مصنف : جاوید عبدالعزیز
صفحات : 124،قیمت :80روپے ،سن اشاعت : 2020
ناشر : قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ،نئی دہلی
مبصر : عبدالباری قاسمی
بیسویں صدی میں اردو غزل کو منفرد اسلوب اور آہنگ عطا کرنے والوں میں ایک اہم نام ڈاکٹر کلیم عاجز کا بھی ہے ،کلیم عاجز بنیادی طورپر غزل کے شاعر ہیں اور غزل کی وجہ سے ہی انہوںنے برصغیر میں ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر اپنی شناخت قائم کی اور یورپی ممالک کا بھی سفر کیا ،مگر انہوں نے اردو شاعری کے اکثر اصناف میں طبع آزمائی کی ہے ،خاص طور پر ان کی نظمیںبہت عمدہ ہیں ،بیسویں صدی میں میرکے لب ولہجہ اور انداز بیان کو زندہ کیا اس وجہ سے ان کو میر ثانی بھی کہا جاتا ہے ،کلام میں سوز و گداز اور رنج و غم ایسا ہے کہ کہیں کہیں عاجز کے غم کے سامنے میر کا غم پھیکا معلوم ہوتا ہے ،عاجز لفظیات کے انتخاب اور تشبیہات و استعارات کے استعمال میں ایسی مہارت رکھتے ہیں کہ ان کا اسلوب اور طرز بیان ایسا مختلف ہو جاتا ہے کہ اپنے تمام معاصرین میں سب سے ممتاز نظر آتے ہیں ۔
اسی طر ح نثر میں بھی ان کاجواب نہیں ہے سوانح نگاری ،خاکہ نگاری ،سفرنامہ نگاری اور مکتوب نگاری میں بھی انہوں نے الگ شناخت قائم کی اور ایسااسلوب اختیار کیا ہے کہ اگر وہ شاعری نہیں بھی کرتے تو ادبی دنیامیں ان کا تعارف کرانے اور انہیں زندہ و تابندہ رکھنے کے لیے ان کی نثر ہی کافی ہوتی ۔
زیر تبصرہ مونوگراف کلیم عاجز جاوید عبدالعزیز نے تحریر کیا ہے ،اس کی فہرست کی دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف کی نگاہ عاجز کی شخصیت اور فن کے ہر پہلو پر ہے اور بہت گہرائی سے کلیم عاجز کا مطالعہ کیا ہے ،اس لیے اس مونوگراف میں کلیم عاجز کے فکرو فن کے تمام گوشوں کا مختصر انداز میں تعارف کرانے کی کوشش کی ہے اور اس انداز سے مواد کو سمیٹا ہے کہ بلا جھجک ہم کہ سکتے ہیں کہ جاوید عبدالعزیز دریا کو کوزے میں سمونے
میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔
مذکورہ مونوگراف تین حصوں پر مشتمل ہے ،پہلے حصہ کا عنوان شخصیت اور سوانح ہے ،اس میں خاندانی ماحول،پس منظر ،تعلیم و تربیت اور حالات زندگی کو بیان کیا گیا ہے ،دوسرا حصہ ادبی و تخلیقی سفر کے نام سے معنون ہے ،اس میں ابتدا میں ان کا شعری اور تخلیقی پس منظر اور اسباب کو بیان کیا ہے اس کے بعد ان کی تصانیف اور شعری مجموعوں کا تعارف کرایا گیا ہے جن میں بطور خاص ’’وہ جو شاعری کا سبب ہوا ‘‘،’’جب فصل بہاراں آئی تھی‘‘ ،’’یہاں سے کعبہ اور کعبہ سے مدینہ (سفرنامہ حج‘‘،’’ ایک دیس اک بدیسی ‘‘،’’جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی ‘‘،’’ابھی سن لو مجھ سے ‘‘ ،’’دیوانے دو ‘‘ ،’’دفتر گم گشتہ ‘‘ ،’’کوچہ ٔ جاناں جاناں‘‘۔’’پہلو نہ دکھے گا ‘‘،’’میری زبان اور میرا قلم (جلد اول اور جلد دوم )‘‘ ،’’ پھر ایسا نظارہ نہیں ہوگا ‘‘ ،’’مجلس ادب ‘‘ اور ’’ ہاں چھیڑو غزل عاجز‘‘ شامل ہیں ۔
اس کے بعد اس حصہ کو دو زمروں میں تقسیم کیا ہے کلیم عاجز بحیثیت شاعر اور کلیم عاجز بحیثیت نثر نگار ،پہلے زمرے میںعاجز کی شاعری کا تعارف ،امتیازات ، خصوصیات اور موضوعات کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے کلام کے متعلق ان کے کیا خیالات ہیںاور دیگر ناقدین نے ان کے کلام پر کیا کیا تبصرے کیے ہیں مختصر انداز میں پیش کیا ہے جبکہ دوسرے میں نثرنگاری کا تعارف کراتے ہوئے سفرنامہ ،خاکہ، مکتوب نگاری اور تنقید نگاری وغیرہ کو بیان کیا ہے اور نثری اسلوب کا تعارف کرایا ہے اور بطور مثال متعدد کتابوں سے چند اقتباسات پیش کیے ہیں جس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ کس کتاب میں کلیم عاجز نے کس طرح کا اسلوب اختیار کیا ہے اور ان کے موضوعات کیا ہیں ۔مونوگراف کے تیسرے حصہ میں کلیم عاجز کے منتخب کلام کو پیش کیا گیا ہے ،اس میں کلیم عاجز کی منتخب غزلیں ،نظمیں ،نعت اور مرثیہ وغیرہ شامل ہیں ۔
یہ مونو گراف کلیم عاجز کی شخصیت اور فن کو سمجھنے کے لیے بہت ہی اہم ہے ،طباعت بھی بہت عمدہ ہے اور اس لحاظ سے قیمت بھی مناسب ،امید ہے کہ قارئین پسند کریں گے ۔
نئی دہلی
تعارف مصنّفہ:
ان کا پورا نام ڈاکٹر ہادیہ شامخات مسعودی ہے ۔ والد کا نام ڈاکٹر محمد عبدالرؤف ہے ، جو عثمانیہ دواخانہ کے ریٹائرڈ فزیشین ہیں ۔ ان کی پیدائش 1951 میں ہوئی ۔ انھوں نے ساتویں جماعت تک ابتدائی تعلیم بیدر سے ، دسویں جماعت آندھرا میٹرک بورڈ سے اور انٹرمیڈیٹ ویمنس کالج حیدرآباد سے حاصل کی ۔ محترمہ پیشہ سے ڈاکٹر ہیں ۔ انھوں نے گاندھی میڈیکل کالج حیدرآباد سے 1978ء میں ایم بی بی ایس کیا ہے ۔ منسٹری آف ہیلتھ سعودیہ عربیہ میں تین سال لیڈی میڈیکل آفیسر بھی رہی ہیں ۔ 1978 ء میں ان کی شادی ڈاکٹر غلام عباس احمد سے ہوئی ۔ ان کے دو لڑکے اور تین لڑکیاں ہیں ۔
دینی تعلیم سے وابستگی اور قرآن سے رغبت اور لگاؤنے انھیں دینی تعلیم کی طرف متوجہ کیا ، لہٰذا اپنی پیشہ ورانہ مصروفیت کے باوجود انھوں نے مدرسہ عبداللہ بن مسعود (زیر انتظام المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد) سے پانچ سالہ عالمہ کا کورس مکمل کیا اور اب وہ پریکٹس کے علاوہ اسی مدرسہ میں داخلہ لینے والی خواتین کو قرآن و حدیث اور دیگر علوم شرعیہ کی تعلیم دیتی ہیں ۔ اس کے ساتھ لفظی ترجمۂ قرآن کے مراکز میں ہفتہ میں دو دن خواتین کو قرآن پڑھنا بھی سکھاتی ہیں ۔ اس مصروفیت کے دوران میں انھیں احساس ہوا کہ بہت سی خواتین قرآن سے رغبت اور شغف کے باوجود قرآن کو سمجھ کر پڑھنے اور اس کے صحیح معانی و مطالب سمجھنے سے قاصر ہیں _ لہٰذا انھوں نے اس مقصد سے قرآنی الفاظ کی ایک جامع ڈکشنری تیار کی ہے اور اسے کلید الفاظ قرآنی کے نام سے موسوم کیا ہے –
تعارف کتاب:
قرآن کے الفاظ کو سمجھنے اور لفظ لفظ کے معنی کو سمجھ کر اس کی تشریح و تفسیر بیان کرنے کے مقصد سے بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں اور قرآنی الفاظ کے انڈیکس مع معنیٰ تیار کیے گئے ہیں ۔ موجودہ کتاب ’کلید الفاظ قرآنی‘ مکمل قرآنی الفاظ کے معانی ، مادے ، صیغے اور ابواب کی تحقیق پر مشتمل ایک جامع ڈکشنری ہے ۔ 584 صفحات پر مشتمل یہ کتاب اکتوبر 2016ء میں پہلی بار کرسٹل پبلی کیشنرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرز سے شائع ہوئی ہے ۔عرض ناشر اور عرض مرتب کے علاوہ اس کا پیش لفظ مشہور عالم دین مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے لکھا ہے ۔
کتاب کی ابتداء میں فہرست صرف ایک ورق کی ہے ، جس میں سورہ کا نمبر ، سورہ کا نام اور صفحہ نمبر درج ہے ۔ سب سے پہلے اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم اور بسم اللہ الرحمن الرحیم کے لفظی معانی وغیرہ بیان کیے گئے ہیں ۔ اس کے بعد سورۂ فاتحہ سے لے کر سورۂ ناس تک قرآن کے الفاظ کے معانی بیان کیے گئے ہیں ۔ سب سے پہلے آیت نمبر ، پھر اس کے الفاظ ، معانی ، لفظ کا مادہ ، فعل،صیغہ ، مصدر ، باب ، واحد ، جمع بالترتیب مذکور ہیں ۔ زیادہ تر الفاظ کا انتخاب کیا گیا ہے اور ان کے معانی وغیرہ بیان کیے گئے ہیں ، لیکن اس کے باوجود چند الفاظ محترمہ کی گرفت سے رہ گئے ہیں اور ان کا احاطہ نہیں کیا گیا ہے ۔ مثلاً سورۂ الناس میں ملک ، الناس ، یوسوس ، صدور ِاور جنۃ کے الفاظ کے معانی ذکر کیے ہیں، لیکن الہ ، شر ، خناس جیسے الفاظ چھوٹ گئے ہیں ۔ غالبا جو الفاظ اس سے پہلے آچکے ہیں اور جن کا احاطہ دیگر سورتوں میں ہو چکا ہے ان کی تکرار سے بچنے کے لیے ایسا کیا گیا ہے اور ایک لفظ ، جو بار بار آیا ہے اس کی وضاحت بھی ایک ہی جگہ کی گئی ہے ، لہٰذا سورۂ اخلاص میں بھی اسی تکرار سے بچنے کے لیے صرف لفظ الصمد اور کفواً کا معنیٰ بیان کیا ہے ۔
یہ کتاب اردو خواں طبقہ کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے ، خاص طور سے ان لوگوں کے لیے جو کسی اور زبان سے نابلد ہیں ۔ اس کتاب کے ذریعہ الفاظ قرآنی اور ان کے معانی و مفہوم کو بغیر کسی پریشانی کے آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے ۔
مصنفہ نے اس کتاب کو بہتر اور معتبربنانے کے لیے اسے دیگر اصحاب علم کو دکھایا ہے اور ان سے تعاون حاصل کیا ہے ، جس کا اعتراف انھوں نے پیش لفظ میں کیا ہے:
”ابتداءاً میں نے اس کتاب کو استاذ محترم مولانا سرفراز احمد قاسمی کے سامنے پیش کیا اور خواہش کی کہ اس کو مزید مفید بنانے کی بابت مشورہ دیں ، چوں کہ ابتدا میں میں نے صرف الفاظ قرآن ، اسم و فعل کی شناخت اور مادے جمع کیے تھے ، جو آیات نمبر اور سورتوں کی ترتیب پر مشتمل تھے ۔ مولانا موصوف نے حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم سے اس سلسلہ میں مشورہ کیا ۔ حضرت مولانا نے مشورہ دیا کہ بہتر ہو کہ الفاظ کے ساتھ معانی ، صیغے ، مادے اور کلمات کی شناخت کا اضافہ کردیا جائے تو اس کی افادیت دوبالا ہوجائے گی ۔ چنانچہ حضرت والا کے حکم سے المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد کے شعبۂ تخصص فی الحدیث کے چند طلبہ کو اس کام پر مامور کیا گیا اور طلبہ نے ذوق و شوق سے اس کام کو انجام دیا ، لیکن ان کی اپنی تعلیمی اور تحقیقی کاموں کی وجہ سے تقریبا نصف کتاب کا ہی کام ہوسکا۔۔۔۔۔۔پھر مولانا نے مجھے حکم دیا کہ میں خود اس کام کو مکمل کروں اور جہاں ضرورت محسوس ہو آپ سے رابطہ کروں ۔ مولانا کی حوصلہ افزائی اور مسلسل تقاضے کے نتیجے میں یہ کام ہوسکا ۔”
(عرض مرتب،vi،vii)
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ، جنھوں نے اس کتاب کا پیش لفظ لکھا ہے ، وہ اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں :
” انھوں نے بڑی محنت سے قرآن مجید کے الفاظ و معانی کے ساتھ ساتھ اس سے متعلق ضروری نحوی و صرفی تحقیق کو شامل کرتے ہوئے پیشِ نظر کتاب تالیف کی ہے ، جو اس طریقہ پر ترجمۂ قرآن پڑھنے والے مردوں اورعورتوں کے لیے ان شاء اللہ بہت مفید ثابت ہوگی ۔ قابل اطمینان بات یہ ہے کہ اس کو مدرسۂ عبداللہ بن مسعودؓ کے ذمہ دار عزیز مکرم جناب مولانا سرفراز احمد قاسمی بارک اللہ فی حیاتہ و جہودہ نے مکمل طور پر دیکھا ہے _ راقم الحروف نے بھی جابجا اس کام کو دیکھا ہے اور اپنی دانست کے مطابق اسے درست پایا ہے _ دعا ہے کی یہ کتاب عام مسلمانوں کو قرآن مجید سے مربوط کرنے میں مفید ثابت ہو ۔”(پیش لفظ صviii)
ماخوذ از:
خواتین اور خدمتِ قرآن
ڈاکٹر ندیم سحر عنبرین
ناشر : ھدایت پبلی کیشنز ، نئی دہلی
صفحات :376 ، قیمت:350 روپے
شہر کرے طلب اگر تم سے علاجِ تیرگی
صاحبِ اختیار ہو، آگ لگا دیا کرو
