’’بچوں کا ادب لکھنا ،بڑوں کے لئے ادب لکھنے سے کہیں زیادہ مشکل ہے اور اس سے
زیادہ مشکل ہے بڑے ادیبوں کی پر خلوص توجہ!‘
یہ رائے رئیس صدیقی صاحب کی ہے جو کافی حد تک درست بھی ہے،لیکن خود موصوف اس مشکل اور دشوار کن مرحلہ سے بہت ہی کامیابی کے ساتھ گزر گئے ہیں۔کیونکہ ان کی کہانیوں کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ یہ کہانیاں ہر لحاظ سے کامیاب کہانیاںہیں۔جہاں اس میں بچوں کی ذہنی کیفیت کا خیال رکھاگیاہے، وہیں ان کی نفسیات کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے۔اور رہی بڑے ادیبوں کی بات توان کی کتاب پر آراء کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کہانیاں زیادہ تر بڑ ے ادیبوں کی توجہ کا مرکز رہی ہیں۔ان کے فن کو مخمورسعیدی،مظفر حنفی،پروفیسر محمدشاہدحسین ، ڈاکٹر تنویر احمد علوی،ڈاکٹر معصوم شرقی، رئیس الدین رئیس،اقبال انصاری،سہیل انجم، ڈاکٹر منور حسن کمال، ڈاکٹر ظفر مرادآبادی، ڈاکٹر شمع افروز زیدی اورسمیرالحق جیسے اہل فکرونظر نے سراہا ہے،فن پر بھرپور بات کی ہے اور فن کی باریکیوںپرمختلف اندازمیںروشنی ڈالی ہے۔
رئیس صدیقی کو بچوں کے ادب پر قدرت حاصل ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اب تک بچوں کے لیے انکی پندرہ کتابیں شائع ہو کر مقبول خاص وعام ہو چکی ہیں۔
ان میں سے بچوں کی کہانیوں کے تین مجموعے ’’شیروں کی رانی‘‘،’’ننھابہادر‘‘اور’’شیرازی کی کہانیاں‘‘کو بہت پسند کیا گیا۔’’باتونی لڑکی‘‘بچوں کی کہانیوں کا چھوتھامجموعہ ہے جسے نئی دہلی کے قومی ادبی ادارہ، ساہتیہ اکادمی نے اپنے باوقار اعزاز ، ساہتیہ اکادمی کے بال ساہیتہ پرسکار ۲۰۱۸ سے سرفراز کیا ہے۔ باتونی لڑکی رئیس صدیقی کی چوبیس کہانیاں اور ایک درامہ پر مشتمل مجموعہ ہے۔
ٍ ۲۰۱۸ میں دیگر زبانوں کے اعزاز یافتہ بچوں کے ادیبوں کی عمر پر نظر ڈالی تو ایک اہم بات میری معلومات میں اضافہ کرتی ہے کہ کنّڑ زبان کے ادیب کی عمر ۸۸ برس، گجراتی ادیب کی عمر ۸۰برس، کشمیری ادیب کی عمر۷۵ برس، ہندی ادیب کی عمر ۷۲ برس ہے۔ رئیس صدیقی خوش نصیب ہیں کہ انہیں اتنی لمبی عمر کا انتظار نہیں کرنا پڑا۔گویاکہ یہ اعزاز زندگی میں ایک بار ، لائف ٹائم اچیومینٹ ایوارڈ کے مماثل ہے۔
بہر کیف ،رئیس صدیقی کی خوبی یہ ہے کہ انہوںنے چھوٹے چھوٹے واقعات کو بڑے دلچسپ اندازمیںکہانی کے پیرائے میں بیان کیا ہے اور ہرکہانی میں بچوں کو ترغیب دینے کی بھرپور کوشش کی ۔ ’سزا‘،’ضمیر‘اور’تلاش‘تینوں کہانیاں ایسی ہیں،جس میں اصلاح کا پہلو پوشیدہ ہے۔’سزا‘کہانی میں جہاں مصنف نے ایک ایسے شخص کو کہانی کا محور بنایاہے،جس کے پاس بے شمار دولت تھی لیکن اس کے دل میں رحم وکرم کا جذبہ بالکل نہیں تھااوروہ گھمنڈ میںچور ہوکر غریب ومفلس کو کچلنے لگاتھامگر وقت ایک ایسا کروٹ لیتا ہے کہ وہ شخص امیر سے غریب بن جاتا ہے۔اس کہانی کے ذریعہ مصنف نے یہ بات ذہن نشین کرانے کی کوشش کی ہے کہ انسان کا وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا۔’ضمیر‘کہانی میںبرائی کا بدلا اچھائی سے دینے کی ترغیب دی گئی ہے اور’تلاش ‘کہانی میں بچوں کی صحیح تربیت پر زور دیا گیا ہے۔ ـ اپریل فول‘ایک دلچسپ کہانی ہے ۔کہانی کی ابتداء میںتو محسوس ہوتاہے کہ یہ ایک اصلاحی کہانی ہے لیکن یہ ایک دلچسپ موڑپر ختم ہو جاتی ہے۔اسی طرح’شاہین‘کہانی میںبچوں کے بلند حوصلے کو کہانی کے پیرائے میںبیان کیا گیا ہے۔ساتھ ہی جانوروں کی نفسیات سے بھی واقف کرایا گیاہے۔’اب‘کہانی میں وقت کی اہمیت کی طرف اشارہ کیا گیاہے۔’باتونی لڑکی‘او’ر شرط‘میں جہاںبچوں کی دلچسپی کا بھرپور موادموجود ہے وہیں’،ٹکٹ ٹکٹ ٹکٹ؟‘کہانی دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ سبق آموز بھی ہے۔’انسانیت کے مسکراتے پھول‘ایک مثالی کہانی ہے،جس میں انسانیت کے جذبہ کو بڑے مؤثر اندازمیں بیان کیا گیا ہے۔’ٹھوکر‘،’ معصوم آرزو‘او’رغریب مہمان‘بھی اسی نوعیت کی کہانیاں ہیں جس میں مصنف نے بچوں کوکوئی نہ کوئی پیغا م دینے کی کامیاب کوشش کی ہے۔’ریشمی جنگ‘ایک معلوماتی کہانی ہے جس میں انگلینڈ کی ریشمی جنگ سے روشناس کرایا گیا ہے ۔علاوہ ازیں ’’خان خاناں اور ان کی سخاوتیں‘‘باب کے تحت جہاں عبدالرحیم خان خاناںکا تعارف پیش کیاگیاہے ،وہیں ان کی سخاوتوں کو آسان الفاظ میںکہانی کے قالب میں ڈھال کر بیان کیا گیاہے۔’اس کے علاوہ مولانا روم اوران کی کہانیاں‘میں مولانا روم کی حکایات کا ذکر کیا گیاہے۔
اس مجموعے میں شامل زیادہ تر کہانیاں بہت اہم ہیں۔ان میں بچوں کی نفسیات،ان کا حوصلہ،معصومیت سب چیزوں کا خیال رکھا گیا ہے۔ان کہانیوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان میں نصیحت بھی ہے اورسیکھ بھی لیکن لہجہ کہیںبھی ناصحانہ نہیںہونے پایا ہے۔اسلوب بالکل سادہ ہے ۔چھوٹے چھوٹے جملوں کا استعمال کیا گیا ہے۔تلاش وتجسس بچوں کی فطرت کا اہم حصہ ہے جسے وہ دلچسپ انداز میں پڑھنا اور سننا پسند کرتے ہیں۔رئیس صدیقی کی کہانیوں میں یہ خوبی بدرجہ اتم موجود ہے۔
مجموعی طور پر،۲۵ کہانیوں پر مشتمل یہ کتاب ’ باتونی لڑکی‘بچوں کے لیے بہت اہم ثابت ہوگی جس سے بچے نہ صرف محظوظ ہوںگے بلکہ ترغیب و تحریک بھی حاصل کریںگے۔ ساہیتہ اکادمی نے اردو ادب اطفال کے تحت ، باتونی لڑکی کو ۲۰۱۸کا بال ساہتیہ پرسکار دیکر حق بہ حقدار رسد کے مصداق قابل ستائش فیصلہ کیا ہے ۔
Tag: