعر سنائے اور اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ جو بات ہم سیاستداں دس گھنٹے میں کہتے ہیں وہ شاعر اپنے دوشعر میں بیان کردیتا ہے۔مجھے یاد ہے کہ پچھلے دنوں ایک کمیونسٹ ممبر نے اپنی وداعی کے موقع پر یہ شعر پڑھا تھا۔
یہ کیسا وقت مجھ پر آگیا ہے
سفر جاری ہے لیکن گھر آگیا ہے
آج کل سیاست میں جس تیزی کے ساتھ لوگ اپنی وفاداریاں تبدیل کررہے ہیں، اس کے پیش نظر یہ کہنا مشکل ہے کہ کون کب کس پارٹی میں چلا جائے، لیکن جو لوگ غلام نبی آزاد کے بارے میں اس قسم کے اندیشے ظاہر کررہے ہیں، وہ قطعی غلطی پر ہیں۔غلام نبی آزاد کا ذہن اور شخصیت جس سانچے میں ڈھلی ہے، اس میں ان کے بارے میں اس قسم کے تبصرے کرنا سیاسی ناپختہ کاری کا ثبوت دینا ہے۔غلام نبی آزاد نے کانگریس میں رہ کر جو کچھ حاصل کیا ہے اس میں ان کی ذاتی محنت کو بڑا دخل ہے۔ وہ سیاست میں کبھی کسی کے رہین منت نہیں رہے۔ انھیں جب بھی موقع ملا، انھوں نے اپنی بات پارٹی کے پلیٹ فارم پر پوری جرات کے ساتھ کہی ہے۔انھیں پارٹی کے انتظامی امور پر جو دسترس حاصل ہے وہ کانگریس میں بہت کم لوگوں کو حاصل ہے۔ جب جب کسی صوبہ میں پارٹی بحران کا شکار ہوئی ہے تب تب غلام نبی آزاد ہی کو وہاں بھیجا گیا ہے۔ انھیں ملک گیر سطح پر پارٹی کے امور کی جتنی جانکاری ہے اتنی شاید ہی کسی اور پارٹی لیڈر کو ہو۔ انھوں نے اندراگاندھی، راجیو گاندھی، نرسمہاراؤ اورمنموہن سنگھ کابینہ میں کلیدی عہدوں پر کام کیا ہے اور پارلیمانی امور کا بھی ان کو خاصا تجربہ ہے، جس کے وہ مرکزی وزیر رہ چکے ہیں۔ایسے میں کانگریس پارٹی کبھی نہیں چاہے گی کہ وہ اپنے اتنے سینئر اور تجربہ کار لیڈر کو کھونے کا جوکھم اٹھائے اور وہ بھی ایسے وقت میں جب پارٹی زبردست بحران سے گزر رہی ہے۔غلام نبی آزاد کانگریس میں جمہوری عمل کی بحالی اور مستقل صدر کی بات اٹھاتے رہے ہیں۔ کانگریس ورکنگ کمیٹی کی پچھلی میٹنگ میں صدارتی عہدے کے انتخاب کے موضوع پر ان کی وینو گوپال کے ساتھ تیکھی بحث ہوئی تھی۔ وہ دراصل صدارتی عہدے کا چناؤٹالنے کے خلاف تھے۔
غلام نبی آزاد کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ انھوں نے خود کو ایک قومی لیڈر کے طورپر تسلیم کروایاہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے 1980میں لوک سبھا کا پہلا چناؤ مہاراشٹر کی واشم سیٹ سے جیتا تھا ۔ انھوں نے نہ تو مسلمانوں کی سیاست کی اور نہ کبھی خود کو مسلم لیڈر کہلوایا۔ حالانکہ وہ اپنی بساط بھر مسلمانوں کی مدد کرتے رہے ہیں اور ہر ضرورت کے وقت ان کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب اردو اخبارات شدید مالی بحران سے گزررہے تھے تو انھوں نے شہری ہوابازی کے وزیر کے طورپر پہلی بار اپنی وزارت کے اشتہارات میں اردو اخبارات کا حصہ مختص کیا تھاجس سے اردواخبارات کو اپنی کمر سیدھی کرنے میں بہت مدد ملی تھی۔ اس مسئلہ پر انھیں متوجہ کرنے کا کام آل انڈیا اردو ایڈیٹرکانفرنس کے صدر م۔ افضل(سابق ایم پی اور سفارت کار)نے کیا تھا۔غلام نبی آزاد یوں بھی اردو کے شیدائی ہیں اور وہ لکھنے پڑھنے کانجی کام اردو میں کرتے ہیں۔ ان کی اردو معریٰ ہوتی ہے یعنی وہ اپنی تحریر میں زیر،زبر اور پیش کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔
اب آئیے ان آنسوؤں کا رخ کرتے ہیں جو ان کی وداعی کے موقع پر وزیراعظم نریندر مودی نے راجیہ سبھا میں تین بار بہائے۔2006 میں جب غلام نبی آزاد جموں وکشمیر کے وزیراعلیٰ تھے تو وہاں سیاحوں کی ایک بس پر گرینیڈ حملہ میں ایک درجن سے زیادہ گجراتی سیاحوں کو موت ہوگئی تھی۔ نریندر مودی اس وقت گجرات کے وزیراعلیٰ تھے۔ آزادنے اس سانحہ پر اظہار افسوس کے لیے مودی کو فون کیا اور وہ پھوٹ پھوٹ کر روئے۔ ان کی یہ ادا مودی کو اتنی پسند آئی کہ وہ اسے یاد کرکے ہاؤس میں تین بار آبدیدہ ہوئے۔غلام نبی آزاد کا کہنا تھا کہ وہ اپنی زندگی میں تین چار بار ہی پھوٹ پھوٹ کر روئے ہیں جن میں ایک موقع ان کی ریاست میں گجراتی سیاحوں کے قتل کا بھی تھا۔ایک ریاستی حکمراں کے طور پر ان کا یہ ردعمل فطری تھا اور یہ ان کی شخصیت کے انسانی پہلو کا بھر پور اظہار بھی ہے۔ اس موقع پر بعض لوگوں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کاش وزیراعظم نریندر مودی بھی گجرات کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے اس وقت ایسا ہی ردعمل ظاہر کرتے جب گجرات میں 2002 میں قتل وغارت گری ہوئی تھی اور سینکڑوں بے گناہ لوگ موت کے آغوش میں چلے گئے تھے۔ اگر وہ کانگریس کے سابق ممبرپارلیمنٹ احسان جعفری کے بہیمانہ قتل پر ہی اظہار افسوس کرتے اور ان کی بیوہ ذکیہ جعفری کو فون کرکے اظہارتعزیت کرتے تو ان کا قد بڑھ جاتا، لیکن افسوس انھوں نے ایسا نہیں کیا اور اس قتل وغارتگری کے خلاف ذکیہ جعفری کی جدوجہد کو ناکام بنانے کی کوششیں کی گئیں۔
غلام نبی آزاد نے مسلم ملکوں کی باہمی چپقلش اور قتل وغارتگری کا حوالہ دیتے ہوئے خود کے ہندوستانی مسلمان ہونے پر فخر کا بھی اظہار کیا ہے۔انھوں نے کہا کہ ”میں ان خوش قسمت لوگوں میں سے ہوں جو کبھی پاکستان نہیں گئے۔ مجھے اپنے ہندوستانی مسلمان ہونے پر فخر ہے۔“ کاش غلام نبی آزاد کایہ دوٹوک بیان حکمراں جماعت کے لوگوں کی سوچ بدلنے میں کارگر ہوسکے جو ہر وقت مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان کھڑے کرتے رہتے ہیں اور انھوں نے پورے نظام کو اپنی اسی فاسد سوچ کے سانچے میں لیا ہے۔
—
28 سال قبل صرف بابری مسجد نہیں ٹوٹی تھی،اور بھی بہت کچھ ٹوٹا تھا- رام دت ترپاٹھی
(آج سے ٹھیک 28 برس قبل، یعنی چھ دسمبر 1992 کو ہندو انتہا پسندوں نے ایودھیا میں قائم بابری مسجد کو منہدم کر دیا تھا۔ اس روز ہونے والے فسادات میں بابری مسجد کے علاوہ اور بہت سی مساجد اور املاک کو یا تو منہدم کیا گیا یا نذر آتش۔ اس واقعے کا آنکھوں دیکھا حال پڑھیے اس تحریر میں جو پہلی مرتبہ سنہ 2017 میں شائع ہوئی تھی۔ بشکریہ بی بی سی اردو)
طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود چھ دسمبر کی یاد آتے ہی میں خود کو مانس بھون کی چھت پر پاتا ہوں اور بابری مسجد کے انہدام کا پورا منظر آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔مانس بھون وہی دھرم شالہ ہے جہاں میں اس واقعے سے دس سال قبل سنہ 1982 میں ایک بار ٹھہرا تھا۔ ایک صحافی دوست نے متنازع بابری مسجد دکھائی تھی جس کے باہری حصے میں ایک چبوترے پر کیرتن بھجن ہوتا تھا اور لوگ ’سیتا رسوئی‘ (سیتا کے کچن) اور رام کے ’کھڑاون‘ کے خیالی مقامات کے سامنے سر جھکاتے تھے۔اس رام چبوترے پر طویل عرصے سے رامانندی فرقے کے نرموہی اکھاڑے کا قبضہ تھا۔ نرموہی اکھاڑا سوا سو سال سے زائد عرصے سے وہاں مندر کی تعمیر کے لیے قانونی جنگ لڑ رہا تھا۔
مسجد کے اندر سنہ 1949 میں 22 اور 23 دسمبر کی درمیانی شب ضلع مجسٹریٹ کی مدد سے رام کی بچپن کی مورتی رکھی گئی۔ اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے مسجد سے مورتی ہٹانے کا حکم دیا لیکن ضلع مجسٹریٹ نے اس پر عمل کرنے سے انکار کردیا۔ اسی وقت سے عدالت نے مسجد سیل کر کے نگران تعینات کر دیا۔ باہر پولیس کا پہرہ بٹھا دیا گيا اور عدالت کا مقرر کردہ پجاری وہاں پوجا کیا کرتا تھا۔
سنگھ پریوار یعنی ہندوتوا کے نظریات کی حامل جماعتیں طویل عرصے سے ایسے مسئلے کی تلاش میں تھیں جس کے ذریعے ذات پات میں منقسم ہندو برادری کو یکجا کیا جا سکے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ اسی مقصد کے تحت سنہ 1984 میں رام جنم بھومی کی آزادی کی تحریک شروع کی گئی تھی۔
اس مہم کی وجہ سے یکم فروری سنہ 1986 میں عدالت نے متنازع احاطے کے تالے کھلوائے۔ جواب میں بابری مسجد ایکشن کمیٹی کا قیام عمل میں آیا۔دریں اثنا معاملہ ضلع عدالت سے نکل کر لکھنؤ ہائی کورٹ تک پہنچ گیا۔ سنہ 1989 کے عام انتخابات سے قبل مصالحت کی امید میں اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے مسجد سے تقریباً 200 فٹ کے فاصلے پر رام مندر کا سنگ بنیاد رکھوا دیا۔راجیو گاندھی کو انتخابات میں شکست ہوئی جبکہ وی پی سنگھ اور چندرشیکھر کی حکومت میں بھی مصالحت کی تمام تر کوششیں بے کار ثابت ہوئیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سینیئر رہنما لال کرشن اڈوانی نے گجرات کے سومناتھ مندر سے رام مندر کے لیے رتھ یاترا نکال کر سیاسی طوفان کھڑا کر دیا۔سنہ 1991 میں کانگریس ایک بار پھر دہلی میں بر سر اقتدار آئی اور پی وی نرسمہا راؤ وزیر اعظم بنے لیکن رام مندر کی تحریک کے طفیل انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں پہلی بار کلیان سنگھ کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت بنی۔
کلیان سنگھ نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کیا کہ وہ مسجد کی حفاظت کریں گے جس کے بعد عدالت نے وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کو علامتی کار سیوا کی اجازت دے دی۔ دوسری جانب وی ایچ پی اور بی جے پی کے رہنماؤں نے ملک بھر میں گھوم گھوم کر لوگوں سے بابری مسجد کو نیست نابود کرنے کی قسم لی تھی۔ ان کی حوصلہ افزائی کے لیے کلیان سنگھ نے اعلان کیا تھا کہ پولیس کار سیوکوں پر فائرنگ نہیں کرے گی۔
اس سے قبل سنہ 1990 میں ملائم سنگھ یادو نے کار سیوکوں پر فائرنگ کروائی تھی اور مسجد کی حفاظت کی تھی۔
کلیان سنگھ حکومت نے متنازع کیمپس کے قریب مجوزہ رام پارک کی تعمیر کے لیے وی ایچ پی کو 42 ایکڑ زمین دے دی تھی۔ اس کے علاوہ سیاحت کے فروغ کے نام پر بہت سے مندروں اور دھرم شالاؤں کی زمین حاصل کرکے اسے ہموار کر دیا گیا تھا اور فیض آباد – ایودھیا شاہراہ سے براہ راست متنازع مقام تک چوڑی سڑک تعمیر کر دی گئی تھی۔
ملک بھر سے آنے والے کارسیوکوں کے قیام کے لیے متنازع احاطے سے ملحق شامیانے اور ٹینٹ لگائے گئے تھے۔ انھیں لگانے کے لیے کدال، بیلچے اور رسیاں بھی لائی گئیں جو بعد میں مسجد کے گنبد پر چڑھنے اور اسے توڑنے کے کام میں آئیں۔ مجموعی طور پر متنازع مقام کے آس پاس کے علاقے پر کار سیوکوں کا ہی قبضہ تھا۔ ان لوگوں نے چار پانچ دن قبل ہی بعض قریبی مزاروں کو نقصان پہنچا کر اور مسلمانوں کے مکانوں کو آگ لگا کر اپنی جارحیت کا اظہار کر دیا تھا۔ اس کے باوجود سپریم کورٹ کے مقرر کردہ مبصر ضلعی جج پریم شنکر گپتا کہہ رہے تھے کہ علامتی کار سیوا پر امن طور پر کروانے کے لیے سارے انتظام اچھی طرح سے کیے گئے ہیں۔
ایک دن قبل یعنی پانچ دسمبر کو وی ایچ پی کے رہنما نے باضابطہ یہ اعلان کیا کہ وہاں صرف علامتی کارسیوا (پوجا) ہوگی۔ فیصلے کے مطابق کارسیوک دریائے سرجو سے پانی اور ریت لے کر آئیں گے اور مسجد سے کچھ فاصلے پر سنگ بنیاد کی جگہ اسے نذر کر کے واپس ہو جائیں گے۔
جیسے ہی اس کا اعلان ہوا کار سیوکوں میں غصہ پھیل گیا۔ جب وی ایچ پی کے اعلیٰ رہنما کارسیوک پورم پہنچے تو مشتعل کارسیوکوں نے انھیں گھیر لیا اور بہت بھلا برا کہا۔ ان کا کہنا تھا کہ رہنما کچھ بھی کہیں وہ اصلی کارسیوا یعنی مسجد کو منہدم کرکے ہی جائيں گے۔ شام تک کارسیوکوں نے کئی ٹی وی رپورٹرز اور کیمرہ مین کے ساتھ مار پیٹ کی۔ دوسری طرف بی جے پی کے رہنما اٹل بہاری واجپئی نے ایک عام اجلاس میں کارسیوکوں کی یہ کہتے ہوئے حوصلہ افزائی کی کہ سپریم کورٹ نے اس کی اجازت دی ہے۔
