نئی دہلی:ٹویٹ معاملے میں سپریم کورٹ کے ذریعہ سزا یافتہ پرشانت بھوشن کو بار کونسل دہلی نے 23 اکتوبر کو پیش ہونے کی ہدایت کی ہے۔ بار کونسل دہلی نے اس کے لئے ایک میٹنگ کی تھی اور بار کونسل آف انڈیا کے خط کا اعتراف کرنے کے بعد پرشانت بھوشن کو پیش ہونے کی ہدایت دی گئی ہے اور اسی کے ساتھ ہی 15 دن کے اندر جواب داخل کرنے کو کہا گیا ہے۔بار کونسل دہلی کا اجلاس 18 ستمبر کو ہوا۔ بار کونسل آف انڈیا کی جانب سے لکھا گیا خط اجلاس کے ایجنڈے میں لیا گیا تھا۔ پرشانت بھوشن کے معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بار کونسل آف انڈیا نے اس معاملے کو بار کونسل دہلی کے پاس بھیج دیا۔ پرشانت بھوشن کو سپریم کورٹ کے ذریعہ سزا سنانے کے بعد بار کونسل آف انڈیا نے اس معاملے میں میٹنگ کی اور ایک قرارداد منظور کی جس میں کہا گیا کہ پرشانت بھوشن کے ٹویٹ کے مواد کی مکمل جانچ پڑتال کی ضرورت ہے۔ بار کونسل آف انڈیا نے بار کونسل دہلی سے قانون کے تحت اس کیس کی پیروی کرنے کو کہا تھا۔بار کونسل آف انڈیا نے اس معاملے میں لکھے جانے والے خط کوایجنڈے میں لیا اور پرشانت بھوشن کو اپنا کیس پیش کرنے کے لئے 15 دن کی مہلت دی۔ اسی کے ساتھ ہی پرشانت بھوشن کو 23 اکتوبر کو دہلی کی بار کونسل کے دفتر میں پیش ہونے کو کہا گیا ہے، اگر وہ چاہتے ہیں کہ انہیں ورچوئل انداز میں پیش ہوں تو وہ بار کونسل کو تین دن پہلے آگاہ کریں اور انہیں ورچوئل کانفرنسنگ کے ذریعے بھی پیش کیا جاسکتا ہے۔ دہلی کی بار کونسل نے پرشانت بھوشن سے کہا ہے کہ وہ یا تو خود پیش ہوں یا وہ کسی وکیل کے ذریعہ پیش ہوسکتے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر وہ مقررہ مدت میں جواب داخل نہیں کرتے ہیں تو اس پر غور کیا جائے گا۔ نیز اگر وہ پیش نہیں ہوتے ہیں تو دہلی کی بار کونسل صرف ان کی غیر موجودگی میں ہی کاروائی کرے گی۔
پرشانت بھوشن
اس نے خود کو اسفنج کی طرح نرم رکھا اور اس کی ہتھیلیوں میں ماچس کی ایک تیلی تھی ، جس سے وہ کھیل رہا تھاـ
ہم چاہتے ہیں کہ تم جھوٹ بولو
— نہیں
ہم چاہتے ہیں کہ تم سچ سے انکار کرو
— نہیں
ہم تمہیں تین دن کا موقع دینا چاہتے ہیں
— نہیں
ایوان میں خاموشی، اس کے چہرے پر تیج ہے،وقار ہے،سنجیدگی ہے اور اس وقت اس کی موجودگی غنیمت ہے کہ وہ سچ بول رہا ہے،سچ جو ہمارے ادیب نہیں بولتے،سچ جو ادب نہیں بنتا، سچ جو صرف ایک تصور رہ گیا ہے،وہ کہتا ہے،اسے حراست میں لیا جائے،جواب ملتا ہے ہم تمہیں موقع دینا چاہتے ہیں،وہ کہتا ہے موقع کی ضرورت نہیں ـ
میں حیران ہوں ـ کیا میں برنارڈ شا، شیکسپئر کا کوئی ڈرامہ دیکھ رہا ہوں؟ کیا اس انداز کے ڈرامے آج بھی تحریر ہو سکتے ہیں؟