نئی دہلی :
ایک طرف ملک بھرمیں کوروناکی لہرتیزہوئی ہے دوسری طرف لیڈروں کی غیرمحتاط ریلیاں ہورہی ہیں جہاں لاکھوں لوگ جمع ہورہے ہیں۔خودحکمراں جماعت کے لیڈران کی ریلیاں ہورہی ہیں۔سوشل میڈیاپرلوگ سوال کررہے ہیں کہ کیاان ریلیوں کے لیے کورونانہیں ہے۔خودو زیر اعظم نریندر مودی اگلے 36 گھنٹوں میں 5000 کلومیٹرسفرکریں گے۔ وزیر اعظم مودی اس دوران متعدد ریلیوں سے خطاب کریں گے۔ دہلی سے آسام ، آسام سے مغربی بنگال ، مغربی بنگال سے تمل ناڈو ، تمل ناڈوسے کیرالا کے راستے دہلی لوٹیں گے۔ بی جے پی میڈیا سیل کے کنوینر انیل بلوونی نے ٹویٹ کرکے یہ معلومات شیئرکی ہیں۔بلوونی نے ٹویٹ کیاہے کہ دہلی سے آسام ، آسام سے مغربی بنگال ، مغربی بنگال سے تمل ناڈو ، تمل ناڈو سے کیرالہ ۔وزیر اعظم مودی 36 گھنٹوں میں 5000 کلومیٹر سے زیادہ کا سفر طے کریں گے اور چار ریاستوں میں انتخابی مہم چلائیں گے۔ یہ محنت کی انتہا ہے۔
وزیراعظم
اپوزیشن لیڈر غلام نبی آزاد کی وداعی پرراجیہ سبھا میں جو کچھ ہوا، اس پر لوگ اپنی اپنی سمجھ کے مطابق تبصرے کررہے ہیں۔ بعض حلقوں میں یہ اندیشے ظاہر کئے جارہے ہیں کہ وزیراعظم نے غلام نبی آزاد کی وداعی کے وقت جو قیمتی آنسو بہائے ہیں، وہ دراصل انھیں رام کرنے کے لیے ہیں، کیونکہ وہ آزاد کو کشمیر میں ’بی جے پی کا مسلم چہرہ‘ بنانا چاہتے ہیں۔یوں بھی غلام نبی آزاد نے جب سے کانگریس کی مستقل قیادت کا سوال اٹھایا ہے تب سے وہ پارٹی کے بعض لیڈروں کی آنکھوں میں کھٹک رہے ہیں۔ ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ کانگریس میں ان کا قافیہ تنگ ہوچکا ہے اور وہ اپنی نئی راہ تلاش کررہے ہیں۔ مگر جو لوگ غلام نبی آزاد اور ان کی سیا ست کو جانتے ہیں ان کے لیے یہ باتیں انہونی اور ناقابل یقین ہیں۔ میں بھی اپنے آپ کو ان لوگوں میں شمار کرتا ہوں جو غلام نبی آزاد اور ان کی سیاست کا قریب سے مطالعہ کرتے رہے ہیں۔ 71 سالہ غلام نبی آزاد نے اپنا سیاسی کیریر 1973میں جموں وکشمیر میں بلاک کانگریس سے شروع کیا تھا جہاں سے وہ صوبائی وزیراعلیٰ کی کرسی تک پہنچے۔وہ سب سے پہلے 1980میں مہاراشٹر سے لوک سبھا کے ممبر چنے گئے تھے اور یہیں سے 1990 میں پہلی بار راجیہ سبھا کے لئے ان کا انتخاب عمل میں آیا ۔اس کے بعد 1996 سے 2006 تک وہ جموں وکشمیر سے ایوان بالا کے ممبر رہے۔اس دوران انھیں تین سال کے مختصر عرصہ کے لیے جموں وکشمیر کے وزیراعلیٰ کی ذمہ داریاں سونپی گئیں اور اس کے بعد دوبارہ 2009میں انھیں ایوان بالا کا ممبر چن لیا گیا۔2014 میں انھیں پارٹی نے راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر کی ذمہ داری سونپی، جس سے وہ اب سبکدوش ہورہے ہیں۔اس طویل سفر میں ان کی سب سے بڑی پونجی کانگریس قیادت کاوہ اعتماد ہے جوانھیں ہمیشہ حاصل رہا ہے۔ یہ اعتماد انھوں نے پارٹی سے اپنی اٹوٹ وفاداری کی بنیاد پر حاصل کیا ہے۔ ریٹائرمنٹ سے قبل راجیہ سبھا میں انھیں جو الوداعیہ دیا گیا،اس پر چہ میگوئیوں کا بازار اس لیے گرم ہے کہ وزیر اعظم نے اس موقع پر تین بارآبدیدہ ہوکران کو خراج تحسین پیش کیا اور ان کی انسانی ہمدردی کے جذبہ کو سراہا۔اس موقع پر اپنی الوداعی تقریر کے دوران خود غلام نبی آزاد بھی آبدیدہ ہوئے۔
میں ایک اخبار نویس کے طور پر گزشتہ تیس برس سے راجیہ سبھا کی کارروائی کا مشاہدہ کررہا ہوں اور پریس گیلری میں بیٹھ کر میں نے دلچسپ نظارے دیکھے ہیں۔ایوان میں ریٹائر ہونے والے ممبران کو الوداعیہ دینا کوئی نئی بات نہیں ہے۔جب بھی کسی ممبر کی معیاد پوری ہوتی ہے تو اسے عزت سے خوش کن الفاظ کے ساتھ وداع کیا جاتاہے۔ اگر کوئی خاص ممبر سبکدوش ہوتا ہے تو تمام پارٹیوں کے لیڈران اس کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ یہ روایت صرف راجیہ سبھا میں ہے کیونکہ اس کے ممبران کا انتخاب اور ریٹائرمنٹ وقتاً فوقتاً ہوتا رہتا ہے جبکہ لوک سبھا میں یہ روایت نہیں ہے کیونکہ وہاں کے ممبران کا انتخاب ایک ہی وقت میں یعنی عام انتخابات کے موقع پر ہوتا ہے اور وہ سبھی ایک ساتھ لوک سبھا کی مدت ختم ہونے کے ساتھ ریٹائر ہوجاتے ہیں۔راجیہ سبھا جسے عرف عام میں ’ہاؤس آف ایلڈرز‘ بھی کہا جاتا ہے ایک ایسی جگہ ہے جہاں سنجیدہ بحث ومباحث ہوتے ہیں، کیونکہ اس کے لیے عام طورپرتجربہ کار اور جہاندیدہ لوگوں کا انتخاب عمل میں آتا ہے۔ حالانکہ یہ روایت اب دم توڑ رہی ہے اور ایوان بالا میں ہرقسم کے لوگ پہنچ رہے ہیں۔ممبران کی وداعی تقریب میں اکثر دلچسپ مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں اور اس موقع پر شعر وشاعری بھی خوب ہوتی ہے۔ غلام نبی آزاد نے بھی اپنی وداعی تقریر میں کئی شعر سنائے اور اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ جو بات ہم سیاستداں دس گھنٹے میں کہتے ہیں وہ شاعر اپنے دوشعر میں بیان کردیتا ہے۔مجھے یاد ہے کہ پچھلے دنوں ایک کمیونسٹ ممبر نے اپنی وداعی کے موقع پر یہ شعر پڑھا تھا۔
یہ کیسا وقت مجھ پر آگیا ہے
سفر جاری ہے لیکن گھر آگیا ہے
آج کل سیاست میں جس تیزی کے ساتھ لوگ اپنی وفاداریاں تبدیل کررہے ہیں، اس کے پیش نظر یہ کہنا مشکل ہے کہ کون کب کس پارٹی میں چلا جائے، لیکن جو لوگ غلام نبی آزاد کے بارے میں اس قسم کے اندیشے ظاہر کررہے ہیں، وہ قطعی غلطی پر ہیں۔غلام نبی آزاد کا ذہن اور شخصیت جس سانچے میں ڈھلی ہے، اس میں ان کے بارے میں اس قسم کے تبصرے کرنا سیاسی ناپختہ کاری کا ثبوت دینا ہے۔غلام نبی آزاد نے کانگریس میں رہ کر جو کچھ حاصل کیا ہے اس میں ان کی ذاتی محنت کو بڑا دخل ہے۔ وہ سیاست میں کبھی کسی کے رہین منت نہیں رہے۔ انھیں جب بھی موقع ملا، انھوں نے اپنی بات پارٹی کے پلیٹ فارم پر پوری جرات کے ساتھ کہی ہے۔انھیں پارٹی کے انتظامی امور پر جو دسترس حاصل ہے وہ کانگریس میں بہت کم لوگوں کو حاصل ہے۔ جب جب کسی صوبہ میں پارٹی بحران کا شکار ہوئی ہے تب تب غلام نبی آزاد ہی کو وہاں بھیجا گیا ہے۔ انھیں ملک گیر سطح پر پارٹی کے امور کی جتنی جانکاری ہے اتنی شاید ہی کسی اور پارٹی لیڈر کو ہو۔ انھوں نے اندراگاندھی، راجیو گاندھی، نرسمہاراؤ اورمنموہن سنگھ کابینہ میں کلیدی عہدوں پر کام کیا ہے اور پارلیمانی امور کا بھی ان کو خاصا تجربہ ہے، جس کے وہ مرکزی وزیر رہ چکے ہیں۔ایسے میں کانگریس پارٹی کبھی نہیں چاہے گی کہ وہ اپنے اتنے سینئر اور تجربہ کار لیڈر کو کھونے کا جوکھم اٹھائے اور وہ بھی ایسے وقت میں جب پارٹی زبردست بحران سے گزر رہی ہے۔غلام نبی آزاد کانگریس میں جمہوری عمل کی بحالی اور مستقل صدر کی بات اٹھاتے رہے ہیں۔ کانگریس ورکنگ کمیٹی کی پچھلی میٹنگ میں صدارتی عہدے کے انتخاب کے موضوع پر ان کی وینو گوپال کے ساتھ تیکھی بحث ہوئی تھی۔ وہ دراصل صدارتی عہدے کا چناؤٹالنے کے خلاف تھے۔
غلام نبی آزاد کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ انھوں نے خود کو ایک قومی لیڈر کے طورپر تسلیم کروایاہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے 1980میں لوک سبھا کا پہلا چناؤ مہاراشٹر کی واشم سیٹ سے جیتا تھا ۔ انھوں نے نہ تو مسلمانوں کی سیاست کی اور نہ کبھی خود کو مسلم لیڈر کہلوایا۔ حالانکہ وہ اپنی بساط بھر مسلمانوں کی مدد کرتے رہے ہیں اور ہر ضرورت کے وقت ان کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب اردو اخبارات شدید مالی بحران سے گزررہے تھے تو انھوں نے شہری ہوابازی کے وزیر کے طورپر پہلی بار اپنی وزارت کے اشتہارات میں اردو اخبارات کا حصہ مختص کیا تھاجس سے اردواخبارات کو اپنی کمر سیدھی کرنے میں بہت مدد ملی تھی۔ اس مسئلہ پر انھیں متوجہ کرنے کا کام آل انڈیا اردو ایڈیٹرکانفرنس کے صدر م۔ افضل(سابق ایم پی اور سفارت کار)نے کیا تھا۔غلام نبی آزاد یوں بھی اردو کے شیدائی ہیں اور وہ لکھنے پڑھنے کانجی کام اردو میں کرتے ہیں۔ ان کی اردو معریٰ ہوتی ہے یعنی وہ اپنی تحریر میں زیر،زبر اور پیش کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔
اب آئیے ان آنسوؤں کا رخ کرتے ہیں جو ان کی وداعی کے موقع پر وزیراعظم نریندر مودی نے راجیہ سبھا میں تین بار بہائے۔2006 میں جب غلام نبی آزاد جموں وکشمیر کے وزیراعلیٰ تھے تو وہاں سیاحوں کی ایک بس پر گرینیڈ حملہ میں ایک درجن سے زیادہ گجراتی سیاحوں کو موت ہوگئی تھی۔ نریندر مودی اس وقت گجرات کے وزیراعلیٰ تھے۔ آزادنے اس سانحہ پر اظہار افسوس کے لیے مودی کو فون کیا اور وہ پھوٹ پھوٹ کر روئے۔ ان کی یہ ادا مودی کو اتنی پسند آئی کہ وہ اسے یاد کرکے ہاؤس میں تین بار آبدیدہ ہوئے۔غلام نبی آزاد کا کہنا تھا کہ وہ اپنی زندگی میں تین چار بار ہی پھوٹ پھوٹ کر روئے ہیں جن میں ایک موقع ان کی ریاست میں گجراتی سیاحوں کے قتل کا بھی تھا۔ایک ریاستی حکمراں کے طور پر ان کا یہ ردعمل فطری تھا اور یہ ان کی شخصیت کے انسانی پہلو کا بھر پور اظہار بھی ہے۔ اس موقع پر بعض لوگوں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کاش وزیراعظم نریندر مودی بھی گجرات کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے اس وقت ایسا ہی ردعمل ظاہر کرتے جب گجرات میں 2002 میں قتل وغارت گری ہوئی تھی اور سینکڑوں بے گناہ لوگ موت کے آغوش میں چلے گئے تھے۔ اگر وہ کانگریس کے سابق ممبرپارلیمنٹ احسان جعفری کے بہیمانہ قتل پر ہی اظہار افسوس کرتے اور ان کی بیوہ ذکیہ جعفری کو فون کرکے اظہارتعزیت کرتے تو ان کا قد بڑھ جاتا، لیکن افسوس انھوں نے ایسا نہیں کیا اور اس قتل وغارتگری کے خلاف ذکیہ جعفری کی جدوجہد کو ناکام بنانے کی کوششیں کی گئیں۔
غلام نبی آزاد نے مسلم ملکوں کی باہمی چپقلش اور قتل وغارتگری کا حوالہ دیتے ہوئے خود کے ہندوستانی مسلمان ہونے پر فخر کا بھی اظہار کیا ہے۔انھوں نے کہا کہ ”میں ان خوش قسمت لوگوں میں سے ہوں جو کبھی پاکستان نہیں گئے۔ مجھے اپنے ہندوستانی مسلمان ہونے پر فخر ہے۔“ کاش غلام نبی آزاد کایہ دوٹوک بیان حکمراں جماعت کے لوگوں کی سوچ بدلنے میں کارگر ہوسکے جو ہر وقت مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان کھڑے کرتے رہتے ہیں اور انھوں نے پورے نظام کو اپنی اسی فاسد سوچ کے سانچے میں لیا ہے۔
—
نئی دہلی:اے آئی ایم آئی ایم کے صدراورحیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی کورونا وائرس اور چینی حملہ آوروں سمیت دیگرامور پر مستقل طور پر مودی حکومت پر سوال اٹھارہے ہیں ۔ انھوںنے وزیر اعظم نریندر مودی پر طنز کیا ہے۔ اویسی نے وزیر اعظم مودی کے اقوام متحدہ (یو این) سے خطاب پرسوال اٹھایا ہے۔ انہوں نے وزیر اعظم کے دفتر (پی ایم او) کوٹیگ کیاہے اور کہا ہے کہ کیا آپ کی حکومت 80000 کروڑ روپئے کا بندوبست کرے گی۔انھوں نے مودی کے بیان پر کہاہے کہ گھرمیں اندھیراہے اورباہرروشنی بکھیررہے ہیں۔ملک بے روزگاری،معاشی بحران اورطبی بحران سے دوچارہے۔پیسوں کی قلت ہے اوروزیراعظم پوری دنیاکی مددکررہے ہیں۔
احمدبن نذر
جھوٹی کرسی،جھوٹے بھاشن، جھوٹوں کی سرکار پہ لعنت
جھوٹے اینکر،جھوٹے چینل،جھوٹے ہر اخبار پہ لعنت
جھوٹے وعدے،جھوٹی قسمیں،جھوٹی ہر گفتار پہ لعنت
جھوٹوں کی منڈی پہ تھو ہے،جھوٹے کاروبار پہ لعنت
جھوٹے قصّے،جھوٹی باتیں،جھوٹے ہر کردار پہ لعنت
جھوٹوں کی مجلس میں بیٹھے جھوٹوں کے سردار پہ لعنت
جھوٹے سجدے،جھوٹے روزے،جھوٹے ہر افطار پہ لعنت
جھوٹے جبّے،جھوٹی رِیشیں،جھوٹی ہر دستارپہ لعنت
جھوٹے حاکم،جھوٹے منصف،جھوٹے ہر دربار پہ لعنت
جھوٹوں کو جو سچ ٹھہرائیں،ایسے سب اشعار پہ لعنت
عبدالعزیز
11دسمبر 2019ء کو راجیہ سبھا میں شہریت ترمیمی بل 105 ووٹوں کے مقابلے میں 125 ووٹوں سے پاس ہوا۔ دوسرے روز صدر جمہوریہ نے سی اے اے پر اپنی مہر ثبت کردی۔ نوٹیفیکیشن کے بعد اسے قانون کا درجہ حاصل ہوگیا۔ اس کے بعد ہی سے ’سے اے‘ اور’این آر سی‘ کے خلاف احتجاج اور مظاہرے کا سلسلہ شروع ہوا۔ آسام اور دیگر علاقوں میں غیر معمولی احتجاج سے متاثر ہوکر وزیر اعظم نریندر مودی نے این آر سی کے سلسلے میں رام لیلا میدان دہلی میں سفید جھوٹ بولتے ہوئے کہاکہ لوگ این آر سی کے بارے میں بلا وجہ پریشان ہیں جبکہ این آر سی لاگو کرنے کے سلسلے میں نہ کوئی چرچا ہوا اور نہ کہیں اس کے نفاذ پر بات کی گئی اور نہ بحث و مباحثہ ہوا۔ حالانکہ ان کے خاص الخاص اور سائے کی طرح ان کے ساتھ رہنے والے امیت شاہ نے بیسیوں بار بیانات دیئے کہ این آر سی ملک بھر میں لاگو ہوگا اور چن چن کر دراندازوں کو ملک بدر کر دیا جائے گا۔ لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں بھی انھوں نے بیان دیا۔ دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں صدر جمہوریہ نے بھی اپنے خطبے میں این آر سی کے نفاذکا ذکر کیا۔ اتنے بڑے جھوٹ کے بعد ایسا لگتا تھا کہ حکومت پیچھے کی طرف ہٹ رہی ہے، لیکن رام لیلا میدان میں سفید جھوٹ بولنے کے بعد دوسرے ہی دن ’این پی آر‘ کو پاس کرنے کے بعد اندازہ ہوا کہ مودی حکومت چور دروازے سے این آر سی کو نافذ کرنا چاہتی ہے۔ حکومت کے اس اقدام کے بعد عوام میں بے چینی اور اضطراب کی لہر دوڑ گئی۔ این آر سی اور سی اے اے کے خلاف جو احتجاج اور مظاہرے ہو رہے تھے اس میں تیزی آگئی اور وہ زور پکڑتا گیا۔
ایک ڈیڑھ ماہ ہونے کو آیا ہندستان کا پورا ماحول بدل گیا اور حکومت کے مزاج میں بہت حد تک تبدیلی آگئی۔ بات چیت کا انداز بھی بدل گیا۔ پاگل پن کے ساتھ ساتھ ہوش ٹھکانے بھی لگنے لگے۔ اتنی بڑی تبدیلی کیسے آئی؟ دیکھا جائے تو یونہی نہیں آئی۔ اس تبدیلی کیلئے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ آگ کا دریا تھا جسے پار کرنا تھا۔ وہ دریا پار کرنے کیلئے موجودہ ظالم حکومت کا سامنا تھا۔ کشمکش شروع ہوئی، پولس مظالم کا سلسلہ دراز ہوا۔ گولی اور پستول کے استعمال کے ساتھ ساتھ دھمکیوں اور گرفتاریوں کے ذریعہ ڈرانے اور دھمکانے کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ ان سب کے باوجود تحریک اور احتجاج کرنے والوں کے پاؤں لڑکھڑائے نہیں۔ ثابت قدمی کا مظاہرہ ہوتا رہا۔ شاہین باغ جیسا احتجاج پورے ملک میں شہر شہر، گاؤں گاؤں، قصبہ قصبہ ہونا شروع ہوا۔ صرف یوپی میں پچیس سے تیس افراد شہید ہوئے۔ دوسری جگہوں میں چند لوگوں نے شہادت کا جام نوش کیا ہے۔ اس بڑی تبدیلی جس کا ذکر اوپر کی سطروں میں کیا گیا ہے خون و پسینے کا ثمر ہے۔ احتجاج اور مظاہرہ اتنا زور دار ہوگا نہ حکومت کے علم میں تھا اور نہ عوام کے دل و دماغ میں یہ بات تھی۔ اچانک اس کی شروعات ہوئی اور دیکھتے دیکھتے عوامی تحریک اور جدوجہد آج اس مقام پہ پہنچ چکی ہے کہ جو لوگ سیاسی حالات سے نابلد رہتے تھے ان کی بے خبری اس حد تک ہوتی تھی کہ سب کچھ گزر جانے کے بعد بھی وہ سمجھنے سے قاصر رہتے تھے کہ ملک میں کیا ہوا اور ہوگیا ہے۔ اب ایسے لوگ بھی اپنے گھروں، اپنے حجروں سے باہر آگئے۔ فلم انڈسٹری جو ملکی حالات سے لاتعلق تھے وہ بھی ان مظاہروں میں حصہ لینے لگے اور مظلومین کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ ایک ہفتہ پہلے کی بات ہے کہ مشہور تجزیہ نگار اور سماجی کارکن یوگیندر یادو سے خاکسار نے کہاکہ ان کی سمجھ میں یہ بات آرہی ہے کہ ہم لوگ آگے بڑھے ہیں اور احتجاج اور مظاہرین کے دشمن کچھ پیچھے ہٹے ہیں۔ یوگیندر یادو نے کہاکہ بات صحیح ہے لیکن لڑائی لمبی ہے۔