واجپئی شام کی ٹرین سے دہلی چلے گئے جبکہ ایل کے اڈوانی اور ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی رات میں وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ سے بات چیت کر کے ایودھیا پہنچ گئے۔ چھ دسمبر کی صبح جہاں ایودھیا میں ’جے شری رام‘ کے نعرے گونج رہے تھے وہیں فیض آباد چھاؤنی کے علاقے میں بڑی تعداد میں مرکزی نیم فوجی دستے اس تیاری میں تھے کہ جیسے ہی بلاوا آئے گا وہ ایودھیا کی جانب کوچ کریں گے۔ فوج اور فضائيہ بھی نگرانی پر تعینات تھی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ریاستی حکومت نے ان کی تعیناتی پر اعتراض کیا تھا، یعنی ریاستی حکومت کی جانب سے واضح تھا کہ کار سیوکوں کے خلاف طاقت کا استعمال نہیں کیا جائے گا۔ مانس بھون کی چھت پر جہاں ہم صحافی یکجا تھے مسجد اس کے بالکل سامنے تھی۔ دائیں طرف پر جنم بھومی (مقام پیدائش) کے مندر کی چھت پر کمشنر، ڈی آئی جی اور پولیس کے اعلیٰ افسر تھے اور مانس بھون کی بائیں جانب رام کتھا کنج میں ایک اجلاس عام رکھا گیا تھا جہاں اشوک سنگھل، اڈوانی، جوشی، اوما بھارتی اور دیگر رہنما جمع تھے۔ مسجد اور مانس بھون کے درمیان سنگ بنیاد کے مقام کو پوجا کا مقام بنایا گیا تھا جہاں مہنت رام چندر پرمہنس اور دیگر سادھو سنیاسی جمع تھے۔ اسی جگہ پر گیارہ بجے سے علامتی پوجا ہونی تھی۔ آر ایس ایس کے اراکین سر پر زعفرانی پٹی باندھے حفاظت کے لیے تعینات تھے۔ ان کے پیچھے پولیس رسّہ لے کر تیار تھی تاکہ مخصوص لوگ ہی وہاں تک جا سکیں۔ تقریباً 10:30 بجے ڈاکٹر جوشی اور اڈوانی یگیہ کی جگہ پہنچے۔ ان کے ساتھ بہت سے کارسیوک وہاں داخل ہونے لگے۔ پولیس نے روکا لیکن انھوں نے بات نہیں مانی۔
اس کے بعد زعفرانی پٹی والے رضاکاروں نے ان پر لاٹھی چلانی شروع کر دی جس پر وہاں سخت ہلچل نظر آئی۔ دیکھتے دیکھتے سینکڑوں کارسیوک مسجد کی جانب دوڑتے نظر آئے۔ مسجد کی حفاظت کے لیے چاروں جانب لوہے کا جال لگایا گيا تھا۔ پیچھے سے ایک گروپ نے درخت پر رسّہ پھینک کر مسجد میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ وی آئی پی کے لیے تعینات پولیس نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی لیکن چند ہی منٹوں میں ایک ایک کرکے بہت سے کارسیوک مسجد کے گنبد پر نظر آنے لگے۔
انھیں دیکھ کر یہ نعرے گونجنے لگے: ’ایک دھکا اور دو، بابری مسجد کو توڑ دو۔‘ جلسہ گاہ سے اشوک سنگھل اور دیگر رہنماؤں نے کار سیوکوں سے نيچے اترنے کی اپیل بھی کی لیکن ان کا کوئی اثر نہیں ہوا۔کدال، بیلچہ جس کے ہاتھ جو سامان آیا اسی سے گنبد توڑنے لگا۔ بعض ہاتھوں سے ہی چونے سرخی سے بنی اس عمارت کو توڑنے لگے۔مسجد کی حفاظت پر تعینات مسلح سکیورٹی فورسز کندھے پر رائفلیں لٹکائے باہر نکل آئے۔ سارے افسران لاچار کھڑے تماشائی تھے۔
اسی دوران کارسیوکوں کے ایک گروپ نے آس پاس کے سارے ٹیلی فون تار کاٹ ڈالے۔ ان کا ایک گروپ مانس بھون پر چڑھ آیا اور تصاویر لینے سے منع کرنے لگا۔ میں نے اپنا کیمرہ ایک خاتون صحافی کے بیگ میں چھپا دیا؛ لیکن بہت سے فوٹوگرافروں کے کیمرے چھین کر انھیں مارا پیٹا گیا۔ 12 بجے تک مسجد توڑنے کا کام اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا۔
اڈوانی کو یہ خدشہ تھا کہ نیم فوجی مرکزی فورس یا فوج فیض آباد سے آ سکتی ہے۔ لہٰذا انھوں نے لوگوں سے وہاں سے آنے والی سڑک کو جام کرنے کی اپیل کی۔
کہتے ہیں کہ کلیان سنگھ تک جب یہ خبر پہنچی تو انھوں نے وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دینے کی پیشکش کی لیکن اڈوانی نے انھیں یہ پیغام دیا کہ جب تک مسجد گر نہ جائے وہ استعفیٰ نہ دیں، کیونکہ استعفیٰ دیتے ہی ریاست مرکز کے کنٹرول میں چلی جائے گی۔ اسی دوران کچھ پجاری رام اور لکشمن کی مورتیاں نکال لائے۔ دیکھتے دیکھتے پانچ بجے تک مسجد کے تینوں گنبد مسمار ہو چکے تھے۔ اس کے بعد ہی کلیان سنگھ نے استعفیٰ پیش کیا۔ شام تک ریاست میں صدر راج نافذ ہو چکا تھا لیکن انتظامیہ کو سمجھ نہیں آیا کہ کیا کرنا ہے؟ بہرحال کارروائی کے خوف سے کارسیوک چپکے چپکے ایودھیا سے نکلنے لگے۔ بعض لوگ بطور نشانی مسجد کی اینٹ اپنے ساتھ لے چلے۔
اڈوانی، جوشی اور واجپئی جیسے بڑے رہنماؤں نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کیا۔ پولیس نے مسجد منہدم کیے جانے پر ہزاروں نامعلوم کار سیوکوں کے خلاف ایک مقدمہ درج کیا۔ چند منٹ بعد، بی جے پی اور وی ایچ پی کے آٹھ بڑے رہنماؤں کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کرنے کا مقدمہ دائر کیا گیا۔ وزیراعظم نرسمہا راؤ دن بھر خاموش تھے لیکن شام کو انھوں نے نہ صرف اس واقعے کی مذمت کی بلکہ مسجد کی دوبارہ تعمیر کی بات بھی کی۔مرکزی حکومت کی ہدایت پر خصوصی ٹرینیں اور بسیں چلائی گئیں، جس سے کارسیوک اپنے گھروں کو جا سکیں اور انتظامیہ بغیر طاقت کا استعمال کیے متنازع مقام پر کنٹرول کر سکے۔ دوسری جانب منہدم مسجد کے ملبے پر ایک گروپ نے ایک عارضی مندر کی تعمیر شروع کر دی اور وہاں مورتیاں رکھ دی گئیں۔
سات دسمبر کی رات تک یہ جاننے کی کوشش کرتے رہے کہ انتظامیہ کب وہاں اپنا کنٹرول قائم کرتی ہے۔ اچانک صبح چار بجے کچھ ہلچل سی نظر آئي۔ جب ایودھ پہنچے تو دیکھا کہ انتظامیہ نے باقی ماندہ چند کارسیوکوں کو بھگا کر عارضی مندر کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے، اور نیم فوجی دستے کے سپاہی عقیدت اور احترام میں رام (کے بچپن کی مورتی) کی زیارت کر رہے ہیں اور آشیرواد لے رہے ہیں۔ ہم نے بھی کچھ تصاویر لیں اور افسروں سے بات کی۔
اگر آپ چھ دسمبر کے پورے واقعے پر نظر ڈالیں تو آپ پائیں گے کہ اس دن صرف بابری مسجد نہیں ٹوٹی بلکہ اس دن ہندوستان کے آئین کی تینوں شاخ مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کی ساکھ بھی ٹوٹ گئی۔ طاقت کو تقسیم کرنے کا وفاق کا مفروضہ ٹوٹا، قانون کی حکمرانی کی بنیاد ٹوٹی، جمہوریت کا چوتھا ستون یعنی میڈیا بھی کارسیوکوں کے حملے کا شکار ہوا اور اس کے ساتھ ہی سنگھ پریوار کے نظم و ضبط کا دعویٰ بھی ٹوٹا۔
معصوم مرادآبادی
کانگریس کے سینئر لیڈراحمدپٹیل نے گزشتہ25 نومبر کو جب کوروناجیسی موذی وباکی زد میں آکر اپنی جان ہاری تو پارٹی میں زلزلہ سا محسوس ہوا۔ یوں لگا کہ کوئی تناور درخت گرگیا ہو۔ احمد پٹیل اس وقت کانگریس کے خزانچی تھے اوران کا کمرہ کانگریس ہیڈ کوارٹر میں پارٹی صدر کی برابر میں تھا۔ اس سے قبل وہ کانگریس صدر سونیا گاندھی کے سیاسی مشیر رہ چکے تھے ۔ کانگریس میں ان کی جو حیثیت اوردبدبہ تھا‘ اسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ کانگریس کی اعلیٰ قیادت کے کان، ناک اور زبان سبھی کچھ تھے تو بے جا نہیں ہوگا۔احمد پٹیل جنھیں پارٹی میں سبھی لوگ ’’ احمد بھائی ‘‘ کے نام سے پکارتے تھے ، دراصل پارٹی کے چھوٹے بڑے لیڈروں اور اعلیٰ قیادت کے درمیان ایک پُل کا کام کرتے تھے۔ کوئی بھی ان کی مرضی کے بغیر سونیاگاندھی تک نہیں پہنچ سکتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ ان کے گھر پر رات گئے تک لوگوں کا تانتا بندھا رہتا تھا ۔ ان میں مرکزی وزیر بھی ہوتے تھے۔ وزرائے اعلیٰ بھی اور صوبائی گورنر بھی۔ کسی کو اپنی ترقی مقصود ہوتی تو کوئی اپنی ہلتی ہوئی کرسی کو سہارا دینے احمدبھائی کے دردولت پر حاضری دیتا۔ وہ سبھی کی مشکلوں کو آسان کرتے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انھیں کانگریس کا ’سنکٹ موچک‘(مشکل کشا) بھی کہا جاتا تھا۔ وہ محض ضرورت مندوں کی مشکلیں آسان نہیں کرتے تھے بلکہ پارٹی یا اس کی اعلیٰ قیادت کے بھی مشکل کشا تھے اور اسی لئے سونیا گاندھی نے انھیں جذباتی خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ’’میں نے ایسا وفادار دوست کھودیا ہے جس کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔‘‘ راہل گاندھی نے انھیں یاد کرتے ہوئے کہا کہ’’ احمدپٹیل ایک ایسے ستون تھے جو سب سے مشکل دور میں بھی پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے۔‘‘سابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے جن کی دس سالہ حکومت کا اصل بوجھ احمدبھائی کے کاندھوں پر تھا ، انھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’ احمدپٹیل کانگریس کے بھروسے مند اور میرے بہترین دوست تھے۔ ان کا جانا پارٹی کا ناقابل تلافی نقصان ہے۔‘‘
بلا شبہ ان کے انتقال سے کانگریس پارٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ احمدپٹیل نے اپنی سیاسی دانش مندی اور دوراندیشی سے پارٹی میں جو مقام حاصل کیا تھا وہ کسی اور کوحاصل نہیں ہوسکا۔ انھوں نے کانگریس پارٹی کے ساتھ وفاداری کے عوض اس کی قیادت کا جو اعتماد حاصل کیا تھا ،وہ شاید ہی کوئی دوسرا حاصل کرسکے ۔یہ ایک مسلمان کا سرمایہ افتخار تھاکہ اس نے ملک کی سب سے پرانی برہمن وادی پارٹی میں اپنے لئے ایسی مضبوط جگہ بنائی کہ کوئی برہمن بھی اس مقام کو نہیں پہنچ سکا۔اگر آپ غور سے دیکھیں تو موجودہ سیاست میں وفاداری ہی ایک ایسی چیز ہے جس کا سب سے زیادہ فقدان ہے اور یہ احمدپٹیل کا سب سے بڑا سرمایہ تھی۔انھوں نے پردے کے پیچھے رہ کر پورے دس سال یو پی اے سرکار کی باگ ڈور سنبھالی ، لیکن اپنے لئے کبھی کوئی عہدہ یا کرسی طلب نہیں کی۔نہ تو انھوں نے اپنے لئے کسی عہدے کی خواہش کی اور نہ ہی دیگر سیاست دانوں کی طرح اپنے بیٹے کو سیاست میں لائے۔ ان کے بیٹے فیصل کا نام بھی لوگوں نے پہلی بار اس وقت سنا جب ا س نے رات کے آخری پہر ٹوئٹر کے ذریعہ اپنے والد کے انتقال کی خبر دی ۔احمد پٹیل ہمیشہ پس منظر میں رہے اوریہ ایک ایسا وصف ہے جس کا موجودہ سیاست میں کوئی تصور نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں تک کہ نئی دہلی کے مدرٹریسا مارگ پر واقع ان کے سرکاری بنگلے پر ان کی نیم پلیٹ بھی نہیں تھی اور یہ کوٹھی 23نمبر کے نام سے مشہور تھی۔سیاست میں لوگ اقتدار اور بے شمار دولت اکٹھا کرنے کے لئے ہی آتے ہیں ، لیکن احمدپٹیل ان دونوں سے دور تھے ۔ ہاں کچھ اہم اسپتالوں اور اسکول کالجوں کی تعمیر سے ان کا نام ضرور جڑا ہوا ہے اور یہی ان کی مغفرت کا وسیلہ بھی بنے گا۔وہ خیر کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور کئی دینی اداروں اور مسجدوں کی تعمیر میں بھی ان کی شمولیت رہی۔
یہ بات کم ہی لوگوں کے علم میں ہے کہ پارٹی میں اتنا دبدبہ قائم کرنے والے احمدپٹیل پر ایک ایسا وقت بھی گزرا ہے جب انھیں بالکل بے دست وپا کردیا گیا تھا۔1986میں انھیں راجیو گاندھی نے گجرات کانگریس کا صدر بناکر احمدآباد بھیجا۔اس دوران ایک دہشت گردانہ کارروائی میں راجیو گاندھی کی موت کے بعد جب نرسمہارائو اقتدار میں آئے توبیشتر لیڈروں نے اپنی وفاداریاں ان سے وابستہ کرلیں۔لیکن احمد پٹیل گاندھی خاندان کے وفادار رہے۔اس دوران گجرات سے چناؤ ہارنے کے بعد انھیں صوبائی صدارت سے بھی علیحدہ کردیا گیا۔ جب وہ دہلی واپس آئے تو یہاں ان کا نہ تو کوئی سیاسی سرپرست تھا اور نہ ہی ان کے رہنے کے لئے مکان ۔ان کی دوست نجمہ ہپت اللہ نے ان کے لئے مینا باغ کے ایم پی فلیٹس میں ایک مکان کا انتظام کرایا۔ لیکن جلد ہی انھیں تین دن کی مہلت پر مکان خالی کرنے کا نوٹس تھمادیا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب دہلی میں ان کا بیٹا اور بیٹی بورڈ کے امتحانات کی تیاری کررہے تھے۔ مکان خالی کرانے کی یہ کارروائی اپوزیشن کے نہیں بلکہ خود کانگریس کے وزیراعظم نرسمہاراؤ کے دور میں ہوئی تھی۔ اس دوران احمدپٹیل نے نرسمہاراؤ سے کوئی مدد یا عہدہ طلب نہیں کیا اور انھوں نے یہ مشکل وقت صبر اور قناعت کے ساتھ گزارا، جس کا نتیجہ بعد کے دنوں میں برآمد ہوا۔
کچھ لوگوں نے سوال اٹھایا ہے کہ پارٹی میں اتنا عروج حاصل کرنے کے باوجود انھوں نے مسلمانوں کے لئے کچھ نہیں کیا اور وہ مسلم ووٹوں کے ٹھیکیداروں اور چند مفاد پرست مولویوں کے نرغہ میں رہے۔ یہ بات اس حد تک درست ہوسکتی ہے کہ الیکشن کے زمانے میں ان کے گھر پر مسلم قائدین، علمائے کرام اور اردو صحافیوں کا میلہ لگا رہتا تھا ۔ ان میں بعض لوگ مسلم ووٹوں کے پیشہ ور تاجر بھی ہوا کرتے تھے جنھیں احمدبھائی ان کی حیثیت کے مطابق نوازتے تھے۔ مجموعی طور پر مسلمانوں کے لئے کوئی بڑا کارنامہ انجام نہ دینے کے باوجود ہزاروں مسلمان ایسے تھے جن کا چولہا احمد بھائی کی لکڑیوں سے جلتا تھا ۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ انہیں مفاد پرست مسلمانوں نے اپنے نرغے میں لے رکھا تھا۔مخلص اور دیانتدارلوگ ان سے اس لئے دور تھے کہ وہ کاسہ لیسی کا ہنر نہیں جانتے تھے۔
اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ احمدپٹیل کی موت کے بعد کانگریس میں ان کا خلا کون پُر کرے گا۔ یہ سوال بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ ملک کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی موت کے بعد پوچھا گیا تھا یعنی ’’ نہرو کے بعد کون؟‘‘احمدپٹیل ملک کے وزیراعظم نہیں تھے،لیکن پارٹی کے لئے ان کی حیثیت اس سے بھی زیادہ تھی۔ مشکل ترین دور میں اور اپنی آخری سانس تک کانگریس پارٹی پراپنا سب کچھ نچھاور کرنے والے احمدپٹیل کے بغیر کانگریس پارٹی کا تصور ہی محال ہے۔ پارٹی کے سیاسی اور تنظیمی امور پر ان کی گرفت یکساں طور پر مضبوط تھی ۔انھوں نے اپنی سیاسی زندگی میں بہت کم صحافیوں کو انٹریوز دئیے اور شہرت سے ہمیشہ دور رہے ، لیکن وہ اپنے کام اور سیاسی انجینئرنگ کے حوالے سے ہمیشہ سرخیاں بٹورتے رہے۔اخباری شہرت سے اتنا دور رہنے کے باوجود اخبارنویسوں سے ان کے تعلقات سب سے زیادہ مضبوط تھے۔ شاید ہی کوئی سرکردہ صحافی ایسا ہو جس کی رسائی احمد پٹیل تک نہ ہو۔
احمدپٹیل تین بار لوک سبھا اور پانچ بار راجیہ سبھا کے رکن چنے گئے۔ وہ پہلی بار 1977 میں اس وقت کانگریس کے ٹکٹ پر چناؤ جیت کر آئے تھے جب ان کی پارٹی کو ایمرجنسی کے بعد بدترین شکست سے دوچار ہونا پڑاتھا ۔ خود اندرا گاندھی بھی چناؤ ہارگئی تھیں، لیکن احمدپٹیل نے کامیابی کا پرچم بلند کیا۔1984 میں اندرا گاندھی کے بہیمانہ قتل کے بعدجن لوگوں کو راجیو گاندھی کے مشیروں میں شامل کیا گیاان میں احمدپٹیل کا نام بھی شامل تھا اور انھیں پارٹی کا جوائنٹ سیکریٹری بھی بنایا گیا۔ بعد میں وہ جنرل سیکریٹری بھی بنے۔ پچھلے دنوں پارٹی قیادت کے خلاف 23لیڈروں کے خط نے جو بحران پیدا کیا تھا اسے بھی احمدپٹیل نے ہی سنبھالا۔2014 میں جب پارٹی کی قیادت راہل گاندھی کے ہاتھوں میں آئی تو وہ کانگریس صدر کے سیاسی مشیر نہیں بنائے گئے ، لیکن پارٹی میں ان کا جلوہ برقرار رہا۔ حالانکہ راہل گاندھی کے قیادت سنبھالنے کے بعدپارٹی کو شکست وریخت کے جن مراحل سے گزرنا پڑا اس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ آج کانگریس سیاست میں حاشیہ پر چلی گئی ہے ۔اس میں نئی جان ڈالنے کی ضرورت ہے۔ ایسے میں اسے احمدپٹیل جیسے تجربہ کار ، وفا شعار اور خود سپردگی والے لیڈروں کی سخت ضرورت ہے ۔ لیکن پارٹی کے اندر ان کی صلاحیت کا کوئی دوسراآدمی نظر نہیں آتا۔نہ ہی کوئی ایسا لیڈر ہے جسے اعلیٰ قیادت کا اعتماد حاصل ہو۔ایسے میں سب سے بڑا سوا ل یہی ہے کہ اب احمدپٹیل کی جگہ کون لے گا؟ اس کا جواب فی الحال نفی میں ہے۔
کانگریس کے قد آور لیڈر احمد پٹیل کا انتقال، سونیا گاندھی، راہل گاندھی اور پی ایم مودی کا اظہارِ تعزیت
نئی دہلی: کانگریس کے قد آور رہنما اور راجیہ سبھا ایم پی احمد پٹیل کا آج صبح ساڑھے تین بجے دہلی کے میدانتا اسپتال میں انتقال ہوگیاـ وہ کچھ دنوں قبل کورونا وائرس سے متاثر ہوگئے تھے اور ان کے جسم کے کئی اعضا نے کام کرنا بند کردیا تھاـ احمد پٹیل کانگریس پارٹی میں غیر معمولی مؤثر کردار نبھاتے تھے اور پارٹی کی پالیسی سازی میں ان کا اہم حصہ ہوتا تھا ـ یہی وجہ ہے کہ ان کے انتقال پر کانگریس پارٹی میں شدید رنج وغم کی لہر دوڑ گئی ہےـ ایسے وقت میں جبکہ کانگریس کو احمد پٹیل جیسے اسٹریٹیجی ساز رہنما کی سخٹ ضرورت تھی ان کا انتقال کانگریس کے لیے بڑا نقصان ہےـ احمد پٹیل کے انتقال پر اظہار غم کرتے ہوئے صدر سونیا گاندھی نے کہا ہے کہ میں نے اپنا وفادار دوست اور معاون کھودیا ہے جن کی پوری زندگی کانگریس کے لیے وقف تھی ـ وہ ہمیشہ مدد کرنے کے لیے تیا رہتے تھےـ پی ایم مودی نے بھی انھیں خراج عقیدت پیش کیا ہےـ انھوں نے ٹوئٹ کیا کہ کانگریس کو مضبوط کرنے میں احمد پٹیل کا کردار ہمیشہ یاد رکھا جائےگاـ راہل گاندھی نے ٹوئٹ کیا کہ احمد پٹیل کانگریس پارٹی کا ستون تھےـ انھوں نے پوری زندگی کانگریس پارٹی کو جیا اور مشکل وقت میں بھی پارٹی کے ساتھ کھڑے رہےـ میں ان کے اہل خانہ سے اظہار تعزیت کرتا ہوں ـ
آج14 نومبرآزاد ہندستان کے پہلے وزیراعظم اوربچوں کے چاچا شری جواہرلال نہرو کایوم پیدائش ہے ، چونکہ نہروجی بچوںکودیش کامستقبل مانتے تھے اسی لئے وہ اپناجنم دن ان کے ساتھ منایاکرتے تھے ،اسی مناسبت سے ان کےیوم ولادت کوپورے ملک میں یوم اطفال( بچوں کے دن) کے نام سے منایاجاتاہے،لہٰذااس دن ملک کے تمام ہی اسکولوں، تعلیمی اداروں میں اسی عنوان سے متعدد پروگرام ہوتے ہیںنیز اخباروں، ریڈیواورٹی وی وغیرہ پر بھی نہرواوربچوں کے تعلق سے خبریںاورپرگروم نشرکئےجاتے ہیں لہٰذا ہم بھی آ پ کونہروجی کی زندگی کاایک خاص اورپرسبق آموز واقعہ سناتے ہیں، جوشاید زندگی بھرآ پ کے بھی کام آئے۔
یوم جمہوریہ پرلال قلعہ کا مشاعرہ ہندستان کے مایہ ناز سپوت اورہندومسلم اتحاکے بڑے ستون، استاذ الشعرا کنورمہندرسنگھ سحرؔ بیدی جوکہ راجدھانی دہلی کے علاوہ غیرمنقسم ہندستان میں بھی بہت سارے شہروںمیں مجسٹریٹ اورمنصف کے عہدے پررہے ہیں، آزادی کے بعد اظہارمسرت کے لئے ان کے مشورہ سے نہروجی نے لال قلعہ کا تاریخی مشاعرہ شروع کرایا، پہلامشاعرہ تھا، چونکہ جوشؔ ملیح آبادی ایک مشہورانقلابی شاعرتھے، ، وہ بھی ملک کی آزادی میں اپنی نظموںسے پیش پیش رہے،اورآزادی کے اہم ہیرو اور بیدی جی کے گہرے دوست بھی تھے اس لئے اس مشاعرہ میں ان کو بھی بہت ہی شان وشوکت سے پیش کیاگیا۔چونکہ ملک کی پالیسی کے مطابق نہروجی شراب بندی کے قائل تھے اورجوش صاحب بلاکے پِوکڑ، اس لئے جوش لال قلعہ کی مشاعرہ گاہ میںبھی شراب کے نشے میںدُھت نظرآئے ،اپناکلام پیش کرتے ہوئے جوش ؔنےشراب بندی کے خلاف ایسے اشعارپڑھے ، جونہروجی کی توہین پرکھلم کھلابھرے تھے۔
بیدی جی کابیان ہے ،اس وقت میراوہ براحال تھاکہ زمین پھٹے توسماجائوں مگرجوش صاحب تھے، کہ باربار ان ہی شعروںکی تکرارہے مگرنہرجی اپنی اعلیٰ ظرفی و قوت برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے گردن نیچی کئے بیٹھے رہے، مشاعرہ کے ختم پر نہ نہروجی خاموشی سے رخصت ہوگئے، اورمیں ان کاچور بنارہا۔ جوش صاحب کوجب بعدمیںمیری رسوائی، نہرجی کی بے عزتی اورناراضگی کااندازہ ہواتوکئی روزتک شرم کی وجہ سے میرے پاس نہیں آئے، اورجب آئے تو میںنے بھی سخت بازپُرس کی، جوش نے اپنی غلطی کااعتراف کیا اورمجھ سے پوچھاا، ب اس کا کیا حل ہے؟
میںنے غصہ میں جھنجلاکرکہا: حل کیاہوتا؟ اب آپ بھی اپنے گھربیٹھو اورمیںتوبیٹھاہی ہوں، تم نے میرے لئے نہروجی کادروازہ توبند کراہی دیا۔جوش اس پراورجذباتی ہوگئے ، اوربولے نہیں بیدی جی !ایسانہیں ۔آپ اس کا کوئی حل نکالو، میں بہت شرمندہ ہوںاورنہروجی سے معافی مانگناچاہتاہوں۔ جب جوش نے معافی کی بات کہی ،تومجھے بھی ہمت سی ہوئی اورمیں نے کہا: ٹھیک ہے ، لیکن تم معافی خود حاضرہوکرمانگوگے، ہاں! البتہ میں تمہارے ساتھ رہوںگا۔بس ہم دونوںنہرجی کی کوٹھی پر ساتھ ساتھ پہنچ گئے،چونکہ پیشگی اجازت میرے لئے کوئی مسئلہ نہیں تھا اس لئے اردلی نے بھی ہم کوڈائریکٹ اندر جانے دیا، اورنہروجی کوجاکر بتادیا۔ نہروجی اس وقت اپنے دفتر کی فائلوں میں مشغول تھے،ہم لوگ جیسے ہی حاضر ہوئے ، نہروجی نے ایک ترچھی سی نظراٹھائی اورہم کوبھانپ لیا، مگرپہلے کی طرح نہ کوئی مسکراہٹ اورنہ ہی خوشی یااستقبال کااظہار۔ البتہ چہرہ ان کی شیروانی کے گلاب سے بھی زیادہ سے سرخ مگرغصہ کی تمتماہٹ کے ساتھ۔ اتنے میں ان کی بیٹی اندراجی بھی آگئیں مگراپنےطیش میں وہ ان سے بھی کچھ نہ بولے، اندراجی بھی ہماری موجودہ کیفیت اورپرانی صورت حال پر خاموش ہی رہیں،لیکن سمجھ سب رہی تھیں۔ میرے دل کی حالت اورخراب ہونے لگی کہ ہائے اللہ! اب کیاہوگا؟اگرنہروجی نے ہم سے بات نہیں کہی اوریونہی جاناپڑا تو آئندہ تمام عمر کے لئے یہ راستہ بند ہوجائے گا۔ مگرقربان جائیے نہروجی کی اعلیٰ ظرفی اور قوت برداشت پر۔کچھ دیرخاموشی کی سزادینے کے بعد نہروجی ہم دونوںکی طرف مخاطب ہوتے ہوئے بولے:کیاابھی کچھ اوربھی میری بے عزتی کی خواہش یاتمناہے ؟کچھ رہی سہی کسرباقی ہوتواس کوبھی پوری کرلو۔نہروجی کے یہ الفاظ سن کے ہم لوگوں کی آنکھوں سےندامت کے آنسو بہنے لگے، مگربولا کچھ نہیں جاسکا، بس ہماری شرمندگی اور خاموش کی تصویرہی خودگویاتھی کہ ہم آ پ کے اقبالی مجرم ہیں۔اس کے بعدنہروجی نے بس اتناکہا:اگرتم کویہ سب کرناہی تھاتوپھراتنے بڑے مجمع میں مجھ کو گھسیٹنے اوررسواکرنے کی کیاضرورت تھی؟
بہار کا سیاسی منظرنامہ اورمسلمان:واضح حکمتِ عملی کی ضرورت-محمدشارب ضیاء رحمانی
عصری سیاست،خودغرضی اورمفادپرستی کانام ہے۔بے اصولی،سیاست کاہنرہے۔اصول کے ساتھ سیاست نہیں ہوسکتی۔جوجتنابڑاخودغرض اورمفادپرست ہوگا،اتناماہرسیاست داں سمجھاجائے گا۔ دن گئے کہ لوگ سیاسی نظریات کی بنیادپرکسی پارٹی سے وابستہ ہوتے تھے،اب کوئی لیڈرکانگریس میں ہے توضروری نہیں کہ وہ ’کانگریسی‘ہو،کشتی ڈوبتی دیکھ کر’ملاح‘سفینہ بدل لیتے ہیں۔بات مسلم نمائندگی کی ہویاسیکولرزم کی سیاست کی تواس حمام میں سب یکساں ہیں۔کانگریس کی صف اول میں غلام نبی آزاد،احمدپٹیل،کے رحمن خان،سلمان خورشید اور طارق انورنظرآتے ہیں لیکن دوسری ،تیسری صف مسلم لیڈرشپ سے خالی ہے۔ کانگریس ہندونازبرداری کی سیاست پرگامزن ہے۔سخت گیرہندوتواکامقابلہ نرم ہندوتواسے نہیں کیاجاسکتا۔ملک کی سیاست اسی سمت چل پڑی ہے جدھرکی ہواہے۔ مسلم قیادت کسی پارٹی میں ہوتی ہے تو’سیکولر‘ہوتی ہے اورذرابے اعتنائی ہوئی،’مسلمان‘ہوجاتی ہے(یہی سب کچھ غلام نبی آزادکے معاملے میں دیکھنے میں آیا)جس طرح سیکولرپارٹیاں مفادات پرضرب لگتی دیکھ کرسیکولرزم کاراگ الاپناشروع کردیتی ہیں ۔مظفرنگرفسادات میں ایس پی حکومت کاکرداردیکھ لیجیے اوراب اس کاراگ سن لیجیے۔
