بریلی : اتحاد ملت کونسل نامی تنظیم کے سربراہ اور بریلی کی مشہور درگاہ اعلیٰ حضرت سے تعلق رکھنے والے مشہور بریلوی عالم مولانا توقیر رضا خان نے گیان واپی پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو مستردکیا ہے۔میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک دن جیل بھرو آندولن کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ملک گیر تحریک ہوگی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ 29 اور 30مئی کو دہلی میں مسلم تنظیموں کی میٹنگ ہونے والی ہے، اس میٹنگ میں جیل بھرو تحریک کا خاکہ طے کیا جائے گا۔ مولانا نے مزید کہا کہ گیان واپی، متھرا شاہی مسجد کے علاوہ اذان اور ہنومان چالیسہ جیسے معاملات سنگین تشویش کا باعث ہیں۔ بابری مسجد کیس کے بعد عدالت اپنا وقار کھو چکی ہے۔انہوں نے بتایا کہ ہم نے مسلم تنظیموں کے مشترکہ خط کے ذریعہ وزیر اعظم نریندر مودی کو الٹی میٹم دیا ہے۔ ایک ہفتے بعد اس معاملے پر ملاقات کریں گے اور آئندہ کی حکمت عملی طے کریں گے۔مولانا توقیر رضا نے بتایا یہ لوگ (فسطائی طاقتیں تاج محل اور لال قلعہ پر بھی ترشول برآمد کرلیں گے، یہ سلسلہ کبھی نہیں رکے گا۔ ہمیں ملک کے امن و سکون کی فکر ہے۔ ہم گیانواپی کیس میں عدالت پر اعتماد کو صرف بابری مسجد کے غیر منصفانہ فیصلے کی روشنی میں دیکھ رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ گیان واپی کے فیصلے کے بعد کوئی دوبارہ راجیہ سبھا کا رکن بن جائے۔خیال رہے کہ حال ہی میں اتر پردیش کے سابق وزیر اور سماج وادی پارٹی کے قدآور رہنما اعظم خان کو سپریم کورٹ سے ضمانت ملی تھی اور 20 مئی کو انہیں سیتا پور جیل سے رہا کیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے سیاسی گلیاروں میں کافی سرگوشیاں جاری ہیں۔
مودی
(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
ہمارے’ پردھان سیوک‘ نریندر مودی نے بالآخر کشمیریوں سے بات کرہی لی ۔
نعرہ بھی لگا دیا کہ ’ دل اور دلّی سے دوری کم ہونا چاہئے ‘ ۔ لیکن سچ یہی ہے کہ کشمیری آج بھی ’دل اور دلّی سے دور ہیں‘۔ اور شاید اس وقت تک دور رہیں جب تک کہ کشمیر کو مکمل ریاستی درجہ نہ ملِ جائے ، جو سیاسی قیدی جیلوں میں قید ہیں انہیں رہائی نہ ملِ جائے اور سارے کشمیر میں ، بشمول جموں ولداخ ، امن وامان کی فضا کا قیام نہ ہوجائے ، زندگی پھر سے رواں دواں نہ ہوجائے، اور ترقی کے راستے نہ کھل جائیں ۔ اور سب سے اہم کشمیریوں کی وہ ’ حیثیت‘ جو ان سے ’ چھین‘ لی گئی ہے ، اسے پھر سے بحال نہ کردیا جائے ، آسان لفظوں میں یہ کہ 35 اے اور آرٹیکل 370 کو پھر سے لاگو نہ کردیا جائے ۔
اب اگر ہم مذکورہ پس منظر میں کشمیر کے حالات پر اور وزیراعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ سے ، کشمیر کی آٹھ سیاسی پارٹیوں کے چودہ بڑے لیڈروں کی ، جن میں تین وزرائے اعلیٰ بھی شامل تھے ، جنہیں مرکزی سرکار نے ’ گپکا ر گینگ‘ کا لقب دیا تھا ، ملاقات پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ باتیں توہوئیں، وعدے بھی ہوئے ، لیکن ملاقات کا کوئی ایسا نتیجہ برآمد نہیں ہوا کہ یہ امید باندھی جاسکے کہ آنے والے دنوں میں کشمیر کے حالات تیزی کے ساتھ بدلیں گے ، اور وہاں کے لوگ چین اور سکون کی سانس لے سکیں گے ۔ کشمیر کا سیاسی منظر نامہ قدرے پیچیدہ ہے ، اور 2019ء میں 5 اگست کے روز آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کے بعد سیاسی منظر نامہ مزید پیچیدہ ہوگیا ہے ۔ کشمیری یہ سمجھتے ہیں کہ مذکورہ آرٹیکلوں کے تحت انہیں جو خصوصی درجہ حاصل تھا ، جو ان کی شناخت اور ان کی تہذیب وثقافت کی حفاظت کرتا تھا، اسے چھین لیا گیا ہے ، اور چھینے کا یہ عمل دانستہ کیا گیا ہے ، اس کے پس پشت بدنیتی ہے اور اس کا مقصد سارے کشمیر سے ان کی شناخت کو بھی ختم کرنا ہے اور ان کی تہذیب اور ثقافت کو بھی مٹانا ہے ۔ کشمیری اگر یہ سوچتے ہیں تو وہ اس میں حق بجانب بھی ہیں کیونکہ جیسے ہی آرٹیکل 370 اور 35 اے کا خاتمہ کیا گیا بی جے پی اور سنگھی لیڈروں کی طرف سے یہ آوازیں اٹھنے لگی تھیں کہ اب وہ کشمیر میں زمینیں بھی خریدیں گے اور اپنے کاروبار بھی لگائیں گیں۔ اور یہ آواز بھی تیز تھی کہ کشمیر کو اب اپنے رنگ میں رنگیں گے ، یعنی اسے ’گیروا‘ کردیں گے ۔ ظاہر ہیکہ اس سے نہ تو کشمیریوں کی ’ دل اور دلّی سے دوری‘ ختم ہوسکتی تھی او رنہ ہی کشمیر کے سیاسی حالات بی جے پی اور مودی کی مرکزی سرکار کے لیے بہتر ہوسکتے تھے۔ گذشتہ 22 مہینوں کے دوران کشمیری جِن حالات سے گزرے ہیں انہیں وہ اپنے لیے ’ ذلت‘ سمجھتے ہیں ۔کیا یہ درست نہیں ہیکہ کشمیر کو ایک بہت بڑی جیل میں تبدیل کردیا گیا تھا؟ نہ انٹرنیٹ اور نہ ہی سڑکوں پر نکلنے کی آزادی ، دوکان اور مکان سب بند، مسجدوں پر تالے ، دوسری عبادت گاہیں بند ، لیڈران نظر بند یا جیلوں میں مقید ، حتیٰ کہ تین سابق وزرائے اعلیٰ کو ، جو مودی اور شاہ کی اس میٹنگ میں شریک تھے ، بہت ہی سخت حالات سے گزرنا پڑاـ بالخصوص فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی کو ، یہ نظر بند رہے، ا ن پر مقدمے قائم ہوئے ، فاروق عبداللہ کی تو املاک کی قرقی تک ہوئی ۔ ہاں غلام نبی آزاد قدرے محفوظ تھے ۔۔۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ نیشنل کانفرنس میں بھی اور پی ڈی ایف میں بھی فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی سے لوگ ، اس میٹنگ میں شریک ہونے پر ناراض ہیں، لوگ نہیں چاہتے تھے کہ یہ لوگ آرٹیکل 370 اور 35 اے کی بحالی سے پہلے مودی اور امیت شاہ سے کوئی میٹنگ کریں ۔ شاید اسی لیے محبوبہ مفتی نے ملاقات کے بعد 370 اور 35 اے کی بحالی کی بات کی ہے۔ فاروق عبداللہ بھی آرٹیکل 370 کے خاتمے کو قبول کرنے کو تیار نہیں نظر آتے ہیں۔
جو ملاقات ہوئی اس میں آرٹیکل 370 اور 35 اے پر بات تو ہوئی لیکن انہیں بحال کرنے کا کوئی وعدہ نہ مودی نے کیا اور نہ ہی امیت شاہ نے ۔۔۔ وعدہ کر بھی نہیں سکتے کہ یہ بی جے پی بلکہ آر ایس ایس کا نظریاتی معاملہ ہے ۔ آر ایس ایس کے نظریہ ساز شیاما پرساد مکھرجی کشمیر کو کوئی خصوصی درجہ دینے کے خلاف تھے اور سنگھ پریوارآج بھی کشمیر کو کسی طرح کا خصوصی درجہ دینے کو راضی نہیں ہے ۔ لہٰذ یہ سمجھ لیا جائے کہ بی جے پی کبھی بھی آرٹیکل 370 اور 35 اے کی بحالی پر راضی نہیں ہوگی ۔ ہاں ملاقات میں اس نے کشمیر کو ریاستی درجہ دینے کا ، حد بندی کا ، جلد الیکشن کرانے کا وعدہ کیا ہے ۔ دوسرے مطالبات کو ’غور ‘سے سنا ہے ، سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ ہے ، کشمیری پنڈتوں کی واپسی کی بات ہے اور کشمیر میں امن وامان کے قیام کی فکر ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی اور امیت شاہ نے وعدے تو کیے لیکن کوئی نظام الاوقات نہیں بنایا ہے کہ فلاں فلاں تاریخ تک یہ وعدے پورے کیے جائیں گے ۔۔۔ تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ جو ملاقات ہوئی اور وعدے ہوئے وہ بس یوں ہی تھے ، ان کا کوئی مطلب نہیں تھا؟ یہ تو سچ ہیکہ ملاقات کا کوئی فوری حل توبرآمد نہیں ہوا ہے لیکن اس ملاقات سے کم از کم بی جے پی کو اپنی صفائی پیش کرنے کا ایک موقع مل گیا ہے ۔ قومی اور عالمی سطح پر کشمیر مسئلے پر اس پر جو دباؤ بنا ہے اسے زائل کرنے کے لیے مرکزی سرکار یہ کہہ سکتی ہے کہ ’’ ہم بات تو کررہے ہیں‘‘ ۔ قومی سطح پرکئی ہدف نشانے پر ہیں، مثلاً یہ کہ گذشتہ 22 مہینوں کے دوران کشمیر میں بھلے ہی ’ کورونا‘ معاملے میں لوگوں کو اعلیٰ درجہ کی طبّی سہولیات بہم کی گئی ہوں ، لیکن زمینی صورتحال جو 22 مہینے قبل تھی، اس سے خراب ہی ہوئی ہے ۔کشمیری پنڈت اور جموں کے لوگ بھی مرکزی حکومت سے ناراض ہوئے ہیں ۔ بی جے پی نے کوشش کی تھی کہ کشمیر میں ایک ایسی سیاسی قیادت ابھاری جائے جو بی جے پی کے کام آسکے ، مگر اسے اس کوشش میں ناکام ہی ہوئی ہے ، اس سبب جمہوری اور سیاسی تعطل برقرار ہے ۔ کشمیر کا حل ’صدر راج‘ قطعی ٔ نہیں ہے ، ’سیاسی راج‘ ہے ۔ اور سیاسی عمل کو جاری کرنے کے لیے زمینی حالات کو سدھارنا ضروری ہے ۔۔۔ مودی نے اس سمت ایک پہل کی ہے ۔۔۔ جس طرح سے کشمیر میں جمہوری اقدار کو کچلا گیا اور انسانی حقوق کی پامالیاں کی گئیں، وہ افسوسناک ہیں ۔ ساری دنیا ، اسلامی ممالک ، یوروپ، امریکہ اور اقوام متحدہ نے بھارت سرکا رپر اس معاملے میں دباؤ بنایا ہے ۔ برسہا برس کے بعد اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر کی گونج سُنی گئی ہے۔ پاکستان اس مسئلے پر مستقل دباؤ بنائے ہوئے ہے ۔ لہٰذا مودی سرکار کو قدم اٹھانے پر مجبور ہونا پڑا ہے ۔ یاد رہے کہ ہمارے وزیراعظم جلد ہی بائیڈن انتظامیہ سے ملیں گے، اور لوگ جانتے ہی ہیں کہ صدر امریکہ جو بائیڈن پہلے ہی کشمیر کے حالات پر اظہار تشویش کرچکے ہیں ، تو وہ اس معاملے پر سوال کرسکتے ہیں ، مودی کو جواب دینا ہوگا ۔ جواب بالخصوص حقوق ِ انسانی کی پامالیوں کا۔ حقوقِ انسانی کی کئی تنظیموں بشمول ’ فریڈم ہاؤس‘ نے بھارت پر سخت نکتہ چینی کی ہے اور اس کی کشمیر پالیسی کو آڑے ہاتھوں لیا ہے ، اور امریکہ نے ان سب پر اپنی تشویش ظاہر کی ہے ۔ مودی نے اس ملاقات سے ایک طرح کی پیش بندی کرلی ہے ۔۔۔ معاملہ ہند ۔ پاک د وطرفہ بات چیت کا بھی ہے ۔ یہ تو سچ ہے کہ سرحد پر گولہ باری رکی ہوئی ہے ، دراندازی بند ہے ، لیکن اہم بات ان دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت ہے ، اس ملاقات سے اس کی ایک راہ کھل سکتی ہے۔اور بھارت کو پاکستان سے بات کرنا چاہیئے کہ یہ امن کی ایک راہ ہے ۔ اسے بھارت مخالف عناصر سے بھی ، جو قیدمیں ہیں بات شروع کرنی چاہئے ۔ ادھر افغانستان میں جو حالات سامنے آئے ہیں وہ بھی بھارت کے نقطۂ نظر سے اہم ہیں ۔ امریکی فوج کا وہاں سے انخلاء ہورہا ہے ، ممکنہ طور پر طالبان کا وہاں راج ہوسکتا ہے ۔ اور اگر طالبان اقتدار میں نہ آئے تب بھی یہ سوال برقرار ہے کہ افغانستان سے جب امریکی اور ناٹو افواج نکل جائیں گی تب وہاں کی صورتحال کیا ہوگی ، کیا افغانستان ، پاکستان اور طالبان ایک دوسرے سے قریب آئیں گے ، اور اگر قریب آئے تو اس کے اثرات کشمیر پر کیا پڑیں گے ؟ لہٰذا یہ ضروری ہوگیا ہے کہ کشمیر میں ایک طرح کا سیاسی عمل شروع کیا جائے ، نہ سہی 370 کی بحالی،تو اسے ریاستی درجہ دے کر اور الیکشن کراکر ۔ تو اگر تجزیہ کیا جائے تو یہ بات نکل کر سامنے آتی ہے کہ ملکی اور غیر ملکی دباؤ اتنا تھا کہ مودی اور شاہ نے کشمیری لیڈروں سے ملاقات کرکے ایک پیش بندی کرلی اور الیکشن کی ایک راہ بھی نکال لی ۔ رہی بات آرٹیکل 370 کی تو اس کا حل اب صرف اور صرف یہ ہے کہ کشمیری یا تو اسے بھول جائیں ، یا پھر ’ عدالت‘ ہی سے اس کا فیصلہ ممکن ہے ۔ مودی اور شاہ آرٹیکل 370 کسی بھی صورت میں بحال نہیں کرسکتے۔جہاں تک ’ ملاقات‘ کا تعلق ہے تو اسے فی الحال بے نتیجہ ہی کہا جائے گا لیکن اتنا تو ضرور ہے کہ آگے بڑھنے کی ایک راہ کھل گئی ہے ۔افسوس کہ مودی اور شاہ نے عجلت میں فیصلے لیے، اگر وہ 370 ہٹانے اور کشمیر کے حصے بخرے کرنے سے قبل ایسی ہی ’ ملاقات‘ کرلیتے تو شاید کشمیریوں کے لیے بھی اور ملک کے لیے بھی حالات آج جیسے بدتر نہ ہوتے ۔ لیکن بھلا ایک ایسے حکمراں سے جو خود کو ’ عقلِ کل‘ سمجھتا ہو اس کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے !
اس بات میں اب کوئی شک نہیں ہے کہ انڈیا میں 2014 سے برسرِ اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی اس وقت ملک کے سیاسی پس منظر کی سب سے طاقتور جماعت ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں اس نے دو عام انتخابات فیصلہ کن انداز میں جیتے ہیں اور اگرچہ اس نے ریاستیں کھوئی ہیں، تاہم اس کی انڈیا پر سیاسی گرفت مضبوط ہوتی رہی ہے۔حزب اختلاف کی مرکزی جماعت کانگریس کا کوئی واضح لائحہ عمل نہیں ہے، ماضی کی طاقتور علاقائی جماعتیں اپنے سارے حربے آزما چکی ہیں اور نریندر مودی کے خلاف کوئی حقیقی چیلنجر سامنے نہیں آیا ہے۔
ماہرِ سیاسیات سوہاس پلشکر اسے انڈیا میں دوسرا پارٹی حاوی نظام کہتے ہیں جہاں اندرا گاندھی کی کانگریس نے نصف صدی سے زیادہ پہلے ایک پارٹی کے حاوی رہنے والے نظام کو چلایا۔ بی جے پی وہ واحد جماعت ہے جس نے 1984 کے انتخابات میں کانگریس کی واضح کامیابی کے بعد پہلی مرتبہ ملک کے عام انتخابات میں واضح کامیابی حاصل کی ہے۔ سوہاس پلشکر کہتے ہیں کہ اندرا گاندھی کے بعد نریندر مودی وہ واحد رہنما ہیں جو ملک بھر میں مقبول ہیں۔ بی جے پی کی کامیابی کا سہرا مودی کی شخصیت، مذہبی سیاست، اور سخت قوم پرستی کو جاتا ہے۔ ان کی سیاسی مہم میں ان تھک محنت کرنے والے بہت سے کارکن ہیں جو کہ ان کی نظریاتی بنیاد رکھنے والی جماعتوں آر ایس ایس یا وی ایچ پی سے منسلک رہے ہیں۔ وی ایچ پی کو تجزیہ کار آر ایس ایس کا عسکری ونگ تصور کرتے ہیں۔
گذشتہ چند سالوں میں بی جے پی کو کافی زیادہ عطیات بھی دیے گئے ہیں جن کی تفصیلات منظرِ عام پر نہیں آئی ہیں۔ ساتھ میں اس جماعت کو میڈیا کی شدید حمایت حاصل رہی ہے۔ مگر ماہرِ سیاسیات ونے سیتاپاتی اپنے آئندہ آنے والی کتاب ’جگل بندی: مودی سے پہلے کی بی جے پی‘ میں یہ خیال پیش کر رہی ہیں کہ اگر ہم ایک لمحے کو رک کر دیکھیں کہ بی جے پی کے پاس ایسا کون سا گُر ہے کہ وہ کامیاب رہی ہے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اس کی وجہ اس کی قومی اتحاد سے نہ ہٹنے والی توجہ ہو سکتی ہے۔
اشوکا یونیورسٹی کی پروفیسر سیتاپاتی کہتی ہیں ’بہت چھوٹی سی عمر سے آر ایس ایس میں بچوں کو ایک مخصوص قسم کی ہندو تاریخ پڑھائی جاتی ہے جس میں شاندار ہندو معاشرہ ایک دوسرے کی کمر میں چاقو مار مار کر تباہ ہو گیا اور وہ ناکام ہی اس لیے ہوا کیونکہ وہ متحد نہیں تھا۔‘ ’ان کو مزید پختہ کرنے کے لیے مشقیں کروائی جاتی ہیں جو کہ صرف ورزش نہیں بلکہ جماعت میں ورزش ہے۔‘ لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ اکھٹے مارچ کریں، اور ایک دوسرے کے ساتھ کھیلیں، جیسے نجی کمپنیوں میں ٹیم سازی کی مشقیں ہوتی ہیں۔ ’اس سب کا مقصد اتحاد کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ یہی یکساں یقین تنظیمی رویہ بن جاتا ہے۔ یہ دیگر جماعتوں کی طرح نہیں ہے۔‘
پروفیسر سیتاپاتی کہتی ہیں کہ بی جے پی کی کوشش ہے کہ وہ ہندوؤں کو متحد کر لے جو کہ انڈیا کی آبادی کا 80 فیصد سے زیادہ ہیں اور ایک ساتھ ووٹ دیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ذات پات کی بات نہیں کرتے جو کہ روایتی طور پر ہندوؤں کو منقسم کرنے کی وجہ تھی۔ اسی لیے وہ اسلام مخالف آواز اٹھاتے ہیں اور قدیم ہندو کتابوں کا حوالہ دیتے ہیں۔‘ مگر دیگر جماعتوں کی طرح بی جے پی میں اپنے حصے کی مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ ابھی اسے اقتدار میں آئے صرف 12 سال ہوئے ہیں مگر ان کی انتخابی عمر 40 سال پرانی ہے۔ اقتدار میں نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے پاس دینے کو کچھ بھی نہیں ہے۔
جماعت کے اعلیٰ ترین رہنماؤں اٹل بہاری واجپئی اور لال کرشنا اڈوانی کے درمیان تعلقات اکثر کشیدہ رہتے تھے۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ کیسے واجپئی اور ان کی کابینہ کے کچھ لوگ مودی کے گجرات میں 2002 میں مسلم مخالف فسادات کے بعد وزیراعلیٰ رہنے کے خلاف تھے۔ ان مسائل کے دوران بھی پارٹی متحد رہی۔ پروفیسر سیتاپاتی کہتی ہیں کہ وہ ایک ایسی فیملی کی طرح ہے جو ایک دوسرے سے ناراض ہو کر بھی ایک ساتھ ہی رہتی ہے۔ ان کے اتحاد کی وجہ انڈین معاشرے کے مسائل کی گہری سمجھ بوجھ ہے۔‘ سیاسی جماعت عموماً مفادات کا اتحاد ہوتا ہے جو کہ ہمیشہ ایک ہی سمت نہیں ہوتے۔ انھیں کرشماتی شخصیت والے رہنما اکھٹا رکھتے ہیں، کچھ نظریات جوڑتے ہیں، تنظیمی ڈھانچہ کارآمد ہوتا ہے اور انڈیا کے معاملے میں ذات بھی متحد رکھتی ہے۔ مگر تفریقِ رائے، یا پارٹی کے اندر کشیدگی ایک عام سی بات ہے۔ انڈیا کی جماعتیں لیڈران کی انا کے مقابلوں اور دھڑے بندیوں کی وجہ سے تقسیم ہوتی رہتی ہیں۔ کئی رہنما کانگریس سے علیحدہ ہو کر کامیاب علاقائی جماعتیں بنا چکے ہیں۔ لیکن ابھی تک بی جے پی میں ایسا کچھ نہیں ہوا ہے۔
پہلے واجپئی اور اڈوانی اور اب مودی اور امت شاہ کی قیادت اور آر ایس ایس کی حمایت نے اسے جوڑے رکھا ہے۔ پروفیسر سیتاپاتی کہتی ہیں کہ ’میں جب کہتی ہوں کہ بہت سے بی جے پی کے رہنما مودی کو پسند نہیں کرتے تو کوئی خفیہ راز افشا نہیں کر رہی ہوتی۔ بہت سے بی جے پی، آر ایس ایس اور وی ایچ پی کے رہنما جن کے میں نے انٹرویو کیے ہیں مسٹر مودی کے نظریے سے مخلص ہونے اور انتخابات جیتنے کے طریقے کی تعریف کرتے ہیں۔ لیکن بہت سے انھیں بے رحم، خود کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے والا اور دوسروں سے کٹا ہوا سمجھتے ہیں۔‘
میلان ویئشناو کے الفاظ درست لگتے ہیں کہ بی جے پی ایک ’غیر معمولی جماعت‘ ہے۔ پرفیسر ویشناؤ واشنگٹن میں قائم کارنیگی اینڈؤمنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے سینیئر فیلو ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ہندو قوم پرست تنظیموں کے ستاروں کے بڑے جھرمٹ کا ایک سیاسی بازو ہے۔ یہ بہت مشکل ہے کہ اس کے سیاسی وجود کو اس سے منسلک اتحادی اور برائے نام سیاسی اداروں سے علیحدہ کیا جا سکے۔ پھیلے ہوئے جال کے ماڈل کا مطلب ہے کہ بی جے پی نچلی سطح کی تنظیموں سے بہت طاقت حاصل کرتی ہے اور کہہ سکتے ہیں کہ اس کے گھنے نیٹ ورک لوگوں کو اس کی چھتری تلے ہی رکھتے ہیں۔‘
ایسا نہیں ہے کہ اختلافِ رائے رکھنے والوں نے بی جے پی کو کبھی نہیں چھوڑا۔ سیاست پر گہری نظر رکھنے والے اور کتاب ’آئیڈیالوجی اینڈ آئڈینٹٹی‘ کے شریک مصنف راہول ورما کہتے ہیں کہ ’پہیلی یہ ہے کہ وہ سیاسی طور پر زندہ نہیں رہ سکتے اور پارٹی میں واپس آ جاتے ہیں۔ شاید وجہ یہ ہے کہ بی جے پی ایک انتہائی نظریاتی جماعت ہے اور نظریاتی گوند اسے جوڑ کر رکھتی ہے۔ اور آپ ایسا دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں میں بھی پائیں گے۔‘ ایسی پیشنگوئی کرنا مشکل ہے کہ کیا بی جے پی ہمیشہ اکٹھی رہے گی؟ اس کے ’جارحانہ اور بے رحم‘ سیاست کے انداز کا مطلب ہے کہ انھوں نے اپنے دروازے دوسری جماعتوں کے اختلافِ رائے رکھنے والوں کے لیے، جن میں سے کئی داغدار بھی ہوتے ہیں، کھول رکھے ہیں۔ یہ نظریاتی پاکیزگی کے ناگزیر تضادات کی طرف لے جاتا ہے۔ ورما سوال کرتے ہیں کہ ’آپ کب تک تضادات کو سنبھالتے رہیں گے؟‘ یقیناً اس وقت تک جب تک پارٹی جیت رہی ہے۔ اسی وجہ سے بی جے پی کی بقا کے لیے انتخابات بہت ضروری ہیں۔ ورما کہتے ہیں کہ بی جے پی کی سماجی بنیاد پھیل رہی ہے لیکن اس کی قیادت ابھی بھی زیادہ تر اونچی ذات کے لوگوں پر مشتمل ہے۔ یہ ایک تضاد ہے جس کا سامنا مستقبل میں پارٹی کو کرنا پڑ سکتا ہے۔
نقادوں کا خیال ہے کہ بی جے پی کی اکثریتی سیاست ’انڈیا کے نظریے‘ کو بدل رہی ہے جو کہ سیکیولر اقدار کی وجہ سے زیادہ روادار اور باخبر تھا۔
پروفیسر سیتا پاتی کہتی ہیں کہ ’ان کا خیال جیت گیا تھا کیونکہ انھوں نے ایک ہو کر کام کیا تھا۔‘
(بشکریہ بی بی سی اردو)
ہاتھرس کیس:وزیر اعظم مودی نے کی وزیر اعلیٰ سے بات،یوگی نے ایس آئی ٹی تشکیل دی
لکھنؤ:وزیر اعظم نریندر مودی نے ہاتھرس میں ایک دلت بچی کی مبینہ اجتماعی عصمت دری اور کی ہلاکت کے سلسلے میں بدھ کے روز وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ سے بات کی اور مجرموں کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت کی۔ وزیر اعلی کے دفتر نے یہ اطلاع دی ہے۔ادھر وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے اس معاملے میں تین رکنی خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دی ہے۔ ایس آئی ٹی کو سات دن میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ انہوں نے کیس کی سماعت فاسٹ ٹریک عدالت میں کرنے کی ہدایت بھی دی ہے۔ چیف منسٹر آفس نے ٹویٹ کیا کہ وزیر اعظم نے ہاتھرس کیس میں وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ سے بات کی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے ہاتھرس کے واقعے پر بات کی ہے اور کہا ہے کہ مجرموں کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہئے۔ اس سے قبل مبینہ طور پر اجتماعی عصمت دری اور مقتولہ کی موت کے معاملے میں وزیر اعلی یوگی نے یوپی حکومت کے ہوم سکریٹری بھگوان سوروپ کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا حکم دیا۔ ایس آئی ٹی سات دن میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔وزیراعلیٰ نے کیس کے ملزمان کے خلاف فاسٹ ٹریک عدالت میں کارروائی کرنے کی ہدایت دی ہے۔
دہرادون:وزیر اعظم نریندر مودی نے منگل کو کانگریس پر سخت حملہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ دوسروں کے کاندھوں پر سوار ہے اور ملک کے مفاد میں کیے گئے ہر اقدام کی مخالفت کررہی ہے۔وزیر اعظم مودی نے کانگریس کا براہ راست نام نہیں لیا لیکن کہا کہ ہر بدلتی تاریخ کے ساتھ ، احتجاج کرنے کے لیے یہ مظاہرین ملک اور معاشرے کے لیے مضر ہو رہے ہیں۔اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ ملک میں ایسی بہت سی چھوٹی جماعتیں ہیں جن کوکبھی اقتدار میں آنے کا موقع نہیں ملا اور بیشتر وقت حزب اختلاف میں صرف کیا لیکن اس کے باوجودانہوں نے کبھی بھی ملک کی مخالفت نہیں کی۔نمامی گنگے پروجیکٹ کے تحت ، وزیر اعظم نئی دہلی سے اتراکھنڈ کے ہری دوار ، رشی کیش اوربدری ناتھ میں سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ (ایس ٹی پی) اور گنگا میوزیم کے ڈیجیٹل لانچ کے بعد خطاب کررہے تھے۔اس دوران انہوں نے زراعت بل سے لے کر رام مندر تک بہت سے امور پر حزب اختلاف کی مخالفتوں کا ذکر کیا۔انہوں نے اپوزیشن پریہ بھی الزام عائد کیا کہ وہ کم سے کم سپورٹ پرائس (ایم ایس پی) پر کسانوں میں الجھن پیدا کررہے ہیں اور یہ واضح کیا کہ ایم ایس پی اور کسانوں کو بھی ملک میں کہیں بھی اپنی پیداوار فروخت کرنے کی آزادی ہوگی۔اپوزیشن جماعتوں کا نام لیے بغیروزیر اعظم نے کہا کہ وہ ایم ایس پی پرکسانوں میں الجھن پھیلا رہے ہیں۔ملک میں ایم ایس پی بھی ہوگی اور کسانوں کو بھی اپنی پیداوار کہیں بھی بیچنے کی آزادی ہوگی۔
نئی دہلی:ملک میں روزانہ ہزاروں کی تعداد میں کوروناوائرس کے کیسز آ رہے ہیں۔ سابق کانگریس صدر راہل گاندھی کورونا پر حکومت پر مسلسل حملہ آور ہیں اور الزام لگا رہے ہیں کہ حکومت کورونا روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کررہی ہے۔در حقیقت پیداوار کے معاملے میں دنیا کی سب سے بڑی ویکسین کمپنی،سیرم انسٹی ٹیوٹ کے اعلیٰ عہدیدارنے حکومت کوبتایاہے کہ ملک میں کورونا ویکسین سب کے لیے دستیاب کرنے کے لیے80000 کروڑ روپے کی ضرورت ہے،کیاحکومت کے پاس اتنی رقم ہے؟ راہل گاندھی نے اس بارے میں وزیر اعظم مودی پر طنز کیا ہے۔ اتوار کے روز کانگریس کے رکن پارلیمنٹ اور سابق صدر راہل گاندھی نے اپنے ٹویٹ میں لکھاہے کہ سوال جائز ہے ، لیکن وہ کب تک حکومت کے جواب کا انتظار کرے گا؟ کاش کہ کوویڈ سے ملک کوبچانے کی حکمت عملی کی بات ہوتی۔
نئی دہلی:اے آئی ایم آئی ایم کے صدراورحیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی کورونا وائرس اور چینی حملہ آوروں سمیت دیگرامور پر مستقل طور پر مودی حکومت پر سوال اٹھارہے ہیں ۔ انھوںنے وزیر اعظم نریندر مودی پر طنز کیا ہے۔ اویسی نے وزیر اعظم مودی کے اقوام متحدہ (یو این) سے خطاب پرسوال اٹھایا ہے۔ انہوں نے وزیر اعظم کے دفتر (پی ایم او) کوٹیگ کیاہے اور کہا ہے کہ کیا آپ کی حکومت 80000 کروڑ روپئے کا بندوبست کرے گی۔انھوں نے مودی کے بیان پر کہاہے کہ گھرمیں اندھیراہے اورباہرروشنی بکھیررہے ہیں۔ملک بے روزگاری،معاشی بحران اورطبی بحران سے دوچارہے۔پیسوں کی قلت ہے اوروزیراعظم پوری دنیاکی مددکررہے ہیں۔
یو این جنرل اسمبلی سے مودی کا خطاب،مستقل رکنیت پرپو چھا:بھارت کب تک انتظار کرتا رہے گا؟
نئی دہلی:وزیراعظم مودی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے75 ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کوروناوائرس کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔پی ایم مودی نے کہا کہ پوری انسانیت کو اس بحران سے نکالنے کے لیے ہندوستان کی ویکسین کی تیاری اورویکسین کی فراہمی کی صلاحیت مفید ہوگی۔کورونابحران کی وجہ سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کاانعقادورچوئل اندازمیں ہوا۔ اس دوران پی ایم مودی نے اقوام متحدہ میں مستقل رکنیت کامعاملہ بھی اٹھایا۔ پی ایم مودی نے کہا کہ کب تک ہندوستان کو اقوام متحدہ کے فیصلہ سازی کے ڈھانچے سے الگ رکھا جائے گا۔انھوں نے کہا کہ ہم وباکے بعدکے حالات کے بعدہندوستان کے وژن کی طرف خودپیش قدمی کر رہے ہیں۔ہندوستان میں اس بات کویقینی بنایا جارہا ہے کہ بلا امتیاز تمام منصوبوں کافائدہ ہرشہری تک پہنچے۔ہندوستان اپنے گائوں میں پندرہ لاکھ گھروں تک پائپوں کے پانی کی فراہمی کے لیے ایک مہم چلارہاہے۔کچھ دن پہلے بھارت نے اپنے 6 لاکھ دیہات کوبراڈبینڈآپٹیکل فائبرسے جوڑنے کے لیے ایک بہت بڑامنصوبہ شروع کیاہے۔پی ایم مودی نے کہا کہ انسانیت دشمنوں کے خلاف ہندوستان آوازاٹھاتا رہے گا اورانسداددہشت گردی،غیرقانونی اسلحہ کی اسمگلنگ ، منشیات اور منی لانڈرنگ کے خلاف ہندوستان پابندعہد رہاہے اوررہے گا۔
پٹنہ:مودی حکومت زراعت سے متعلق تینوں بل پارلیمنٹ سے منظور کرانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ نتیش کمار کی پارٹی جے ڈی یومودی سرکار کے اس فیصلے پر ساتھ ہے جبکہ اس معاملے پر شرومنی اکالی دل نے حکومت چھوڑ دی ہے۔ جے ڈی یو نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اس بل کی حمایت کی ہے۔ کسانوں کی تنظیمیں بل کے خلاف سڑک پر اکٹھی ہوگئی ہیں۔ ایسی صورتحال میں جے ڈی یو اب بی جے پی سے مختلف لہجے میں بول رہی ہے اور ایم ایس پی گارنٹیوں کامطالبہ اٹھارہی ہے۔ کسان مودی حکومت کے ذریعہ لائے گئے زرعی اصلاحاتی قانون کو اپنے مفاد میں نہیں مان رہے ہیں۔کسان ان تینوں بلوں کے خلاف ناراض ہیں اور متحدہوکر آواز اٹھا رہے ہیں۔کسان تنظیموں نے اس کے خلاف احتجاج کے لیے 25 ستمبر کو بھارت بند کا مطالبہ کیا ہے۔ نہ صرف کسان تنظیمیں بلکہ اپوزیشن جماعتیں بھی زرعی بلوں کے بہانے مودی سرکار کے خلاف متحرک ہو رہی ہیں۔ ایسی صورتحال میں جے ڈی یوپربھی سوالات اٹھ رہے ہیں جو کسانوں کو فائدہ پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں جس کی وجہ سے پارٹی نے اب یو ٹرن لے لیا ہے۔کسانوں کے معاملے پر جے ڈی یو نے اپنارویہ اسی طرح تبدیل کیا ہے جیسے سی اے اے اور این آر سی کے معاملے پر یو ٹرن لیا تھا۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں جے ڈی یونے سی اے اے کی طرح زرعی بل کی حمایت کی ہے۔اب اس کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے میں کسان تنظیموں کے مطالبے کے ساتھ کھڑی ہے۔
(ڈائیرکٹر، قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان
وزارت برائے فروغ انسانی وسائل، حکومت ہند)
جب کوئی ملک شدید وبائی بحران سے نبرد آزما ہو اور سماجی حسیت پرناامیدی کے احساس کا غلبہ طاری ہونے لگے، تو ایسے ماحول میں ایک بڑا معاشی پیکیج گہرے سکون کا احساس دلاتا ہے۔ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ہمارے معزز وزیر اعظم جناب نریندر مودی ایک مستقل مزاج اور پختہ کار رہنما ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب موجودہ بحران کے دور میں پورے ملک کی نگاہیں اپنے قائد پر مرکوز ہیں، تو مودی انہیں مایوس نہیں کرتے۔ مودی نے اپنے اقتدار کے شاندار چھ برسوں کے دوران ایک سچے اور مخلص رہنما کی طرح بروقت اور مناسب معاشی پالیسیاں وضع کرکے اپنے ہم وطنوں کے تئیں بے پناہ محبت کا ثبوت پیش کیا ہے۔ موجودہ معاشی پیکیج سے اس خیال کو مزید تقویت ملتی ہے۔ اس پیکیج کو اپنے ہم وطنوں کے ساتھ مودی کی عقیدت کی عملی مثال کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
دراصل، اس قدم کو موجودہ معاشی خرابیوں کو درست کرنے کے حل کے طور پر ہی نہیں، بلکہ ایک وسیع تر تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ اس میں مودی کی پرجوش قوم پرستی کا جذبہ بھی چھپا ہوا ہے اور اس سے معیشت کی بحالی کے سلسلے میں ان کے مضبوط وژن کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ دراصل، انہوں نے آج ہمیں ایک جامع معاشی تعمیر نو کے امکانات سے روبرو کرایا ہے، جو خصوصی طور پر خود کفالت پرزور دیتا ہے۔ اس کا طویل المدتی فائدہ یہ ہوگا کہ ہماری دیہی زندگی کی باز آبادکاری بامعنی طریقے سے ہو سکے گی اور وہاں لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بناتے ہوئے ان میں خود اعتمادی اور خود انحصاری کا جذبہ پیدا کیا جا سکے گا۔
ایک فعال اور عملی لیڈر کے طور پر مودی نے ایسی معاشرتی اور معاشی پالیسیاں وضع کی ہیں یا پرانی پالیسیوں کو برقرار رکھا ہے، جن کو فوری طور پر لاگو کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔ موجودہ اقدام بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ ہمیں بغیر کسی شک و شبہ کے اس بات پر اتفاق کرنا چاہیے کہ مودی ہمارے ملک کو قومیانے کی پالیسی کی راہ پر لے جارہے ہیں، جہاں معاشی خرابیوں کا علاج سودیشی مصنوعات کے لیے سازگار ماحول تیار کرکے کیا جائے گا۔ موجودہ وبائی مرض کے دوران مودی نے وقتاً فوقتاً لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ’گمچھا‘ جسے تولیہ بھی کہا جاتا ہے، اور آیورویدک ادویات کا استعمال کریں۔ یہ عمل دیسی مصنوعات کی بڑے پیمانے پر پیداوار میں بہتری لانے کا محرک بن سکتا ہے، جو بے روزگاری کے بڑھتے ہوئے مسائل کے حل کے ساتھ ساتھ ہماری بڑھتی ہوئی افرادی قوت کو بھی جذب کر سکتا ہے۔ اس عمل میں نچلی سطح سے شروع کر کے مزدوروں کی اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کو نکھارنے میں مدد پہنچائی جا سکتی ہے۔ موجودہ حالات میں ایسی سوچ اور زیادہ با معنی ہو جاتی ہے۔ درحقیقت، دیسی صنعتوں کے فروغ کے ذریعہ معیشت کی تجدید کاری پر وزیر اعظم مودی کا زور معیشت کی دائمی سست رفتاری کے مسئلے کا مستقل حل پیش کرنے کے ان کے ارادے کو ظاہر کرتا ہے۔ سودیشی صنعت کے احیا اور ان کی حوصلہ افزائی سے ہمارے ملک کے عوام کے ایک بڑے طبقے کو کھیتی سے ہونے والی معمولی آمدنی میں اضافے کا موقع ملے گا اور انہیں اپنی محنت کا بہتر صلہ مل سکے گا۔
مودی کی سیاسی بصیرت اورسوجھ بوجھ کا جائزہ لیا جائے، تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ گھریلو صنعتوں کی جانب ان کا جھکاﺅ ان کی حب الوطنی کی غمازی کرتا ہے۔ درآمد شدہ اشیا پر ضرورت سے زیادہ انحصار موجودہ نسل کے لیے تباہ کن ثابت ہوا ہے۔ اس نے ہمارے نوجوانوں کو اپنے شاندار ماضی سے بے بہرہ اور اپنے پرشکوہ ورثے سے غافل کر دیا ہے۔ مودی کا خود انحصاری کی طرف رجحان کا مقصد اپنے لوگوں کو ان کی طاقت کا احساس دلانا اور ان کی صلاحیتوں سے آگاہ کرنا ہے۔ مودی کے معاشی منصوبے موجودہ دور سے ہم آہنگ ہیں۔ یہ منصوبے انہیں ایک قوم پرست، ایک کارکن اور ایک کرم یوگی کی حیثیت سے نشان زد کرتے ہیں، جو ہندوستانی ہونے پر فخر محسوس کرتا ہے اور جو ہندوستانیت پر عمل کرتا ہے اور دوسروں کو اس پر عمل پیرا ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔ ’سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘ کے نعرے کی بنیاد مودی کے اس پختہ یقین پر ہے کہ غریب اور کم مراعات یافتہ لوگ نظریاتی تنازعات میں الجھنے کے متحمل نہیں ہو سکتے اور ہمارے ملک میں ایسی پالیسیاں وضع کی جانی چاہئیں، جن سے ہماری آبادی کو بھرپور فوائد حاصل ہوں۔ لہٰذا، مودی ہمیشہ اپنی سیاسی کوششوں کی تکمیل کے لیے مذاکرات اور ہم آہنگی پر زور دیتے ہیں۔
ہمارے وزیر اعظم کاایک بنیادی سروکار یہ بھی ہے کہ لوگوں کو اپنی قدیم اقتصادی روایات اور مشترکہ نصب العین کے حصول کا احساس دلایا جائے۔ چھوٹی اور گھریلو صنعتوں کو معیشت کا بنیادی محور قرار دینے کی مودی کی منطق سوامی وویکانند کے ان خیالات پر قائم ہے، جس کے تحت انہوںنے لوگوں میں خود اعتمادی اور خود انحصاری کا ایک مضبوط احساس پیدا کرنے کی ترغیب دی تھی۔ وویکانند نے اپنے ہم وطنوں سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنی مدد آپ کریں اور باہر کی مسلط کردہ مادی یا غیر مادی چیزوں پر انحصار نہ کریں۔ میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ وویکانند نے فرد کی جن خفیہ صلاحیتوں کو ابھار کر حکومت سے تعاون کرنے پر زور دیا تھا، اس کی جھلک مختلف حالات سے نمٹنے کے مودی کے طرز عمل میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ موجودہ معاشی پیکیج، جس کا جھکاﺅ سودیشی کی طرف ہے، در حقیقت معیشت کی فعالیت کی از سرنو تشکیل کے ایک منظم اور ٹھوس پروگرام کی شروعات ہے۔ اس میں ایسے حالات پیدا ہوں گے، جو انفرادی وقار کو بحال کریں گے۔ اس طرح کا رویہ ہماری آبادی کے تمام طبقات کی ضروریات کو پورا کرنے اور گھریلومصنوعات کی فراہمی کا ایک مضبوط اور نہ ختم ہونے والا سلسلہ قائم کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ اس سے معاشرے میں سستے اور غیر معیاری امپورٹیڈ سامان کی بالادستی کی گرفت کم ہوگی۔ دیسی سامان کی زیادہ سے زیادہ پیداوار اور کھپت کی وجہ سے مختلف معاشی گروہ ریاست، سرمایہ، بازار اور معاشرے کے ساتھ اپنے تعلقات کو مثبت طور پر نئی شکل دینا شروع کر دیں گے۔
ہم سب اس بات سے ضرور اتفاق کریں گے کہ مودی کی موجودہ معاشی پالیسی کا زور واضح طور پر چھوٹی اور دیسی صنعتوں پر ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ سول سوسائٹی اور پولیٹکل سوسائٹی کے تعلقات میں مضبوطی آئے گی اور اقتدار کا ڈھانچہ زیادہ قابل قبول اوردرست ہوگا۔ اس میں ایک منطق یہ بھی ہے کہ حاشیہ اور مرکزی دھارے، دونوں سطحوں پر لوگ خود اپنی خوشحالی کو اپنی قوم کے ساتھ جوڑکر دیکھنے لگیں گے۔ یہ ایسے احساسات ہیں جنہیں درآمدی سامان پر مسلسل اور بڑھتے ہوئے انحصار نے ختم کردیا تھا۔ دیسی صنعت پر زور کی وجہ سے قوم پرستی اور حب الوطنی جیسے متحد کرنے والے جذبے کو بھی نمایاں طور پر وسعت ملے گی۔ ہمارے شہری خود کو نئے حالات سے ہم آہنگ کرنے لگیں گے اور ہندوستانی مصنوعات کا استعمال کرنےکی وجہ سے وہ اپنے ورثہ اور تہذیب پر فخر محسوس کریں گے اور مادر وطن کے ساتھ اپنے رشتہ کو مضبوطی فراہم کریں گے۔
لہٰذا، اس میں کوئی شک نہیں کہ مقامی صنعتوں اور اشیا کے حق میں مودی کا دعویٰ عام ہندوستانیوں، خاص طور پر دیہی علاقے کے لوگوں کی امنگوں اور آرزوؤں کے عین موافق ہے۔ اس سے ان کی سیاسی قیادت کے احترام اور ساکھ میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔ میں حتمی طور پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ کوووِڈ -19 کے ذریعہ پیداشدہ نازک صورتحال پر مودی کے رسپانس سے نہ صرف ہمیں اس سانحہ سے باہر آنے میں کامیابی ملے گی، بلکہ اس سے جمہوریت کی جڑیں بھی مضبوط ہوں گی اوراس سے ہم ایک ایسے نئے دور میں داخل ہوں گے جہاں علاحدگی اور امتیازیت جیسی کوئی چیز نہیں ہوگی اور اسی کی خواہش مودی جی کرتے ہیں اور بہ حیثیت ہندوستانی ہم بھی یہی چاہتے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم آخرکار یہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان کو ایک سپر پاور اور ایک شاندار ملک بنائیں، جو تمام میدانوں میں عالمی برادری کی قیادت کر سکے۔ ہماری متحرک اور فعال قیادت کی یہ خواہشیں دور ازکار بھی نہیں معلوم ہوتی ہیں۔ ہندوستان اور ہندوستان کے لوگ ان کی پالیسیوں اور ان کے تاثرات کا احترام کریں گے۔ انہیں ایک ایسے رہنما کے طور پر یاد کریں گے، جو ایک شدید بحران کے دور میں ملک کی مدد کے لیے بروقت کھڑا ہوا اور ہمارے عوام کی بے پناہ خدمت کی، جنہیں ایک ایسے بحران کا سامنا کرنا پڑا، جس کی مثال موجودہ صدی میں نہیں ملتی۔ میں ان کی انسان دوستی کی کوششوں کو سلام کرتا ہوں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
احمدبن نذر
جھوٹی کرسی،جھوٹے بھاشن، جھوٹوں کی سرکار پہ لعنت
جھوٹے اینکر،جھوٹے چینل،جھوٹے ہر اخبار پہ لعنت
جھوٹے وعدے،جھوٹی قسمیں،جھوٹی ہر گفتار پہ لعنت
جھوٹوں کی منڈی پہ تھو ہے،جھوٹے کاروبار پہ لعنت
جھوٹے قصّے،جھوٹی باتیں،جھوٹے ہر کردار پہ لعنت
جھوٹوں کی مجلس میں بیٹھے جھوٹوں کے سردار پہ لعنت
جھوٹے سجدے،جھوٹے روزے،جھوٹے ہر افطار پہ لعنت
جھوٹے جبّے،جھوٹی رِیشیں،جھوٹی ہر دستارپہ لعنت
جھوٹے حاکم،جھوٹے منصف،جھوٹے ہر دربار پہ لعنت
جھوٹوں کو جو سچ ٹھہرائیں،ایسے سب اشعار پہ لعنت
عبدالعزیز
11دسمبر 2019ء کو راجیہ سبھا میں شہریت ترمیمی بل 105 ووٹوں کے مقابلے میں 125 ووٹوں سے پاس ہوا۔ دوسرے روز صدر جمہوریہ نے سی اے اے پر اپنی مہر ثبت کردی۔ نوٹیفیکیشن کے بعد اسے قانون کا درجہ حاصل ہوگیا۔ اس کے بعد ہی سے ’سے اے‘ اور’این آر سی‘ کے خلاف احتجاج اور مظاہرے کا سلسلہ شروع ہوا۔ آسام اور دیگر علاقوں میں غیر معمولی احتجاج سے متاثر ہوکر وزیر اعظم نریندر مودی نے این آر سی کے سلسلے میں رام لیلا میدان دہلی میں سفید جھوٹ بولتے ہوئے کہاکہ لوگ این آر سی کے بارے میں بلا وجہ پریشان ہیں جبکہ این آر سی لاگو کرنے کے سلسلے میں نہ کوئی چرچا ہوا اور نہ کہیں اس کے نفاذ پر بات کی گئی اور نہ بحث و مباحثہ ہوا۔ حالانکہ ان کے خاص الخاص اور سائے کی طرح ان کے ساتھ رہنے والے امیت شاہ نے بیسیوں بار بیانات دیئے کہ این آر سی ملک بھر میں لاگو ہوگا اور چن چن کر دراندازوں کو ملک بدر کر دیا جائے گا۔ لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں بھی انھوں نے بیان دیا۔ دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں صدر جمہوریہ نے بھی اپنے خطبے میں این آر سی کے نفاذکا ذکر کیا۔ اتنے بڑے جھوٹ کے بعد ایسا لگتا تھا کہ حکومت پیچھے کی طرف ہٹ رہی ہے، لیکن رام لیلا میدان میں سفید جھوٹ بولنے کے بعد دوسرے ہی دن ’این پی آر‘ کو پاس کرنے کے بعد اندازہ ہوا کہ مودی حکومت چور دروازے سے این آر سی کو نافذ کرنا چاہتی ہے۔ حکومت کے اس اقدام کے بعد عوام میں بے چینی اور اضطراب کی لہر دوڑ گئی۔ این آر سی اور سی اے اے کے خلاف جو احتجاج اور مظاہرے ہو رہے تھے اس میں تیزی آگئی اور وہ زور پکڑتا گیا۔
ایک ڈیڑھ ماہ ہونے کو آیا ہندستان کا پورا ماحول بدل گیا اور حکومت کے مزاج میں بہت حد تک تبدیلی آگئی۔ بات چیت کا انداز بھی بدل گیا۔ پاگل پن کے ساتھ ساتھ ہوش ٹھکانے بھی لگنے لگے۔ اتنی بڑی تبدیلی کیسے آئی؟ دیکھا جائے تو یونہی نہیں آئی۔ اس تبدیلی کیلئے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ آگ کا دریا تھا جسے پار کرنا تھا۔ وہ دریا پار کرنے کیلئے موجودہ ظالم حکومت کا سامنا تھا۔ کشمکش شروع ہوئی، پولس مظالم کا سلسلہ دراز ہوا۔ گولی اور پستول کے استعمال کے ساتھ ساتھ دھمکیوں اور گرفتاریوں کے ذریعہ ڈرانے اور دھمکانے کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ ان سب کے باوجود تحریک اور احتجاج کرنے والوں کے پاؤں لڑکھڑائے نہیں۔ ثابت قدمی کا مظاہرہ ہوتا رہا۔ شاہین باغ جیسا احتجاج پورے ملک میں شہر شہر، گاؤں گاؤں، قصبہ قصبہ ہونا شروع ہوا۔ صرف یوپی میں پچیس سے تیس افراد شہید ہوئے۔ دوسری جگہوں میں چند لوگوں نے شہادت کا جام نوش کیا ہے۔ اس بڑی تبدیلی جس کا ذکر اوپر کی سطروں میں کیا گیا ہے خون و پسینے کا ثمر ہے۔ احتجاج اور مظاہرہ اتنا زور دار ہوگا نہ حکومت کے علم میں تھا اور نہ عوام کے دل و دماغ میں یہ بات تھی۔ اچانک اس کی شروعات ہوئی اور دیکھتے دیکھتے عوامی تحریک اور جدوجہد آج اس مقام پہ پہنچ چکی ہے کہ جو لوگ سیاسی حالات سے نابلد رہتے تھے ان کی بے خبری اس حد تک ہوتی تھی کہ سب کچھ گزر جانے کے بعد بھی وہ سمجھنے سے قاصر رہتے تھے کہ ملک میں کیا ہوا اور ہوگیا ہے۔ اب ایسے لوگ بھی اپنے گھروں، اپنے حجروں سے باہر آگئے۔ فلم انڈسٹری جو ملکی حالات سے لاتعلق تھے وہ بھی ان مظاہروں میں حصہ لینے لگے اور مظلومین کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ ایک ہفتہ پہلے کی بات ہے کہ مشہور تجزیہ نگار اور سماجی کارکن یوگیندر یادو سے خاکسار نے کہاکہ ان کی سمجھ میں یہ بات آرہی ہے کہ ہم لوگ آگے بڑھے ہیں اور احتجاج اور مظاہرین کے دشمن کچھ پیچھے ہٹے ہیں۔ یوگیندر یادو نے کہاکہ بات صحیح ہے لیکن لڑائی لمبی ہے۔
آج (18جنوری) کے ’دی ٹائمس آف انڈیا‘ میں مشہور کہانی نگار، مصنف اور صحافی چیتن بھگت کا ایک مضمون شائع ہوا ہے۔ جس کا عنوان ہے: "Why NRC must be shelved: It will be an expensive, gargantuan, pointless exercise that could trigger civil war in the worst case.” (کیوں نہ این آر سی کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا جائے۔ یہ انتہائی خرچیلا، بے معنی، بے فائدہ عمل ہے جو خرابیِ حالات میں خانہ جنگی کی طرف لے جاسکتا ہے)۔ مضمون کے پہلے ہی پیرا گراف میں چیتن بھگت لکھتے ہیں کہ "NRC has caused huge controversy, polarised opinion, created massive anxiety and made people come out on the streets. The government is now on the back foot. However, it hasn’t done what it should – to officially withdraw it or put it in long-term cold storage.” (این آر سی کی وجہ سے زبردست تنازعہ، خیالات میں انتشار اور بے پناہ بے چینیاں اور اضطراب پیدا ہوا ہے جس کی وجہ سے لوگ سڑکوں پر آگئے ہیں۔ حکومت اس وقت بیک فٹ پر آگئی ہے۔ بہر کیف اسے یہ سب نہیں کرنا تھا اور اب اسے کیا کرنا چاہئے؟ اسے آفیشیلی واپس لے لینا چاہئے یا بہت دنوں تک اسے سرد خانے میں رکھ دینا چاہئے)۔
انھوں نے اپنے مضمون میں موجودہ حکومت کے بہت سے کاموں پر تنقید کی ہے اور اسے غلط اور بے فائدہ کام بتایا ہے۔ این آر سی، سی اے اے اور این پی آر کی مشق کو غیر ضروری قرار دیا ہے۔ آخر میں لکھا ہے کہ "We have an economy to work on, that’s exciting enough and needs to be the number one priority. NRC needs to take a rest for now, officially.” (ہم لوگوں کو معیشت کیلئے بہت کچھ کرنا تھا جو ہمارے لئے بہت جذباتی چیز ہے جو ترجیح اوّل کی حیثیت رکھتی ہے۔ این آر سی کو آفیشیلی آرام دینے کی ضرورت ہے)۔
مسٹر چیتن بھگت ان لوگوں میں سے ہیں جو مودی جی کے بہت گن گاتے تھے لیکن آہستہ آہستہ وہ بھی مودی جی سے متنفر ہوگئے۔ ان کے بے معنی اور بے سود عمل سے ان کو اب چڑ سی ہوگئی ہے۔ اس طرح بہت سے صحافی اور رائٹر ہیں موجودہ حکومت سے متنفر سے ہوگئے ہیں۔ دانشوروں اور سرکاری افسران میں بھی بہت سے لوگ مودی -شاہ کی جوڑی کو ملک اور دستور کیلئے خطرہ سمجھنے لگے ہیں۔ ان کے کاموں کو انسانیت کی تقسیم اور خانہ جنگی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
