مولانا محمد شبلی القاسمی نائب ناطم امارت شرعیہ
مسلمان ایک زندہ امت اور بیدار قوم ہے، اللہ تعالیٰ نے تمام قوموں میں بہتر قوم مسلمانوں کو بنایا، قرآن پاک میں اس کی شہادت اس طرح موجود ہے،’’تم بہتر ین امت ہو،لوگوں کی نفع رسانی کے لئے دنیا میں بھیجے گئے ہو‘‘زندگی گذارنے کے طریقوں میں سب سے بہتر نظام حیات مسلمانوں کو عطا ہوا، ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’بے شک دین تو اصل اسلام ہی ہے،‘‘اللہ تعالیٰ نے اسلام سے اپنی دائمی رضا کا اعلان اس طرح فرمایا’’اور مذہب کے طورپر ہم نے تمہارے لئے اسلام کو پسند کیا ‘‘
خیر امت ہونے کا مسلمانوں نے ہمیشہ اپنے عمل وکردار سے ثبوت بھی دیا ہے۔اپنے مذہب کی بھی حفاظت کی ہے، اپنے ملک ووطن کی بھی اور دنیا میں بسنے والی قوموں کی بھی فکر کی ہے، ضرورت پڑی ہے تو دین، مذہبی احکام اور اسلامی شعائر کی حفاظت کے لئے اپنے کو وقف کردیا اور جرأت وحوصلہ کے ساتھ دشمنان اسلام کے سامنے ڈٹ گئے اور ہرطرح کی قربانی دیکر دین متین کی حفاظت کی ہے۔ اور جب ملک ووطن کی باری آئی ہے، اس کی بقاء ،سالمیت ،تحفظ اور خود مختاری کو خطرہ لاحق ہوا ہے اس وقت بھی اپنی جانوں کا قیمتی نذرانہ پیش کرکے ملک کی آبرو بچائی ہے، ملک کی آزادی میں اور آزادی کے بعد بھی ملک کو جمہوریت اور سلامتی کی راہ پر قائم رکھنے کے لئے صف اول کا کردار ادا کرتے رہے ہیں ،اس وقت بھی جب ملک انتہائی تشویشناک حالا ت سے گذر رہاہے ، ملک کو چند تاجروں کے حوالے کردیا گیا ہے، گھوٹالے پر گھوٹالے پورے ملک میں ہورہے ہیں، ملک کی تعلیم یافتہ لڑکے لڑکیاں روز گار کی تلاش میں در بدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں، ملک کے شہریوں کے جان ومال کا تحفظ غیر یقینی ہوگیا ہے، عزت وآبرو کی حفاظت لوگوں کے لئے مشکل ہوگئی ہے، کرپشن ،بدعنوانی،رشوت خوری کا بازار گرم ہے۔حکومت ،پولس،عدلیہ اور میڈیا یا جو ملک کے چار بنیادی ستون ہیں، تیزی سے زوال کی طرف بڑھ رہے ہیں، اور اپنی اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی سے کس افسوسناک حد تک غافل ہوچکے ہیں یہ کسی سے مخفی نہیں ہے، ملک کا آئین اور دستور جس پر ملک ٹکا ہوا ہے، وہ اس طرح غیرمحفوظ ہوچکا ہے کہ سپریم کورٹ کے سنیئر جج حضرات بھی اس کا میڈیا کے سامنے اظہار کرنے پر مجبور ہوگئے ، حالیہ دنوں چار ججوں کا جب عدالتی نظام کے کھوکھلے پن پر پر بیان آیا تو دنیا ہندوستان کے عدالتی نظام کی گرتی صورت حال پر دنگ رہ گئی۔الغرض ملک بربادی اور دوسری تقسیم کی طرف ملک کے حکمرانوں کے ہاتھ جارہاہے۔جہاں تک دین اور مذہب کی بات ہے تو موجودہ حالات اس اعتبار سے بھی انتہائی سنگین ہیں۔مذہبی رواداری ،ایک دوسرے مذہب کا احترام ختم ہوتا جارہاہے،نفرت وعداوت کی کھیتی بوکر ملک کے اکثریتی طبقہ کو ایک خاص رنگ میں رنگ دینے کی سازش جاری ہے، اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ملک کی اس خوبصورتی، استحکام اور گنگا جمنی تہذیب کا قتل مسند اقتدار میں بیٹھی بی جے پی حکومت کررہی ہے، وہ اپنے ہاتھوں میں آرایس ایس کا ایجنڈا لئے بیٹھے ہیں اوراسے وہ پوری شدت سے ملک پر تھوپ رہی ہے، ملک کی اقلتیوں کو مسلسل ہراساں کیا جارہاہے، چاہے عیسائی ہوں، بدھسٹ ہوں، مسلمان ہوں یا دوسرے اقلیتی مذاہب سب کے لئے مذہبی اعتبار سے مسائل کھڑے کئے جارہے ہیں،لوگوں کے لئے اپنے اپنے مذہب پر چلنے کی رائیں بند کی جارہی ہیں، یکساں سول کوڈ نافذ کرکے ملک کو غیر مستحکم اور خانہ جنگی میں مبتلا کردینے کی ٹھان لی گئی ہے۔
مسلمان جو اس ملک میں پچیس کڑور کی کثیر تعداد میں ہیں،وہ حکومتی مظالم کے منظم طورپر شکار ہیں، ترقی کی راہ سے مسلمانوں کو دور رکھنے کا عمل جاری ہے، اعلیٰ معیاری کے کالج ،یونیورسیٹیوں اور سرکاری اعلیٰ ملازمتوں میں مسلمانوں کے لئے خاموش طورپر نو انٹری کا بورڈ لگا دیا گیا ہے، اسلامی تشخص کے ساتھ ان کا جینا مشکل بنادیا گیا ہے، مدارس ومساجد کا وجود خطرہ میں ہے، کب کس مسلم نوجوان کو محض مسلمان ہونے کی وجہ سے دہشت گرد قرار دیکر جیل کی سلاخوں میں ڈال دیا جائے یہ کہنا مشکل ہے، جس کی وجہ سے مسلم نوجوان ہمیشہ بے اطمینان کی زندگی گذاررہے ہیں، اذانوں کی آوازوں پر پابندی ہورہی ہے، دستور ہند میں موجود مذہبی حقوق کی دفعہ کے خلاف قوانین بناکر مسلم پرسنل لامیں مداخلت کی جارہی ہے، نکاح طلاق جو مسلمانوں کے لئے خالص مذہبی اور شرعی معاملہ ہے ،اسے شرعی حکم کے مطابق عمل کرنے سے روکنے کے لئے لو ک سبھا میں طلاق مخالف بل منظور کرلیا گیا ہے اور اب راجیہ سبھا سے پاس کرنے کی تیار ہورہی ہے۔گویا یہاں نہ ملک محفوظ ہے اور نہ ہی دین محفوظ ہے، ملک میں بے چینی کا ماحول بن گیا ہے یہاں کی فضا پر خطرات اور خوف وہراس کے سیاہ بادل چھا گئے ہیں، ان حالات میں مسلمان قوم خاموش بیٹھی تماشائی بنی رہے ، ان پر دین ومذہب چھین کر حکومت کے نشہ میں بددینی مسلط کردی جائے اور یہ چپ رہے ،یہ اسلام کی تعلیم کے خلاف ہے ،زندہ قوموں کا یہ مزاج نہیں ہے ،ان حالات میں خیر امت ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کا فرض بنتاہے کہ ان مظالم ،ناانصافیوں اور تشدد کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور ملک کی سلامتی اور اس میں امن وامان اور عدل وانصاف کا ماحول لانے کے لئے اپنی صفوں کے اتحاد، اپنی ایمانی جرأت وحوصلہ اور اسلامی حمیت کے ساتھ آگے آئیں، ملک کے انصاف پسند اورامن کے خواہاں لوگوں کو ساتھ لیکر ظالم کو ظلم کرنے سے روکیں ،ایثار ووفا،اخوت وہمدردی ،بھائی چارگی ،برداشت وتحمل ،برابری اور انصاف کی ڈگر پر ملک کو لائیں ،حوصلہ ،ہمت،امید اور توقع اپنے ماحول میں پیداکریں، کم ہمتی،بزدلی اورمایوسی سے اپنے سماج کو نکالیں۔
اور مسلمانوں کے بے لوث رہنما،بے باک قائد،امن وانصاف کے علمبردار مفکراسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی دامت برکاتہم امیر شریعت امارت شرعیہ بہار،اڈیشہ وجھارکھنڈ ،جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ وسجادہ نشیں خانقاہ رحمانی مونگیر کے ذریعہ ملک میں انقلاب پیدا کرنے کی تحریک ’’دین بچاؤ،دیش بچاؤ ‘‘کومل جل کر مضبوط کریں اورزندہ قوم کی حیثیت سے ملک میں باعزت اور باوقار زندگی کے لئے ماحول سازی کریں۔حضرت امیر شریعت مدظلہ العالی نے اس تحریک کا مضبوط آغاز بہار کی سرزمین کے تاریخی گاندھی میدان سے کیا ہے، جس میں بیس لاکھ سے زائد مسلمانوں کی شرکت متوقع ہے، یہ تحریک پورے ملک میں پھیلے گی اور ملک کو انصاف اور سلامتی کی راہ پر لانے میں موثر کردار ادا کرے گی، مسلمانوں کا فرض ہے کہ وقت ،تقاضوں اور حالات کی نزاکت کو محسوس کریں اوراس تحریک کو کامیاب بناکر ملک میں اپنے روشن مستقبل کی راہ ہموار کریں ،نہ صرف اپنی بلکہ اپنے مستقبل کے ہندوستان اور اپنی نسلوں کی سلامتی کے لئے آگے بڑھیں۔کم ہمتی، پست حوصلہ اور بزدلی قوموں اور افراد کی موت ہے، بلند حوصلہ ،ہمت اور امید وتوقع ہمارا سرمایہ ہے، اپنی قوم سے کم ہمتی اور ناامیدی کو ختم کرنا اوران میں حوصلہ پیدا کرنا وقت کا بڑا کارنامہ ہوگا۔اللہ تعالیٰ ہم سب کی نصرت فرمائے اور ملک کی حفاظت کے ساتھ دین ومذہب کی بھی حفاظت فرمائے
Tag: