نئی دہلی:بہار اسمبلی انتخابات سے قبل این ڈی اے میں تنازع پیدا ہوگیا ۔ ایل جے پی نے جے ڈی یو چیف نتیش کمار کی سربراہی میں انتخاب نہ لڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ یہ فیصلہ اتوار کو دہلی میں منعقدہ پارٹی کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا ۔ لوجپا این ڈی اے میں من پسند نشستوں کی عدم فراہمی پر نالاں ہے۔ پارٹی صدر چراغ پاسوان نے کہا کہ ایل جے پی کی کچھ سیٹوں پر بی جے پی کے ساتھ دوستانہ لڑائی ہوگی، لیکن پارٹی لازماً ان تمام نشستوں پر اپنے امیدوار اتارے گی ، جہاں جے ڈی یوکے امیدوار ہوں گے، تاہم خیا ل رہے کہ پارٹی بی جے پی کے ساتھ اتحادبرقرار رکھے گی۔ چراغ پاسوان نے اس سلسلے میں ایک قرارداد منظور کی اور کہا کہ پارٹی کے ممبران اسمبلی وزیر اعظم نریندر مودی کو مضبوط بنانے کے لئے کام کرتے رہیں گے۔ اس تجویز کے ساتھ ، پارٹی نے اس پہلو کو آشکار کرنے کی کوشش کی کہ انتخابات کے بعد ضرورت پڑنے پر ایل جے پی اور بی جے پی بہار میں حکومت سازی کر سکتی ہے ۔پارٹی کے جنرل سکریٹری عبد الخالق نے کہا کہ ریاستی سطح پر اتحاد اور اسمبلی انتخابات میں جے ڈی یو کے ساتھ نظریاتی اختلافات کے سبب لوجپا نے بہار میں الگ سے انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کئی نشستوں پر جے ڈی یو کے ساتھ نظریاتی لڑائی ہوسکتی ہے، تاکہ ان سیٹوں پر عوام فیصلہ کریں گے کہ بہار کے مفاد میں کون سا امیدوار بہتر ہے۔ایل جے پی بہار فرسٹ ، بہاری فرسٹ وژ ن کو نافذ کرنا چاہتی تھی،لیکن بر وقت پر اس تک اتفاق نہ ہوسکا۔ ہمارا لوک سبھا میں بی جے پی کے ساتھ مضبوط اتحاد ہے۔ ہم بہار میں بھی الیکشن لڑنا چاہتے تھے۔ ایل جے پی اور بی جے پی کے مابین کوئی تلخی نہیں ہے اب جب کہ لوجپا نے خود کو الگ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے ، تو بی جے پی اور جے ڈی یو کے لئے سیٹیں بانٹنا آسان ہوجائے گا۔ ذرائع کے مطابق جے ڈی یو اور بی جے پی نے آدھی نشستیں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اسمبلی کی 243 نشستوں پر جے ڈی یو اور بی جے پی 119 – 119 سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کریں گے۔ باقی 5 سیٹیں جیتن رام مانجھی کی ’ہم ‘ پارٹی کے کھاتے میں جائیں گی ۔
نتیش کمار
گپتیشور پانڈے کی سی ایم نتیش سے ملاقات،جدیو میں شامل ہونے کی قیاس آرائیاں تیز
پٹنہ:انتخابی میدان میں اترنے کی قیاس آرائیوں کے درمیان وی آر ایس لینے والے سابق ڈی جی پی گپتیشور پانڈے ریاست کے چیف نتیش کمار سے ملنے کے لئے ہفتہ کے روز جے ڈی یو پارٹی کے دفتر پہنچے۔ اس دوران پارٹی میں میڈیا کے داخلے پر مکمل پابندی عائد تھی۔ جب سابق ڈی جی پی گپتیشور پانڈے نتیش کمار سے ملنے کے بعد باہر آئے تو انہوں نے میڈیا سے بات کی۔ سابق ڈی جی پی گپتیشور پانڈے نے کہاکہ میں نے وزیر اعلی نتیش کمار کے ساتھ کام کیا ہے اور اب میں سبکدوش ہوگیاہوں، لہذا میں ان کا شکریہ ادا کرنے آیا ہوں۔ انتخاب کے بارے میں کوئی بات نہیں ہوئی اور میں نے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ فیصلہ کروں گا توبتادوں گا۔سابق ڈی جی پی گپتیشور پانڈے نے سی ایم نتیش کمار کی تعریف کرتے ہوئے کہاکہ انہوں نے مجھے کام کرنے کی مکمل آزادی دی ،اس لیے ان کا شکریہ ادا کرنے آیاہوں لیکن کوئی سیاسی بات نہیں ہوئی۔جے ڈی یو میں شمولیت کے سوال پر انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ابھی کوئی فیصلہ نہیں لیا گیا ہے۔واضح رہے کہ ایک طویل عرصے سے گپتیشور پانڈے کے انتخاب لڑنے کی بحث زوروں پر ہے۔ گرچہ گپتیشور پانڈے نے ابھی تک اس حقیقت کو قبول نہیں کیا ہے، لیکن اس کو مسترد بھی نہیں کیا ہےاور اب ان کے جدیو میں شامل ہونے کی اٹکلیں تیز ہو گئی ہیں۔
