افغانستان میں تیزی سے بدلتے حالات نے جنوبی ایشیائی
ممالک کے لیے ایک بار پھر خطرات کی گھنٹیاں بجادی ہیں، یہ ٹاپک پورے بیس پچیس سال سے کروڑوں انسانوں کے لیے تحیر انگیز اور ہر لمحہ چونکانے والا رہا ہےـ آپ دیکھیے کہ نائن الیون کے بعد امریکہ نے القاعدہ کا بھوت پکڑنے کے لیے افغانستان کا رخ کیا،جو اسے پاکستان میں ملا، مگر وہ یہاں بیس سال تک جما رہا، پہلے سے ہی غریب و نادار ملک کو نوچتا کھسوٹتا رہا اور پھر اچانک اسے خیال آیا کہ اب یہاں سے کوچ کرنا چاہیے اور چند ماہ کے اندر ہزاروں امریکی فوجیوں کا افغانستان سے نکل جانا طے ہوگیاـ مذاکرات کے کئی دور چلے، جن میں امریکہ سمیت افغان حکومت اور تیسرا فریق طالبان بھی موجود رہا، پڑوسی ممالک بھی ادھر ادھر حاشیے پر موجود رہےـ اب جبکہ اس مذاکرات کے مطابق امریکہ اور نیٹو اتحاد کی افواج افغانستان خالی کر رہی ہیں، تو پھر سے افغان فوج اور طالبان میں کشت و خون کا ماحول زوروں پر ہے، روزانہ کی بنیاد پر طالبان کی فتوحات کی خبریں ایسے آرہی ہیں کہ گویا انھوں نے کسی ملک پر حملہ کیا ہے اور ایک کے بعد دوسرے قلعے فتح کرتے جا رہے ہیں ـ دوسری طرف پاکستان دم بخود ہے، بھارت سرگرداں، ایران بھی نظریں گڑائے ہوئے ہے،چین و روس غالبا کسی نئی تدبیر میں مصروف اور امریکہ کسی تازہ موقعے کی تاک میں ـ سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ اگر امن مذاکرات کی تکمیل کے بعد امریکہ نے جانے کا فیصلہ کیا تھا تو پھر اس کے جاتے ہی یہ مار دھاڑ کیوں ہو رہی ہے؟
جمعرات کو ہندوستان کے ابھرتے ہوئے فوٹو جرنلسٹ دانش صدیقی قندھار میں افغان فون اور طالبان کے درمیان فائرنگ کے تبادلے کے دوران جاں بحق ہوگئے ـ عام طورپر خبریں آئیں کہ طالبان نے انھیں مارا اور آج یہ خبر بھی آئی کہ طالبان نے ان کی لاش ریڈکراس کو سونپ دی ہے اور اب اسے ہندوستان ان کے اہل خانہ کو سونپنے کا انتظام کیا جا رہا ہےـ میڈیا کی ممکنہ جانب داری یا تعصب سے قطع نظر دانش جیسے عالمی سطح کے ابھرتے صحافی کے قتل سے مجموعی طور پر طالبان کی شبیہ کو ہی نقصان پہنچاہے اور وہ طبقہ جو ان کے لیے کسی قدر نرم گوشہ رکھتا ہے، وہ بھی اس حرکت کی کسی طور حمایت نہیں کر سکتاـ گوکہ محاذِ جنگ پر پتا نہیں چلتا کہ کون دشمن کا بندہ ہے اور کون محض تماشائی یا صحافی اور اخباری نمایندہ، اسی وجہ سے طالبان نے دانش کی موت پر اظہارِ افسوس کیا ہے اور ان کے ترجمان نے کہا ہے کہ وار زون میں آنے والے صحافی ہمیں مطلع کریں، ہم ان کا دھیان رکھیں گے،مگر سب سے بڑا مسئلہ تو یہی ہے کہ اگر مذاکرات میں قیامِ امن کی شرطوں پر بات چیت ہوچکی تھی، تو پھر امریکہ کے نکلتے ہی آخر افغان حکومت اور طالبان آپس میں کیوں مرنے مارنے پر اتارو ہوگئے؟ کیا مذاکرات کا عمل محض ایک ڈرامے بازی تھی اور امریکہ کسی طرح جان چھڑا کر نکلنا چاہتا تھا؟
افغان حکومت کا رویہ بھی عجیب و غریب ہے، صدر صاحب پاکستان پر طالبان نوازی کا الزام لگا رہے ہیں، دوسری طرف بھارت سے فوجی امداد لینے کے امکان کا اظہار ہو رہا ہےـ مگر کیا بھارت اس پوزیشن میں ہے کہ وہ کسی ملک کی فوجی مدد کر سکے، جب سے افغانستان میں نئی صورت حال پیدا ہوئی ہے، ہمارے وزیر خارجہ اور مشیر برائے قومی سلامتی خود یہاں وہاں بھاگے پھر رہے ہیں اور حکومت اندرونی طور پر ایسے اندیشے سے دوچار ہے کہ پتا نہیں کل کیا ہوجائے؟ عمران خان کا بھی دلچسپ بیان میڈیا میں گردش کر رہا ہے، جس میں انھوں نے خطے میں امن و امان کے قیام میں رکاوٹ آرایس ایس کی آئیڈیا لوجی کو قرار دیا ہے، ظاہر ہے کہ عمران کا یہ بیان محض اپنے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ہے، ورنہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ خطے میں قیامِ امن کی راہ میں آر ایس ایس کے علاوہ مزید کونسے کونسے اور کہاں کہاں کے روڑے حائل ہیں ـ
بش کا بیان بھی دو دن قبل آچکا ہے کہ امریکہ نے افغانستان سے جانے کا فیصلہ غلط کیا ہے اور اس کے خطرناک نتائج سامنے آئیں گےـ یوں تو امریکہ کے رہتے ہوئے بھی افغانستان کے حالات ابتر ہی تھے، مگر نئے سرے سے جو خوں ریزی کا دور شروع ہوا ہے، وہ بڑا دردناک ہےـ بندگانِ اقتدار کی ہوس کے شکار نہ جانے کتنے معصوم ہوچکے اور آنے والے دنوں میں نہ معلوم اور کتنے بے گناہ ان کی درندگی کی نذر ہوں گےـ ایسا لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں افغانستان میں طالبان تو خیر اپنی حکومت کیا قائم کریں گے، مگر جنوبی ایشیا ایک نئی اور بڑی آفت سے دوچار ہوگا، جس میں کئی ملک اور ان کے عوام کے لیے تباہی و تاراجی لکھی ہوگی ـ واللہ اعلم
نایاب حسن
نئی دہلی:کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے بدھ کے روز لکشدیپ کے مرکزی خطے میں نئے ضابطے کے مسودے پر مرکزی حکومت کو نشانہ بنایا اور الزام لگایا کہ ساگر میں واقع ہندوستان کا یہ زیور تباہ کیا جارہا ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ لکشدیپ کے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔راہل گاندھی نے ٹویٹ کیا ہے کہ ساگر میں لکشدویپ ہندوستان کا زیورہے۔ اقتدار میں بیٹھے جاہل بنیاد پرست اسے ختم کررہے ہیں۔ میں لکشدویپ کے لوگوں کے ساتھ کھڑاہوں۔کانگریس نے منگل کو اس معاملے پر مرکزی حکومت سے استدعا کی تھی کہ وہ فوری طور پر ان مسودوں کو واپس لے اور پرفل کھوڑا پٹیل کو ایڈمنسٹریٹر کے عہدے سے ہٹائے۔پارٹی کی جنرل سکریٹری پریانکا گاندھی واڈرا نے کہا تھا کہ کانگریس لکشدویپ کے لوگوں کے ساتھ کھڑی ہے اور اپنے ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لیے لڑے گی۔کانگریس کے جنرل سکریٹری کے سی وینوگوپال نے بھی پیر کو صدر رام ناتھ کووند کو ایک خط لکھا تھا جس میں لکشدیپ کے ایڈمنسٹریٹر پرفل پٹیل کو واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔اس کے علاوہ انہوں نے صدر سے بھی کہا ہے کہ وہ پرفل پٹیل کے دور میں لیے گئے فیصلوں کو منسوخ کریں۔اطلاعات کے مطابق مسودہ ضوابط کے تحت لکشدیپ سے شراب کے استعمال پر پابندی ختم کردی گئی ہے۔ اس کے علاوہ جانوروں کے تحفظ کا حوالہ دیتے ہوئے گائے کے گوشت سے تیار کردہ مصنوعات پر پابندی کا حکم دیا گیا ہے۔ لکشدیپ کی زیادہ تر آبادی ماہی گیروں پر منحصر ہے ، لیکن حزب اختلاف کے رہنماؤں کا الزام ہے کہ پرفل پٹیل نے کوسٹ گارڈ ایکٹ کی خلاف ورزی کی بنا پر ساحلی علاقوں میں ماہی گیروں کی جھونپڑیوں کو توڑنے کا حکم دیا ہے۔
ملک میں کورونا کا قہر اب بھی جاری ہے۔ لاکھوں لوگوں کی جان جا چکی ہے، کروڑوں متاثر ہیں۔ شہروں کے بعد دیہی علاقوں میں وبا کے پھیلنے سے دہشت کا ماحول ہے۔ اترپردیش میں پنچایت چناؤ، اتراکھنڈ میں کمبھ اور پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات نے حالات کو بے قابو کر دیا۔ لوگ اسپتال سے فٹ پاتھ تک آکسیجن اور دواؤں کی کمی کی وجہ سے تڑپ تڑپ کر مرے۔ مریضوں کو اسپتال میں اور مرنے والوں کو شمشان و قبرستان میں جگہ نہیں ملی۔ آخری رسومات کےلیے گھنٹوں انتظار کرنا پڑا۔ بہت سے تو اپنے عزیزوں کی میت کو بے یارو مددگار چھوڑ کر بھاگ گئے۔ کئی اپنے بزرگوں کو کورونا کے ڈر سے سڑکوں پر چھوڑ گئے۔ انسانی جانوں کی ایسی بے حرمتی ملک نے کبھی نہیں دیکھی۔ دیہی بھارت کی غربت، گندگی، طبی سہولیات کی عدم دستیابی اور کورونا سے موت کی دردناک صورتحال گنگا میں بہتی اور اس کے کنارے ریت میں دفن لاشیں بیان کرتی ہیں۔ نظام صحت کی ناکامی، حکومت کی نا اہلی، کاہلی اور حکمرانوں کی بے حسی کو دیکھ کر عدلیہ کو مجبوراً مداخلت کر ہدایات جاری کرنی پڑیں۔ بھارت کی صورتحال کو دیکھ کر دنیا کو عوام کی لاچاری پر اتنا ترس آیا کہ کئی ممالک مدد کےلیے آگے آ گئے۔ انہوں نے آکسیجن اور دواؤں کا بڑا ذخیرہ بھارت بھیجا لیکن یہ غیر ملکی مدد حکومت کی سستی کی وجہ سے بروقت عوام تک نہیں پہنچ سکی۔
کتنا عجیب ہے کہ سرخیوں میں رہنے والے سیاست داں کورونا کی دوسری لہر شروع ہوتے ہی غائب ہو گئے۔ پورے ملک میں ہاہاکار مچا تھا لیکن ان کا کچھ اتا پتا نہیں تھا۔ کورونا کے معاملوں میں کمی کے ساتھ ہی پھروہ دکھائی دینے لگے ہیں، وہ بھی ورچول روپ میں۔ وزیراعظم نریندرمودی ملک کے شہریوں کو مطمئن کرتے دکھائی دییے۔ پہلی مرتبہ نظر آئے تو کہا’چنوتی بڑی ہے لیکن ہمارے حوصلے اس سے بھی بڑے ہیں‘۔ عوام سے خطاب کرتے ہوئے وہ جذباتی ہو گئے۔ جبکہ عوام اس وقت آنسو نہیں، کورونا سے بچاؤ کے اقدامات، آکسیجن، دوائیں، ویکسین، اسپتال چاہتے ہیں۔ کانگریس کے بی وی سری نواس اور دپیندر ہڈا کے ذریعہ دہلی سے لے کر یوپی تک کورونا متاثرین کی مدد اور مرنے والوں کی تعداد ساڑھے چار ہزار یومیہ پہنچنے پر بی جے پی گھبرا گئی۔ اس نے اپنی ناکامی کو چھپانے کےلیے ٹول کٹ تلاش کر لی۔ کووڈ سے نبٹنے کے طور طریقوں پر توجہ دینے کے بجائے وہ کانگریس کے ذریعہ حکومت اور نریندرمودی کو بدنام کرنے کا راگ الاپنے لگی۔ ایسا ہی کچھ وہ کسان آندولن کے دوران بھی کر چکی تھی۔ کووڈ کی دوسری لہر کی تباہی کو دنیا بھر کے میڈیا نے کور کیا ہے۔ اس نے سیدھے طور پر وبا کے بے قابو ہونے کےلئے نریندرمودی اور ان کی حکومت کی لاپروائی کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
ادھر اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ اپنے افسروں کے بیچ چلتے نظر آئے۔ انہوں نے کہا کہ دیہی علاقوں میں اب حالات معمول پر آ رہے ہیں۔ ان کے افسران گھر گھر جا کر جانچ کر رہے ہیں۔ کورونا کی علامت نظر آتے ہی مریض کو فوراً اسپتال لے جانے کا انتظام کیا جارہا ہے۔ ان کا یہ ویڈیو کئی ٹیلی ویژن چینلوں پر دکھائی دیا۔ غور سے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ یہ اترپردیش حکومت کے ذریعہ دیا گیا اشتہار ہے۔ یعنی ڈھکوسلہ سراسر جھوٹ۔ بقول سینئر صحافی تولین سنگھ اگر ایسا ہوتا تو گنگا کے کنارے دور تک پھیلی وسیع چادر کی طرح بچھی ہوئی ریتلی قبریں دکھائی نہیں دیتیں۔ صحافی گاؤں گاؤں گھوم کر جو خبریں دکھا رہے ہیں، انہیں دیکھ کر دل دہل جاتا ہے۔ مقامی لوگ صحافیوں کو بتا رہے ہیں کہ کوئی دو ہفتوں سے دفنانے کےلیے دو سو کے قریب لاشیں لائی جا رہی ہیں۔ گنگا میں بہانے پر پابندی لگ گئی ہے، جو لوگ اتنے غریب ہیں کہ آخری رسومات ادا نہیں کر سکتے، وہ لاشوں کو دفنانے پر مجبور ہیں۔
اسی طرح نامہ نگار جب گاؤں میں گھر گھر جا کر لوگوں سے بات کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر دوسرے گھر میں کوئی بیمار ہے یا کسی کی موت ہوئی ہے۔ ایک رپورٹ میں یہ بھی دکھایا گیا کہ گاؤں میں موجود پرائمری ہیلتھ سینٹروں پر تالے لگے ہیں یا پھر ان میں مویشی باندھے جا رہے ہیں۔ اس لیے کہ دہائیوں سے ان میں نہ ڈاکٹر ہے نہ ہی علاج ہوا ہے۔ اخباری خبر کے مطابق اترپردیش کے ضلع فتح پور کے گاؤں میں 100 لوگوں کی بخار سے موت ہوئی ہے۔ للولی میں 10 اپریل کو بخار اور سانس پھولنے سے پہلی موت ہوئی تھی۔ بی بی سی کی رپورٹ اور بھی چونکانے والی ہے۔ بی بی سی کی نامہ نگار اورلا گیرن نے دیہی اترپردیش کا دورہ کرکے ان اساتذہ کے خاندانوں سے باتیں کیں جو پنچایت چناؤ میں تعیناتی کے دوران کووڈ سے متاثر ہو کر موت کا شکار ہوئے ہیں۔ ایسے اساتذہ کی تعداد ایک ہزار بتائی جاتی ہے۔ یوپی کے وزیر اعلیٰ کو کیا اس کی خبر نہیں ہے یا پھر انہوں نے اسے نظر انداز کر دیا ہے۔
بہار کا حال بھی اترپردیش جیسا ہی ہے۔ ہندی روزنامہ بھاسکر کی خبر کے مطابق آرا ضلع کے کلہڑیا گاؤں میں 95 فیصد آبادی میں کورونا کی علامات موجود ہیں۔ گاؤں میں نہ جانچ ہوئی نہ ہی کسی کو ٹیکہ لگا ہے۔ جبکہ اسمبلی انتخاب کے وقت کورونا کا ٹیکہ مفت دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ یہاں اب تک سو لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔ پرائمری ہیلتھ سینٹر میں خاتون ڈاکٹر دن میں سوتی ہوئی ملی، اسے شو کاز نوٹس جاری کیا گیا۔ دیہی بھارت میں صحت نظام کمزور اور طبی سہولیات کی دستیابی محدود ہے۔ پھر بھی ملک کی 65 فیصد سے زیادہ آبادی گاؤں میں رہتی ہے۔ کئی علاقوں میں پرائمری ہیلتھ سینٹر گاؤں سے پچاس کلومیٹر دور ہے۔ ایسے میں گاؤں کےلیے کورونا سے لڑنا مشکل ہو رہا ہے۔ گاؤں کی طرف اگر فوری توجہ نہ دی گئی تو وہاں کورونا سے جانی و مالی نقصان کا زیادہ خطرہ ہے۔ حکومت نے دیہی علاقوں میں کووڈ کی روک تھام کےلیے رہنما ہدایات جاری کی ہیں لیکن یہ ہدایات ایک سال قبل جاری ہونی چاہیے تھیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ متعدی بیماری سے لڑنے میں سرکاری نظام کتنا ڈھیلا ہے۔
دیہی علاقوں کو کورونا سے بچانے کےلیے گاؤں کی پنچایتوں کو فعال بناکر بیماروں کےلیے آئی سو لیشن سینٹر بنانے کی ضرورت ہے، جانچ اور ٹیکے لگانے میں ان کی مدد لینی چاہیے۔ جن مریضوں کو اعلیٰ سطح کی دیکھ بھال کی ضرورت ہو انہیں وقت پر ریفر کیا جائے۔ پرائمری ہیلتھ سینٹر اور ضلع کووڈ اسپتال کے بیچ کی کڑی مضبوط ہو۔ آکسیجن، دواؤں کی دستیابی اور ایمبولینس سروس کو یقینی بنایا جائے۔ اس سلسلہ میں مہاراشٹر کے ضلع احمد نگر کے گاؤں ہیورے بازار کے سرپنچ پوپٹ راؤ پوار کے تجربہ سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اپنے گاؤں کو کورونا سے نجات دلانے کےلیے جو قدم اٹھائے، ان پر دوسرے گاؤوں کے لوگ بھی عمل کر سکتے ہیں۔ احمد نگر کے ضلع کلکٹر اور چیف ایگزیکٹو آفیسر نے پوپٹ راؤ کو 1300 گاؤوں کے پردھانوں کو مخاطب کرنے اور ان کی مدد کرنے کی دعوت دی۔ اس موقع پر پوپٹ راؤ نے بتایاکہ مارچ میں گاؤں کے ایک شخص میں کووڈ کی علامت دکھائی دی تو انہیں فوراً پاس کے اسکول میں کورنٹین کیا گیا۔ ان کے رابطہ میں جو لوگ آئے تھے، انہیں بھی الگ الگ کر دیا گیا۔ ان سبھی کا آر ٹی – پی سی آر ٹیسٹ کرایا گیا۔ مارچ سے اپریل کے بیچ گاؤں میں کووڈ کے 52 مریض ہو گئے تھے۔ ان سب کا ٹیسٹ کراکر علاج کرایا گیا۔ چار کو وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑی، انہیں اسپتال میں بھرتی کیا گیا۔ بد قسمتی سے ایک کی جان چلی گئی لیکن پورا گاؤں محفوظ ہو گیا۔ یہاں کے لوگ صحت کارکنان کی ہدایات پر عمل کرتے ہیں۔ ماسک لگانے، سینی ٹائزر کا استعمال کرنے اور جسمانی دوری بنانے کا خیال رکھتے ہیں۔
بھاجپا حکومت اس طرح کے تجربات کو عام کرنے، پرانی غلطیوں سے سبق لیتے ہوئے کمیوں کو دور کرنے اور نظام صحت کو مضبوط بنانے پر دھیان دینے کے بجائے مودی جی کی شبہ چمکانے، مثبتیت (پازیٹوٹی) کا گیت گانے اور جھوٹی تشہیر کے ذریعہ عوام کا دھیان بھٹکانے کی فکرمیں لگی ہے۔ اس کے پاس آٹھ ماہ بعد اترپردیش میں ہونے والے انتخابات کی منصوبہ بندی کرنے کا وقت ہے، لیکن ویکسین کی کمی کو دور کرنے اور عوام کی تکلیفوں پر توجہ دینے کا وقت نہیں ہے۔ شاید اسی لیے بی جے پی کے پروپیگنڈہ کو اس بار کسی نے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ عوام صرف ایک چیز کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں وہ ہے موت کا بڑھتا ہوا گراف، ویکسین کی کمی، اسپتالوں کی بد حالی، حکومت کی بے حسی اور ضرورت کے وقت عوامی نمائندوں کی روپوشی۔ اس لیے وقت رہتے گاؤں کو کورونا سے بچانے کی طرف پورا دھیان دیا جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وبا گاؤں کو اپنی گرفت میں لے لے۔ اگر ایسا ہوا تو اس پر قابو پانا آسان نہیں ہوگا۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
استاذِ محترم مولانا نورعالم خلیل امینی کی یاد
(پہلی قسط )
واٹس ایپ کی نیو پرائیویسی پالیسی پر ہنگامے اور دہلی ہائی کورٹ کا مشورہ-نایاب حسن
چند دنوں قبل برقی پیغام رسانی کے لیے سب سے زیادہ استعمال ہونے والے موبائل ایپ واٹس ایپ نے اپنی پرائیوسی پالیسی میں تبدیلی کا عندیہ دیا اور ساتھ ہی یہ بھی اعلان کردیا کہ جو صارف بھی اس تبدیل شدہ پالیسی سے اختلاف کرے گا،اس کا اکاؤنٹ 8/فروری کو ڈیلیٹ کردیا جائے گا۔یہ اعلان دنیا بھر میں واٹس ایپ استعمال کرنے والے کرڑوں صارفین کوموصول ہوا۔رپورٹس کے مطابق پہلے مرحلے میں یہ پیغامات ہندوستانی صارفین کو موصول ہوئے، جن میں زیادہ تفصیل تو نہیں بتائی گئی، مگر جب صارف اس پر کلک کرتا تو اس کے سامنے واضح پیغام نمودار ہوتا۔واٹس ایپ کی جانب سے جاری ہونے والے پیغام میں بتایا گیا کہ کمپنی کس طرح آپ کی ذاتی معلومات حاصل کر کے انھیں فیس بک کے لیے استعمال یا اسے فراہم کرے گی۔ مزید بتایا گیا کہ واٹس ایپ سروس استعمال کرتے ہوئے آپ کسی دوسرے بزنس کے ساتھ رابطے میں آتے ہیں، تو اس کی تمام معلومات کمپنی کے پاس پہنچ جاتی ہیں،جن کو فیس بک کی زیرملکیت دیگر ایپلی کیشنز سے شیئر کیا جاسکتا ہے۔واٹس ایپ کی جانب سے جاری نئی پالیسی کے مطابق ادارے کو اپنی مارکیٹنگ، سپورٹ، تبدیلیاں اور سروسز کو بہتر بنانے کے لیے صارفین کی معلومات درکار ہیں، جو نئی پالیسی کو قبول کیے بغیر حاصل نہیں کی جاسکتیں۔اس سلسلے میں کمپنی کے ترجمان کاکہنا تھا کہ ”واٹس ایپ اپنی سروسز کو بہتر کرنے کے لیے فیس بک اور دیگر تھرڈ پارٹی کمپنیوں کے ساتھ مل کر کام جاری رکھے ہوئے ہے، واٹس ایپ صارفین کی معلومات ان سے شیئر کی جاتی ہیں، اس اقدام کا مقصد صارفین کے مسائل کو حل کرنا ہے“۔
مگر اس اعلان کے بعد فوراً پوری دنیا میں بالعموم اور ہندوستان میں بالخصوص واٹس ایپ کے خلاف شدید ناراضی و بے اعتمادی پھیل گئی اور لوگ تیزی سے واٹس ایپ کے متبادل کی تلاش میں نکل پڑے۔رائٹرزنے اس حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی کہ واٹس ایپ کو ابھی تک ہندوستان میں بڑے پیمانے پر اَن انسٹال نہیں کیا گیاہے؛ لیکن پرائیویسی کے بارے میں فکرمند صارفین حریف ایپس جیسے سگنل اور ٹیلی گرام کو تیزی سے ڈاؤن لوڈ کررہے ہیں۔ تحقیقاتی فرمز کا کہنا ہے کہ صارفین کی جانب سے ایسا کرنے سے ان ایپس کے ڈاؤن لوڈ چارٹس بڑھ رہے ہیں اور یہ ایپس بھارت میں پہلی مرتبہ ہر جگہ عام ہورہے ہیں۔ ہندوستان میں 40 کروڑ صارفین واٹس ایپ کا استعمال کرتے ہیں اور سب سے زیادہ شدید رد عمل یہیں دیکھا جارہا تھا،جس کی وجہ سے واٹس ایپ نے پچھلے ہفتے کم از کم 10 انگریزی اور ہندی اخبارات میں کروڑوں روپے لاگت کے اشتہاری پیغامات شائع کرائے اور اپنے صارفین کو یقین دہانی کروانے کی کوشش کی کہ ان کی ذاتی معلومات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کیا جائے گا اور یہ کہ کمپنی کے اعلان کو غلط سمجھا گیا ہے۔واٹس ایپ نے ایک اخبار میں کیے گئے اعلان میں کہا کہ آپ کی پرائیویسی کا احترام ہمارے ڈی این اے میں شامل ہے۔میسجنگ ایپ نے کہا کہ اس کی پرائیویسی پالیسی اپ ڈیٹ کسی بھی طریقے سے آپ کے دوستوں اور اہل خانہ کے ساتھ آپ کے پیغامات کی پرائیویسی کو متاثر نہیں کرتی۔واٹس ایپ نے یہ بھی کہا کہ پرائیویسی پالیسی کی تبدیلیاں صرف صارفین کے کاروباری تعلقات سے متعلق ہیں۔ اتناہی نہیں،واٹس ایپ نے کم ازکم دودن تک سٹیٹس کے ذریعے بھی تمام صارفین کو مطمئن کرنے کی کوشش کی اور وضاحت کرتا رہا کہ واٹس ایپ آپ کی ذاتی معلومات کسی سے شیئر نہیں کرتا ہے۔
واٹس ایپ کی سکیورٹی کے حوالے سے نئے خدشات کے بعد روسی میسنجر ٹیلی گرام کی صارفین کے تعداد عروج پر پہنچ گئی، ٹیلی گرام کے بانی نے اسے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ڈیجیٹل ہجرت قرار دیا۔روسی میڈیا کے مطابق روسی میسنجر ٹیلی گرام نے امریکہ،ہندوستان اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں مقبولیت کے ریکارڈ توڑ دیے۔ٹیلی گرام کی جانب سے سوشل میڈیا پر کہا گیا کہ اس عالمی رجحان کے بعد دو صدور نے اپنے ٹیلی گرام چینلز شروع کیے، جس میں برازیل کے صدر جیر بولسنارو اور ترکی کے صدر رجب طیب اردگان شامل ہیں۔بانی کا کہنا ہے کہ فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون اور یوکرین کے صدر ولادی میر زیلینسکی کے علاوہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سمیت متعدد دیگر عالمی رہنماؤں نے بھی ٹیلی گرام میسنجر میں اندراج کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ متعدد عوامی تنظیمیں غلط استعمال سے نمٹنے اور اپنے معاشروں میں اہم امور کے بارے میں آگاہی پھیلانے کے لیے ٹیلی گرام پر انحصار کر رہی ہیں۔ٹیلی گرام کے بانی نے زور دے کر کہا کہ میسنجر مبہم الگورتھم پر عمل نہیں کرتا جس سے یہ طے ہوتا ہے کہ صارف اپنی مرضی کا مواد ہی دیکھ سکیں گے۔اس سے قبل ڈوروف نے اعلان کیا تھا کہ ٹیلی گرام استعمال کرنے والوں کی تعداد 500 ملین سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ صرف 3 دنوں میں 25 ملین افراد ٹیلی گرام کا استعمال شروع کرچکے ہیں۔کچھ لوگوں نے ترکی الاصل میسیجنگ ایپ بی آئی پی(BIP)کی طرف بھی ہجرت کی،خاص کر بنگلہ دیش اور انڈونیشیا وغیرہ میں زیادہ لوگ اس کی طرف منتقل ہوئے۔بہر کیف چند دنوں کے مسلسل ہنگاموں اور واٹس ایپ کی وضاحتوں کے بعد اب معاملہ کچھ ٹھنڈا ہوتا نظر آرہاہے،ویسے بات اگرواقعتاً پرائیویسی کے تحفظ کی کریں تو فی الحقیقت انٹرنیٹ استعمال کرنے والے کسی بھی شخص کی اب کوئی پرائیویسی نہیں رہ گئی؛کیوں کہ آپ کوئی بھی ایپلی کیشن انسٹال کرتے ہیں تو وہاں آپ کو اپنی ذاتی معلومات،درست فون نمبر یا ای میل آئی ڈی ہی سہی،ہر حال میں دینا ہوتی ہیں،اس کے بغیر آپ اسے انسٹال نہیں کرسکتے،استعمال نہیں کر سکتے؛بلکہ نیااسمارٹ فون لیتے ہی اسے ایکٹیو کرنے کے لیے سب سے پہلے انٹرنیٹ کے سہارے اس پر اپنا اکاؤنٹ بنانا ہوتاہے،تبھی آپ کا فون چلے گا،اس کے بغیر چل ہی نہیں سکتا اور ظاہر سی بات ہے کہ اکاؤنٹ بنانے کے لیے آپ کو ذاتی معلومات تو دینی ہی ہوں گی،پس اب پرائیویسی وغیرہ کا کوئی مطلب نہیں رہ گیا۔انٹرنیٹ،اینڈرائڈموبائل اور آئی فون کے عہد میں اگر پرائیویسی پچانی ہے،تو سرے سے ان چیزوں سے کنارہ کش رہنا ہوگا،ورنہ تو قدم قدم پر آپ کے ذہن میں اندیشے پنپتے رہیں گے۔ایک بہتر قدم وہ بھی ہوسکتا ہے،جس کی طرف 18/جنوری کو دہلی ہائی کورٹ نے اس تعلق سے دائر درخواست کی سماعت کرتے ہوئے رہنمائی کی ہے کہ اگر آپ کو واٹس ایپ کے تعلق سے اندیشے ہیں،تو اسے اپنے فون سے ڈیلیٹ کردیں؛ کیوں کہ اگر زیادہ گہرائی میں جائیں گے،تو کسی بھی سوشل پلیٹ فارم پر آپ کی پرائیویسی محفوظ نہیں ہے۔ پس کونسا ایپ استعمال کرنا ہے اور کونسانہیں،یہ آپ کی پسنداور متعلقہ ایپ کی خوبیوں،فیچرز پر منحصر ہے،اس کے لیے یہ دلیل غالباً بیکار ہی ہوگی کہ فلاں کمپنی ہماری ذاتی معلومات کی حفاظت کرے گی اور فلاں نہیں کرے گی۔
