قومی اردو کونسل میں ڈاکٹریوسف رامپوری کی کتاب کی رسم رونمائی
نئی دہلی: ’قصیدہ ‘شاعری کی مایۂ ناز صنف ہے۔اس کی ابتدا عربی سے ہوئی ،پھر فارسی سے منتقل ہوکر یہ صنف اردو میں آئی۔علوئے مضامین، شوکتِ الفاظ، رفعتِ تخیل اور نزاکت کے سبب جس طرح اس صنف پر طبع آزمائی کرنا آسان نہیں ہے، اسی طرح قصیدے پر تنقید لکھنا بھی جوکھم اور چیلنج بھراکام ہے۔ اس کے لیے جہاں قصیدے کے فن سے واقفیت ضروری ہے، وہیں لسانیات کاگہراعلم بھی ناگزیر ہے۔ ڈاکٹر یوسف رامپوری نے ’اردو اور عربی کے اہم قصیدہ گوشعرا‘ کے عنوان سے جو کتاب تصنیف کی وہ نہایت وقیع ہے اور تحقیق کے باب میں مثالی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں انھوں نے تقابلی تنقید کا ایک عمدہ نمونہ پیش کیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹرشیخ عقیل احمد نے کونسل کے صدر دفترمیں منعقدہ رسم اجرا کی تقریب میں کیا۔ انھوںنے کہا کہ یہ کتاب عہدِ حاضر میں اس لیے اہمیت کی حامل ہے کہ اس میں اردو اورعربی کی قصیدہ گوئی کا تقابلی وتنقیدی جائزہ لیا گیا ہے اور دونوں زبانوںکے ممتاز شعرا کے قصائد سے بحث کی گئی ہے۔ کتاب پر ایک نگاہ ڈالنے سے ہی پتہ چل جاتاہے کہ مصنف کی نگاہ عربی اور اردو دونوںزبانوں کی قصیدہ گوئی پر بہت گہری ہے اورانھیں دونوں زبانوں کی تاریخ و ادب کی گہری معلومات کے ساتھ دونوں زبانوں پر عبور بھی حاصل ہے۔
اس موقعے پر حقانی القاسمی نے کہا کہ اردو زبان میں قصیدے کے تعلق سے یہ اپنی نوعیت کا بہت ہی اہم تقابلی مطالعہ ہے۔ اس میں عربی اور اردو دونوں زبانوں کے قصائد کا مربوط اور مرکوز جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ عربی اور اردو قصائد کے کینن، اشتراکات، افتراقات ، موضوعاتی اور ہیئتی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔عربی اور اردو قصائد کے جملہ مباحث کو بہت ہی عمدگی سے سمیٹا گیا ہے اور زبان و بیان میں جامعیت اور معروضیت کا خاص خیال رکھا گیاہے۔ اس موقعے پر ڈاکٹر عبدالرشید اعظمی نے یوسف رامپوری کی تحقیقی و تنقیدی کتاب کی اہمیت و معنویت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ فی زمانہ قصائد کو پڑھنا اور سمجھنا بھی مشکل ہوگیا ہے مگر یوسف رامپوری نے ژرف نگاہی سے عربی اور اردو دونوں زبانوں کے قصائد پر کام کیا ہے اس لیے یہ کتاب علمی اور ادبی حلقوں میں یقینا قبولیت کی نظر سے دیکھی جائے گی۔ کتاب کے ناشر مولوی فیروز اختر قاسمی نے بھی اس موقعے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یوسف رامپوری کی نصف سے زائد کتابیں زیور طبع سے آراستہ ہوچکی ہیں اور بہت سے تحقیقی و تنقیدی مصامین موقر رسائل و جرائد میں شائع ہوچکے ہیں۔ یہ کتاب یوسف رامپوری کی مطالعاتی وسعت اور محنت و ریاضت کی عمدہ مثال ہے۔ صاحبِ کتاب یوسف رامپوری نے تمام سامعین اور مہمانان کا شکریہ ادا کیا اور کتاب کے تعلق سے تعارفی کلمات پیش کیے ۔ محترمہ آبگینہ عارف نے پروگرام کی نظامت کے فرائض انجام دیے۔ رسم اجرا کی اس تقریب میں قومی اردو کونسل کے اسسٹنٹ ڈائرکٹر (ایڈمن) جناب کمل سنگھ، ڈاکٹر کلیم اللہ (ریسرچ آفیسر) ، ڈاکٹر فیروز عالم (اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر)، ڈاکٹر وسیم اقبال، ڈاکٹر نوشاد منظر، ڈاکٹر مسرت، مشہود عالم، محمد اکرام، محمد فہیم وغیرہ نے شرکت کی۔