بہارکاسیاسی منظرنامہ ہردن بدل رہاہے۔وفاداریاں اوربے وفائیاں انتخابی موسم کی روایتی چیزیں ہیں۔کوئی فرق نہیں پڑتاکہ کون کس طرف جارہاہے۔کشواہامودی سرکارمیں وزیررہے ہیں،لوک سبھاالیکشن میں ’سیکولر‘ہوگئے،اب وہ بیچ بیچ میں ہیں۔لوجپاکو’مودی سے بیرنہیں‘۔جیتن رام مانجھی ’اپمان ‘سہنے کے بعد پھرمحسن کی گودمیں بیٹھ گئے۔نتیش کمارنے مودی کی وزیراعظم کے طورپرنامزدگی کی مخالفت میں این ڈی اے کوچھوڑا،اب وہی ساتھ مل کر’وکاس ‘کی گنگابہانے کوتیارہیں۔اندازہ درست ہے کہ نتیش کمارکوکمزورکرنے کے لیے لوجپاکومیدان میں اتاراگیاہے۔لوک سبھاالیکشن میں بی جے پی کی بہترین کارکردگی(گرچہ وہ تیجسوی یادوکی حماقت سے کیوں نہ ہو)کے بعدریاستی اکائی کی طرف سے بی جے پی کو’آتم نربھر‘بنانے کی آوازاٹھنے لگی ۔لیکن فی الحال نتیش کے ساتھ الیکشن لڑنابی جے پی کی مجبوری ہے ۔چنانچہ برابرسیٹوں پراتفاق ہواکہ بی جے پی اپنے کوٹے سے لوجپاکونشست دے گی،اورجدیو،مانجھی کی ’ہم‘ کوسیٹ دے گی۔مانجھی چھے سات پرمان جاتے(جیساکہ ہوا،گرچہ چاران کے پریوارکے امیدوار ہیں،لیکن نتیش کمار’پریوارواد‘سے لڑرہے ہیں؟)اورپچیس تیس سیٹیں لوجپاکودینے کی صورت میں بی جے پی کے پاس نشستیں،جدیوسے کافی کم ہوجاتیں۔یہ صورت حال بی جے پی کے لیے ناقابل برداشت تھی ۔ لوجپاکوپہلے باہرکیاگیاتاکہ زیادہ سیٹیں نہ دینی پڑیں اورسہنی کواندرلیاگیاتاکہ کم سیٹ پرکام چل جائے اورجدیوکے ساتھ نشستوں اورووٹ بینک کاتوازن ٹھیک ٹھاک رہے۔پھرجدیوکے ووٹ میں سیندھ لگانے کے لیے لوجپاکواتاردیاگیا۔بی جے پی دونوں ہاتھوں میں لڈورکھناچاہتی ہے۔یعنی اگربی جے پی کی سیٹیں جدیوسے زیادہ آئیں تووہ اپنے وزیراعلیٰ کی دعوے داری ٹھوکے گی اور لوجپااورچھوٹی چھوٹی پارٹیوں اورآزادامیدواروں کی مددسے سرکاربناسکتی ہے۔آخرچراغ پاسوان کی امت شاہ اورجے پی نڈاکے ساتھ کئی میٹنگوں میں اورکیابات ہوئی ہوگی؟
’انترآتما‘کاحال تونہیں معلوم ،لیکن نتیش کمارکے لیے یہ صورت حال انتہائی شرمناک تھی،ان کی مجبوری ہے کہ مزدروں کی بے بسی،لاک ڈائون کی تباہ کاری،بے روزگاری اورسیلاب پرجدیوکے پاس جواب نہیں ہے چنانچہ پناہ لیناضروری ہے۔انتخابی ہنگاموں میں ’وکاس‘اورخصوصی ریاست کامدعانہیں رہے گا،البتہ رام مندر،دفعہ۳۷۰،سی اے اے کی آڑمیں چھپنے کاموقعہ مل جائے گا۔زمین کھسکتی دیکھ کرنتیش کمارنے بی جے پی کوآنکھ دکھائی۔خبرگرم ہے کہ وہ این ڈی اے کی پریس کانفرنس میں آنے کوتیارنہیں تھے ،بی جے پی کوصفائی دینی پڑی کہ’کرسی‘،کمارکے پاس رہے گی لیکن جنھیں ۲۱دن میں کوروناختم ہونے،جی ایس ٹی سے صر ف ایک ٹیکس لگنے اورنوٹ بندی سے کالادھن آنے پریقین نہیں ہے،انھیں اس وعدے پراعتمادنہیں ہے۔خودنتیش کمارکوبھی نہیں۔آخرابھی تک کھل کراعلان کیوںنہیں کیاگیاہے کہ لوجپاکواین ڈی اے سے باہرکردیاگیا؟اب لوجپاکے سیمبل پرآرایس ایس کے پرچارک سمیت بی جے پی کے متعددلیڈران اتارے گئے ہیں،بہانہ ٹکٹ نہ ملنے کاہے۔کہاجاسکتاہے کہ جدیوکی اصل حریف ، خودبی جے پی ہے۔نتیش کماریقیناََ اس کھیل کوسمجھ رہے ہیں۔ان کے ذہن میں’مہاراشٹر‘ ماڈل ہوگا۔وہ آسانی سے ’کرسی‘ نہیں چھوڑسکتے۔ویسے بھی کانگریس کے تئیں ان کارویہ نرم رہاہے اورراہل گاندھی کولالویادوکے مقابلے،نتیش کمارپسندہیں۔’سیکولر‘ثابت کرکے لیے کہاجارہاہے کہ بی جے پی ،نتیش کمارسے اپنے ایجنڈے پرکام نہیں کراپارہی ہے،اس لیے وہ انھیں ہٹاناچاہتی ہے۔ایسانہیں ہے، نتیش کمارنے کب بی جے پی کے ایجنڈے میں مددنہیں کی ہے؟اردوپربہارسرکارنے بڑاحملہ کیا،سی اے اے پرجدیونے ووٹ دیا،ماب لنچنگ ہوتی رہی،فرقہ ورانہ تشددسے کون واقف نہیں ہے؟بی جے پی کامقصداپناوزیراعلیٰ بناکرخودکفیل ہوناہے ۔اسے طنزسنناپڑتاہے کہ بہارمیں بی جے پی ’آتم نربھر‘نہیں ہے۔
تجزیہ کریں تولوجپاکے الگ ہونے سے پہلے این ڈی اے کی پوزیشن مضبوط تھی۔اب این ڈی اے میں بی جے پی مضبوط ہے،جدیوکمزورہوئی ہے۔ کمزوری کافائدہ اٹھاکرنتیش کمارکووزیراعلیٰ بننے سے روکاجائے گاتوجدیوکے جومسلم لیڈران نتیش کمارکے مبینہ’سیکولرچہرے‘پرووٹ مانگ رہے تھے،انھیں سوچناچاہیے۔این ڈی اے میں وزیراعلیٰ کاچہرہ اب غیرواضح ہے۔اسی لیے مسلمانوں کوجھانسے میں نہیں آناہے۔انھیں اپناایشونہیں چھوڑناہوگا،اردوپربہارسرکارکے حملے کویادرکھناہوگا،سی اے اے پرجدیوکی ووٹنگ نہیں بھولنی ہے۔کیوں کہ اگرجدیوکوووٹ دیاتوپیغام جائے گاکہ مسلمانوں کے ساتھ کچھ بھی کرلو،یہ قوم بھول جاتی ہے۔اس سے فرقہ پرستوں کوحوصلہ ملے گا۔بھول جانے کی یہی روایت بڑی بھول رہی ہے۔سوال معقول ہے کہ پھرکسے ووٹ دیاجائے؟متبادل کون ہے ؟(یہ سوال لوک سبھاالیکشن میں بھی پھیلایاجاتاہے کہ مودی نہیں توکون؟) سوال کاجواب اس وقت آسان ہوگاجب پہلے یہ طے کرلیں کہ کسے ووٹ نہیں دیناہے۔ حکمت عملی ہونی چاہیے کہ این ڈی اے کاکوئی امیدوارہو،ہرگزایک ووٹ نہ جائے(کچھ لوگ کہیں گے کہ جدیوکے مسلم امیدواروں کوجتایے،ان سے سوال ہے کہ مسلم ایم ایل اے نے اردوکی لازمیت ختم کرنے،سی اے اے پرووٹنگ،فرقہ ورانہ تشددپرکیااقدام کیا؟)اسی طرح چھوٹے چھوٹے ’موسمی گٹھ بندھن‘ بنے ہیں،ان کے چکرمیں ووٹ نہیں بربادکرنے چاہئیں۔مان کرچلیے،مقابلہ این ڈی اے بنام یوپی اے ہے،مہاگٹھ بندھن کمزورتھا،اوراین ڈی اے مضبوط تھا،اب این ڈی اے جزوی طورپر کمزورہواہے اورمہاگٹھ بندھن میں لیفٹ پارٹیوں کی انٹری کے بعدمضبوطی آئی ہے۔ہرسیٹ پرکچھ نہ کچھ ووٹ لیفٹ کاہے۔رہی بات کشواہا،مانجھی اورسہنی کے جانے کی تویہ لوگ گزشتہ الیکشن میں بھی یوپی اے میں نہیں تھے(بلکہ دواین ڈی اے میں تھے)لوک سبھاالیکشن میں سہنی خودنہیں جیت پائے۔پیروپیگنڈہ پھیلاجارہاہے کہ اپوزیشن کمزورہے۔یہ خاص انتخابی پلاننگ ہوتی ہے جیساکہ نیوزچینلزاوپنین پول کے ذریعے ماحول بناتے ہیں۔
اویسی،کشواہا،دیویندریادواورمایاوتی کاالائنس سامنے آیاہے۔مایاوتی جنھیں ہرذی شعوربی جے پی سے قریب پاتاہے،سے اویسی کااتحادکئی سوال کھڑے کررہاہے۔لکھ کررکھ لیجیے کہ مجلس کوکشواہابرادری،یادواوردلت کاووٹ نہیں ملے گا۔بہارمیں ذات پات پرووٹنگ ہوتی ہے لیکن مسلمان اورخاص کرمسلم پارٹی کے تئیں وہ ’ہندو‘ہوجائیں گے۔مسلمان ہرگزیہ غلطی نہ کریں کہ اس الائنس کی وجہ سے جوش میں اپنے ووٹ رالوسپا(کشواہا)یابی ایس پی کودے دیں۔ اتحادسے بی ایس پی ،رالوسپاکافائدہ توہے،مجلس کاکوئی فائدہ نہیں ہے۔ضرورت پڑی توکشواہاآسانی سے این ڈی اے میں چلے جائیں گے(جیساکہ گٹھ بندھن سے نکلنے کے بعدجانے کوبے تاب تھے)مایاوتی راجستھان کابدلہ لینے کے لیے پریشان ہیں۔اس الائنس سے متعلق منصوبہ ہوناچاہیے کہ جہاں رالوسپا،بی ایس پی کے امیدوارہوں گے وہاں انھیں ووٹ نہیں کریں گے اورجہاں مجلس کے امیدوارہوں گے وہاں جیتنے والے مجلس کے امیدوارکوجتائیں گے۔دوسری بات کہ مجلس اگرزیادہ سیٹوں پرلڑتی ہے تومزیدتجربہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے،اس سے بی جے پی کوفائدہ ہوگا،ہاں دس سیٹیں منتخب کرلی جائیں،ان منتخب سیٹوں پرمجلس کوووٹ دیاجائے،مثلاََاخترالایمان،قمرالہدیٰ کی نشستیں۔مجلس اگرپانچ سات سیٹیں بھی لاتی ہے توبڑی کامیابی ہوگی،تیجسوی کی ایٹھن ٹھیک کرنے کے لیے مجلس کاکچھ سیٹوں پرجیتناضروری ہے۔سچ ہے کہ راجدکی پالیسی سطحی رہی ہے۔وہ یادوکی نازبرداری کرتی رہی ، چاہے ٹکٹ کی تقسیم ہویاوزارت میں نمائندگی دینی ہو۔بہار میں یادوآبادی ،مسلمانوں کے قریب قریب ہے(یادرہے کہ لوک سبھاالیکشن میں یادو نے راجدکودھوکہ دیا)جب ٹکٹ نہیں دیں گے توکہاں سے مسلم نمائندگی ہوگی۔ ۲۰۰۰ میں یادوممبران اسمبلی کی تعداد۶۴تھی اور۲۰مسلمان کامیاب ہوئے،۲۰۰۵ میں۵۴ یادوممبران ،اسمبلی پہونچے جب کہ صرف ۱۶مسلمان جیتے اور پھر۲۰۱۰ میں لالوکی برادری کی تعداد۳۹ ہوگئی،اس الیکشن میں صرف ۱۹مسلم ممبران اسمبلی کامیاب ہوئے پھر۲۰۱۵میں یادوئوں کی تعداد بڑھ کر۶۱ ہوگئی۔جب کہ ۲۴مسلمان کامیاب ہوئے،جن میں ۱۲آرجے ڈی،۶کانگریس،۵جے ڈی یواورایک سی پی آئی سے تھے۔۲۰۱۵ کے اسمبلی الیکشن میں آرجے ڈی نے ۱۰۱ سیٹوں میں ۴۸ نشستوں پر یادوؤں کو ٹکٹ دیاتھا۔ان میں سے ۴۲ فاتح ہوئے۔ابھی بھی تیجسوی یہی کررہے ہیں۔جدیو نے بھی ایک سوپندرہ میں صرف گیارہ مسلم امیدوار اتارے ہیں-ہوسکتاہے کہ یادوئوں کوزیادہ ٹکٹ دینابہارکے تناظرمیں ہرپارٹی کی مجبوری رہی ہو،لیکن جس طرح اتنے کم مسلم امیدواراتارے جاتے ہیں،اس سے سیکولرپارٹیوں پرسوال بجاہے۔سچ ہے کہ لالویادونے بھی ہمیشہ مسلم سیاسی لیڈرشپ کودبایاہے۔اس لیے احتساب ہوتے رہناچاہیے،کمی یہ رہی کہ ہم نے سوال نہیں پوچھا،ان کااحتساب نہیں کیا۔ووٹ دیں،احتساب بھی کریں،بھارت کی سیاست میں ریاستی سطح پرپریشرگروپ، مسلم پارٹی سے زیادہ اہم ہیں۔فی الحال فرقہ پرستوں کواقتدارسے روکنے کے لیے ہوش سے کام لینے کی ضرورت ہے ۔ہوسکتاہے کہ آپ کے علاقے میں گٹھ بندھن نے جسے ٹکٹ دیاہو،اس کے مقابلے جدیوکاامیدواراچھاہو،لیکن اپنے علاقوں اورذاتی تعلقات کی بجائے پوری ریاست اورملک کی صورت حال کودیکھناچاہیے۔اگرہرعلاقہ کے لوگ یہی دیکھتے رہے توسوچیے، نتائج کیاہوں گے ۔
خلاصہ یہ کہ پہلے طے کرلیں کہ ووٹ کسے نہیں دیناہے ،پھریہ سمجھناآسان ہوگاکہ کسے دیناہے ۔علاقائی پارٹیوں(جیسے رالوسپا،لوجپا،چندرشیکھرکی آزادسماج پارٹی،پرکاش امبیڈکرکی وی بی اے ،پپویادوکی جن ادھیکارپارٹی،بی ایس پی)کے چکرمیں ہرگزنہ پڑیں،چاہے جتنااچھاامیدواریاشیریں زبان لیڈرہو۔ورنہ ووٹ تقسیم ہوگا،اگراس حکمت عملی پرچلاجائے تومقابلہ آمنے سامنے کاہوگا۔جہاں سہ رخی مقابلہ ہوا،این ڈی اے بازی لے جائے گا،مقابلہ سہ رخی ہونے نہیں دیناہے،بی جے پی کی بھرپورکوشش یہی ہے۔اس کے بعداین ڈی اے امیدوارکوہرانے والے امیدوارپرتوجہ دی جائے۔کانگریس،راجدیالیفٹ پارٹیوں کاکوئی امیدوارہو،اسے ووٹ دیں،علاقے کے پسندکے امیدواریاذاتی تعلقات کودیکھیں گے توتقسیم کااندیشہ ہے،ملک اورریاست کی سمت اورسیاست کودیکھیں۔ہاں اپنی موجودگی اورسیکولرپارٹیوں کواحساس دلانا ضروری ہے ،اس لیے مجلس کی صرف دس سیٹوں کاانتخاب کرلیں۔اس سے زیادہ پرتجربہ مضرہوگا۔ویسے بھی اپنے گھراورگڑھ تلنگانہ میں وہ سات آٹھ سیٹوں پرلڑتی ہے۔عوام کو اورخودمجلس کوبھی تلنگانہ ماڈل اپناناچاہیے۔جوش میں ہوش نہیں کھوناہے بلکہ تقسیم سے بچتے ہوئے بیچ کی راہ نکالنی ہے۔بہارنے ہمیشہ ہوش کوسنبھالے رکھاہے،یہ مٹی سیاسی سوجھ بوجھ کے لیے اپنی پہچان رکھتی ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
نئی دہلی:قومی کمیشن برائے خواتین نے کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی واڈرا کے ساتھ مل کر مبینہ دھکامکی کے معاملے پر اتر پردیش پولیس سے جواب طلب کیا ہے۔ خواتین کمیشن نے کہا کہ اس طرح کا غیر سنجیدہ رویہ بالکل ناقابل قبول ہے۔ کمیشن نے ٹویٹ کیاکہ قومی خواتین کمیشن نے ہاتھرس جاتے ہوئے پولیس کے ساتھ پرینکا گاندھی کی مبینہ طور پردھکامکی کی مذمت کی ہے۔ اس طرح کا غیر حساس رویہ مکمل طور پر ناقابل قبول ہے۔انہوں نے کہاکہ اس معاملے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے خواتین کمیشن کی چیئر مین ریکھا شرما نے جلد سے جلد اتر پردیش کے پولیس ڈائریکٹر جنرل سے جواب مانگا ہے۔کمیشن کے مطابق خط اس کی ایک کاپی گوتم بودھ نگر کے ضلعی آفیسر اور ڈپٹی کمشنر پولیس کو بھیجی گئی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ پرینکا گاندھی سابق کانگریس صدر راہل گاندھی اور پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ ہفتہ کی دوپہر ہاتھرس جارہی تھیں تاکہ اس دلت لڑکی کے اہل خانہ سے ملیں جو مبینہ طور پر اجتماعی عصمت دری اور پٹائی کے بعد ہلاک ہوگئی تھی۔ جب پرینکا وہاں جارہی تھی تو کانگریس کارکنان کی دہلی یوپی بارڈر پر پولیس سے جھڑپ ہوئی۔ اسی دوران ہیلمٹ پہنے پولیس اہلکار نے ڈی این ڈی ٹول پلازہ پر پرینکا کو روکنے کی کوشش کی۔ الزام ہے کہ پولیس اہلکار نے کانگریس جنرل سکریٹری کا کپڑا پکڑکر انہیں روکا۔
قانون ٹھیک ہے توکسان پریشان کیوں؟امبانی،اڈانی چلاتے ہیں مودی حکومت:راہل گاندھی
موگا:کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے آج مودی حکومت کے کسان قانون کے خلاف پنجاب کے شہر موگا میں ٹریکٹر یاتراکی شروعات کی۔ راہل گاندھی نے ایک جلسہ عام سے بھی خطاب کیا جس میں انہوں نے مودی حکومت پر شدید حملہ کیا۔ راہل گاندھی نے کہا کہ مودی حکومت میں انگریزوں کی طرح برتاؤ کیا جارہا ہے۔ راہل نے کہا کہ اگر وہ اقتدار میں واپس آئے تو وہ کالے قانون کو کالعدم کردیں گے۔راہل گاندھی نے کہا کہ کوویڈ میں کسانوں کے لیے قانون کیوں لائے؟ اگر قانون ٹھیک ہے تو کسان کیوں احتجاج کررہے ہیں۔ کووڈ میں مودی سرکار نے بڑے تاجروں کا ٹیکس معاف کردیا ، غریبوں کو کچھ نہیں دیا۔انہوں نے مودی سرکار کو صنعتکاروں کاحمایتی قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ حکومت مودی کی ہے ، لیکن وہ امبانی اور اڈانی چلاتے ہیں،کوئی اور پردے کے پیچھے سے کٹھ پتلی چلا رہا ہے۔ انہوں نے کہاہے کہ انگریزوں نے کسانوں کی ریڑ توڑی تھی، ملک غلام رہا ، نریندر مودی کاوہی مقصد ہے، اگر ہماری حکومت بنی تو ہم اس کالے قانون کو منسوخ کردیں گے۔وزیر اعلی پنجاب امریندر سنگھ ، کانگریس جنرل سکریٹری اور پنجاب امور کے انچارج ہریش راوت ، پنجاب کانگریس کے صدر سنیل جاکھر ، ریاستی وزیر خزانہ منپریت سنگھ بادل اور دیگر لیڈران بھی اس ریلی میں شرکت کے لئے موگا پہنچے تھے۔پنجاب کے جلسے میں راہل گاندھی نے ہاتھرس گینگ ریپ کا معاملہ بھی اٹھایا۔ انہوں نے کہاکہ کل میں یوپی میں تھا ، یہاں ہندستان کی ایک بیٹی تھی جسے قتل کیا گیا تھا اور مارے جانے والے افراد کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی تھی اور جس کنبہ کی بیٹی کو مارا گیا تھا وہ اپنے گھر کے اندر بند تھا۔ڈی ایم نے انہیں دھمکی دی ، وزیراعلیٰ انہیں دھمکی دیتے ہیں ، ہندوستان کی یہی حالت ہے۔
لکھنؤ:کانگریس کے جنرل سکریٹری اور یوپی کے کانگریس انچارج پرینکا گاندھی واڈرا نے ہاتھرس کیس میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ (ڈی ایم) کو برخاست کرکے ان کے کردار کی تفتیش کا مطالبہ کیا ہے۔پرینکاگاندھی نے اتوار کے روز ٹوئٹ کرکے کہا کہ ہاتھراس کے متاثرہ کنبہ کے مطابق سب سے برا رویہ ڈی ایم کا تھا۔ انہیں تحفظ کون دے رہا ہے؟ انھیں نوکری سے برخاست کیا جانا چاہئے اور پورے معاملے میں ان کے کردار کی تفتیش کی جانی چاہئے۔انہوں نے کہا کہ متأثرہ خاندان عدالتی تحقیقات کا خواہاں ہے، توپھر ایسے میں سی بی آئی جانچ کے شور کے بعد ایس آئی ٹی کی تحقیقات کیوں ہورہی ہیں۔ اگر یوپی سرکارنیند سے بیدار ہوگئی ہے ، تو حکومت کو متأثرہ اہل خانہ کی بات سننی چاہئے۔ریاستی حکومت نے جمعہ کے روز ہاتھرس میں ایک دلت بچی کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کے بعد اس کی موت کے معاملے میں پولیس سپرنٹنڈنٹ ، پولیس آفیسر اور انسپکٹر سمیت پانچ پولیس اہلکاروں کو معطل کردیاہے۔ ادھر ڈی ایم پروین لکچھ کار کی ایک مبینہ ویڈیو منظر عام پر آگئی ہے ، جس میں وہ متأثرہ اہل خانہ کو دھمکیاں دیتے ہوئے نظر آرہے ہیں؛لہٰذا انہیں بھی برخاست کئے جانے کی مانگ طول پکڑ رہی ہے ۔
نئی دہلی:ہاتھرس کے واقعے پر کانگریس نے مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی پر سخت حملہ کیا ہے۔ کانگریس کے جنرل سکریٹری رندیپ سورجے والا نے کہا کہ وہ ہاتھرس کے واقعے کے بعد وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ کوچوڑیاں پیش کرنے کب جارہی ہیں۔اس سے قبل اسمرتی ایرانی نے ہفتہ کے روزراہل گاندھی کے ہاتھرس دورے پر تبصرہ کیا تھا۔ اسمرتی ایرانی نے کہاتھا کہ عوام سمجھتے ہیں کہ راہل گاندھی کا ہاتھرس دورہ سیاست کے لیے ہے انصاف کے لیے نہیں ہے۔اسمرتی ایرانی کے اس ردعمل کے بعد کانگریس کے لیڈر رندیپ سرجے والا نے ٹویٹ کیا اور ان پر حملہ کردیا۔ سرجے والا نے کہا کہ مسز اسمرتی ایرانی ، ذرا بتائیں! آدتیہ ناتھ کوکب چوڑیاں پیش کرنے جائیں گی؟
بہار انتخابات:مہاگٹھ بندھن میں سیٹ کی تقسیم پر ہوا اتفاق،آرجے ڈی 143اور 70 سیٹوں پر لڑ ے گی کانگریس
پٹنہ:بہار میں اہم پوزیشن پارٹی راشٹریہ جنتا دل کی سربراہی والے مہا گٹھ بندھن میں سیٹ شیئرنگ پر اتفاق رائے ہوگئی ہے ۔ ذرائع کے مطابق 243 رکنی اسمبلی کے لئے مہا گٹھ بندھن کی سب سے بڑی جماعت آر جے ڈی 143 نشستوں پر انتخاب لڑے گی، جبکہ کانگریس 70 نشستوں پر امیدوار کھڑا کرے گی۔ ذرائع کے مطابق بائیں بازو کی جماعتوں کو 28 سے 30 نشستیں ملی ہیں۔سیٹ شیئرنگ سے متعلق یہ معاہدہ پہلے مرحلے کی نامزدگی کے دوسرے دن ہوا ، حالانکہ اس کا باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ ریاست میں پولنگ کا پہلا مرحلہ 28 اکتوبر کو 71 نشستوں پر ہونا ہے۔ دوسرے اور تیسرے مرحلے کے انتخابات 3 اور 7 نومبر کو ہونے ہیں۔ ووٹوں کی گنتی 10 نومبر کو ہوگی۔ پہلے مرحلے کے لئے نامزدگی جمعرات (یکم اکتوبر) سے شروع ہوگئی ہے۔ یہ 8 اکتوبر تک جاری رہے گی ۔
سونیا گاندھی کی بہار میں پہلی ورچوئل ریلی، جان بوجھ کر ملک میں خوف کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے:سونیا گاندھی
پٹنہ:کانگریس کی عبوری صدر سونیا گاندھی نے جمعہ کے روز بہار کے چمپارن میں’ گاندھی چیتنا ‘ نامی ریلی سے ورچوئل میڈیم کے ذریعہ خطاب کیا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں مرکزی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ کانگریس صدر نے کہا کہ ملک میں جان بوجھ کر خوف کی فضا پیدا کی جارہی ہے، کچھ لوگ خوف ، سراسیمگی اور جذبات کی تجارت کرکے حکومت چلا رہے ہیں۔ سونیا نے لوگوں سے احتیاط برتنے اور صحیح فیصلہ لینے کا اپیل کی۔سونیا گاندھی نے چمپارن میں بابائے قوم مہاتما گاندھی کی مورتی کی بھی نقاب کشائی کی۔سونیا گاندھی نے کہا کہ کانگریس کی ہر پالیسی میں عوام کی شمولیت ناگزیر تھی ، لیکن آج کچھ لوگوں کے مفاد کے لئے پالیسیاں وضع کی جارہی ہیں۔ کانگریس نے پسماندہ ، دلتوں ، خواتین ، نوجوانوں اور کسانوں کے تحفظ اور انہیں خود کفیل بنانے کیلئے جتنے بھی قوانین وضع کئے ، انہیں کمزور کیا جارہا ہے ۔خیال رہے کہ اس سے قبل مہاتما گاندھی کے 151 ویں اور سابق وزیر اعظم لال بہادر شاستری کی 116 ویں یوم پیدائش کے موقع پر سونیا گاندھی نے کہا کہ کسان زرعی قانون کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، لیکن حکومت سرد مہری کا مظاہرہ کررہی ہے ۔
راہل اورپرینکاگاندھی کوہاتھرس جانے نہیں دیاگیا،گرفتاری اوردھکامکی کاالزام،دہلی واپس لوٹے
لکھنؤ:کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی اورپارٹی کی جنرل سکریٹری پرینکاگاندھی واڈراکوجمعرات کے روز پولیس نے گینگ ریپ کا نشانہ بننے والی لڑکی کے اہل خانہ سے ملنے کے لیے ہاتھرس جانے سے روک دیا ۔دھکامکی کے نتیجے میں راہل گاندھی گرگئے ۔اس درمیان ان دونوں کی گرفتاریوں کی خبربھی آئی ۔اب وہ دونوں دہلی واپس ہوگئے ہیں۔ریاست میں ان دونوں کو روکا گیاانھوں نے جنگل راج کاالزام لگاتے ہوئے پولیس پر لاٹھیاں چلانے کا الزام لگایاہے اورکہاہے کہ مغرور حکومت کی لاٹھیاں ہمیں نہیں روک سکتی ہیں۔ادھر پارٹی نے کچھ تصاویر جاری کی ہیں جن میں یہ دعویٰ کیاگیا ہے کہ اتر پردیش پولیس نے راہل گاندھی کو روکنے کے لیے ان کے ساتھ زیادتی کی جس کی وجہ سے وہ زمین پر گر پڑے۔کانگریس ذرائع کے مطابق، دونوں لیڈروں کے قافلوں کو گریٹر نوئیڈا پولیس نے روکا تھا۔ اس کے بعد وہ پیدل ہی ہاتھرس کے لیے روانہ ہوئے۔تھوڑی دور کے بعد پولیس نے انہیں دوبارہ روک لیا۔کانگریس نے ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں پارٹی کے سابق صدر پولیس سے پوچھتے دکھائی دیتے ہیں کہ انہیں کس سیکشن کے تحت گرفتار کیا جارہا ہے۔پولیس کے روکنے کے بعد راہل گاندھی نے الزام لگایا کہ ریاست میں جنگل راج کی یہ حالت ہے کہ متاثرہ خاندان سے ملنابھی حکومت کو خوفزدہ کرتا ہے۔انھو ں نے کہاہے کہ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ، پیاروں کو غم کی گھڑی میں تنہا نہیں چھوڑا جاتا ہے۔اترپردیش میں جنگل راج کا عالم یہ ہے کہ کنبہ سے ملنے سے حکومت کو خوف آتا ہے۔ اتنا خوفزدہ نہ ہوں ، چیف منسٹر!‘‘پرینکاگاندھی نے الزام لگایاہے کہ پولیس نے ان کو اور راہل گاندھی کو ہاتھرس جانے سے روکنے کے لیے لاٹھیوں کااستعمال کیا ، لیکن مغرور حکومت کی لاٹھی سے انہیں روک نہیں سکتی۔انہوں نے ٹویٹ کیاہے کہ ہمیں ہاتھرس جانے سے روک دیاگیاہے۔جب ہم سب راہل گاندھی کے ساتھ پیدل نکلے تو ہمیں بار بار روکاگیا ، وحشیانہ انداز میں لاٹھی استعمال کی گئی۔
بابری مسجد انہدام معاملہ:خصوصی عدالت کا فیصلہ غیر معقول،سپریم کورٹ کے فیصلے سے پرے:کانگریس
نئی دہلی:کانگریس نے بدھ کے روز بابری مسجد انہدام معاملے میں سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے فیصلے کو گذشتہ سال سپریم کورٹ کے فیصلے کے منافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئین ،معاشرتی ہم آہنگی اور بھائی چارے پر یقین رکھنے والا ہر شخص توقع کرتا ہے کہ صوبائی اور مرکزی حکومت اس غیر معقول فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرے گی۔ پارٹی کے چیف ترجمان رندیپ سورجے والا نے کہا کہ بابری مسجد انہدام معاملے کے تمام ملزموں کو بری کرنے کا خصوصی عدالت کا فیصلہ سپریم کورٹ کے فیصلے اور آئین سے پرے ہے۔ سپریم کورٹ کے پانچ ججوں پر مشتمل بینچ 9 نومبر 2019 کے فیصلے کے مطابق بابری مسجد کا انہدام غیر قانونی جرم تھا، لیکن خصوصی عدالت نے تمام مجرموں کو بری کردیا۔ خصوصی عدالت کا فیصلہ بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کے صریح خلاف ہے۔انہوں نے الزام لگایاکہ پورا ملک جانتا ہے کہ بی جے پی-آر ایس ایس اور ان کے رہنماؤں نے سیاسی فوائد کے لئے ملک اور معاشرے کے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو توڑنے کے لئے مکروہ سازش کی تھی۔ اس وقت اترپردیش کی بی جے پی حکومت نے بھی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو توڑ نے کی اس سازش میں ملوث تھی ۔ سرجے والا نے کہاکہ یہاں تک کہ جھوٹے حلف نامے دے کر عدالت عظمیٰ کو بھی بہکایا گیا تھا۔ ان تمام پہلوؤں، حقائق اور شواہد کا جائزہ لینے کے بعد ہی سپریم کورٹ نے مسجد انہدام کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔انہوں نے کہاکہ ہر وہ شخص جو آئین، معاشرتی ہم آہنگی اور بھائی چارے پر یقین رکھتا ہے وہ توقع کرتا ہے کہ صوبائی اور مرکزی حکومت خصوصی عدالت کے اس غیر معقول فیصلے اور ملک کے آئین کے بغیر کسی تعصب کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کریں گی۔ اور قانون کی تعمیل کریں گی۔واضح رہے کہ سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے بدھ کے روز 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کے انہدام معاملے میں طویل انتظار کے بعد تمام ملزموں کو بری کردیا۔ سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے جج ایس کے یادو نے فیصلے میں کہا ہے کہ بابری مسجد انہدام سانحہ پہلے سے منصوبہ بند نہیں تھا، یہ ایک حادثاتی واقعہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ ملزموں کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا ۔
جے پور:کانگریس زرعی قانون سازی کے حوالے سے جارحانہ موڈمیں ہے۔ راجستھان کے سابق نائب وزیراعلیٰ سچن پائلٹ نے زرعی قانون کے خلاف جے پور میں پریس کانفرنس کی ، جب کہ وزیراعلیٰ اشوک گہلوت اور ریاستی صدر گووند سنگھ ڈوٹاسار راج بھون گئے اور گورنر کلراج مشرا کو ایک میمورنڈم پیش کیا۔سچن پائلٹ نے کہا کہ کسان زرعی ایکٹ کی زد میں آگئے ہیں۔راجیہ سبھا میں جس طرح سے بل منظور ہوا وہ جمہوریت کا قتل ہے۔ جس طرح سے بل منظور کیا گیا ہے اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حکومت کے پاس اکثریت نہیں ہے۔ سچن پائلٹ نے کہاہے کہ نہ صرف کانگریس بلکہ این ڈی اے کے حلقے بھی زرعی قانون کی مخالفت کر رہے ہیں۔راجستھان کے قبائلی علاقوں میں تشدد کے بارے میں سچن پائلٹ نے کہاہے کہ تشدد کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ کوئی بھی حکومت امن و امان خراب ہونے کاخواہاں نہیں ہے۔ کچھ لوگوں نے اس تحریک کو مشتعل کرنے کے لیے کام کیا ہے۔ ہمارے قبائلی بھائی بہنیں تشدد پر یقین نہیں رکھتے۔ سچن پائلٹ نے کہاہے کہ جب کانگریس زرعی قانون کی مخالفت کر رہی ہے تو راجستھان میں اس کو کیسے لاگو کیا جاسکتا ہے۔ زراعت ریاست کا موضوع ہے ، لیکن کسی سے بات نہیں ہوئی۔اسی کے ساتھ ہی گورنر کلراج مشرا کو میمورنڈم پیش کرنے کے بعد ، سی ایم گہلوت نے ٹویٹ کیاہے کہ راجستھان ریاستی کانگریس کمیٹی نے نئے زرعی قوانین کو واپس لینے اور ترمیم کے لیے راجستھان گورنرکومیمورنڈم پیش کیاہے۔اس سے قبل اشوک گہلوت نے مودی سرکار پر حملہ کرتے ہوئے کہاتھاکہ ان فاشسٹوں کو جمہوریت پراعتمادنہیں ہے ، لہٰذا وہ ایسے کام کرتے رہتے ہیں جس سے لوگوں کی توجہ ہٹ جاتی ہے۔انھوں نے کہاہے کہ جس طرح سے یہ تینوں بل پارلیمنٹ میں منظور ہوئے وہ شرمناک ہے۔
نئی دہلی:کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے پیر کو ایک بار پھر زراعت سے متعلق قوانین پر حکومت کو نشانہ بنایا اور الزام لگایا کہ پارلیمنٹ میں اور باہر بھی کسانوں کی آواز دبائی جارہی ہے۔ انہوں نے راجیہ سبھا میں ان بلوں کی منظوری کے دوران ہنگاموں سے متعلق ایک خبر شیئرکرتے ہوئے ٹویٹ کیاکہ زرعی قوانین ہمارے کسانوں کے لئے موت کافرمان ہے۔ ان کی آواز پارلیمنٹ اور باہر دونوں جگہ دبائی گئی ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندوستان میں جمہوریت ختم ہوچکی ہے۔کانگریس کے رہنما نے جس خبرکا حوالہ دیا اس میں دعوی کیا گیا ہے کہ راجیہ سبھا کے ڈپٹی چیئرمین ہریونش نے کہا تھا کہ اپوزیشن ممبران ایوان میں زراعت کے بلوں پر ووٹ مانگنے کے دوران اپنی نشستوں پر نہیں تھے، لیکن راجیہ سبھا کے ٹی وی فوٹیج سے اس کے برعکس بات ثابت ہوتی ہے ۔ مون سون کے حالیہ اجلاس میں پارلیمنٹ نے زرعی پیداوار تجارت (فروغ اور سہولت) بل -2020 اور کسانوں (امپاورمنٹ اینڈ پروٹیکشن) پرائس انشورنس معاہدے اور زرعی خدمات سے متعلق معاہدے بل 2020 کی منظوری دی۔ صدر رام ناتھ کووند نے اتوار کے روز ان بلوں کو منظوری دے دی، جس کے بعد وہ قانون بن گئے۔
نئی دہلی:ملک میں روزانہ ہزاروں کی تعداد میں کوروناوائرس کے کیسز آ رہے ہیں۔ سابق کانگریس صدر راہل گاندھی کورونا پر حکومت پر مسلسل حملہ آور ہیں اور الزام لگا رہے ہیں کہ حکومت کورونا روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کررہی ہے۔در حقیقت پیداوار کے معاملے میں دنیا کی سب سے بڑی ویکسین کمپنی،سیرم انسٹی ٹیوٹ کے اعلیٰ عہدیدارنے حکومت کوبتایاہے کہ ملک میں کورونا ویکسین سب کے لیے دستیاب کرنے کے لیے80000 کروڑ روپے کی ضرورت ہے،کیاحکومت کے پاس اتنی رقم ہے؟ راہل گاندھی نے اس بارے میں وزیر اعظم مودی پر طنز کیا ہے۔ اتوار کے روز کانگریس کے رکن پارلیمنٹ اور سابق صدر راہل گاندھی نے اپنے ٹویٹ میں لکھاہے کہ سوال جائز ہے ، لیکن وہ کب تک حکومت کے جواب کا انتظار کرے گا؟ کاش کہ کوویڈ سے ملک کوبچانے کی حکمت عملی کی بات ہوتی۔
نئی دہلی:کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے وزیر اعظم نریندر مودی سے اپیل کی ہے کہ وہ ملک اور کسانوں کے مفاد میں کسان بل فوری طور پر واپس لیں۔ راہل گاندھی نے وزیر اعظم مودی سے کہا ہے کہ وہ کسانوں کو کم سے کم سپورٹ قیمت کی ضمانت دیں۔ انہوں نے کہاہے کہ ملک بھر کے کسانوں کے مطالبے درست ہیں۔ ایک ویڈیوپیغام جاری کرتے ہوئے راہل گاندھی نے ٹوئیٹ کیاہے کہ کسان کے مطالبات مناسب ہیں، مودی جی ، ملک کی آواز سنیں۔ جے کسان ،جے ہندوستان۔راہل گاندھی حکومت کومسلسل بے روزگاری،کسان،مہنگائی اورمعاشی بدحالی پرگھیررہے ہیں اورعوام کی آوازمضبوطی کے ساتھ اٹھارہے ہیں۔
کیاحکومتی فیصلے کی تنقیداشتعال انگیزی ہے؟،17000صفحات کی چارج شیٹ میں نام آنے پرسلمان خورشیدکاطنز
نئی دہلی:کانگریس کے سینئر لیڈراورسابق وزیر خارجہ و وزیرقانون اورسنیئروکیل سلمان خورشیدنے دہلی تشددکے الزام میں نامزد ہونے کے بعد دہلی پولیس پرطنزکیاہے۔ انہوں نے کہاہے کہ دہلی پولیس نے مکمل تحقیقات کیے بغیر چارج شیٹ کے نام پر کوڑا کرکٹ داخل کیا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ 17000 صفحات میں کیاکیاکوڑا کچرا ہوگا۔سابق وزیر خارجہ سلمان خورشید نے کہاہے کہ اشتعال انگیزتقریرکی تعریف کیا ہے؟ آئین کی کس شق کاکہناہے کہ اشتعال انگیز تقریرنہیں کی جاسکتی ہے۔پارلیمنٹ میں روزانہ اشتعال انگیز تقریرکی جاتی ہے۔ کون روک رہا ہے اور کون رک رہاہے؟ میں وہاں حکومت اور سی اے اے کی تعریف کرنے نہیں گیاتھا۔کانگریس کے لیڈر سلمان خورشید نے پوچھاہے کہ کیا اب حکومت اور ان کے بل یا قانون پر تنقید کرناتشددبھڑکاناہے؟ یہاں تک کہ میں نے اس سلسلے میں ایک کتاب بھی لکھی ہے ، لیکن گوڈسے والے کتاب نہیں پڑھتے،ورنہ وہ اسے اشتعال انگیزی کہہ کر اس پر پابندی عائدکردیتے۔ اہم بات یہ ہے کہ دہلی پولیس کی چارج شیٹ میں سلمان خورشید کا نام بھی شامل ہے۔دہلی تشدد پر پولیس نے 17 ہزار صفحات پر مشتمل چارج شیٹ داخل کی ہے جس میں کانگریس کے سینئرلیڈروں سلمان خورشید ، برندا کرات اور ادت راج وغیرہ کے نام شامل ہیں۔ ان پرسی اے اے کے خلاف احتجاج کے دوران اشتعال انگیز تقریرکرنے کا الزام ہے۔ دہلی میں رواں سال 24 فروری سے 27 فروری تک تشددہواتھا۔پولیس چارج شیٹ میں کانگریس کی سابق کونسلر عشرت جہاں نے کہا ہے کہ میں اورخالد سیفی نے جے سی سی کی ہدایت پر سلمان خورشید ، راہل رائے ، بھیم آرمی کے ممبر ہمانشو ، چندن کمار کو بلایا۔ انہوں نے حکومتی فیصلے کی تنقیدکی تھی ۔
کانگریس پارٹی کو غالباً اپنے اچھے دنوں کی کو ئی توقع نہیں – صفدر امام قادری
صدر شعبۂ اردو ،کالج آف کامرس ،آرٹس اینڈ سائنس،پٹنہ
نریندر مودی کی حقیقی کامیابی کا راز اُن کی تنظیمی صلاحیت اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر عوام کے بیچ اشتعال پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات میں بھی مضمرہے کہ انھوں نے ہندستان کی دوسری سیاسی جماعتوں اور بالخصوص کانگریس کو اس جگہ تک پہنچا دیا ہے جہاں اس میں آگے دیکھنے اور پھر سے کبھی مرکز میں حکمراں جماعت بننے کا جوش و جذبہ ہی نظر نہیں آتا۔ اگر ایسا نہیں ہو تا تو حکومت کی معاشی پالیسیوں کے خلا ف عوام کو متحد کر کے کانگریس 2019ء میں نریندر مودی کو دہلی سے دور کر چکی ہوتی ۔ مگر اسے آپسی لڑائی جھگڑے میں شامل ہو نے اور پارٹی کے داخلی تنازعات میں الجھنے میں زیادہ مزہ آتا ہے اور اسی کام کو وہ پارٹی سنجیدگی سے کرتی ہے ۔اب ایسی سیاسی جماعت کی طرف نگاہیں اٹھائے ہندستا ن کے سچّے سیکولر عوام کوکسی نئے راستے کی تلاش کرنی چاہیے ۔
جمہوریت میں خاندانی سیاست کے اپنے مسائل ہیں۔اندرا گاندھی کی وفات کے بعدپہلی بار لوگوں کی سمجھ میں آیا کہ راجیو گاندھی نہایت نا تجربہ کار سیاست دان ہیں اور پارلیامانی جمہوریت میں بھی ڈھائی آکھر تک نہیں پہنچے ہیں۔ان کے دوستوں نے مسٹر کلین کے طور پر امیج بنانے کی کوشش کی۔اندراگاندھی کی موت کی لہر میں انھوں نے دو تہائی سے زیادہ اکثریت حاصل کر لی تھی۔مگر ان کے پاس ملک اور دنیا کے بارے میں کوئی ٹھوس تصور نہیں تھا۔پارٹی کے یار لوگوں نے رٹے رٹائے جملے ان کے منھ سے اگلوانے شروع کیے ۔ان کے ایک دن کی تقریر اگلے روز الٹ جاتی تھی۔کانگریس نئے پرانے لیڈروں کے جال میں اسی زمانے میں پھنسی۔ یہ پھندا اندرا گاندھی کو بھی ایک زمانے میں کسنے کی کوشش کر رہا تھا مگر ان کی انتظامی سوجھ بوجھ اور فیصلے میں اپنے سیاسی تجربے کا استعمال ان کے لیے مددگارہوئے۔پارٹی ٹوٹی مگر اسے اپنے حق میں کرنے ،سرکار قائم رکھنے اور اپنی فوقیت ثابت کرنے میں وہ کامیاب رہی ۔راجیو گاندھی کے لیے دوسری بار اگر حکومت حاصل ہوتی تو ایسے امتحانات شروع ہوتے مگر پہلے وہ دوبارہ اپنی حکومت نہیں بنا سکے اور بہت جلد انھیں اپنی جان بھی گنوانی پڑی۔
کانگریس میں ہر زمانے میں بڑے بڑے سیاست داں اور اپنے اشارے پر چلانے والے لیڈر بھرے پڑے نظر آتے ہیں۔نرسمہا راو کو راجیو گاندھی کی وفات کا پہلا پھل ملا اور نرسمہا راو کے دورِ حکومت میں اس بات کی کوششیں ہوئیں کہ سونیا گاندھی اور پھر راہل گاندھی سیاست کے ایوان میں اپنی جگہ بنالیں۔ وقفے میں خاندان سے باہر کے ایک فرد کو وزیر اعظم بننے کا موقع ملا مگر نرسمہا راو نے اپنے تجربے کی بنیاد پر وہ میعاد کسی طور پر کامیابی سے نکال لی ۔ کانگریس کو وہاں پہنچا دیا جہاں سے اس کے لیے آسان مواقع نہیں تھے۔ اسی دوران بابری مسجد کا انہدام بھی ہوا۔ اکثر لوگ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ راجیو گاندھی کے دور میں ہی وہاں تالا کھلا تھا اور مسجد میں پوجا پاٹ کا سلسلہ قائم ہوا تھا۔ نرسمہا راو نے اٹل بہاری واجپئی کی وزارت کے لیے راہیں ہموار کیں۔
رفتہ رفتہ کانگریس، کمیونسٹ پارٹی اور سیکولر جماعتوں کے ساتھ انتخابات میں شریک ہوکر اپنا وجود بچانے میں کامیاب رہی اور ۲۰۰۵ء کی وہ گھڑی آگئی جب انتخابات میں ’’ہندستان چمک رہا ہے‘‘کے شگوفے سے بھارتیہ جنتا پارٹی ماحول بنارہی تھی۔ کانگریس کو دور دور تک یہ پتا نہیں تھا کہ اقتدار اس کے ہاتھ میں آنے والی ہے۔ جس روز ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی، کانگریس کے صدر دفتر میں دوپہر تک سناٹا چھایا رہا اور کوئی اہم لیڈر کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ ٹی وی چینلوں پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے شہسوار دبنگ بنے ہوئے تھے اور کانگریس کی طرف سے اپنی باتیں رکھنے کے لیے جو ترجمان نظر آرہے تھے، ان کی گھگھی بندھی ہوئی تھی۔ مگر دوپہر کے بعد سورج رفتہ رفتہ ڈھلنے لگا اور کانگریس کا آفتاب نئی روشنیوں کے ساتھ مقدر کا فیضان لٹاتے ہوئے طلوع ہوا۔ ان پندرہ برسوں میں عوام یہ تماشا دیکھتے رہے کہ کانگریس کے اہل کار سونیا گاندھی اور ان کے صاحب زادے راہل گاندھی یا کبھی کبھی پرینکا گاندھی کو اگلے وزیر اعظم کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے۔ اسی انداز سے برانڈنگ ہوتی رہی مگر ۲۰۰۵ء میں سونیا گاندھی نے وزیر اعظم کے عہدے کو غالباً اس لیے قبول نہیں کیا کیوں کہ وہ اپنے صاحب زادے کو آنے والے وقت میں اس جگہ بٹھانا چاہتی تھیں۔ پندرہ سال اُدھر اور پندرہ سال اِدھر یعنی تین دہائیوں میں اس خاندان کے تینوں افراد اپنی کوششیں کرتے رہے مگر جو نتیجہ نکلا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ ملک کے عوام یا سیاسی مشاہدین اس معاملے میں تذبذب میں مبتلا ہیں۔ کبھی سونیا گاندھی بن باس اختیار کرلیتی ہیں اور کبھی ان کے صاحب زادے ۔ کبھی کبھی برسو ں پرینکا گاندھی نظر نہیں آتیں اور کبھی ہندستان کے سب سے بڑے صوبے کی سیاست کا سکہ چلانے کے لیے کانگریس کی طرف سے پیش کردی جاتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بن باس نہیں چاہتا مگر میدان میں ٹک کر اپنی شکستوں کی ذمہ داری لینے کے لیے بھی کوئی تیار نہیں ۔ جیتے تو ہم فاتح اور ہارے تو کانگریس کی تنظیم کا مسئلہ۔ یہ ایسا کھیل ہے جس میں کانگریس کو اور بھی سکڑنا ہے۔
کانگریس اپنے گذشتہ سے سیکھنا نہیں چاہتی۔ ابھی جو اس کے ہاتھ میں علاقائی اقتدار موجود ہیں، وہاں بھی ڈاواں ڈول کیفیت ہے۔ کرناٹک اور مدھیہ پردیش کی حکومتوں کو گنوا دینے کے بعد وہ کسی طرح راجستھان کی حکومت کو بچاپانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ ہر سیاسی مبصر اس بات سے اتفاق کرے گا کہ راجستھان کی پریشانیوں کو کم کرنے یا ایک منزل تک پہنچانے میں کانگریس کے اعلا کمان سے زیادہ خود وہاں کے وزیر اعلا اشوک گہلوت کی سیاسی فراست اور طویل تجربہ ہے ورنہ دلی اور جے پور دونوں سمٹ ہی گئے تھے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی پشت پناہی الگ رہی۔ کانگریس میں وقت پر فیصلہ لینے کی صلاحیت سب سے کم رہی ہے اور موزوں کام میں یا اہم موقعے سے تو انھیں ایسی کوئی صلاحیت دکھانے کا موقع ہی نہیں ملا۔ جب ان کی صف اول کے لیڈران بشمول جیورادتیہ سندھیااور سچن پائلٹ عوام میں یہ بات کہہ چکے ہیں کہ کانگریس صدر یا اعلا کمان سے مل کر انھیں بات کہنے کے لیے مہینوں انتظار کرنا پڑا مگر کوئی صورت نہیں پیدا ہوئی۔ ایسی پارٹی سیاست کیا محلے کی پنچایت بھی نہیں چلا سکتی۔
ابھی پچھلے دنوں جب کانگریس کے بہت سارے بڑے اور تجربہ کار لیڈروں نے سونیا گاندھی کو ایک خط لکھ کر پارٹی کو مضبوط کرنے کے لیے چند مشورے دیے ، اسی دن سے اس پارٹی میں بھونچال آیا ہوا ہے۔ خط کا متن ملاحظہ کیجیے تو اس میں سنجیدہ گفتگو کی گئی ہے اور ہر اعتبار سے کانگریس کی سیاسی اور سماجی بہبود کے مد نظر مشورے دیے گئے ہیں۔ مگر گذشتہ ہفتے کی کانگریس ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ کے روز ہی غلام نبی آزاد اور کپل سبل کے ٹویٹ اور بیانات یہ بتانے کے لیے کافی تھے کہ کانگریس اعلا کمان کو یہ جرات رندانہ پسند نہیں آئی۔ اب جب کہ تنظیمی ڈھانچے میں رد و بدل کے اعلانا ت ہوچکے ہیں تو یہ سمجھنا محال نہیں کہ اس خط کی وجہ سے ہی غلام نبی آزاد ، کھڑگے وغیرہ کو پارٹی میں اپنی پوزیشن گنوانی پڑی۔ ممکن ہے آنے والے دنوں میں کچھ اور لوگ بھی مکتوب نویسی کی پاداش میں راندۂ درگاہ کیے جائیں۔
پورے ملک کے عوام بھارتیہ جنتا پارٹی کی مطلق العنانی اور کھلی فرقہ پرستی یا معیشی حکمت عملی میں ناکامی سے عاجز آکر کانگریس کی قیادت میں اپوزیشن پارٹیوں کا ایک فرنٹ دیکھنا چاہتے ہیں۔ جگہ جگہ کانگریس کی جو سرکاریں بنیں، ان میں کانگریس کی کارکردگی کم اور بھارتیہ جنتا پارٹی سے نجات کی عوامی خواہش کا زیادہ دخل تھا۔ غلطی سے کانگریس نے اسے اپنی کامیابی سمجھ کر پرانے انداز سے چلنے کی گستاخی کی ۔ نتیجے میں بھوپال اور بنگلور ان کے ہاتھ سے نکل گئے ۔ کانگریس اب بھی دیہاتی نوٹنکی کی طرح سے چل رہی ہے۔ اندر اور باہر ، رسمی اور غیر رسمی باتوں کے فریب اب اسے اپنے جال میں پھنسا رہے ہیں۔ پانچ برس تک سونیا گاندھی عوامی منچ سے اعلان کرتی رہیں کہ اب یہ وقت آگیا ہے کہ راہل گاندھی کو کانگریس کی کمان سنبھالنی چاہیے۔ کبھی ایسا محسوس نہیں ہونے دیا کہ ایک ماں اپنے بیٹے کی وکالت کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ ۲۰۱۹ء کے انتخاب میں شکست کے بعد راہل گاندھی نے کانگریس کی صدارت سے استعفیٰ دیا۔ اب ان کی والدہ محترمہ کانگریس کی کارگزار صدر بن گئیں۔ کہاوت پہلے سے موجود ہے ’’گھی کہاں گیا کھچڑی میں‘‘۔ ایک متبادل پرینکا گاندھی کے طورپرجنرل سکریٹری بن کے قطار میں موجود ہے۔ سیاست میںچُھپے گھات کھیلے جاتے ہیں مگر لڑائی آمنے سامنے لڑنی پڑتی ہے۔ نریندر مودی نے لال کرشن اڈوانی کو سامنے سے ہرایا۔ اب انھیں ا س کی کوئی پریشانی نہیں ہے۔ مگر کانگریس میں نہ اپنی قیادت کو عوام تک لے جانے کی بے چینی ہے اور نہ ہی اپنی خامیوں پر توجہ دینے کی فرصت۔
آنے والے وقت میں بہار میں انتخابات ہیں۔ سیاسی اعتبار سے بے حد حساس مسئلے سامنے آرہے ہیں۔ لالو یادو جیل میں ہیں اور بہت مشکل ہے کہ انتخابات میں وہ میدان میں آسکیں۔ پچھلی اسمبلی تو ان کی وجہ سے پارگھاٹ لگ گئی تھی۔ مگر راہل گاندھی یا سونیا گاندھی کو دلی کی ڈرائنگ روم پالیٹکس میں زیادہ مزہ آتا ہے۔ میدان میں اتر کر مخالف سے دو ہاتھ کرکے سرفرازی اب اس خاندان کے مقدر میں ہی نہیں ہے۔ کاش انھیں ہوش آتا ۔
کانگریس کے لیے اب بھی موزوں ہے کہ نئے پرانے وفادار اور بے وفا سارے کرداروں کو جمع کرکے اپنی طاقت اور اجتماعی قیادت کو سنبھالنے کے لیے بہار کے انتخاب میں میدان میں آنا چاہیے۔ وہاں پہلے سے تیجسوی یادو کی شکل میں خاندانی سیاست کے ناتجربہ کار سپاہی موجود ہیں۔ انھیں سکھاپڑھا کر میدان میں کامیاب کرانے کی ذمہ داری کانگریس کو ہی اٹھانی پڑے گی ورنہ بہار میں پھر سے نتیش کمار کا بر سرِاقتدار ہونا یہ پیغام دور تک پہنچائے گا کہ کانگریس کا زوال حتمی ہے اور نریندر مودی کے طوفان کو کوئی روک نہیں سکتا۔ وقت رہتے کانگریس کو تگڑمی سیاست سے خود کو اوپر اٹھانا چاہیے۔
شاہین باغ کا شہزاد علی بی جے پی میں شامل،ٹوئٹر پر ہنگامہ،’کیجریوال بریگیڈ‘ شاہین باغ پروٹیسٹ کو ’بی جے پی اسپانسپرڈ‘ قرار دینے میں جٹی
سماجی کارکن و آرٹی آئی ایکٹوسٹ ساکیت گوکھلے نے شہزاد علی کو بتایا راشٹریہ علما کونسل کے دہلی چیپٹر کا سکریٹری،ثبوت کے طورپر ٹوئٹر پر پارٹی کا تقرری لیٹر بھی شیئر کیا
نئی دہلی:(قندیل نیوز) نیوز ایجنسی اے این آئی نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پرچار بج کر بیس منٹ پرچند تصویروں کے ساتھ ایک مختصر سی خبر پوسٹ کی جس میں لکھا تھا کہ’’شاہین باغ کے سوشل ایکٹوسٹ شہزاد علی نے دہلی بی جے پی صدر آدیش گپتا اور پارٹی لیڈر شیام جاجو کی موجودگی بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی۔ اس موقعے پر انھوں نے کہا کہ میں نے بی جے پی میں اس لیے شمولیت اختیار کی ہے کہ اس تصور کو غلط ثابت کرسکوں کہ بی جے پی مسلمانوں کی دشمن ہے۔ ہم مل کر ان سے سی اے اے سے متعلق مسلمانوں کے خدشات پر بات کریں گے‘‘۔
یہ خبرٹوئٹر پر اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو گئی اور جہاں ایک طرف عام آدمی پارٹی اور کانگریس والے اسے اپنے حق میں استعمال کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے میں لگ گئے کہ شاہین باغ کا احتجاج بی جے پی کے ذریعے اسپانسرڈ تھا،وہیں دوسری طرف مختلف سماجی کارکنان اور شاہین باغ احتجاج کا حصہ رہنے والے افراد شہزاد علی کے متعلق سوالات اٹھانے لگے۔ زیادہ تر لوگوں کا کہناہے کہ شہزاد علی شروع سے آخر تک شاہین باغ موومنٹ میں کہیں بھی نہیں تھا اور ہم نے کبھی اس کا نام بھی نہیں سنا،جبکہ کچھ لوگوں نے یہ کہاکہ شاہین باغ کا رہایشی ہونے اور شاہین باغ احتجاج کا حصہ رہنے میں فرق ہے اور ممکن ہے کہ یہ شخص شاہین باغ کا باشندہ ہو مگر اس کا این آرسی اور سی اے اے کے خلاف شاہین باغ میں تقریبا تین ماہ تک چلنے والے احتجاج سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
وہیں دوسری طرف معروف سماجی کارکن اور آرٹی آئی ایکٹوسٹ ساکیت گوکھلے نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر دو تصویریں شیئر کی ہیں،جن میں سے ایک راشٹریہ علماکونسل کے لیٹر پیڈ پر جاری ہونے والا تقرری نامہ ہے،جس میں یہ لکھا ہے کہ شہزاد علی کو دہلی پردیش کا سکریٹری بنایا جاتا ہے اور ساتھ ہی پارٹی کی توسیع و فروغ کی امید جتائی گئی ہے۔
اس خط کے اجرا کی تاریخ 11فروری 2019درج ہے۔ اور راشٹریہ علماکونسل دہلی کے صدر ایس ایم نوراللہ کے دستخط سے جاری ہوا ہے۔ ساکیت گوکھلے نے ایک دوسری تصویر انگریزی نیوز ویب سائٹ’’فرسٹ پوسٹ‘‘پرشائع شدہ علماکونسل کے قومی صدر مولانا عامر رشادی کے ایک انٹرویوکی شیئر کی ہے،جس میں انھوں نے ملک کی مبینہ سیکولر پارٹیوں پر تنقید کی تھی اورعلما کو نشانہ بناتے ہوئے کہا تھاکہ انھوں نے مسلمانوں کو نام نہاد سیکولر پارٹیوں کی حمایت پر اکساکر انھیں بی جے پی کا دشمن بنادیا ہے۔ یہ انٹرویو مذکورہ ویب سائٹ پر موجود ہے۔ ٹوئٹر پر شہزاد علی کی راشٹریہ علما کونسل کے لیڈروں کے ساتھ کئی تصویریں بھی گشت کر رہی ہیں۔ البتہ پارٹی کی طرف سے ابھی اس پر کوئی وضاحت نہیں آئی ہے۔
بہر کیف ٹوئٹر پر شام سے ہی یہ خبرٹرینڈ کررہی ہے اور مختلف قسم کے لوگ اپنی اپنی سوچ اور سمجھ کے مطابق مختلف آرا کا اظہار کررہے ہیں۔
مسلمان بابری مسجد کے بغیر رہنا سیکھ گیا،کانگریس،ملائم اور مایاوتی کے بغیر رہنا کب سیکھے گا؟-ڈاکٹر عمیر انس
مسلمان بابری مسجد کے بغیر رہنا سیکھ گیا لیکن کانگریس اور ملائم مایاوتی کے بغیر رہنا نہیں سیکھ پایا، بس اتنی ہی دشواری ہے اور یہی سب سے بڑی دشواری ہے، مسلم قیادت کو لگتا ہے مسلمانوں کے امپاورمنٹ کے لیے اللہ اپنی کائنات کے اصول طاق پر رکھ دیگا، انہیں ان آزمائشوں سے گزرنے کی ضرورت نہیں جو چھ ارب انسانوں کو ہے، دلت ترقی کرےگا امیڈکر اور کانشی رام کے سماجی آندولن سے، مسلمان ترقی کرےگا دہشتگردی مٹاؤ کنوینشن سے، غیر مسلم ترقی کرے گا سائنس اور ٹیکنالوجی کی قیادت کرکے مسلمان خلیفہ فی الارض بنے گا قدیم کتابوں پر حاشیے اور ان کی شرحیں چھاپ کر، غیر مسلم دنیا پر غالب ہوگا دنیا کی سب سے بڑی کمپنیاں، تحقیقی ادارے، ٹیکنالوجی اسکولز اور خلائی اور ایٹمی تحققیات کے ذریعے اور اسلام غالب ہوگا غلامی اور جمود کے نمائندے، شخصیت پرستی کے مقبرے اور بوسیدہ طرز کے تعلیم اور تربیت کی تحریکیں قائم کر کےـ
معاف فرمائیں اس تلخ نوائی کے لیے! ایک ہزار علما، فضلا، قائدین، مفکرین، مجددین کی فہرست بنا لیجیۓ، ایک ہزار اداروں اور تحریکوں کی فہرست بنا لیجیۓ، جنت سے فرشتے بھی ہنستے ہونگے ہماری سادہ لوحی پر، حکمت عملی اور منصوبہ کے نام پر مرشدین کے خواب ہیں، پر جوش خطابت ہے، وسائل کی بربادی ہے، افراد کی نا قدری ہے، صلاحیت کشی ہے، علم و تحقیق کی تحقیر ہے، شورائیت کے نام پر چاپلوسی اور خود فریبی کا دور ہے، نماز کے علاوہ دنیا کا ایک کام بھی جماعت سے نہیں کر سکتے وہ ہم ہیں، دس مختلف مسالک کی ایک مسجد نہیں چلا سکتے اور دنیا کو بدلنے کا خواب بیچتے ہیں ـ
پہلے زوال پر ہم نے لکھا مسلمانوں نے اس دنیا کو کیا دیا، دوسرے زوال پر ہم نے لکھا مسلمانوں نے اس دنیا سے کیا لیا، پھر لکھا کہ مسلمانوں کو کیا ملا، اور پھر لکھا کیوں نہیں ملا، کاش شروعاتی سوال ہی یہی ہوتا کہ مسلمان اس دنیا کو کیا دے سکتے ہیں، نظام عالم بدلنے نکلے تھے سچرکمیٹی کی رپورٹ ہاتھ میں لیے ہر پارٹی کے در پر کھڑے بھیک مانگ رہے ہیں!