ادب کے نئے جہانوں کی دریافت اور فکر و تحقیق کے اَن چھوے گوشوں کی بازیافت حقانی القاسمی کا خاصہ اور امتیاز ہے۔ ان کی فطرت میں مہم جوئی کی صفت ودیعت کی گئی ہے ،سوان کا ذہن و قلم روایتی موضوعات اور فرسودہ عنوانات کی بجاے غیر روایتی موضوعات کی کھوج میں مصروف رہتے ہیں۔وہ روایتی موضوعات کو بھی اپنی بے پناہ علمیت،تحقیقی سربرآوردگی،تنقیدی ژرف نگاہی اور ادبی و تخلیقی انفراد کی بدولت قاری کے لیے دلچسپ بنادیتے ہیں اور پامال عنوان پر لکھی ہوئی ان کی تحریر بھی بالکل تازہ و شاداب معلوم ہوتی ہے۔ حقانی القاسمی عصرِ حاضر کے ان گنے چنے ادیبوں میں سے ایک ہیں، جن کے یہاں اسلوب کے حسن و جمال کے ساتھ مواد و معلومات کی فراوانی بھی ہوتی ہے۔ انھیں پڑھیے تو نہ صرف زبان و ادا کا لطف حاصل ہوگا؛بلکہ متعلقہ موضوع پر آپ کے علم میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوگا۔ حقانی القاسمی کی تنقید پر تخلیق کی چھاپ ہوتی ہے اور ان کی سبک و شیریں نثر پڑھ کر ذوق ووجدان جھوم اٹھتے ہیں۔
حقانی القاسمی نے اپنے لگ بھگ چالیس سالہ علمی،ادبی،تنقیدی و صحافتی سفر میں نت نئے تجربے کیے ہیں اور ان کا تقریباً ہر تجربہ گوکہ قلیل العمر رہا ،مگر کامیاب و سرخرو ضرور رہا ہے۔’اخبارِ نو‘سے شروع ہونے والی ان کی عملی صحافتی و ادبی زندگی ’نئی دنیا‘سے ہوتے ہوئے ‘استعارہ‘تک پہنچی اور استعارہ سے ہی مختصر الوجود حقانی کی ادبی کوہ قامتی کے ایک سے بڑھ کر ایک نمونے سامنے آئے۔اس کے بعد سہارا گروپ سے وابستہ ہوئے اور اس کے ادبی رسالہ ’بزمِ سہارا‘ کو اپنی ادبی و ادارتی مہارتوں کی بدولت گوناگوں محاسن و امتیازات کا نمونہ بنادیا،جتنے دن اس رسالے سے وابستہ رہے اور حالات سازگار رہے، یہ رسالہ تمام تر ادبی،فنی و علمی خصوصیات کے ساتھ شائع ہوتا رہا۔ ادبی صحافت میں ایک نیا تجربہ انھوں نے ۲۰۱۶میں ’اندازِ بیاں‘کے نام سےکیا اور رسائل کے بے پناہ ہجوم میں اس کا امتیاز یوں قائم کیا کہ اسے یک موضوعی رکھا،یعنی یہ طے کیا کہ یہ رسالہ دراصل ایک کتابی سلسلہ ہوگا اور اس کا ہر شمارہ کسی ایک موضوع پر مرکوز ہوگا۔ یہ مجلہ بھی حقانی القاسمی کے ادبی اکتشاف اور تحقیق و جستجو کا شاندار نمونہ ہے۔ اس یک موضوعی مجلے کے ذریعے درحقیقت وہ ایک نئی ادبی تاریخ رقم کررہے ہیں۔ اس سے قبل کے اس رسالے کے دوشمارے(۲۰۱۶اور2018 (اردو دنیا میں غیر معمولی مقبولیت و شہرت حاصل کرچکے ہیں۔ پہلا شمارہ خواتین قلم کاروں کی خودنوشتوں کے جائزوں پر مشتمل تھا،جبکہ دوسرے شمارے میں انھوں نے اردو دنیا کو پولیس کے تخلیقی چہرے سے روشناس کروایا تھا۔ پولیس جوکہ برصغیر میں بہ وجوہ ایک مہیب؛بلکہ بہت حد تک مکروہ و قابلِ نفریں شبیہ کا حامل طبقہ ہے،اس کے نرم و ملائم پہلو کو سامنے لاتے ہوئے حقانی القاسمی نے ماضی بعید سے لے کر عصرِ حاضر تک کے ان شاعروں،ادیبوں،تخلیق کاروں، تنقید نگاروں اور فنکاروں کی کامیاب تلاش و جستجو کا نتیجہ قارئین کے سامنے پیش کیا،جو پولیس کی نوکری کرتے ہوئے زبان و ادب و تحقیق و تنقید کی زلفیں بھی سنوارا کرتے تھے یا اب بھی وہ اس کارِ خیر کو انجام دیتے ہیں۔
پولیس کے تخلیقی چہرے کی بازیافت کے بعد حقانی القاسمی کے ذہنِ رسا نے قبیلۂ اطبا کا رخ کیا اور بڑی عرق ریزی و جاں فشانی کے بعد اندازِ بیاں کا تیسرا شمارہ میڈیکل ڈاکٹروں کی ادبی خدمات کے نام کرتے ہوئے تقریباً ساڑھے پانچ سو صفحات میں ہندوبیرون ہند کے درجنوں ڈاکٹر تخلیق کاروں، ادیبوں، شاعروں،مترجمین،تنقید نگار اور محققین کی خدمات کا جائزہ پیش کیا ہے۔جو لوگ ہسپتالوں کے وارڈوں میں کٹے پھٹے ،بیمار و لاچار،مدقوق و مشلول جسموں کے درمیان رہتے اور ان کی جراحی و معالجے میں مصروف ہوتے ہیں،کیا انھیں ادب جیسے فنِ لطیف سے بھی کوئی واسطہ ہوتا ہوگا؟کیا ان پر بھی ایسے شاداب لمحے اترتے ہوں گے،جب رات شعر کہا کرتی ہے اور جب فکر کے سوتے پھوٹتے اور ادب و فن کے شہہ پارے وجود میں آتے ہیں؟حقانی صاحب ہمیں ’اندازِ بیاں‘ کے تازہ شمارے کے ذریعے جواب دیتے ہیں کہ ہاں بالکل!،ان میں بھی ایک سے بڑھ کر ایک ادیب،شاعر،نثرنگار،ناقد ،محقق و مترجم ہوتا ہے اور ہے،پھر وہ ہمیں ان کے احوال اور کارناموں سے بالتفصیل متعارف کرواتے ہیں۔
اس مجلے کا ہر مضمون اپنی جگہ بھرپور اور جامع ہے،مگر حقانی صاحب کا افتتاحیہ جسے انھوں نے‘دستِ مسیحائی’ کے عنوان سے لکھا ہے ، وہ لاجواب اور حقانی کے وفورِعلمیت و ادبیت کا شاہکار ہے۔ پچاس سے زائد صفحات پر مشتمل اس مضمون میں حقانی صاحب نے اردو ادب کی مختلف اصناف میں میڈیکل ڈاکٹروں کی خدمات پر مختصر مگر جامع تبصرہ کیا ہے اور قاری کی ذہنی و علمی لطف اندوزی کا بھرپور سامان فراہم کردیا ہے۔ اس مضمون میں حقانی صاحب نے ۲۸ڈاکٹر شاعروں،تین مزاح نگاروں،۱۱فکشن نویسوں،چار مصنفین،پانچ مترجمین، پانچ ناقدین و محققین کا تعارف کروایا ہے۔ ان شخصیات کا تذکرہ کرتے ہوئے انھوں نے ان کی فنی خوبیوں،تصانیف اور امتیازات کی بھی نشان دہی کی ہے۔ جو شاعر ڈاکٹر ہیں ان کے شاعرانہ کمالات بھی بیان کیے ہیں اور ان کے شعری نمونے بھی پیش کیے ہیں،جو فکشن نگارڈاکٹر ہیں ان کی کہانیوں کے خصائص و اوصاف پر بھی روشنی ڈالی ہے۔اس اداریے میں حقانی صاحب نے اردو زبان میں طب کی مختلف شاخوں اور گوشوں پر لکھی جانے والی کتابوں کی طرف بھی اشارے کیے ہیں اور ان ڈاکٹروں کا بھی تذکرہ کیاہے ،جو اپنے پیشے میں مصروف رہنے کے ساتھ زبان و ادب سے بھی والہانہ تعلق رکھتے اور وقتا فوقتا ادب دوستی کا ثبوت فراہم کرتے رہتے ہیں۔الغرض اپنی افتتاحی تحریر میں حقانی القاسمی نے ڈاکٹر اور ادب کے باہمی ربط و ارتباط کا نہایت جامع اور وسیع الذیل تعارف کروایا ہے۔حالاں کہ ساٹھ صفحے میں لکھاگیا یہ مضمون بھی ڈاکٹر ادیبوں اور تخلیق کاروں کا کلی احاطہ نہیں کرتا،کہ ان کی تعداد سیکڑوں نہیں، ہزاروں میں ہوسکتی ہے اور ان سب پر لکھنے کے لیے کئی جلدیں درکار ہوں گی ،جیسا کہ خود حقانی صاحب نے بھی لکھا ہے کہ:’’یہ محض تعارفی نوعیت کا تاثر ہے۔تفصیل سے لکھتا تو شاید ہزار صفحات بھی ناکافی ہوتے۔اس میں بہت سے ایسے نام شامل ہیں جن کی ادبی شناخت مستحکم اور مسلم ہے،ان کے علاوہ اور بھی بہت سارے تخلیق کار ہوں گے،جن کی جستجو جاری رہے گی۔اِسے آپ جستجو کا ایک آغاز کہہ سکتے ہیں‘‘۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ آغاز بھی کئی انجاموں پر بھاری ہے اور اپنے آپ میں غیر معمولی اہمیت و معنویت کا حامل ہے ۔ اردو زبان میں ڈاکٹر فنکاروں،ادیبوں اور تخلیق کاروں پر ایسا مبسوط ،مفصل اور معلومات افزا مقالہ میری نظر سے نہیں گزرا۔اس مضمون کو پڑھ کر اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے قارئین بے شمار مراجع تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں اور طلبا و اسکالرز اس کے اوّلی حوالہ جات و مصادر تک پہنچ کر باقاعدہ تحقیق و تصنیف کی بنیاد اٹھا سکتے ہیں۔گویا حقانی صاحب کا یہ مضمون میڈیکل ڈاکٹروں کی ادبی خدمات کو اجاگر کرنے کے حوالے سے بنیاد کا پتھر اور مشعلِ راہ ثابت ہوگا۔
مجلے کے باقی چالیس سے زائد مضامین بھی بھرپور ہیں اور اردو کے علاوہ عربی،انگریزی اور دیگر زبانوں میں لکھنے والے ڈاکٹروں کی علمی ،ادبی و تخلیقی خدمات کا مبسوط جائزہ پیش کرتے ہیں۔ آخر کے ایک باب میں ’اندازِ بیاں‘ کے پچھلے شمارے پر ملک و بیرون ملک کے مطبوعہ و برقی اخبارات،ویب سائٹس وغیرہ میں اردو اور انگریزی زبانوں میں شائع ہونے والے تبصرات و تاثرات کو بھی جمع کردیا گیا ہے۔جبکہ حقانی صاحب نے اس مجلے کا آخری باب اپنی مرحومہ و مغفورہ بیٹی انیقہ سے منسوب کیا ہے،جو ستمبر دوہزار انیس کو ایک حادثے کا شکار ہوکر جاں بحق ہوگئی تھی ،اس کی وفات پر بڑی تعداد میں موصول ہونے والے تعزیتی پیغامات اور اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کو اس میں محفوظ کردیا گیا ہے۔اس باب کے شروع میں حقانی صاحب کا نوٹ نہایت اثر انگیزہے اور معصوم و کم عمر بیٹی کی ناگہانی موت پر ایک حساس باپ کے درد و کرب کو بیان کرتا ہے۔ الغرض اندازِ بیاں کا یہ تیسرا شمارہ سابقہ شماروں کی طرح ہی ظاہر و باطن کے حسن و جمال آراستہ ہے اور اس کا مطالعہ ادب کے شائقین و قارئین کے لیے بے پناہ فائدہ مند ثابت ہوگا۔ادب دوست اور علم و مطالعہ کے شائقین یہ مجلہ اس کے ناشر عبارت پبلی کیشنز سے حاصل کر سکتے ہیں۔رابطہ نمبر9015698045/9891726444:
ترجمہ نایاب حسن
جب رات تاریک ہوگئی اور چاروں طرف نیند کی چادر پھیل گئی،تو میں بستر سے اٹھا اور اپنے دل میں یہ سوچتا ہوا سمندر کی طرف چل پڑا کہ سمندر تو سوتا نہیں ہے،اس کی بیداری میں بے خواب روحوں کے لیے سامانِ تسلی ہے۔
سمندر کنارے پہنچا تو دیکھا کہ پہاڑ کی چوٹیوں سے دھند اتر رہی تھی اور گردو و پیش کا تمام ماحول دھند آلود تھا،گویا کسی خوب صورت بچی کو بھورے رنگ کی نقاب اُوڑھا دی گئی ہو۔ میں ٹھہر کر اس کی موجوں کو دیکھنے اور ان کی آواز سننے لگا،ان کے پس پردہ مخفی سرمدی طاقتوں پر غور کرتا رہا،وہ طاقتیں جو آندھیوں کے ساتھ دوڑتی ہیں،جو آتش فشانوں کے ساتھ پھوٹ پڑتی ہیں،جو پھولوں کے کھلنے سے مسکرانے لگتی ہیں،جو نہروں کی روانی کے ساتھ گنگنانے لگتی ہیں۔
کچھ دیر بعد جب میں نے دوسری طرف توجہ کی،تو قریب کی چٹان پر مجھے تین سایے بیٹھے نظر آئے،دھند کی چادر نے انھیں ڈھانپ رکھا تھا،وہ نظر تو آرہے تھے،مگر پوری طرح نہیں۔آہستہ قدموں کے ساتھ میں ان کی طرف بڑھا؛بلکہ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ ان کے وجود میں کوئی ایسی کشش ہے،جو مجھے ان کی طرف کھینچ رہی ہے۔
جب میں ان سے چند قدم دور رہ گیا،تو رک گیا اور انھیں غور سے دیکھنے لگا۔ مجھے یوں لگا کہ اس جگہ میں کوئی جادو ہے جو میرے حواس پر چھا رہاہے،میری روح کو بیدار کر رہاہے۔
تبھی ان سایوں میں سے ایک کھڑا ہوا،مجھے اس کی آواز سمندر کی گہرائیوں سے آتی ہوئی محسوس ہوئی،اس نے کہا:
زندگی بغیر محبت کے ایسی ہے،جیسے درخت بغیر پھول اور پھل کے،محبت بغیر خوب صورتی کے ایسی ہے جیسے پھول بغیر خوشبو کے اور پھل بغیر بیج کے۔ زندگی،محبت اور خوب صورتی تینوں ایک ہی وجودِ مطلق کے لازمی اجزا ہیں،ان میں نہ کوئی تبدیلی ہو سکتی ہے،نہ انھیں الگ کیا جاسکتا ہے۔ یہ کہہ کر وہ سایہ اپنی جگہ بیٹھ گیا۔
دوسرا سایہ کھڑا ہوا۔ اس کی آواز شیریں پانی کے بہاؤ جیسی تھی،اس نے کہا:
زندگی بغیر بغاوت کے ایسی ہے جیسے کہ موسم بغیر بہار کے اور بغاوت بغیر حق کے ایسی ہے جیسے بے آب وگیاہ صحرا میں موسمِ بہار۔ زندگی، بغاوت اور حق یہ تینوں ایک ہی وجود کے مختلف لازمی اجزا ہیں،نہ ان میں تغیر و تبدل ہو سکتا ہے اور نہ انھیں الگ کیا جاسکتا ہے۔
اس کے بعد تیسرا سایہ کھڑا ہوا۔ اس کی آواز میں آسمانی بجلی جیسی کڑک تھی۔اس نے کہا:
زندگی بغیر آزادی کے ایسی ہے جیسے جسم بغیر روح کے اور آزادی بغیر فکر کے پراگندہ روح کے مانند ہے۔ زندگی،آزادی اور فکر یہ تینوں ایک ہی ازلی وجود کے اجزا ہیں،جو نہ ختم ہوتے ہیں،نہ ان میں اضمحلال پیدا ہوتا ہے۔
اس کے بعد یہ تینوں سایے ایک ساتھ کھڑے ہوئے اور تینوں نے بھاری بھرکم آواز میں ایک ساتھ کہا:
محبت،بغاوت اور آزادی کے نتائج مَظاہرِ خداوندی ہیں اور اس کی ذات ہی دنیاے دانش کا ضمیر،اس کا مرجع ہے۔
اس کے بعد ایک مخصوص قسم کا سکوت طاری ہوگیا،ایسا سکوت جس میں کچھ نادیدہ پروں کی پھڑپھڑاہٹ اور غیر مرئی اجسام کی حرکت کی آوازیں آرہی تھیں۔ میں نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور جو باتیں میں نے سنی تھیں ان کی بازگشت کو محسوس کرنے لگا۔ پھر جب میں نے آنکھیں کھولیں،تو میری نگاہوں کے سامنے دھند کی چادروں میں لپٹے سمندر کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ ایک چٹان کے پاس بیٹھ گیا،وہیں جہاں وہ تینوں سایے بیٹھے نظر آئے تھے،مگر وہاں تو محض خوشبووں کا ایک سلسلہ تھا جو آسمان کی طرف محوِ پرواز تھا۔
آغا شورش کاشمیری نے اپنی مشہور خود نوشت سوانح’’بوے گل،نالۂ دل،دودِچراغِ محفل‘‘میں ۱۹۳۶ میں گاندھی جی سے ملاقات کا احوال لکھا ہے۔یہ وہ دور تھا جب ہندوستانی سیاست تیزی سے کروٹ بدل رہی تھی اور فرقہ وارانہ انتہا پسندی کا عفریت اپنے دہانے کھول رہا تھا۔شورش نے گاندھی سے ملاقات کے دوران کئی سوالات کیے،جن کے جواب گاندھی جی نے بڑے انشراح و اعتماد کے ساتھ دیا،جو ان کا انداز تھا۔ان سوالوں میں سے ایک سوال مسلم لیڈرشپ کے بارے میں تھا،انھوں نے پوچھا:
’’ مسلمانوں کی ناکامی کا سبب کیاہے؟‘‘۔
گاندھی نے جواب دیا:
’’میں سمجھتاہوں کہ ان میں کوئی شخص بھی فقیری کرنا نہیں چاہتا؛بلکہ فقیری سے اٹھ کر شہنشاہی کر رہا ہے۔قومی خدمت صرف فقیری کرنے سے ہوتی ہے‘‘۔
شورش نے گاندھی کے اس جواب کا خاص پس منظر بیان کیاہے؛لیکن اگر ہم پچھلے سو ڈیڑھ سو سال کی مسلم سیاست ،قیادت پر نظر ڈالیں تو گاندھی کی یہ بات کتنی سچی ہے؛بلکہ اگر آپ خالی الذہن ہوکر تحریکِ آزادی کے دوران صرف مسلمانوں کے پلیٹ فارم سے بننے والی سیاسی پارٹیوں کا سرسری جائزہ لیں،تو گاندھی کی اس بات کی سچائی اور بھی روشن ہوکر سامنے آئے گی ۔آزادی سے پہلے کانگریس اور مسلم لیگ کے علاوہ درجنوں خالص مسلم سیاسی جماعتیں تھیں اور ان میں سے ہر ایک کا دعویٰ تمام مسلمانوں کی نمایندگی کا تھا۔خود مسلم لیگ جس نے مسلمانوں کے تحفظ و خود مختاری کے لیے پاکستان بنوایا،اس سے ٹوٹ کر اب تک وہاں لگ بھگ دودرجن سیاسی جماعتیں بن چکی ہیں۔ آزاد ہندوستان میں بھی ’’مسلم قیادت و سیاست‘‘کے کئی طوفان گزر چکے ہیں،اگر ان کی تاریخ دیکھ لی جائے ،تو اس سے بھی گاندھی کے ’’قومی خدمت‘‘اور ’’فقیری‘‘کے معنی سمجھے جاسکتے ہیں۔
حالیہ پانچ چھ سالوں کے دوران حکومت کی متعصبانہ پالیسیوں اور مبینہ سیکولر جماعتوں کی مسلمانوں سے کنارہ کشی کی وجہ سے جنوبی ہند کے سیاست داں اور ممبر پارلیمنٹ اسدالدین اویسی کو میدان خالی ملا اور انھوں نے مسلم مسائل پر کھل کر بولنا شروع کیا،جس کے نتیجے میں مودی حکومت کے پہلے دور کے شروع ہوتے ہی وہ قومی سطح کے مسلم لیڈر بن گئے اور پھر بتدریج مسلمانوں کے بہت بڑے طبقے میں ایک بار پھر ’’اپنی قیادت‘‘ اور ’’اپنی سیاست‘‘ کو فروغ دینے کا جذبہ پیدا ہوا ہے،مگر حیرت ؛بلکہ المیہ ہے کہ ایسا ہر شخص اِس چکر میں ہے کہ اسی کو قائدِاعظم مان لیا جائے اور باقی سارے لوگ اس کی جھنڈا برداری کرتے نظر آئیں۔سوشل میڈیا پر مفکری کی باڑھ آئی ہوئی ہے اور چوک چوراہوں پر سیاسی پھکیت اپنی ہفوات کو اتنی خود اعتمادی سے پیش کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے قوم کی نجات و ترقی کا تیر بہ ہدف نسخہ بس اسی مہاپرش کے پاس ہے۔
بہار الیکشن کے موجودہ منظرنامے پر غور کیجیے تو جو پارٹیاں مسلمانوں کے زخموں کا مداوا کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں،خود ان کی سمتیں بھی مختلف ہیں،مثال کے طورپر مجلس کسی اور اتحاد میں شامل ہے،جبکہ ایس ڈی پی آئی کسی دوسرے اتحاد کا حصہ ہے،جو کہ من حیث المجموع بہار الیکشن کا چوتھا اتحاد ہے۔ پھر مجلس کا اتحاد بھی بی ایس پی اور اوپندر کشواہا کی پارٹی سے ہے،جن کا بھی کچھ پتا نہیں کہ کیا گل کھلائیں گے۔ مایاوتی کی تاریخ بھی پلٹی بازی کی ہے اور کشواہا تو خیر این ڈی اے کے ذریعے ہی قومی سیاست میں نمایاں ہوئے ہیں اور مرکزی وزیر بھی رہے ہیں۔اس اتحاد میں اور بھی پارٹیاں شامل ہیں،مگر مرکز میں یہی تینوں ہیں اور یہ اتحاد پورے بہار میں الیکشن لڑ رہاہے۔ایس ڈی پی آئی نے چندرشیکھر آزاد اور پپو یادو والے الائنس میں شمولیت کا فیصلہ کیا ہے اور یہ الائنس بھی پورے صوبے میں الیکشن لڑ رہا ہے۔ دوسری طرف ان سے ،خصوصاً مجلس سے وابستہ کارکنان کا ردِعمل عجیب و غریب ہے۔ عام طورپر وہ اپنا موقف معروضیت کے ساتھ رکھنے کی بجاے دوسروں پر تبرے بازی پر اتر آتے ہیں، جو سیاست کے علاوہ عام زندگی میں بھی حد درجہ مذموم ہے اور ایسی حرکتوں سے آپ کے انفرادی کیرکٹر کی ہی پول نہیں کھلتی،پوری جماعت کی اصل شبیہ سامنے آتی ہے۔
دوسری طرف کچھ لوگ جو سیاسی طبع آزمائی کے لیے مجلس سے وابستہ ہوگئے تھے اور اس امید میں تھے کہ الیکشن لڑنے اور’’اسلام کی خدمت کرنے‘‘کا موقع ملے گا،جب انھیں ’’کسی وجہ ‘‘سے ٹکٹ نہیں دیا گیا،تووہ ایک سے بڑھ کر ایک انکشاف کر رہے ہیں۔اب تک کئی لوگ سوشل میڈیا پر آکر یہ الزام لگا چکے ہیں کہ مجلس نے لیاقت کی بجاے پیسے کو ٹکٹ کا معیار بنایا ہوا ہے اور بہار کے صںدرِ مجلس سمیت ان کے بعض خاص معاونین پر بھی پیسے لے کر ٹکٹ دینے کے الزامات لگ رہے ہیں،حالاں کہ یہ بات تو سارا ملک جانتا ہے کہ دوایک پارٹیوں کے علاوہ تقریباً تمام سیاسی جماعتیں انتخابات میں کسی بھی امیدوار کو مفت میں ٹکٹ نہیں دیتیں ؛لیکن اس کو سیاسی اخلاقیات یا مجبوری یا کچھ بھی کہیے کہ ایسی باتیں بس نجی محفلوں میں ہوتی ہیں،قومی سطح پر یہ کبھی موضوعِ بحث نہیں رہا۔
اب ان الزام لگانے والوں کی باتیں درست ہیں یا نہیں،اس کی وضاحت تو پارٹی کے ذمے داران کریں گے۔خبریں تو ایسی بھی آرہی ہیں کہ بعض ناراض کارکنان کو مجلس نے ٹکٹ دینے کا فیصلہ کرلیا ہے، مگر اس پورے سلسلۂ واردات سے دوباتیں سمجھ میں آتی ہیں۔ایک تو یہ کہ جو لوگ ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے پریشان ہیں ،مجلس کی قیادت کو کوس رہے ہیں اور اس کا بھانڈا پھوڑنے کا دعویٰ کررہے ہیں،وہ کبھی بھی نہ مجلس کے تئیں مخلص رہے اور نہ اپنے اس دعوے میں کہ وہ مسلمانوں کے لیے فلاں فلاں تیر ماریں گے۔دوسری یہ کہ خود مجلس کو اُسی طرح کی ایک سیاسی پارٹی سمجھنا چاہیے،جیسی ملک کی دوسری بڑی چھوٹی پارٹیاں ہیں، جو موقع لگنے پر کسی سے بھی اتحاد کر سکتی ہے اور امیدواروں کے انتخاب میں اس کا معیار بھی وہی ہے،جو دوسری پارٹیوں کا ہے،باقی کہنے اور اپنے لوگوں کو Motivateکرنے کے لیے بے شمار باتیں ہوسکتی ہیں ۔اویسی بلا شبہ ایک قابل سیاست دان ہیں اور انھوں نے مسلمانوں سے متعلق مسائل پر کھل کر اپنے موقف کا اظہار کیا ہے، مگر ایسے اور بھی بہت سے لوگ ہیں اور ان میں سے کچھ تو غیر مسلم بھی ہیں۔تو آپ اپنی صوابدید کے مطابق کسی بھی جماعت سے وابستگی اختیار کر کیجیے اور خلوص کے ساتھ سماجی و سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیجیے ؛لیکن فکر و عمل میں اعتدال و وسطیت کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔نہ کسی کی حمایت میں اندھا ہوجانا چاہیے اور نہ مخالفت میں حد سے گزرنا چاہیے،دونوں صورتیں مضر ہیں اور ہر حال میں مضر ہیں۔ آپ مجلس کو بھی ملک کی دوسری سیاسی پارٹیوں کی طرح ایک سیاسی پارٹی مان کر چلیے اور اگر دل چاہے تو اس کے پلیٹ فارم سے کام کیجیے،ایسے میں اگر خدا نخواستہ پارٹی سے کبھی آپ کا’’موہ بھنگ‘‘بھی ہوا،تو زیادہ تکلیف نہیں ہوگی؛لیکن اگر کہیں یہ سوچ کر اس سے وابستگی اختیار کرلی کہ مجلس کے جیتتے ہی مسلمانوں کے سارے مسائل ہوا ہو جائیں گے اور اویسی ’’اردوانِ ہند‘‘ہیں ،پھر کسی موقعے پر پارٹی یا اس کے قائدین آپ کی امیدوں پر کھرے نہیں اترے،تو ایسے میں تکلیف شدید ہوگی؛بلکہ بہت شدید ہوگی۔
علمِ استشراق کے مقابلے میں علمِ استغراب کی تشکیل کیوں ضروری ہے؟-ڈاکٹرمازن مطبقانی
ترجمہ:نایاب حسن
’یادگارِ زمانہ شخصیات کا احوالِ مطالعہ‘:ایک تاریخی و علمی دستاویز – نایاب حسن
عربی کا مشہور شاعر ابوالطیب المتنبی اپنے ایک مصرعے میں اس حقیقت کا اظہار کر گیا ہے کہ ’’زمانے میں کتابیں ہی سب سے اچھی دوست ہوتی ہیں‘‘۔ ذرا سا غور کریں تو واقعی کتابیں انسان کی سب سے بہترین ،ساتھ ہی مخلص ترین دوست ہوتی ہیں ،ان سے نہ تو بے وفائی کا خطرہ ہوتا ہے اور نہ کسی اور نقصان کا۔علم و نظر کی گیرائی اور فکر و تحقیق کی گہرائی حاصل کرنا ہو یا انفرادی و سماجی زندگی کے اتار چڑھاؤ سے واقفیت کا حصول،کچھ بننا ہو یا بنانا،اس سب کے لیے مطالعے کی ضـرورت ہے۔مطالعہ زیادہ تر کتابوں کا ہی ہوتا ہے اور بعض دفعہ انسانوں کا مطالعہ بھی ضروری اور کارگر ثابت ہوتا ہے۔کچھ لوگ بعض شکلوں کو دیکھ کر ان کے اندرون میں جھانک لیتے ہیں اور کچھ لوگ محض کسی کے قدموں کی آہٹ سے اس کے مزاج و مذاق کی نوعیت تک کا پتا لگا لیتے ہیں۔مطالعہ چہرۂ ذات کا بھی ہوتا ہے اور چہرۂ کائنات کا بھی،مگر اس پر مطالعے سے زیادہ مشاہدے کا اطلاق مناسب ہے کہ اس کے اثرات آنکھ کے راستے دماغ سے زیادہ دل تک پہنچتے ہیں اور خاص کیفیتوں سے ہم کنار کرتے ہیں۔اگر لفظِ’’مطالعہ ‘‘کے ماخذ و مشتق منہ پر غور کیا جائے، تومعلوم ہوگا کہ انسان پیدایش سے لے کر تادمِ آخر ’’مطالعے‘‘میں ہی مصروف رہتا ہے،گو کہ اس کی نوعیتیں مختلف ہوتی ہیں۔البتہ مطالعہ کا رائج اور اولِ وہلہ میں ذہن پر وارد ہونے ہونے والا مفہوم ’’کتاب کا مطالعہ‘‘ہے اور اگر کسی کو کتاب کے مطالعے کا سلیقہ اور ڈھنگ آجائے ،تو اس کے لیے مطالعۂ کائنات،مشاہدۂ موجودات اور مکاشفۂ حیات ؛سب آسان ہوجاتے ہیں۔کتابوں کی دنیا ایک الگ ہی دنیا ہوتی ہے،جہاں بیک وقت کئی دنیائیں آباد ہوتی ہیں ہیں،کئی تہذیبیں،کئی اقوام،کتنے ہی روشن و تاریک چہرے آپ کے سامنے سے گزرتے جاتے اور آپ کے ذہن و خیال پر ایک خاص اثر ڈالتے جاتے ہیں۔وہاں آپ ان لوگوں سے بھی ملتے ہیں،جنھیں عالمِ مشاہدہ میں کبھی نہیں دیکھا اور اِس دنیا میں اس کا امکان بھی نہیں،ایسے ایسے واقعات میں بھی بنفسِ نفیس شامل ہوجاتے ہیں،جو آپ کے اس دنیا میں آنے سے صدیوں قبل ظہور میں آچکے۔علمی نکات آفرینی کی صلاحیت پیدا کرنی ہے تو کتاب پڑھنی ہوگی،گفتگو کا ڈھنگ اور لکھنے کا آہنگ سیکھنا ہے تو پڑھنا ہوگا،زندگی گزارنے کا سلیقہ اور افراد و سماج کو برتنے کا اچھا طریقہ معلوم کرنا ہے،تو کتاب بینی ضروری ہے ،اپنے رنج و غم کے بوجھ کو ہلکا کرنا ہے تو کتاب کی ضرورت ہوگی،کسی کے چہرے پر مسکراہٹیں بکھیرنی ہیں،توکتاب چاہیے،کسی کو بھولنا ہے،تو بھی کتاب کا سہارا بہت کارگر ثابت ہوگا،کسی کو یادوں میں بسائے رکھنا ہے،تواس کا بہترین ذریعہ بھی کتاب ہی ہے۔الغرض کتاب میں زندگی ہے، سو زندہ رہنا ہے تو کتاب چاہیے،بغیر کتابوں والی زندگی وہ ہے،جسے ’’کالأنعام‘‘جانوروں والی زندگی کہا گیا ہے،اقبال نے انسانی زندگی سے کتاب کے لازمی و لابدی انسلاک کو یوں بیان کیا ہے:
نہیں کتاب سے ممکن تجھے فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے،مگر صاحبِ کتاب نہیں!
مگر افسوس کہ ٹکنالوجی کی بے تحاشا؛بلکہ بے محابا ترقی کے اس دور میں کتابوں کا رواج کم ہوتا جارہا ہے اور فیزیکل مطالعے کی بجاے ڈیجیٹل ریڈنگ یا آڈیو،ویڈیوبکس کا بول بالا ہو رہا ہے،اس کے اپنے فائدے بھی ہیں،مگر نقصانات زیادہ ہیں ،جس کی وجہ سے بہت سے اہلِ دانش اور کتاب قبیلے سے تعلق رکھنے والے لوگ فکر مند ہیں۔ گلزار صاحب نے اپنی ایک مشہور نظم میں برقی کتابوں کے پھیلتے اور مطبوعہ کتابوں کے سمٹتے،سکڑتے کلچر پر منفرد انداز میں دکھ کا اظہار کیا ہے:
کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے
بڑی حسرت سے تکتی ہیں
مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں
جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں، اب اکثر
گزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر
بڑی بے چین رہتی ہیں کتابیں
انھیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہو گئی ہے
بڑی حسرت سے تکتی ہیں
——-
وہ سارا علم تو ملتا رہے گا آئندہ بھی
مگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے سوکھے پھول اور
مہکے ہوئے رقعے
کتابیں مانگنے، گرنے ،اٹھانے کے بہانے رشتے بنتے تھے
ان کا کیا ہوگا
وہ شاید اب نہیں ہوں گے!
اور اسی وجہ سے سعود عثمانی نے اس صدی کو کتابوں سے عشق کی آخری صدی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ’’کاغذ کی یہ مہک،یہ نشہ روٹھنے کو ہے‘‘۔
ایسے ماحول میں نئی نسل کو فیزیکل مطالعے یعنی ورقی اور مطبوعہ کتابوں کے مطالعے کی ترغیب دینا بلاشبہ ایک کارِ خیرہے اور ایسی ہر کوشش لائقِ تحسین اور قابلِ تشجیع ہے۔ایسی ہی ایک بہت عمدہ کوشش پڑوسی ملک کے معروف عالم دین و صاحبِ طرز اہلِ قلم مولانا ابن الحسن عباسی نے کی ہے۔انھوں نے اپنے زیر ادارت شائع ہونےوالے ماہنامہ’’النخیل‘‘کا ایک خاص ضخیم نمبر ’’یادگارِ زمانہ شخصیات کا احوالِ مطالعہ‘‘کے عنوان سے نکالا ہے۔ زیر تذکرہ مجموعے میں اَسی سے زائد ہندوپاک کے موجودہ بڑے بڑے اہلِ علم و دانش کا احوالِ مطالعہ جمع کیا گیا ہے اور اس کی صورت انھوں نے یہ اختیار کی تھی کہ متعلقہ شخصیات کو ان کی مطالعاتی زندگی سے متعلق چند سوالات لکھ کر بھیجے اوران کے جواب میں انھوں نےمضمون کی شکل میں تحریر ارسال فرمادی،اس طرح سوا آٹھ سو سے زائد صفحات میں بڑا قیمتی علمی سرمایہ جمع ہوگیا ہے۔تمام شخصیات نے اپنے اپنے انداز میں اپنے مطالعے کا احوال،طریقہ اور نئی نسل کی رہنمائی کے سلسلے میں قیمتی نکات شیئر کیے ہیں۔ چند ایک کے استثنا کے ساتھ اکثر لکھنے والے مدارس و جامعاتِ دینیہ کے اساتذہ وفضلا ہیں سو ان کے پسندیدہ مصنفین میں عموماً یکسانیت پائی جاتی ہے،البتہ ان میں سے کچھ لوگ جو باقاعدہ تحریر و انشا کا بھی ذوق رکھتے ہیں ،ان کے دائرۂ مطالعہ میں خاصی وسعت ہے اوراردو میں مولانا آزاد،عبدالماجد دریابادی،مولانا مناظر احسن گیلانی ،مولانا مودودی ،مولانا منظور نعمانی،مولانا وحیدالدین خان، مولانا علی میاں ندوی و شورش کاشمیری سے ہوتے ہوئے مرزا فرحت اللہ بیگ، کرشن چندر،پریم چند ، قرۃ العین حیدر،مشتاق یوسفی،مستنصر حسین تارڑ،شفیق الرحمن، ابن انشا،نسیم حجازی،عنایت اللہ التمش،شاعروں میں غالب، اقبال، میر، مومن، داغ، ذوق اور دیگر بہت سے قدیم و جدید شعرا و نثر نگاروں تک پھیلا ہوا ہے،جبکہ عربی ادب کے جدید و قدیم اہم ادبا و مصنفین بھی ان کی مطالعاتی لسٹ میں شامل ہیں۔ مولانا جلال الدین عمری ، مولانا رابع حسنی ندوی، مولانا نورالحسن راشد کاندھلوی،مولانا ولی رحمانی ، عطاء الحق قاسمی،مولانابدرالحسن قاسمی،مولانا تقی عثمانی،مولانا خالد سیف اللہ رحمانی،محمد متین خالد، مولانا محمد اسلام قاسمی،ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر،مولانا ندیم الواجدی،مجیب الرحمن شامی ، مولانا نسیم اختر شاہ قیصر اور سید سعادت اللہ حسینی وغیرہ کی مطالعاتی زندگی کی رودادیں خاصی دلچسپ ہیں ۔ کچھ مضامین بھرتی کے بھی ہیں ،ایک آدھ میں غیر ضروری دراز نفسی بھی در آئی ہے،مگر من حیث المجموع بیشتر اہلِ قلم کے مضامین بالکل ٹو دی پوائنٹ اور مدیر کے سوال نامہ کی ترتیب کی روشنی میں لکھے گئے ہیں اوران میں سیکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ موجود ہے۔ اس مجموعے کا دیباچہ جسے مولانا عبدالمتین منیری نے لکھا ہے اور مطالعہ کے طریقہ و سروکار پر جو فاضلانہ گفتگو کی ہے،وہ خاصے کی چیز ہے۔’’النخیل‘‘کے معاون مدیر مولانا محمد بشارت نواز نے اپنے مضمون میں مطالعے کے تعلق سے اردو زبان میں اب تک شائع شدہ کتابوں ،رسالوں کا اچھا تعارفی تجزیہ پیش کیا ہے۔آخر میں مولانا عبید اختر رحمانی کا مضمون ’’مطالعہ کے اصول و آداب‘‘،مفتی عبید انور شاہ قیصر کا’’مطالعہ کی اہمیت،اصول اور طریقۂ کار‘‘اور مولانا سراج الدین ندوی کا’’بچوں میں مطالعہ کا ذوق کیسے پیدا کریں؟‘‘بہت اچھے مضامین ہیں اور خصوصاً جو لوگ اپنے اندر مطالعے کی عادت ڈالنا چاہتے ہیں یا اپنے بچوں اور شاگردوں کو اس راہ پر لگانا چاہتے ہیں،انھیں ضرور پڑھنا چاہیے۔
نئی نسل کو کتابوں سے مربوط کرنے اور مطالعے کی عادی بنانے کے لیے مولانا ابن الحسن عباسی اور ان کے رفقا نے نہایت گراں قدر کارنامہ انجام دیا ہے اور بہت سے موجودہ اہلِ علم و دانش کے تجربات ،مشاہدات ،ملاحظات اور ہدایات کو یکجا کردیا ہے،جس سے اصحابِ توفیق خاطر خواہ مستفید ہوسکتے ہیں اور نتیجہ خیز علمی و مطالعاتی زندگی کا آغاز کر سکتے ہیں۔یہ کتاب ان لوگوں کے لیے بھی مفید ہے ،جو پہلے سے مطالعے کے عادی ہیں اور کتابوں کی ہم نشینی میں رہتے ہیں ؛کیوں کہ اس میں بہت سی کتابوں کے بارے میں لکھنے والوں نے اپنی آرا کا اظہار کیا ہے،آپ اپنے مطالعے کی روشنی میں ان کی رایوں کا جائزہ لے سکتے ہیں،تنقید و محاکمہ کر سکتے ہیں اور استفادہ بھی کر سکتے ہیں۔ایک چیز البتہ ذاتی طورپر میرے لیے باعثِ قلق ثابت ہوئی کہ اس میں مدیرِ رسالہ مولانا ابن الحسن عباسی کی محض دوصفحے کی تحریر ہے،وہ بھی اس مجموعۂ مضامین سے متعلق ۔میں اس امید میں تھا کہ مطالعہ اور کتابوں کے حوالے سے ان کا ایک بھر پور مضمون اس کتاب میں پڑھنے کو ملے گا۔ان کے طرزِ تحریر میں ایک خاص نوع کی شوخی و شیرینی پائی جاتی ہے اور معلو مات کی فراوانی بھی۔ اکابر علما و مفکرین کی علمی زندگیوں اور ان کے نزدیک وقت کی قدرو قیمت کے حوالے سے ان کی مشہور کتاب’’متاعِ وقت اور کاروانِ علم‘‘میں نے بارہا پڑھی ہے اور ہر بارنئی لذت محسوس کی ہے۔اِس کتاب میں اگر وہ اپنے مطالعاتی سفر کی روداد بھی شامل کرتے ،تو کیا ہی اچھا ہوتا۔
بہر کیف موجودہ شکل میں بھی یہ کتاب غیر معمولی اہمیت و افادیت کی حامل ہے۔ہندوستان میں اس کی طباعت مکتبہ النور و مکتبہ الانور،دیوبند کے زیر اہتمام اور مرکزی پبلی کیشنز ،دہلی کی معرفت ہوئی ہے۔ ٹائٹل نہایت عمدہ و نفیس ہے اورکاغذخوب صورت استعمال کیا گیا ہے، اندر کی ترتیب و پیش کش میں بھی حسن کاری و جمال آرائی کو خاص طورپر ملحوظ رکھاگیا ہے۔ اتنے اعلیٰ معیار پر چھپی ہوئی سوا آٹھ سو صفحے کی کتاب کی (عام ) قیمت آٹھ سو روپے بھی بہت زیادہ نہیں ہے،مگر ناشرین نے خصوصی رعایت کرتے ہوئے اس کی قیمت محض چار سو روپے رکھی ہے،علم و کتاب کا ذوق رکھنے والے اور کتب بینی کے عادی یا اسے اپنے معمولات کا حصہ بنانے کے خواہش مند ہر شخص کو ضرور اس کا مطالعہ کرنا چاہیے ؛بلکہ اس وقت اچانک مجھے گلزار کی منتخب غزلوں ،نظموں ،گیت اور تروینی کے مجموعے (مرتب:گلشیر بٹ) پر پڑوس کے معروف رائٹر انور سن رائے کے تبصرے کا ایک خوب صورت اقتباس یاد آ رہا ہے،جومیرے خیال میں اس کتاب پر بھی حرف بہ حرف صادق آ تا ہے کہ ’’ یہ کتاب پڑھنے ہی کی نہیں، مسلسل پڑھنے، دیکھنے اور رکھ کر بھی خوش ہونے کی ہے۔‘‘
کتاب حاصل کرنے کے لیے مولانا بدرالاسلام قاسمی سے ان نمبرات9045909066,9456422412:پر رابطہ کر سکتے ہیں اور اگر آپ بھی صاحبِ تصنیف ہیں،تو عمدہ و معیاری طباعت کے لیے مرکزی پبلی کیشنز ،دہلی کے سربراہ مولانا فیروز اختر قاسمی سے اس نمبر9811794822پر رابطہ کر سکتے ہیں۔
بہار الیکشن سے عین قبل ریاست میں کئی مسائل بھڑک اٹھے ہیں،جنھیں حل کرنے یا یہ کہیں کہ سرد کرنے کی حکومتی تدبیریں بھی جاری ہیں۔کسی دلت کے قتل پر ایک وارث کو سرکاری نوکری،انٹر پاس غیر شادی شدہ لڑکیوں کواب دس کی بجاے پچیس ہزار اور گریجویشن پاس لڑکیوں کو پچیس کی جگہ پچاس ہزار روپے کا خصوصی اسکالرشپ ، حال ہی میں اسسٹنٹ پروفیسروں کی تقرری اور اردو مترجم و معاون مترجم کی تقرری کے لیے امتحانات کی ممکنہ تاریخ کے اعلانات کو اسی سلسلے کی کڑی قرار دیاجا سکتا ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی بھی مختلف شعبوں میں کئی سو کروڑ کے منصوبوں کا افتتاح کر چکے ہیں،دربھنگہ ہوائی اڈے کی شروعات کی خبر ایک بار پھر انگڑائی لینے لگی ہے ۔انہی انتخابی مسائل و موضوعات میں ایک موضوع اردو کا بھی شامل ہوگیا ہے۔حالاں کہ اردو کے کچھ مسئلے مثلاً بہار اردو اکیڈمی ،اردو مشاورتی بورڈ وغیرہ جیسے سرکاری اداروں سے متعلق پہلے سے بھی موجود تھے ۔تازہ مسئلہ بھی مئی میں ہی پیدا ہوا تھااور وہ یہ تھا کہ ہائی اسکولوں میں اردو کو لازمی مضمون کی بجاے اختیاری مضمون قرار دے دیا گیا اور اب اساتذہ کی تقرری پانچ لازمی سبجیکٹ (ہندی،انگریزی، سماجیات، سائنس، ریاضی) اور ایک استاذ کی تقرری دوسری زبان کے لیے ہوگی جس میں سنسکرت، بنگلہ، میتھلی، بھوجپوری ،عربی و فارسی وغیرہ پہلے سے تھیں اور نئے یعنی پندرہ مئی دوہزار بیس کے محکمۂ تعلیم،بہار کے نوٹیفکیشن کے بعد اس ضمن میں اردو بھی شامل ہوگئی ہے،اس سے قبل مادری زبان اور دوسری راج بھاشا ہونے کی حیثیت سے اردو لازمی مضمون کی حیثیت سے شامل نصاب رہی ہے۔ نتیش کمار نے پہلی بار ہی حکومت میں آنے کے بعد یہ اعلان کیاتھا کہ بہار کے تمام اسکولوں میں اردو کے اساتذہ تقرر کیے جائیں گے،ان کی حکومت میں اردو کے حق میں کئی قابل ستایش قدم اٹھائے بھی گئے،اردو کے کئی ادارے بہار میں سرکاری سرپرستی میں چل رہے ہیں ،یہ الگ بحث کا موضوع ہے کہ ان اداروں سے اردو کے فروغ کا کیا اور کتنا کام ہو رہا ہے اور بہار کے اسکولوں میں کتنے اساتذہ کی سیٹیں ہنوز خالی ہیں۔
مئی والے نوٹیفکیشن کا علم اردو والوں کو تقریباً دو ماہ تک نہیں ہوسکا تھا یا معلوم تھا مگر اس پر خاموشی تھی ،غالباً جولائی کے آغاز یا جون کے اواخر میں ایک ہندی اخبار نے اس تعلق سے ایک خبر شائع ،پھر ڈاکٹر مشتاق دربھنگوی، مفتی ثناء الہدی قاسمی،ڈاکٹر سید احمد وغیرہ کے تفصیلی مضامین اس حوالے سے شائع ہوئے،بہار سٹیٹ اردو ٹیچرز ایسو ایشن بھی جولائی کے وسط سے اس معاملے میں سرگرم ہے،اس کی طرف سے 11جولائی کو ہی وزیر اعلیٰ کو خط لکھ کر توجہ دلائی گئی تھی۔اردو اخباروں میں کئی لوگوں کے بیانات شائع ہوئے اور اگست کے وسط تک بہار کے تقریباً تمام اردو والوں کویہ بات پتا چل گئی کہ حکومت نے ہائی اسکول سطح کے نصابِ تعلیم سے اردو سبجیکٹ کی لازمی حیثیت کو ختم کردیا ہے؛ چنانچہ پٹنہ و آس پاس میں موجود اردو کے سرکاری و غیر سرکاری اداروں سے وابستہ بعض سرگرم اشخاص سمیت عام اردو والے بھی بیدار ہوگئے،کچھ لوگوں نے وزیر تعلیم سے ملنے اور مسئلے کو حل کروانے کی کوشش کی،تو کچھ لوگوں نے احتجاج و مطالبۂ انصاف کا فریضہ ادا کیا۔ سوشل میڈیا اور اردو اخبارات میں بہار کے متعدد اضلاع سے ایسی تصویریں مسلسل نظر آرہی ہیں ،جن میں چند لوگ اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھائے بہار حکومت سے اردو کے ساتھ انصاف کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور جوں جوں الیکشن کے دن قریب آ رہے ہیں،یہ سلسلہ بھی تیز تر ہوتا جارہا ہے۔
اب ایک نیا نوٹیفکیشن محکمۂ تعلیم کا گشت کر رہا ہے،جس میں یہ کہا گیا ہے کہ جس اسکول میں بھی اردو یا دیگر دوسری زبانوں میں سے کسی ایک کے پڑھنے والے طلبہ ہوں گے،وہاں اس زبان کے استاذ کی تقرری ہوگی،مئی والے اور تازہ نوٹیفکیشن میں فرق یہ ہے کہ پہلے والے میں چالیس طلبہ کی حد بندی تھی،اس میں اس تعداد کو مبہم رکھا گیاہے،مگر حیثیت اردو کی دوسری بھاشا کی پہلے والے میں بھی تھی اور اس میں بھی ہے۔ یہ دوسرا اعلامیہ ستائیس اگست کا جاری کردہ ہے اور مدرسہ بورڈ کے موجودہ چیئر مین و انجمن ترقی اردو کی بہار شاخ کے سکریٹری عبدالقیوم انصاری کا کہنا ہے کہ یہ دوسرا نوٹیفکیشن انجمن ترقی اردو بہار کی کوششوں سے ہی جاری ہوا ہے،یہ بات انھوں نے جہان آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہی ہے،ان کا ایک لمباسا بیان پچیس ستمبر کو بہار کے کئی اردو اخباروں میں شائع ہوا ہے۔اس سے قبل 11ستمبر کو انجمن ترقی اردو بہار کی جانب سے لگ بھگ آدھے پیج کا ایک اشتہار شائع کروایا گیا تھا،جس میں اردو اور اقلیتوں(مسلمانوں) کے حق میں نتیش حکومت کے فیصلوں،اقدامات اور منصوبوں کا گن گان کیا گیا تھا،اس کی ابتدائی سطروں میں مئی والے نو ٹیفکیشن اور اس کے بعد ستائیس اگست والے نوٹی فکیشن کا بھی ذکر تھا اور یہ لکھا گیا تھا کہ ’’انجمن ترقی اردو بہار کی کوششوں سے محکمۂ تعلیم نے 15-05-2020کو جاری کردہ اعلامیے میں ترمیم کرتے ہوئے 27-08-2020کو نیا اعلامیہ جاری کیا ہے،جس کے مطابق اگر سکینڈری و انٹر سطح کے اسکولوں میں اردو کا ایک طالب علم بھی ہوگا تو اس کے لیے استاذ کی تقرری کی جائے گی‘‘۔
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ انجمن ترقی اردو ہند کے صدر دفتر یعنی دہلی سے مختلف قسم کی آواز اٹھ رہی ہے اور اس کی بہار شاخ کا موقف کچھ اور ہے۔ چوبیس ستمبر کو اردو کے اخبارات میں انجمن ترقی اردو ہند کے ذریعے وزیر اعلی بہار کو انجمن کے قومی صدر پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی،رکن مجلس عاملہ پروفیسر اختر الواسع اور سکریٹری اطہر فاروقی کے ذریعے روانہ کردہ ایک خط کے حوالے سے خبر شائع ہوئی ہے،جس میں انھوں نے بہار حکومت کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اس کی سابقہ حیثیت کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسرے نوٹیفکیشن کے حوالے سے آج روزنامہ قومی تنظیم و دیگر اردو اخبارات میں ایک خبر شائع ہوئی ہے،جس کا عنوان ہے’’محکمۂ تعلیم کی وضاحت،اردو کی لازمیت بر قرار‘‘،مگر خبر جے ڈی یو کے نو منتخب رکن قانون ساز کونسل پروفیسر غلام غوث اور اردو کونسل کے ناظم اعلیٰ ڈاکٹر اسلم جاوداں کی وزیر اعلیٰ بہار کے پرنسپل سکریٹری، محکمۂ تعلیم کے پرنسپل سکریٹری اور بہار ایگزامنیشن بورڈ کے چیئر مین کے ساتھ ہونے والی میٹنگ کے تعلق سے ہے، اس میں جو تفصیلات درج ہیں،ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان افسران نے بس زبانی یقین دہانی کی کوشش کی ہے۔غلام غوث صاحب کا کہنا ہے کہ’’ اردو والوں کے مطالبات کی تکمیل کی مہم جاری رکھیں گے‘‘،انھوں نے امید ظاہر کی ہے کہ ہمیشہ کی طرح محبانِ اردو کا تعاون انھیں حاصل رہے گا۔
بہار اسٹیٹ اردو ٹیچرس ایسوسی ایشن کے چند عہدے داروں نے مل کر24ستمبر کو حزبِ اختلاف کے لیڈر تیجسوی یادو کومیمورنڈم دیا ہے،تیجسوی نے رسمی طورپر یقین دہانی کروائی ہے کہ ’’وہ اپنی سطح پر اس مسئلے کو بھر پور طریقے سے اٹھائیں گے اور حکومت سے مطالبہ کریں گے کہ اردو کے ساتھ نا انصافی بند کرے‘‘۔ یکم ستمبر کو آرجے ڈی لیڈر عبدالباری صدیقی کابیان بھی اس ضمن میں آچکا ہے، انھوں نے کہا تھا کہ ’’اردو ٹیچر کی بحالی کے لیے چالیس طلبہ کی قید بہار سے اردو کو ختم کرنے کی سازش ہے ‘‘۔آرجے ڈی کے ممبر اسمبلی فیصل رحمن نے بھی 21ستمبر کو اس تعلق سے وزیر اعلیٰ کو خط لکھاہے۔ اس کے علاوہ جمعیت علما ے بہار اور امارت شرعیہ بھی اس تعلق سے بیان کی حد تک اپنی ذمے داری سے فارغ ہو چکی ہیں۔
الغرض ہائی اسکولوں کے نصاب میں لازمی طورپر اردو کی بقا کے سلسلے میں ایک طرف حکومت صفائیاں پیش کر رہی ہیں ،بہار ایگزامنیشن بورڈ کا پچیس ستمبر کو وضاحتی اشتہار بھی شائع ہوا ہے،دوسری طرف حکومتی موقف کے خلاف آوازیں بھی بہت زور وشور سے اٹھ رہی ہیں،مگر خاص بات یہ ہے کہ ان آوازوں میں کسی قسم کا اتحاد نہیں ہے،سب کی اپنی اپنی ڈفلی،اپنا اپنا ڈھول ہے۔گورنمنٹ کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد کے دوڈھائی ماہ تک تو مکمل خاموشی رہی،گنے چنے دانشوران اور اہلِ قلم نے اس جانب توجہ دلائی ،تو بھی متعلقہ با اثر شخصیات یا ادارے سبک سری کا مظاہرہ کرتے رہے، مگر اب ایسا لگتا ہے کہ ہر کوئی الیکشن کے موسم کو غنیمت جانتے ہوئے ’’خادمِ اردو‘‘ اور’’قائدِ اردو‘‘ کا تمغہ اپنے نام کرنا چاہتاہے۔بہار میں اردو کے نام پر سیاست کی اپنی تاریخ ہے اور اسے اِس الیکشن میں بھی دہرانے کی کوششیں تیز ہو رہی ہیں۔اب تو ووٹنگ کی تاریخوں کےاعلان کے ساتھ انتخابی ضابطۂ اخلاق بھی نافذ ہوچکا ہے،تو شاید اس موضوع پر حکومت کی جانب سے کوئی نیا عملی اقدام یا وضاحت مشکل ہے ۔ سو دیکھنا یہ ہے کہ کیا حکومت اردو والوں مطمئن کر نے میں کامیاب ثابت ہوگی؟کیا اس نئے مسئلے کی وجہ سے جدیو اور این ڈی اے کے ووٹوں پر کچھ منفی یا مثبت اثر پڑے گا؟ اور کیا کسی دوسری پارٹی کو بھی اس کا فائدہ ہو سکتا ہے؟
یوں تو اس وقت ساری دنیا کورونا جیسی ہلاکت ناک وبا کی وجہ سے مختلف بحرانوں میں مبتلاہے،جن میں سب سے نمایاں طبی اور معاشی بحران ہیں۔جو ممالک اور وہاں کی حکومتیں اپنی ذمے داریوں کے حوالے سے سنجیدہ اور عوام کی فلاح و بہبود کے تئیں پابندِ عہد ہیں انھوں نے اپنے یہاں نہ صرف اس وبا پر بہت حد تک قابو پالیا بلکہ ان کی معیشتیں بھی پٹری پر آنے لگی ہیں۔حالاں کہ اس وقت امریکہ جیسی عالمی طاقت اس وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہے اور اس کی وجہ سے وہاں کی معاشی صورت حال پر بھی منفی اثر پڑا ہے؛چنانچہ2020-21کے مالی سال کے دوسرے کوارٹر میں امریکی معیشت9.5فیصد گراوٹ سے دوچار ہوئی ہے اور اسی طرح دنیا کی ایک اور بڑی معیشت جاپان کو بھی قدرے سست روی کا شکار ہونا پڑا اور دوسرے کوارٹر میں 7.6فیصد گراوٹ سے دوچار ہوئی ہے۔مگر اس معاملے میں ہندوستان سب سے بری حالت میں ہے اور دوسرے کوارٹرمیں یہاں کی معیشت میں23.9فیصد کی گراوٹ درج کی گئی ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں میں سب سے زیادہ ہے۔اس کی بنیادی وجہ کورونا وائرس کے سبب ملکی سطح پر نافذ کیے جانے والے سخت لاک ڈاو ¿ن اور اس کی وجہ سے وسیع پیمانے پر پھیلنے والی بے روزگاری کو قرار دیا جاسکتا ہے۔وزیر خزانہ سیتارمن نے تو اس حالت کا ذمے دار’ایکٹ آف گاڈ‘کو قرار دیاہے، جس پر اپوزیشن کی جانب سے کافی اعتراضات بھی کیے گئے ،سابق وزیر خزانہ اور کانگریسی رہنما پی چدمبرم نے چھ ستمبر کو انڈین ایکسپریس کے اپنے کالم میں ان کی اس بات کو خاص طورپر طنز کا نشانہ بنایا اور شیوسینا کے رہنما سنجے راوت نے بیان جاری کرکے کہا کہ سیتارمن بھگوان کو الزام دے رہی ہیں ،جو ہندوتوا کے نظریے کے خلاف ہے۔سابق آربی آئی گورنر رگھو رام راجن نے بھی موجودہ ملکی معیشت پر سخت تشویش کا اظہار کیاہے ،انھوں نے اپنے لنکڈ ان پیج پرایک پوسٹ میں لکھا کہ جی ڈی پی میں اس حد تک گراوٹ پورے ملک کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے اور ہندوستانی بیوروکریسی کو جلد ازجلد اس سلسلے میں بامعنی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
پیر کے دن حکومت کی جانب سے جی ڈی پی کا ڈاٹا ریلیز کیاگیا ہے، اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ دوسرے کوارٹرمیں کئی اہم سیکٹرز میں غیر معمولی گراوٹ آئی ہے۔تعمیرات،صنعت اور مواصلات کے شعبوں میں سب سے زیادہ اثر پڑا ہے۔ اعداد و شمار سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان اس وقت1996کے بعد کے سب سے بڑے معاشی بحران سے دوچار ہے۔ہندوستانی معیشت کو مزید پیچیدگی کا سامنا اس لیے بھی کرنا پڑ رہاہے کہ یہاں بڑی تعدادمیں لوگ غیر رسمی سیکٹر سے وابستہ ہوتے ہیں،وہ ایسے اداروں اور کمپنیوں میں ملازمت کرتے ہیں جو عام طورپر سرکارکی رسائی سے دور ہوتی ہیں،خود مختار ہوتی ہیں یا وہ خود اپنے طورپر چھوٹا موٹا کاروبار کرتے ہیں۔جیسے رکشہ چلانے والے،درزی،روزانہ مزدوری کرنے والے لوگ اور زراعت کے پیشے سے وابستہ افراد۔ ماہرین معاشیات کا تو یہ کہناہے کہ آفشیل اعداد و شمار میں ان شعبوں کی حقیقی صورت حال کی نشان دہی نہیں کی گئی ہے اور اصل حالت اس سے بھی بدتر ہوسکتی ہے۔
اِس سال کے شروع میں ہی چین اور دنیا کے دوسرے ملکوں میں کورونا وائرس کے پھیلاو ¿ کے بعد ہندوستان میں بھی اس کے اثرات نظر آنے لگے تھے اور مارچ آتے آتے حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ پورے ملک میں سخت لاک ڈاو ¿ن لگادیا گیا،اتنی بڑی آبادی اور مہاجر مزدوروں کی کثیر تعداد رکھنے والے ملک میں یہ فرمان جاری کیاگیا کہ جوجہاں ہے وہیں رہے،ہر قسم کے نقل و حمل پر روک لگادی گئی،کارخانے،کمپنیاں اور تمام تجارتی و کاروباری مصروفیات بند کر دی گئیں یعنی پورا ملک اچانک تھم سا گیا،جو جہاں تھے،وہیں رکنے پر مجبور ہوگئے اور صرف اس وجہ سے بھی سیکڑوں جانیں گئیں اور دیگر نقصانات ہوئے۔اس صورت حال کی وجہ سے ملک کے مختلف شہروں میں مزدوری کرنے والے لاکھوں لوگ اپنے گھروں کو جانے لگے،کچھ دنوں کے بعد معاشی حالت کو کچھ بہتر کرنے کے لیے لاک ڈاو ¿ن میں کچھ ڈھیل دی گئی اور بعض کاروباری سرگرمیاں شروع کی گئیں،مگر اس کے نتیجے میں ملکی معیشت تو خیر کچھ بہتر نہ ہوپائی البتہ غیر معمولی برق رفتاری کے ساتھ پورے ملک میں کورونا وائرس پھیلنے لگا اور اس وقت کی صورتحال یہ ہے کہ ہندوستان کورونامتاثرین کے معاملے میں دوسرے نمبر پر پہنچ گیا ہے اور روزانہ نوے ہزار سے زائد کیسز آنے لگے ہیں۔اس معاملے میں ہندوستان سے اوپر صرف امریکہ رہ گیا ہے، برازیل بھی پیچھے چلاگیا ہے۔
محض چند سال قبل 1.3بلین آبادی والا ہندوستان دنیاکی تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشت تھا اور مجموعی گھریلو پیداوارکی شرح آٹھ فیصد بلکہ اس سے بھی زیادہ تک پہنچ گئی تھی،مگر پھر جلد ہی اس میں گراوٹ بھی شروع ہوگئی اور کورونا سے پہلے بھی ہندوستانی معیشت کوئی بہت اچھی پوزیشن میں نہیں تھا۔مثال کے طورپر پچھلے سال اگست میں کار کی فروخت میں 32فیصد کی گراوٹ آئی تھی جو پچھلی دودہائیوں میں سب سے زیادہ تھی۔
حکومت نے پیر کو جو ڈاٹا ریلیز کیا ہے اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ اخراجات،پرائیویٹ سرمایہ کاری اور کھیل کے شعبے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔اس کے علاوہ تجارت،ہوٹل اور مواصلات کے شعبے میں47فیصد گراوٹ آئی ہے۔ایک وقت میں نہایت توانا رہنے والی ہندوستانی مینوفکچرنگ انڈسٹری میں 39فیصد تک کمی آگئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق صرف ایک شعبہ ہے جہاں ہندوستانی معیشت نے کچھ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور وہ زراعت کا شعبہ ہے،پہلے کوارٹر میں اس شعبے میں شرحِ نموتین فیصد تھی جو دوسرے کوارٹرمیں3.4فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ماہرین معاشیات اس کی وجہ اس مانسون میں ہونے والی اچھی بارش کو قرار دے رہے ہیں ۔چدمبرم نے اپنے کالم میں اسی حوالے سے حکومت پر طنز کیا ہے اور لکھا ہے کہ سیتارمن جی نے ملک کی گرتی معیشت کی ذمے داری پوری طرح ’گاڈ‘کے سر ڈال دی، مگر گاڈ نے ہی موسمِ برسات میں اچھی بارش برسائی جس کے نتیجے میں ملک کے زراعت سیکٹر میں بہتری آئی ہے ۔
گرچہ اس ماہ کئی اہم صنعتی سیکٹر ز کے کھولنے کا فیصلہ کیاگیا ہے ،مگر اس کے باوجود کورونا وائرس ملک میں جس تیزی سے پھیلتا جارہاہے اور لوگوں میں جو خوف و ہراس سمایا ہواہے اس کی وجہ سے مستقبل قریب میں ہندوستانی معیشت کی مکمل بہتری کا امکان نظر نہیں آتا۔ملک کے ماہرینِ معاشیات بھی اس حوالے سے اسی رائے کا اظہار کررہے ہیں۔ آئی سی آر اے میں ایکونومسٹ محترمہ ادیتی نائرکا بیان نیو یارک ٹائمس نے شائع کیاہے کہ گرچہ ملک کے کچھ حصوں کی معیشت بہتر ہونے لگی ہے،مگر کورونا انفیکشن کے لگاتار بڑھنے کی وجہ سے حالات اُس رفتار میں بہتری کی طرف نہیں جاسکتے،جس کی ضرورت ہے۔اس ملک میں کورونا سے اموات کی شرح کم اس لیے ہے کہ دیگر ممالک کے مقابلے میں ہندوستان ایک نوجوان ملک ہے ،جہاں کی زیادہ تر آبادی نوجوانوں کی ہے اور وہ وائرس سے لڑنے کی زیادہ قوت رکھتے ہیں۔
اگر ملک کی ریاستوں کی بات کریں تواب بھی مہاراشٹر،بہار،کرناٹک،جھارکھنڈ،یوپی اور دیگر کئی ایسی ریاستیں ہیں جہاں حالات بہت بہتر نہیں ہیں اور وہاں کی حکومتیں گو مگو کی کیفت میں ہیں۔کبھی لاک ڈاو ¿ن میں ڈھیل دی جاتی ہے تو کبھی سختی کردی جاتی ہے۔کبھی ہفتے میں دودن لاک ڈاؤن کی تجویز آتی ہے تو کبھی رات کے وقت میں لاک ڈاؤن لگایا جاتا ہے۔اس کی وجہ سے بھی صنعت کاروں اور مزدوروں کو دشواریوں کا سامنا ہے اور وہ اپنا کاروبار یا مزدوری شروع کرنے کے سلسلے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر پارہے ہیں۔ وزیراعظم مسٹر مودی یہ نعرہ دیتے آرہے ہیں کہ 2024تک ہندوستان پانچ ٹریلین کی معیشت کا مالک ہوگا،مگر پچھلے سال ہندوستانی معیشت 2ٹریلین تھی اور عالمی سطح پر اس کا نمبر امریکہ، چین،جاپان اور جرمنی کے بعد پانچویں نمبر پرتھا،مگر اس سال کے اخیر تک ایسا اندیشہ ظاہر کیا جارہاہے کہ ہندوستانی معیشت میں کم ازکم دس فیصد تک کی گراوٹ آسکتی ہے۔
پی چدمبرم ،رگھو رام راجن سمیت کئی دیگر ماہرین معاشیات نے اپنی تحریروں اور بیانوں میں حکومت کو کئی مشورے دیے ہیں ،مثلا غیر رسمی صنعتی سیکٹرپر توجہ،غریبوں اور معمولی آمدنی والے لوگوں کا خیال رکھنا ، اختیارات کا عدمِ ارتکاز اور ریاستی حکومتوں کے لیے معاشی خود مختاری کا راستہ ہموار کرنا وغیرہ۔ان کا کہناہے کہ ان مشوروں پر عمل کرنے سے جی ڈی پی میں بہتری آسکتی ہے ،مگر حکومت کا اپنا موقف ہے،اس کا کہناہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا کی معیشت پر اثر پڑاہے ،تو ہندوستان کیسے اچھوتا رہ سکتا تھا۔مگر کیالگ بھگ24فیصد تک جی ڈی پی میں گراوٹ کی واحد وجہ کورونا وائرس کو قرار دینا درست ہے؟
صبح ہی خبرملی تھی کہ راحت اندوری کورونا سے متاثر ہوگئے ہیں اور شام ہوتے ہوتے ان کے جاں ہار ہونے کی خبر بھی آگئی:
یہ سانحہ تو کسی دن گزرنے والا تھا
میں بچ بھی جاتا تو اک روز مرنے والا تھا
کیسا دلچسپ انسان تھا اور کیسا انوکھا شاعر۔ جس کی زبان میں شفافیت تھی اور لہجے میں بے باکی،جوایک فن کار شاعر تھا اور اس کی فنکاری کے سامنے بڑے بڑوں کا چراغ کجلا جاتا تھا،جس نے کم و بیش نصف صدی تک اردو و ہندی مشاعروں کی دنیا پر راج کیا اور ایک عالم کو اپنا قائلِ معقول کیے رکھا۔ وہ تخیلاتی دنیا سے زیادہ عالمِ حقائق کی ترجمانی کرتا تھا اوریہ ترجمانی کبھی کبھی نہایت تلخ صورت دھار لیتی،مگر وہ اپنی طبیعت اور افتاد و مزاج سے سمجھوتا نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے حسن و عشق کے خیال انگیزموضوعات پر بھی خوب صورت غزلیں کہیں ،مگر اس سے زیادہ خوب صورتی اور مہارت کے ساتھ اس نے سماجی انتشار پر شاعری کی اور سیاسی جبر کو واشگاف کیا۔ وہ حقیقی معنوں میں مست مولا ٹائپ شاعر تھا،اسٹیج کوئی بھی ہو اور اسٹیج پر سرکارِ والاتبار کے کیسے ہی جلیل القدر نمایندے بیٹھے ہوں،راحت اندوری وہی پڑھتا ،جو اسے پڑھنا ہوتا۔
وہ اشعار پڑھتے ہوئے سامعین کے موڈکا تو لحاظ کرتے تھے،مگر منتظمینِ مشاعرہ اپنے مطلب کی شاعری ان سے نہیں پڑھوا سکتے تھے۔ اشعار پڑھنے کا ان کا انداز بھی دلچسپ تھا،ایسا لگتا کہ شعر پڑھنے اور سامعین کے حوالے کرنے سے پہلے وہ خود اس شعر کا مزا لینا چاہتے ہیں۔ ان کا ایک کمال یہ بھی تھا کہ دوچار اشعار کے بعد ہی انھیں اندازہ ہوجاتا کہ سامعین کا مجمع کس ذوق و مزاج کا حامل ہے اورپھر اسی کے مطابق اشعار پڑھتے۔
راحت اندوری کی شخصی زندگی کا ہمیں علم نہیں ،مگر ایک بڑے شاعر اور سلیبریٹڈ شخصیت ہونے کی حیثیت سے ملکی مسائل و معاملات پر بھی ان کا موقف نہایت واضح اور دوٹوک ہوتا تھا،انھیں ذاتی منفعت و نقصان سے زیادہ اجتماعی و قومی مفاد عزیز رہتا تھا؛چنانچہ جہاں وہ ہزاروں کے مجمعوں میں ملک کے سیاسی و سماجی ماحول پر شاعرانہ تبصرے کرتے،وہیں ضرورت پڑنے یا صحافتی اداروں کے رابطہ کرنے پر کھل کر حالات حاضرہ پر بھی اظہار خیال کرتے۔ انھیں کوئی بھی سیاسی طاقت مرعوب نہ کرسکی،انھوں نے ستر کی دہائی میں ایمرجنسی کے خوفناک دورانیے میں بھی اپنے بے باک لب و لہجے کا جادو جگائے رکھا اور آج کے فسطائی عہد میں بھی ان کی زبان و قلم کا سفر اسی رفتار اور تیور کے ساتھ جاری و ساری رہا۔ ایک غزل انھوں نے کئی دہائی قبل کہی تھی جس کا مطلع تھا:
اگر خلاف ہیں ،ہونے دو،جان تھوڑی ہے
یہ سب دھواں ہے،کوئی آسمان تھوڑی ہے
اور اسی کا ایک شعر تھا:
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
اس غزل کے دوسرے اشعار بھی خاصے معنی خیز ہیں اور جب انھوں نے پہلی بار یہ غزل کہی تھی،تبھی اسے اردو حلقوں میں غیر معمولی شہرت ملی،مگر کئی دہائی بعد جولائی 2017میں جب وہ کپل شرما کے شو میں مدعو کیے گئے اور وہاں انھوں نے اس غزل کو پڑھا،تو اس کے بعد اسے ہندوستان گیر سطح پرازسرِ نو شہرت ملی اور گویا بچے بچے کی زبان پر یہ یہ شعر چڑھ گیا۔ گرچہ یہ کافی پرانا تھا،مگر موجودہ ماحول میں ملک کے ستم رسیدہ ،مظلوم و مجبور حلقوں کو اس سے خاصی توانائی اور حوصلہ ملا، عام شہریوں کی دیش بھکتی کو question کرنے والے نرگسیت زدہ بھگوائیوں کے سامنے لوگ اس شعر کو ڈھال کے طورپر استعمال کرنے لگے۔ پچھلے سال دسمبر کے وسط میں جب این آرسی اور سی اے اے کو لے کرملک گیر احتجاج شروع ہوا،تو احتجاج کرنے والے شہریوں کے حوصلہ و جذبہ کو ابھارنے میں متعدد مرحوم شعرا کے ساتھ راحت اندوری اور ان کی شاعری کا بھی خاص کردار رہا۔ اس زمانے میں اگر آپ پورے ملک کے سیکڑوں شہروں اور دیہاتوں میں جاری دھرنوں کا دورہ کرتے اور لوگوں کے ہاتھوں میں موجود پلے کارڈز اور بینر وغیرہ پر نظر دوڑاتے،تو ہر جگہ کسی نہ کسی کے ہاتھ میں راحت صاحب کا مذکورہ بالا شعر ضرور نظر آجاتا۔ چوں کہ وہ شعر براہِ راست این آرسی اور سی اے اے جیسے موضوع سے relate کرتا تھا؛اس لیے اسے سننے اور پڑھنے میں اور بھی توانائی کا احساس ہوتا تھا۔ اس احتجاج کے دوران اس شعر کی اس حد تک مقبولیت کی وجہ سے انگریزی روزنامہ انڈین ایکسپریس نے25 دسمبر2019 کو خاص اس شعر کے حوالے سے ایک اسٹوری بھی شائع کی تھی اور اسی مناسبت سے اخبارنے ان سے بات چیت بھی کی تھی۔ اس اسٹوری میں ان کی گفتگو کے کئی اقتباس نقل کیے گئے تھے،جن میں سے ایک یہ تھا کہ ”میرے آس پاس جو کچھ ہورہاہے، اس پر اگر میں نہ لکھوں،تو میرے اور نیروکے درمیان کیا فرق رہ جائے گا؟اگر میرے شہر اور ملک میں آگ لگی ہوئی ہے اور میں اپنی محبوبہ کی زلفوں کی شان میں قصیدے لکھ رہاہوں،تویا تومیں اندھاہوں یا بہراہوں“۔
راحت اندوری کی یہ بات دراصل ادب اور معاشرہ کے باہمی ربط کو بیان کرتی ہے،دونوں کے رشتوں کی وضاحت کرتی ہے۔ یہیں سے ہمیں اس حقیقت کا بھی پتا چلتا ہے کہ حقیقی ادب وہ ہے،جو تخلیق ہونے کے بعد قبل اس کے وردی پوش ناقدین اس کے ادبی مقام و مرتبے کا تعین کریں، براہِ راست اپنے مخاطب تک پہنچتا اور اس کے ذہن و دل پر اثر انداز ہوجاتا ہے۔ بلا شبہ راحت اندوری نے تا زندگی ایسی ہی شاعری کی،ان کے اشعار ادبی و تنقیدی اعتبار سے کس مقام و مرتبے کے حامل ہیں،اس سے قطع نظر یہ ایک بین حقیقت ہے کہ انھوں نے ایک جہان کو اپنے لب و لہجے،دلچسپ طرزِ ادا،اپنی خیال افروزی،اپنی بے باکی،اپنی تخلیقی ہنر مندی،اپنی فنکاری اور اپنے غیر معمولی حوصلہ مندانہ تیوروں کا اسیر کیے رکھا۔ ان کی آواز اس ملک کے کروڑہا لوگوں کو اپنے دل کی آواز محسوس ہوتی تھی،انھیں خود بھی اس چیز کا احساس تھا،سو وہ ہر اس مسئلے پر اپنی شاعری کے ذریعے بے باکانہ اظہار خیال کرتے تھے،جس کا تعلق عوام،سماج اور اسے متاثر کرنے والی سیاست سے ہوتا تھا۔
راحت اندوری کی خاص خوبی فکر و خیال کی استقامت بھی تھی۔ انھوں نے کبھی بھی حالات کے حساب سے اپنا موقف تبدیل نہیں کیا۔ چاہے وہ سیاسی موقف ہو یا فکر و عقیدے کا معاملہ ہو۔ مقبولیت و شہرت کی معراج تک بھی پہنچے اور بسا اوقات تنگی و ترشی کا دور بھی آیا،مگر تخلیقی سفر کی ایک سمت جو متعین کی،اسے بدلنے کے بارے میں کبھی نہیں سوچا۔ وہ اپنی بہت سی عملی کوتاہیوں کا بھی برملا اظہار کرتے تھے،مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کا دل ایمان و ایقان میں پختہ اور ان کا ذہن و ضمیر عقیدہ و مذہب کے باب میں مستقیم تھا۔ ان کے نعتیہ اشعار اور خدا کی وحدانیت و توکل کو آشکار کرنے والے ان کے مصرعے ان کی اندرونی کیفیات کا واضح بیانیہ ہیں۔
راحت قریشی المعروف براحت اندوری کی پیدایش 1950میں اندور میں ہوئی۔ گریجویشن اسلامیہ کریمیہ کالج سے پاس کیا اور پوسٹ گریجویشن برکت اللہ یونیورسٹی بھوپال سے مکمل کیا اور مدھیہ پردیش بھوج یونیورسٹی سے ’’اردو میں مشاعرہ‘‘کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ کچھ دن درس و تدریس سے بھی وابستہ رہے،پھر کل وقتی شاعر ہوگئے اور مشاعرہ خوانی کے سلسلے میں مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک کے بیسیوں ملکوں کو ناپ ڈالا۔ منا بھائی ایم بی بی ایس،مرڈر،عشق سمیت درجن بھر سے زائد بالی ووڈ کی فلموں میں گانے بھی لکھے۔ رُت،میرے بعد،دھوپ بہت ہے، ناراض،موجود،چاند پاگل ہے وغیرہ ان کے شعری مجموعے ہیں ،جو اردو کے ساتھ دیوناگری رسم الخط میں بھی شائع ہوئے ہیں۔ خود راحت اندوری پر متعدد ادبی رسالوں نے ان کی زندگی میں ہی خاص نمبر نکالے۔ ان کی شخصیت اور شاعری پر ایک کتاب طارق شاہین اور عزیز عرفان نے 2002میں مرتب کی تھی،جو ساڑھے چار سو صفحات سے زائد پر مشتمل ہے اور اس میں سردار جعفری ،قمر رئیس ،عبدالقوی دسنوی،وامق جونپوری،رفعت سروش،مظفر حنفی،عتیق اللہ،زبیر رضوی،عنوان چشتی، ظفر گورکھپوری،کیف بھوپالی ، قیصر الجعفری، ندا فاضلی ،بشیر بدر،اسعد بدایونی،رؤف خیراورمنور رانا سمیت دیگر درحجنوں ناقدین،معاصر شعرا اور تخلیق کاروں کی تحریریں اور تاثرات جمع کیے گئے ہیں۔ راحت اندوری کی شخصیت اوران کے فن کی تفہیم میں اس کتاب سے خاصی مدد مل سکتی ہے۔
نایاب حسن
ایک مشہور کہاوت ہے کہ کسی کتاب کے اچھی یا بری ہونے کا فیصلہ اس کے ٹائٹل کی خوب صورتی یا بد صورتی سے نہیں کرنا چاہیے۔یعنی یہ ممکن ہے کہ کسی کتاب کا ٹائٹل بہت خوب صورت ہو،مگر اس میں چھپا ہوا مواد آپ کے ذہن و فکر و ذوق کی پراگندگی کا باعث بن جائے،جبکہ اسی وقت یہ بھی ممکن ہے کہ کسی کتاب کا کور بہت خوب صورت اور جاذبِ نظر نہ ہو،مگر اس کے مشمولات آپ کے ذہن کو نور اور قلب کو سرور بخشنے والے ہوں۔ عربی کے مشہور شاعر نزار قبانی کہتے ہیں کہ’’بہت سے لوگ ایسی کتابوں کے مانند ہوتے ہیں،جن کا ٹائٹل تو بھڑک دار ہوتا ہے،مگر اندر کوڑا کباڑا بھرا ہوتا ہے‘‘۔ یعنی وہ بھی یہی پیغام دے رہے ہیں کہ کسی چیز یا شخص کے ظاہر کو دیکھ کر اس کے باطن پر حکم نہیں لگانا چاہیے۔
لیکن معاملہ اُس وقت کتنا دلچسپ ہوجاتا ہے، جب کوئی عمارت ہی کتابوں کی شکل پر ڈزائن کی جائے!میرے خیال میں تب ہم اس کے ظاہر کی خوب صورتی،دلکشی،جاذبیت اور جمال انگیزی کو دیکھ کر اس کے باطن کے بارے میں اچھی رائے ہی قائم کریں گے اور اس میں ہم یقیناً حق بجانب ہوں گے۔عمارت کی بات آئی تو ماجراپرور سابق برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل(جس سے ہم ہندوستانی بھی بخوبی واقف ہیں) کی ایک تاریخی بات یاد آگئی۔ جب جنگ عظیم دوم میں برطانوی ہاؤس آف کامنز کے درودیوار مخدوش ہوئے تو اس کی مرمت کی ضرورت واہمیت بیان کرتے ہوئے اس نے کہا تھا’’بہت سی عمارتیں ایسی ہوتی ہیں،جن کا نقشہ تو ہم بناتے ہیں،مگر بعد میں وہی عمارتیں لوگوں کے ذہنوں میں ہماری تصویر بنادیتی ہیں ،ہمارا شناخت نامہ بن جاتی ہیں‘‘۔
کچھ یہی معاملہ بھارتی ریاست کیرالا کی دو عمارتوں کا ہے۔کیرالا ہمیں وقتاً فوقتاً اپنی مختلف تہذیبی و ثقافتی ،سماجی و سیاسی خصوصیات سے حیرت زدہ کرتا رہتا ہے ،مگر اس کا اصل نشانِ امتیاز اس کی سو فیصد شرحِ خواندگی والی علمی شناخت ہے اور ان دونوں عمارتوں کا تعلق بھی اس کی اسی امتیازی خصوصیت سے ہے۔ بظاہر تو ان کی پہچان یہ ہے کہ ان میں سے ایک پبلک لائبریری ہے اور دوسری کتابوں کی دکان،مگر جو چیز ان عمارتوں میں انفرادیت پیدا کرتی ہے،وہ ہے ان کا طرزِ تعمیر اور اس کے پس پردہ کارفرما بہترین تخلیقی اذہان،وہ بہت اچھے،بہت پیارے لوگ،جنھیں کتابوں سے بے پناہ عشق ہے اور اس کا اظہار انھوں نے کمال فن کاری کے ساتھ کیا ہے۔
ایک عمارت کیرالہ کے ضلع کنور کے کرایل (Karayil) میں واقع ہے۔اس کی بنیاد جنوبی ہند کے مجاہد آزادی کے کیلپن( K Kelappan)نے1967میں رکھی تھی۔اس کانام لال بہادرلائبریری اوردارالمطالعہ یا لال بہادر ویانسالا و گرنتھالیم ہے۔اس لائبریری کی گولڈن جبلی کی مناسبت سے لائبریری انتظامیہ اور اس سے وابستہ افراد نے اس کو ایک نئی عمارت میں منتقل کرنے کا فیصلہ کیا اوراس کی ایک نہایت پرکشش عمارت بنائی،جس کی درودیوار کتابوں کی شکل میں ڈزائن کی گئی ہے،اس کی تصویر دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ پوری عمارت کتابوں سے تعمیر کی گئی ہے۔کیا ہی خوشنما منظر ہے!اس کا خاکہ جنوب کے نابغہ مجسمہ سازکے کے آر وینگارا(KKR Vengara)نے بنایا اور مقامی آرٹسٹ سی وی سری دھرن نے ان کے خاکے کو محسوس پیکر عطا کرنے میں ان کا تعاون کیاہے۔اس لائبریری میں ملیالم زبان کی کلاسکس موجود ہیں،کتابوں کی مجموعی تعداد پانچ ہزار سے کچھ اوپر ہے،باہر دروازے کے سامنے ہندوستانی وزراے اعظم جواہر لال نہرو اور لال بہادر شاستری کے مجسمے بھی رکھے ہوئے ہیں۔لال بہادر ہی کے نام پر اسے موسوم کیا گیا ہے۔لائبریری کی اس نئی عمارت کا افتتاح پچھلےسال یعنی 2019کی 3؍فروری کو ملیالم زبان کے مشہور افسانہ نگار،ناول نویس،کالم نگار اور شاعر این پربھاکرن(N. Prabhakaran)نے کیا تھا۔آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس عمارت کی افتتاحی تقریب میں لوگوں کو بلانےکے لیے باقاعدہ ڈھول نگاڑوں کے ساتھ جلوس نکالا گیا اورتقریب میں بچوں اور بڑوں،مردو خواتین نے رنگا رنگ ثقافتی پروگرام پیش کیے۔
اسی علم پرور ریاست کے ایک دوسرے شہر کوچی کی ’الوا‘(Aluva)نامی میونسپلٹی میں تین ہزار اسکوائر فٹ میں پھیلی ہوئی Once Upon A Time نامی ایک دو منزلہ بک شاپ ہے،جس کی اوپری منزل ایسے بنائی گئی ہے کہ لگتا ہے چھت پر چار کتابیں بالتریب کھڑی کرکے رکھی ہوئی ہیں۔ان میں سے ایک جے کے راؤلنگ کی Harry Potter’ ‘، دوسری ہرمن میلول کی‘Moby Dick’،تیسری بنیامین کی ‘Aadujeevitham’ اور چوتھا معروف برازیلین ناولسٹ پاؤلو کوئلہو کا دنیا کی اسی سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ کیا جانے والا شہرۂ آفاق ناول ‘The Alchemist’ہے۔ جون کے پہلے ہفتے میں میں اس وقت اس عمارت کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی، جب خود پاؤلو کوئلہو نے اپنے آفشیل ٹوئٹر اور انسٹاگرام اکاؤنٹ پراسے شیئر کیا اور چند گھنٹوں میں ہی اس منفرد تعمیری شاہکار کو لاکھوں لوگوں نے پسند اور شیئر کیا۔اس بک شاپ کی تعمیر میں دو کروڑ روپے کی لاگت آئی ہے۔
ذرا اس بک شاپ کے مالکوں کے بارے میں بھی جانتے ہیں۔ یہ بک شاپ ایک مرد اور ایک خاتون کے خواب کی تعبیر ہے۔یہ دونوں میاں بیوی ہیں، شوہر کانام اجی کمار(Aji Kumar) ہے اور بیوی کا نام وی ایم منجو(V M Manju)ہے۔ دونوں پندرہ سالوں سے میاں بیوی ہیں۔ شوہر الیکٹرک انجینئر ہیں اور الیکٹرسٹی بورڈ میں ملازم تھے ،بیوی سافٹ ویئر انجینئر ہیں اور ٹاٹا کنسلٹنسی سروسز میں جاب کرچکی ہیں۔ دونوں نے تیرہ سال قبل ہی ملازمت سے علیحدگی اختیار کرلی اور انجینئرنگ کے طلبہ کے لیے کوچنگ سینٹر چلا رہے تھے۔ منجو کا کہناہے کہ’’میں اور میرے شوہر دونوں کتابوں سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور اسی کے زیر اثر ہماری دیرینہ خواہش تھی کہ ایک منفرد قسم کی بک شاپ کھولیں،جہاں ہر قسم کی کتابوں کا بڑا ذخیرہ ہو،جس سے کتاب دوست طبقے کی ضروریات پوری ہوسکے‘‘۔ چنانچہ انھوں نے الوا میں لب روڈ واقع اپنے ایک قطعۂ اراضی میں کتابوں کی اس انوکھی دکان کی تعمیر کروائی۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ عمارت کے اوپری حصے میں جن چار کتابوں کی امیجز آپ نے دی ہے،کیا ان کا انتخاب جان بوجھ کر کیاہے؟تو انھوں نے کہاکہ ہم نے تو دس کتابوں کا انتخاب کیا تھا،مگر آرکیٹکٹ اور بلڈنگ کے معماروں نے رنگوں کے امتزاج اور سائز وغیرہ کے پیش نظر انہی چاروں کا انتخاب کیا۔ اس بلڈنگ کی ڈزائننگ اور تعمیر رائے تھوماس اور کے کے ونود نامی دو مقامی فنکاروں کے زرخیز ذہنوں کا نتیجہ ہے۔
پاؤلو کوئلہو کے پاس اس عمارت کی تصویر کیسے پہنچی؟اس سوال کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ فی الحقیقت ہمیں بھی نہیں معلوم کہ انھیں اس کی تصویر کیسے اور کہاں سے ملی۔ چوں کہ عمارت لبِ روڈ واقع ہے اور اس کا طرز تعمیر ایسا دلچسپ ہے کہ پہلی بار جوبھی دیکھے گا،اپنے پاس اس کی تصویر محفوظ کرنے کی سوچے گا اور آجکل سوشل میڈیا کا استعمال عام ہے،تو عین ممکن ہے کہ کسی نے اس کی تصویر لے کر سوشل میڈیا پر ڈالی ہو اوراس پر پاؤلو کوئلہوکی نظر پڑی ہو اور چوں کہ چار کتابوں میں سے ایک خود ان کی کتاب بھی ہے،تو فطری طورپر انھیں یہ تصویر اور بھی بھائی ہوگی ؛چنانچہ انھوں نے اسے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر شیئر کیا۔
اس کتب خانے کا آغاز اسی ماہ جولائی کے آغاز میں ہوا ہے۔ اس میں فی الحال انگریزی،ملیالم اور ہندی کی کتابیں جمع کی گئی ہیں۔ اجی کمار اور منجو دنیا بھر کے پبلشرز کی عمدہ کتابیں اپنے یہاں اکٹھاکرنے کے لیے پر عزم ہیں۔ اس بک شاپ سے کتابیں خریدنے کے علاوہ وہاں بیٹھ کر پڑھی بھی جاسکتی ہیں،مگر بیٹھ کر پڑھنے کا انتظام کورونا ختم ہونے کے بعد کیا جائے گا۔ بچوں کی کتابوں کے لیے ایک مستقل گوشہ مختص کیاگیا ہے،جہاں سے بچوں پر لکھی ہوئی کتابیں حاصل بھی کی جاسکتی ہیں اور بچے اگر چاہیں تو وہاں بیٹھ کر پڑھ بھی سکتے ہیں۔ اندر کا منظر عام کتابوں کی دکانوں سے بالکل مختلف اور نہایت خوب صورت ہے،کتابوں کو ترتیب وار رکھنے کے لیے بک شیلف اعلیٰ درجے کا بنواگیاہے،لائٹنگ بھی خوب ہے اور بلب کے اوپر کی چھتری بھی کتابوں کی شیپ میں بنائی گئی ہے۔ الغرض کتابوں کی یہ دکان فی نفسہ فن تعمیر کا ایک شاہکار ہے اور کتابوں سے بدکنے والا انسان بھی اگر وہاں پہنچ جائے،تو اس کے اندر کتاب دوستی کا ذوق پیدا ہوسکتا ہے۔ میں نے آج تک کیرالا کا سفر نہیں کیا، مگر اب ضرور کرنا ہے اور انہی دونوں مقامات کی’زیارت‘کے لیے کرنا ہے۔ان شاء اللہ
ہم نے فارسی زبان سے واقفیت کے ساتھ ہی اس زبان کے جن کلاسکس کے بارے میں سنایا پڑھا،ان میں مولانا روم کی مثنوی خصوصیت سے قابل ذکر ہے۔ایک زمانے میں یہ کتاب درسِ نظامی کا حصہ رہی ہے، اب شایدبرصغیر کے کسی مدرَسی نصابِ تعلیم میں شامل نہیں ہے،البتہ ہمارے بہار کے ضلع سیتامڑھی کی نمایاں تعلیم گاہ جامعہ اشرف العلوم میں اس کے کچھ حصے اب بھی پڑھائے جاتے ہیں۔بہر کیف ہم نے جب بھی اس کتاب کے بارے میں سنا یایا پڑھا یا خودگاہے بگاہے اس کتاب کے مختلف حصے پڑھے،تویہی محسوس ہوا کہ رومی کی یہ کتاب تربیتِ نفس اور تعلیمِ اخلاق کی کتاب ہے،جس میں حکائی انداز میں مختلف نبیوں،دیگر کرداروں کے واقعات بیان کرکے انسانی زندگی،کردار و اطوار سے متعلق اہم اسباق دیے گئے ہیں اور مختلف عملی و اخلاقی موضوعات پر بہت جامع نصیحتیں اس مثنوی میں موجود ہیں۔اسی وجہ سے اہلِ فارس اس مثنوی کو’’ زبانِ پہلوی میں قرآن‘‘ کا درجہ دیتے ہیں،جس کا مطلب یہ ہے کہ رومی نے اس کتاب میں انہی مضامین کو آسان شعری موضوعات اور حکایات وواقعات کے ذریعے بیان کیاہے،جنھیں قرآن کریم میں بیان کیاگیا ہے۔حتی کہ اس کتاب کی ترتیب بھی قرآن کریم کی طرح ہی ہے،یعنی ایسا نہیں ہے کہ یکے بعد دیگرے ترتیب کے ساتھ مختلف موضوعات کے مضامین بیان کیے گئے ہیں؛بلکہ کیف مااتفق بیان کیے گئے ہیں ۔ شروع سے لے کر اب تک مثنوی مولانا روم کا اسلامی اہلِ دانش کے نزدیک ایک خاص مقام ہے اور تربیتِ نفس و اخلاق کے سلسلے میں اس سے خصوصی رہنمائی حاصل کی جاتی رہی ہے۔علامہ شبلی نعمانی نے تصوف اور تربیت اخلاق کے علاوہ مثنوی کوتوحید،ذات و صفاتِ باری تعالیٰ،نبوت،معجزات،روح،معاد،جبروقدرجیسے مسائل کی تفہیم کے حوالے سے بھی عمدہ کتاب قرار دیاہے اور اس کے مختلف اشعار سے ان مسائل پر استدلال کیا ہے۔ایشیاکے عظیم مفکر،فلسفی و شاعر اقبال نے تو رومی کو اپنا روحانی مرشد مانا ہے اوراسی مثنوی کی تقلید میں اپنی مثنوی’’اسرارِ خودی‘‘اور’’رموزِ بے خودی‘‘ لکھی ۔
یوں تو مولانا رومی کی تصانیف میں ان کے ملفوظات پر مشتمل ’’فیہ مافیہ‘‘،مجموعۂ غزلیات و منظومات ’’دیوانِ شمس تبریز ‘‘اور خطبات کا مجموعہ ’’مجالسِ سبعہ‘‘بھی ہیں،مگر زیادہ شہرت مثنوی کو ہی حاصل ہے؛بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ادب و شعر کی دنیا میں رومی اسی کی وجہ سے زندہ ہیں اور اسی کی وجہ سے ان کی تعلیمات و افکار کوبھی بقا حاصل ہے۔ کشف الظنون کے مطابق مثنوی میں کل اشعار26660ہیں۔رومی کے سوانح نگار لکھتے ہیں کہ انھوں نے یہ مثنوی اپنے مرید حسام الدین چلپی کی فرمایش پر لکھی،چلپی رومی کے خاص مرید تھے؛بلکہ رومی کے دل میں ان کے تئیں احترام کے جذبات پائے جاتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ جب مثنوی کے پہلے دفترکے پایۂ تکمیل کو پہنچنے کے بعد حسام الدین کی بیوی کا انتقال ہوگیا،تواس سانحے کا اثر رومی کے ذہن و دماغ پر بھی بہت زیادہ ہوا اور مسلسل دوسال تک انھوں نے کچھ نہیں کہا،دوسال کے بعد بھی جب حسام الدین نے درخواست کی تب رومی کی زبان کی کھلی۔رومی نے اپنی مثنوی گو کہ حکیم سنائی کی ’’حدیقہ‘‘ اور شیخ فریدالدین عطار کی ’’منطق الطیر‘‘کو سامنے رکھ کر لکھی ،مگر اس کے باوجود اس میں مضامین و طرزِ پیش کش وغیرہ کے اعتبار سے ایسی انفرادیت تھی کہ اسے جو قبولیتِ عامہ حاصل ہوئی،وہ پہلے یا بعد میں اس موضوع کی کسی کتاب کو حاصل نہ ہوسکی۔شبلی نے مجمع الفصحا کے حوالے سے لکھاہے کہ ایران میں چار کتابوں کو جو شہرت و مقبولیت ملی،وہ کسی کتاب کو حاصل نہ ہوسکی: شاہنامہ، گلستاں، دیوانِ حافظ اور مثنوی مولانا روم۔ مگر ان چاروں میں بھی زیادہ مقبولیت اور اہلِ نظر کے یہاں اعتبار و اعتنا مثنوی کو ہی حاصل ہوا۔
یہی وجہ ہے کہ شروع سے ہی اس کی تشریح و توضیح پر علما نے خصوصی توجہ دی اور کئی لوگوں نے اس کے ترجمے کیے ہیں۔ شبلی نے اس کی چودہ شرحوں کا ذکر کیاہے،جن میں سے کچھ تو مکمل مثنوی کی شروحات ہیں،باقی مختلف اجزا کی تشریحات پر مشتمل ہیں۔ایک شرح علائی بن یحی واعظ شیرازی کی ہے،جس میں صرف مثنوی میں وارد ہونے والی آیاتِ قرآنی و احادیث کی تشریح کی گئی ہے۔ (سوانح مولانا روم،ص:65۔67،ط:دارالمصنفین اعظم گڑھ)قاضی سجاد حسین نے ان چودہ کے علاوہ مزید پانچ کتابوں کا ذکر کیاہے ،جو مکمل مثنوی یا اس کے بعض اجزا کی شرحیں ہیں۔(مثنوی مولوی معنوی،ص:11-12،ط:حامد اینڈ کمپنی،اردوبازار لاہور) اردو زبان میں غالبا سب سے ضخیم شرح مولانا اشرف علی تھانوی نے لکھی ہے ،ان کی شرح’’کلیدِ مثنوی‘‘چوبیس جلدوں اورچھ ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔رومی کی تفہیم کے حوالے سے مولانا تھانوی کوعلما اوراہلِ تصوف کا ایک بڑا حلقہ تو تسلیم کرتاہی ہے،مگر اس سلسلے میں رومی کے’’ مریدِ ہندی‘‘ علامہ اقبال بھی ان کے مقلد ہیں اور اس کا انھوں نے بہ قلم خود اظہار کیا ہے۔ ان کے اس اظہار کا پس منظر جاننا دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔خواجہ حسن نظامی حضرت نظام الدین اولیا کے خانوادے سے تعلق رکھنے والے اپنے دور کے مشہور ادیب،صحافی و صوفی تھے۔اقبال کےممدوحین میں تھے اورہر سال اپنے اخبار’’خطیب‘‘میں متحدہ ہندوستان کی اہم شخصیات کو ان کی مختلف خدمات کے عوض الگ الگ خطابات سے نوازا کرتے تھے،مارچ 1915 میں انھوں نے اقبال کو’’سرالوصال‘‘کے خطاب سے نوازااور اپنے نوٹ میں اقبال کو’’ مسلمانوں ہی نہیں کل ہندوستان کا قومی شاعر‘‘ قرار دیااور لکھاکہ:’’اگر آپ کے خیالات رابندر ناتھ ٹیگور کی طرح انگریزی میں ترجمہ ہوکر یورپ میں شائع ہوتے تو یقینا اہلِ یورپ بھی انہی کو ہندوستان کا ملکی شاعر تصور کرتے‘‘۔( خرم علی شفیق،اقبال:درمیانی دور(1914سے1922تک) ، ص:104،ط:اقبال اکادمی،پاکستان)مگر اسی سال ستمبر میں جب مثنوی اسرارِ خودی چھپ کر آئی اور خواجہ صاحب نے اسے دیکھا،تو نظریۂ وحدت الوجود اور حافظِ شیراز پر اقبال کی چوٹ نے انھیں چراغ پا کردیا۔30نومبر1915کو ’’خطیب ‘‘میں سید محمد شاہ ذوقی کے نام سے ’’اسرارِ خودی‘‘پر ایک تنقید شائع ہوئی۔اس میں مضمون نگار نے لکھا:’’اس میں ذرا بھی شبہ نہیں کہ مثنوی اسرارِ خودی میں آزارِ خودی کی جن تیوروں سے حمایت کی گئی ہے،وہ باعتبار اپنے نتائج کے ایک حملہ ہے،جو اسلام پر،اسلام ہی کی آڑ میں ہوا ہے۔عوام الناس میں عموماً اور انگریزی داں طبقہ میں خصوصاً نہ معلوم کیوں اقبال کو دلدادۂ تصوف ہونے کی شہرت حاصل ہے‘‘۔(ایضا،ص:177-178)پھر30جنوری1916کے ’’خطیب‘‘کے شمارے میں خود خواجہ حسن نظامی نے’’سرِ اسرارِخودی‘‘کے نام سے ایک مضمون لکھا اور اسرارِ خودی پر متعدد اعتراضات کیے۔اسی مضمون میں خواجہ حسن نظامی نے اقبال پر طنز کرتے ہوئے لکھا کہ ’’اقبال نے مولانا روم کو خواب میں دیکھا،ان کی مثنوی کو بیداری میں نہ پڑھا۔اگر وہ ایسا کرتے ،توقرآن کے خلاف نہ چلتے؛بلکہ قرآن کے اصول کو اپنی مثنوی میں لکھتے‘‘۔(ایضا ،ص:203)اس کے جواب میں اقبال نے بھی مضمون لکھا،جو ’’وکیل‘‘امرتسر کے 9فروری1916 کے شمارے میں شائع ہوا۔اقبال نے اس مضمون میں بالترتیب خواجہ صاحب کے بیان کردہ ان اسباب کی تردید کی،جن کی وجہ سے انھوں نے مثنوی اسرارِ خودی کو’’غیر ضروری‘‘اور’’نامعقول‘‘وغیرہ قرار دیاتھا۔مولانا روم کے تعلق سے خواجہ صاحب کی بات کا جواب دیتے ہوئے اقبال نے لکھا:’’حضرت!میں نے مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ کی مثنوی کو بیداری میں پڑھا ہے اور باربار پڑھاہے۔آپ نے اسے شاید حالتِ سکر میں پڑھاہے کہ آپ کواس میں وحدت الوجود نظر آتا ہے۔مولوی اشرف علی صاحب تھانوی سے پوچھیے ،وہ اس کی تفسیر کس طرح کرتے ہیں؟میں اس بارے میں انہی کا مقلد ہوں‘‘۔(مقالاتِ اقبال،مرتب :سید عبدالواحد معینی،محمد عبداللہ قریشی،ص:221،ط:القمر انٹرپرائزیز،غزنی اسٹریٹ،لاہور2011)
مولانا تھانوی کے علاوہ قاضی سجاد حسین نے مثنوی کا ترجمہ مع حواشی شائع کیاہے،اس کا نام’’مثنویِ مولویِ معنوی‘‘ ہے۔1974میں دفترِ اول کا ترجمہ مع حواشی شائع ہوا اورجون 1978میں دفترِ ششم کا۔کل چھ جلدوں اور تقریباً ڈھائی ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ مولاناتھانوی کے مرید وں کے مرید حکیم محمد اختر صاحب نے بھی ایک شرح لکھی ہے،جو’’معارفِ مثنوی‘‘کے نام سےپہلی بار 1996میں کتب خانہ مظہری،کراچی سے شائع ہوئی ہے ۔ابھی پچھلے سال ایم آر پبلی کیشنز دہلی سے ڈاکٹر مغیث احمد کی کتاب ’’مولانا جلال الدین رومی- احوال و آثار ‘‘ شائع ہوئی ہے،جس کے مراجع میں انھوں نے عربی ،فارسی ، اردو و انگریزی میں مکمل مثنوی یا اس کے بعض اجزا کے پچاس سے زائد تراجم اور شرحوں کا ذکر کیاہے۔ترکی کے شہر قونیہ(جہاں مولانا نے عملی زندگی گزاری اور جہاں مدفون ہیں)کی میونسپلٹی کی جانب سے2005سے باقاعدہ ایک ٹرانسلیشن پروجیکٹ پر کام ہو رہاہے،جس کے تحت دنیا کی پچاس زبانوں میں مثنوی کا ترجمہ کیا جانا ہے۔دسمبر 2018تک اس پروجیکٹ کے تحت 26زبانوں میں مثنوی کے ترجمے ہو چکے تھے،جن میں ترکی،انگریزی ،عربی و اردو کے علاوہ جرمن ، سویڈش ، اطالوی ، فرانسیسی ، جاپانی ، البانوی ، ہسپانوی ، ترکمانی ، قزاقستانی ، ازبک ، چینی ، یونانی ، روسی ، آزربائیجانی ، ملائی ، سواحلی ، کرد ، بوسنین ، ڈچ ، کرغیزی ،پولش اورامہری تراجم شامل ہیں۔
پیدل گھر واپس ہونے والے مزدور راہل کو نہیں ،مودی کو ہی ووٹ دیں گے
ندیم اختر
ترجمہ:نایاب حسن
ایک صحافی دوست نے بتایا کہ اس نے سیکڑوں کیلومیٹر کی مسافت طے کرکے وطن واپس لوٹنے والے کچھ مزدوروں سے بات کی۔ وہ سب اونچی برادریوں سے تعلق رکھتے تھے۔ میرے صحافی دوست نے جاننا چاہا کہ اس قدر بھوک اور پیاس سے دوچار ہونے کے بعد وزیر اعظم مودی کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے؟ کیا مودی جی اور ان کی حکومت ان کی حالت کی ذمے دار ہے؟
بھوکے اور درد سے نڈھال مزدوروں نے کہا: اب مودی جی کیا کریں گے؟ وہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ یہ کورونا وائرس مودی جی تھوڑی لے کر آئے ہیں۔ یہ تو جماعتیوں نے پھیلایا ہے ، جس کی سزا ہم بھگت رہے ہیں۔ ہمیں مودی جی سے کوئی شکایت نہیں ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ مودی جی جادوگر ہیں۔ ان کا ووٹ بینک برقرار ہے۔ نوٹ بندی ہوئی ، جی ایس ٹی نافذ ہوا ، پورے ملک سے آئے کسانوں پر دہلی بارڈر پر لاٹھی چارج ہوا ، معیشت گر گئی ، صنعت کار پیسے لے کر ملک سے فرار ہوگئے لیکن مودی جی سے لوگوں کی محبت و حمایت برقرار رہی اور سال 2019 میں عوام نے انھیں بھاری اکثریت دے کر مرکز کرسیِ اقتدار پر دوبارہ انھیں بٹھایا۔ اگرچہ کورونا پرایکشن لینے میں تاخیر ہوئی ہے اور یہ تھوک میں ملک میں داخل ہوچکا ہے ؛ لیکن عوام نے حکومت سے کبھی بھی اپنی ناراضی کا اظہار نہیں کیا؛بلکہ کورونا کے اس نازک دور میں بھی تھالی بجاکر اور موم بتیاں جلا کر عوام نے مودی جی کو مبارکباد دی اور انھیں اپنا بھر پور تعاون پیش کیا۔
مودی جی کے مخالفین کو جلن ہوسکتی ہے ؛ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ بھُک مری کے دہانے پر پہنچنے والے زیادہ ترمزدوروں کو ابھی بھی مودی جی پر اٹوٹ اعتماد ہے۔ خاص طور پر 12مئی کو جب مودی جی نے ان کی قربانی اور بلیدان کو یاد کرتے ہوئے 20 لاکھ کروڑ کے پیکیج کا اعلان کیا اور اگلے دن دو دو وزرا نے ٹی وی پر آکر اس کی تفصیل سے توضیح کی تو مزدوربھائی ‘‘بمبم’’ ہوگئے۔ وہ جانتے ہیں کہ جلد ہی مودی جی ان کو یہ رقم بھیجنے والے ہیں اور آج رات سے کل صبح تک واٹس ایپ کے ذریعے یہ پیغام بھی ان تک پہنچ جائے گا کہ مودی جی نے سب کے لئے لاکھوں کروڑوں روپے دیے ہیں اور جب وہ پیسہ ان کو نہیں مل پائے گا ، تب وہ جان لیں گے کہ سرکاری بابوؤں اور افسروں نے بدعنوانی کی ہے اور ان کا پیسہ کھاگئے ہیں، ورنہ حکومت نے تو پیسہ بھیجا تھا۔ یہ پیغام بھی ان کو واٹس ایپ کے ذریعے پہنچایا جائے گا۔
یہی حال ملک کے کسانوں ، چھوٹے تاجروں ، درمیانے تاجروں اور سروس کلاس کا بھی ہے۔ آپ کسی سے بھی ، کسی بھی جگہ بات کر سکتے ہیں ، اگر وہ بائیں بازو کا یا انٹرنیٹ پر ادھر ادھر حکومت مخالف چیزیں پڑھنے والا بگڑیل یا بد مزاج شخص نہیں ہوگا اور صرف ٹِک ٹاک ، یوٹیوب اور واٹس ایپ یونیورسٹی کے ذریعے خود کو دنیا سے منسلک رکھتا ہو گا ، تووہ بتائے گا کہ مرکزی حکومت نے پچھلے کچھ سالوں میں ملک کے لئے کیا کیا کام کیا ہے۔ پچھلی حکومتوں کے کارناموں (اگر کچھ ہوں) کو بھی مودی سرکار کے کھاتے میں ڈال دے گا ۔
لہذا وہ لوگ جو مزدوروں ، کسانوں ، عام آدمی اور اس طرح کے فلانے ڈھکانے کے درد اور تکلیف کا ٹینشن لے کر اپنا بلڈ پریشر بڑھا رہے ہیں ، وہ ٹھنڈ رکھیں۔ دیش میں سب چنگا سی! ۔ جیسا کہ میں نے کہاکہ مودی جی ایک جادوگر ہیں۔ انھیں ہر جگہ سے زمینی رپورٹس ملتی رہتی ہیں۔ ایسا سسٹم بنایا گیا ہے۔ دہلی فسادات کے دوران اور پھر تبلیغی جماعت کے سربراہ مولانا سعد کیس میں قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال اچانک زمین پرنہیں اترگئے تھے۔ اس سے قبل کشمیر میں بھی وہ عام لوگوں کے ساتھ دِکھے تھے۔ بقرعید میں قربانی کے جانوروں کا مول بھاؤ بھی کیا تھا۔
اس لیے مجھے یہ کہتے ہوئے کوئی جھجک نہیں ہے کہ ملک کے عوام اب بھی نریندر مودی کے ساتھ ہیں اور آیندہ بھی رہیں گے۔ میں نے خود عام اور خاص لوگوں سے جب بھی بات کی ، سب نے کہا کہ مودی جی اچھا کام کررہے ہیں اور ووٹ تو انہی کو دیں گے۔ یہ زمینی رپورٹ ہے۔ صحافی برادران چاہیں تو خود جاکر سروے کرلیں ۔ کئی جگہوں اور مختلف سطحوں پر ٹٹولنے کے بعد میں یہ بات کہہ رہا ہوں کہ ایک دم مفلوک الحال غریب آدمی، جس کے گھر میں کھانے کو دو دانے نہ ہوں ، اس سے لے کر بڑے بڑے بڑے پیٹوں سیٹھ تک ؛سب مودی جی سے متاثر ہیں اور ان کے کام کی تعریف کرتے ہیں۔ واٹس ایپ یونیورسٹی نے جس تیزی سے معاشرے اور سماج کا نظریہ بدلا ہے،اس پر ابھی کام ہی نہیں ہوا ہے ،کوئی ڈھنگ کی ریسرچ ہی نہیں ہوئی ہے۔
لہذا حکومت بھی مطمئن ہے۔ اسے معلوم ہے کہ عوام اس کے ساتھ ہیں۔ تھوڑی بہت تکلیف اور اونچ نیچ تو چلتی رہتی ہے۔ یہ تو ہر گھر میں ہوتا ہے لیکن گھر کے سربراہ سے کوئی ناراضی نہیں ہوتی۔ ایک چیز اور ہے۔ آپ اپروچ کا فرق ملاحظہ کریں، راہل گاندھی اور کانگریس حزب اختلاف میں رہتے ہوئے بھی اگلا وزیر اعظم بننے بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں اور اس کے لیے کر کیارہے ہیں؟ راہل گاندھی ماہرِ معاشیات ابھیجیت بنرجی اور رگھورام راجن کا انگریزی میں انٹرویو لے رہے ہیں۔ کسی کو کچھ سمجھ میں آیا؟ پھر وہی اٹلکچوئل کلاس ۔ مطلب یہ ہے کہ بات غریبوں کے سر کے اوپرسے گزر جائے اور کھاتا پیتا ،شکم سیر طبقہ اسے دیکھ کر کپل شرما شو کی طرف چل دے ۔ پھریہ کہ راہل گاندھی کی بات کس نے سنی ؟
دوسری طرف محترم نریندر مودی کا اپروچ دیکھیے۔ ٹی وی پر آکر براہِ راست مزدوروں اور غریبوں کو ہندی میں تسلی دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ان کی قربانی اور بلیدان ملک پر احسان ہے۔ انہی کے بل پر ملک کورونا کے خلاف جنگ جیتے گا۔ آپ یقین مانیے ، 14سو کیلو میٹرکا سفر پیدل طے کرنے والا مزدور جب ہانپتے ہوئے رات میں کسی ڈھابے پر اپنا موبائل چارج کرکے مودی جی کا یہ پیغام واٹس ایپ پر سنتا ہے نا تو اس کے مَن میں یہ خیال ابھرتا ہے کہ دیکھو! دیش کا پی ایم کم سے کم ہمیں یاد تو کررہا ہے،ہماری جدوجہد کو بلیدان تو کہہ رہا ہے۔ ایک ہمارا مالک تھا ،پیسہ بھی نہیں دیا اور بھگا بھی دیا۔ پھر وہ چین کی نیند سوتا ہے۔
دوسری مثال 13مئی کی ہے۔ وزیر خزانہ نرملا سیتارمن جب بیس لاک کروڑ کی ضرب تقسیم سمجھانے آئیں تو وہ انگریزی میں بول رہی تھیں؛کیوں کہ ان کی ہندی اتنی اچھی نہیں ہے۔ اس کے بعد وزیرمملکت برائے امور خزانہ اور‘‘گولی مارو سالوں کو’’ کے نایَک انوراگ ٹھاکر جی،نرملا جی کی باتوں کا ہندی میں ترجمہ کرکے دیش کو سنارہے تھے؛تاکہ بات دیش کے ایک ایک آدمی تک پہنچے۔
تو دیکھاآپ نے!یہ ہے اپروچ کا فرق۔ راہل گاندھی انگریزی داں بن کر ماہرینِ معاشیات سے بات کررہے ہیں اور ہمارے مودی جی خالص دیسی انداز میں دیش کی جنتا سے روبرو ہیں۔ اب سمجھیے کہ ووٹ جنتا دے گی یا ماہرینِ معاشیات ؟ایک اور بات،کانگریس میں پتا نہیں کون لوگ حکمتِ عملی بناتے ہیں کہ اوپری عہدوں پر ایسے لوگوں کو بٹھادیتے ہیں جن کا ہاتھ ہندی میں بہت ہی تنگ ہوتا ہے۔ سونیا گاندھی کا تو سمجھ میں آتا ہے کہ وہ اٹلی سے آئی ہیں،پھر بھی انھوں نے ٹھیک ٹھاک ہندی بولنا سیکھ لی؛لیکن کھیل دیکھیے، منموہن سنگھ جی سے لے کر پچھلی بار والے ملکارجن کھڑگے اور اِس بار والے ادھیر رنجن چودھری سب کے سب ہندی کے انوکھے اسکالر ہیں۔اتنے کہ ہندی ٹھیک سے بول ہی نہیں پاتے۔راہل اور پرینکا ہندی اچھا بولتے ہیں ،مگر وہاں بھی دقت ہے۔ یہ کھیل طرزِ خطاب کا ہے۔ بہت باریک بات آپ کو بتارہا ہوں،بس یہی سوچتا ہوں کہ کانگریس میں کیسے پالیسی ساز ہیں،جنھوں نے آج تک ان چیزوں پر غور نہیں کیا۔ میں آپ کو مثال دیتا ہوں۔
مثال کے طورپر مودی جی جب عوام سے خطاب کرتے ہیں تو وہ اپنے مشہور انداز میں کہتے ہیں ‘‘بھائیواور بہنو!’’یا کبھی کہتے ہیں‘‘مِترو!’’۔ اب راہل گاندھی کا اندازِ خطاب دیکھیے،وہ جب بھی عوام کے درمیان خطاب کرتے ہیں تو کہتے ہیں‘‘بھیا!’’۔
یعنی مودی جی عوام کو عزت دے کر محتاط اور خوش کن انداز میں ان سے جڑ رہے ہیں اور راہل جی کہہ رہے ہیں ‘‘بھیا’’۔ اگر آپ ممبئی چلے جائیں تو وہاں یہ لفظ گالی کے مترادف ہے۔ دہلی میں بھی کوئی عورت اگر آٹو والے یا ریہڑی پٹری والے سے بات کرے گی تو کہے گی ‘‘بھیا’’۔ مطلب اپنے سے نیچے کلاس کا آدمی،چھوٹا آدمی۔آپ بہار چلے جائیے،وہاں کسی کو رکشا لینا ہوگا تو وہ پکارے گا‘‘اے رکشا!’’۔ وہ کبھی رکشاوالے کو ‘‘بھیا’’کہہ کر نہیں بلائے گا۔
تو کچھ سمجھے آپ؟یہ جو خطابت کا آرٹ ہے نا،وہ بہت معنی رکھتا ہے اور مخاطب پر اپنا اثر چھوڑتا ہے۔ جنتا کی نبض پکڑیے،اس سے جڑیے۔ موسمی مینڈک بن کر چناؤ کے میدان میں اتریں گے تو جنتا بھگا دے گی۔ واٹس ایپ کی فوج کے ذریعے روزانہ جنتا سے بات چیت کیجیے۔ ہوائی جہاز اڑاکر اور تھالی بجواکر عوام کو ملک کی تعمیر میں حصے دار بنائیے۔ جنتا کو بزی رکھیے۔
مجھے تو آج بھی یاد ہے جب راہل گاندھی نے اس دیش کے غریبوں کا مذاق اڑاکر بھرے جلسے میں اپنے ہی پی ایم منموہن سنگھ سے کہا تھا کہ:وزیراعظم صاحب!گیس سلنڈر کے دام گھٹا دیجیے،پھر ان کی سرکار نے دام گھٹا دیے تھے۔ کیا راہل گاندھی کی پی ایم منموہن سنگھ سے بات چیت نہیں ہوتی تھی؟کیا نجی گفتگو میں وہ پی ایم کو یہ مشورہ نہیں دے سکتے تھے؟عوامی مجمع میں یہ کہہ کر انھوں نے کیا ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ غریب عوام کے بڑے خیر خواہ ہیں؟یقین مانیے،اس کا بہت منفی پیغام گیا تھا،اس وقت میں نے کچھ لوگوں سے بات کی تھی،وہ راہل گاندھی سے ناراض تھے کہ سب مل کر نوٹنکی کر رہے ہیں۔
مجھے نہیں معلوم کہ کانگریس میں چاپلوسوں کی جماعت اس قدر حاوی کیوں ہے کہ زمینی حقائق اوپر تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔ مگر بی جے پی میں ایسا نہیں ہے۔ مودی جی زمین سے جڑے آدمی ہیں،سوزمین کی بات ان تک پہنچ جاتی ہے۔ان کے معتمد لوگ ان کے لیے یہ کام کرتے ہیں۔ یہ ان کا ذاتی نیٹ ورک ہے۔اس کے لیے وہ کسی پر منحصر نہیں ہیں۔ اسی وجہ سے عوام میں ان کا جادو قائم ہے۔ دانش ور طبقہ اور‘‘خان مارکیٹ گینگ’’ ہی ان پر اعتراض کرتا رہے،چاہے یہ طبقہ سوشل میڈیا سے لے کر یوٹیوب تک ان کا پیچھا کرتا رہے،مگر عوام کی نبض مودی جی کے ہاتھ میں ہے۔ انھیں صرف عوام کی پروا ہے اورعوام تک اپنا پیغام کیسے پہنچانا ہے،اس آرٹ میں وہ ماہر ہیں۔
راہل گاندھی اور کانگریسیوں کو ان سے سیکھنا چاہیے۔اس دیش کی سیاست اور اسے برتنے کا فن 2014کے بعد سے بدل چکا ہے۔ وقت کی چاپ کو پہچانیےاور آپ فکر مت کرنا۔ پیدل گھر لوٹنے والے یہ سارے مزدور کل الیکشن کے دن مودی جی کوہی ووٹ دیں گے،سوفیصد،آپ کہیں تو شرط لگالوں۔ یہ ‘‘خان مارکیٹ گینگ’’مزدوروں کی فکر میں خواہ مخواہ گھلتا جارہا ہے۔ بے چارے،پہلے عوام سے مکالمے کا فن سیکھو بھائی،سیکھو!
(مضمون نگار آئی آئی ایم سی نئی دہلی سے جرنلزم اور ماس کمیونکیشن کا کورس کرنے کے بعد ملک کے ممتاز صحافتی اداروں نوبھارت ٹائمس،دینک جاگرن،دینک ہندوستان،زی نیوز،نیوز24اور آکاشوانی میں مختلف عہدوں پر کام کرتے ہوئے ایڈیٹر تک کے عہدے پر پہنچے،اس کے بعد خود کو درس و تدریس سے وابستہ کرلیا۔ آجکل دہلی کے ایک ادارے میں صحافت کے طلبہ کو پڑھارہے ہیں،ساتھ ہی بھارت میں فیک نیوز کے چلن اور ان کے اثرات پر پی ایچ ڈی کررہے ہیں ۔ ان کا یہ مضمون ان کی پرسنل ویب سائٹ www.nadimkibaat.com پرہندی زبان میں شائع ہوا ہے۔)
نایاب حسن
مشرف عالم ذوقی اردوحلقے میں اپنے مخصوص بے باک وشفاف اسلوبِ تحریر کے حوالے سے منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ان کے ناولوں میں عصری حسیت اور احوال وواقعات کی بھر پور ترجمانی ہوتی ہے، ان کی کہانیوں میں ملکی و عالمی منظرنامے کی ایسی عکاسی ہوتی ہے،جس سے ان کا قاری ذہنی وفکری طورپر بآسانی مربوط ہوسکتاہے۔ذوقی صاحب کا قلم سیال ہے اور لکھنے کی رفتار تیزتر،وہ گزشتہ چاردہائی سے زائد عرصے سے لکھ رہے ہیں،ایک درجن سے زیادہ کتابیں منظرِعام پرآچکی ہیں،ان میں زیادہ تر ناول، چند افسانوی مجموعے،ایک نثری نظموں کا مجموعہ اور ایک تنقیدی مضامین کا مجموعہ”آبِ روانِ کبیر“ شامل ہیں۔
سال2019کے اخیرمیں ان کاتازہ ناول”مرگِ انبوہ“کے نام سے ہندوستان میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی کے ذریعے منظر عام پرآیاہے اور پاکستان میں صریرپبلی کیشنز اس کی اشاعتی ذمے داری اٹھارہاہے۔ناول کے پہلے حصے میں مرکزی کردار پاشامرزااوراس کے دوستوں کے حوالے سے اکیسویں صدی کی نئی نسل کے مسائل و نفسیات کوزیر بحث لاتے ہوئے ہماری جنریشن کی جلدبازی اور پوری دنیاکو چند لمحوں میں زیر کرلینے یا نئے نئے ایڈونچرز کے شوق پر واقعات ومکالمات کی روشنی میں بڑی چابک دستی سے روشنی ڈالی ہے۔اس ذیل میں الومناتی گروہ اور ہلاکت ناک بلیووہیل گیم کے کرشموں پربھی خامہ فرسائی کی گئی ہے۔نئی نسل نئے ماحول میں پرانی قدروں سے اتنی بوراوردور ہوتی جارہی ہے کہ وہ جلدازجلد ہر نقشِ کہن سے پیچھا چھڑانا چاہتی ہے،اسی کا مظہر پاشامرزااوراس کا دوست ریمنڈ ہے۔پاشامرزاکو اپنے باپ جہاں گیرمرزا سے چڑ،بلکہ نفرت ہے اور ریمنڈبھی روز اپنے باپ سے لڑتااور نئی نئی مہم جوئیوں میں مصروف رہتاہے۔ناول کا دوسرا حصہ جو ہندوستان کے حالیہ چھ سات سال کے سماجی و سیاسی منظرنامے پرمبنی ہے،وہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ناول نگارنے جہانگیرمرزا کی سرگذشت کی شکل میں اس عرصے میں پورے ہندوستان اور خصوصاً یہاں کے مسلمانوں پر بیتنے والے سانحات کو بڑی وضاحت کے ساتھ اور دوٹوک انداز میں بیان کیاہے۔کہانی کی بنت اور کرداروں کی تقسیم وتحدید،پھر ان کے مکالموں اور ان کے گرداگردواقعات کے سلسلے حقائق سے معمور ہیں۔ناول نگار نے بی مشن کو اس سرگزشت کا سینٹر بنایا ہے،جس کے اشاروں اور حکم سے پورے ملک میں حالات برق جیسی رفتارسے بدل رہے ہیں، ”جادوگر“ کا کردار بھی نہایت دلچسپ ہے،جوآن کی آن میں ایک ہنگامۂ رستاخیز برپاکردیتاہے،جس کے ہاتھ میں پورے ملک کی باگ ڈورہے اور وہ جیسے چاہتاہے،تصرف کرتاہے۔اس کے ایک اشارے سے ملک بھر کے بینک خالی ہوجاتے ہیں،لوگ کیش لیس ہوجاتے ہیں،وہ ایک طبقے کے خلاف کوئی بات کرتاہے اور اس کے بھکت اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہوجاتے ہیں،وہ ایک خوفناک سایے کی طرح لوگوں کے پیچھے لگ جاتاہے،کوئی بھی شخص،اس کی زندگی،اس کا گھر اس جادوگرکی دست رس سے دور نہیں ہے۔جادوگرکی شخصیت ایسی زبردست قوت سے عبارت ہے کہ اس کے خلاف کہیں بھی کوئی آواز اٹھ رہی ہو،اسے پتالگ جاتاہے اورپھر وہ لمحے بھر میں اپنے مخالف آوازکو خاموش کردیتاہے۔”راکیش وید“بی مشن کا ایک مضبوط رکن ہے،جس کاکام یہ ہے کہ وہ بی مشن سے نالاں مسلمانوں میں اپنے ہمدردتلاش کرے، اسے کسی طرح ہموار کرکے بی مشن کے حق میں استعمال کرے اور پھر اس سے کام لے کر اسے زندگی کی الجھنوں سے آزاد کردے،حتی کہ جہاں گیر مرزا جو ایک نظریاتی انسان،تخلیق کاراور ادیب و صحافی ہے وہ بھی راکیش وید کے جھانسے میں آجاتا ہے،حالات کے پیش نظر اسے اپنے نظریات سے سمجھوتا کرنا پڑتا ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی وہ بی مشن کا حصہ بن جاتاہے،گرچہ اس کی وابستگی طویل نہیں ہوتی،مگر اس کے اثرات جہاں گیرمرزاکے لیے جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔راکیش ویدکی جوتصویرکشی ناول نگارنے کی ہے،اس کے مطابق وہ بہ یک وقت ہمدردبھی ہے اورنہایت سفاک بھی،وہ زندگی کو مصیبت سے تعبیر کرتاہے اور موت کواس مصیبت سے آزادی بتاتاہے،اس کے مطابق ”جادوگر“ کا احسان ہے کہ وہ اس ملک کے مسلمانوں یا اپنے مخالفین کو مصیبت(زندگی)سے آزاد کروانا چاہتا ہے۔ناول میں استعمال کیے گئے استعارات،کنایات،تشبیہات میں غضب کی معنویت ہے۔ اس وقت پورے ملک میں این آرسی /سی اے کے خلاف پرزوراحتجاجات ہورہے ہیں، ذوقی نے اس ناول میں چندماہ قبل ہی این آرسی کےبھیانک مضمرات وعواقب کی نشان دہی کی تھی،تب شمال مشرقی ہندوستان میں آوازیں اٹھناشروع ہوگئی تھیں، مگرسینٹرل انڈیامیں تقریباًخاموشی تھی،پھرجب پارلیمنٹ سے شہریت کانیا ترمیم شدہ قانون پاس کیاگیا اورحکومت نے سی اے اے کے بعد پورےملک میں ان آرسی کے نفاذکا عزم ظاہرکیا،تب لوگوں کواس کے خطرات کاادراک ہوا،جس کے نتیجے میں گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے پوراملک سرگرمِ احتجاج ہے ـ
اس ناول میں ذوقی نے دائیں بازوکی سفاک سیاست،اس کے طریقۂ عمل اور طرزِفکرپربڑی بے باکی سے تبصرہ کیا ہے،ساتھ ہی سیکولرزم کے ہندوستانی ورژن پرنہایت سنجیدہ سوالات اٹھاتے ہوئے اشتراکی افکارو تصورات کی نمایندگی کرنے والی جماعتوں کی پس گردی کے اسباب پربھی روشنی ڈالی ہے۔مختلف مکالمات کے بین السطورمیں انھوں نے ہندوستانی مسلمانوں کی سماجی و ملی تنظیموں کے دوہرے پن کوبھی آشکاراکیاہے۔
اس ناول کی ادبی قدروقیمت کیا ہے، وہ توناقدین طے کریں گے،مگر ایک قاری کی حیثیت سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مفروضہ ہوائی وتخیلاتی کہانیوں پرمبنی اور محض ذہنی تفریح فراہم کرنے کے لیے لکھے جانے والے ناولوں کے مقابلے میں ذوقی کایہ ناول زیادہ پڑھنے لائق ہے کہ اس میں انھوں نے پوری صداقت وواقعیت پسندی کے ساتھ ہندوستان کے موجودہ سیاسی و سماجی منظرنامے کی عکاسی کی ہے،اس اعتبار سے یہ ناول ایک تاریخی دستاویز بھی ہے۔ہمارے خیال میں وہ تخلیقی شہہ پارہ زیادہ تعریف و تحسین کا حق دار ہے،جس میں سماج کے گردوپیش کے حالات واشخاص و سانحات کو کرداروں میں ڈھال کر پیش کیاجائے۔ذوقی کے پچھلے ناولوں میں بھی یہ خوبی پائی جاتی ہے اور اس ناول میں بھی یہ خوبی بہ تمام و کمال موجودہے۔اخیر میں ”دولفظ“کے عنوان سے انھوں نے اردوکے روایتی ناقدین سے شکایت کی ہے کہ وہ ایسے ناول کو سیاسی رپورٹنگ قراردے کر نظر انداز کردیتے ہیں،پھر انھوں نے انگریزی،عربی،ہسپانوی،روسی ودیگر زبانوں کے معروف وایوارڈیافتہ ناول نگاروں کے حوالے سے درست لکھاہے کہ زیادہ تر عالمی تخلیقی شہہ پاروں کا ربط متعلقہ ملکوں کی یاعالمی سیاسیات سے رہاہے۔
یہ ناول زبان و اسلوب کے اعتبار سے بھی بڑا سلیس اور سہل و شیریں ہے،مشرف عالم ذوقی جدتِ تعبیر اور ندرتِ اداپر زیادہ زور نہیں دیتے،ان کا ارتکازقوتِ ترسیل پرہوتا ہے،جواس ناول میں بھی بخوبی محسوس کیاجاسکتاہے،کہیں بھی کسی قسم کی پیچیدگی یا زبان و بیان کا اٹکاؤ نہیں ہے،آپ ایک رومیں پوری کتاب پڑھ سکتے ہیں، کوئی اکتاہٹ محسوس نہیں ہوگی ـ البتہ بعض مقامات قابلِ توجہ ہیں،مثلاً صفحہ نمبر 110پرایک جملہ ہے”میں کھلی کھڑکیوں سے باہرکانظارہ دیکھ سکتی ہوں“۔یہاں باہر کا ”منظر“ ہونا چاہیے تھایاجملے کی ساخت یوں ہونی چاہیے تھی”میں کھلی کھڑکیوں سے باہرکانظارہ کرسکتی ہوں“۔صفحہ نمبر126پرایک جملہ ہے”میں ڈائری کھولوں یاپہلے ڈائری کھولنے سے قبل اپنی زندگی کے ان صفحوں میں جھانک آؤں…“اس میں ”پہلے“لفظ زائدہے۔اسی طرح ایک لفظ جو بار بار استعمال ہواہے اورہرجگہ غلط کمپوژ ہوگیاہے،اس کی نشان دہی بھی ضروری ہے،ناول میں ”سارہ“ جہاگیر مرزاکی بیوی ہے، اس کایہی املا ہے اورکتاب میں یہی لکھابھی گیا ہے، مگرکُل اور سب کے معنی میں ”سارا“ کوبھی تقریباً پوری کتاب میں ”سارہ“ ہی لکھاگیاہے،اس سے سخت الجھن ہوتی ہے اور پڑھنے والا پہلی نظر میں اسے”سارہ“جہاں گیرمرزاکی بیوی سمجھ لیتا ہے، پھرپوراجملہ پڑھنے کے بعد معلوم ہوتاہے کہ یہ تو ”سارا“ ہے۔ بہرکیف ایسی دوچارفروگذاشتوں سے قطع نظریہ تازہ ناول ہراعتبارسے شاندارہے،کتاب و ادب دوست طبقے کے علاوہ ہراس باشعور ہندوستانی کویہ ناول پڑھنا چاہیے، جوبرق جیسی تیزی سے بدلتے قومی منظرنامے کوسمجھنا چاہتاہے،اس کی تہوں میں اترناچاہتاہے ـ تقریباساڑھے چارسوصفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت پانچ سوروپے نہایت مناسب ہے ـ کتاب کا ٹائٹل عنوان سے ہم آہنگ اورطباعت خوب صورت ہےـ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی سے حاصل کی جاسکتی ہےـ
تحسین پوناوالا، ناصر حسین قریشی، پی وی سریندرناتھ اور مولانا یاسین اختر مصباح کا طلباسے اظہار یکجہتی
نئی دہلی: (جامعہ کیمپس سے محمد علم کی رپورٹ) مولانا محمد علی جوہر روڈ پر قدم رکھتے ہی اندازہ ہو جائے گا کہ آپ ایک ایسی بستی میں داخل ہو گئے ہیں جہاں بے چینیوں کا راج اور اضطراب کا بسیر اہے ۔ رات کے سناٹے کے بعد سورج کی روشنی کے ساتھ ہی قومی نغمے کانوں میں گونجنے شروع ہو جاتے ہیں اور فجر کی اذان کے ساتھ ہی جن من گن اور سارے جہاں سے اچھا کی نوید سنائی دینے لگتی ہے ۔حب الوطنی میں ڈوبے گیت اور نغموں سے سر شار جامعہ کے طلبااور اوکھلا کے باسی جب اس آواز کو سنتے ہیں تو ان کے قدم خود ہی اس جانب کشاں کشاں کھنچے چلے آتے ہیں اور پھر شروع ہوجاتا ہےایک نیاجہان تعمیر کرنے کا عمل ، ایک نیا خواب بُننے اوراس کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا جذبہ ، کسی کے ہاتھ میں ترنگا ہوتا ہے ، کسی کے ہاتھ میں پلے کارڈ تو کوئی اپنے ٹوٹے بستوں کے ساتھ ہی جامعہ ملیہ اسلامیہ بابِ مولانا آزاد جو احتجاج کی نشانی بن چکا ہے پہنچنا شروع ہو جاتا ہے ۔ یہاں پر شیر خوار بچوں کے ساتھ اسی اور نوے سال کے بزرگ بھی دکھائی دیتے ہیں ، پیروں سے معذور افراد اور وہ بھی جو بول نہیں سکتے لیکن زبان حال اور قال سےگواہی دے رہے ہوتے ہیں کہ وہ ہندوستان کے دستور کو بچانے نکلے ہیں اور آزاد ہندوستان کے یہ وہ سپاہی ہیں جو کل کی تاریخ رقم کر رہے ہیں ۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کیمپس سے باہر سڑک کنارے سی اے اے (سٹیزن شپ امینڈمنٹ ایکٹ )، این پی آر (نیشنل پاپولیشن رجسٹر)اور این آرسی ( نیشنل رجسٹرآف سٹیزن ) کے خلاف تقریبا چالیس دن سے جاری احتجاج میں ہر دن ایک نیا انداز اور نیا رنگ دیکھنے کو ملتا ہے ،جس میں طلبا اور آس پاس کے رہائشی حکومت کے خلاف اپنے اپنے انداز میں غم و غصہ کا اظہار کرتے ہیں ۔ شاعر اپنی شاعری کے ذریعے تو آرٹسٹ اپنے آرٹ کے ذریعے ۔ دیواریں اور سڑکیں مزاحمت کا نشان بن گئی ہیں جہاں تخلیقیت سے پُر نعرے اور کارٹون حکومت کو منہ چڑاتے نظر آتے ہیں ۔مقررین خطاب کرتے ہیں تو پڑھے لکھے افراد اس قبیح بل کے دور رس اثرات اور نقصانات سے لوگوں کو واقف کراتے ہیں ۔ چوبیس گھنٹے جاری رہنے والے اس احتجاج میں ، گذشتہ اکیس دن سے ستیہ گرہ پر بیٹھے بھوک اور پیاس سے نڈھال طلبا بھی نظر آتے ہیں لیکن ان کے چہرے پر نا امیدی یا مایوسی نظر نہیں آتی بلکہ عزم و ہمت کی ایک کرن دکھائی دیتی ہے ، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباپر مشتمل رضاکار بلا تھکے انتہائی خلوص کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو انجام دیتے ہوئے نظر آتے ہیں جس میں صفائی سے لیکر سیکیورٹی اور ٹریفک تک کی ذمہ داریاں طلباہی نبھاتے ہیں ۔ اسٹریٹ پر لائبریری بھی سجی نظر آتی ہے جس میں مختلف موضوعات پر کتابوں کا ڈھیر نظر آتا ہے جہاں پڑھنے والے طلبا مطالعہ میں غرق دکھائی دیتے ہیں ۔شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جامعہ سے چھیڑی گئی اس تحریک کو آج ۴۰ روز مکمل ہوگئے. آج کے احتجاج میں کئی سیاسی وسماجی شخصیات نے شرکت کی اور اس سیاہ قانون کی مخالفت جاری رکھنے کےلیے طلبا کے عزم وحوصلے کی داد دی اور طالبات کی جدوجہد کو سراہتے ہوئے حتی المقدور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ دوردراز اور قرب وجوار سے آئی سماجی وسیاسی شخصیات میں خاص طور پر سماجی کارکن اور سیاسی تجزیہ کار تحسین پوناوالا، آج تک کے نیوز اینکر ناصر حسین قریشی، میرٹھ سے آئے وکیل عبدالواحد، اسلامک اسکالریاسین اخترمصباحی ، اکھل بھارتیہ وکیل سنگھ کے سکریٹری پی وی سریندرناتھ قابل ذکر ہیں۔سماجی کارکن وسیاسی تجزیہ کار تحسین پوناوالا نے مظاہرین کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مودی اور شاہ بار بار کہہ رہے ہیں کہ سی اے اے اور این آر سی دو الگ الگ چیزیں ہیں مگر دونوں کانفاذ ہی حقیقت ہے۔ سرکار گاندھی جی کو مہرہ بنا کر استعمال کر رہی ہے اور گاندھی جی کے پرانے بیانات کو توڑ موڑ کر پیش کر رہی ہے۔ پارلیمنٹ میں بھلے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی اکثریت میں ہو مگر ان کی غیر آئینی پالیسیوں اور قوانین کو عوام تسلیم نہیں کریں گے ، جو لوگ تحریک چلا رہے ہیں ان کا کوئی ذاتی مفاد نہیں ہے بلکہ یہ لڑائی آئین کو بچانے کی ہے۔ ان کایقین ہے کہ عدالت عظمی اس سیاہ قانون کو ضرورغیر آئینی قرار دے گی۔آج تک کے نیوز اینکر ناصر حسین قریشی نے کہا کہ وزیراعظم کو یہاں مظاہرین سے مل کر چرچا کرنی چاہیے اور یقین دلانا چاہیے کی این پی آر اور این آر سی نافذنہیں ہوگا اور مجھے لگتا ہے کہ لوگ وزیراعظم کی بات پریقین بھی کریں گے۔ انہوں نے کہا ایک بہت بڑا گروہ بھرم اور دراڑ پھیلانے میں لگا ہے مگر ہم محبت پھیلائیں گے اورجیتیں گے ۔میرٹھ سے آئے وکیل عبدالواحد نےمظاہرین کوخطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت بڑی بات ہے کہ ہم حکومت کے خلاف لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ہم ذاتی واداور یوگی والے بھگوا رویہ کے مخالف ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ ہم بھگت سنگھ کے رویے کو سلام کرتے ہیں۔ دہلی یونیورسٹی کے طلبہ لیڈر اعجاز علی جعفری نے اپنے خطاب میں کہا کہ سرکار کہہ رہی ہے کہ یہ پورا معاملہ صرف مسلمانوں کا ہے مگر ان لوگوں نے پہلے بھی جھوٹے وعدے کیے ہیں، نوٹ بندی کے وقت وزیراعظم نے 50دن مانگے تھے کہ کالا دھن واپس لے آئیں گے لوگوں نے ان پریقین کیا مگر صرف دھوکہ ملا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ضابطہ بنالیا ہے کہ پارٹی میں ہونے کے لیے غنڈہ ہونا ضروری ہے، اور جوجتنا بڑا غنڈہ اتنا بڑا عہدہ۔ ان کے علاوہ دیگر مقررین میں پیس پارٹی آف انڈیا کے قومی صدر محمد ایوب، سماجی کارکن ابھنو سنہا اورجامعہ کے طلبہ لیڈر عاقب رضوان، مبشر بدر وغیرہ نے بھی اپنی بات رکھی ۔ آج جامعہ کوآرڈی نیشن کمیٹی کی جانب سے ‘راشٹرویاپی سنیکت پردرشن کے اعلان ’ کے تیسرے دن دیش بھر کے مختلف مقامات پر ‘ایک روزہ بھوک ہڑتال’ کا بھی انعقاد عمل میں آیا ۔ ‘کال فار ریززٹینس’ عنوان کا یہ اعلان ایک ہفتہ تک ملک کے مختلف مقامات پرمختلف کاموں کے ذریعہ سے ہوگا۔جامعہ کوآرڈی نیشن کمیٹی اور ایلومنائی ایسوسی ایشن کے ممبران کے مطابق جب تک یہ سیاہ قانون واپس نہیں لے لیا جاتا تب تک وہ مظاہرہ جاری رکھیں گےـ
ترجمہ:نایاب حسن
مودی حکومت کے ذریعے لائے گئے نئے شہریت قانون کے خلاف احتجاجات کی ایسی تصویریں سامنے آرہی ہیں،جن سے مسلمانوں کے تئیں روایتی سوچ کا خاتمہ ہورہاہے۔اس بار علمااور مذہبی شخصیات قیادت نہیں کررہی ہیں؛بلکہ قیادت کرنے والے نوجوان اور گھریلوخواتین ہیں۔یہ احتجاج خالص مسلمانوں کابھی نہیں ہے،جیساکہ ماضی میں سلمان رشدی،تین طلاق یا تسلیمہ نسرین کے معاملوں میں دیکھاگیاتھا،اس کے برخلاف یہ ایک نئی ہمہ گیر تحریک ہے،جس میں جامع مسجد کی سیڑھیوں سے شاہی امام کی بجائے چندشیکھر آزاد خطاب کررہاہے۔تمام طبقات و مذاہب کے طلبہ ساتھ مل کر”آزادی“کا غیر فرقہ وارانہ نعرہ لگارہے ہیں۔تمام مظاہرین کی ایک اہم اور توانادلیل یہ ہے کہ جب دستور وآئین کے مطابق قانون کی نظر میں تمام مذاہب کو یکساں اہمیت حاصل ہے،توہندوستانی پارلیمنٹ اکیسویں صدی میں کوئی بھی قانون سازی کرکے اس دستور میں مذہبی تفریق کا عنصر داخل نہیں کرسکتی۔
ان مظاہرین کے پاس ایک مضبوط ہتھیارہے اوروہ ہے ہندوستانی آئین کا”دیباچہ“۔کپڑے اور طرزِپوشش کا اختلاف یہاں معنی نہیں رکھتا،جینز،جیکٹ اور حجاب سب ساتھ ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ شاہین باغ کی خواتین یا بنگلور کی سافٹ ویئر پروفیشنلزیا جامعہ کے طلبہ و طالبات کاپرانے مظلومیت و متاثرہونے کے تصور سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس کی بجائے ان محب وطن ہندوستانیوں کی جانب سے پوری توانائی اور طاقت کے ساتھ برابری کے حقِ شہریت کا اظہار کیاجارہاہے۔
مظاہروں کے مقامات پر آپ کو ایسے بچے اور جوان نظر آئیں گے، جنھوں نے اپنے چہروں پرہندوستانی ترنگانقش کروا رکھاہے،ایسے مناظر عموماً ہندوستان کے کرکٹ میچوں یا یومِ آزادی کے موقعے پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔شاہین باغ میں ایک انڈیاگیٹ اور ہندوستان کا ایک عظیم الشان نقشہ بنایاگیاہے۔آزادی کے ہیروگاندھی،بھگت سنگھ،امبیڈکر اور مولانا آزاد کی تصویریں ایک قطار میں لگائی گئی ہیں۔ان سب کو ایک ساتھ دکھانے کا آئیڈیا(جوکہ روایتی سیاست دان نہیں کرتے)ہی اس احتجاج کو نظریاتی طورپر منفرد بناتاہے۔
حیدرآبادمیں اسداالدین اویسی ترنگا ریلی نکال رہے ہیں اور یوم جمہوریہ کے موقعے پر چار مینارکوترنگاسے روشن کرنے کا منصوبہ بنایاہے۔ممبئی میں دھاراوی کی جگی جھونپڑیوں میں رہنے والے مسلمان اپنے مراٹھی پڑوسیوں کے ساتھ مل کر قومی گیت گارہے ہیں۔مجلس کے لیڈر وارث پٹھان نے پوری قوت کے ساتھ کہاکہ دوسرے لوگ بھلے ہی آسٹریلیا،امریکہ ہجرت کرجائیں مگر اس ملک کے مسلمان اپنے پیارے وطن ہندوستان کوکبھی نہیں چھوڑ سکتے۔
ایک سوال ہوسکتا ہے کہ کیامسلمان ڈرکے مارے اپنی حب الوطنی کا اظہار کررہے ہیں؟بی جے پی کہہ سکتی ہے کہ وطن سے محبت ووفاداری کا اظہار واعلان یقینی طورپر وہی چیز ہے، جس کا بی جے پی شروع سے مطالبہ کرتی رہی ہے، مگرحقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں میں کسی قسم کا خوف نہیں ہے،وہ کھل کر اپنے خلاف ہونے والے تعصب کو چیلنج کررہے ہیں؛بلکہ وہ کسی بھی دقیانوسیت اور بھدی تصویر کشی کو صریحاً مسترد کررہے ہیں۔ساتھ ہی دیگر محب وطن افراد کے ساتھ صف بستہ ہونے کے لیے لوگوں میں بین المذاہب بھائی چارے اور یکجہتی کا شوقِ فراواں پیدا ہورہاہے۔مظاہرے میں شریک ایک شخص کاکہناہے”اب بہت ہوچکا ہے۔کیاہم ایودھیا فیصلے پر خاموش نہیں تھے؟کیاہم اس وقت بھی خاموش نہیں تھے، جب مویشیوں کی تجارت کے نئے قانون کے ذریعے ہمارے کاروبارکو نقصان پہنچایاگیا؟کیاہم اس وقت بھی چپ نہیں تھے، جب ہندوستان کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کو وفاقی خطے(یونین ٹیریٹری) میں بدل دیاگیا؟کیاہم نے اپنی مسلسل ہتک کے باوجود امن وامان کی باتیں نہیں کیں؟مگراب جبکہ ہماری شہریت کو چیلنج کیاگیاہے،تو ہمیں اپنی مادرِ وطن سے مضبوط انتساب کے اظہاراورحکومت کے تئیں شدید ناراضگی جتانے میں کوئی جھجھک نہیں ہے“۔
یہ آواز صرف اکثریت پسندی کے خلاف نہیں ہے؛بلکہ ساتھ ہی یہ خود مسلمانوں کے ان دانشوروں (مثلاً ماضی قریب میں سید شہاب الدین)کے بھی خلاف ہے،جو ہندوستانیت کی بجاے مسلم شناخت پر زوردینے کی کوشش کرتے ہیں؛چنانچہ شاہین باغ کے احتجاج میں ”ہندوستان کے چارسپاہی- ہندو، مسلم،سکھ،عیسائی“جیسے نعرے تواتر کے ساتھ لگ رہے ہیں، جس سے یہ تیقن حاصل ہوتاہے کہ بین المذاہب اشتراک و اتحادکے ذریعےہی ایک حقیقی طورپر آزادہندوستان کی تعمیر و تشکیل ہوسکتی ہے۔
یوپی،مغربی بنگال اور منگلورومیں تشدد کے واقعات اور انتہاپسندانہ سیاست کی وجہ سے اس تحریک کے اخلاقی وقار کوکچھ ٹھیس پہنچی تھی ،مگر زیادہ تر احتجاجات تاحال پرامن ہیں اور ممکن ہے ان سے مخلصانہ وپرامن سول تحریک کے تئیں ایک بار پھر سے لوگوں کااعتمادویقین لوٹ آئے۔اب ذمے داری اکثریتی طبقے کی ہے،کیاسبھی ہندواس دستوری لڑائی میں شامل ہوں گے اور سیاست دانوں کے ذریعے کیے گئے اس دقیانوسی پروپیگنڈے کو ناکام ثابت کریں گے کہ ”مظاہرین اپنے کپڑوں سے پہچانے جاسکتے ہیں“؟
بی جے پی نے برطانوی استعمار کا لغت اپنالیاہے۔ایک تحقیقی کتاب‘Beyond Turk and Hindu’میں یہ بتایاگیاہے کہ کس طرح استعماری دورِ حکومت میں محکمۂ شماریات کے افسران نے ہندوستانیوں کوواضح طورپر”مسلم“اور ”ہندو“کے طبقوں میں تقسیم کیا۔اس سے پہلے برصغیر “Islamicate” اور“Indic”لوگوں کی آمدورفت کے لیے یکساں وسعت رکھتا تھا۔ان مظاہروں نے ان پرانے اشتراک و تعلقات کو زندہ کردیاہے اور مسلمانوں کے اس دعوے کو مضبوط کردیاہے کہ ہندوستان کی تاریخ میں ان کی حصے داری نہایت پرانی ہے۔
ان احتجاجات کومسلم ایشوکے طورپر دیکھنا غلط ہے،اسی طرح مظاہرین کے لیے بھی غلط ہوگاکہ وہ ”شناخت کی سیاست“کے تنگنائے میں منحصر ہوکررہ جائیں۔یہ وقت نئے دستوری اقدارکی بازیابی کے لیے جدوجہد اور دوقومی نظریے کوپوری قوت سے مسترد کرنے کاہے۔فی الحقیقت یہ مظاہرے اکثریت -اقلیت کی تقسیم سے ماورا ایک نئی سرگرم مسلم سٹیزن شپ کے ابھرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں؛کیوں کہ اس تحریک کے ذریعے طاقت ورانداز میں یہ حقیقت سامنے آرہی ہے کہ مسلمانوں کی حب الوطنی کسی بھی اعتبار سے اس ”دیش بھگتی“سے کم نہیں ہے،جس کا ہندووں کودعویٰ ہے۔ان احتجاجات میں پوری قوت سے یہ احساس ابھر کرسامنے آرہاہے کہ:فخرسے کہو،ہم ہندوستانی مسلم ہیں!
(بہ شکریہ روزنامہ ٹائمس آف انڈیا)
ایم ودود ساجد
این ڈی ٹی وی نے بتایا ہے کہ آج شاہین باغ کے احتجاج میں 80 کی دہائی کے ‘اجڑے’ ہوئے کچھ پنڈت پہنچ گئے ۔انہوں نے ہاتھوں میں بینر لے رکھے تھے۔ان کا کہنا ہے کہ انہیں آج ہی کے دن یعنی 19 جنوری کو کشمیر سے اجاڑ دیا گیا تھا۔
یہ پنڈت شاہین باغ اس لئے نہیں پہنچے تھے کہ انہیں مظاہرین سے اظہار یکجہتی کرنا تھا،وہ تو CAA کی مخالفت ہی نہیں کرتے اور اس سلسلے میں حکومت کے ساتھ ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ فلم اداکار سوارا بھاسکر نے آج شاہین باغ میں جشن شاہین منانے کا اعلان کیا تھا جس میں کچھ غزل سرائی اور شعروشاعری کا منصوبہ تھا۔ اس پر فلم ساز وویک اگنی ہوتری نے ٹویٹ کرکے کہا تھا کہ آج ہی کے دن کشمیری پنڈتوں کو اجاڑا گیا تھا اور آج جشن شاہین منایا جارہا ہے لہذا آج شام کو پانچ بجے کشمیری پنڈت شاہین باغ پہنچ کر اس کے خلاف مظاہرہ کریں ۔وویک اگنی ہوتری کی مودی نوازی چھپی ہوئی بات نہیں ہے۔
این ڈی ٹی وی کو ایک کشمیری پنڈت نے بتایا کہ ہم سی اے اے کی حمایت کرتے ہیں اور یہاں ہم اپنے اجڑنے کی داستان سنانے آئے تھے۔ایک کشمیری پنڈت خاتون کچھ زیادہ ہی جوش میں تھی۔اس نے کہا کہ ان لوگوں نے (شاہین باغ کے مظاہرین نے) غلط اعلان کیا کہ ہم ان کی حمایت کرنے آئے ہیں ۔وہ کچھ اور کہتی اس سے پہلے ہی دوسرے پنڈت نے بات سنبھال لی۔اس نے کہا کہ شاہین باغ والوں نے ہمیں اپنی بات کہنے کےلئے اپنا اسٹیج پیش کیا اور ہمارا درد سن کر ہم سے اظہار یکجہتی کیا۔
مشہور کشمیری پنڈت اے کے رینا نے تو اسٹیج پر یہاں تک کہہ دیا کہ گو کہ ہم سی اے اے کی حمایت کرتے ہیں لیکن آپ لوگ اتنے دنوں سے یہاں جمع ہیں تو ہم آپ کا بھی درد سمجھتے ہیں ۔
تو وزیراعظم صاحب!
اب تو کچھ شرم کرلیجئے۔جن پنڈتوں کا نام لے کر آپ نے 80 لاکھ کشمیریوں کا دم گھونٹ دیا ہے وہ بھی اپنی بپتا سنانے کے لئے اُس اسٹیج کا سہارا لینے پر مجبور ہیں جو آپ کے مخالفین نے سجایا ہے۔۔۔ یہ پنڈت کتنے بھولے’ سادہ مگر مجبور ہیں کہ ہندوستان کے جس بڑے طبقے کی مخالفت کر رہے ہیں اسی کے پروگرام کو اپنی داستانِ رنج والم سنانے کے لئے استعمال کر رہے ہیں ۔ شاید انہیں بھی اب احساس ہوگیا ہے کہ ان کی بات دنیا اسی اسٹیج سے سنے گی جہاں سی اے اے کے خلاف ہزاروں خواتین ایک مہینہ سے سینہ سپر ہیں ۔
مودی،امیت شاہ اور سیتارمن کےطلبہ پرنشانہ سادھنے کے بعد اب فروغ انسانی وسائل کے وزیرمنیش پوکھریال نے کہاہے کہ طلبہ کی سیاسی سرگرمیوں کوکسی قیمت پربرداشت نہیں کیاجائے گا
نایاب حسن
پورے ملک کی تعلیم گاہوں اور عام لوگوں کے درمیان مرکزی حکومت کے ذریعے پاس کردہ نئے شہریت ترمیمی قانون اور این آرسی کے خلاف پائی جانے والی شدید ناراضگی اور احتجاجات کے بیچ آج مرکزی وزیر برائے فروغ انسانی وسائل رمیش پوکھریال نے کولکاتا میںبی جے پی کی ٹیچرس سیل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ مرکزی حکومت تعلیمی اداروں میں سیاسی گرمیوں کوکسی قیمت پر برداشت نہیں کرے گی۔انھوں نے کہاکہ ہر شخص سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے آزاد ہے مگر کالج اور یونیورسٹی جہاں دوردراز سے طلبہ پڑھنے کے لیے آتے ہیں انھیں اس قسم کی سرگرمیوں سے پاک رکھنا ہوگا۔انھوںنے سختی سے کہاکہ نریندر مودی حکومت اسے کسی قیمت پر برداشت نہیں کرے گی۔ انھوں نے اپوزیشن پارٹیوں بالخصوص کانگریس پر الزام لگایاکہ وہ سی اے اے کے حوالے سے لوگوں میں غلط معلومات پھیلاکرماحول خراب کررہی ہے۔انہوں نے بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتابنرجی پر بھی نشانہ سادھا۔نئی تعلیمی پالیسی کے بارے میں بتاتے ہوئے انہوں نے کہاکہ تینتیس سال کے بعد حکومت کے ذریعے تیار کردہ نئی تعلیمی پالیسی ہندوستان اَساس ہوگی اوراس میں ہماری قومی قدروں کے تحفظ پر زور دیاجائے گا۔قابل ذکرہے کہ گزشتہ دوہفتے سے زائد سے دہلی کی جے این یو،جامعہ ملیہ اسلامیہ،دہلی یونیورسٹی اور ملک کی دیگر دسیوں یونیورسٹیوں کے طلبانئے قانون کے خلاف سڑکوں پر ہیں اوران کے سپورٹ میں بیرون ہندکی یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے ہندوستانی طلبہ بھی احتجاجی مارچ نکال رہے ہیں۔اس سے پہلے خود وزیر اعظم مودی،وزیر داخلہ امیت شاہ ،وزیر خزانہ نرملا سیتارمن بھی طلبہ کے احتجاجات کولے کر سخت بیان بازی کرچکے ہیں،اب فروغ انسانی وسائل کے وزیر نے بھی جس لہجے میں یہ کہاکہ تعلیمی اداروں میں سیاسی سرگرمیوں کوبرداشت نہیں کیاجائے گااس سے حکومت کی منشاپر سوال اٹھنے لگے ہیں۔کیاحکومت طلبہ کی سیاست کو ختم کرنا چاہتی ہے؟پھر یونیورسٹیوں میں اسٹوڈینٹ یونینز کاوجود کیوں ہے؟اور مختلف مین اسٹریم کی سیاسی پارٹیاں ان کی سرپرستی کیوں کررہی ہیں؟جہاں کانگریس اور دیگر چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کا طلبہ ونگ یونیورسٹیز اور کالجز میں سرگرم ہے وہیں خود بی جے پی کا سٹوڈینٹ ونگ بھی آل انڈیاودیارتھی پریشدکے نام سے سرگرم ہے،توکیاحکومت یونیورسٹیوں سے طلبہ یونینز کوختم کرناچاہتی ہے یا حکومت کے وزراصرف ایک قسم کے طلباپر نشانہ سادھ رہے ہیں جو حکومت کی پالیسیوں اور اس کے طریقۂ کارپر سوال اٹھاتے ہیں؟اگر ایسی بات ہے،توہندوستانی جمہوریت کے لیے شرمناک ہے۔خاص طورپر اس وجہ سے بھی کہ بی جے پی کی پیدایش خود طلبائی سیاست اور احتجاجات کی دین ہے۔ ستر کی دہائی میں ایمرجنسی سے پہلے اور بعد کے سیاسی حالات میں ملک کے بیشتر تعلیمی ادارے اور ان کے طلبہ اس وقت کی اندراگاندھی حکومت کے خلاف برسرِ احتجاج تھے،جن میں کئی وہ لوگ بھی شامل تھے جوآج بی جے پی کا نمایاں چہرہ ہیں۔شاید بی جے پی کو بھی طلبہ کے ذریعے چھیڑی گئی اس تحریک سے اقتدارکی کرسی کھسکنے کا خطرہ محسوس ہونے لگاہے،اس لیے مودی سمیت سارے وزرااسے ہر قیمت پر کچلناچاہتے ہیں۔
نایاب حسن
شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جاری ملک گیر احتجاجات گزشتہ دودنوں کے دوران مختلف مقامات پرتشددکی شکل اختیارکرگئے، جس کی وجہ سے لکھنؤ، میرٹھ، احمدآباد،منگلور، سنبھل اور بلندشہر وغیرہ سے اب تک کم سے کم چھ اموات کی خبریں آرہی ہیں ـ آج جمعہ کے بعدمشرقی یوپی کے بعض علاقوں میں بھی پرتشدداحتجاج کی خبریں ہیں ـ دلی گیٹ کے علاقے میں بھی توڑپھوڑاورآگ زنی ہوئی ہےـ یہ چیزان احتجاجات کے حق میں قطعی مفید نہیں ہے اور اس سے بی جے پی یقیناسیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی ـ یہ بھی قابلِ غوربات ہے کہ جہاں جہاں بھی احتجاجات نے تشددکی شکل اختیارکی، وہ تمام علاقے بی جے پی کی ریاستی حکومتوں کے زیرِ کنٹرول آتے ہیں اوردہلی پولیس تومرکزکے زیرِکنٹرول ہے ہی ـ ایک خبرآج ہی "ٹیلی گراف "میں شائع ہوئی ہے کہ مرشدآبادکے ایک گاؤں میں مقامی پولیس نے چھ ایسے نوجوانوں کوگرفتارکیا، جوسب ہندوتھے، مگرانھوں نے لنگی، کرتااورٹوپی پہن رکھی تھی اوراسٹیشن پرکھڑی ٹرائل انجن پرسنگ باری کررہے تھےـ اس رپورٹ میں یہ بھی کہاگیاہے کہ ان چھ میں سے ایک شخص مقامی بی جے پی کاسرگرم رکن ہے اوراس گینگ میں ان چھ کے علاوہ سات اورلوگ تھے، جوموقعے سے فرارہونے میں کامیاب ہوگئے ـ گزشتہ پندرہ تاریخ کوجامعہ ملیہ اسلامیہ کے علاقے میں احتجاج کے دوران جوبس کونذرِآتش کیے جانے کامعاملہ سامنے آیاتھا، بعد میں جب اس کی ویڈیوزسامنے آئیں، تویوں معلوم ہواکہ خود پولیس اہل کاریاان کے ساتھ موجودکوئی بی جے پی/آرایس ایس کاکارکن بس میں پٹرول چھڑک رہاہے ـ یعنی بس اس وقت جلائی گئی جب مظاہرین اورپولیس کی مڈبھیڑختم ہوچکی تھی،موقعے پرکوئی مظاہرہ کرنے والاشخص موجودنہیں تھا، صرف پولیس والے تھےـ لکھنؤکی انٹیگرل یونیورسٹی میں احتجاج کے دوران بھی ایسے مناظرسامنے آئے ہیں کہ پولیس اوربی جے پی کانیتاتشددکے عمل میں ملوث تھےـ دودن قبل سیلم پور، جعفرآبادمیں بھی مظاہرین اورپولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں اورخودپولیس والے دکانوں اورگاڑیوں پرلاٹھیاں برساتے نظرآئےـ
ان واقعات کی روشنی میں یہ بات صاف ہے کہ سی اے اے کے خلاف احتجاجات کے دوران جوبعض مقامات سے تشدد، پتھربازی وغیرہ کی وارداتوں کی خبریں آرہی ہیں، ان میں یاتوخودپولیس ملوث ہے یامقامی بی جے پی کے کارکنان ایساکررہے ہیں ـ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ جن مظاہروں میں بھی تشددبھڑکاہے، تومظاہرین کی طرف سے بھی سنگ زنی وغیرہ کی گئی ہےـ لکھنؤمیں توسیکڑوں لوگ گرفتاربھی ہوچکے ہیں اوریوپی کے وزیراعلی نے کل ہی یہ بیان بھی دے دیاہے کہ جولوگ بھی اس تشددمیں ملوث پائے جائیں گے، ان سے بدلہ لیاجائےگا اوران کی پراپرٹی نیلام کرکے پبلک پراپرٹی کوہونے والے نقصانات کی بھرپائی کی جائے گی ـ
حقیقت یہ ہے کہ سی اے اے اوراین آرسی کے خلاف احتجاج نیشنل وانٹرنیشنل سطح پرایک تحریک کی شکل اختیارکرچکاہے اس لیے سرکاربوکھلاچکی ہے، اس نے یہ سمجھاتھاکہ جامعہ واے ایم یو جیسے مسلم شناخت والے اداروں پرپولیس کے ذریعے حملےکرواکے ان احتجاجات کوکچل دے گی، مگراس کی تدبیرالٹی پڑگئی اورجامعہ واے ایم یوسے نکلنے والی آواز اب پورے ملک اورملک کے باہرتک پھیل چکی ہےـ ایسے میں اب بی جے پی کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنی اصل شکل میں کھل کرسامنے آئے، مودی نے جھارکھنڈمیں کپڑوں سے فسادیوں کی شناخت کی جوبات کہی تھی، اس کی ایک پرائم منسٹرتوکیا، کسی بھی صحیح الدماغ انسان سے توقع نہیں کی جاسکتی، مگرانھیں پتاہے کہ انھیں ووٹ ایسی ہی باتوں سے ملتاہے،سووہ ایسی باتوں سے بازنہیں آنے والے، جامعہ سانحے پروزیرخزانہ نرملاسیتارمن کی زبان بھی ایسی ہی تھی ـ مگرمعاملہ اب ان کے ہاتھوں سے پوری طرح نکل چکاہے، اب مساوات، سیکولرزم اورہندوستانیت کی لڑائی نے ایک طوفان بدوش تحریک کی شکل اختیارکرلی ہے، سواب ان کی آخری کوشش یہ ہے کہ کسی طرح ان احتجاجات کو تشددکی آگ میں جھونک کران پرقدغن لگایاجائے، برادرانِ وطن کے ذہنوں میں یہ تاثرڈالاجائے کہ مسلمان احتجاج کے دوران توڑپھوڑ، مارپیٹ اور تشددکررہے ہیں، اگران کے ذہنوں میں یہ تاثرجم جائے گا، تووہ بہ تدریج ان احتجاجات سے دورہوجائیں گے اورملک کامسلمان الگ تھلگ پڑجائے گاـ ممتابنرجی نے کل احتجاجی ریلی کے دوران یہی بات کہی ہے کہ بی جے پی ایک خاص طبقے پرنشانہ سادھنے کے لیے اپنے کارکنوں کوٹوپیاں پہناکران سے توڑپھوڑکروارہی ہےـ
ان حالات کوسامنے رکھ کر ملک بھرکے مظاہرین کوایک بات توہرحال میں ذہن نشیں رکھنی ہوگی کہ وہ احتجاج کے دوران کسی بھی حال میں وائلینٹ نہ ہوں، ایسی تحریکیں تہذیب وشایستگی، یگانگت واتحاداوراعلی درجے کی امن پسندی کاتقاضاکرتی ہیں، مظاہرین میں زیادہ ترنوجوان ہیں، جن کے خون میں ابال اورجوش میں اچھال جلدی آجاتاہے، مگرہمیں یادرکھناہوگاکہ ہماری یہ تحریک فوری اورہنگامی نہیں ہے، اس کی پیدایش گرچہ ہنگامی حالات میں ہوئی ہے، مگراس کے اثرات بہت دیرپاہوں گے، ابتدامیں امیت شاہ "لوہالاٹھ "بنے ہوئے تھے، مگربتدریج برف پگھل رہی ہے اور اب ہوم منسٹری کی جانب سے این آرسی پروضاحتیں آناشروع ہوگئی ہیں، سوہمیں صبرواستقامت، ساتھ ہی سوجھ بوجھ کے ساتھ اس تحریک کوآگے بڑھاناہوگاـ
انیس دسمبرکودہلی کے جنترمنترپرپولیس کوپھول پیش کیے جانے کے جومناظردیکھنے میں آئے، انھوں نے کروڑوں عوام کادل جیت لیااوراس سے یہ پیغام گیاہے کہ جولوگ سی اے اے /این آرسی کے خلاف احتجاج کے لیے سڑکوں اورمیدانوں میں نکلے ہیں، وہ اس ملک کے نہایت ذمے دار اورہندوستانیت کی روح کوسمجھنے والے شہری ہیں اوروہ اس روح کوکسی قیمت پرمجروح نہیں ہونے دیں گےـ ایک تصویرآئی آئی ایم بنگلورسے آئی کہ جب پولیس نے آس پاس کے علاقے میں دفعہ144نافذکردیا، تووہاں کے طلبہ وطلبات نے اپنے جوتے چپل کیمپس کے باہررکھ دیے اورخودکیپمس کے اندرجمع ہوکراحتجاج کرتے رہےـ
الغرض این آرسی اورسی اے اے نے پورے ملک کے شہریوں کونئے سرے سے بیدارکردیاہے، بے شماردانشوروں، سیاسی تجزیہ کاروں، سماجی مبصرین، قلم کار، ادباوشعرااورفن کاروں کویہ لگتاتھاکہ بی جے پی گزشتہ چھ سال کےدوران اس ملک کے شہریوں کے دل دماغ میں فرقہ واریت کازہرگھولنے میں کامیاب ہوچکی ہے، مگرآج آپ ذرانظردوڑائیے، تومشرق سے مغرب اورشمال سے جنوب، ہرکہیں لوگ خصوصاً جوان اورنوجوان طبقہ اس حکومت کے خلاف کھڑاہے اورپوری قوت سے کھڑاہے، ان لوگوں نے طے کرلیاہے کہ وہ ہرحال میں گاندھی کے ہندوستان کوبچائیں گےـ یہ تحریک انھیں گاندھی کی یونیورسٹی (جامعہ ملیہ اسلامیہ)سے ملی ہے، جسے گاندھی اپنی اولادسمجھتے تھے، جس کے نام میں "اسلامیہ "کاجزرکھنے کے لیے انھوں نے کٹرہندووں سے لڑائیاں مول لی تھیں، جس کوزندہ رکھنے کے لیے گاندھی نے سیٹھ جمناداس سے لے کر بھوپال کے نواب تک کے سامنے دستِ سوال درازکیے تھےـ پس یہ یقین رکھیے کہ یہ تحریک ضرورکامیاب ہوگی، البتہ اس کی کامیابی کے لیے گاندھیائی طریق پرچلناضروری ہےـ جہاں کہیں بھی احتجاج ہورہاہے، اسے منظم کیاجائے، مقامی ذمےدارحضرات اس کی رہنمائی کریں، کسی بھی غیرسماجی عنصریاپولیس کویہ موقع ہی نہ ملنے پائے کہ وہ ہمیں تشددکی راہ پرگامزن کرسکےـ دائیں بائیں، آگے پیچھے کڑی نظررکھیں اورایسے پولیس والے یافسادی شخص کوفوراایکسپوژکریں، جوہمارے کازکونقصان پہنچاکرحکومت کوفائدہ پہنچانا اورہماری تحریک کی مقصدیت کوزک پہنچاناچاہتاہےـ
تحریر:اپوروانند(پروفیسردہلی یونیورسٹی،دہلی)
ترجمہ:نایاب حسن
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولیس نے جوکیا،اسے کیاکہاجائے؟کیاپولیس لااینڈآرڈربحال کرنے کا اپنا فرض نبھارہی تھی؟جب پولیس اہل کار لائبریری میں زبردستی گھس رہے تھے،کھڑکیاں توڑ رہے تھے، آنسوگیس اور مرچ کے گولے داغ رہے تھے،اندر گھس کر طلباوطالبات پر حملہ کررہے تھے،توکیاوہ لااینڈآرڈربحال کررہے تھے؟جامعہ کی وائس چانسلر نے بیان دیاہے کہ ان کی اجازت کے بغیر پولیس یونیورسٹی کیمپس میں گھسی اور وہاں موجودطلباپر حملہ کیا،وائس چانسلر سے پہلے چیف پراکٹر نے بھی بیان دیا کہ پولیس بغیر اجازت لیے احاطے میں گھس گئی،اس کا کیاجواب ہے پولیس کے پاس؟پولیس کابیان ہے کہ پہلے پتھر بازی ہوئی اور بسوں میں آگ لگائی گئی،اس کے بعد اس کے پاس طاقت کے استعمال کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا تھا،جنھوں نے یہ کیاتھا،انھیں پکڑنے کے لیے انھیں جامعہ میں گھسنا پڑا۔ اگر پولیس اہل کاروں کے بیان کوہی مان لیں،توصاف ہے کہ تشددطلبانے نہیں کیاتھا،دن کے ساڑھے تین بجے احتجاج پرامن تھا،اس کے بعد کچھ غیر سماجی عناصر نے تشدد شروع کیا اور ایک بس میں آگ لگادی گئی۔اس بیان سے ظاہر ہے کہ پولیس طلباکو تشدد کے لیے ذمے دار نہیں مانتی ہے،پھر اس نے انتقامی جذبات کیساتھ جامعہ کیمپس پر حملہ کیوں کیا؟کیوں لائبریری اور ہاسٹل پر حملہ کیا؟کیوں پولیس طلباکویونیورسٹی احاطے سے نکال کر مجرموں کی طرح ہاتھ اوپرکرواتے اور پریڈکراتے ہوئے باہر لے گئی؟کیاان کے پاس ہتھیار تھے؟ان کی بے عزتی کرنے کا حق پولیس کوکس نے دیا؟جواحتجاج رات تک پرامن تھا،اس میں تشدد کیسے ہوا؟بس میں آگ کس نے لگائی؟یہ سب جانچ کے ذریعے ہی معلوم ہوسکتا ہے؛لیکن جس کے لیے کسی جانچ کی ضرورت نہیں،وہ صاف ہے اور وہ ہے پولیس کی زیادتی۔پولیس جوکچھ کررہی تھی،وہ کوئی نظم وقانون کی بحالی نہیں تھی؛بلکہ احتجاج کی جرأت کرنے والے طلباکو سبق سکھانے کا عمل تھا،پولیس انھیں سزا دے رہی تھی،جواس کاکام نہیں ہے۔
نیوزویب سائٹ”دی وائر“نے اسپتال میں داخل جس طالب علم سے بات کی،اس نے بتایاکہ وہ اور کچھ دوسرے طلبا لائبریری میں پڑھ رہے تھے اور انھوں نے اندر سے دروازہ بھی بند کرلیاتھاکہ جلوس میں شامل کوئی شخص باہر سے اندر نہ آئے،تبھی پولیس نے دروازہ توڑدیا اور ان سب کو پیٹنا شروع کردیا،پیٹتے ہوئے انھیں باہر کھدیڑا گیا۔طالب علم نے بتایاکہ پولیس گالیاں دے رہی تھی،یہ خاص کر مسلمانوں کی تذلیل کرنے والی گالیاں تھیں،اس طالب علم کو پولیس نے سیڑھیوں سے نیچے ڈھکیل دیا،اس کا پاؤں ٹوٹ گیااور وہ چل نہیں پارہاتھا؛لیکن پولیس نے یہ زحمت نہیں کی کہ اسے اٹھاکر اسپتال لے جائے؛بلکہ اس سے بھاگنے کوکہا اور پیٹتی رہی،اسے اٹھاکر اسپتال لے جانے کاکام باقی طلبانے کیا،جنھوں نے اس کی چیخ سنی تھی۔ابھی وہ طالب علم ٹوٹے پاؤں کے ساتھ اسپتال میں ہے۔اس سے ایک بہت ہی بھولااور شاید ضروری سوال ایک صحافی نے کیا کہ پولیس نے ایسا کیوں کیا؟اس کا جواب پولیس کو سننا چاہیے اور اپنے بارے میں سوچنا چاہیے،اس نے کہاکہ اس کے علاوہ کیاوجہ ہوسکتی ہے کہ پولیس نے یہ سوچ لیاہے کہ مسلمان کو پیٹو!گالی دینے کو پولیس اہل کار اپنی تہذیب کا حصہ مان سکتے ہیں،شاید اس کے بغیر انھیں سامنے والے پر ظلم کرنے کی انرجی نہیں ملتی ہے،کیابغیر گالی دیے کسی کوماراجاسکتاہے؟آخر ہندوستانی پولیس اسے معمولی بات کیوں سمجھتی ہے؟
پولیس کے پاس اپنے بچاؤ کے لیے ایک وجہ ہے کہ بس میں آگ لگنے کی وجہ سے اسے سختی کرنی پڑی،اگراسے مان بھی لیں،توپولیس نے جوکیا،وہ سختی نہیں،ظلم تھا۔جس وقت یہ خبر آرہی تھی،اسی وقت یہ بھی معلوم ہواکہ پولیس نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے احاطے میں گھس کر بھی طلباپر حملہ کیاہے۔بتایاگیاکہ یونیورسٹی انتظامیہ نے پولیس کوبلایاتھا۔جب پولیس کے اس تشددکو روکنے کی کوشش کی جارہی تھی،تولوگوں نے کہاکہ دہلی میں پولیس نے جوکیا،اس کے ساتھ ساتھ علی گڑھ میں بھی پولیس کارروائی ہوئی،اس کی ہدایت بہت اوپر سے تھی،توپولیس کی موقع کے مطابق خود فیصلے کی طاقت کاکیاہوگا؟
عام طورپر بھارت کی پولیس خود کو سسٹم کی غلام اورتابع مانتی ہے،عوام کووہ اپنا مخالف مانتی ہے اورجوکمزور ہے،کسی بھی طرح جس کی حیثیت کم ہے اسے کچلنا وہ اپنا فرض مانتی ہے۔بھارت میں دلت اور مسلمان سب سے کم سماجی حیثیت کے مانے جاتے ہیں؛اس لیے ان پر پولیس کی طاقت کا قہر جلدی اور آسانی سے گرتا ہے،اس وقت پولیس کے مظالم میں ایک قسم کی چستی و تیزی بھی دکھائی پڑتی ہے۔پولیس عوام کے احتجاج کو غیر ضروری اور ناجائز بھی مانتی ہے۔بھارت کے طلبانے دیکھاکہ ہانگ کانگ میں طلبااور عام شہریوں کا احتجاج کتنا لمباچلا،وہاں بھی پولیس نے کارروائی کی؛لیکن اس میں اور بھارت کی پولیس کے رویے میں خاص فرق دیکھاجاسکتا ہے۔
ابھی شہریت کے قانو ن میں تبدیلی کو لے کر جو بھی احتجاج ہورہاہے،کہاجاسکتاہے کہ وہ شمال مشرق(بہ شمول آسام)کوچھوڑدیں توزیادہ تر مسلمانوں کا احتجاج ہے،ان کے ساتھ وہ لوگ شامل ہیں،جنھیں مذہبی غیر جانب دار کہہ کر متہم کیاجاتارہاہے،عام ہندو،مسلمانوں کی تکلیف اورناراضگی کو سمجھ نہیں پارہا،اس کو کیسے سمجھایاجائے؟یہ کام کون کرے؟اگر پورا ہندی میڈیا سرکار اور بھارتیہ جنتا پارٹی کا پرچارک ہوجائے،تو عوام کو صحیح خبریں اور معلومات کیسے ملیں؟انگریزی میڈیا میں پھر بھی اس قانون کی مذمت ہورہی ہے؛لیکن ہندی میڈیانے اس کی حمایت میں پرچار کوہی اپنا دھرم مان لیاہے،وہ خود کو ہندوتووادی میڈیا ہی مان کر چل رہاہے۔ایسی حالت میں ہندوعوام کوکون بتائے کہ مسلمان بھارت میں اپنی برابری کے حق کے لیے لڑرہے ہیں اور ان کا یہ حق توہے ہی،فریضہ بھی ہے۔جواپنی برابری کے حق کے لیے نہیں لڑتا، وہ انسان کیسے ہوسکتاہے؟
نایاب حسن
پورے ملک میں این آرسی/سی اے بی کے خلاف احتجاج ایک پرزور آندھی کی شکل اختیار کرچکاہے،ایسا لگتاہے کہ اب یہ آندھی تھمنے والی نہیں ہے،یہ بل اب حکومت اور عوام کے درمیان آرپارکی جنگ میں تبدیل ہوسکتاہے۔اس کے خلاف ہندوستان ہی نہیں،عالمی سطح پر آوازیں اٹھ رہی ہیں،اقوامِ متحدہ سے لے کر انسانی حقوق کی تنظیموں تک کی طرف سے اسے ردکیاجارہاہے،فوری طورپر اس کے جواثرات مرتب ہوئے ہیں ان میں بنگلہ دیشی وزیر اور جاپانی وزیر اعظم تک کا دورہئ ہند ملتوی ہونا اور خود ہندوستانی وزیر داخلہ امیت شاہ کا اروناچل کا دورہ رد ہونا شامل ہے۔عالمی میڈیا میں کئی ایسی رپورٹس اور مضامین شائع ہوچکے اور ہورہے ہیں،جن میں اس بل کی قانونی و دستوری خامی پر پر زور بحثیں ہورہی ہیں۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ این آرسی اور مجوزہ شہریت ترمیمی بل کے خلاف احتجاج ابھی دوچار دن سے نہیں ہورہاہے،گزشتہ کئی مہینے سے ہورہاہے،البتہ اب سے ہفتہ بھر پہلے تک یہ شمال مشرقی ریاستوں آسام و تری پورہ و اروناچل وغیرہ میں ہورہاتھا اورجب سے پارلیمنٹ سے یہ بل پاس ہواہے،تب سے اس کا دائرہ پورے ملک تک پھیل چکاہے اورکل سے تو اس کی شکل ایک تحریک کی ہوچکی ہے۔متعدد سیاسی تجزیہ کار اسے ایک نئی سول نافرمانی تحریک سے بھی تعبیر کررہے ہیں،گویاہندوستان کوایک بار پھر سسٹم کے مظالم و زیادتی سے آزادی کے لیے پوری قوت سے میدانِ احتجاج میں آنا ہوگااور ایسا لگ رہاہے کہ یہ ملک اس کے لیے بالکل تیار ہے۔اگر اپوزیشن کی کوئی مرکزی پارٹی مثلاً کانگریس اس تحریک کو تمام تر دستیاب طاقت و قوت کے ساتھ اٹھاتی ہے،توعین ممکن ہے کہ اس کے لیے زندگیِ نو کا سامان ہوجائے اور گزشتہ چھ سال سے جس سیاسی بن واس کااسے سامنا ہے،وہ ختم ہوجائے۔کانگریس کو غالباً اس کا ادراک ہے؛چنانچہ اس کی طرف سے آج رام لیلامیدان میں ”بھارت بچاؤ“ریلی کا انعقاد کیاگیاتھا،جس میں سونیاوراہل اور پرینکاسمیت دسیوں دیگر کانگریسی لیڈران اور ہزاروں کی تعداد میں عوام موجودتھے۔امید کی جانی چاہیے کہ کانگریس اسی عنوان سے یہ ریلی ملک بھر میں کرے گی اور شہریت ترمیمی بل کے نقصانات اور اس کے خطرناک مضمرات و عواقب سے اس ملک کے عوام کو روشناس کروائے گی۔یہ بل تو سرے سے گاندھی جی کے نظریہئ ہندوستان کے خلاف ہے،اگر آپ مذہب کی بنیاد پر کسی کو ہندوستان کا شہری بنائیں گے یا اسے ہندوستان سے نکالیں گے،تویہ تو ہندوستان کے آئین و دستور کی اساس کے ہی منافی ہے۔اسی چیز کوبنیاد بناکر ملک کے بیشتر حساس شہری،دانشوران اور سماجی کارکن احتجاج کررہے ہیں۔
چند دنوں سے مسلمانوں کے احتجاج میں بھی تیزی آئی ہے،خصوصاً علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،جامعہ ملیہ اسلامیہ اور دارالعلوم دیوبندوغیرہ کے طلبہ کے احتجاجات کے بعد عام مسلمانوں کے درمیان اس بل کے تعلق سے جاننے،سمجھنے اور پھر اس کی مخالفت کرنے کاماحول بناہے، کل جمعہ کی نماز کے بعد ملک کے مختلف شہروں میں جمعیۃ علماے ہندنے بھی اپنے طورپر احتجاج کیا،جنتر منتر پر ہونے والے احتجاج میں مولانا محمود مدنی بھی موجود تھے۔مسلمانوں کی طرف سے ہونے والے احتجاج میں ایک چیز جودیکھنے میں آرہی ہے اور وہ سراسر نقصان دہ ہے،وہ ہے خالص مذہبی جذباتیت کا اظہار اور احتجاج کے دوران نعرہئ تکبیر وغیرہ لگانا،گویاوہ کسی مذہبی میدانِ جنگ میں اترے ہوئے ہیں اور کفرواسلام کی معرکہ آرائی ہورہی ہے۔بھائی آپ تواحتجاج میں اب اترے ہیں،آپ سے کئی ماہ قبل سے تو غیر مسلم اس آگ میں کودے ہوئے ہیں، ذراشمال مشرقی ریاستوں کی خبر لیجیے،توپتاچلے گاکہ وہاں کے ہندوکس قوت اور بے خوفی کے ساتھ اس حکومت کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں۔احتجاج کرتے ہوئے نماز پڑھنے کی جو تصویریں سوشل میڈیاپر وائرل ہورہی ہیں اور ان پر جو”ایمان افروز“کیپشنز لکھے جارہے ہیں،وہ مسلمانوں کی ایمانی حرارت کوبھلے ہی تازہ کرنے والے ہوں،مگر سوشل پلیٹ فارم پر جب یہ چیزیں آئیں گی،توموجودہ زہرناک سیاسی ماحول میں ان کا منفی اثر مرتب ہونابھی یقینی ہے اور عین ممکن ہے کہ ان احتجاجات میں ”مذہبی روح“پھونکنے کی وجہ سے دھیرے دھیرے ہم میدان میں تنہارہ جائیں اور معاملہ ہاتھ سے جاتارہے۔آزاد ہندوستان کی تاریخ میں ایسے دسیوں سانحات رونما ہوچکے ہیں کہ ہم نے قومی،وطنی ودستوری ایشوز کومشرف بہ اسلام کردیااور اس کی وجہ سے ہمیں شرمناک ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ان موقعوں پر جذبات کی کھیتی کرنے والے بعض افراد اور جماعتوں کو توسرخیاں بٹورنے کا موقع مل جاتا ہے،مگر مجموعی طورپر مسلمان بری طرح پِٹ جاتے ہیں۔پس ہمارے ذہن میں یہ حقیقت اچھی طرح رہنی چاہیے کہ یہ بل صرف مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے،کئی اعتباروں سے یہ ہندووں کے بھی خلاف ہے؛بلکہ یہ دراصل ہندوستان کی جمہوری روح،اس کی ہزاروں سال کی تہذیبی و انسانی روایت،گاندھی جی کے نظریہئ ہندوستان اورآزادہندوستان کے معماروں کے ذریعے تیارکردہ دستور کے خلاف ہے۔تمام تر احتجاجات اور احتجاجی نعروں کا زور اسی پر ہونا چاہیے۔یہ اسلام اور کفر کی جنگ ہرگزنہیں ہے،یہ جنگ اس بات کی ہے کہ ہندوستان ستر سال قبل اختیارکردہ سیکولرزم کی راہ پر چلے گا یامٹھی بھر فرقہ پرست اور تنگ نظرطالع آزماؤں کے ہاتھوں شکست کھاجائے گا!
بعض شخصیتیں اتنی قدآوراوراپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے اِس قدر وسیع الجہات ہوتی ہیں کہ زمانے کی نگاہیں ہزار کوششوں اور دعووں کے باوجودان کے اصل مقام و مرتبے کاصحیح اندازہ نہیں لگاپاتیں،یہ الگ بات ہے کہ احوال،اوقات اورمقامات کے حسبِ حال ان کی کوئی ایک صلاحیت زیادہ نکھر کر سامنے آجاتی اور اسی کے حوالے سے معاصرین میں اُن کی شناخت کی جاتی ہے،اسلامی تاریخ میں کئی ایسی شخصیتیں ہیں،جنھیں بعض خاص علمی یاعملی شعبوں میں نمایاں کارنامے انجام دینے کی وجہ سے اُن ہی شعبوں کے ساتھ خاص کردیا گیا ؛حالاں کہ ان کے علوم و افکارواعمال کی بے کرانی وہمہ جہتی اس سے کہیں زیادہ کی متقاضی تھی۔
ہندوستان کی علمی،فکری وسیاسی تاریخ میں شیخ الہند مولانامحمود حسن کی ذات ایسی ہی ہمہ جہت تھی۔وہ دیوبند کے اصل باشندے تھے اور وہاں قائم ہونے والے دارالعلوم کے اولین طالب علموں میں سے بھی تھے،اُن کی پیدا یش 1851ء کوبریلی میں ہوئی تھی،جہاں اُن کے والد مولانا ذوالفقار علیؒ ڈپٹی انسپکٹر آف اسکولس کے عہدے پر فائز تھے ،مولاناذوالفقارخودبھی ایک جیدالاستعدادعالم، عربی کے ماہر ادیب اوردارالعلوم دیوبندکے ان "ارکانِ ستہ "میں سےتھے، جنھوں نے اس ادارے کااولین خاکہ بنایا،پھراس میں رنگ بھراتھاـ
شیخ الہندنے 1874ء میں دارالعلوم دیوبند سے سندِ فضیلت حاصل کی اور اُن کی وفات 30؍نومبر1920ء کوہوئی،اُن کی کل زندگی ایکہتر،بہتر سالوں کومحیط ہے اورعملی زندگی تقریباً نصف صدی کو، اِس پورے عرصے میں اُنھوں نے اتنے اور ایسے ایسے کارنامے انجام دیے کہ اُن میں سے ہر ایک کومستقل ریسرچ کا موضوع اور تحقیق کا عنوان بنایاجاسکتا ہے، اولاً وہ اپنی مادرِ علمی کے مدرس اور پھرصدر المدرسین و شیخ الحدیث بنائے گئے اور اِس عہدے پر رہتے ہوئے اُنھوں نے باکمال اصحابِ علم و فضل کی ایسی کھیپ تیار کی کہ اُس کا فردفرداپنی ذات میں انجمن ثابت ہوا،اُن کے علمی فیضانات سے سیراب ہونے والے علامہ انورشاہ کشمیریؒ ،حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ ،امامِ انقلاب مولانا عبیداللہ سندھیؒ ،علامہ شبیر احمد عثمانیؒ ،شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ ،سلطان القلم مولانا سید مناظراحسن گیلانیؒ اوراُن جیسے سیکڑوں ایسے نام ہیں،جن کی تابانیِ فکر، تعمقِ نظراورمثالی جہدوعمل نے اسلامیانِ ہندمیں علمی، فکری وعملی سطح پرحرکیت و فعالیت کی روح پھونکی۔شیخ الہند ایک باکمال مصنف بھی تھے اور گواُن کی سرگرمیوں کی وسعت نے ان کے قلم کو خاطر خواہ جولانیوں کا موقع نہیں دیا،مگر اِس کے باوجود اُنھوں نے جو لکھا،وہ نقش کالحجر تھا،اُن کی تحریریں پڑھیے،تووہ ماضیِ مرحوم کے اُن محققین کی یاد دلاتی ہیں،جن سے اسلامی کتب خانہ ثروت مندہے اور جن پر مسلمانوں کو بجاطورپر فخر ہے، وہ ایک انتہائی متدین عالم ہونے کے ساتھ زمانے سے باخبری کے بھی نہ صرف قائل تھے؛بلکہ اُن کی نگاہ واقعتاً ملکی و عالمی سطح پر بدلتے سیاسی،تہذیبی و تاریخی منظرنامے پربھی تھی،یہی وجہ ہے کہ اُنھوں نے اپنے ادارے کی انتظامیہ کی بعض آراسے اختلاف کرتے ہوئے قومی سیاست میں عملی حصے داری کا فیصلہ کیا اورآزادیِ وطن کی تحریک میں سربراہانہ مساہمت کے ساتھ اُس وقت کی واحد اسلامی خلافت(خلافتِ عثمانیہ)کے تحفظ و بقا کی جنگ میں بھی حتی المقدور حصہ لیا،انگریزوں کے خلاف ترکِ موالات کاتاریخی فتوی دیا، جس کی تائیدمتحدہ ہندوستان کے پانچ سو علمانے کی اورمسلمان راست طورپراس تحریک میں شامل ہوئے، جنھوں نے اُن کی صحبت سے فیض اٹھایا اور شب و روز کی زندگی میں اُن کے ساتھ رہے یا اُنھیں قریب سے دیکھا اور پرکھا، اُن کا چشمِ دید بیان ہے کہ مولانا محمود حسن کا جسمانی ڈھانچہ انتہائی نحیف و نزار تھا،مگر اللہ نے اپنے اُس بندے میں عزم،حوصلہ،قوتِ ارادی،خوداعتمادی و ولولولہ خیزی کی ایسی فولاد رکھ دی تھی کہ وہ اپنے معاصرین کے لیے باعثِ صد رشک ہوگئے تھے،گردشِ دوراں کی سنگینیوں اورحوادث وآلام کی موجوں میں صبرواستقامت کاپہاڑبن کرکھڑے رہتے، اِسی طرح اُن کی فکر میں گیرائی کے ساتھ اُن کی نظر میں قدرت نے بھرپور وسعت بھی رکھی تھی،وہ اگرکسی بھی مسئلے پر اپنی رائے کا بر ملا اظہار کرتے تھے،توساتھ ہی اُن کے کسی بھی معاصر(خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا) کی جانب سے اگرکوئی معقول رائے ظاہر کی جاتی،تو نہ صرف اس کی تایید و تحسین کرتے؛ بلکہ اُس پر عمل آوری کی بھی تلقین کرتے تھے،وہ اپنے اَسلاف کے مانندتصوف و سلوک اور حدیث کی تعبیر میں’’ احسان و عبدیت‘‘ کے بھی اعلیٰ ترین مرتبے پر فائز تھے اوراپنے خدا سے ہم کلامی کے لیے اُن کے پاس جلوت میں خلوت کی کیفیت پیدا کرنا اور اس سے محظوظ ہونا بالکل آسان تھا،عام اَحوال کجا،قید کی تنہائیوں اور مشقت آمیزیوں میں بھی نہ تو اُن کی سحرخیزی کی عادت چھوٹتی تھی اورناہی کلامِ الہی میں غور و تدبر کا وظیفہ،الغرض حضرت شیخ الہند کی ذات واقعتاً ہمہ جہت تھی،اُس کے مختلف اور متنوع گوشے تھے اور ہر گوشہ ایک دوسرے سے انتہائی ممتاز بھی تھا اور مکمل بھی۔شیخ الہندکی ذات میں اقبال کے اُس’’ مردِ بزرگ‘‘ کا پرتوصاف طورپر جھلکتا ہے،جس کے بارے میں اُنھوں نے فرمایا ہے:
اُس کی نفرت بھی عمیق،اُس کی محبت بھی عمیق
قہربھی اُس کا ہے اللہ کے بندوں پہ شفیق
پرورش پاتا ہے تقلید کی تاریکی میں
ہے مگر اُس کی طبیعت کا تقاضا تخلیق
انجمن میں بھی مُیسررہی خلوت اُس کو
شمعِ محفل کی طرح سب سے جدا،سب کا رفیق
مثلِ خورشیدِ سحر فکر کی تابانی میں
بات میں سادہ و آزادہ،معانی میں دقیق
اُس کا اندازِ نظر اپنے زمانے سے جدا
اُس کے اَحوال سے محرم نہیں پیرانِ طریق
تحریر:وجے شنکر سنگھ
ترجمہ:نایاب حسن قاسمی
پارلیمنٹ میں 27؍نومبر کو بھوپال سے تعلق رکھنے والی بی جے پی کی رکن پارلیمنٹ پرگیہ سنگھ ٹھاکر کے گوڈسے کی تعریف و توصیف کرنے کی وجہ سے ملک بھرمیں وسیع پیمانے پر احتجاج کیاگیا ،جس کی وجہ سے حکومت بھی تشویش میں مبتلاہوگئی ؛چنانچہ آج 28 ؍نومبر کو وزارتِ دفاع کی مشاورتی کمیٹی سے پرگیہ سنگھ ٹھاکرکو ہٹا دیا گیا ہے۔ ممبر پارلیمنٹ پرگیہ سنگھ ٹھاکر کے ذریعے ناتھورام گوڈسے کو ‘محب وطن ‘ قرار دیے جانے کے تناظر میں بی جے پی کے کارگذار صدر جے پی نڈا نے کہا کہ کل پارلیمنٹ میں دیاگیاان کا بیان قابل مذمت ہے ، بی جے پی کبھی بھی اس طرح کے بیان یا نظریے کی حمایت نہیں کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو وزارت ِدفاع کی مشاورتی کمیٹی سے ہٹا دیا جائے گا اور انہیں پارلیمانی جماعت کے اجلاسوں میں حصہ لینے کی بھی اجازت نہیں ہوگی۔وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے اس سلسلے میں جو کہا ہے، وہ اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ:”ناتھورام گوڈسے کو محب وطن کہناتو دور ، ہم اس کے ساتھ محب وطن ہونے کی حیثیت سے برتاؤ کرنے کے خیال کی بھی مذمت کرتے ہیں۔ مہاتما گاندھی ہمارے لئے نمونہ ہیں،پہلے بھی وہ ہمارے لیے مشعلِ راہ تھے اور آئندہ بھی رہیں گے۔
جب 30 جنوری 1948 کو دہلی میں مہاتما گاندھی کا قتل ہوا، تو ہندوستان ہی نہیں ، پوری دنیا دنگ رہ گئی تھی۔ جیسے ہی لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو گاندھی کے قتل کی خبر ملی ، اس نے فورا ہی قاتل کا مذہب پوچھا،جب اسے بتایا گیا کہ قاتل ناتھورام گوڈسے نامی ہندو ہے ،تو ماؤنٹ بیٹن نے نگاہ اٹھا کر کہا: "اے خدا! تو نے اس ملک کو بچالیا۔” اس وقت ہندوستان فرقہ وارانہ فسادکی تاریخ کے بدترین مرحلے سے گزر رہا تھا۔ ماؤنٹ بیٹن نے محسوس کیا کہ اگر قاتل مسلمان ہوتا، تو ملک میں خوفناک خونریزی ہوتی۔ ویسے بھی اس وقت ہندوستان کی تقسیم کے بعدہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں میں ہنگامے جاری تھے۔ ملک کو امن و امان کے ساتھ ساتھ لاکھوں مہاجرین کی بحفاظت آبادکاری کے مسئلے کابھی سامنا تھا۔
سردار پٹیل اس وقت ملک کے وزیر داخلہ تھے۔ وزیر داخلہ کی حیثیت سے وہ اپنے آپ کو گاندھی جی کی سکیورٹی میں کوتاہی اورقتل کے لئے ذمے دار ٹھہرا رہے تھے ؛کیوں کہ اس سےپہلے بھی گاندھی کے قتل کی کچھ ناکام کوششیں ہوچکی تھیں؛ لیکن اس وقت تک وی آئی پی سکیورٹی اتنی رائج نہیں تھی اور گاندھی بھی اس طرح کے حفاظتی اہتمام کے قائل نہیں تھے۔ اس سانحے کے بعد2 فروری کو گاندھی جی کی یاد میں دہلی میں ایک تعزیتی اجلاس ہوا، اس میں نہرو اور پٹیل سمیت کانگریس کے تمام بڑے رہنما موجود تھے۔ نہرو کی تقریر کے بعد پٹیل نے جو کہا ،وہ قاتل اور اس کی حمایت کرنے والے گروہ کی ذہنیت کو بے نقاب کرتا ہے۔پارلیمنٹ میں پرگیہ ٹھاکر کے ذریعے قاتل ناتھورام گوڈسے کی توصیف وتعریف کے بعد اس تعزیتی اجلاس میں سردار پٹیل کے ذریعے کی گئی تقریر کو یاد کرنا ضروری ہے۔ جواہر لال نہروکے بعد سردار پٹیل جب اس تعزیتی اجلاس میں تقریرکے لیے کھڑے ہوئے ، توان کی آنکھوں میں آنسو تھے، ان کی آوازمیں لرزش تھی، وہ بولنے کی پوزیشن میں نہیں تھے، نہرو نے ان کی حوصلہ افزائی کی اور ان سے کچھ بولنے کو کہا۔ اس وقت وہ نہرو کے بعد ملک کے دوسرے بڑے رہنما تھے، ان کا بولناضروری بھی تھا اور ان کی مجبوری بھی۔انہوں نے کہا : "جب دل درد سے بھر جاتا ہے ، تب زبان نہیں کھلتی ہے اور طبیعت کچھ کہنے کوآمادہ نہیں ہوتی،اس موقع پر جو کچھ کہنا تھا ، جواہر لال نے کہہ دیاہے ، میں کیا کہوں؟ "سردار پٹیل نے مزید کہا:”ہاں ، ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک پاگل آدمی نے یہ کام کیا؛ لیکن میں کسی پاگل آدمی کے اس کام کو تنہا نہیں مانتا،اس کے پیچھے کتنے پاگل ہیں اور انھیں پاگل کہاجائے یا شیطان یہ کہنا بھی مشکل ہے۔ جب تک آپ اپنے دل کو صاف نہیں کریں گے اور جرأت کے ساتھ ایسے عناصر کا مقابلہ نہیں کریں گے، تب تک کام نہیں چلے گا۔ اگر ہمارے گھر میں ایسے چھوٹے بچے اور نوجوان موجود ہیں ،جو اس راستے پر چلنا پسند کرتے ہیں ، تو انہیں یہ کہنا چاہئے کہ یہ برا راستہ ہے اور آپ ہمارے ساتھ نہیں رہ سکتے‘‘۔ "(بھارت کی ایکتا کا نرمان، ص: 158)
انہوں نے کہا تھا : "جب سے میں نے عوامی زندگی کا آغاز کیا ہے، میں گاندھی جی کے ساتھ رہا ہوں۔ اگر وہ ہندوستان نہ آتے ،تومیں کہاں جاتا اور کیا کرتا،یہ سوچ کرآج مجھے حیرت ہوتی ہے۔ تین دن سے میں سوچ رہا ہوں کہ گاندھی جی نے میری زندگی میں کتنی تبدیلی کی، اسی طرح انہوں نے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں کیسے بدل دیں، انھوں نے سارے ہندوستان کوکس حد تک بدل دیا۔ اگر وہ ہندوستان نہ آتے تو قوم کہاں جاتی؟ ہندوستان کہاں ہوتا؟ ہم صدیوں سے گرے ہوئے تھے، انھوں نے ہمیں اٹھاکر کہاں پہنچادیا، انہوں نے ہمیں آزاد کرایا۔ "(بھارت کی ایکتاکا نرمان،ص: 157)
سردار پٹیل نے گوڈسے اور ان کے حامیوں کو سب سے بڑا بزدل قرار دیا۔ پٹیل نے کہا :”اس نے بوڑھے جسم پر گولی نہیں چلائی ، یہ گولی ہندوستان کے قلب پر داغی گئی ہے اور ہندوستان جس بھاری زخم سے دوچار ہوا ہے، اسے ٹھیک کرنے میں کافی وقت لگے گا، اس نے بہت برا کام کیا، بد قسمتی سے ہمارے ملک میں بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں ،جواس شرمناک حرکت کو بہادری سمجھتے ہیں۔ ”
مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد 4 فروری 1948 کو آر ایس ایس پر پابندی عائد کردی گئی تھی، اس پابندی کے چھ ماہ بعد سردار پٹیل نے سنگھ کے سربراہ گولوالکر کو ایک خط لکھا، اس خط کو پڑھ کر یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ سنگھ اورملکی اتحاد کے بارے میں پٹیل کے خیالات کیا تھے۔
گولوالکر کو سردار پٹیل کا لکھا ہوا خط:
نئی دہلی ، 11 ستمبر 1948
اورنگ زیب روڈ
بھائی مسٹر گولوالکر
آپ کا11 اگست کا بھیجا ہوا خط موصول ہوا، جواہر لال نے بھی اسی دن مجھے آپ کا خط بھیجا تھا۔ آپ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے بارے میں میرے خیالات اچھی طرح جانتے ہیں، میں نے جے پور اور لکھنؤ کی میٹنگوں میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے، عام لوگوں نے بھی میرے خیالات کا خیرمقدم کیا ہے۔ مجھے امید تھی کہ آپ کے لوگ بھی ان کا خیرمقدم کریں گے ؛ لیکن ایسا لگتا ہے جیسے انہیں کوئی فرق نہیں پڑاہے اور وہ اپنے عمل میں کوئی تبدیلی نہیں لا رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سنگھ نے ہندوسماج کی بہت خدمت کی ہے۔ آپ کے لوگ ان علاقوں تک پہنچے جہاں لوگوں کو مدد کی ضرورت تھی اور عمدہ کام کیاہے۔ میرے خیال میں کسی کو بھی اس سچائی کو قبول کرنے میں اعتراض نہیں ہوگا؛ لیکن سارا مسئلہ اس وقت شروع ہوتا ہے، جب یہ لوگ مسلمانوں کے خلاف انتقامی اقدامات کرتے ہیں، ان پر حملے کرتے ہیں۔ ہندوؤں کی مدد کرنا ایک چیز ہے ؛ لیکن غریب ، لاچار لوگوں ، خواتین اور بچوں پر حملہ کرنا بالکل ناقابل برداشت ہے۔
اس کے علاوہ آپ ملک کی حکمراں جماعت کانگریس پر تندوتیز حملے کرتے ہیں اورایسا کرتے ہوئے آپ کے لوگ سارے وقارواحترام کو طاق پر رکھ دیتے ہیں۔ ملک میں عدم استحکام کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سنگھ کے لوگوں کی تقریروں میں فرقہ واریت کا زہربھراہوتا ہے۔ ہندوؤں کی حفاظت کرنےکے لئے نفرت پھیلانے کی بھلاکیا ضرورت ہے؟ اسی نفرت کی لہر کی وجہ سے ملک نے اپناباپو کھو دیا، مہاتما گاندھی کو قتل کردیاگیا،اب تو حکومت یا ملک کے عوام میں سنگھ کے تئیں کوئی ہمدردی تک باقی نہیں ہے۔ ان حالات میں حکومت کے لئے سنگھ کے خلاف فیصلہ لینا ناگزیر ہوگیاتھا۔
آرایس ایس پر پابندی عائد کیے ہوئے 6 ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، ہمیں امید تھی کہ اس دوران سنگھ کے لوگ صحیح راستے پر آئیں گے؛ لیکن ہمارے پاس جس طرح کی خبریں آ رہی ہیں، ان سے ایسا لگتا ہےکہ سنگھ اپنی نفرتوں کی سیاست سے پیچھے ہٹنا نہیں چاہتا ہے۔ میں ایک بار پھر آپ سے گزارش کروں گا کہ جے پور اور لکھنؤ میں میں نے جو کچھ کہاتھا، اس پر توجہ دیں۔ مجھے پوری امید ہے کہ آپ کی تنظیم ملک کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہے، بشرطیکہ صحیح راہ پر گامزن ہو۔آپ کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ ملک ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے، اس وقت ملک کے عوام کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی حیثیت ، ذات ، منصب یا پارٹی و جماعت سے قطع نظر قومی مفاد میں کام کریں۔ اس مشکل وقت میں پرانے جھگڑوں یا گروہی سیاست کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ سنگھ کے لوگ کانگریس کے ساتھ لڑکرنہیں ؛بلکہ اس کے ساتھ مل کر قومی مفاد میں کام کریں گے۔ مجھے خوشی ہے کہ آپ کو رہا کردیا گیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ صحیح فیصلہ لیں گے۔ آپ پر عائد پابندیوں کی وجہ سے میں صوبہ جاتِ متحدہ کی حکومت کے ذریعے آپ سے بات کر رہا ہوں۔ خط ملتے ہی میں جواب دینے کی کوشش کروں گا۔
آپ کا
ولبھ بھائی پٹیل
آج پٹیل کی ایک ایک بات سچ ثابت ہو رہی ہے۔ گاندھی کی تنقید پر کوئی اعتراض نہیں ہے، گاندھی جی کی ناکامیوں پر بھی بحث و نقاش کیا جاتا ہے اور ہونا بھی چاہیے؛ لیکن ان کے یا کسی کے بھی قتل کا جوازصرف ایک بیمار ذہنیت رکھنے والا شخص ہی پیش کرسکتا ہے۔اس ملک کے لوگوں پر گاندھی کا جتنا اثرتھا،اتنادنیاکے کم ہی لیڈروں کا کسی قوم پر رہاہے۔ آج وہ دنیا بھر میں ہندوستان اور ہندوستانیت کی علامت بن چکے ہیں۔ چاہے کوئی گاندھی کے نظریے ، آزادی کے لیے ان کی جدوجہد اور معاشرتی ترقی کے لئے کی گئی ان کی کوششوں سے اتفاق کرتا ہویانہ کرتاہو ؛لیکن آج کی صورتحال میں گاندھی تنقید و تحسین سے آگے نکل چکے ہیں۔ پٹیل نے سچ کہاتھاکہ صرف بزدل اور بیمارذہن لوگوں کا گروہ ہی کسی قاتل کی تعریف و توصیف کرسکتا ہے۔
(اصل مضمون دی ٹریبیون میں شائع ہوا ہے)
نایاب حسن
حیران آنکھوں،شبنمی رخساروں،کشادہ پیشانی اوراداس مسکراہٹ والی ایک لڑکی نے محض25سال کی عمرمیں اردوشاعری کی دنیامیں اِس شکوہ کے ساتھ قدم رکھاکہ معاصراہلِ ادب و شعرکی نگاہیں خیرہ ہوگئیں۔اردوادب میں شعراکی فہرست توطویل ترہے،مگرشاعرات اور وہ بھی ایسی شاعرات،جن کے لب و لہجے نے،اندازواسلوب نے،مضامینِ شعرنے،خیالات کی ندرت و جودت و جدت نے اورالبیلے طرزِاظہاروادانے ایک دنیاکومسحورکردیاہو،کم ازکم اردوادب وشاعری میں نایاب نہیں توکم یاب ضرورہیں۔پروین شاکر(24نومبر1952-26دسمبر1994)نے اردوشاعری کوجولہجہ دیا،وہ سب سے اچھوتا،انوکھااوردل چسپ تھا،انھوں نے صنفِ نازک کے مسائل، مشکلات، خانگی الجھنوں،انفرادی مشکلوں،معاشرتی جکڑبندیوں،حسن و عشق کی خاردارراہوں کی آبلہ پائیوں کاذکراپنی شاعری میں بڑے منفرداندازمیں کیا۔پروین شاکربلاکی ذہین ہونے کے ساتھ اعلیٰ علمی لیاقتوں سے بھی آراستہ تھیں،انگریزی زبان و ادب میں جامعہ کراچی ،ہارورڈیونیورسٹی اورٹرینیٹی کالج (امریکہ) سے انھوں نے اعلیٰ علمی ڈگریاں حاصل کی تھیں،شعوروآگہی ان کا نمایاں ترین وصف تھا،وہ آگہی،جس نے ان پر شہرِذات کے دروازے کھولے اورجس کے بعدان کی خلاقانہ قوت و صلاحیت نے اردوشاعری کومالامال کردیا۔پروین شاکرنے پہلی بارصنفِ نازک کے متذکرہ بالامسائل کوآشکارکرنے کے لیے ’ضمیرِمتکلم‘کااستعمال کیا،جن مسائل کا انھوں نے اپنی شاعری میں ذکرکیاہے،ہوسکتاہے،وہ سارے مسائل خودانھیں درپیش نہ ہوئے ہوں،مگران کی شاعری کوپڑھنے ،مطالعہ کرنے اور سمجھنے سے یہ اندازہ بخوبی طورپرلگایاجاسکتاہے کہ اجتماعی طورپرصنفِ نازک کاہرزمانے میں اُن مسائل سے سامنا رہا ہے، جن کا ذکرمختلف پیرایوں میں پروین شاکرنے اپنی شاعری میں کیاہے؛شاید یہی وجہ ہے کہ جوں ہی اردوشاعری میں اُن کا ظہورہوا،انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا، ان کے کلام کا پہلا مجموعہ ”خوشبو“ 1976ءمیں منظرِعام پرآیااور صرف چھ ماہ کے اندراس کا پہلاایڈیشن ختم ہوگیا۔پھریکے بعد دیگرے ”صدبرگ“ (1980) ”خودکلامی“ (1980) ”انکار“ (1990) ان کی زندگی میں شائع ہوئے اور سب کوبے پناہ مقبولیت،پذیرائی اور تحسین کی نگاہ سے دیکھا گیا،ان کا پانچواں شعری مجموعہ ان کی جواں مرگی کے سانحے کے دوسرے سال”کفِ آئینہ “ کے نام سے ان کی بڑی بہن نسرین شاکرکی نگرانی میں زیورِطبع سے آراستہ ہوا،اپنی وفات سے قبل وہ اسے ترتیب دے رہی تھیں اور”کفِ آئینہ“خودانہی کا تجویزکردہ نام ہے۔پروین شاکرکی شاعرانہ عظمت و بلندقامتی کا اندازہ اس سے لگایاجاسکتاہے کہ انھیں پہلی ہی کتاب ”خوشبو“پر”آدم جی ایوارڈ“سے سرفرازکیاگیا،جبکہ 1990ءمیں پاکستان کا اعلیٰ شہری اعزاز’تمغئہ حسنِ کارکردگی ‘بھی انھیں تفویض کیاگیا،1982ءمیں جب وہ سی ایس ایس کے امتحان میں بیٹھیں،تواردوکے پرچے میں ایک سوال خودان کی شاعری کے تعلق سے تھا،ان کی زندگی میں ہی ان کی شاعری کے انگلش،جاپانی و سنسکرت زبانوں میں ترجمے شروع ہوچکے تھے۔ پروین شاکرکومتعددناقدین نے بیسویں صدی کی مشہورایرانی شاعرہ فروغ فرخ زاد(5جنوری 1935ء-13فروری 1967ء)سے تشبیہ دی ہے اورواقعتاً دونوں کی خانگی و معاشرتی زندگی سے لے کرشاعری کی تھیم اور جواں مرگی تک میں عجیب و غریب مماثلت پائی جاتی ہے،پروین شاکرکوفروغ سے ذہنی وابستگی بھی تھی،انھوں نے فروغ کے لیے ایک نظم بھی لکھی تھی،جوان کے شعری مجموعہ ”خودکلامی“ میں شامل ہے:
مصاحبِ شاہ سے کہوکہ
فقیہِ اعظم بھی تصدیق کرگئے ہیں
کہ فصل پھرسے گناہ گاروں کی پک گئی ہے
حضورکی جنبشِ نظرکے
تمام جلادمنتظرہیں
کہ کون سی حد جناب جاری کریں……..
پروین شاکرکی ممتازشاعرانہ خصوصیت جذبے کی صداقت ہے،وہ اپنے خیال و فکرکوپوری وضاحت ،دیانت اور شفافیت کے ساتھ بیان کرتی ہیں ، چاہے معاملاتِ عشق ہوں یاکاروبارِ معاشرت و سیاست،کسی بھی پہلوپرجب وہ گویاہوتی ہیں،توکسی قسم کا ابہام،اِغلاق اوراُلجھاؤنہیں چھوڑتیں، لطافت، شوخی،خیال کا جمال اوراحساس کی نازُکی بھی نسوانیت کے تمام ترحسن و دل کشی کے ساتھ پروین شاکرکے یہاں جلوہ گرہیں، بارش، شبنم،نور، روشنی، رنگ، دھوپ، جنگل، آندھی، ہوا، گلاب ،تتلی،سانپ وغیرہ مظاہرِ فطرت وہ استعارے ہیں،جوپروین کی شاعری کوکردارفراہم کرتے اورجن میں تفکروتدبرسے ان کی شاعری کا تانا بانا تیار ہوتا ہے،خواب اور نیندبھی پروین کی شاعری میں استعمال ہونے والے اہم استعارے ہیں۔ تشبیہ،استعارہ و کنایہ شاعری اور خاص طورسے غزلیہ شاعری کی جان ہوتی ہے اور یہ وصف پروین شاکرکی شاعری میں کمال کی حد تک پایاجاتاہے،ذیل کے کچھ اشعارسے پروین شاکرکی مذکورہ شعری خصوصیات کا اندازہ بخوبی لگایاجاسکتاہے:
تری ہنسی میں نئے موسموںکی خوشبوتھی
نویدہوکہ بدن سے پرانے خواب اترے
سپردگی کا مجسم سوال بن کے کھلوں
مثالِ قطرئہ شبنم تراجواب اترے
چلی ہے تھام کے بادل کے ہاتھ کو خوشبو
ہواکے ساتھ سفرکا مقابلہ ٹھہرا
جانے کب تک تری تصویر نگاہوں میں رہی
ہوگئی رات ترے عکس کو تکتے تکتے
میں نے پھرتیرے تصورکے کسی لمحے میں
تیری تصویرپہ لب رکھ دیے آہستہ سے
چہرہ میراتھا،نگاہیں اس کی
خامشی میں بھی وہ باتیں اس کی
شوخ لمحوں کا پتہ دینے لگیں
تیزہوتی ہوئی سانسیں اس کی
ایسے موسم بھی گزارے ہم نے
صبحیں جب اپنی تھیں،شامیں اس کی
دوررہ کر بھی سدارہتی ہیں
مجھ کوتھامے ہوئے بانہیں اس کی
کھلی آنکھوں میں سپناجاگتاہے
وہ سویاہے کہ کچھ کچھ جاگتاہے
تری چاہت کے بھیگے جنگلوں میں
مراتن موربن کر ناچتاہے
میں اس کی دست رس میں ہوں مگروہ
مجھے میری رضاسے مانگتاہے
تجھ کو کھوکربھی رہوں خلوتِ جاں میں تیری
جیت پائی ہے محبت نے عجب مات کے ساتھ
پروین شاکرنے محبوب کی بے رخی،بے توجہی، عدمِ التفات یا بے وفائی کوبھی اپنی شاعری میں جگہ جگہ بیان کیاہے،مگر یہاں بھی وہ طرزِادامیں دیگرشعراسے ممتازہیں،اس کیفیت کوبیان کرتے ہوئے ان کا لہجہ شاکیانہ توہے ہی،مگرملتجیانہ اورپرامید بھی ہے،وہ محبوب کی بے رخی سے دل گیر ہوتی ہیں، مگردرپردہ اس کا اظہار بھی کرتی ہیں کہ وہ کسی نہ کسی صورت ان کی طرف متوجہ ہو:
اب تواس راہ سے وہ شخص گزرتابھی نہیں
اب کس امیدپہ دروازے سے جھانکے کوئی
اسی کوچے میں کئی اس کے شناسابھی توہیں
وہ کسی اور سے ملنے کے بہانے آئے
اب نہ پوچھوں گی میں کھوئے ہوئے خوابوں کا پتہ
وہ اگر آئے،توکچھ بھی نہ بتانے آئے
کوئی توہو،جومرے تن کوروشنی بھیجے
کسی کا پیارہوامیرے نام لائی ہو
اپنی تنہائی مرے نام پہ آباد کرے
کون ہوگاجومجھے اس کی طرح یاد کرے
اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہوں میں
روزاِک موت نئے طرز کی ایجادکرے
ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجرکافیصلہ بھی تھا
ہم نے توایک بات کی،اس نے کمال کردیا!
ہمیں خبرہے ہواکامزاج رکھتے ہو
مگریہ کیاکہ ذرادیرکورکے بھی نہیں!
توبدلتاہے توبے ساختہ میری آنکھیں
اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں اُلجھ جاتی ہیں
پروین شاکرکی شاعری میں رومانوی خیالات کی بھی فراوانی ہے،جوخاص طورسے نوجوان نسل کے لیے باعثِ کشش ہے۔حسن و عشق کے لمحئہ وصال کی تعبیروترجمانی میں انھوں نے کمالِ ہنرمندی کا مظاہرہ کیاہے اورسرشاری،وابستگی و سپردگی کی کیفیات کوبڑے لطیف و حسین پیرایے میں بیان کیاہے،خاص طورسے”خوشبو“کی غزلوں کا زیادہ تر حصہ اسی قسم کے خیالات کا اظہارہے،ایک غزل:
سبزمدھم روشنی میں سرخ آنچل کی دھنک
سردکمرے میں مچلتی گرم سانسوں کی مہک
بازووں کے سخت حلقے میں کوئی نازک بدن
سلوٹیں ملبوس پر،آنچل بھی کچھ ڈھلکاہوا
گرمیِ رخسار سے دہکی ہوئی ٹھنڈی ہوا
نرم زلفوں سے ملائم انگلیوں کی چھیڑ چھاڑ
سرخ ہونٹوں پرشرارت کے کسی لمحے کا عکس
ریشمیں بانہوں میں چوڑی کی کبھی مدھم دھنک
شرمگیں لہجوں میں دھیرے سے کبھی چاہت کی بات
دودلوں کی دھڑکنوں میں گونجتی تھی اِک صدا
کانپتے ہونٹوں پہ تھی اللہ سے صرف اِک دعا
کاش یہ لمحے ٹھہرجائیں،ٹھہرجائیں ذرا!
معاملاتِ حسن وعشق کے علاوہ معاشرت و سیاست میں پائی جانے والی ناانصافی و نابرابری،استحصالی سسٹم،چہارسمت بکھرے ہوئے خوف، زیردستوں کے تئیں زبردستوں کے آمرانہ و ظالمانہ رویے کے خلاف کھلااحتجاج بھی پروین شاکرکی شاعری میں متعددمقامات پردیکھنے کوملتاہے:
میراسرحاضرہے،لیکن میرامنصف دیکھ لے
کررہاہے میری فردِ جرم کو تحریرکون
میری چادرتوچھنی تھی شام کی تنہائی میں
بے ردائی کومری پھر دے گیاتشہیر کون
وہ خوف ہے کہ سرِ شام گھرسے چلتے وقت
گلی کا دورتلک جائزہ ضروری ہے
لہوجمنے سے پہلے خوں بہادے
یہاں انصاف سے قاتل بڑاہے
کسی بستی میں ہوگی سچ کی حرمت
ہمارے شہرمیں باطل بڑاہے
انھوں نے معاشرے کے دبے کچلے،مزدوروکامگارطبقے کے مختلف کرداروں پربھی شاعری کی ہے اوران لوگوں کی طرف حمایت کا ہاتھ بڑھایاہے،جن کی شب و روزکی جفاکشی سے دوسرے لوگ توخوب فیضیاب ہوتے ہیں،مگروہ بے چارے ساری زندگی تہی مایہ و بے سروساماں ہی رہتے ہیں۔”انکار“کی نثری نظموں کابیشترحصہ ایسے ہی کرداروں کومنسوب ہے۔
پروین شاکرکاایک اوراہم کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے ایک مخصوص شعری صنف”نثری نظم“کونئی بلندیوں اور مقبولیت کی نئی منزلوں تک پہنچایا،ان کے دورمیں اور ان سے پہلے بھی کئی بڑے شاعروں نے اس صنف کواختیار کیاتھا،مگرپروین شاکرکی بدولت اس صنفِ شاعری کا جغرافیہ مزیدوسیع و عریض ہوگیا۔
پروین شاکرکی دلکش و سحرطراز شاعری نے اردوکے لفظیاتی ذخیرے اورتعبیراتی و اسلوبی نظام کوبھی نئی اورخوش رنگ شکلوں سے آشناکیا،انھوں نے اپنے خیال کوالفاظ و اظہار کا جامہ پہنانے کے لیے لفظوں کی ایسی تراکیبِ نوترتیب دیں،جس سے اردوادب کوایک سے بڑھ کر ایک خوب صورت پیرایہ ہاے اظہارملے،انھوں نے اپنی پوری شاعری میں جونئی اورانوکھی تعبیریں استعمال کیں،ان کی صحیح تعدادکئی سو ہوسکتی ہے۔مگراپنی رسائی کے بقدرراقم ان کی شاعری کامطالعہ کرکے جنھیں اکٹھاکرسکاہے،وہ یہ ہیں:شیشہ رُو،بنفشی ہاتھ،دریچۂ گل،موجۂ گل،سایۂ گل،پابہ گِل،چشمِ گل،قامتِ شعر، سروبدن،قریۂ جاں،خانہ بجاں،شجرِ جاں،حجلۂ جاں،نقدِ جاں،جاں گزارنا،رخشِ جاں،پیشِ جاں،عرصۂ جاں،آتشِ جاں،کلبۂ جاں،طائرِ جاں،شیشۂ جاں،خیمۂ جاں، تہہ خانۂ جاں،عکسِ خوشبو،حرفِ سادہ،موجِ ہوا،ذہین نگاہ،دستِ صبا،پہاڑ دن،اُجاڑ رات،زبانِ رنگ،لمسِ مرگ،گلابی دھوپ،سانپ راتیں، اُلوہی لمحے،قباے خاک،دل زدہ،پھول بدن،شہرِ ناسپاس،اُجلی خواہش،سحاب لہجہ،خزاں زاد،نایافت شہریت،خواب آسا سکوت،بے چہرہ وجود،قرطاسِ بدن، ہوابردہوجانا،شبنم بدست،شب گزیدہ،خوش بدن،درِکم باز،زَردائی ہوئی رُت،شہرِ سخن فروشگاں،مادرزاد منافق،شہرِ صدآئینہ،شبنم رنگ پیشانی،گلابی لذت،لمسِ گریزاں،نرم فامی،لالہ فامی،سبک نام،چھاؤں اُگانا،موسمِ بے اختیاری،چہرہ اُگانا،دست بستہ شہر،بے فیض بدن،بھوکی آنکھ،جلتا فقرہ،شب زاد،موجۂ خواب،سہم ناکی،عنکبوتی ہنر،کوفۂ عشق،سورج خور،شاخِ گریہ،خوابِ یکتائی،لمحۂ جمال،حرفِ اندمال،ناخنِ وصال،گونگے سناٹے،خوش چشم،دلِ شب زاد،تہی زاد،جمشید کُلاہی،خنجرِ گل فام،شہرِ رسن بستہ، کلاہِ زخم زدہ،سفاک لمحے،نشاطِ حسن بازی،کنارۂ روح، شہادت گہہِ وفا،حرفِ سبز،صاعقہ مزاج، بدن گیرغراہٹ،ستارہ ساز ہاتھ،زمزمہ آثار،ہوانژاد،کفِ گلاب،آئینہ نژاد،فصیلِ شوق،آئینے کی آنکھ،دیدۂ بے خواب،اصل شناس،افراطِ خواہش،تفریطِ وقت،درہمِ خودداری،دینارِ عزتِ نفس،منسوخ شدہ قدریں،آدابِ مسافرداری،صلیبِ خوں آشام،صیغۂ عقد، ہوامزاج،ستارہ سوار،قیمتِ شگفت،نیم بیدار منظر،بیضوی موڑ،شاخِ بدن، خوش لمس ہوا،زندگی کمانا،تیرِ شناسائی،سنسان زندگی،ہجومِ ہم خوابگاں،بنجر ذہنوں میں پھول اگانا،ناخنِ ملال،تہہ خانۂ غم،دیوارِ خواہش،بدن کے موسم، ذہن افگن مسئلہ،فصیلِ جسم،آوارگانِ شب،طائرِ امید،آسماں جناب،سوچ سے خوشبوبنانا،یرقانی سوچ،گرگ زاد غم خواری،دل کی آبروریزی،ہمہ تن چشم،بساطِ زیست،زمیں زاد،نشتر بدست شہر،فرشِ فلک،عہدِ مہرباں،دہلیزِ سماعت،فضاے حرف و صوت،توازن گر طبیعت،خانۂ آئینہ ساماں،گلابی خوشبو، حدِّبصارت، جنتِ خاشاک نہاد،عظمتِ یک لحظہ،وقت کی ہم گامی،نصابِ تملُّق،کوے جفا،عذابِ دربدی، سفیدپوشیِ دیوارودر،خرقۂ غم،پوششِ رسوائی،چادرِ دل داری، حصارِ دعا،جگنوسی زمیں،کفِ آسماں،قباے شجر،دیارِ عزال چشماں،شب پیمائی،موسمِ بے چہرگی،آئینہ بردوش،عکسِ بے منظر،پرندِ خوش خبر،مداراتِ الم،سبزۂ بیگانہ،ریشمیں فرصت،شعلہ رُو،فرش خوابی،ہواے شہرِ ستم،قباے سخن،مجاورینِ ادب، طائرِ خوں بستہ،بوسیدہ بیوی،جہنمی درجۂ حرارت، محبت کی کلینکل موت،نوخیز خوشبو،منصبِ دلبری، نرم روشنی،وعدہ گہہِ ہستی،صبح چہر،آوازکاچہرہ چھونا، جنوں خیز خوشبو، موسمِ عنبرفشاں۔
پروین شاکرکاآبائی وطن ہندوستان کے گیاضلع سے تھا،1947ءمیں ان کے والد کراچی ہجرت کرگئے تھے اورپروین شاکرکی پیدایش ونشوونماوہیں ہوئی،مگراس کے باوجودانھیں ہندوستانیت سے گہری وابستگی تھی اوراسی نسبت سے یہاں کی ہندی زبان اور ہندوتہذیب سے بھی وہ آگاہ تھیں، انھوں نے اپنی شاعری میں بعض خالص ہندی الفاظ کوجس چابک دستی و ہنرمندی سے برتااور استعمال کیاہے،اس سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ ہندی زبان و ادب پر بھی دستگاہ رکھتی تھیں،ان کے یہاں دیوتا، مدُھر، سنگیت، سمے، سنسار،پریم،روپ،من موہن، سَکھی، سُر، اَنگ، رُت، سنگم، دیس، بَن، جنم، سندیس، ساگر، آدرش، گمبھیر، راج کماری،بھور، سنگ، ساجن، گوری، مُکھ، نین، مُسکانا،سہاگن،سندرتا، جَگ، پرویَّا، پجاری، سادھو، منتر،بن باس لینا، ریکھا، وِیر، مہکار، سیندور، کجرا، ہِردے،چتا،داسی،درشن،امرِت،شریر،کومل سر، پوتر، چرن، بھوَن، بھیتر ، سنجوگ، پتی، آکاش، چندرما، آتما، چھایا، راجا،بدھائی،جل،بِنتی،سینتنا،سانجھ سویرے،سمبندھ،سمان،راج رتھ،آرتی اتارنا، آڑھت، آشا، پُرش، بھاگ، اپمان، بلیدان، سمپورن، شبد، ادھیکار، دان کرناجیسے الفاظ جگہ جگہ استعمال ہوئے ہیں۔اسی طرح انھوں نے کئی غزلوں میں ہندووں کی مذہبی علامتوں مثلاً دیوالی،مندر،گنگا،کرشن،گھنشیام جیسے کرداروں کوبھی مضامینِ غزل کے طورپراستعمال کیاہے۔
الغرض پروین شاکراردوکی ایک مکمل،ہمہ جہت اورکامیاب ترین شاعرہ ہیں،جن کی شاعری دلوں کے تارچھیڑتی اوراحساساتِ دروں کی سچی ترجمانی کرتی ہے،یہی وجہ ہے کہ ان کی وفات کوایک عرصہ گزرگیا،مگرہنوزان کانام دنیاے ادب و شعرمیں روشن و تاب ناک ہے اور آیندہ بھی رہے گا(ان شاءاللہ)، خودپروین کوبھی اس کا ادراک ہوگا،سوانھوں نے پہلے ہی کہہ دیاتھاکہ:
مربھی جاؤں توکہاں لوگ بھلاہی دیں گے
لفظ میرے،مرے ہونے کی گواہی دیں گے
تالیف: ڈاکٹرمحمدیوسف رامپوری
اشاعت: مرکزی پبلی کیشنز،نئی دہلی
قیمت: تین سوروپے
تبصرہ: امتیازشمیم
اردو برصغیر میں بولی جانے والی کئی زبانوں میں سے ایک ہے، یہ ایک شیریں زبان ہے، اس میں بلا کی جاذبیت ہے جو نہ صرف اردوداں طبقے کو اپنا اسیربنائے رکھتی ہے؛ بلکہ اجنبی اوراردو سےنابلد افراد کو بھی اپنی طرف کھینچتی اورانہیں اس زبان کو سیکھنے، سننے اور بولنے پر آمادہ کرتی ہے، یہی وجہ ہےکہ اردو جاننے والوں کی تعداد میں روزبہ روز اضافہ ہورہاہے اور اس کا دائرہ ہندوپاک کی سرحدوں کو پارکرکے خلیجی، یورپی، ایشیائی اور امریکی علاقوں میں بھی بہ تدریج وسیع ہوتا جا رہا ہے۔
دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اردوزبان وادب کو تغیرات زمانہ کےساتھ نت نئی مشکلات ومسائل کاسامناہے، تلفظ کا مسئلہ ان میں سر فہرست ہے جس کے تئیں یقینا بےتوجہی وبےاعتدالی برتی جارہی ہے، اہل زبان کواس طرف توجہ دینے اوراردو داں حلقے میں آگہی لانے کی ضرورت ہے، تبھی اردو زبان کی وہ مٹھاس اورجاذبیت برقراررہ سکتی ہےـ
حالیہ دنوں میں معرض وجود میں آئی "اردو میں تلفظ: معنویت اورمسائل” اسی قبیل کی ایک کتاب ہے، جو اردو زبان وادب کو تلفظ کےحوالے سے درپیش مسائل، ان کے اسباب اورتدارک کے موضوع پربحث کرتی ہے، تقریبا ایک سال قبل ۹/اکتوبر ۲۰۱۷ء کو مولانا فیروزاخترقاسمی نے مرکزی جمعیت علماکے زیراہتمام قومی کونسل برائےفروغ اردوزبان کے اشتراک سے جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے نہروگیسٹ ہاؤس میں ایک سیمینار منعقد کیاتھا، جس کاعنوان تھا "اردو میں تلفظ کے مسائل: اسباب اورتدارک”، اس میں ہندوستان کے طول وعرض سے پروفیسرز، ڈاکٹرز اور ریسرچ اسکالرز سمیت اردو کی کئی معروف شخصیات نے شرکت کی تھی اور تحقیقی مقالے پیش کیے تھے، زیرتبصرہ کتاب انہی مقالات ومضامین کا مجموعہ ہے، جمع وترتیب کا کام ڈاکٹر یوسف رامپوری نے بہ خوبی انجام دیاہے، نیزانہوں نے کتاب میں دیگر اہل قلم سے لکھواکر مزید مضامین کا اضافہ کیاہے اور "اردو میں تلفظ کی اہمیت اور معنویت” کے عنوان سے ایک مفصل ومبسوط مقدمہ بھی لکھاہے، جس میں متعلقہ موضوع پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے اور تلفظ درست کرنے کے چار مؤثر طریقوں کی طرف رہنمائی بھی کی گئی ہے۔
کتاب کے مقالات کی کل تعداد انیس ہے، سب سےپہلا مضمون "اردو تلفظ: چند مشاہدات” ڈاکٹر سہیل احمد فاروقی کالکھا ہواہے، ڈاکٹر صاحب چوں کہ سیمینار میں صدر کی حیثیت سے تشریف فرما تھے، سو انہوں نےاس مضمون میں بالاختصار سیمینار کے انعقاد کی وجہ اور اپنا تاثر پیش کیاہے، پھر مشاہدات کی روشنی میں انہوں نے اردو میں تلفظ کےبارے میں تین اہم نکات کی طرف توجہ دلائی ہے، کتاب کے پانچ مضامین؛ پروفیسر علیم اشرف خان کا "اردو میں مستعمل فارسی وعربی الفاظ کا تلفظ واملا”، آصف اقبال جہان آبادی کا "اردو تلفظ پر عربی صوتیات کے اثرات”، ڈاکٹر جسیم الدین کا "اردو میں عربی الفاظ کا استعمال: ایک مطالعہ”، فاروق اعظم قاسمی کا "اردو کا صوتیاتی نظام” اور ڈاکٹر اورنگ زیب اعظمی کا "اردو میں مستعمل عربی کی چند ترکیبیں اور ان کا صحیح تلفظ” ایسے ہیں،جو عام طور سے اردو زبان کے الفاظ ومعانی اورتراکیب وصوتیات پر عربی زبان وادب کاجو اثرہے، اس پر روشنی ڈالتے اور اس سلسلے میں اردو لکھنے پڑھنے اور بولنے والوں سے جو غلطیاں سرزد ہوتی ہیں ان کی نشاندہی کرتے نظرآتے ہیں،جبکہ تین مضامین خواجہ شبیرالزماں کا "اردو میں انگریزی الفاظ کی ادائیگی کا مسئلہ”، نوجوان مصنف واہلِ قلم نایاب حسن کا "سوشل میڈیا پر اردو تلفظ: مسائل، اسباب اور تدارک”، اور شہاب الدین قاسمی کا "قومی میڈیا اور اردوزبان وتلفظ” اس اعتبار سے اہم ہیں کہ ان میں انفارمیشن ٹکنالوجی اورانگریزی زبان کی روزافزوں اہمیت وغلبہ کے سبب ہر لمحہ بدلتےحالات میں اردو کے سامنے تلفظ اور لفظیات کے حوالے سے جو نئےنئےچیلنجزہیں ان پرتشفی بخش گفتگو کی گئی ہے، حبیب سیفی نے اپنے مقالے میں اردوزبان کی تشکیل وتعمیر میں کھڑی بولی کے اثرات کوبیان کرتےہوئے تلفظ کے پہلوپر بات کی ہے، ڈاکٹر محمد اطہرمسعود خان نے رئیس رامپوری کی تیارکردہ اردولغت روہیلکھنڈ کا تلفظ کےحوالےسے تحقیقی جائزہ لیاہےاور اس کی اہمیت وافادیت کو واضح کیاہے، ریسرچ اسکالر امیر حمزہ نے اردو لغت کی مشہور کتابوں فیلن کی ڈکشنری، فرہنگ آصفیہ، فرہنگ عامرہ اور جامع فیروزاللغات میں اردو تلفظ کی صورت حال پر گفتگو کی ہےاور ان میں موجود کمیوں وخامیوں سے قاری کو آگاہ کیا ہے، غلام نبی کمار کا مضمون "کشمیر میں اردو تلفظ کی صورت حال” بھی دلچسپ اورمفید ہے، ڈاکٹر سعد مشتاق حصیری کا مضمون "تلفظ اور اس کے استعمالات: فضلائے یونیورسٹیز اور مدارس کے تناظر میں” فارغین مدارس اور فارغین جامعات وکالجزکے درمیان تلفظ کے فرق کو بیان کرتاہے، اس کے علاوہ عبد الباری قاسمی کا "عہد جدید میں تلفظ کی صورت حال”، ارشاد سیانوی کا "اردو تلفظ: تحفظ اوربازیافت”، نازیہ کا "حروف تہجی اور اردو تلفظ” بھی گراں قدر اور معلومات افزا مقالے ہیں، سیکڑوں الفاظ پرمشتمل دو فرہنگ بھی شامل کتاب ہے، پہلا ڈاکٹر مشتاق قادری کاہے، اس میں بعض وہ الفاظ ہیں، جن کے غلط تلفظ سے معنی بدل جاتےہیں، دوسرے میں اردو میں زیادہ استعمال ہونے والے عربی الفاظ کو جمع کیاگیاہے، یہ مقالہ مرتب ڈاکٹر محمد یوسف رامپوری کاہے۔
بہرحال مجموعی طور پر کتاب کے تمام مضامین تحقیقی ہیں اور بہ قول مرتب یہ "نئے اور غیر مطبوعہ مضامین کا مجموعہ” ہے "گرچہ اس سے قبل بھی تلفظ پر کئی کتابیں زیورطبع سے آراستہ ہوچکی ہیں، مگر ان میں سے زیادہ تر کئی دہائیوں سے پہلے کی صورت حال کا نقشہ کھینچتی نظر آتی ہیں” جب کہ اس کتاب میں "نئے حالات اورنئے تقاضوں کو سامنے رکھ کر تلفظ پربات کی گئی ہے”، کتاب کی نشرواشاعت کا اہتمام مرکزی پبلی کیشنز نئی دہلی نےکیا ہے، طباعت شاندار اور ٹائٹل معیاری ہے، ۲۶۴ صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت ۳۰۰ روپے موزوں ہے، امید کرتاہوں کہ کتاب عوام وخواص کے ہاں مقبول ہوگی اور تلفظ کے حوالے سے دوسرے لوگوں کو کام کرنے کی تحریک ملےگی۔
نایاب حسن
اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نتن یاہو کے 130؍رکنی وفد کے ساتھ چھ روزہ دورۂ ہند کے دوران مرکزی حکومت نے اپنی مہمان نوازی میں ساری توانائی خرچ کردی،انھیں مختلف مقامات کی سیر کروائی گئی، زراعت،ٹکنالوجی،واٹرمینجمنٹ ،اسلحہ وغیرہ کے شعبوں میں نئے معاہدے ہوئے،گزشتہ سال ہند۔اسرائیل کے درمیان ہونے والے پانچ ارب کے ’’کاروبار‘‘میں مزید اضافے پر غوروخوض ہوا،اسرائیلی وزیر اعظم نے اس دوران سرکاری نمایندگان کے علاوہ صنعت،تجارت،بینکنگ سے لے کر بالی ووڈکے سٹارزتک کے ساتھ پارٹیز اور میٹنگیں کیں۔انھوں نے اپنی مختلف تقریروں میں کئی باتوں پر بار بار زور دیا ، بعض باتیں تو رسمی تھیں ،جو عام طورپر ایک ملک کا سربراہ دوسرے ملک کا دورہ کرتے ہوئے وہاں کے لیڈروں اور حکومت کو ’’پٹانے‘‘کے لیے کرتا ہے،مثلاً یہ کہ اسرائیل اور ہندوستان کے تعلقات کی قدیم تاریخ ہے،دونوں ملکوں میں بہت سی مماثلتیں ہیں اور ہم موجودہ تعلقات کو مزید آگے اور اونچائیوں تک لے جانا چاہتے ہیں وغیرہ وغیرہ اور بلا شبہ ہندوستان جیسا ملک ،جہاں سیاست کے کھلاڑی عموماً فہم و دماغ سے عاری ہوتے ہیں اور آج بھی ہمارے وزیر اعظم ہوں یا ملک کی اور کوئی بڑی شخصیت عموماً کسی بھی بڑے ملک کے رہنما سے ملتے وقت نفسیاتی مرعوبیت کا شکار ہوتی ہے اور اسی وجہ سے بہت سے معاملات قوم کے مفادات کو ملحوظ رکھ کرکیے جانے کی بجاے اُس ’’نیچرل دوستی‘‘ کو بڑھانے اور مضبوط بنانے کے لیے کیے جاتے ہیں،جن کا زمینی سطح پر کوئی وجود ہی نہیں ہوتا۔ ساتھ ہی نتن یاہو نے اپنے اس دورے کی متعدد تقریروں میں اس توسیع پسندانہ عزائم کا اظہار بھی کیا،جو اسرائیل کا خاصہ ہے اور جس کی وجہ سے فی الحقیقت یہ ناجائز ریاست دنیا بھر میں اپنا منفی امیج رکھتی ہے،خاص طورپر اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے اسرائیل کا جو نقطۂ نظر اور طریقۂ عمل رہاہے،اس کا اظہار کرنے سے وہ اپنے آپ کو روک نہ سکے اور Raisina Dialogueکے افتتاحی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے جہاں انھوں نے کسی بھی ملک کی سیاسی ،دفاعی اورمعاشی مضبوطی کی اہمیت اور جمہوریت و تکثیریت کے فضائل گنوائے،وہیں براہِ راست اسلام کوبھی نشانہ بنایا اور کہا کہ ’’موجودہ وقت میں ہمیں ،ہماری زندگی،ہماری ترقی پسندانہ سوچ اوراکتشافی نظریے کو ریڈیکل اسلام سے خطرہ ہے اور ایسے خطرات عالمی نظام کے لیے نقصان دہ ثابت ہوں گے؛چنانچہ ہمیں ان خطرات سے نمٹنے کے لیے ایک ساتھ آگے آناچاہیے اور اپنے تعلقات کو مضبوط کرنا چاہیے‘‘۔اس تقریر میں نتن یا ہوکے بیان کا لہجہ ،لفظوں کا انتخاب ،چہرے کے تاثرات ؛سب اس غرور اور مذہبی جنون کا اعلان کررہے تھے،جس کے زیرِ اثر گزشتہ نصف صدی کے زائد عرصے سے فلسطین کے اصلی باشندوں کے خلاف ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔
یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ ظالم خود کو مظلوم بناکر پیش کررہا ہے اور جو مظلوم ہیں،انھیں ریڈیکل،انتہا پسند اور دہشت گرد قراردیا جاتا ہے اور دنیا اسے تسلیم بھی کرتی ہے۔مودی حکومت اسرائیل میں اس قدر دلچسپی کیوں لے رہی ہے اور اسرائیل ہندوستان سے اپنی نیچرل دوستی کا راگ الاپ کر کس دوستی کی جانب اشارہ کررہاہے،وہ اہلِ نظر کے لیے کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے،اصل حقیقت یہ ہے کہ آرایس ایس ہندوستان کو جہاں لے جانا چاہتا ہے اور اس کے منصوبے کے مطابق ہندوستان کو جیسا ہونا چاہیے،اس کی زندہ مثال وہ اسرائیل کوپاتا ہے،سو اسرائیل کو آر ایس ایس رول ماڈل مانتا ہے؛چنانچہ اس نے اپنے سیاسی بازو(بی جے پی)کو اس کام پر لگادیاہے کہ اسرائیل سے پینگیں بڑھائے اور معاش و تجارت اورزر اعت وغیرہ میں ساجھے داری کے پردے میں اُس ایجنڈے پر عمل کرے،جس پر چل کر اسرائیل دوسرے کے ملک پر قبضہ کرکے باقاعدہ ایک حکومت تشکیل دے چکاہے اور ہزاروں لاکھوں بے قصوروں کو تہہِ تیغ کرنے کے باوجود اب بھی دنیا والوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتا اور اپنی مظلومیت کا رونا روتا رہتا ہے۔آرایس ایس کے لیے اسرائیل ایک ملک یا قوم سے زیادہ بہت کچھ ہے،آر ایس ایس کی نظر میں اسرائیل وہ ہے،جہاں یہ لوگ ہندوستان کو لے جانا چاہتے ہیں،شروع سے ہی آر ایس ایس ہندوستان کو اسرائیل کے قریب لے جانے کی تدبیروں میں جٹا رہاہے؛چنانچہ اٹل بہاری واجپئی ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم تھے،جنھوں نے2003ء میں اسرائیلی وزیر اعظم ایریئل شیرون کی مہمان نوازی کی ،جبکہ مودی اب پہلے ایسے وزیر اعظم بن گئے ہیں،جنھوں نے تل ابیب کا دورہ کیااور اس کے بعد اب اسرائیلی وزیر اعظم کوبھی اپنے یہاں لمبے ٹورپر بلالیا،نئے دور میں اس سب رشتے داری کو قائم کروانے میں آر ایس ایس کے تیسرے چیف بالا صاحب دیورس کے بھائی بھاؤراؤ دیورس کا غیر معمولی رہاہے۔ آر ایس ایس ۔اسرائیل کی فکری و نظریاتی وابستگی یا دوستی کا آغاز تو تبھی سے ہوگیا تطا،جب ایک طرف ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے نوبل اعزاز یافتہ مشہور سائنس داں البرٹ آئنسٹائن (Albert Einstein)کی سفارش کے باوجود اسرائیل کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا، جبکہ اس وقت کے آر ایس ایس کے سربراہ ایم ایس گولوالکر نے تخلیقِ اسرائیل کی حمایت کی۔اسی زمانے سے آر ایس ایس کو ایسا لگا اور اب بھی اس کا ماننا ہے کہ اسرائیل دنیا میں واحد اسلام اور مسلمانوں کا پکا دشمن ہے اور انھیں ختم کرکے دم لے گا اور ظاہر ہے کہ نظریاتی و منصوبہ جاتی سطح پر خود آر ایس ایس کی آئیڈیالوجی بھی اسی طرح کی ہے؛اس لیے آر ایس ایس ہمیشہ اسرائیل کے قریب ہونا چاہتا رہاہے؛چنانچہ سیاسی برتری کے اپنے موجودہ سنہرے دور میں وہ اس خواہش کو ہر ممکن طریقے سے پوری کرنا چاہتا ہے۔
1948ء کی عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کی شرمناک شکست کے بعد باقاعدہ اسرائیل کی تشکیل ہوگئی اور ہندوستانی حکومت نے بھی ستمبر 1950میں قانونی طورپر اسے ریاست تسلیم کرلیاتھا،مگر سیاسی و ڈپلومیٹک پارٹنر بنانے یا اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کا تعلق قائم کرنے سے احتراز کیاگیا ، آزادی کے بعد 41؍سال تک اسرائیل کے حوالے سے نہرو کی پالیسی پر ہی عمل کیا جاتا رہا،مگرنرسمہاراؤ کی وزارتِ عظمیٰ کے زمانے میں آر ایس ایس نے حکومتِ ہند یا کانگریس کو بھی عربوں کے تعلق سے نہروکی پالیسی سے دست بردار کرنے پر آمادہ کرلیا؛چنانچہ جنوری1992ء سے ہند۔اسرائیل تعلقات کا باقاعدہ آغاز ہوگیا،جس میں دن بہ دن مضبوطی ہی آئی،کانگریس نے اپنے دورِ اقتدار میں اس تعلق کو پوشیدہ طورپر نبھایا اور اب بی جے پی کھل کر ان تعلقات کوcelebrateکررہی ہے۔
نتن یاہوکے حالیہ دورے کی کئی تصویریں میڈیا میں وائرل ہوئیں مثلاً مودی کے ہاتھ اور گلے ملنے والی، سابرمتی آشرم والی، تاج محل گھومنے والی اور یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے ذریعہ ان کا استقبال کیے جانے والی،مگر یہ سب تصویریں وہ تھیں ،جو میڈیا کے ذریعے لوگوں کے سامنے آئیں اور میڈیاوالوں نے ہی لی تھیں،البتہ ان سب میں ایک تصویر اور تھی جو18؍جنوری کو ممبئی میں Shalom Bollywoodپروگرام میں شرکت کے موقع پربالی ووڈ سٹارز،پروڈیوسرز،ڈائریکٹرز وغیرہ کے ساتھ خود نتن یاہو نے لی،انھوں نے کہا ’’میں چاہتا ہوں کہ بالی ووڈ سلیبرٹیز،پروڈیوسرزاور سٹارزکے ساتھ ایک سیلفی لی جائے؛تاکہ لاکھوں لوگ ہماری اس دوستی کا مشاہدہ کریں‘‘پھر اس فوٹو کو اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شیئر کرتے ہوئے لکھا ’’کیامیری بالی ووڈسیلفی آسکرمیں لی گئی ہالی ووڈسیلفی کو پیچھے چھوڑسکتی ہے؟‘‘۔ اس تصویر میں نظرآنے والے زیادہ ترچہرے ہندی فلم انڈسٹری کے نابغہ افراد ہیں،جو رات دن انسانیت ،جمہوریت اور حقوقِ انسانی کے تحفظ کی باتیں بھی کرتے ہیں اوراپنی سیکڑوں فلموں میں انھوں نے ہزاروں بے قصوروں کو بچایا،مظلوموں کی دادرسی کی اور بے بس و بے سہارا لوگوں کو آسرا دیا ہے،اب بھی مختلف سرکاری و غیر سرکاری اشتہارات میں لوگوں کو انسانیت نوازی کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں،مگر اس تصویرمیں ان کے چہروں کو دیکھیے، ایسا لگتا ہے کہ ایک خونی اور لاکھوں بے قصوروں کے قاتل کے ساتھ فوٹو کھنچواتے ہوئے وہ اپنے آپ کو بہت خوش نصیب سمجھ رہے ہیں؛بلکہ کئیوں نے تو سوشل میڈیا پر اس کا اظہار بھی کیا ہے،الغرض یہ سب ایکٹر ہیں اور بس ایکٹر ہیں ،اس کے علاوہ کچھ نہیں!مجھے اس پر بھی حیرت ہوئی کہ جب ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے ہندوستان کا دورہ کیاتھا،تو یہاں کے لبرل، جمہوریت پسند طبقہ نے بڑا شور مچایا تھاکہ وہ اپنے ملک میں عوامی حقوق کو دبانے کے مجرم ہیں اور ان کا یہاں استقبال نہیں ہونا چاہیے،مگراب ،جب عالمِ انسانی کا مجرم نمبر ایک ہفتہ بھر ہندوستان میں گھومتا رہا،تو چند مذہب پسند مسلمانوں کے علاوہ کہیں کسی جمہوریت نواز،لیفٹسٹ وغیرہ کو احتجاج کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔بات بس یہی ہے کہ جمہوریت یا سیکولرز م اس دور میں ہر شخص؍جماعت اور قوم کے اپنے نظریہ و خیال کے تابع ہے،بات یہ بھی ہے کہ ایک مخصوص طبقۂ انسانی کے بارے میں موجودہ عالمی نظام اور طاغوتی میڈیا کے ذریعے یہ طے کردیا گیاہے کہ وہ جہاں بھی اور جس خطے میں پایاجائے،ظالم ہی ہوگا ؛چنانچہ چاہے اس پر مظالم کے پہاڑ توڑے جائیں،بے گھر کیاجائے،ماوراے عدالت قتل کیاجائے اور زبردستی اس کے گھر؍وطن پر قبضہ کیا جائے،پھر بھی قصور اسی کا ہے اور اگر اس نے ایک حرفِ احتجاج بھی بلند کیا تو دنیا کے جمہوریت نواز بیگانے تو دور،خود بعض’’اپنے‘‘بھی اسے دہشت گردوں کی فہرست میں نتھی کردیتے ہیں!
نایاب حسن
قرآن کریم کاایک پہلو علمی ہے کہ اس کے ظاہری الفاظ و تعبیرات سے علوم و فنون کے مختلف پہلووں پر استدلال کیا جائے اور اس کا دوسرا پہلو خالص عملی اور انسان کی اجتماعی و انفرادی زندگی سے وابستہ ہے،قرآن کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ ایک دائمی معجزہ ہے،جو ہمارے نبی پاکﷺکو دیاگیا تھااورتب کی فصیح و بلیغ عربی قوم سے لے کر آج تک کوئی بھی انسانی فردیا جماعت اس کی ایک آیت کا بھی مقابل ومماثل نہ پیش کر سکی۔آپ ؐسے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو لاٹھی کا معجزہ دیا گیا تھا ،کہ اس کو پتھر پر مارنے سے نہر جاری ہوجاتی یا اسے زمین پر پٹکتے تو وہ سانپ کی شکل اختیار کرلیتی،اسی طرح حضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھوں میں لوہا موم ہوجایاکرتاتھا ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہ معجزہ عطا کیا گیا تھا کہ وہ بیماروں پر ہاتھ پھیردیتے ،تو وہ صحت مند ہوجاتے یا مردہ ان کے حکم سے زندہ ہوجاتا؛ لیکن آخری پیغمبر حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم کاخالص علمی معجزہ دیا گیا ، یہ معجزہ قیامت تک کے لیے ہے ؛کیونکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر انبیا کا سلسلہ ختم کردیا گیا،آپ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے، آپؐ کے ذریعے لایاگیا دین قیامت تک کے لیے ہے؛اس لیے آپ کا یہ معجزہ بھی قیامت تک کے لیے ہے، یہی وجہ ہے کہ آج چودہ صدی کے بعد بھی قرآن کی تعلیمات تازہ ہیں اور قرآن نے جوحقائق بیان کردیے ہیں، وہ حرف بہ حرف سچ ہیں۔ سائنس داں اورمحققین صدیوں کی ریسرچ اور کھوج کے بعد آج جو باتیں بیان کررہے ہیں ، ان میں سے بہت سی باتیں قرآن چودہ صدی قبل ہی بیان کرچکاہے ۔
قرآن پاک کی اسی ابدیت وجامعیت کے پیش نظر اس کے معارف و نکات کی تشریح و تفسیر پر اب تک دنیا بھرکی سیکڑوں زبانوں میں ہزاروں کتابیں لکھی جاچکی ہیں اوریہ سلسلہ تاہنوز جاری و ساری ہے،ماہرینِ علوم و فنون نے مختلف حوالوں سے قرآن کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا اور اس سمندر سے علم و فکر کے رنگا رنگ موتی نکالے ہیں۔ہندوستان کو اس حوالے سے ایک طرح کا امتیاز حاصل ہے کہ یہاں مختلف زمانوں میں بے شمار تراجمِ قرآن لکھے گئے،تفسیریں لکھی گئیں اور قرآن پاک کی توضیح و تبیین پر علماومفکرین کی ایک بڑی جماعت نے اپنا علمی،ذہنی و فکری سرمایہ صرف کیا۔
اِس وقت ہمارے پیش نظر پروفیسر غلام یحیٰ انجم صاحب کی مرتب کردہ کتاب’’قرآن کریم کے ہندوستانی تراجم و تفاسیر کا اجمالی جائزہ‘‘ہے، جس میں شروع سے لے کر اب تک ہندوستان بھر میں قرآنیات پر ہونے والے کام کا تحقیقی جائزہ لینے کی قابلِ قدر کوشش کی گئی ہے۔پروفیسر صاحب معاصر علمی حلقے میں خاصے متعارف ہیں ،جامعہ ہمدرددہلی میں شعبۂ اسلامک اسٹڈیز کے سربراہ اور بیس سے زائد مختلف علمی و تحقیقی کتابو ں کے مصنف و مرتب ہیں۔زیر نظر کتاب بھی ان کی غیر معمولی محنت و کاوش ، دقت نظری وبصیرت مندی کا نمونہ ہے،اس کتاب میں انھوں نے ہندوستان میں عربی و اردو کے علاوہ تیلگو، بنگلہ، سنسکرت، گورمکھی،کنڑ،سندھی،کشمیری،گجراتی،ہندی،انگریزی وغیرہ زبانوں میں ہونے والے قرآن کریم کے تراجم و تفاسیر کا تعارف پیش کیاہے،ان کے تعارف میں انھوں نے بلا تفریق تمام مسالک و مکاتبِ فکر کے علماکے ذریعے لکھی گئی کتابوں کو پیش نظررکھاہے،مسلمانوں کے علاوہ عیسائی اور قادیانی تراجم و تفاسیرِ قرآن بھی مؤلف کے زیر تذکرہ آئے ہیں۔کتاب کے مشمولات کی جامعیت و ہمہ گیریت کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے شروع سے اب تک قرآنیات پر ہونے والے کاموں کا تقریباً احاطہ کرلیا ہے اوران کی یہ کتاب ہندوستان میں قرآنیات کی تفہیم،تفسیر و تحقیق کے تعلق سے ایک بہترین انسائیکلوپیڈیا قراردیے جانے کے لائق ہے۔
کتاب کا آغازترتیب وار پانچ تقریظوں سے ہوا ہے،ان سے قبل مؤلف نے اپنے ابتدائیہ میں کتاب کی تالیف کے تعلق سے اپنی محنت،متعلقہ موضوع کی وقعت و گیرائی اور اس کتاب کے مشمولات پر مختصر گفتگو کی ہے۔مقدمہ میں مؤلف نے قرآن اور تفہیمِ قرآن کے تعلق سے مختلف علمی پہلووں پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے،سوصفحات میں پھیلا ہوا یہ مقدمہ علوم القرآن پر مؤلف کے درک و بصیرت کا آئینہ دار ہے اور قرآنِ کریم کے طالبِ علم کے لیے اس میں سیکھنے کے بہت سے پہلو ہیں،اس مقدمے میں فاضل مؤلف نے وحی کی اقسام،نزولِ قرآن کے مراحل،قرآن کریم کے نام،تلاوتِ قرآن کے آداب، ترجمہ، تفسیر، تاویل کی تعریف وتشریح،مفسرین کے طبقات ،مختلف زمانی مراحل میں لکھی جانے والی اہم تفاسیر کی نشان دہی اور ہندوستان میں تفسیر نویسی کے آغاز پر نہایت پر مغز اور علم ریز گفتگو کی ہے۔صفحہ نمبر۱۷۱؍سے اصل کتاب شروع ہوتی ہے،مختلف مرکزی عناوین کے تحت کتابوں کا تعارف پیش کیاگیا ہے،پہلا عنوان ہے ’’قرآن کریم کی ہندوستانی تفاسیر‘‘دوسرا عنوان ہے’’قرآن کریم کے بعض اجزاکی تفاسیر‘‘تیسراعنوان ہے ’’قرآن کریم کے اردوفارسی تراجم‘‘چوتھا عنوان ہے’’قرآن کریم کے منظوم تراجم و تفاسیر‘‘چھٹا عنوان ہے’’قرآن کریم کی آیاتِ احکام کی تفاسیر‘‘اس کے تحت بارہ کتابوں کا ذکر ہے،ساتواں عنوان ہے ’’تفاسیر قرآن کریم کی ہندوستانی شروح و حواشی اور تعلیقات‘‘اس کے تحت مختلف تفاسیر قرآن کی سو ہندوستانی شروح،حواشی وتعلیقات کا تعارف پیش کیا گیا ہے،آٹھواں عنوان ہے’’شیعی علماکے تراجم و تفاسیر‘‘اس کے تحت مختلف دور میں شیعی علماکے ذریعے کے کیے گئے ڈیڑھ سو سے زائد تراجم و تفاسیرِ قرآن کا ذکر ہے،نواں عنوان ہے’’قرآن کی موضوعی تفاسیر‘‘اس کے تحت آٹھ کتابوں کا تذکرہ ہے،دسواں عنوان ہے’’قرآن کریم کے قادیانی تراجم و تفاسیر‘‘اس کے تحت پندرہ کتابوں کا تعارف ہے،’’گیارہواں عنوان ہے’’عیسائی علماکے قرآنی تراجم‘‘اس کے تحت پانچ تراجمِ قرآنی اوران کے عیسائی مترجم کے نام نقل کیے گئے ہیں،بارہواں عنوان ہے’’قرآن کریم کے مختلف زبانوں میں تراجم‘‘جس میں مختلف زبانوں میں کیے گئے بہت سے تراجمِ قرآنی کا ذکر ہے ۔ تعارف میں عام طورپر زیر تذکرہ کتاب کا سن تالیف،مختصر تعارف،بعض مفسرین کے علمی مقام و مرتبہ کی تعیین اورکہیں کہیں نمونۂ ترجمہ و تفسیربھی درج کردیاگیا ہے، مؤلف نے حتی الامکان کوشش کی ہے کہ جس تفسیریا ترجمے کا ذکر کریں ،توساتھ میں کتاب اور صاحبِ کتاب کا مختصر تعارف بھی کرادیں،مگر اس کے باوجود بہت سی ایسی تفاسیر اور ترجمے رہ گئے،جن کے بارے میں مؤلف کوصرف کتاب اور مصنف کے نام کا پتا چل سکاہے،بہر کیف مجموعی طورپر یہ ایک غیر معمولی اہمیت کی حامل کتاب ہے اور اس سے ہندوستان میں(ماقبل ومابعدآزادی) گزشتہ سیکڑوں سال کے دوران قرآنیات پر ہونے والے کاموں کاایک خوب صورت خاکہ سامنے آجاتا ہے۔
بہت سی خوبیوں کے ساتھ اس کتاب میں بعض خامیاں بھی ہیں،حالاں کہ فی الجملہ کتاب کے اسلوب میں سلاست ووضاحت ہے،مگربعض جگہ زبان و بیان پیچیدہ ہوگیا ہے،کئی مقامات پر ایک کتاب کے تعارف کے دوران دوالگ الگ مراجع کے حوالے سے ایک ہی بات مکرر لکھی گئی ہے،صفحہ نمبر۲۸۵پر ’’اردوتفاسیر‘‘کے حوالے سے مولانایحی کاندھلوی سے منسوب تفسیر’’الکوکب الدری‘‘کا ذکرآیاہے،حالاں کہ ’’الکوکب الدری‘‘مولانا کی تفسیر نہیں ؛بلکہ عربی زبان میں سنن ترمذی کا نوٹ ہے،جسے بعد میں ان کے صاحبزادے مولانامحمد زکریاکاندھلوی نے اپنے حاشیے کے ساتھ دوجلدوں میں شائع کروایا ہے اور علم حدیث سے وابستگی رکھنے والے حلقوں میں مقبول و متداول ہے۔علی گڑھ سے ایک علمی و تحقیقی رسالہ’’تحقیقاتِ اسلامی‘‘کے نام سے جولائی ۱۹۸۲ء سے شائع ہورہاہے،اس کے موجودہ مدیر مولانا سید جلال الدین عمری اور معاون مدیرڈاکٹر رضی الاسلام ندوی ہیں،مؤلفِ محترم نے مولانا امین احسن اصلاحی کی تفسیر’’تدبرقرآن‘‘کا تعارف کراتے ہوئے اس رسالے میں شائع شدہ خورشید حسن رضوی کے مضمون کے حوالے سے تدبرقرآن کا تفسیری نمونہ پیش کیا ہے،مگر رسالے کانام وہ صفحہ نمبر۱۸۹؍پر’’تحقیقات‘‘اور اگلے صفحے پر’’سہ ماہی تعلیمات‘‘لکھ گئے ہیں،ظاہر ہے ایک تحقیقی تالیف میں اس قسم کی غلطی نظر انداز نہیں کی جاسکتی ،اسی طرح قرآن کریم کی آیتوں کی تعداد صفحہ نمبر۷۲؍پرچھ ہزار دوسوپچاسی لکھی ہے،جبکہ صفحہ نمبر۱۰۲؍پرچھ ہزار چھ سوچھیاسٹھ،حالاں کہ دوسری تعداد ہی زیادہ مشہور ہے،مگر فاضل مؤلف کو اپنی تحقیق کے مطابق کسی ایک ہی راجح تعداد کا ذکرکرنا تھا۔کئی جگہ عربی عبارتیں غلط املا میں لکھی گئی ہیں،جو یقیناً کمپوزنگ کی غلطیاں ہیں،مگر ان کی تصحیح ہونی چاہیے تھی،کئی اردو الفاظ بھی غلط کمپوزہوگئے ہیں،امید ہے کہ آیندہ ایڈیشن میں ان کی اصلاح کرلی جائے گی۔
بہر کیف پروفیسر غلام یحی انجم کی یہ کتاب ہندوستان میں علومِ قرآنی پر ہونے والے کاموں کا بھرپوراحاطہ کرتی ہے اور غالباً اردو زبان میں اپنی نوعیت کی یہ منفرد کتاب ہوگی،جس میں مختلف ادوارمیں مختلف طبقات ومکاتبِ فکر کے علماکے ذریعے کیے گئے قرآن پاک کے تراجم ،تفاسیرکا جامعیت کے ساتھ جائزہ پیش کیا گیاہے۔کتاب کی طباعت قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ذریعے ۲۰۱۷ء میں ہوئی ہے ،طباعت معیاری،دیدہ زیب اور خوب صورت ہے، ۶۰۰؍سے زائد صفحات پر مشتمل اس گراں قدر کتاب کی قیمت۲۶۰؍روپے نہایت مناسب ہے۔ امید ہے کہ موصوف کی یہ کتاب قرآنیات سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے گنجِ گراں مایہ اور آیندہ اس موضوع پر کام کرنے والوں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوگی۔