پٹنہ:مودی حکومت زراعت سے متعلق تینوں بل پارلیمنٹ سے منظور کرانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ نتیش کمار کی پارٹی جے ڈی یومودی سرکار کے اس فیصلے پر ساتھ ہے جبکہ اس معاملے پر شرومنی اکالی دل نے حکومت چھوڑ دی ہے۔ جے ڈی یو نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اس بل کی حمایت کی ہے۔ کسانوں کی تنظیمیں بل کے خلاف سڑک پر اکٹھی ہوگئی ہیں۔ ایسی صورتحال میں جے ڈی یو اب بی جے پی سے مختلف لہجے میں بول رہی ہے اور ایم ایس پی گارنٹیوں کامطالبہ اٹھارہی ہے۔ کسان مودی حکومت کے ذریعہ لائے گئے زرعی اصلاحاتی قانون کو اپنے مفاد میں نہیں مان رہے ہیں۔کسان ان تینوں بلوں کے خلاف ناراض ہیں اور متحدہوکر آواز اٹھا رہے ہیں۔کسان تنظیموں نے اس کے خلاف احتجاج کے لیے 25 ستمبر کو بھارت بند کا مطالبہ کیا ہے۔ نہ صرف کسان تنظیمیں بلکہ اپوزیشن جماعتیں بھی زرعی بلوں کے بہانے مودی سرکار کے خلاف متحرک ہو رہی ہیں۔ ایسی صورتحال میں جے ڈی یوپربھی سوالات اٹھ رہے ہیں جو کسانوں کو فائدہ پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں جس کی وجہ سے پارٹی نے اب یو ٹرن لے لیا ہے۔کسانوں کے معاملے پر جے ڈی یو نے اپنارویہ اسی طرح تبدیل کیا ہے جیسے سی اے اے اور این آر سی کے معاملے پر یو ٹرن لیا تھا۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں جے ڈی یونے سی اے اے کی طرح زرعی بل کی حمایت کی ہے۔اب اس کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے میں کسان تنظیموں کے مطالبے کے ساتھ کھڑی ہے۔
معاون مدرس مدرسہ اسلامیہ تریاواں سہرسہ
وزیر اعلیٰ بہار عزت مآب جناب نتیش کمار نے جہاں سڑک و صحت کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں، وہیں تعلیم کے سدھار کی طرف بھی خصوصی توجہ دی ہے ، خاص طور پر مدرسہ بورڈ سے ملحق مدارس اسلامیہ کی تعلیم کی طرف جس کے نتیجے میں بورڈ کا نظام بھی چست درست ہو ا اور مدارس کا نظام تعلیم بھی بہتر ہوا ، بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ، اپنی سرگرمیوں ، کار کردگیوں اور حصولیابیوں کی وجہ سے اپنی ایک خاص پہچان بنا چکا ہے ، انتظام و انصرام کی درستگی اور معیار تعلیم کے لحاظ سے بورڈ رول موڈل کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے عزم و حوصلے کے ساتھ قوم و ملت کے نونہالوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے کی مخلصانہ اور ایماندارانہ کوششوں نے ادارے کو ترقی کی راہ پر ڈال دیا ہے ، ڈیڑ ھ سال کی کار کردگی کی بنیاد پر کھویا ہوا وقار واپس ہوا ، اور قوم و ملت کا اعتماد بحال ہوا جو اپنے آپ میں ایک قابل فخر بات ہے ۔ بورڈ کی اس تاریخی کامیابی کا سہرہ موجودہ فعال اور متحرک چیئر مین عبد القیوم انصاری صاحب کے سر ہے کہ انہوں نے بہت تھوڑے عرصے میں بورڈ سے ملحق تمام مدارس ، جملہ اساتذہ ، زیر تعلیم طلبہ و طالبات کے حق میں ٹھوس اور مضبوط قدم اٹھائے ہیں ۔
جناب عبد القیوم انصاری صاحب کو جب سے چیئر مین بنایا گیا مثبت سوچ اور تعمیری جذبے کے ساتھ آگے بڑھتے رہے ، محنتی اور مخلص لوگوں کو ٹیم میں شامل کیا ، خود مسلمانوں سے بورڈ کو جو نقصان پہنچ رہا تھا انہیں باہر کا راستہ دکھایا ، محترم چیئر مین صاحب نے قومی مفاد اور اپنے اصول سے کسی طرح کا کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ، بورڈ کو ہر جہت سے مضبوط و منظم کرنے کا بیڑا اٹھایا ، جدید ٹیکنا لوجی سے آراستہ کیا ، ترقیاتی منصوبے بنائے ، برسوں سے پڑے ہوئے کاموں کو نمٹایا ، بورڈ کی یہ حصولیابیاں ممکن نہیں ہوتیں اگر بہار کے موجودہ معزز وزیر اعلیٰ نتیش کمار اور وزیر تعلیم کرشن نندن پرساد ورما کی توجہ خاص اور تعاون ساتھ نہیں ہوتا ، مدرسہ بورڈ کی نمایاں کامیابی میں بورڈ کے سکریٹری جناب محمد سعید انصاری صاحب کی فکر مندی اور محنت کے ساتھ ساتھ مخلص کار کنان کی کد و کاوش اور جہد مسلسل کا اہم رول ہے ، موجودہ چیئر مین صاحب نے مدرسہ بورڈ کو بد عنوانی سے پاک کیا ، امتحانات میں بڑے پیمانے پر گڑبڑی ہوتی تھی اس کے طریقہ کار کو چست و درست کرنے کی کوشش کی ، وقت پر امتحانات منعقد کرائے گئے ، اساتذہ کی شرح تنخواہ بہت کم تھی اور وہ بھی وقت پر نہیں ملتی تھی ، اساتذہ و ملازمین کی شرح تنخواہ میں اضافہ ہوا اور وقت پر تنخواہ ملنے لگی ، بورڈ کی کار کردگی کو بہتر بنانے کے لئے علاقائی دفتر پورنیہ کا قیام عمل میں آیا اور اس کے لئے 1 کڑوڑ80 لاکھ رپئے مختص کئے گئے ، جس سے علاقائی لوگوں کو بہت سہولت میسر ہوئی ، وسطانیہ ، فوقانیہ اور مولوی کے لئے آن لائن فارم بھر نے کا سلسلہ شروع ہوا ، آن لائن ایڈمٹ کارڈ دیا جانے لگا ساتھ ہی ان درجوں کے امتحانات کے رزلٹ مدرسہ بورڈ کے ویب سائٹ پر شائع کیا جانے لگا ، آن لائن مارک شیٹ بھی جاری کیا جانے لگا ، جس سے طلبہ و طالبات کو راحت ہوئی اور بہت سی پریشانیوں سے چھٹکارا ملا ۔
واضح ہو کہ درجہ وسطانیہ ، فوقانیہ اور مولوی امتحانات سال 2020 ء وقت پر ہونے اور 14 مارچ کو رزلٹ جاری کرنے میں محترم چیئر مین کی کاوشوں اور کنٹرولر آف اکزامنیشن جناب محمد اعجاز احمد کی دلچسپی اور کارکنان کی لگن شامل ہے ، جیسا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ کر اس سال تمام بورڈ اور یونیور سیٹی کے امتحانات اور رزلٹ میں تاخیر ہوئی ہے ۔ درجہ فوقانیہ میں اول پوزیشن لانے والے طلبہ و طالبات کو 10000/- اور درجہ مولوی میں اول پوزیشن لانے والی طالبات کو 15000/- حوصلہ افزائی رقم دیا جاتا ہے ۔جس کی ادائیگی دفتر محکمہ اقلیتی فلاح و بہبود کے ذریعہ ہوتی ہے ۔ تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لئے مدرسہ بورڈ کی جانب سے اساتذہ کو ٹریننگ دی گئی ، قوم کے نونہالوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے تعلیم نو بالغان کا کورس شروع کیا گیا ، ماہرین تعلیم کی نگرانی میں بورڈ کا جدید نصاب تیار کیا گیا ۔محترم جناب چیئر مین صاحب کا خوش آئند قدم یہ بھی ہے کہ مدرسہ بورڈ کے نصاب کی کتابیں جو دینی و عصری تعلیم دونوں کا سنگم ہیں ، بورڈ کے تمام ملحقہ مدارس تک پہنچائی جا رہی ہیں جو بورڈ کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے ، بورڈ کی 100 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ نمایاں کام انجام دیا جا رہا ہے ۔بہار کے 1128 مدارس میں کمپیوٹر فراہم کرانے کے تعلق سے کمپیوٹر دفتر مدرسہ بورڈ میں آچکا ہے۔جس کی تقسیم کا سلسلہ گزشتہ 23/09/2020 سے شروع ہو چکا ہے ۔ جلد از جلد 1127 زمرے کے سبھی مدارس کو کمپیوٹر فراہم کرایاجائے گا۔ کرونا مہاماری میں طلبہ و طالبات کا تعلیمی نقصان نہ ہو اس بات کو ملحوظ رکھتے ہوئے آن لائن کلاسیز شروع کئے گئے ، جس سے کثیر تعداد میں طلبہ و طالبات مستفید ہو رہے ہیں ۔ آفات و ناگہانی مصائب سے کس طرح نمٹا جائے اور اس مصیبت کی گھڑی میں لوگوں کی کس طرح مدد کی جائے اس مقصد کے تحت پانچ ہزار اساتذہ کو ٹریننگ دی گئی طلبہ و طالبات کے لئے ڈریس کوڈ نافذ کیا گیا تاکہ تعلیم کے ساتھ شعوری طور پر اپنے تہذیبی قدروں سے رشتہ برقرار رہے ، فضا کو آلودگی سے بچانے اور آب و ہوا کو مزید خراب ہونے سے بچانے کے لئے مدارس میں شجر کاری کی جارہی ہے ۔
بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجو کیشن بورڈ کو مزید ترقی دینے کے لئے بہت سے نئے منصوبے بنائے گئے اور وعدے کئے گئے ہیں بلکہ چند دنوں پہلے کچھ منصوبوں کا معزز وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے ہاتھوں افتتاح کیا گیا ہے ، جس سے یہ امید ہوتی ہے کہ ان منصوبوں پر عملی اقدام کا ارادہ ہے ، خدا کرے کہ ان منصوبوں کو پوری نیک نیتی کے ساتھ زمین پر اتارا جائے تاکہ بورڈ کی کار کر دگیوں اور حصولیابیوں کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جائے ۔
بہار اسمبلی الیکشن میں مجلس کی ’سیریس انٹری ‘سے وہاں کا سیاسی منظرنامہ خاصا ہنگامہ خیز ہوتا جارہا ہے۔ کل اویسی نے دویندر یادو کی پارٹی کے ساتھ اتحاد کرکے اور اس کے دائرے کو مزید وسیع کرنے کا عندیہ دے کر معاملے کو اور بھی توجہ طلب بنادیا ہے۔
یہ صورت حال دو پارٹیوں کے لیے سب سے زیادہ تشویشناک ہے،ایک آرجے ڈی اور دوسری جے ڈی یو۔ چوں کہ اب تک بہار کے مسلمان زیادہ تر انہی دو پارٹیوں کو ووٹ دیتے آرہے ہیں،کانگریس ایک عرصے سے وہاں قابلِ ذکر پوزیشن میں نہیں ہے اور بی جے پی کو تو خیر مسلم ووٹ کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ نتیش کمار نے جو لگاتار تین بار کامیابی حاصل کی،اس میں ان کے اپنے سیاسی توڑ جوڑ کے علاوہ مسلم ووٹ کا بھی خاص کردار رہا،انھوں نے اپنے دورِ حکومت میں کچھ اہم اور بنیادی انفراسٹریکچر سے جڑے ہوئے کام بھی کروائے ،اس کا بھی انھیں فائدہ ہوا،’سوشاسن بابو‘انھیں لقب بھی مل گیا۔ البتہ 2015میں ان کو کامیابی عظیم اتحاد کے پلیٹ فارم سے ملی تھی،جس سے انھوں نےسال ڈیڑھ سال بعد ہی پلہ جھاڑ لیا اور واپس این ڈی اے میں چلے گئے۔ اس کے بعد موجودہ مرکزی حکومت کی سربراہی میں خصوصاً مسلمانوں کے حوالے سے جو متعصبانہ اقدامات سامنے آئے،ان میں خود نتیش بھی شامل رہے،تین طلاق کے معاملے میں انھوں نے تگڑم سے کام لیا،این آرسی ؍سی اے اے کے مسئلے پر بی جے پی کے ساتھ گئے،حالاں کہ پچھلے دنوں این پی آر پر اسمبلی سے انھوں نے تجویز پاس کروالی ہے کہ اس کا فارمیٹ پہلے جیسا ہی ہوگا،اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔مگر دیگر کئی معاملوں میں انھوں نے یا تو اپنے موقف کو واضح نہیں کیا یا اندر خانہ مرکزی حکومت کی حمایت کی۔ ادھر کچھ دنوں سے بہار کے مختلف اضلاع میں فرقہ وارانہ فسادات کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے،ان سارے واقعات نے بہار کے مسلمانوں کو نتیش کمار کے تئیں بہت حد تک بد گمان کردیا ہے اور اب وہ کسی متبادل کی تلاش میں ہیں،مگر کیا وہ متبادل آرجے ڈی یا اس کی سربراہی میں قائم ہونے والا متوقع عظیم اتحاد ہو سکتا ہے،جس کے خط و خال تا حال واضح نہیں ہیں؛بلکہ خود آرجے ڈی کے کئی سینئر رہنما پارٹی سے روٹھ کر اِدھر اُدھر جا چکے یا اس کی تیاری میں ہیں؟ ایک قدآور آرجے ڈی لیڈر بابو رگھوونش پرساد تو پارٹی سے ناراضی کے ساتھ ہی آں جہانی ہو چکے ہیں،حالاں کہ دَل بدلنے کا یہ سلسلہ این ڈی اے کی پارٹیوں میں بھی چل رہا ہے،مگر من حیث المجموع یہاں جے ڈی یو اور بی جے پی مضبوط پوزیشن میں ہیں،جبکہ عظیم اتحاد کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا،اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
لا لویادو کی عدم موجودگی میں نہیں لگتا کہ تیجسوی یادو عظیم اتحاد کے قیام اور اسے کماحقہ مینج کرسکنے کی پوزیشن میں ہیں،اس کی ایک جھلک ہم نے پچھلے سال لوک سبھا انتخاب میں دیکھی بھی ہے کہ تیجسوی اینڈ کمپنی نے بہت ہی بری چال چلی اور بے تدبیری،تجربے کی کمی اور ابلہانہ طریقِ کار کے کئی مضحکہ خیز نمونے دیکھنے کو ملے،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوک سبھا الیکشن میں بہار کی چالیس سیٹوں میں سے انتالیس پر این ڈی اے کو کامیابی ملی اور پانچ چھوٹی بڑی پارٹیوں کے اتحاد نے مل کر صرف ایک سیٹ پر کامیابی حاصل کی۔ابھی اسمبلی الیکشن سے قبل جس طرح کی صورت حال ہے،اس میں مجھے نہیں لگتا کہ حالات بہت کچھ بدل سکیں گے،تیجسوی یادو سے لوگوں کو بڑی امیدیں تھیں،مگر ان کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ نہ تو وہ اپنی پارٹی کے بڑے اور تجربہ کار لیڈروں کو کنونس کر سکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ ہی اتحادی جماعتوں کو مطمئن کرسکنے کی پوزیشن میں ہیں،اسی وجہ سے جیتن رام مانجھی عظیم اتحاد میں شامل ہوتے ہوتے رہ گئے،انھوں نے الیکشن سے پہلے پھر این ڈی اے کا دامن تھامنے میں عافیت سمجھی ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ لالو یادو کی ضمانت کی کوششیں پھر سے تیز ہو گئی ہیں،اگر وہ الیکشن سے قبل کچھ دنوں کے لیے بھی باہر آسکیں،تو کچھ امید کی جا سکتی ہے۔
مجلس اتحاد المسلمین کے ذریعے بہار الیکشن میں ایک نیا محاذ کھولنے کی کوششیں آرجے ڈی اور جے ڈی یو دونوں ہی کے لیے خطرے کی گھنٹی ثابت ہوسکتی ہیں؛کیوں کہ اکیلے بھلے ہی مجلس کچھ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکے؛لیکن اگر مسٹر اویسی بہار کی دوسری پارٹیوں کے ساتھ ایک قابلِ ذکر اور مؤثر اتحاد قائم کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں،تو اس کا نتیجہ یقیناً زمینی سطح پر نظر آئے گا،اسی لیے آرجے ڈی اور جے ڈی یو کے مسلم رہنما خاص طورپر پیچ و تاب کھا رہے ہیں۔کل19ستمبر کو جہاں اویسی اور دویندر یادو نے اپنے اتحاد کا اعلان کیا،وہیں کل ہی جے ڈی یو کے ایم ایل سی خالد انور کی سربراہی میں ’ مسلمانوں کی ترقی میں نتیش کمار کا کردار‘ کے عنوان سے ایک ورچوئل کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں بہار کے بہت سے اضلاع سے مسلم لیڈران اور عوام نے شرکت کی اور اس میں نتیش حکومت کے وزرا اشوک چودھری،نیرج کمار اور ایم ایل اے نوشاد عالم،ماسٹر مجاہد وغیرہ نے خطاب کیا اور سبھوں نے نتیش کے دورِ حکومت میں مسلمانوں کے لیے کیے جانے والے اقدامات اور منصوبوں کاگن گان کیا۔کل ہی ایک یوٹیوب چینل پر آرجے ڈی کے ریاستی یوتھ صدر قاری صہیب کی ساڑھے پانچ منٹ کی بات چیت دیکھنے اور سننے کو ملی،جس میں قاری صاحب اویسی اور مجلس پر بے پناہ غصے کا اظہار کررہے ہیں اور غصے میں انھوں نے بعض ایسی باتیں بھی کہی ہیں،جن کی ایک بڑی پارٹی کی نمایندگی کرنے والے شخص سے توقع نہیں کی جاسکتی،انھوں نے ایک جذباتی مقرر کی طرح بولتے ہوئے کہا کہ مجلس ٹی بی کے مرض کی طرح ہے،وہ مسلم نوجوانوں کو بارود کے ڈھیر پر کھڑا کررہی ہے،وہ مسلم نوجوانوں کے ہاتھ سے قلم چھین کر تلوار پکڑا رہی ہے وغیرہ وغیرہ ۔دو مختلف پارٹیوں کا باہمی سیاسی اختلاف کوئی اچنبھے کی بات نہیں،مگر اس اختلاف کے اظہار کا سلیقہ ہوتا ہے،ہمارے پٹنہ ہی کے شہرۂ آفاق شاعر کلیم عاجز کہہ گئے ہیں:
بات چاہے بے سلیقہ ہو کلیم
بات کہنے کا سلیقہ چاہیے
اس قسم کی گفتگو آرجے ڈی کے حق میں قطعی نہیں جا سکتی،البتہ اس سے پارٹی کو نقصان ہونے کا امکان ایک سو ایک فیصد ہے۔ اویسی سے ملک کے بے شمار مسلمانوں کو اختلاف ہے اور ان کی بہت سی باتیں،آرا قابلِ اختلاف ہیں بھی،مگر اس کی وجہ سے کیا یہ کہنا درست ہے کہ مجلس مسلم نوجوانوں کے ہاتھ میں تلوار تھما رہی ہے؟آپ کو اندازہ بھی ہے کہ محض پارٹی میں سرخروئی حاصل کرنے کے لیے کہی گئی آپ کی اس بات کا اثر کتنا گہرا اور دور رس ہو سکتاہے؟اگر آرجے ڈی اسی قسم کے مسلم نیتاؤں کو آگے بڑھا کر مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے،تو پھر اسے اپنی خیر منانی چاہیے!
پٹنہ:بہارسرکارنے گزشتہ برس اردو مترجم،معاون مترجم کی آسامی نکالی جس کی چوطرفہ تحسین کی گئی۔جدیوکے مسلم ممبران اسمبلی اسے نتیش سرکارکے سیکولرزم سے جوڑنے لگے۔لیکن تاحال بحالی تودور،امتحان تک نہیں ہوئے ہیںجس سے اس الزام کوتقویت مل رہی ہے کہ نتیش حکومت اردوکے لیے اورمسلمانوں کے لیے کچھ کرنانہیں چاہتی ہے بلکہ انتخابی موسم میں صرف لالی پاپ دے رہی ہے۔ اپریل میں امتحان ہوناتھاجسے لاک ڈائون کی وجہ سے ملتوی کردیاگیا،پھر اگست کی متعدد مجوزہ تاریخیں آئیں لیکن یہ سب تاریخیں گزر گئیں اوربہار سرکار،بہار اسٹاف سلیکشن کمیشن نے یہ بتانے کی بھی زحمت نھیں کی کہ ان تاریخوں میں امتحان نہیں ہوگا اور ہوگا تو کب ہوگا۔لاک ڈائون کابہانہ کیاجائے گا،لیکن اسی بہاراسٹاف سلیکشن کمیشن کی ویب سائٹ مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے اوردیگرامتحانات اورنوٹیفکیشن آرہے ہیں۔چنانچہ اگست میں یکم، پانچ، چھ، سات، اٹھارہ،انیس،بائیس،چوبیس،پچیس اوراٹھائیس تاریخوں کے نوٹیفکیشن ویب سائٹ پرموجودہیں ،یہی نہیں،تین ستمبرکوبھی تین نوٹیفکیشن آئے ہیں،لیکن اردوکے لیے فرصت نہیں ہے اورمترجم ومعاون مترجم کی آسامی پربحالی کے حوالے سے پراسرارخاموشی ہے۔ہاں جے ای ای،نیٹ کے ایکزام اورالیکشن کے لیے کورونا نہیں ہے ،بہارسرکاراس کے لیے تیارہے لیکن اردو مترجم کے امتحان کرانے میں کورونا ہے؟جدیوکے جومسلم لیڈران کل ویکنسی آنے پراچھل کودکررہے تھے،اورنتیش کوسیکولرزم کاسورمابتارہے تھے ،آ ج وہ خاموش ہیں۔سوشل میڈیاپرمسلمانوں کی طرف سے سخت ناراضگی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔لوگوں کاکہناہے کہ مطلب صاف ہے نتیش حکومت کرناکچھ نہیں چاہتی ہے بس الیکشن کے لیے لالی پاپ دے رہی ہے۔ویسے بھی اسکول میں اردو کے حوالے سے سرکاری نوٹیفیکیشن سے نتیش سرکار کی اردو بلکہ مسلم دشمنی پرمسلسل سوال اٹھ رہے ہیں۔