آئیے ہم پھر سے عہد کریں، قسم کھائیں، نہ بدلیں گے نہ بدلنے دیں گے!
اگر بدلنا ہے تو اس کی شروعات اپنی ذات سے کریں، اپنے ادارے سے کریں، اپنے مدرسے سے، اپنی تنظیم اور جماعت سے کریں! اگر اپنی ذات کو اور اپنے خود کے ادارے اور جماعت کو بدلنے کا منصوبہ نہیں بنا سکتے، تو کم از کم ایک کام کریں، آپ کچھ نہ کریں!
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
دیکھ لیجیے ایک بار آپ سڑکوں پر کیا نکلے۔ ٹی وی والوں کو پریشانی ہوگٸی کہ کیا دکھاٸیں۔ جھارکھنڈ میں بی جے پی کی ہار، بنگال میں بی جے پی کی بوکھلاہٹ، دہلی میں بی جے پی کے خلاف ستیہ گرہ۔ کل رام لیلا میں نریندر مودی بھی پراعتماد جھوٹ نہیں بول سکے۔ الفاظ لڑکھڑا رہے تھے۔ زبان میں لکنت تھی اور پیشانی پر فکر مندی کی لکیریں۔ وہ اپنے وزیرداخلہ کے بیان کو جھوٹ بتا رہے تھے یا این آر سی پر خود ایک بڑا جھوٹ بول رہے تھے۔ یہ خود نہیں سمجھ پا رہے تھے۔
بھارت بھر میں پھیلے اتنے بڑے آندولن میں مسلمانوں کہ شراکت سے جہاں ملی قائدین حیران رہ گٸے،وہیں سب سے زیادہ حیرانی مودی سرکار کو ہوئی ہے۔
انہیں حیرانی اس بات کی ہے کہ تقریبا 400مسلمانوں کی ماب لنچنگ پر مسلمان سڑکوں پر نہیں اترے۔ شریعت میں دراندازی ہوئی مسلمان سڑکوں پر نہیں اترے۔ بابری مسجد کا غیرمنصفانہ فیصلہ آیا مسلمان سڑکوں پر نہیں اترے۔ این آرسی پر امت شاہ کاتکبرانہ بیان مسلسل آتا گیا مگر مسلمان خاموش ہی رہے۔لیکن سی اے اے کے بننے کے بعد یکایک مسلمان سڑکوں پر اترآئیں گے اس سے شاید سرکار کا خفیہ محکمہ بھی آگاہ نہیں ہو سکا۔ ایسا اس لٸے ہوا کہ مودی سرکار اور اس کے تمام شعبہ جات نے اپنے اور دیش والوں کے دماغ میں یہ بٹھانے کی کوشش کی کہ مسلمان غدار ہیں اور انہیں جتنا بھی زدو کوب کروگے ہندو ہمارے ساتھ آئیں گے۔
مگر بی جے پی اور سنگھ کی تمام تر کارگزاریوں کو دیش کا مسلمان ہی نہیں دیش کا ہندو بھی بے حد باریکیوں کے ساتھ دیکھ رہا تھا۔ بات جب آئین پر حملہ تک پہنچ گٸی،تب مسلمانوں کو برداشت نہیں ہوا اور وہ سڑکوں پر اترے اور انہیں ان ہندوؤں کا ساتھ مل گیا جو ہر ظلم کے خلاف سڑکوں پر اترتے تھے لیکن انہیں مسلمانوں کا ساتھ نہیں مل پاتا تھا۔
دراصل میڈیا خاص کر ٹی وی چینلز مودی سرکار کی لائف لائن ہے۔ دیش میں نفرت کو بڑھاوا دینے میں ٹی وی چینلزکا جو رول رہا اس نے میڈیا کے تمام اصول و ضوابط کو تہہ و بالا کر دیا۔ عوام کو مجرم بنانے میں اس کا زبردست رول رہا۔ سی اے اے پر عوام کا غصہ اسے نہیں دِکھا۔ وہ مظاہرہ کے پہلے دن سے ماسٹر مائنڈ تلاش کرنے میں مصروف رہا۔ جب نارتھ ایسٹ کے لوگ سڑکوں پر تھے تو تمام ٹی وی میڈیا اول جلول خبریں دکھاتا رہا اور مظاہرہ کو بلیک آؤٹ کیا۔ دہلی میں جب طلبا سراپا احتجاج ہوئے تو میڈیا نے کیجریوال کو ماسٹر مائنڈ بتانا شروع کیا۔ دوسرے دن پوری اپوزیشن ماسٹر مائنڈ ہوگٸی۔ پھر سونیا کا ویڈیو مسیج ماسٹر مائنڈ ہوگیا۔ اس کے بعد ایک چینل کو اس پورے مظاہرہ میں آئی ایس آئی کا ہاتھ مل گیا۔مگر مظاہرین کے وسوسوں اندیشوں اور مطالبوں کو سمجھنا اس نے ضروری نہیں سمجھا۔ پولیس پر پتھراؤکی خوب تشہیر ہوئی لیکن پولیس کی فائرنگ اس کے کیمرے میں قید نہیں ہو سکی۔ بھارت کو آج اس حال میں لانے کا اصل ذمہ دار یہی میڈیا اور اس کے جاہل اینکر ہیں۔ ان میڈیا ہاؤسز کے سامنے مظاہرے بہت ضروری ہیں۔یہ بالکل بے لگام ہو چکے ہیں اور آئین و دستور کو برباد کر رہے ہیں۔الٹی گنتی شروع ہو گٸی ہے اور اس کے اصل حقدار مظاہرین ہیں۔ مہاراشٹر کے بعد اب ایک اور امیر ریاست بی جے پی کے ہاتھ سے پھسلی۔ دہلی اور بہار بھی جانے والا ہے۔ لوک سبھا ہندو مسلمان اور ای وی ایم سے جیت جانے والی سرکار کو ملک کی مہنگائی ، بے روزگاری ، جی ڈی پی، تعلیمی گراوٹ ودھان سبھا میں ہرا دیتی ہے۔بچوں کو کب تک لوری دیتے رہوگے دودھ تو دینا ہوگا۔ ریاستیں بھاجپا مکت ہو رہی ہیں۔ اب بھی کچھ نہیں بگڑا ہے۔ بی جے پی اور اس کے پچھلگوٶں کو اب تک یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ مسلمانوں کو برباد کرتے کرتے وہ بھارت کو بربادی کی طرف مسلسل گھسیٹے جارہے ہیں، انہیں کوئی یہ کیوں نہیں سمجھا پا رہا ہے کہ جیسے نوٹ بندی سے ہندوؤں کا ہی نقصان ہوا اسی طرح این آر سی سے بھی ہندوؤں کا ہی نقصان ہوگا۔ جوہندو یہ سمجھ رہا ہے وہ سڑکوں پر اتر رہا ہے۔
فیصل فاروق
مہاراشٹر میں راتوں رات دیویندر فرنویس کی حلف برداری اور ڈرامائی انداز میں حکومت سازی کے خلاف داخل کی گئی عرضی پر سپریم کورٹ نے گزشتہ دنوں تاریخی فیصلہ سنایا۔ کورٹ نے مہاراشٹر میں نہ صرف اراکین اسمبلی کی خرید و فروخت کا اندیشہ ظاہر کیا بلکہ جمہوری قدروں کے تحفظ کی وکالت کی اور عام شہری کے اُس حق کو تسلیم کیا کہ اُسے اچھی اور بہتر حکومت فراہم کی جاۓ۔ سپریم کورٹ نے منگل کو جیسے ہی کہا کہ بدھ کی شام ۵/بجے تک دیویندر فرنویس کو اکثریت ثابت کرنی ہوگی، تو اُن کے پیروں تلے زمین کھسک گئی۔ فیصلے کے کچھ ہی دیر بعد پہلے نائب وزیراعلیٰ اجیت پوار نے استعفیٰ دیا۔ اُس کے بعد یہ کہتے ہوئے کہ اُن کے پاس اکثریت نہیں ہے، فرنویس کو بھی استعفیٰ دینا پڑا۔
بی جے پی نے اجیت پوار کے بھروسے ہی مہاراشٹر میں حکومت بنانے کا قدم اٹھایا تھا اور اُسے پوری اُمید تھی کہ اجیت پوار اپنے ساتھ این سی پی کے کچھ اراکین اسمبلی کو توڑ کر لائیں گے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ بی جے پی آخر تک اقتدار اور ای ڈی، سی بی آئی جیسی ایجنسیوں کی طاقت پر منحصر رہی۔ صدر جمہوریہ اور مہاراشٹر کے گورنر تک کا ’استعمال‘ کیا گیا اور راتوں رات ’غیر مماثل شادی‘ کرا دی گئی۔ اتنا ہی نہیں صبح صبح گھر کے بڑوں، وزیراعظم اور وزیر داخلہ نے ٹویٹر کے ذریعہ سے اپنا ’آشیرواد‘ بھی دے دیا تھا۔
مہاراشٹر میں شیوسینا، بی جے پی کے مابین وزیراعلیٰ کا عہدہ تنازعہ کا باعث رہا۔ اِسی تنازعہ کو لے کر مہاراشٹر میں سیاست کا ’ ہائی وولٹیج مہا ڈرامہ‘ چلا۔ واضح رہے کہ مہاراشٹر کی ۲۸۸/اسمبلی نشستوں کیلئے ۲۱/اکتوبر کو انتخابات ہوئے تھے۔ نتائج کا اعلان ۲۴/اکتوبر کو کیا گیا تھا۔ ریاست میں حکومت بنانے کیلئے کسی پارٹی یا متحدہ محاذ ’مہا وکاس اگھاڑی‘ کا دعویٰ نہ پیش کرنے کے سبب ۱۲/نومبر کو صدر راج نافذ کر دیا گیا تھا۔ شیوسینا اور بی جے پی نے ساتھ مل کر یہ الیکشن لڑا تھا لیکن جب شیوسینا نے وزیراعلیٰ کے عہدے کا مطالبہ کیا تو بی جے پی کے ساتھ شیوسینا کا ۳۰/سالہ قدیم اتحاد ختم ہو گیا اور اِس طرح مہاراشٹر میں سیاسی بحران پیدا ہوا۔
مزے کی بات یہ رہی کہ لوگوں نے صبح اخبار میں پڑھا تو اُدھو ٹھاکرے وزیراعلیٰ تھے اور جب ٹیلیویژن دیکھا تو پتہ چلا کہ کوئی اور وزیراعلیٰ بن چکا ہے۔ لوگ نیند کی آغوش میں تھے اور تختہ پلٹ دیا گیا۔ مہاراشٹر میں ایسا سیاسی ڈرامہ پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ پہلے کبھی اِس طرح طاقت کے بنیاد پر جمہوریت کا مذاق نہیں بنایا گیا تھا۔ کانگریس کے سینئر لیڈر احمد پٹیل جنہوں نے کانگریس، این سی پی اور شیوسینا میں اتحاد کیلئے گفت و شنید میں مرکزی کردار ادا کیا تھا، نے اِس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’اُنہوں (بی جے پی) نے غیر قانونی طریقہ سے اقتدار حاصل کرنے کیلئے جس طرح ہمارے آئین اور اعلیٰ عہدوں کو نقصان پہنچایا ہے، اُس کی تلافی کیلئے دہائیاں درکار ہوں گی۔‘‘
ہر شہری کو آئین کی پاسداری کرنی چاہئے خاص طور پر آئینی عہدوں پر فائز افراد کو۔ میڈیا نے بھلے ہی گورنر بھگت سنگھ کوشیاری کی غیر آئینی اور غیر جمہوری حرکت کو ’کوشیاری کی ہوشیاری‘ کہا ہو لیکن حقیقت میں یہ گورنر موصوف کی ’ذہانت‘ کا کمال نہیں تھا بلکہ اُس ’ذہنیت‘ کا نتیجہ تھا جو اُنہیں ’شاکھا‘ سے حاصل ہوئی ہے۔ آدھی رات کو آئین کی روح کے منافی فیصلہ کرتے ہوئے موصوف کو یہ بھی یاد نہیں رہا کہ اِس وقت وہ ’پرچارک‘ یا ’شاکھا پَرمُکھ‘ نہیں ہیں بلکہ ملک کی ایک اہم ریاست کے پُروقار عہدے پر فائز ہیں۔ اپنی غلطی مان کر کوشیاری جی کو کچھ اخلاقیات کا مظاہرہ کرتے ہوئے استعفیٰ دے دینا چاہئے۔
مہاراشٹر میں حکومت بنانے کیلئے تمام تر حربوں کا سہارا لینے کے بعد بھی بی جے پی کو منہ کی کھانی پڑی۔ اِس سے پہلے ہریانہ میں بی جے پی زور شور سے ریاست کی ٩٠/میں سے ۷۵/سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے کا دعویٰ کر رہی تھی لیکن اُسے ۴٠/سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا اور نئی نئی وجود میں آئی دشینت چوٹالہ کی جَن نایک جنتا پارٹی کے ساتھ اتحاد کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ کانگریس سے پاک ہندوستان کا نعرہ بلند کرنے والی بی جے پی خود ہندوستان کے نقشہ سے اپنے خاتمے کی جانب بڑھ رہی ہے۔ اگرچہ بی جے پی کی حکومت ابھی بھی ۱۷/ریاستوں میں ہے مگر رقبہ کے لحاظ سے بڑی اور خصوصی ریاستیں ہاتھ سے نکل چکی ہیں۔
امیت شاہ کی قیادت میں بی جے پی کے سامنے یہ پہلا موقع ہے جب وہ اتنی نشستیں جیتنے کے بعد بھی اقتدار سے باہر ہوگئی۔ امیت شاہ اب اِس خوش فہمی سے باہر نکلیں کہ اُنہیں کوئی ہرا نہیں سکتا، وہ ناقابلِ شکست ہیں۔ مہاراشٹر سے قبل بی جے پی گوا اور ہریانہ جیسی ریاستوں میں اکثریت سے دور ہونے کے باوجود حکومت بنانے میں کامیاب رہی تھی۔ کرناٹک میں بی جے پی نے حکومت بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی لیکن مہاراشٹر میں شرد پوار کی سیاسی پختگی نے اُس کی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا۔ مہاراشٹر میں شہ اور مات کے کھیل میں شرد پوار نے ثابت کر دیا کہ وہ مہاراشٹر کی سیاست کے مردِ آہن ہیں۔
بہرحال، مہاراشٹر میں جو کچھ بھی ہوا اُس سے بی جے پی کی شبیہ کو نقصان ہوا ہے بلکہ اُس کی وجہ سے پارٹی کے وقار اور وزیراعظم کی شبیہ کو بھی زبردست دھکا لگا ہے۔ اِس سیاسی اُٹھا پٹخ میں شیوسینا سب سے زیادہ فائدے میں رہی اور بی جے پی نقصان میں۔ کل تک شیوسینا کو نائب وزیراعلیٰ کا عہدہ نہیں مل رہا تھا لیکن اب وزارت اعلیٰ کی کرسی مل گئی جبکہ اُس کے ارکان اسمبلی کی تعداد این سی پی کے ارکان اسمبلی سے کچھ ہی زیادہ ہے۔ مہاراشٹر میں بی جے پی کی اِس ذلت آمیز شکست سے دیویندر فرنویس پر مرزا صادق شرر دہلوی کا یہ شعر صادق آتا ہے:
نہ خدا ہی مِلا نہ وصالِ صَنم
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے