دیوبند:(سمیر چودھری)دارالعلوم دیوبند کے میڈیا ترجمان و شعبہ محاسبی کے سابق ناظم اور مسلم فنڈ ٹرسٹ دیوبند کی منتظمہ کمیٹی کے رکن ،صحافی اور ادیب عادل صدیقی کا طویل علالت کے بعدآج اپنی رہائش گاہ محلہ خواجہ بخش میں تقریباً 91سال کی عمر میں انتقال ہو گیا ۔ان کے انتقال کی خبر پر دارالعلوم دیوبند کے ذمہ داران شہر کے سرکردہ افراد نے رہائش گاہ پر پہنچ کر اہل خانہ کو تعزیت مسنونہ پیش کی ۔مرحوم کافی دنوں سے صاحب فراش تھے ۔عادل صدیقی نے اعلیٰ تعلیم مکمل ہونے کے بعد سہارنپور ،مظفر نگر اور سیوہارا میں تدریسی خدمات انجام دیں ۔بعد ازاں وہ حکومت ہند کے اطلاعات و نشریات کے محکمہ سے بطور اسٹنٹ انفارمیشن آفیسر منسلک رہے ۔ 1981میں اپنے ریٹائرڈمنٹ کے بعد قومی آواز،الجمعیۃ اور آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ رہے ، اسی کے ساتھ ساتھ ماہنامہ یوجنا اور آج کل کے نائب مدیر اعلیٰ کے طور پر بھی خدمات انجام دیں ۔عادل صدیقی اردو اور انگریزی زبانوں کے ماہر تھے ملک میں مختلف رسائل ،میگزین اور اخبارات میں ان کے مضامین اور تجزیے تسلسل کے ساتھ شائع ہوتے رہتے تھے ۔انہوںنے انگریزی زبان کی متعدد کتب کا اردو میں ترجمہ بھی کیا ۔ریٹائر منٹ کے بعد عادل صدیقی دیوبند واپس آ گئے اور دارالعلوم دیوبند کے دفتر محاسبی کے ناظم اور ادارہ کے ترجمان کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے ۔اس دوران وہ آل انڈیا ریڈیو کے مخصوص پروگرام ’’اردو سروس‘‘کے مختلف پروگراموں میں عرصہ دراز تک شرکت کرتے رہے ۔عادل صدیقی کی وفات پردارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی نے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے مرحوم کے لیے دعاء مغفرت کی۔مسلم فنڈ ٹرسٹ دیوبند کے منیجر سہیل صدیقی ،سابق چیئر مین انعام قریشی اور یوپی رابطہ کمیٹی کے سکریٹری ڈاکٹر عبید اقبال عاصم نے اپنے تعزیتی پیغامات میں عادل صدیقی کی وفات کو اردو صحافت کا بڑا حادثہ قرار دیا۔انہوںنے کہا کہ عادل صدیقی نے صاف ستھری صحافت کے جو نقوش ثبت کئے ہیں ہو نئی نسل کے لئے مشعل راہ ہیں ۔ان کا انتقال دنیائے اردو صحافت کا عظیم نقصان ہے ۔انہوںنے کہا کہ مرحوم کی خوش اخلاقی و خوش مزاجی ضرب المثل تھی ۔ملک کے صحافیوں میں بلند قامتی کے باوجود ان کی عاجزی و انکساری قابل دید و لائق تقلید تھی ۔اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے ۔ دیوبند کے تمام صحافیوں اور سینئر صحافی اشرف عثمانی نے بھی عادل صدیقی کی وفات کو صحافت کا خسارہ عظیم قرار دیا ۔نماز جنازہ بعد نماز عصر احاطہ مولسری میں دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی نے ادا کرائی ،بعد ازاں قاسمی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی ۔
میڈیا
الیکٹرانک میڈیاکی نفرت انگیزمہم پرعدالت کوحکم جاری کرناچاہیے،سپریم کورٹ میں عرضی داخل
نئی دہلی:سدرشن ٹی وی کیس میں ڈاکٹر کوٹا نیلیما نے الیکٹرانک میڈیامیں نفرت انگیزپروگراموں کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے۔کانگریسی لیڈر کی اہلیہ سنگیتا تیاگی نے بھی ان کے ساتھ ایک عرضی داخل کی ہے۔ انہوں نے کہاہے کہ وہ اس معاملے پر عدالت کی مددکرناچاہتی ہیں۔درخواست گزاروں کاکہنا ہے کہ ان دنوں ایک مستحکم اور تقریباََناقابل تردید رجحان واضح طور پر نظر آرہا ہے ، جس میں ٹی وی اینکرز اور ٹی وی مباحثوں میں نفرت انگیز بیانات واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں۔