عدلیہ کا رویہ بہت دنوں سے نامناسب اور مایوس کن تھا، لیکن دو چار دنوں سے عدلیہ میں اور اس کی سوچ میں لگتا ہے کچھ تبدیلی آئی ہے۔ سی اے اے، این آر سی، این پی آر کے سلسلے میں سپریم کورٹ میں 22جنوری کو سماعت ہے۔ سپریم کورٹ اگر آزادانہ ماحول میں بغیر کسی دباؤ اور اثر کے شہریت ترمیمی ایکٹ کو دستور ہند کی روشنی میں جائزہ لے گی تو اس قانون یا ایکٹ کو بغیر کسی پس و پیش کے رد کر دے گی۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ مودی جی شاید سمجھ چکے ہیں کہ ان کے تعلق سے لوگوں کے اندر جو مقبول جذبہ(Popular Sentiment) تھا جو باقی نہیں رہا، لہٰذا Face Saving (بدنامی سے بچنے) کیلئے حکومت عدلیہ سے کچھ اس طرح رجوع کرسکتی ہے کہ اس پر روک (Stay)لگا دی جائے۔ اس طرح حکومت اپنے لوگوں کو یہ سمجھا سکے گی کہ اس نے تو کوشش میں کوئی کمی نہیں کی لیکن عدالت کے فیصلے کی وجہ سے وہ مجبور ہے۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ عدالت کی طرف سے دوسری تاریخ دے دی جائے۔ سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ دے اس کا اثر عوامی تحریک کو قبول نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ لڑائی مودی اور شاہ سے نہیں ہے یا ان کے کسی عارضی کاموں سے نہیں ہے بلکہ ان کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس سے ہے۔ آر ایس ایس کا ایجنڈا ’ہندو راشٹر‘ قائم کرنے کا ہے۔ اقوام متحدہ (UNO) نے آر ایس ایس کے بارے میں یہ رائے دی ہے کہ یہ دہشت گرد تنظیم ہے۔ اس بین الاقوامی ادارے کی رائے بے بنیاد نہیں ہے۔ آر ایس ایس سے منسلک افراد نے 17مقامات پر بم بلاسٹ کئے ہیں۔ سترہ عدالتوں میں آر ایس ایس کے ان لوگوں کے خلاف مقدمات زیر سماعت ہیں۔ (حوالہ: آر ایس ایس ہندستان کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم- مہاراشٹر کے پولس کے ریٹائرڈ آئی جی ایس ایم مشرف)۔
ایس ایم مشرف صاحب نے اپنی ایک تقریر میں کہا ہے کہ ان کی کتاب کو شائع ہوئے پانچ سال سے زیادہ ہوگئے۔ ان کی کتاب کئی زبانوں میں شائع ہوئی ہے، پھر بھی اس کے مندرجات کو کسی نے چیلنج نہیں کیا ہے۔ بعض وجوہ سے آر ایس ایس کے لوگوں کے خلاف زیر سماعت مقدمات کے فیصلے میں دیر یا کوتاہی ہورہی ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظر عوامی تحریک کو اس وقت تک جاری رہنا چاہئے جب تک کہ آر ایس ایس کے اثرات زائل نہ ہوجائیں یا اس کے کالے کرتوتوں کو دنیا اچھی طرح سے سمجھ نہ لے۔ ایک دلت لیڈر نے صحیح کہا ہے کہ مودی یا شاہ تو آر ایس ایس کے مہرہ ہیں۔ یہ ہٹ بھی گئے تو آر ایس ایس کسی اور مودی-شاہ کو بٹھا دے گا۔
عوامی تحریک کی خصوصیت: اس تحریک کی مقبولیت اور شہرت پر دو رائے نہیں ہے لیکن اسے مزید مضبوط و مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس تحریک میں تعداد میں پہل اور پیش قدمی کے لحاظ سے مسلمان زیادہ نظر آتے ہیں۔ اس میں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی سب شامل ہیں۔ یہ کسی ایک فرقہ یا ایک مذہب کی تحریک یا ایجی ٹیشن نہیں ہے بلکہ سارے مذاہب اور فرقوں کی تحریک ہے۔ مسلمان مرد اور عورتیں، یہاں تک کہ بچے، جوان اور طالب علم زیادہ دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے اسے مسلمانوں کی تحریک دشمنانِ جمہوریت یا دشمنانِ تحریک بتانے یا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نریندر مودی نے جو بیان دیا تھا کہ جو لوگ احتجاج کر رہے ہیں ان کو کپڑوں سے پہچانا جاسکتا ہے۔ ان کا اشارہ اسی طرف تھا کہ یہ مسلمانوں کی تحریک ہے۔ لیکن دوسرے مذاہب اور فرقوں کے لوگوں کی شمولیت کی وجہ سے ان کی یا ان کے لوگوں کی بات بے وزن ثابت ہورہی ہے۔ اس تحریک کی سب سے بڑی خوبی یا خاصیت یہ ہے کہ دلتوں کا طبقہ آگے آگے دکھائی دے رہا ہے۔ تعداد میں کمی ہوسکتی ہے لیکن ان کے نوجوان لیڈر بے خوف و خطر اس تحریک کا حصہ بن گئے ہیں۔ یہی چیز مودی اور شاہ کیلئے بڑی الجھن کا باعث بنا ہوا ہے۔ دلتوں کے علاوہ سکھوں نے بھی بحیثیت مجموعی اس احتجاج کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔شاہین باغ کے خواتین کے احتجاج کی یکجہتی کیلئے ریاست پنجاب سے ڈیڑھ سو مرد اور خواتین شاہین باغ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ آئے۔ دلتوں کی شمولیت جذباتی طور پر نہیں ہے بلکہ ان کے ذہن میں یہ بات آگئی ہے کہ سب سے زیادہ غریب اور کمزور طبقہ ہے متاثر ہوگا۔ این آر سی یا این پی آر سے سب سے زیادہ دشواری یا تکلیف دلتوں کو ہوگی۔ یہ پہلا موقع ہے جب دلتوں اور مسلمانوں کے اتحاد کے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی بڑی تعداد میں شریک ہونے لگے ہیں۔
گزشتہ روز ایک کرکٹ میچ کے دوران ممبئی کے اسٹیڈیم میں ہندو مسلم نوجوانوں نے ایک ساتھ مل کر کالے قانون کے خلاف کھڑے ہوکر ایک انوکھا پر امن احتجاج کیا جسے دیکھ کر لوگ حیرت میں پڑگئے۔ ان کے سب کے کپڑے No NRC, No CAA, No NPR لکھا ہوا تھا۔ بہت سے لوگ مسلمانوں کی شمولیت پر چیں بہ جبیں ہیں لیکن ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ مسلمان ہی کالے قانون کے سب سے زیادہ شکار ہوں گے۔ جس پر حملے ہوتے ہیں اس کو اپنے بچاؤ یا دفاع کا پورا حق ہے۔ دلتوں پر جب حملے ہوتے ہیں تو دلت اپنے بچاؤں کیلئے آگے آتے ہیں۔ آدیباسیوں پر حملے ہوتے تو آدیباسی اپنے تحفظ کیلئے سامنے آتے ہیں۔ اسی طرح کوئی بھی طبقہ خواہ مزدوروں کا ہو یا کسانوں کا ہو جب وہ مصیبت کا شکار ہوتا ہے تو اپنے بچاؤ کیلئے سامنے آتے ہیں۔ اتنی بات ضرور ہے کہ ہندو مسلم اتحاد کے ذریعہ جو مظاہرے ہوں گے ان کا اثر اچھا خاصا ہوگا لیکن مسلمانوں کے مظاہرے کو Under Estimate (کمتر) کرنا صحیح نہیں ہے۔ آزادی سے پہلے آزادی کی لڑائی میں خلافت کی تحریک میں مسلمان پیش پیش تھے اور آزادی کی تحریک میں بھی پیش پیش تھے جس کی وجہ سے تحریک کو زبردست تقویت حاصل ہوئی تھی۔ اس وقت کم و بیش وہی مناظر ہیں۔ اتحاد و اتفاق کے ان مناظر کو خدا نظر بد سے بچائے۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068