وہ سقراط کے انداز میں کھڑا ہے اور کہتا ہے مجھے زہر کا پیالہ دے دو،ایتھنس کی گلیوں میں دہشت ہے،سقراط نے زہر پی لیا، وہ زہر پینے کو بیتاب ہے اور آج جب سچ کی آہٹ دور چلی گئی ہے،نا امیدی کا طوفان سب کو بہا لے گیا ہے ، نازی فوج کھڑی ہے، ڈیٹینشن سینٹر کے دروازے کھل گئے ہیں، سچ جھوٹ بن چکا ہے،نصاب کی کتابوں سے بھی سچ عنقا ہو چکا ہے، تنظیموں پر نظر ہے،ہر محکمہ جادوگر کا محکمہ ہے،جارج آرویل بیہوش پڑا ہے ، اس کا اینیمل فارم اداس ہے،اس کے ٹھاٹ پولیس کے ممبران مر چکے ہیں اور نئی اب و ہوا میں زیادہ طاقت ور بن کر ابھرے ہیں ، وہ ایک ماچس کی تیلی لیتا ہے جسے بلراج مینرا بھی نہیں کھوج سکے تھےـ منٹو جس کی چاہت لئے بیالیس برس کی عمر میں چلا گیا، کرشن چندر نے جس کی تلاش میں گدھوں سے ملاقات کی اور راما نند ساگر نے کہا انسان مر گیاـ اس نے ماچس سے تیلی نکالی،جوتے کے تلوں سے بجھا دی مگر آگ بھڑک اٹھی،آتش فشاں کا لاوا پھوٹا، اس سے کہا گیا”جھوٹ بولو”وہ سچ پر قائم رہاـ اس نے دوبارہ ماچس کی تیلی جلائی اور پاؤں سے بجھا دی اور خاموش رہ کر اس نے بتایا کہ ایک دن مسولینی مر گیا تھاـ ایک دن ہٹلر نے خود کشی کر لی تھی،ایک دن چنگیز مارا گیا، ایک دن ہلاکو اپنے ہی گھوڑے سے زخمی ہوا اور مر گیا، ایک دن سکندر بھی چلا گیاـ
میں اسے اب بھی ماچس کی تیلی جلاتے ہوئے دیکھ رہا ہوں ـ وہ ادب کی دنیا کا نہیں ہے،مگر میں حیران اس لئے ہوں کہ اس وقت وہ مکمل ادب کا ترجمان بن گیا ہے، گہرے ، فلسفیانہ ، سنجیدہ ادب کا ترجمان، وہ تذبذب یا اضطراب کی لہروں کے درمیاں نہیں ہے،اس کے بال گھنے ہیں،چہرے پر آگ کی آنچ تک نہیں، قد میانہ،مگر وہ پر سکون ہے، وہ لوگ پر سکون نہیں ہیں جو اسے چٹانوں سے دھکا دینا چاہتے ہیں،وہ بہت نرم دل ہے،وہ آہستگی سے پوچھتا ہے”تم نے جولیس سیزر پڑھا ہے؟” آہ! جولیس کے جانے کے بعد قلو پطرہ بھی چلی گئی، کوئی زندہ کب رہتا ہے،مگرسچ زندہ رہتا ہے، یہیں کہیں بوسیدہ حویلیوں میں ، گپھاؤں میں ، کھنڈرات میں،ایک دن ایوانوں میں بھی زندہ ہو جائے گا، وہ اس وقت بھی ماچس کی تیلی جلا رہا تھا جب سیاہ قانون نے دستک دی،شہریت کو بچانے ، آشیانے کو محفوظ رکھنے کی باری تھی،ملک کے دانشور اور دوسرے مذاہب کے لوگ بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور اس لئے اٹھ کھڑے ہوئے کہ کچھ آشیانے جل رہے تھے، مٹی کا ٹکرا محفوظ نہیں تھا،وہ تیلی جلا کر دیکھ چکا تھا کہ جمہوریت اور آئین کا خاتمہ ہوا تو زندگی مشکل ہو جائے گی،فرانس کا انقلاب اسے آواز دے رہا تھا،اندھیرا تھا ، مگر وہ سب کچھ دیکھ سکتا تھا، اس نے جان لیا تھا ، خاموشی جرم بھی ہے سزا بھی ـ
فرانس میں کبھی بوربون خاندان کی حکومت تھی۔بادشاہ کے اپنے لوگ تھے، اپنا عدالتی نظام تھا،ہر شعبے پر حکومت تھی،عوام نے تنقید کا حق کھو دیا تھا، فرانس نے تمام عدالتی منصب فروخت کر دے تھے۔دولت مند تاجر منصبوں اور عہدوں کو خریدتے تھے ۔اس زمانے میں فرانس کے ججوں کی تنخواہیں کم تھیں،جج بادشاہ کے زیر نگران کام کرتے اور فیصلے لیتے تھے،رشوت خوری کا بازار گرم تھا۔ فرانس کی پارلیمنٹ میں صرف ایک ہی کام ہوتا تھا بادشاہ کے ہرحکم کو قانونی اورآئینی شکل دینا ،فرانس میں اس وقت بھاری ٹیکس نافذ تھے ۔ جی ایس ٹی نے چھوٹے چھوٹے تاجران کو مار ڈالا، روزگار ختم کر ڈالے، معیشت کی کمر ٹوٹ گئی،ملک ہزارو برس پیچھے چلا گیا اور ملک کے پٹری پر آنے کی صورت دور دور تک نظر نہیں آ رہی، فرانس کا بادشاہ پیرس سے بارہ میل دور "ورسائی” کے محل میں رہتا تھا ۔اس کے دربار میں اٹھارہ ہزار افراد موجود ہوتے تھے۔شاہی اصطبل میں انیس سوگھوڑے تھے جن کی دیکھ بھال کے لیے چالیس لاکھ ڈالر سالانہ خرچ ہوتے تھے اورباورچی خانہ کا خرچ پندرہ لاکھ تھا۔ فرانس بھی دیوالیہ تھا،وہاں لاکھوں مزدور بے کار تھے۔فرانس کے جیل خانے معصوم اوربے قصورلوگوں سے بھرے پڑے تھے، فرانس میں بادشاہ کے خلاف پیدا ہوئی نفرت انقلاب میں تبدیل ہو گئی ۔ 14جولائی 1789کا دن ، انقلاب کے اگتے سورج کا دن تھا ۔پیرس میں دو شاہی محافظ مارے گئے اور اس کے بعد فرانس میں وہ انقلاب آیا جس نے دنیا کا نقشہ بدل دیا۔ اس بار اس نے تیلی نہیں جلائی،صرف سوچا ، انقلاب سچ سے ہی آئےگا،کبھی حکمران انگریز تھے اب رنگ بدلے ہوئے مہرے، فرق کچھ بھی نہیں، پہلے انگریزوں سے ملک کو آزاد کرنا تھا اب مہروں سے آزاد کرنا ہے ـ
کاش ایک سگریٹ مل جاتی، افسوس وہ سگریٹ نہیں پیتا، شیکسپئر اور برنارڈ شا کو ضرور پڑھتا ہےـ وہ ہندوستان کی سپریم کورٹ میں سینئر وکیل ہے۔ وہ بدعنوانی ، خاص طور پر عدلیہ کی بدعنوانی کے خلاف اپنے احتجاج کے لئے جانا جاتا ہے۔ وہ انا ہزارے کے ذریعہ بدعنوانی کے خلاف جدوجہد میں اپنی ٹیم کا کلیدی رکن رہا ہے۔اس نے اروند کیجریوال اور کرن بیدی کے ساتھ حکومت کی بات چیت میں سول سوسائٹی کی وکالت کی تھی۔ جی سپیکٹرم گھوٹالہ کا کیس سپریم کورٹ میں لڑا تھا ۔ وکالت کے دوران اس نے عوام کی جانب سے 500 سے زیادہ مقدمات لڑے ہیں۔وہ شفاف سیاست اور امن و امان کی وکالت کرتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ ملک کا قانونی ڈھانچہ بدعنوانی سے پاک اور شفاف ہونا چاہئے۔
وہ مشہور وکیل شانتی بھوشن کا بیٹا ہےـ اس نے پرنسٹن یونیورسٹی سے معاشیات اور پھر فلسفہ کی تعلیم حاصل کی پھر ماچس لے کر ہندوستان آ گیا، جہاں اس نے الہ آباد یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔اس نے پھر تیلی جلائی اور دعویٰ کیا کہ چودہ چیف ججز نصف کرپٹ ہیں،وہ مسلسل سچ بول رہا ہے اور عذاب سے دوچار ہےـ
اس بار اس نے دیر تک تیلی کو جلائے رکھا،اسے یقین ہے کہ کچھ دروازے کھلے ہیں،کچھ اور کھل سکتے ہیں،اسے یقین ہے کہ سقراط اس کے اس پاس ہےـاسے یقین ہے کہ تاریخ کے اس موڑ پر خاموش نہیں رہا جا سکتاـ اسے یقین ہے کہ گھومتا پھرتا رقص دکھاتا ہوا سورج کبھی کبھی نصف صدی میں اپنے اس پاس مندراتے کیڑوں جیسے تاریک سیارے کو ضرور نگل جاتا ہوگاـ اس نے بالوں میں انگلیاں پھیریں، وہ مطمئن ہے ، یہ تین دن بھی گزر جائیں گےـ
میں یہاں معافی مانگنے نہیں،اپنا’جرم‘ قبول کرنے آیاہوں(سپریم کورٹ میں پرشانت بھوشن کا مکمل بیان)
ترجمہ:نایاب حسن
میں نے معزز عدالت کا فیصلہ دیکھا۔ مجھے تکلیف ہوئی کہ مجھے اُس عدالت کی توہین کرنے کا قصوروار ٹھہرایا گیا ہے، جس کی عظمت ووقار کومیں نے مسلسل تین دہائیوں سے ایک درباری یا خوشامدی کی حیثیت سے نہیں؛ بلکہ ایک ادنی محافظ کی حیثیت سے، برقراراور محفوظ رکھنے کی کوشش کی ہے ، ذاتی طورپر بھی اور پیشہ وارانہ طریقے سے بھی۔ مجھے تکلیف اس بات کی نہیں ہے کہ مجھے سزادی جا رہی ہے؛بلکہ دکھ اس بات کا ہے کہ میرے تئیں عدالت کو شدید غلط فہمی ہوئی ہے۔
مجھے حیرت ہے کہ عدالت نے مجھے عدلیہ کے ادارے پر ’’بدنیتی کے ساتھ جان بوجھ کرگھٹیا قسم کا حملہ کرنے‘‘کا مجرم ٹھہرایاہے۔ مجھے افسوس ہے کہ عدالت اس طرح کے حملے کے میرے مقصد کا کوئی ثبوت فراہم کیے بغیر ہی اس نتیجے پر پہنچی ہے۔ مجھے اس سے مایوسی ہوئی کہ عدالت نے مجھے اس شکایت کی کاپی تک بھیجنا ضروری نہیں سمجھا جس کی بنیاد پر ازخود نوٹس جاری کیا گیا تھا اور نہ ہی میرے جوابی حلف نامے اور میرے کونسل کی گزارشات کے باوجود یہ بتایا گیا کہ مجھے اپنی کن حرکتوں کا جواب دینا چاہیے۔
میرے لیے یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ عدالت نے میرے ٹوئٹ کو ’’ہندوستانی جمہوریت کے اس اہم ستون کی بنیاد کو غیر مستحکم کرنے والا پایا ہے‘‘۔ میں صرف اس بات کا اعادہ کرتا ہوں کہ وہ دونوں ٹویٹس میرے ذاتی خیالات و نظریات کی نمائندگی کرنے والے تھے،جن کا اظہار کسی بھی جمہوریت میں جائز ہونا چاہیے۔ در حقیقت خود عدلیہ کی صحت مند کارکردگی کے لیے عوامی جانچ پڑتال مطلوب ہے۔
میرا یہ ماننا ہے کہ آئین کی حفاظت کے لئے جمہوریت میں کسی بھی ادارے پر کھلی تنقید ضروری ہے۔ ہم اپنی تاریخ کے ایسے لمحے سے گزر رہے ہیں، جب اعلی اصولوں کی پیروی کو معمول کی ذمے داریوں پر ترجیح دینا چاہیے ، جب آئینی فریضے کی تکمیل لازمی طور پر ذاتی اور پیشہ ورانہ فرائض پر مقدم ہونی چاہیے، جب مستقبل کے بارے میں اپنی ذمے داری کو نبھاتے وقت حال کے بارے میں زیادہ نہیں سوچنا چاہیے۔
خاص طور پر مجھ جیسے عدلیہ سے وابستہ شخص کے لئے حق کے اظہار میں ناکام رہ جانا فرض شناسی کی کمی ہوگی۔ میرے ٹوئٹس ہماری جمہوریت کی تاریخ کے اس نازک موڑ پرمحض اپنا فریضہ ادا کرنے کی ایک چھوٹی سی کوشش کا نمونہ تھے۔ میں نے کسی نامناسب سوچ کے ساتھ ٹوئٹ نہیں کیا تھا ۔اپنے ان ٹویٹس کے لئے معافی مانگنا،جو میرے خیالات و نظریات کے نمایندہ تھےاور ہیں، میرے لئے بے غیرتی کی بات ہوگی اوریہ ایک توہین آمیزعمل ہوگا؛لہذا میں صرف عاجزی کے ساتھ وہی عرض کرسکتا ہوں جوباباے قوم مہاتما گاندھی نے اپنے مقدمے میں کہا تھا:’’ میں معافی کی درخواست نہیں کروں گا۔ میں آپ سے کشادہ ظرفی کا مظاہرہ کرنے کی بھی اپیل نہیں کروں گا۔ میں یہاں خوشی سے اس سزا کوقبول کرنے کے لیے کھڑاہوا ہوں،جسے کورٹ نے کسی جرم کا مرتکب ہونے کی وجہ سے مجھ پر عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور جو مجھے اس ملک کا ایک شہری ہونے کے ناطے اپنی اعلی ترین ذمے داری بھی معلوم ہوتی ہے‘‘۔
(مکمل بیان کا انگریزی ٹیکسٹ یہاں دیکھا جاسکتا ہے: https://theleaflet.in/wp-content/uploads/2020/08/Statement-Prashant-Bhushan.pdf)