آج (18جنوری) کے ’دی ٹائمس آف انڈیا‘ میں مشہور کہانی نگار، مصنف اور صحافی چیتن بھگت کا ایک مضمون شائع ہوا ہے۔ جس کا عنوان ہے: "Why NRC must be shelved: It will be an expensive, gargantuan, pointless exercise that could trigger civil war in the worst case.” (کیوں نہ این آر سی کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا جائے۔ یہ انتہائی خرچیلا، بے معنی، بے فائدہ عمل ہے جو خرابیِ حالات میں خانہ جنگی کی طرف لے جاسکتا ہے)۔ مضمون کے پہلے ہی پیرا گراف میں چیتن بھگت لکھتے ہیں کہ "NRC has caused huge controversy, polarised opinion, created massive anxiety and made people come out on the streets. The government is now on the back foot. However, it hasn’t done what it should – to officially withdraw it or put it in long-term cold storage.” (این آر سی کی وجہ سے زبردست تنازعہ، خیالات میں انتشار اور بے پناہ بے چینیاں اور اضطراب پیدا ہوا ہے جس کی وجہ سے لوگ سڑکوں پر آگئے ہیں۔ حکومت اس وقت بیک فٹ پر آگئی ہے۔ بہر کیف اسے یہ سب نہیں کرنا تھا اور اب اسے کیا کرنا چاہئے؟ اسے آفیشیلی واپس لے لینا چاہئے یا بہت دنوں تک اسے سرد خانے میں رکھ دینا چاہئے)۔
انھوں نے اپنے مضمون میں موجودہ حکومت کے بہت سے کاموں پر تنقید کی ہے اور اسے غلط اور بے فائدہ کام بتایا ہے۔ این آر سی، سی اے اے اور این پی آر کی مشق کو غیر ضروری قرار دیا ہے۔ آخر میں لکھا ہے کہ "We have an economy to work on, that’s exciting enough and needs to be the number one priority. NRC needs to take a rest for now, officially.” (ہم لوگوں کو معیشت کیلئے بہت کچھ کرنا تھا جو ہمارے لئے بہت جذباتی چیز ہے جو ترجیح اوّل کی حیثیت رکھتی ہے۔ این آر سی کو آفیشیلی آرام دینے کی ضرورت ہے)۔
مسٹر چیتن بھگت ان لوگوں میں سے ہیں جو مودی جی کے بہت گن گاتے تھے لیکن آہستہ آہستہ وہ بھی مودی جی سے متنفر ہوگئے۔ ان کے بے معنی اور بے سود عمل سے ان کو اب چڑ سی ہوگئی ہے۔ اس طرح بہت سے صحافی اور رائٹر ہیں موجودہ حکومت سے متنفر سے ہوگئے ہیں۔ دانشوروں اور سرکاری افسران میں بھی بہت سے لوگ مودی -شاہ کی جوڑی کو ملک اور دستور کیلئے خطرہ سمجھنے لگے ہیں۔ ان کے کاموں کو انسانیت کی تقسیم اور خانہ جنگی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
عدلیہ کا رویہ بہت دنوں سے نامناسب اور مایوس کن تھا، لیکن دو چار دنوں سے عدلیہ میں اور اس کی سوچ میں لگتا ہے کچھ تبدیلی آئی ہے۔ سی اے اے، این آر سی، این پی آر کے سلسلے میں سپریم کورٹ میں 22جنوری کو سماعت ہے۔ سپریم کورٹ اگر آزادانہ ماحول میں بغیر کسی دباؤ اور اثر کے شہریت ترمیمی ایکٹ کو دستور ہند کی روشنی میں جائزہ لے گی تو اس قانون یا ایکٹ کو بغیر کسی پس و پیش کے رد کر دے گی۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ مودی جی شاید سمجھ چکے ہیں کہ ان کے تعلق سے لوگوں کے اندر جو مقبول جذبہ(Popular Sentiment) تھا جو باقی نہیں رہا، لہٰذا Face Saving (بدنامی سے بچنے) کیلئے حکومت عدلیہ سے کچھ اس طرح رجوع کرسکتی ہے کہ اس پر روک (Stay)لگا دی جائے۔ اس طرح حکومت اپنے لوگوں کو یہ سمجھا سکے گی کہ اس نے تو کوشش میں کوئی کمی نہیں کی لیکن عدالت کے فیصلے کی وجہ سے وہ مجبور ہے۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ عدالت کی طرف سے دوسری تاریخ دے دی جائے۔ سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ دے اس کا اثر عوامی تحریک کو قبول نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ لڑائی مودی اور شاہ سے نہیں ہے یا ان کے کسی عارضی کاموں سے نہیں ہے بلکہ ان کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس سے ہے۔ آر ایس ایس کا ایجنڈا ’ہندو راشٹر‘ قائم کرنے کا ہے۔ اقوام متحدہ (UNO) نے آر ایس ایس کے بارے میں یہ رائے دی ہے کہ یہ دہشت گرد تنظیم ہے۔ اس بین الاقوامی ادارے کی رائے بے بنیاد نہیں ہے۔ آر ایس ایس سے منسلک افراد نے 17مقامات پر بم بلاسٹ کئے ہیں۔ سترہ عدالتوں میں آر ایس ایس کے ان لوگوں کے خلاف مقدمات زیر سماعت ہیں۔ (حوالہ: آر ایس ایس ہندستان کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم- مہاراشٹر کے پولس کے ریٹائرڈ آئی جی ایس ایم مشرف)۔
ایس ایم مشرف صاحب نے اپنی ایک تقریر میں کہا ہے کہ ان کی کتاب کو شائع ہوئے پانچ سال سے زیادہ ہوگئے۔ ان کی کتاب کئی زبانوں میں شائع ہوئی ہے، پھر بھی اس کے مندرجات کو کسی نے چیلنج نہیں کیا ہے۔ بعض وجوہ سے آر ایس ایس کے لوگوں کے خلاف زیر سماعت مقدمات کے فیصلے میں دیر یا کوتاہی ہورہی ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظر عوامی تحریک کو اس وقت تک جاری رہنا چاہئے جب تک کہ آر ایس ایس کے اثرات زائل نہ ہوجائیں یا اس کے کالے کرتوتوں کو دنیا اچھی طرح سے سمجھ نہ لے۔ ایک دلت لیڈر نے صحیح کہا ہے کہ مودی یا شاہ تو آر ایس ایس کے مہرہ ہیں۔ یہ ہٹ بھی گئے تو آر ایس ایس کسی اور مودی-شاہ کو بٹھا دے گا۔
عوامی تحریک کی خصوصیت: اس تحریک کی مقبولیت اور شہرت پر دو رائے نہیں ہے لیکن اسے مزید مضبوط و مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس تحریک میں تعداد میں پہل اور پیش قدمی کے لحاظ سے مسلمان زیادہ نظر آتے ہیں۔ اس میں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی سب شامل ہیں۔ یہ کسی ایک فرقہ یا ایک مذہب کی تحریک یا ایجی ٹیشن نہیں ہے بلکہ سارے مذاہب اور فرقوں کی تحریک ہے۔ مسلمان مرد اور عورتیں، یہاں تک کہ بچے، جوان اور طالب علم زیادہ دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے اسے مسلمانوں کی تحریک دشمنانِ جمہوریت یا دشمنانِ تحریک بتانے یا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نریندر مودی نے جو بیان دیا تھا کہ جو لوگ احتجاج کر رہے ہیں ان کو کپڑوں سے پہچانا جاسکتا ہے۔ ان کا اشارہ اسی طرف تھا کہ یہ مسلمانوں کی تحریک ہے۔ لیکن دوسرے مذاہب اور فرقوں کے لوگوں کی شمولیت کی وجہ سے ان کی یا ان کے لوگوں کی بات بے وزن ثابت ہورہی ہے۔ اس تحریک کی سب سے بڑی خوبی یا خاصیت یہ ہے کہ دلتوں کا طبقہ آگے آگے دکھائی دے رہا ہے۔ تعداد میں کمی ہوسکتی ہے لیکن ان کے نوجوان لیڈر بے خوف و خطر اس تحریک کا حصہ بن گئے ہیں۔ یہی چیز مودی اور شاہ کیلئے بڑی الجھن کا باعث بنا ہوا ہے۔ دلتوں کے علاوہ سکھوں نے بھی بحیثیت مجموعی اس احتجاج کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔شاہین باغ کے خواتین کے احتجاج کی یکجہتی کیلئے ریاست پنجاب سے ڈیڑھ سو مرد اور خواتین شاہین باغ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ آئے۔ دلتوں کی شمولیت جذباتی طور پر نہیں ہے بلکہ ان کے ذہن میں یہ بات آگئی ہے کہ سب سے زیادہ غریب اور کمزور طبقہ ہے متاثر ہوگا۔ این آر سی یا این پی آر سے سب سے زیادہ دشواری یا تکلیف دلتوں کو ہوگی۔ یہ پہلا موقع ہے جب دلتوں اور مسلمانوں کے اتحاد کے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی بڑی تعداد میں شریک ہونے لگے ہیں۔
گزشتہ روز ایک کرکٹ میچ کے دوران ممبئی کے اسٹیڈیم میں ہندو مسلم نوجوانوں نے ایک ساتھ مل کر کالے قانون کے خلاف کھڑے ہوکر ایک انوکھا پر امن احتجاج کیا جسے دیکھ کر لوگ حیرت میں پڑگئے۔ ان کے سب کے کپڑے No NRC, No CAA, No NPR لکھا ہوا تھا۔ بہت سے لوگ مسلمانوں کی شمولیت پر چیں بہ جبیں ہیں لیکن ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ مسلمان ہی کالے قانون کے سب سے زیادہ شکار ہوں گے۔ جس پر حملے ہوتے ہیں اس کو اپنے بچاؤ یا دفاع کا پورا حق ہے۔ دلتوں پر جب حملے ہوتے ہیں تو دلت اپنے بچاؤں کیلئے آگے آتے ہیں۔ آدیباسیوں پر حملے ہوتے تو آدیباسی اپنے تحفظ کیلئے سامنے آتے ہیں۔ اسی طرح کوئی بھی طبقہ خواہ مزدوروں کا ہو یا کسانوں کا ہو جب وہ مصیبت کا شکار ہوتا ہے تو اپنے بچاؤ کیلئے سامنے آتے ہیں۔ اتنی بات ضرور ہے کہ ہندو مسلم اتحاد کے ذریعہ جو مظاہرے ہوں گے ان کا اثر اچھا خاصا ہوگا لیکن مسلمانوں کے مظاہرے کو Under Estimate (کمتر) کرنا صحیح نہیں ہے۔ آزادی سے پہلے آزادی کی لڑائی میں خلافت کی تحریک میں مسلمان پیش پیش تھے اور آزادی کی تحریک میں بھی پیش پیش تھے جس کی وجہ سے تحریک کو زبردست تقویت حاصل ہوئی تھی۔ اس وقت کم و بیش وہی مناظر ہیں۔ اتحاد و اتفاق کے ان مناظر کو خدا نظر بد سے بچائے۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068