یہ وہ وقت ہے جب عدالت عظمیٰ کو ان ٹی وی اینکرز اور مباحثوں کے دوران آزادی اظہار رائے کے تحت ان کی نفرت انگیز تقریر پر توجہ دینی چاہیے۔ عدالت کواس لعنت سے نمٹنے کے لیے ایک حکم پاس کرنا چاہیے۔ درخواست گزاروں نے یہ بھی کہاہے کہ عدالت ٹی وی اینکروں کے لیے طریقہ کارتیارکرنے اوربحث کے لیے درجہ بندی کے لیے ایک پینل مقرر کرے۔اس پینل کوچینل کولائسنس معطل یامنسوخ کرنے کااختیار ہوناچاہیے۔
عبدالباری قاسمی
ریسرچ اسکالر دہلی یونیورسٹی
میڈیا اور ماس میڈیا کا اطلاق ذرائع ابلاغ پر ہوتا ہے ،اگر اس کی روایات کا جائزہ لیا جائے تو تخلیق انسانی سے ہی اس کا رشتہ جڑا ہوا معلوم ہوتا ہے،یہ الگ بات ہے کہ ہر دور میں ابلاغ کے طریقے مختلف رہے ہیں ،ابتدا میں اشارات کے ذریعہ ابلاغ کا کام لیا جاتا تھا پھر زبان ایجاد ہوئی،پھر تحریر یہ بھی مختلف ادوار سے گزر کر خط اور حروف تک پہنچی ،ابتدا میں چمڑے ،درختوں کی چھال اور ہڈی وغیرہ پر لکھنے کا رواج ہوا اس کے بعد کپڑے پھر طویل زمانہ کے بعد کاغذ کی ایجاد عمل میں آئی اور اس طرح ذرائع ابلاغ کا عمل بڑھتے بڑھتے خبرنامہ تک پہنچ گیا ۷۵۱ ق م میں رومن راج میں ایک قلمی خبرنامہacta durnaکے نام سے جاری ہوتا تھا اس پہلے خبرنامے کا تذکرہ نہیں ملتا پھر ۱۵۶۶ء میںvanisشہر میں ایک شخص حکومت وقت کی طرف سے تیار کردہ خبری مواد لوگوں کو سناتا تھا اور ایک گزیٹا وصول کرتا تھا اس کے بعد انگلستان نے اس باب میں ترقی کی اور news sheetکے نام سے خبرنامہ جاری ہوا ،۱۶۰۹ء میں جرمنی سے باضابطہ مطبوعہ اخبار کی اشاعت شروع ہوئی وہ سلسلہ ہندوستان بھی پہنچا اور اشوک و مغل کے عہد ہوتے ہوئے انگریزی عہد میں ہکز بنگال گزٹ کے نام سے باضابطہ اخبار کا آغاز ہوا ، اس کے بعد جو ترقی شروع ہوئی تو میڈیا نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور اخبارات ،ریڈیو اور ٹیلی ویژن تمام وسائل یہاں بھی مہیا ہو گئے اور جام جہاں نما اور اردو اخبار سے لے کر ہزارو ں اخبارات اردو سمیت درجنوں زبانوں میں چھپ رہے ہیں اور لوگوں کی خبری ضرورتوں کو پوری کر رہے ہیں ،یہ الگ بات ہے کہ میڈیا کے مسائل آج جدا گانہ ہیں وہ پہلے کی طرح سچی صحافت کا نمونہ نہیں پیش کر پا رہی ہے اور بہت سے لوگ ذاتی مفاد کے لیے اس کا استعمال کر رہے ہیں جو انتہائی مہلک اور مضر ہیں اس چیز نے میڈیا کے ہی باوقار پیشہ پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
میڈیا اور ماس میڈیا : میڈیا اور ماس میڈیا دونوں انگریزی لفظ ہیں media کے لغوی معنی ذریعہ اور massکے معنی لوگ یا بڑے پیمانے پر ہوتا ہے ؛البتہ ماس میڈیا کے معنی ذرائع ابلاغ آتے ہیں ،اصطلاحی اعتبار سے میڈیا کہا جاتا ہے حقائق ،اخبار،اور آراء کو مختلف ذرائع ابلاغ کے ذریعہ لوگوں تک پہنچانا ہے یہ ابلا غ مختلف طریقے سے ہوتا ہے اولا اسے دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔
۱۔پرنٹ میڈیا : اس زمرہ میں اخبارات و رسائل ،کتب اور پمفلٹ وغیرہ آتے ہیں
۲۔الیکٹرانک میڈیا: اس زمرہ میں وہ تمام چیزیں آتی ہیں جن کے ترسیل میں ہمیں برقیات کی ضرورت پڑتی ہے ،اس کو ہم دو حصو ں میں تقسیم کر سکتے ہیں ،۱۔سمعی اس زمرہ میں ریڈ یو ،ٹیلیفون اور وائر لیس وغیرہ کو شامل کرسکتے ہیں ،۲۔ سمعی بصری اس حصہ میں ٹیلی ویژن وغیرہ شامل ہیں۔
میڈیا منظر پس منظر: اگر میڈیا کے پس منظر کا جائزہ لیا جائے تو اس کا رشتہ تخلیق انسانی سے ہی جڑا معلوم ہوتا ہے ؛اس لیے کہ دنیا میں جب انسانوں کی تخلیق ہوئی تو انہیں ایک دوسرے تک پیغام پہنچانے کی ضرورت پڑتی ہوگی ؛مگر ابتدا میں اشاروں کے ذریعہ یہ کام عمل میں آنے لگا ،پہلے یہ اشارے ذاتی تھے پھر عوامی بن کر سامنے آئے ،پھر ایک لاکھ سال قبل مسیح غیر ترقی یافتہ زبان (Embryonic)کی شروعات ہوئی جس نے میڈیا اور ابلاغ کے عمل کو کافی تقویت پہنچائی اور اپنی بات بہت سے لوگوں تک پہنچانا آسا ن ہو گیا،ان آوازوں میں بھی صوتی اشارے ہونے لگے ابتداء میں ذاتی اور پھر عوامی ؛مگر یہ زبان اور آواز موجود لوگوں تک ہی پہنچائی جا سکتی تھی اور اسے محفوظ رکھنے کا ذریعہ بھی نہیں تھا ،اس ضرورت کے پیش نظر تحریر کی ایجاد ہوئی ،تیس ہزار سال قبل مسیح کے بہت سے ایسے پتھر اور دیگر ساز و سامان ملتے ہیں جن پر ہمیں ایسی لکیریں ملتی ہیں جو تحریر کی ایجاد کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور اندازہ ہوتا ہے کہ انسانوں نے بہت پہلے ہی تحریر ایجاد کر دیا تھا ،دس ہزار سال قبل مسیح بیل وغیرہ کی تصویر بنا کر اور مختلف لائنیں کھینچ کر تصویری خط کی ایجاد ہوئی ،پھر جوں جوں زمانہ ترقی کرتا گیا یہ تصویریں مختصر ہوتی گئیں اور لکیروں میں بدل گئیں اور پھر علامتی خط کی شروعات ہوئی ،پھر انہیں علامتوں نے حروف تہجی کی شکل اختیار کی اور اس طرح تمام حروف کے آواز متعین ہوگئے اور اس طرح ہر عہد میں ابلاغ کا عمل جاری رہا اور لوگ ایک دوسرے تک اپنے خیالات ،افکار ،آرااور اطلاعات پہنچاتے رہے اور ۷۵۱ ق م میں ایک قلمی خبرنامہ acta durna جاری ہوا محققین یہیں سے پرنٹ میڈیا کا آغاز بتلاتے ہیں؛مگر اس دور میں کاغذ موجود نہیں تھا لوگ چمڑے ،پتھر ،ہڈی اور درخت کے چھال وغیرہ پر لکھتے تھے ،اس سمت میں چین نے ترقی کی اور ریشم کے کپڑوں پر کتب،رسائل اورخبرنامے لکھے جانے لگے ؛مگر ریشم کمیاب بھی تھا اور مہنگا بھی اس لیے بہت زیادہ استعمال نہیں کر سکتے تھے ،اس ضرورت کو چین کے تساہل لن نامی شخص نے پرانے سوتی کپڑوں،لکڑی کی چھلن اور دیگر بوسیدہ چیزوں کو شامل کرکے ۱۰۵ء میں کاغذ ایجاد کیا ،جس نے میڈیا کے ارتقاء میں اہم کردار اداکیا اس کے بعد ایران میں عربوں کے قابض ہونے کے بعد آٹھویں صدی عیسوی میں سمر قند میں کاغذ کا پہلا کارخانہ قائم ہوا اس کے بعد مختلف ذرائع کے ذریعہ ہر دور میں ابلاغ کا عمل جاری رہا اور ۱۵۶۶ء میں vanisشہر میں ایک شخص قلمی نوٹ لے کر کھڑے ہوکر خبریں سناتا تھا اور ہر خبر سننے والے سے وہاں کا رائج سکہ ’’گزیٹا‘‘ وصول کرا تھا اسی گزیٹا سے گزٹ نام پڑا اور آج اخبارات اور بہت سے سرکاری کاغذات پر گزٹ کا اطلاق ہوتا ہے ،سولہویں صدی کے سلسلہ میں ایک رپورٹ ملتی ہے کہ انگلستان میں اگر کوئی ،واقعہ ،حادثہ یا ایسا معاملہ پیش آتا جس کا تعلق عوام سے ہو تو حکومت news sheetکے نام سے ایک خبرنامہ جاری کرکے عوام کو اطلاع دیتی تھی ،اس کے علاوہ اس عہد میں ڈرامے وغیرہ بھی واقعات کو عملی شکل میں پیش کرکے ابلاغ کا فریضہ انجام دے رہے تھے ،سنیما اور فلم کے ایجاد میں ڈرامہ کو اہم کڑی کہا جا سکتا ہے ۔
پرنٹ میڈیا: اگر ہم تحریری میڈیا کی بات کریں تو طباعت کے آغاز سے قبل ہی ہمیں اس کے نمونے ملتے ہیں ،عتیق صدیقی نے اس تعلق سے لکھا ہے کہ ’’حضرت مسیح سے کوئی ۷۵۱ برس پہلے رومن راج میں روزانہ ایک قلمی خبرنامہ جاری کیا جاتا تھا ،جس میں سرکاری اطلاعیں ،نیز میدان جنگ کی خبریں ہوتی تھیں اس قلمی خبرنامہ کو ’’اکٹا ڈیورینا‘‘ کہتے تھے ،یہ لاطینی زبان کے الفاظ acta اور diurnaسے مرکب ہے ،اول الذکر کے معنی ہیں کارروائی اور مؤ خر کے معنی ہیں روزانہ ،(ہندوستانی اخبار نویسی کمپنی کے عہد میں )اس کے علاوہ سولہویں صدی میں وینس شہر اور انگلستان میں بھی خبر رسانی کے قلمی ذرائع کی اطلاع ملتی ہے ؛مگر تحقیق کے مطابق دنیا کا پہلا مطبوعہ اخبار 1609ء میں جرمنی سے جاری ہوا تھا ،جس کا نام Avisa relation oderzeitung تھا ،اس کے بعد 1611ء میں برطانیہ’ سے نیوز فرام اسپین‘‘جاری ہوا تھا چوں کہ یہ پورے طور پر اخباری شکل میں نہیں تھا ؛اس لیے بعض لوگ اسے باضابطہ اخبار نہیں مانتے ،پہلا باضابطہ انگریزی اخبار 1620ء میں برطانیہ سے جاری کیا گیا جس کا نام ’’ویکلی نیوز ‘‘ تھا ،پھر 1631ء میں فرانس سے ’’گزٹ ڈی فرانس ‘‘امریکہ کے بوسٹن شہر سے 1690ء میں ’’پبلک آکرنریسیز‘‘( public occuranerices )اور 1702ء میں لندن کا پہلا روزنامہ اخبار ’’لندن ڈیلی کورانٹ ‘‘ شائع ہوا ،اس طرح پوری دنیامیں یہ سلسلہ جاری ہو گیا اور بیسویں صدی تک پہنچتے پہنچتے ہر ملک میں سینکڑوں اخبارات نظر آنے لگے ۔
ہندوستان میں میڈیا کا آغاز اور پرنٹ میڈیا: ہندوستان میں بھی قدیم زما نہ ہی سے خبر رسانی اور ابلاغ کا عمل شروع ہو چکا تھا،منو مہاراج پہلے شخص ہیں جنہوں نے ہندوستان میں خبر رسانی کا دستور مقرر کیا تھا ،اس کے علاوہ بادشاہ اشوک کے عہد میں باضابطہ خبر رسانی کا محکمہ بن گیا تھا اور اس میں وقائع نگار ،خفیہ نویس،سوانح نگار اور ہر کارے کو ملازمت دی گئی تھی تاکہ mediaکا نظام مضبوط ہو سکے ،اس کے بعدشیر شاہ سوری کاجب عہد آیا تو انہوں نے ڈاک اور خبر رسانی کا بہت ہی منظم اور مستحکم نظام مقرر کر دیا ،عہد مغلیہ میں اخبار نویسی کا سلسلہ پروان چڑھا اور 1660ء میں ایک اور اخبار سامنے آیا ،اکبر کے عہد میں اس کا نام ’’دربار معلی‘‘ تھا شاہ جہاں نے اس کا نام ’’اخبار دارالخلافہ شاہ جہاں آباد‘‘ کر دیا،اس کے علاوہ اورنگ زیب نے بھی اخبار نکالنے میں اہم کردار ادا کیا اور بہادر شاہ ظفر کے عہد میں ’’سراج الاخبار‘‘ نام سے ایک اخبار نکلتا تھا ،چوں کہ اس سے پہلے ہندوستان میں طباعت کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا ،اس لیے تمام اخبارات قلمی ہوتے تھے مطبوعہ اخبارات کا آغاز اٹھارہویں صدی کے آخری دہائیوں میں ہوا ،1768ء میں مسٹر بولٹس نے کلکتہ کو نسل ہاؤس کے دروازہ پر ایک اشتہار چسپاں کرکے اخبار شروع کرنے کی کوشش کی؛مگر انہیں کامیابی نہیں ملی ،اس سلسلہ میں جو شخص سب سے پہلے کامیاب ہوا وہ جیمس آگسٹن ہکی ہے اس نے ۲۹ جنوری ۱۷۸۰ء کو ہندوستان کا پہلا باضابطہ انگریزی اخبار ’’ہکز بنگال گزٹ‘‘ یا’’ کلکتہ جنرل ایڈور ٹائزر‘‘کے نام سے جاری کیا ،یہ ہفت روزہ تھا ،اس کے نو مہینے کے بعد ۱۷۸۰ء نومبر میں ’’انڈیا گزٹ‘‘ کے نام سے دوسرا اخبار جاری ہوا ،اس نے بہت ترقی کی پہلے ہفت روزہ ،سہ روزہ اور پھر یک روزہ کی شکل میں اس کی اشاعت شروع ہوئی ،اس کے بعد مسٹر فرانسس کے زیر ادارت ’’کلکتہ گزٹ اورینٹل ایڈورٹائزر‘‘ کے نام سے ۴ مارچ ۱۷۸۴ء کو شروع ہوا پھر ۱۷۹۱ء میں ’’بمبئی آبزرور‘‘ کی شروعات ہوئی اس کے بعد مسٹر ولیم نے ۱۷۹۵ء میں ہفت روزہ ’’مدراس گزٹ جاری کیا ،اس خبار کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں انگریزی ،گجراتی،مراٹھی ،کنڑ اور اردو زبانوں میں اشتہارات چھپتے تھے اس طرح ہندوستان میں اخبارات کا سلسلہ دراز ہوتا گیا اور کتابوں وغیرہ کی طباعت کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی مقامی زبانوں میں بھی اخبارات شائع ہونے لگے ۔
اردو پرنٹ میڈیا: ہندوستان کے ساتھ انگریزوں کا رویہ چاہے جیسا بھی رہا ہو مگر اردو زبان اور اس کے رسم الخط کے سلسلہ میں انہیں مخلص ہی کہنا پڑتا ہے ،جان گلکرائسٹ ایسا شخص ہے جس نے ۱۸۰۱ء میں اردو اور فارسی رسم الخط کا مطبع شروع کیااور فارسی و اردو زبان میں اشاعتوں کا سلسلہ شروع ہوا ،راجہ رام موہن رائے نے فارسی زبان میں ’’مراۃ الاخبار‘‘ کے نام سے اخبار نکالا پھر جام جہاں نما پھر منشی سدا سکھ لال کی ادارت میں ۱۸۲۲ء میں ارفو اخبار کی بھی شروعات کی ،چوں کہ اس وقت فارسی کا بہت غلبہ تھا ،اس لیے اس اخبار کی زبان بھی فارسی آمیز تھی ،پھر دہلی اردو اخبار کے نام سے ۱۸۳۷ء میں محمد حسین آزاد کے والد مولوی محمد باقر نے اخبار شروع کیا ، ،پھر سر سید احمد خاں کے بھائی سید محمد خاں نے ۱۸۳۸ء میں سید الاخبار نام سے اخبار شروع کیا ،اسی زمانہ میں صادق الاخبار بھی جاری ہوا پھر ۱۸۵۰ء میں لاہور سے منشی ہر سکھ رائے نے ’’کوہ نور‘‘ جاری کیا ، اس کے بعد ایک پادری نے ۱۸۵۷ ء میں مرزا پور سے ’’خیر خواہ ہند ‘‘ جاری کیا ،پھر دہلی کالج کے پرنسپل اسپرنگر نے ۱۸۴۵ء میں ہفت روزہ اخبار قران السعدین جاری کیا ،اس کے بعد ماسٹر رام چند نے فوائد الناظرین کے نام سے اخبار جاری کیا ،پھر سر سید نے ہفت روزہ اخبار سائنٹفک سوسائٹی جاری کیا ،جس کی ابتدا ۱۸۶۶ء سے ہوئی ،پھر تہذیب الاخلاق ،اودھ پنچ (۱۸۷۷)،پیسہ اخبار(۱۸۶۳)،اردوئے معلی (۱۹۰۳)زمیندار(۱۹۰۳)،الہلال (۱۹۱۲)،مدینہ بجنور (۱۹۱۲) اور ہمدرد (۱۹۱۳ )نے ہندوستان کی اردو صحافت میں اہم کردار ادا کیا ، اس کے بعد جو اردو صحافت کی ترقی کا سلسلہ شروع ہوا تو آج تک یہ جاری ہے اور پورے ملک میں سینکڑوں اخبارات پابندی سے منظر عام پر آتے ہیں ،جن میں انقلاب ،سہارا،منصف ،قومی تنظیم،اخبار مشرق،ہندوستان ایکسپریس او ہمارا سماج وغیرہ شامل ہیں،اس کے علاوہ ہزاروں اردو اخبارات پورے ملک میں رجسٹرڈ ہیں ،ہندوستان کی مشہور و معروف نیوز ایجینسی یو این آئی میں ۳۰ دسمبر ۲۰۱۵ء کو آر این آئی کے ڈائرکٹر کے حوالہ سے ایک رپورٹ شائع ہوئی ،جس میں یہ کہا گیا کہ’’ہندوستا میں اردو کے اخبارات و رسائل کی چار کروڑ ۱۲ لاکھ ۷۳ ہزار ۹۴۹ کاپیاں شائع ہوتی ہیں ‘‘اس رپورٹ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہندوستان میں اردو پرنٹ میڈیا نے کس قدر برق رفتاری سیاپنا پاؤں جمایا اوررہا مالی وسائل کا معاملہ تو اردو اخبارات والے ابتدائی دور میں بھی اس چیز کا رونا روتے تھے اور آج بھی روتے نظر آتے ہیں چاہے انہیں اس دور میں مراعات اور وسائل جو بی مہیا ہوں۔
الیکٹرانک میڈیا: الیکٹرانک میڈیا سے مراد وہ میڈیا ہے جہاں برقی ذرائع استعمال کرکے پیغام رسانی کا عمل کیا جائے ،اس کی ابتدا ٹیلی گراف ،ٹیلی فون اور وائر لیس سے ہوئی ،پھر ریڈیو ،اس کے بعد فوٹو گرافی سے فلم ،سنما اور ٹیلی ویژن کی شروعات ہوئی اور آج الیکٹرانک میڈیا ترقی کرکے موبائل ،انٹر نیٹ اور دیگر ذرائع تک پہنچ چکی ہے ،الیکٹرانک میڈیا کی شروعات کا سہرا samuelf.b.morse کے سر جاتا ہے ،انہوں نے اپنے دوست الفریڈ ویل کے ساتھ مل کر۲۴ مئی ۱۹۴۴ء کو واشنگٹن سے مالٹی مور پیغام بھیج کرٹیلی گراف کی شروعات کی اس کے بعد سائنسدانوں نے ہو بہو آوام منتقل کرنے کی کوشش کی اور اسکاٹ لینڈ کے گراہم بیل نامی شخص نے ۱۸۷۶ء میں ٹیلی فون ایجادکیا ،اس کے بعد وائر لیس کے سلسلہ میں کوشش شروع ہوئی جس میں تار نہ ہو ،پھر میکس ویل نے وائر لیس کا نظریہ پیش کیا اور اس سے تحریک پاکر اٹلی کے اکیس سالہ نوجوان گوگلیمو مارکونی نے تجارتی نقطۂ نظر سے کوشش کی اور وائر لیس ایجاد کرنے میں کامیاب بھی ہوگیا یہاں سے الیکٹرانک دنیا میں جو ترقی شروع ہوئی تو دن دوگنی اور رات چوگنی اس کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا اور آج تک جاری ہے روزانہ سائنسداں حضرات نئی نئی چیزیں ایجاد کر رہے ہیں اور دنیا کو متحیر کر رہے ہیں ۔
ریڈیو آغاز و ارتقاء : وائرلیس سے تحریک پاکر سائنسداں حضرات نئی حصولیابیوں میں لگ گئے ،ریڈیو ایجاد ہونے سے پہلے تمام طرح کے پیغامات کوڈ) code)کے ذریعہ ہی بھیجے جاتے تھے ،اب کوشش ہونے لگی کہ بغیر کوڈ کے پیغام پہنچایا جا سکے اور ۱۹۰۶ء میں fesendenنامی شخص نے برنٹ راک ماس نامی تجرباتی اسٹیشن سے کرسمس کے موقع پر پروگرام نشر کرکے اس کی شروعات کی ،پھر لی ڈی فارٹ نے نیو یارک کے میٹرو اسٹیشن سے ۱۹۱۰ء میں پروگرام نشر کیا اور امریکے نے ۱۹۲۰ء میں kdkaکے نام سے پہلے ریڈیو اسٹیشن کا آغازکیااس کے بعد اس قدر تیزی سے ترقی کا سلسلہ شروع ہوا کہ صرف امریکہ میں ۱۹۲۰ء سے۱۹۲۵ء تک ۵۷۰ ریڈیو اسٹیشن براڈ کاسٹ ہونے لگے ،پھر برطانیہ میں B.B.Cقائم کیا گیا ،اس طرح ریڈیو نے پوری دنیا میں انقلاب برپا کردیا اور ۱۹۴۷ء میں ٹرانسمیٹر کی شروعات ہوئی ،جس نے مزید چار چاند لگا دیا۔
ہندوستان میں ریڈیو : ہندوستان میں ریڈیوکا پہلا تجربہ ۱۹۲۱ء میں پوسٹ اینڈ ٹیلی گراف کے اشتراک سے موسیقی کا پروگرام نشر کر کے ہوا ،پھر ۱۹۲۲ء میں ریڈیو کلب آف بنگال نے ایک نشریاتی اسٹیشن قائم کیا ،اس کا پہلا پروگرام ۱۹۲۳ء میں نشر ہوا ،پھر ۱۹۲۴ء میں ممبئی ریڈیو کلب اور ۱۶مئی ۱۹۲۴ ء کو مدراس پریزیڈینسی ریڈیو کلب کا قیام عمل میں آیا ؛مگر اس کمپنی کا دیوالیہ ہوگیا ،اس کے بعداپریل ۱۹۳۰ء میں حکومت نے ریڈیو کو اپنے ماتحت میں لے کر نئے سرے سے کام شروع کرایا ،پہلے اس کا نا انڈین براڈکاسٹنگ رکھا ،پھر ۱۹۳۶ء میںآل انڈیا ریڈیو اور ۱۹۹۷ء میں پرسار بھارتی کے نام سے خو داختیاری نشریاتی کارپوریشن کی شروعات ہوئی ،اس طرح ریڈیو ترقی کرتا چلا گیا ،ویسے تو ریڈیو پر ہر طرح کے پروگرام نشر کیے جاتے ہیں بطور مثال چند پروگرام،(۱)ریڈیو ٹاک(۲)انٹر ویو (۳)مذاکرہ(۴)کوئز(۵)شاعری (۶)ریڈیو ڈراما (۷)ڈاکو منٹری (۸)فیچر (۹)میگزین (۱۰)رپورٹ (۱۱)نیوز ریل (۱۲)خبریں(۱۳)ٹاک شو(۱۴)رواں تبصرہ (۱۵)آنکھوں دیکھا حال(۱۶)فلمی گانوں پر مبنی پروگرام (۱۷)فون ان پروگرام (۱۸)ریڈیو برج پروگرام (۱۹)موسیقی پروگرا م وغیرہ ۔
فلم اور سنیما : ریڈیو پر سن ہی سکتے تھے ؛مگر دیکھ پانا ممکن نہیں تھا اس لیے سائنس داں حضرات ایسی چیز کی ایجاد میں مصروف ہوئے جس میں دکھائی بھی دے اور سنیما کے ذریعہ اس خواب کو پورا کرنے کی ابتدا کی اسی کے ذریعہ تصویری ابلاغ کا سلسلہ بھی شروع ہوا اور یہ سلسلہ فوٹوگرافی کے ذریعہ شروع ہوا ،سنیما ٹرانسپیرینٹ فلم پر مبنی ڈاک ٹکٹ سائز کی نگیٹو تصویروں کوچوبیس تصاویر (فریم) فی سکینڈ کی رفتار سے پردہ پر پھینکا جاتا ہے ،جس سے تصویریں حرکت کرتی دکھائی دیتی ہیں ،سنیما کنیما سے ماخوذ ہے ،فرانس میں سینیمیٹیو گراف ہو ا ،بعد میں سنیما رہ گیا ،اس ذریعہ سے ابلاغ کی ابتدا ۲۸ دسمبر ۱۸۹۵ء کو پیرس کے گرانڈ کیفے میں ہوئی ،پھر جولائی ۱۸۹۶ء میں ممبئی میں بھی اس کی شروعات ہوگئی مگر جلد ہی ۱۵ سگست ۱۸۹۶ء کو ٹائمس آف انڈیا نے اس شو کو بند کرنے کا اعلان کر دیا ،مگر ہندوستانی عوام اس سے بہت متاثر ہوئی اور سکھا رام بھاٹویڈ کر نے لندن سے عوامی کیمرہ اور پروجیکٹر منگا کر جگہ جگہ فلموں کی نمائش شروع کی اور اس قدر ترقی کی کہ ۱۸۹۹ء میں جن فلموں کی لمبائی ۶۰ سے ۷۰ فٹ لمبی تھی ۱۹۰۲ء تک اس کی لمبائی ۲۸۰ فٹ تک پہنچ گئی ،۱۹۰۷ء سے بڑے بڑے شہروں میں فلم ہال بننے لگے اور ۱۹۱۳ء میں دادا صاحب پھالکے نے اپنی فلم راجا ہریش چند ر کی نمائش کی تو اس کی لمبائی ۳۷۰۰فٹ تھی ،اس کے بعد ۱۹۳۱ء میں پہلی متکلم فلم عالم آرا دکھائی گئی تو اسی دھوم مچی کہ لوگ کنٹرول سے باہر ہوگئے اور پولس کے ذریعہ کنٹرول کرنا پڑا اور اس طرح فلم صنعت اور ابلاغ کی ترقی شروع ہوگئی ۔
ٹیلی ویژن: ٹیلی ویژن teleاورvisionدو لفظوں سے مل کر بنا ہے teleیونانی لفظ ہے اور visionلاطینی لفط مجموعی طور پر ان کے معنی ہیں دور سے دکھائی دینا ،لوگوں کو ایسی چیز کی ضرورت تھی جس پر دکھائی اور سنائی دونوں دے ،اس ضرورت کو۱۹۳۶ء میں بی،بی،سی نے پورا کیا اورٹیلی ویژن سروس کی شروعات ہوئی،۱۹۳۸ء تک ٹی وی پر ہر طرح کے پروگرا نشر کیے جانے لگے ،یہ ادارہ تو ۱۹۳۹ء میں بند ہوگیا ؛مگر فرانس ،امریکہ ،روس اور جرمنی میں تحقیقات کا عمل جاری رہا اور ۱۹۳۹ء میں پہلی بار امریکہ کے ورلڈ فیئر میں ٹیلی ویژن سیٹ فروخت کیلیے رکھا گیا اور اسی سال ٹیلی ویژن کا دائرہ بہت تیزی سے بڑھا اور امریکہ میں ۱۹۴۰ء سے ۱۹۵۰ء کے درمین ٹیلی ویژن کی ایسی ترقی ہوئی کہ رنگین ٹیلی کاسٹ کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔
ہندوستان میں ٹیلی ویژن: ہندوستان میں ٹیلی ویژنکی ابتدا ۱۹۵۹ء میں یونیسکو (unesco)کے ایک پائلٹ پروجیکٹ سے ہوئی ،جس کا مقصد پسماندہ طبقہ میں تعلیمی ترقی میں ٹیلی ویژن کے رول کا اندازہ کرنا تھا ،اس کی کامیابی کے بعد ۱۹۶۱ء میں آل انڈیا ریڈیو نے فورڈ فاؤنڈیشن کی مدد سے اسکولی ٹیلی ویژن کے نام سے ایک پروجیکٹ شروع کیا ،اس کے لیے دہلی اور نواح دہلی کے چھ اسکولوں کا انتخاب کیا ۱۵ اگست ۱۹۶۵ء میں روزانہ ٹیلی ویژن کی شروعات ہوگئی ،۱۹۷۵ء میں ہندوستان میں سٹیلائٹ کی ابتدا ہوئی اور ۱۵ اگست ۱۹۸۲ء میں دور درشن نے آزادی کا پروگرام دکھا کر رنگین ٹیلی ویژن نشریات کا سلسلہ شروع کر دیا ،ابھی تک ریڈیو اور ٹیلی ویژن دونوں محکمے ایک ساتھ تھے ؛مگر اب دونوں محکمے الگ ہوگئے اور ٹیلی ویژن اور دور درشن باضابطہ الگ ادارہ ہونے کی حیثیت سے ۱۹۸۲ ء میں نیشنل پروگرام شروع کیا اور اس وقت سے آج تک ترقیات کا سلسلہ دراز ہے ،خاص چینلوں میں ڈی ڈی ۱ نیشنل ۱۹۸۲ء ،ڈی ڈی ۲ میٹرو ۱۹۹۲ء ،ڈی ڈی انڈیا انٹر نیشنل ۱۹۹۵ ء میں ،ڈی ڈی نیوز ۱۹۹۹ء اور کھیل کود چینل ۱۹۹۹ء وغیرہ اہم ہیں ،ٹیلی ویژن نے بیسویں صدی کے اواخر اور اور اکیسویں صدی میں بہت زیادہ ترقی کی،آج ہندوستان میں سینکڑوں ٹی وی چینلز موجود ہیں جو فلم ،خبر ،کھیل کود ،تعلیمی ،ثقافتی اور موسیقی پروگراموں کے ساتھ ساتھ ادبی،تہذیبی اور مذہبی ہر طرح کے ڈبیٹس منعقد کراتے ہیں اور اس طرح کے پروگرام گھر گھرتک پہنچاتے ہیں اور آج ٹیلی ویژن کی مدد سے پوری دنیا کی صورتحال کا جائزہ منٹوں میں لے لیتے ہیں ۔