شہریت قانون ترمیمی بل (اب ایکٹ) کیخلاف احتجاج کا سلسلہ 4/دسمبرکو آسام اورپھر تریپورہ وغیرہ شمال مشرقی ریاستوں سے شروع ہوا۔ 13/دسمبرکو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباء نے اسکے خلاف ایک پرامن مارچ نکالا۔ یہ بات قابل ذکرہے کہ جامعہ کی تاریخ،ہماری تحریک آزادی کا ایک زریں باب ہے۔ اس کے نام کے ساتھ اگرچہ’اسلامیہ‘شامل ہے، لیکن اس کے کردار کی عظمت اور نظریہ کی وسعت یہ ہے کہ پہلے دن سے ہی اس نے بلاتفریق مذہب وملت ہر قوم کے افراد کو اپنے دامن میں سمیٹا ہے۔ اس کے بانیوں میں مولانا آزاد،شیخ محمودحسن، حکیم اجمل خاں، مولانا محمد علی جوہروغیرہ کے ساتھ گاندھی جی کا نام بھی نمایاں ہے۔ وہ گجراتی تھے۔برطانیہ میں پڑھے تھے۔ تاجرگھرانے سے تعلق تھا۔بقول امت شاہ ’وہ بڑے چَتُر بنیا تھے۔‘بیشک وہ دوراندیش سیاستداں تھے۔ اسی لئے جامعہ کی تحریک کے ساتھ جڑے۔
جامعہ کی تعلیمی بنیادیں استوارکرنے والوں میں ڈاکٹرذاکر حسین، مختاراحمدانصاری اور عابد حسین جیسی شخصیات کا خون جگرشامل ہے۔ یہ ہمارے ملک اورقوم کے وہ روشن ستارے ہیں، جن کی نظرمیں کسی ایک فرقہ کی نہیں، پورے ملک کی عظمت اوربہبود مقدم تھی۔ مسلم ذہن کو جدید تعلیم سے روشناس کرانااسی فکرمندی کا حصہ ہے۔ مگر اس طرح کہ قدیم صالح قدریں، جن کی بنیادیں اسلامی معاشرت میں ہیں، منہدم نہ ہونے پائیں بلکہ مستحکم ہوں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ آج بھی انہی قدروں کا پاسپان ہے۔ اس کے طلباء میں 50فیصد غیرمسلم ہیں۔اساتذہ اوراسٹاف میں بڑی تعداد میں دیگر قوموں کے افراد ہیں۔اورسب گھل مل کررہتے ہیں۔ اس میں بی ایچ یوکی طرح کوئی فیکلٹی ایسی نہیں جس میں غیرمذہب کا داخلہ ممنوع ہو۔ حتیٰ کہ اردو، فارسی اورعربی ہی نہیں، شعبہ اسلامیات بھی سب کیلئے کھلا ہے۔
جب جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباء اوراساتذہ احتجاج کرنے نکلے، تب وہ کسی ایک فرقہ کے درد میں نہیں بلکہ ایک صالح قومی نظریہ کی حفاظت کیلئے نکلے تھے، اوربلاتخصیص تمام فرقوں، علاقوں اور مذہبوں کے نوجوان لڑکے اورلڑکیاں قدم سے قدم ملاکر نکلے تھے۔ میں دل کی گہرائیوں سے جامعہ کے بانیوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اوران طلباء وطالبات، اساتذہ اور اسٹاف کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، جنہوں نے شہریت ترمیمی بل پر، جو دراصل ہماری قومی روح کو مجروح کرتاہے، پرامن احتجاج کی ٹھانی۔ احتجاج کایہ طریقہ ہمیں اپنی تحریکِ آزادی سے ورثہ میں ملا ہے۔جامعہ کو اس ورثے میں کچھ زیادہ حصہ ملاہے۔ یقینا اس احتجاج سے جامعہ کے بانیوں، خیرخواہوں اورفیض پانے والوں کی روحوں کو بڑاسکون ملا ہوگا کہ جامعہ نے اس سبق کو پھردوہرایا ہے جس سے اس کی بسم اللہ ہوئی تھی۔ شاباش طلباء وطالبات، جو اس میں شامل ہوئے پولیس کی زیادتیوں کے باوجود عدم تشدد کی راہ پر اٹل رہے، بالکل گاندھی جی کی طرح۔خاص طورسے طالبات نے مضبوط رویہ اختیار کیا۔ہم جے این یواورمسلم یونیورسٹی کے جیالوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔ اگرانہوں نے جبراورظلم کے اس اندھیرے میں اپنے ضمیر کی شمعیں روشن نہ کی ہوتیں تو ممکن ہے کہ تحریک کچل دی جاتی۔
کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ ہمیں ان کے پس پشت وہ مصلحت نظرنہیں آتی جو خالق کائنات کی نظر میں ہوتی ہے۔ بھلا غورکیجئے اگر’اوپر‘ کے اشارے پر پولس نے جامعہ کے طلباء کے ساتھ زیادتی نہ کی ہوتی، غیرقانونی طورسے یونیورسٹی کمپس میں گھس کرلائبریری، مسجد اورٹائلٹس میں مارپیٹ اورتوڑ پھوڑ نہ کی ہوتی تو کیا اس مہم کو ایسی قومی تائید مل جاتی کہ کم وبیش 33 یونیورسٹیوں کے طلباء حمایت میں نکل آئے۔ان میں سمپورنانند سنسکرت یونیورسٹی بھی شامل ہے۔ بیرون ملک بھی احتجاجو کی جھڑی سی لگ گئی۔اس کی بدولت سول سوسائٹی اٹھ کھڑی ہوئی۔ آپ نے دیکھا بڑے بڑے شہروں میں ہی نہیں چھوٹے بڑے قصبوں اوردیہات تک میں اس شمع کی شعائیں پہنچیں، حالانکہ کال دینے والا کوئی نہیں تھا۔ ایسے پرہجوم مظاہرے ہوئے کہ حکومت ہڑبڑا گئی اوربھاجپا کی سرکاروالی ریاستیں تشدد پر اتر آئیں۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباء کی یہ تائید وحمایت دراصل اس قومی نظریہ کی تائید ہے جس کی بنیاد پرہم نے آزادی کی جنگ جیتی تھی۔ بھلا یہ بات ان لوگوں کی سمجھ میں کیسے آسکتی ہے جنہوں نے تحریک آزادی کی مخالفت اورفرنگیوں کی حمایت کی تھی۔ آخرڈی این اے بھی توکوئی چیز ہے۔نوٹ کیجئے احتجاج کے دوران تشدد کے واقعات صرف بھاجپا سرکار والی ریاستوں میں ہوئے۔ شواہد بتارہے ہیں کہ زیادتی پولیس یا اس کے گماشتوں نے کی۔د ہلی میں بسیں بھی کسی اورنے جلائیں۔تقریباسبھی موتیں پولیس کی گولی سے ہوئیں۔ سب سے زیادہ 19یوپی میں جہاں وزیراعلیٰ نے اعلان کیا تھا، ’سرکاربدلہ لیگی‘ چنانچہ تحریک کوفرقہ ورانہ رنگ دینے کیلئے ایک ہی طبقہ کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔میرٹھ،مظفرنگر، بجنور، سنبھل، فیروزآباداورلکھنؤ وغیرہ میں عوام پر قہرنازل کیاگیا۔ مگرکاٹھ کی ہانڈی زیادہ دیر نہیں چلاکرتی۔ جھارکھنڈ کے رائے دہندگان نے اس کا جواب دیدیا ہے جس نے تنگ نظر ہٹلر پرست حکمرانوں کوسوچنے پرمجبورکردیا ہے۔
بہت سے لوگ سوال کررہے ہیں کہ ملک بھرمیں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ان پرہجوم احتجاجو ں کا کیا فائدہ ہوا؟ حکومت تواس کو واپس لینے کو تیارنہیں؟ بیشک قانون کی واپسی کا امکان نہیں۔ اگرسرکاربدل گئی تب بھی نہیں۔ لیکن دو بڑے فائدے ہوئے ہیں۔ پہلی بارمودی سرکارکے کسی اقدام کے خلاف ملک بھرمیں عوامی آواز اٹھی۔ ان کے حامی پست ہوئے۔ یہ اس کے باوجود ہوا کہ اس کی محرک کوئی سیاسی پارٹی نہیں تھی۔ کسی نے کوئی مدد نہیں کی۔ سب عوام نے خود کیا۔ موجودہ ماحول میں ایسا جو ش وجذبہ ابھرآنا ایک بڑی تبدیلی ہے۔ بعض سیاسی پارٹیوں نے تواس کی ملک گیروسعت اور شدت کے بعد ہی اس کو بھنانے کی تگ ودوشروع ہوئی۔ جب شورپوری بلندی پر پہنچ گیا اورعوام کا موڈ خوب صاف ہوگیا تب نتیش کماربھی بولے،دیگروزرائے اعلی نے بھی این آرسی کے خلاف آواز اٹھائی۔ ورنہ اکیلی آواز ممتابنرجی کی سنائی دیتی رہی۔مگریہ بھی اچھا ہوا کہ سیاسی لیڈرشروع میں نہیں بولے۔ اگربول پڑتے تو پانسہ الٹا پڑسکتاتھا۔ ہماری چندہ بٹورنے والی قیادت خاموش رہی۔اگروہ بول پڑتی تو تحریک کوفرقہ ورانہ رنگ دیدیا جاتا۔
ہاں سب کے ساتھ مسلمان اس تحریک میں شریک ہوئے۔ایسا ہی ہونا چاہئے۔ ازلی مخالفوں نے بھی نوٹ کیا کہ تین طلاق، دفعہ 370 اور اجودھیا فیصلے کے بعد بھی خاموش رہنے والا فرقہ، شہریت ترمیمی قانون کے خلاف کیوں اٹھ کھڑا ہوا؟ اسی لئے اس تحریک پر فرقہ پرستی کا لیبل لگانے میں کامیابی نہیں ملی۔ حالانکہ مودی جی نے جھارکھنڈ کی ریلی میں یہ کہہ کر کہ قانون کے مخالفوں کو کپڑوں سے پہچانو، اس کو فرقہ ورانہ رخ دینے کی چال چلی تھی۔ بھاجپا کے کچھ چھوٹے لیڈروں کے بھی ایسے ہی بیا ن آئے تھے جن سے ظاہرہوا کہ ان کو عوام کی موڈ کی سمجھ ہی نہیں آئی۔
بھاجپا کی دہلی ریلی:اس ملک گیر تحریک کا توڑ کرنے کیلئے بھاجپا نے گزشتہ اتوار 22دسمبر دہلی میں ایک ریلی کی۔ کرسیاں دورتک لگی تھیں مگربہت سی خالی رہیں۔ بعض شرکا نے کیمرے پربتایا کہ ان کو دو، دو سوروپیہ دے کرلایا گیا۔ جب ان سے پوچھا کہ کیا دہلی کے چناؤمیں بھاجپاکو ووٹ دوگے تونا کہہ دیا۔ دہلی والوں کا جواب تھا، مودی جی نے وعدے پورے نہیں کئے۔ لیکن اگلی کرسیوں پرپارٹی کے ورکر ضرورنعرے لگاکر نمایاں ہونے کی کوشش کرتے رہے۔
اس ریلی میں مودی جی نے اعلان کیا کہ ملک بھرمیں این آرسی (شہریت کا قومی رجسٹر)لانے پر حکومت نے غور ہی نہیں کیا۔انہوں نے الزام لگایا کہ یہ افواہ اپوزیشن نے پھیلائی ہے۔ ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ خود وزیر داخلہ اورپارٹی کے صدرامت شاہ اوردیگروزیروں نے پارلیمنٹ میں کئی بار اعلا ن کیا کہ این آرسی پورے ملک میں لاگوکیا جائے گا۔امت شاہ نے شہریت ترمیمی بل پر بحث کے دوران کہا تھا،’ترتیب سمجھ لیجئے۔ اس کے بعد این سی آرآئے گا جو پورے ملک پرلاگوہوگا۔‘ ایک جلسہ میں کہاکہ1924سے پہلے، تمام’گھس پیٹھیوں‘ کو نکال باہر کیا جائے گا۔ یہی بات مغربی بنگال میں پارٹی کارکنوں کے جلسے میں اور جھارکھنڈ کی انتخابی ریلی میں کہی۔ پارٹی کے کارگزارصدر جے پی نڈا نے بھی دہلی ریلی سے دو دن پہلے 20/دسمبرکو کہا کہ این آرسی تولایا جائے گا۔ لیکن اب پردھان منتری کے اس اعلان اور وزیر داخلہ امت شاہ کے اے این آئی کو انٹرویو سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس کیڑے نے اپنے پنجے سمیٹ لئے ہیں جو اس شرکو پھیلانے کیلئے ذہنوں میں کلبلارہا تھا۔ یہ اس ملک گیر تحریک کی بڑی کامیابی ہے۔ اگریہ تحریک اس قدر زور دار طریقے سے نہ اٹھتی اورساتھ ہی جھارکھنڈ میں پارٹی کا جھنڈا نہ اکھڑ گیا ہوتا تو پوری قوم آسام کی طرح اس عذاب میں مبتلا کی جاتی۔ پریشان توسبھی ہوتے مگراس کے زدقبائلی باشندوں، دلتوں، غریبوں،ناخواندہ لوگوں اورخاص طور سے اقلیتوں پر پڑتی۔ غیرمسلموں کو شہریت دیدی جاتی اورمسلمان حق رائے دہی سے محروم کردئے جاتے۔ اس الٹ پھیر کا سہرا طلباء اوراُس نظریہ کے سرہے جس کی اساس ہندستان کا آئین ہے۔یہ ظلم کے خلاف حق کی جیت ہے، جو ہندستان جیسے ملک میں ہی ممکن ہے، جس کے باشندو ں کے خمیر میں مہمان نوازی اورتواضع شامل ہے۔
آپ کویاد ہوگا کہ مئی میں پارلیمانی چناؤ کے بعد مودی جی نے کہا تھا کہ اس چناؤ کی خاص بات یہ رہی کہ کسی نے سیکولر زم کا نام تک نہیں لیا۔ انہوں نے ٹھیک کہا تھا۔ بیشک یہ لفظ سیاستدانوں کے زبانوں پر نہیں آیا تھا، لیکن لاکھوں دلوں اور دماغوں میں محفوظ تھا جس کا مظاہرہ اس تحریک کے دوران ہوگیا۔ یہاں ایک وضاحت کرتا چلوں۔ بعض لوگ سیکولرزم کا مطلب مذہب سے بے تعلقی اوردین بیزاری سمجھتے ہیں۔ ہندستان کے پس منظرمیں اورہمارے آئین کے مطابق سیکولر ریاست کا مطلب ہے، مذہب کی بنیاد پرکسی شخص سے کوئی بھید بھاؤ نہیں۔ سرکار کا اپنا کوئی مذہب نہیں اور ہرکسی کو پھلنے پھولنے کی آزادی۔ ہمیں برادرانِ وطن کا ممنون ہونا چاہئے کہ نہایت سخت مخالف ماحول اورہندتووا کا زور ہونے کے باجود ریاست کے سیکولرکردار پر حملہ کرنے والے قانون کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اوربرملا اہل اسلام سے اظہاراتحاد کیا۔ ہر شب کا خاتمہ نئی سحرسے ہوتا ہے۔ ہم اپنے عمل اورکردار سے امن ومحبت اوردینی قدروں کا پیغام دیتے رہیں تو وہ سحرنمودار ہوکر رہے گی۔ بقول سروربارہ بنکوی:
نہ ہو مضمحل میرے ہم سفر، تجھے شاید اس کی نہیں خبر
انہی ظلمتوں کے دوش پر ابھی کاروانِ سحر بھی ہے