بہار اسمبلی الیکشن جوں جوں قریب آرہاہےبہارکاسیاسی منظر نامہ بھی بدلتاجارہاہے اس الیکشن میں سب سے زیادہ کنفیوژ مسلم ووٹران ہیں کیوں کہ 2015کے اسمبلی انتخاب میں مسلمانوں نے متحد ہوکر عظیم اتحاد کو جتانے کاکام کیاتھا لیکن اس مرتبہ جدیو اور آرجے ڈی کے آپسی اختلاف کے بعد بہارکاسیاسی منظرنامہ بدل چکاہے اور ابھی تک یہ اندازہ لگانامشکل ہے کس پارٹی کا سیاسی مستقبل روشن ہے۔
جو حال اِدھر کاہے وہی حال اُدھر کابھی ہے،عین الیکشن سے قبل آپسی اختلافات کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ این ڈی اے کاایک اہم حصہ مانے جانے والے رام ولاس پاسوان کی پارٹی نے اپنا تیور دیکھانا شروع کردیاہے جو اس بات کی علامت ہے کہ این ڈی اے میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے اور انہیں بھی ہار کی فکر ستانے لگی ہے۔نتیش کمار نے بھلے ہی ایک کامیاب وزیراعلی کی شناخت بنانے میں کافی حد تک کامیابی حاصل کی ہے لیکن اپنے نظریات اوروعدے کو لیکر اب وہ صرف مشکوک نہیں بلکہ ناقابل اعتباربھی ہوگئے ہیں،بی جے پی سے ملنے کے بعد کئی مواقع پر ان کی پالیسی اور فیصلے سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ وہ وزیراعلی بنے رہنے کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں ان کے نزدیک وزیراعلی کی کرسی اہم ہے پارٹی کاانتخابی منشور،ایجنڈہ اور نظریات کوئی معنی نہیں رکھتے ہیں۔
اس وقت بہار میں دو نظریات کے لوگ ہیں ایک مودی نواز اور دوسرے سیکولر مزاج اس الیکشن میں ان دونوں کے درمیان ہی ہارجیت کی لڑائی ہے۔اسمبلی الیکشن سے قبل موسمی پارٹیوں کی لائن لگ گئی ہے،ہر پارٹی اپنی جیت کی دعویداری کررہی ہے،این ڈی اے،گٹھبندن اوراب تیسرے مورچے میں کن کن پارٹیوں کی شمولیت ہوتی ہے وہ بیحد اہم ہےـ جب تک ان سیاسی پارٹیوں کاآپسی اتحاد صاف نہ ہوجائے تب تک کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔
بہار میں چار بڑی پارٹیاں راجد،جدیو اور بی جے پی وکانگریس کے رہتے ہوئے کئی اہم لیڈر ان مل کر تیسرے مورچہ پر بہت محنت کررہے ہیں اس میں کئی علاقائی پارٹیوں کو جوڑنے کی کوشش ہورہی ہے لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیایہ آئیڈیا کامیاب ہوپائے گا؟ کیوں کہ بہار کاسیاسی منظرنامہ سب کے سامنے ہے اور سب کی نگاہیں مسلم اور دلت ووٹران پر ہی ہیں ایسے میں تیسرا مورچہ جس کی سربراہی یشونت سنہاکررہے ہیں اس میں مانجھی، پپویادو،مجلس، ایس ڈی پی آئی سمیت کئی پارٹیوں کو جوڑنے کی کوشش ہورہی ہے۔تیسرے مورچہ کی تشکیل ایک سیاسی پالیسی کے مطابق بھی ہوسکتی ہے جس کاواحد مقصد سیکولر ووٹ کو تقسیم کرناہے۔
ابھی بہار اسمبلی الیکشن میں وقت ہے ایسے حالات میں ہم بہار کے مسلمانوں اور عام ووٹران سے یہی کہناچاہیں گے کہ قبل از وقت فیصلہ کرنا عقل مندی نہیں ہے صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کرناہے اور جس پارٹی میں بی جے پی کو ہرانے کی صلاحیت ہے اسے جتانے کاکام کرناہے کیوں کہ بہار اسمبلی الیکشن ملک کاسیاسی مستقبل طے کرنے والاہے اس لئے اس مرتبہ بہار کی عوام کی ذمہ داری اور جواب دہی مزید بڑھ گئی ہے کہ انہیں سوچ سمجھ کر فیصلہ لیناہے اور ایک ایسی حکومت بنانی ہے جسے بہار کی ترقی کی فکر ہو اور واقعتااس میں کام کرنے کی صلاحیت ہو۔
راحت اندوری کے انتقال پرراج ناتھ سنگھ،نتیش کمار،شیو راج سنگھ چوہان اوراروندکجریوال کااظہارتعزیت