میڈیا کے مسائل اور موجودہ صورتحال: آج ہم اگر میڈیا کی صورتحال کا جائزہ لیں اور اس کے مسائل کی بات کریں تو بہت سے مسائل ہمارے سامنے آتے ہیں ،اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کسی کو بھی مفر کی گنجائش نہیں ہے کہ آج میڈیا ہماری ضروریات میں شامل ہو چکا ہے اورہماری آنکھ اور کان بن چکا ہے ،عام طور پر ان چیزوں کو میڈیا ہمارے سامنے پیش کرتی ہے بلا جھجک مان لیا جاتا ہے ،خواہ پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا ،انگریزی ،ہندی ہو یا ردو لوگ سبھی طرح کے میڈیا سے جڑے ہوئے ہیں اور خاص طور پر اکیسویں صدی میڈیا اور ماس میڈیا کی ترقی کی صدی ہے ،اکثر ٹیکنالوجی کی ایجاد اسی دور میں ہوئی ،خواہ سوشل میڈیا ہو یا انٹر نیٹ سارے میدان کافی ترقی یافتہ نظر آتے ہیں اور ان وسائل کی وجہ سے لوگ اپنے مسائل خود بھی ایوان اقتدار تک بہ آسانی پہنچا سکتے ہیں ؛مگر کچھ چیزیں میڈیا میں ایسی شامل ہوگئی ہیں جس نے اس باوقار پیشہ کو کافی زک پہنچائی ہے اور اس کی حقیقت وماہیت کے سامنے ہی چیلینج پیش کر دیا ہے ،آج ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک مخصوص طبقہ نے میڈیا کو خرید لیا ہو یا پھر میڈیا نے ایک مخصوص ذہنیت کی حمایت اور ان افکار کی ترسیل کو ہی اپنا مشن سمجھ لیا ہے ،بہت ساری چیزیں میڈیا میں ایسی نظر آتی ہیں جو سو فیصد جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں اور کچھ ملمع سازی ہوتی ہے ،ان غلط افکار و پیغامات اور پروپیگینڈوں کی ترسیل کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ پریشان ہونے لگے ہیں خواہ دہشت گردی کا معاملہ ہو یا کچھ اور وہی انسانیت کی قتل اگر اکثریتی طبقہ کر رہا ہے تو وہ صرف چور یا ڈاکو کے صف میں شامل ہے مگر اگر کوئی مجرم مسلمان ہے یا کسی پر جھوٹا ہی الزام ہے تو ملزم بنتے ہی نہ صرف یہ کہ وہ مجرم بھی بن جاتا ہے ؛بلکہ دھشت گردی جیسے سینکڑوں الزامات بھی اس پر عائد کر دیے جاتے ہیں اور کورٹ میں جج کے فیصلہ سنانے سے پہلے ہی مخصوص ذہنیت رکھنے والی میڈیا فیصلہ بھی سنا دیتی ہے ،یہ انتہائی افسوس ناک عمل ہے ،اس کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ میڈیا کا مقدس پیشہ داغدار اور بے اعتبار ہو رہا ہے وہیں بہت سارے مسائل بھی صدا بصحرا ہوجاتے ہیں اور رہا مسئلہ اردو میڈیا کا تو اس کا دائرہ کمزور طبقہ تک ہی محدود ہے،اعلی طبقہ کے لوگ اردو اخبارات و رسائل اور چینلوں کو اشتہارات تو دینا درکنار پڑھنا اور دیکھنا تک گوارہ نہیں کرتے ،جس کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ اردو کے ترویج واشاعت اور ترقی پر اثر پڑ رہا ہے ساتھ ہی ساتھ اس سے وابستہ لوگوں کو اپنے وجود و بقا کی جنگ بھی لڑنی پڑرہی ہے ؛اس لیے ہر طبقہ کے لوگوں کو چاہیے کہ اردو اور صداقت و سچائی کو فروغ دینے کے لیے کم سے کم پڑھ کر اور خرید کر تعاون کریں تاکہ اپنی آوام صدا بہ صحرا ہونے سے بچایا جا سکے او وہیں میڈیا کی بھی ذمہ داری ہے کہ اس باوقار پیشہ کا احترا م کرتے ہوئے صداقت اور حقیقت سے کام لے ورنہ اس جمہوریت کے چوتھے ستون کا اعتبار ختم ہوجائے گا ۔
استفادہ کردہ کتب
۱۔ابلاغیات ڈاکٹر شاہد حسین (۲)الیکٹرانک میڈیا میں ابھرتے رجحانات ڈاکٹر طارق اقبال صدیقی(۳)عوامی ذرائع ترسیل ڈاکٹر اشفاق محمد خاں (۴)اردو صحافت مشتاق
صدف (۵)میڈیا روپ او ربہروپ سہیل انجم (۶)خبرنامہ ایم اعظم اعظمی
موبائل نمبر:9871523432