ڈاکٹر شیخ عقیل احمد
ہندوستان کے عدالتی نظام میں اردو زبان کو مرکزیت حاصل رہی ہے:ڈاکٹر شیخ عقیل احمد
قومی اردو کونسل کے لا پینل کی آن لائن میٹنگ،قانون کے طلبہ کو اردو زبان میں ریفریشر کورس کروانے کا منصوبہ
نئی دہلی:(پریس ریلیز)قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے لا پینل کی آن لائن میٹنگ کا انعقادعمل میں آیاجس کی صدارت پینل کی چیئر پرسن پروفیسر نزہت پروین خان نے کی۔اس موقعے پر شرکا کا استقبال کرتے ہوئے کونسل کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے کہا کہ ہندوستان کے قانونی نظام میں اردو زبان کو مرکزیت حاصل رہی ہے اور اس میں سیکڑوں اردو الفاظ و اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں۔ اسی وجہ سے قومی اردو کونسل نے یہ طے کیا ہے کہ عدالتی و قانونی شعبے سے وابستہ افراد اور طلبہ کو اس حدتک اردو سکھانے کا اہتمام کیا جائے کہ وہ ان الفاظ کے معنی بخوبی سمجھ سکیں جو عدالتی کارروائیوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر عقیل نے کہا کہ اردو والوں کے لیے بھی ملکی دستور کے نکات اور عدالتی نظام میں مستعمل اصطلاحات کی جانکاری ضروری ہے اوراسی ضرورت کی تکمیل کے لیے کونسل کے لاء پینل کے ذریعے مسلسل غورو خوض کے بعد قانون سے متعلق مختلف پہلووں پر کتابیں شائع کی جاتی ہیں۔ہمارا عزم ہے کہ اردو والوں کو ہندوستانی قانون میں ہونے والی تمام تر ترمیمات اور نئے بننے والے قوانین سے باخبر رکھیں تاکہ وہ اپنے حقوق و فرائـض کی کامل آگاہی کے ساتھ اپنی شہری ذمے داریاں ادا کرسکیں۔
اس میٹنگ کے دوران پچھلی میٹنگ کی تجاویز کی منظوری کے ساتھ مختلف امور پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔ عدالتی و پولیس سسٹم میں استعمال ہونے والے اردو الفاظ کے معانی کی تفہیم کے لیے لاء کالجز اور عدلیہ سے وابستہ افراد اور طلبہ کے لیے ریفریشر کورس کے منصوبے کو جلد ازجلد عملی جامہ پہنانے پر زور دیا گیا اور یہ طے ہوا کہ اس سلسلے میں تمام لاء کالجز کے ساتھ چیف جسٹس آف انڈیا اور تمام ریاستوں کے ہائی کورٹس کے چیف جسٹس اور ڈائریکٹر نیشنل جیوڈیشل اکیڈمی کو بھی خط بھیجا جائے اور ان کے جواب کے مطابق اگلا قدم اٹھایا جائے۔اس موقعے پرخواجہ عبدالمنتقم نے مدارس اور اسکول کے طلبہ کوبنیادی قانونی اصطلاحات سے آگاہ کرنے ،نیز ہندوستان میں صارفیت کے قانون اور موجودہ حکومت کے ذریعے صارفین کے لیے بنائے گئے قانون کی تشریح و توضیح پر مشتمل کتابوں کی ترتیب کا خاکہ پیش کیا،اس کے علاوہ دیگر متعدد پروجیکٹس بھی زیرِ بحث آئے اور یہ طے کیاگیا کہ ان کی اہمیت و افادیت کے مطابق کونسل کی جانب سے ان کی اشاعت کا اہتمام کیا جائے گا۔ساتھ ہی قانون سے متعلق پہلے سے زیر ترتیب مسودوں کی جلد ازجلد تکمیل پربھی زور دیا گیا۔
میٹنگ میں جن حضرات نے شرکت کی ان میںڈاکٹر شکیل معین، ڈاکٹر ظفر محفوظ نعمانی، جناب مصطفیٰ خان ایڈووکیٹ، جناب ایس اقبال احمد، جناب محمد شہنشاہ خان، محترمہ ڈاکٹر شمع کوثر یزدانی (اسسٹنٹ ڈائریکٹر اکیڈمک)، ڈاکٹر فیروز عالم (اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر) اور محترمہ ذیشان فاطمہ خاص طورپر قابل ذکر ہیں۔
مہاتما گاندھی بین الاقوامی یونیورسٹی وردھا میں شعبۂ اردو کو برقرار رکھنے اور مہاتما گاندھی سینٹرل یونیورسٹی موتیہاری میں شعبۂ اردو کے قیام کے سلسلے میں وائس چانسلرز کے نام کونسل کی جانب سے مکتوب روانہ
نئی دہلی: موجودہ حکومت نے نئی تعلیمی پالیسی میں کہیں بھی اردو کی مخالفت نہیں کی ہے اور نہ ہی بنیادی تعلیمی نظام سے اردو کو خارج کرنے کا کوئی ذکر ہے۔ ملک کو 34 برسوں بعد ایک جامع قومی تعلیمی پالیسی ملی ہے جس کا سبھی کو استقبال کرنا چاہیے۔ یہ باتیں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے نئی تعلیمی پالیسی پر اظہارخیال کرتے ہوئے کہیں۔ انھوں نے کہا کہ پالیسی میں یہ واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ آئین کے آٹھویں شیڈول میں درج سبھی زبانوں کے فروغ پر توجہ دی جائے گی اور اس مقصد سے اکیڈمیوں کا قیام کیا جائے گا، ساتھ ہی ان کی ترویج و ترقی کے سلسلے میں ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے۔ ملک کا آئین جب مادری زبان میں بنیادی تعلیم کی وکالت کرتا ہے تو پھرملک کی تعلیمی پالیسی میں اس کی خلاف ورزی کیسے ہوسکتی ہے؟اس پالیسی میں واضح طورپر یہ کہا گیا ہے کہ شروع سے پانچویں کلاس تک لازمی طورپر اور آٹھویں کلاس تک اختیاری طورپر ذریعۂ تعلیم مادری اور مقامی زبان ہوگی ،اس سے بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ جن طلبہ کی مادری زبان اردو ہے وہ اردو میں ہی تعلیم حاصل کرنے کے مجاز ہوں گے۔ اس پالیسی کے تحت ملک کی تمام زبانوں کے تحفظ اوران کی ترقی کے لیے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹرانسلیشن اینڈ انٹرپریٹیشن(آئی آئی ٹی آئی ) کے قیام کے ساتھ ساتھ پالی، فارسی اور پراکرت جیسی زبانوں کے فروغ کے لیے قومی سطح کے اداروں کی بھی تشکیل کی جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ یہ پالیسی اس لیے بھی بہتر ہے کہ اس میں فرسودہ نظام تعلیم کو ختم کر کے نئے انداز میں تعلیم دینے کی بات کی گئی ہے۔ طالب علموں کو بنیادی سطح پر ہی ووکیشنل تربیت دی جائے گی، انھیں کوڈنگ سکھائی جائے گی اور درجہ 6 سے ہی انٹرن شپ کا موقع فراہم کیا جائے گا۔ کتابی علم سے زیادہ خود سے کرنے اور سیکھنے پر توجہ دی جائے گی،آن لائن نظام تعلیم اور ورچوئل کلاسز کا سسٹم بہتر کیا جائے گا۔حکومت کا مقصد ہے کہ 2030تک ملک میں خواندگی کی شرح 100 فیصد تک پہنچائی جائے ۔ یہی نہیں 2020 میں اسکول چھوڑ چکے 2 کروڑ بچوں کو دوبارہ اسکول سے جوڑنے کی کوشش کی جائے گی۔اعلی تعلیمی نظام میں مضامین منتخب کرنے کی آزادی ہوگی،چنانچہ اگر ہندی، سماجیات یا فلسفےکے ساتھ کوئی حساب یا علم حیوانات پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے۔ اسی طرح علم کیمیا کے ساتھ تاریخ بھی پڑھ سکتا ہے۔ اردو والے اپنی دلچسپی کا کوئی بھی سبجیکٹ منتخب کر سکتے ہیں۔ نئی تعلیمی پالیسی میں طالب علم خود ہی اپنی جانچ اور تعینِ قدر کرسکیں گے۔ایک بہت اچھی بات یہ بھی ہے کہ اس پالیسی میں جی ڈی پی کا 6 فیصد تعلیم پر خرچ کرنے کی بات کہی گئی ہے ۔ اس پالیسی کے نفاذ کے بعد ملک کا ایک بڑا طبقہ جو تعلیم سے دور تھا وہ بھی مین اسٹریم سے جڑے گا اور تعلیم کی جانب راغب ہوگا۔انھوں نے کہا کہ اردو والوں کو کسی بھی طرح کے خدشات دل سے نکالنے ہوں گے اور موجودہ حکومت کے تئیں کشادہ قلبی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ڈاکٹر عقیل نے یہ بھی بتایا کہ مہاتماگاندھی انٹرنیشنل یونیورسٹی وردھا کے داخلہ نوٹیفکیشن سے اردو کو حذف کیے جانے کےسلسلے میں ہم یونیورسٹی کے وائس چانسلرکو خط لکھ رہے ہیں کہ یونیورسٹی میں شعبۂ اردو کو برقرار رکھا جائے،اسی طرح کونسل کی جانب سے مہاتما گاندھی سینٹرل یونیورسٹی موتیہاری (بہار) کے وائس چانسلر کوبھی خط بھیجا جا رہا ہے کہ وہاں شعبۂ اردو قائم کیا جائے کیوں کہ اردو ہمارے ملک کی بائیس شڈٹولڈ زبانوں میں سے ایک اہم زبان ہے ، اس نے ہندوستان کی تاریخ و تہذیب کو سنوارنے میں غیر معمولی کردار ادا کیا ہے اور ہماری مشترکہ و سیکولر ثقافت کا گراں قدر سرمایہ اس زبان میں محفوظ ہے۔
ڈاکٹر عقیل نے کہا کہ اس حوالے سے جو بھی بحث طلب امور ہیں ان پر میں خود وزیر تعلیم عالی جناب رمیش پوکھریال نشنک جی سے بات کروں گا اور ان سے اردو پر خصوصی توجہ دینے کی گزارش کروں گا۔
اردوزبان و ادب کے فروغ میں خواتین کی حصے داری پر گوامیں یک روزہ قومی سمینار کا انعقاد
گوا:(پریس ریلیز)گوا ہندوستان کا وہ خوبصورت اور طلسماتی جزیرہ ہے جو اپنی سیاحتی اور ثقافتی اہمیت کے پیش نظر پوری دنیا میں مشہور ہے۔یہاں کے ساحل سمندر سے وابستہ مختلف سیاحتی مقامات کی سیر کو پوری دنیا کے سیاح آتے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ اس خوبصورت جادو نگری میں اردو جیسی خوبصورت زبان کو ترقی دی جائے۔ گوا میں کمپیوٹر سنٹر، لائبریری،اردو عربی سرٹیفکٹ اور ڈپلومہ کورسیز،سیمناراور کانفرس وغیرہ سمیت قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کی تمام اسکیموں کو نافذکیا جائے۔ ہماری کوشش ہوگی کہ گوا میں اردو کی نصابی کتابیں فراہم کی جائیں۔ ان خیالات کا اظہار قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے حسینن ایجوکیشن اینڈ فیلو شپ سوسائٹی گوا اور قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان کے زیر اہتمام ”اردو زبان و ادب کی ترقی میں خواتین کا حصہ “کے عنوان سے یک روزہ قومی سیمنار کے افتتاحی اجلاس کے صدارتی خطاب میں کیا۔ ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے بتایا کہ انہوں گوا کے ایجوکیشن سکریٹری سے ملاقات کر کے اسکولوں میں پانچویں جماعت سے آگے بھی اردو تعلیم کے انتظام کی گذارش کی ہے۔ سیمنار کا کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے مشہور شاعرہ فوزیہ رباب نے کہا کہ اردو کا وہ کون سا دور،کون سی تحریک،کون سا رجحان، کون سی صنف اور اردو کی تاریخ کا وہ کون سا ورق ہے جو وجود زن سے رنگین اور تابناک نہ ہو۔شاعری، فکشن، غیر افسانوی ادب، تحقیق و تنقید،ادب اطفال اور صحافت وغیرہ ہر باب میں خواتین کے کارنامے نا قابل فراموش ہیں۔ سیمنار کے افتتاحی اجلاس میں بحیثیت مہمان خصوصی ڈائرکٹر برائے تعلیم گوا ڈاکٹر وندنا راوٗ(آئی اے ایس)نے خواتین کے حوالے سے سیمنار کے انعقاد پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گوا میں اردو جیسی شیریں زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کی بہت ضرورت ہے اور اس سلسلہ میں ہم بھر پور تعاون کے لئے تیار ہیں۔ انہوں نے کلیدی خطیب فوزیہ رباب کی اس تجویز کی بھر پور تائید کی کہ ”اکیڈمی برائے ادبیات خواتین“قائم کی جائے۔ ڈاکٹر وندنا راوٗ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ابتدائی تعلیم اردو میں ہونی چاہئے۔سیمنار کے کنوینر شیخ سلیمان کرول نے حسینن سوسائٹی اور سیمنار کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ حسینن ایجوکیشن اینڈ فیلو شپ سو سائٹی گوا کی وہ واحد تنظیم ہے جو گوا میں اردو کے فروغ کے لئے سر گرم عمل ہے۔اس تنظیم نے اس سے پہلے بھی گوا میں اردو کے ایک بڑے سیمنار کا انعقاد کیا ہے۔نیز اس تنظیم کی جانب سے گوامیں اردو کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس سیمنار کے انعقاد میں فوزیہ رباب نے صحیح معنوں میں کوآرڈی ینیٹر کا کردار ادا کرتے ہوئے بھر پور تعاون کیا ہے اور انہوں نے کلیدی خطیب، صدر اور مقالہ نگار کی حیثیت سے ہماری دعوت قبول کی ہے۔ استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے ایچ ای ایف ایس کی صدر ڈاکٹر آفرین نے کہا کہ ہماری تنظیم تعلیم اورا ردو کی اشاعت کے لئے گوا میں فعال کردار ادا کر رہی ہے اور اس سیمنار کی خصوصیت یہ ہے کہ گوا جیسے غیر اردو علاقہ میں اردو پر یہ سیمنار ہو رہا ہے اور خواتین کی اردو خدمات کے حوالے سے ہو رہاہے جس میں ملک بھر کی معروف خواتین ادیب و شاعر بحیثیت مقالہ نگار شریک ہوئی ہیں۔ فہمیدہ خان نے تمام مہمانان کا تعارف کراتے ہوئے گلدستے سے ان کا استقبال کیا۔اس سیمنار کے دو تکنیکی اجلاس میں فوزیہ ربا ب اور ڈاکٹر شرف النہار نے صدارت کے فرائض انجام دئیے۔دونوں اجلاس میں بارہ مقالات پیش کیے گئے۔ان اجلاس میں ڈاکٹر صادقہ نواب سحر نے اردو فکشن میں خواتین کا حصہ، ڈاکٹر شرف النہار نے اکیسویں صدی میں افسانہ نگار خواتین، ڈاکٹر حمیرہ تسنیم نے اردو کی ناول نگار خواتین،ڈاکٹر مسرت نے اردو میں تانیثی تنقید، ڈاکٹر نسرین رمضان نے اردو میں خواتین کے رسائل
و جرائد، ڈاکٹر نسرین بیگم نے اردو شعر و ادب میں عورتوں کا حصہ فوزیہ رباب نے خواتین کی شاعری میں احتجاج اور مزاحمت، ڈاکٹر ظل ہما نے کیفی کی شاعری میں عورت کا تصور، ڈاکٹر معیذہ نے اردو ادب اور خواتین، ڈاکٹر طاہرہ عبد الشکور نے بچوں کا ادب اور خواتین، اور رخسانہ شاہ نے اردو ادب کی ترقی میں خواتین کے سفر نامے کے عنوان سے گراں قدر مقالات پیش کیے۔اس سیمنار میں مشہور فکشن نگار ڈاکٹر صادقہ نواب سحر کے ناول”راجد یو کی امرائی“ کا اجرا عمل میں آیا۔ اس موقع پر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد کی صدارت میں مشاعرے کا بھی انعقاد کیا گیا۔سیمنار کا آغاز مولانا محمد غوث کی تلاوت اور اختتام ثریا خان کے اظہار تشکر پر ہوا۔شیخ سلیمان کرول اور فہمیدہ خان نے نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ سیمنار میں شروع سے لے کر آخر تک تقریبا ڈیڑھ سو محبان اردو شریک رہے۔ حسینن سوسائٹی کی جانب سے سیمنار کے تمام مندوبین کی خدمت میں مومنٹو پیش کیا گیا۔
اردو کی صورت حال پر قومی کونسل کے ڈائرکٹر اور ایجوکیشن سکریٹری گوا کے مابین تبادلہ خیال
پنجی: قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے گوا کے حالیہ دورے کے دوران ریاست کی ایجوکیشن سکریٹری محترمہ نیلا موہنَن سے ملاقات کی اور ان سے ریاست میں اردو کی صورت حال اور اردو تعلیم و تربیت کے شعبے میں درپیش مسائل و امکانات پر گفتگو کی۔ اس گفتگو کے دوران جن اہم نکات پر تبادلہ خیال کیا گیاان میں درجہ پنجم سے اوپر کی کلاسوں میں بطور مضمون اردو تعلیم کے آغاز کو منظوری نہیں دینا، اسکولوں کے نصاب میں اردو بطور مضمون شامل ہونے کے باوجود ریاستی حکومت کا مستقل اساتذہ کی بحالی نہ کرنا اور گذشتہ سات برسوں سے ضلع اسکول انسپکٹر کے ذریعے معائنہ نہ کرنا بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف اسکولوں کے نمائندوں سے یہ بھی پتہ چلا کہ وہاں اردو کی نصابی کتابیں وقت پر مہیا نہیں کی جاتی ہیں۔ برسرروزگار اردو اساتذہ کے لیے تربیت کا کوئی معقول نظام نہیں ہے جس سے ان کی تدریسی صلاحیتیں مزید بہتر ہوسکیں۔ ڈاکٹر عقیل احمد نے ایجوکیشن سکریٹری سے خاص طور پر اردو میڈیم اسکولوں میں تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کی سمت میں کوشش کرنے کی درخواست کی تاکہ ریاست میں اس اردو زبان کا فروغ ہو جو ہماری گنگا جمنی تہذیب کی ایک روشن علامت ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اردو زبان کو عام کرنے کے لیے ریاست میں ایک اردو اکادمی قائم کی جانی چاہیے تاکہ اردو زبان کے فروغ کے لیے مرکزی حکومت کی طرف سے چلائی جارہی اسکیموں کا ریاست میں نفاذ ہوسکے۔ قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر نے کہا کہ گوا کی ریاست میں اقلیتوں کی بھی ایک معتد بہ آبادی ہے اسی لیے اقلیتی آبادی والے علاقوں کے سرکاری اسکولوں میں اردو کو بطور تیسری زبان پڑھانے کا نظم بھی کیا جائے۔ گفتگو کے دوران محترمہ نیلا موہنن نے کہا کہ ہم قومی اردو کونسل کے ساتھ اردو کے فروغ کے لیے مفاہمت نامے پر دستخط کریں گے تاکہ ریاست میں اردو کو جائز مقام مل سکے۔ ریاستی حکومت کے ذریعے کرائے جانے والے پروگراموں میں بھی قومی کونسل کے ذریعے کلچرل پروگرام کے انعقاد کرانے کی بھی درخواست کی گئی۔ ایجوکیشن سکریٹری نے یقین دلایا کہ گوا میں پرائمری سطح پر جتنے بھی سرکاری وغیر سرکاری اسکول ہیں ان سب میں اردو کو بطور تھرڈ لینگویج پڑھایا جائے گا۔ قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے کہا کہ قومی اردو کونسل نصابی کتابوں کی اشاعت میں گوا سرکار کو تعاون دے گی۔