نئی دہلی:مشہور شاعر راحت اندوری کا انتقال ہوگیا۔ کوویڈ۔19 کی تصدیق کے بعد70 سالہ راحت اندوری کو رات گئے اسپتال میں داخل کرایاگیاتھا۔ جہاں انہوں نے آج آخری سانس لی ہے۔ سیاست ،فلم ،ادب کی مشہورشخصیات نے ان کی وفات پرگہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔راہل گاندھی ،راج ناتھ سنگھ ،نتیش کمار،شیوراج سنگھ چوہان اوراروندکجریوال نے تعزیت کااظہارکیاہے ۔راہل گاندھی نے لکھاہے کہ اب میں نہ میں ہوں اور نہ باقی ہیں زمانے میرے۔ پھربھی مشہورہیںشہروں میں فسانے میرے۔الوداع ، راحت اندوری صاحب۔وزیردفاع راج ناتھ سنگھ نے ان کی موت پر غم کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مقبول شاعر راحت اندوری کے انتقال کی خبر سے مجھے شدید رنج ہواہے۔ وہ اردو کی پرجوش شخصیت تھے۔ اپنی یادگار شاعری سے انہوں نے لوگوں کے دلوں پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ آج ادبی دنیا کو ایک بہت بڑا نقصان ہوا ہے۔ غم کی اس گھڑی میں ان کے چاہنے والوں کے ساتھ میری تعزیت ہے۔مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے ٹویٹرپرانہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھاہے کہ لاکھوں دلوں پر اپنی شاعری سے راج کرنے والے مشہور شاعر ہردل عزیز راحت اندوری کی موت مدھیہ پردیش اور ملک کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے۔ میں خدا سے دعاگوہوں کہ وہ ان کی روح کو سکون عطا کرے اور ان کے اہل خانہ اور پیاروں کو یہ بے حد غم برداشت کرنے کی توفیق عطاکرے۔شیو راج سنگھ نے شعر کے ذریعہ اظہار تعزیت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ راحت ، آپ ہمیں اس طرح چھوڑ دیں گے ، یہ سوچا نہیں تھا۔راہ کے پتھرسے بڑھ کرکچھ نہیں ہیں منزلیں ،راستے آوازدیتے ہیں،سفرجاری رکھو،ایک ہی ندی کے ہیں یہ دوکنارے ،دوستو،دوستانہ زندگی سے موت سے یاری رکھو۔آپ جس بھی دنیا میں ہیں ، سلامت رہیں ، سفرجاری ہے۔ دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے ٹویٹرپرلکھاہے کہ مشہورشاعر راحت اندوری صاحب کی موت کی خبر سن کر بہت افسوس ہوا۔ آج ملک نے ایک عظیم شخصیت کھو دیاہے۔ ان کی روح کو سکون ملے اور کنبہ کو یہ غم برداشت کرنے کی توفیق عطا کرے۔
پٹنہ: بہار کے وزیراعلیٰ اورجنتا دل یونائیٹڈ کے سربراہ نتیش کمار نے وزیر اعظم نریندر مودی سے قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے)کا ہنگامی اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ نتیش کمارکا کہنا ہے کہ وزیر اعظم متنازعہ امور پر اتفاق رائے کے لیے اتحادیوں کا اجلاس طلب کریں۔ انہوں نے کہاہے کہ جے ڈی یو موجودہ سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کے لیے این ڈی اے کے فوری اجلاس کا مطالبہ کرتی ہے۔اس سے پہلے کل بہارکی جماعت اسلامی،جمیعة علمائ،جمیعة اہل حدیث اورامارت شرعیہ کے قائم مقام ناظم نے امیرشریعت مولانامحمدولی رحمانی کی سربراہی میں نتیش کمارملاقات کی تھی،جس میں نتیش کمارنے کسی بھی قیمت پر،چاہے بی جے پی کے ساتھ اتحادرہے یانہ رہے،این آرسی لاگونہ کرنے کے اپنے فیصلے سے آگاہ کیا،ساتھ ہی وزیراعلیٰ نے وعدہ کیاکہ این آرسی بل آنے کی صورت میں این ڈی اے کی تمام پارٹیوں کومخالفت کرنے کے لیے تیارکریں گے اورشہریت ترمیمی قانون پربی جے پی پردباؤبنانے کے لیے اپنے طورپرکوشش کریں گے۔وفدنے وزیراعلیٰ کوبہارکے مسلمانوں کے احساسات سے واقف کرایااورکہاہے کہ آپ پرکسی بھی صورت میں بھروسہ کرنامشکل ہے،جس پروزیراعلیٰ نے اپنے اقدامات کی یقین دہانی کرانی کی کوشش کی ہے۔ آپ کو بتادیں کہ جے ڈی یو نے پارلیمنٹ میں شہریت ترمیمی بل کے حق میں ووٹ دیاتھا۔ تاہم،پارٹی کے نائب صدر پرشانت کشورکے شہریت کے قانون اور این آر سی کی مخالفت کرنے کے بعد بہار کی سیاست میں ہلچل بڑھ گئی۔ انہوں نے جے ڈی یو کی پارلیمنٹ میں شہریت کے قانون کی حمایت کی مخالفت کی۔پٹنہ میں وزیراعلیٰ سے ملاقات کے بعد ، پرشانت کشور نے کہا تھا کہ نتیش کمار این آر سی کے خلاف ہیں۔ تب پرشانت کشور نے واضح طور پر کہا تھا کہ سی اے اے کو این آر سی سے جوڑنے سے دشواری میں اضافہ ہوگا۔ کشور نے اس وقت کہا تھا کہ نتیش نے وعدہ کیا ہے کہ بہار میں این آر سی لاگو نہیں ہوگا۔اس کے بعد ، سی ایم نتیش کمار نے بہارمیں این آرسی کے نافذنہ کرنے اعلان کیا۔جنتا دل (یونائیٹڈ) کے سربراہ نتیش کمار ، جو شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کی حمایت کر رہے ہیں، نے جمعہ کے روز پٹنہ میں صحافیوں کو بتایا کہ بہار میں این آر سی کا اطلاق نہیں ہوگا۔
