علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے صد سالہ جشن میں وزیراعظم نریندر مودی کی بطور مہمان خصوصی شرکت اپنے آپ میں ایک سنسنی خیزخبر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ہفتہ اس خبر نے میڈیا کی سب سے زیادہ توجہ حاصل کی۔ اس موقع پروزیراعظم نے جو تقریر کی، اس پر بھی خوب بحث ومباحثہ ہوا۔ حالانکہ یہ تقریر دوبدو نہیں تھی بلکہ انھوں نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ یونیورسٹی برادری کو خطاب کیا۔ دراصل جب یہ اعلان کیا گیا کہ وزیراعظم نریندر مودی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی صدسالہ تقریبات میں بطور مہمان خصوصی شریک ہوں گے تو اسی وقت سے اس پر زوردار بحث شروع ہوگئی تھی اور کئی حلقوں نے اس کی مخالفت میں آوازیں بلند کیں۔مخالفت کرنے والوں میں یونیورسٹی طلباء یونین کے کئی سرکردہ سابق عہدیداران بھی شامل تھے۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ مسلم یونیورسٹی ہمیشہ حکمراں بی جے پی کے نشانے پررہی ہے اور اس پارٹی کے لوگوں نے اسے بدنام کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیاہے۔ جس پارٹی اور پریوار نے مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پر حملے کئے ہیں اور جس کی سرکار نے اقلیتی کردار کے خلاف سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کیاہے،آخر اس پارٹی کے لوگوں کو اس یونیورسٹی سے کیا ہمدردی ہوسکتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ایک طبقہ کا خیال تھا کہ وزیراعظم چونکہ اس ملک کی مجموعی آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں اور مرکزی حکومت کے ذریعہ ہی یونیورسٹی کو دوسو کروڑسے زیادہ کی سالانہ گرانٹ ملتی ہے،اس لئے صدسالہ تقریبات میں وزیراعظم کی شرکت پراعتراض نہ کیا جائے اور اسے مثبت انداز میں قبول کیا جائے۔ کہا جاتاہے کہ وزیراعظم نے ازخود اس تقریب میں شرکت نہیں کی بلکہ انھیں مدعو کرنے کے لئے وائس چانسلر کی طرف سے کئی مکتوب روانہ کئے گئے تھے اور ان کی خوشامد کی گئی تھی۔
بہرحال اسی زوردار بحث ومباحثہ کے درمیان وزیراعظم نے یونیورسٹی کی صدسالہ تقریب سے خطاب کیا اور اس خطاب کے بعد بحث کا محور ان کی وہ تقریر بنی جس میں انھوں نے یونیورسٹی کو ”منی ہندوستان“سے تعبیر کیا۔یعنی ایک ایسا ادارہ جس میں ہندوستانی تہذیب وتمدن کی تمام نشانیاں نظر آتی ہیں۔وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ ”اختلافات کے نام پرپہلے ہی بہت وقت ضائع کیا جاچکا ہے۔ اب سبھی کو ایک ہدف سامنے رکھ کر خودکفیل ہندوستان کی تعمیر کرنی ہے۔ طلباء برادری سے قومی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرنے کی اپیل کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ سماج میں نظریاتی اختلافات ہونا فطری بات ہے، لیکن جب بات قومی ہدف حاصل کرنے کی ہوتو ہر اختلاف کو درکنار کردینا چاہئے۔“
وزیراعظم نے اپنی 33 منٹ کی تقریر میں یونیورسٹی سے متعلق جو باتیں کہی ہیں،وہ واقعی حوصلہ مندانہ قرار دی جاسکتی ہیں، لیکن مسلم یونیورسٹی کے تعلق سے ان کے قول وفعل میں جو تضاد پایا جاتا ہے اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس تضاد پر ہم آگے چل کر گفتگو کریں گے، آئیے پہلے یہ دیکھیں کہ انھوں نے اپنی تقریر دل پذیر میں یونیورسٹی کے تعلق سے اور کیا کہا ۔انھوں نے کہا کہ”مسلم یونیورسٹی دیش کی طاقت ہے، اسے نہ تو بھولنا ہے اور نہ ہی کمزور ہونے دینا ہے۔ یہ یونیورسٹی ملک کی انمول میراث ہے اور اس میں منی انڈیا نظر آتا ہے۔“ انھوں نے کہا کہ ”سرسید نے جن خوابوں کے تحت اس کو قائم کیا تھا، ان کی تعبیرمیں حکومت بھی مصروف ہے۔ نئے ہندوستان کی تعمیر میں مسلم یونیورسٹی کی دوہری ذمہ داری ہے۔“ اپنی تقریر میں مودی نے مسلم یونیورسٹی کیمپس، کلچر،طلبائے قدیم اور لائبریری کی بھی تعریف کی اوراسے کثرت میں وحدت کی سب سے مضبوط مثال قراردیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ صرف ایک عمارت نہیں بلکہ ملک کی انمول وراثت ہے۔ مسلم یونیورسٹی سے پڑھ کرسینکڑوں ملکوں میں نام چمکانے والے لوگ صحیح معنوں میں ہندوستان کے تہذیبی سفیر ہیں۔ وزیراعظم نے مسلم یونیورسٹی کی بانی چانسلر سلطان جہاں بیگم کا تذکرہ خواتین کو باختیار بنانے کے ذیل میں کرتے ہوئے سرسید کی ترقی پسند فکر کو خراج عقیدت پیش کیا اور اسی ذیل میں طلاق ثلاثہ کو ختم کرنے کا کریڈٹ بھی لیا۔ اس موقع پر صدی تقریبات کے سلسلہ میں ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا گیا۔لیکن یونیورسٹی کی مزید توسیع و ترقی کے ذیل میں کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہندوستانی مسلمانوں کی تمناؤں اور آرزوؤ ں کا مرکزہے۔ اس یونیورسٹی سے انھیں جو جذباتی لگاؤ ہے،وہ کسی اور ادارے سے نہیں ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ زندگی کے مختلف میدانوں میں جن مسلمانوں نے ملک وقوم کا نام روشن کیا ہے، ان میں سے بیشتر اسی دانش گاہ کے فیض یافتہ ہیں۔ مسلمانوں میں جدید تعلیم کی روشنی پھیلانے کا کام سب سے زیادہ اسی یونیورسٹی نے انجام دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان اس دانش گاہ پر جان ودل نثار کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ محسن قوم سرسید احمد خاں کے قائم کردہ اس ادارے کو آزاد ہندوستان میں جن آزمائشوں سے گزرنا پڑا ہے،اس کی بھی ایک پوری تاریخ موجودہے۔اس یونیورسٹی کے ساتھ کھلواڑ صرف فرقہ پرست اور متعصب عناصر نے ہی نہیں کیا بلکہ اس میں ان لوگوں کی کارفرمائی بھی کچھ کم نہیں ہے جو اپنی پیشانی پر ’سیکولرازم‘ کا سائن بورڈ لگاکر مسلمانوں کے ووٹوں پر ڈاکہ ڈالتے رہے ہیں۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پر سب سے پہلا حملہ اس وقت کیا گیا جب اقتدار کی باگ ڈور آنجہانی وزیراعظم اندرا گاندھی کے ہاتھوں میں تھی۔ جن لوگوں نے مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی کے لئے ملک گیر تحریک چلائی تھی، ان میں سے آج بھی کچھ لوگ بقید حیات ہیں اور آپ ان کے پیروں کے چھالے دیکھ کر اس تحریک کے خدوخال کا اندازہ کرسکتے ہیں۔یہ تحریک صرف ایک تعلیمی ادارے کے بقاء کی تحریک نہیں تھی بلکہ یہ اس ملک میں مسلمانوں کی تہذیبی شناخت کی بقاء کا محاذ تھا جس میں علی گڑھ تحریک کے جاں بازوں کو جزوی کامیابی ملی۔
یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پر تلوار آج بھی لٹک رہی ہے اور یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے۔ منموہن سنگھ حکومت نے یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے حق میں سپریم کورٹ میں جو حلف نامہ داخل کیا تھا، اسے مودی سرکار نے واپس لے لیا ہے اور ایک نیا حلف نامہ داخل کرکے یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے خلاف رائے دی ہے۔ہم نے مضمون کے آغاز میں جس تضاد کا ذکر کیا تھا،وہ دراصل یہیں سے اجاگر ہوتا ہے۔
یہ بات بھی سبھی جانتے ہیں کہ جب کبھی یونیورسٹی کا کوئی معاملہ سامنے آتا ہے توپورا سنگھ پریوار اس کی مخالفت میں صف آراء ہوجاتا ہے۔ آج وزیراعظم نے جس یونیورسٹی کو ”منی ہندوستان“ سے تعبیر کیا ہے وہ سنگھ پریوار کی نگاہ میں ”منی پاکستان“ ہے۔پچھلے دنوں یونیورسٹی میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جو تحریک چلی اس میں ضلع انتظامیہ اور پولیس نے یونیورسٹی کے طلباء کے ساتھ دشمن ملک کے فوجیوں جیسا سلوک کیا۔آپ کو یاد ہوگا کہ پچھلے دنوں علی گڑھ سے منتخب بی جے پی ممبر پارلیمنٹ نے یونیورسٹی کے یونین ہال میں آویزاں محمدعلی جناح کی تصویر پر جو طوفان بدتمیزی برپا کیا تھا اس کی دلخراش یادیں ابھی تک تازہ ہیں۔اس موقع پر یونیورسٹی کو ’بدی کا محور‘ قرار دینے کا کوئی حربہ خالی نہیں چھوڑا گیا تھا۔
وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی تقریر میں یونیورسٹی کی اولین چانسلر اور ریاست بھوپال کی فرمانروا سلطان جہاں بیگم کے ذیل میں طلاق ثلاثہ کو ختم کرنے کا جو ذکرجو اپنی حصولیابی کے طور پر کیا ہے، وہ دراصل مسلمانوں پر ایک ’ضرب کاری‘ سے کم نہیں ہے۔ اس قانون کے وجود میں آنے کے بعد مسلمانوں کی ازدواجی زندگی میں نئی پیچیدگیاں پیدا ہوئی ہیں اور انھیں ناکردہ گناہوں کی سزا مل رہی ہے۔سلطان جہاں بیگم کے بارے میں یہ بتانا ضروری ہے کہ وہ ایک باپردہ اور شریعت کی پابند خاتون تھیں اور انھوں نے پردے میں رہ کر ہی ریاست بھوپال کا کام کاج سنبھالا تھا۔بہرحال اگر وزیراعظم کو مسلم یونیورسٹی میں ’منی ہندوستان‘ نظر آتا ہے تویہ ایک خوش آئند بات ہے اور انھیں یہ بات اپنے اس پریوار کو بھی بتانی چاہئے جو ہر وقت یونیورسٹی میں ’منی پاکستان‘ ڈھونڈتا رہتا ہے اور علی گڑھ کو ’ہری گڑھ‘ بنانے پر کمربستہ ہے۔ وزیراعظم کے قول وفعل میں جس دن مطابقت پیدا ہوجائے گی، اس دن اس ملک کے بے شمار مسائل حل ہوجائیں گے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی نے یونیورسٹی برادری کو الفاظ کے زیروبم سے مطمئن کرنے کی کوشش تو کی، لیکن انھوں نے یونیورسٹی کے لئے کسی پیکیج کا اعلان کرنے سے گریز کیا۔ سبھی جانتے ہیں کہ اس وقت یونیورسٹی کے جو توسیعی کیمپس مختلف صوبوں میں چل رہے ہیں، انھیں رقم کی شدید ضرورت ہے۔ انھیں اپنا کام جاری رکھنے کے لئے اراضی درکار ہے اور ان کے پاس فنڈ کی زبردست قلت ہے۔ یونیورسٹی کے 28ہزار سے زیادہ طلباء کواپنا تعلیمی سفر جاری رکھنے کے لئے جن سہولتوں کی اشد ضرورت ہے، ان کا مداوا صرف الفاظ سے نہیں ہوسکتا، اس کے لئے عمل کی ضرورت ہے جس کا فقدان وزیراعظم کے خطاب میں صاف نظر آتا ہے۔