شمیم اکرم رحمانی
سیاسی جماعتوں کے مسلم لیڈران کاہمیشہ سے یہ المیہ رہاہے کہ یہ لوگ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد یا کسی سیاسی عہدہ پر براجمان ہوجانے کے بعد مسلمان نہیں رہتے ؛بلکہ پارٹی کے وفادار غلام بن زندگی گزارتے ہیں ،ان کے لیے خدا ،رسول، قرآن اور ایمان بہت بعد کی چیزیں ہوتی ہیں یا وہ بھی نہیں ہوتیں، ان کا چلنا ،بیٹھنا، اٹھنا، بولنا اور خاموش رہنا پارٹی کے طے شدہ ایجنڈے کے تحت ہوتاہے اور وہ بھی ایمان کی قیمت پر، قوم ملک اور ملت کےلئے ہرگزنہیں ،دو تین لوگوں کے استثنا کے ساتھ یہی اب تک کی تاریخ رہی ہے۔
تازہ معاملہ نتیش کمار کے ایک مسلم ایم ایل سی صاحب کہاہے ،جناب مولانا یاسر ندیم الواجدی کے شو میں تشریف لائے والےتھے ،جہاں لائیو انہیں این آرسی کے تعلق سے گفتگو کرنی تھی؛ لیکن جب پروگرام کا وقت ہوا، تو اچانک معذرت خواہ ہوئے، وجہ یہ بتائی کہ اس معاملے میں پارٹی کااسٹینڈ کلیر نہیں ہے؛ بلکہ اس سے آگےبڑھ کر ڈھٹائی سے یہ بھی کہا کہ این آرسی مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے، مولانا واجدی نے اس ریکارڈنگ کو ایک وڈیو کی شکل میں اپنے فیسبک پر اپلوڈ کردیا ہے، جسے ہر کوئی دیکھ اور سن سکتاہے۔
موصوف جس انداز سے ایم ایل سی منتخب ہوئے تھے، اس کی وجہ سے ان سے ایسی قبیح حرکت کی امید نہ تھی، ان کی پہلے کی دوچار گفتگو سے اندازہ بھی ہورہاتھا کہ جناب عالی مسلمانانِ ہند کے روشن مستقبل کے لئے جدجہد کررہےہیں اورکریں گے بھی؛ لیکن کیا کیاجائے کہ اس دنیا میں زیادہ ترچیزوں کا وجود خلافِ توقع ہی ہوتارہاہے، بالخصوص مسلمان ہند کےساتھ:
نہیں منّت کشِ تابِ شنیدن داستاں میری
خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں میری
اقبال
نام لئے بغیر ہم جس ایم ایل سی صاحب کی بات کررہےہیں ،وہ تنہا نہیں ہیں ؛بلکہ جے ڈی یو میں موجود دوسرے مسلم لیڈرز بھی وہی کچھ کہیں گے، جو ہمارے ایم ایل سی صاحب نے کہا ہے، پرشانت کشور نام کا کوئی شخص تو بہتر رخ اپناسکتاہے ؛لیکن پارٹی میں موجود خالداور غلام رسول نام کے لوگ نہیں؛ کیونکہ پارٹی نے اگر انہیں باہرکاراستہ دکھادیا،تو وہ کہیں کے نہیں رہیں گے:
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشناکردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
اقبال
مولانا محمود مدنی کے این آرسی پر دیے گئے بے تکے بیانات کے ساتھ ساتھ مذکورہ واقعے نے بھی ہمیں جھنجھوڑ کررکھ دیاہے۔ این آر سی جیسے خطرناک معاملے پر ایم ایل سی صاحب کی خاموشی؛ بلکہ دبے لفظوں میں حمایت نے ایک بار پھر ہمیں سبق دیاہے کہ ہمیں کسی بھی سوکالڈ سیکولرجماعت اور اس کے چمچے پراعتماد کرنے سے نہ صرف بازرہناہوگا؛بلکہ کسی طرح کی چھوٹی موٹی قیادت کھڑی کرنی ہوگی یا پہلے سے کھڑی قیادت کے گرد جمع ہوناہوگا اور اس ڈر کو ختم کرناپڑے گا کہ ہمارے متحدہونے سے ہندوبھائی بھی متحدہوجائیں گے ؛اس لئے کہ وہ تو متحدہوچکے ہیں ،دستور ہند کے باقی رہتے ہوئے اگر ہم نے متحدہ سیاسی محاذ کی تشکیل نہ کی اور مسلکی یا ذاتی مفادات کو بالائے طاق نہ رکھا، تو آنے والےایام مزید سخت ہوںگے اور یکے بعد دیگرے ہرطرح کےمسلک و مشرب سے منسک مسلمانوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا، پھریہ کہ ہمارےاتحاد کی بنیاد کسی مذہب کی دشمنی نہیں ہونی چاہیے؛ بلکہ سیاسی ناانصافیوں کے خلاف جدجہد ہونی چاہیے، جس کی اجازت آئین ہند نے ہمیں دےرکھی ہے ،مجھے پتہ ہے کہ یہ اتحاد عوام سے نہیں، خواص کے چاہنےاور ہرطرح کی قربانیاں دینےکےلیے تیار رہنےسےہوگا ،عوام کی حیثیت ہمیشہ اس جانور کی سی رہی ہے ،جس کورسی پکڑکرچرواہاجدھر چاہتاہے ،لےجاتاہے!