سی اے اے،این آر سی اور این پی آر کے خلاف جو احتجاجی مہم شروع ہوئی ہے،اس نے سرکار کی نیند حرام کردی ہے۔چاروں طرف سے قومی یکجہتی کی گونج سنائی دے رہی ہے۔اس مہم میں ہر روز شدت پیدا ہورہی ہے۔ہر طبقے کے لوگ اس مہم میں حصہ لے رہے ہیں۔احتجاجی مظاہرے ہوں یا دھرنے ہر جگہ ترنگا ہی لہرا رہا ہے،جس سے فرقہ پرستی کی سیاست کرنے والے جہاں خوفزدہ ہیں،وہیں جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر عوام کو گمراہ کرنے والے رہنماؤں کے چہرے بھی صاف نظر آنے لگے ہیں۔ دہلی اور جھارکھنڈ کے وزراے اعلیٰ نے ذات پات کی سیاست کرنے والی پارٹیوں اور ان کے رہنماؤں کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔جس سے یہ احساس ہوتا ہے کہ ہندوستان بدل رہا ہے۔ملک اور سماج کی ہم آہنگی میں رکاوٹ بننے والی قانون کے خلاف ملک کے عوام سڑک پر آزادی کے نعرے لگا رہے ہیں۔
مودی سرکار نے جس دھماکہ دار انداز میں دوسرے ٹرم کا آغاز کیا تھا اور یکے بعد دیگرے بل پاس کئے جا رہے تھے سی اے اے کے خلاف ملک گیر مہم نے اس رفتار پر روک لگا دی ہے۔ایسے میں وزیر اعظم کچھ بیان دے رہے ہیں تو وہیں وزیر دفاع اور وزیر داخلہ کے بیانات اس سے جدا ہیں۔بی جے پی کی مرکزی حکومت جس تیز رفتاری سے قدم بڑھا رہی تھی اس کو یقیناً اس بات کا اندازہ نہیں رہا ہوگا کہ پورا ملک اس کے خلاف سڑکوں پر آجائے گا۔
معاشی میدان میں پوری طرح سے ناکام سرکار اپنے ان ایجنڈوں کے ذریعہ ووٹروں پر اپنی گرفت مضبوط بنا نے میں مصروف تھی،لیکن اس کی یہ تدبیر الٹی ہوگئی۔طلاق ثلاثہ،دفعہ 370،بابری مسجد معاملہ کے بعد این آر سی،سی اے اے اور این پی آر سے لوگوں کے صبر کا باندھ ٹوٹ گیا اور سرکار کی مسلسل مسلم مخالف پالیسیوں نے عوام کو سڑکوں پر اترنے پر مجبور کردیا۔
شاہین باغ دہلی کے طرز پر پورے ملک میں جاری پر امن مظاہروں نے حکومت ہی نہیں بلکہ عوام کو بھی سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ان مظاہروں سے ایسا لگ رہا ہے کہ واقعی ملک بدل رہا ہے۔
اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ جب ملک کی معیشت اپنے نچلی سطح پر پہونچ چکی ہے،بے روزگاری کا گراف بہت تیزی سے اوپر چڑھ رہا ہے،نوجوان خود کشی کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں ایسے وقت میں سرکار کا ایسے قوانین کے نفاذ پر زور کیوں؟سرکار اگر اس زعم میں ہے کہ وہ اس تحریک کو اپنی طاقت سے کچل دے گی تو یہ اس کی خام خیالی ہی کہی جا سکتی ہے۔
ملک بھر میں جاری تحریک کو طاقت سے کچلنا کوئی کھیل نہیں،یہ کوئی مٹی گھرینوں کا کھیل نہیں ہے کہ جب جی چاہے اس کو بگاڑ دے۔ موجودہ حالات میں اگر سرکار کوئی ایسا قدم اٹھاتی ہے تو اس کی بہت بڑی بھول ہوگی۔یہ مودی حکومت کے امتحان کا وقت ہے کہ وہ ان حالات پر کس طرح قابو اپتی ہے، اگر حکومت کی جانب سے زور و زبر دستی کا طرییقہ اختیار کیا گیا تو اس کا خمیازہ سرکار کو کسی نہ کسی شکل میں بھگتنا ہی پڑے گا۔
ممبئی
دنیا ایک ناپائیدار جگہ ہے،آخرت دار قرار ہے۔یہ مسلمانوں کا ایمان ہے۔اس عارضی و ناپائیدار دنیا میں ہر جاندار کی حیات و موت کا وقت مقرر ہے،نہ اس سے پہلے اس کو موت آسکتی ہے اور نہ اس کے آنے کے بعد کسی کو مہلت ملتی ہے۔اس یقین کے ساتھ زندگی گزارنا آسان ہوجاتا ہے،اس دوران اگر کوئی نا مناسب حالات آتے ہیں تو ہمیں قرآن کی تعلیمات ان مع العسر یسرا کا سبق سکھلاتی ہیں۔
یقینا یہ دنیا فانی ہے، اس میں رہنے بسنے والے بھی فانی ہیں، اسی طرح مشکلات،ناکامیوں اور ندھیروں کے لئے بھی فنا ہے۔
حالات بھی بدلتے رہتے ہیں،تلک الایام نداولھا بین الناس الاٰیۃ۔آج ہمارا ملک جن حالات سے دو چار ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔شہریت ترمیمی قانون CAA,NRC,NPRکی وجہ پورا ملک سراپا احتجاج بنا ہوا ہے۔متعدد ریاستوں میں مظاہرین پر پولس اور شر پسندوں نے لاٹھی،ڈنڈے بھی برسائے،جس میں زخمی ہوکر چند نوجوانوں کی موت واقع ہوگئی۔لیکن یہ آزادی کے متوالے اپنے ان مطالبات سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے۔ان مظاہرین میں اہل علم و دانش اور قانون دانوں کی ایک بڑی تعداد ہے،بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ علم و ہنر اور دانشوروں ہی کی جانب سے مظاہرہ کیا جارہا ہے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ان کو اس کالے قانون کی سنگینی اور اس کے خطرناکی کا بہت ہی اچھے طریقہ سے اندازہ ہو چلا ہے۔ آسام میں بسنے والے لاکھوں لوگوں کی اپنی حق شہریت ثابت کرنے کی لڑائی اور ان کابرا انجام ان کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ آج اگر ہم نے اس کی مخالفت نہیں کی اور یہ کالا قانون نافذ ہوگیا تو اس کا انجام کیا ہوگا اسے بیان نہیں کیا جاسکتا۔۴۱/ صدی گزرنے کے بعدموجودہ دورکے مسلمانوں میں اب وہ ایمانی حرارت موجود نہیں ہے جو قرون اولیٰ میں تھی۔بہت حد تک اس بات کا اندیشہ ہے کہ اس کالے قانون کی وجہ سے ناخواندہ اور پچھڑا ہوا طبقہ اپنے موروثی ایمان کی دولت کوکہیں الوداع نہ کہہ دے۔
یہ ہم سب کے لئے لمحہئ فکریہ ہے اس لئے کہملک کے باشندوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی موجود ہے جس کے لا علمی اور بھولے پن کی وجہ سے سرکاری دستاویزات اور مختلف محکموں میں ضروری تفصیلات کے اندراج میں خامیاں موجود ہیں۔ اب تک حکمرانوں کی جانب سے آنے والے بیانات سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ مسلمانوں کے علاوہ کسی بھی کمیونیٹی اور جماعت سے تعلق رکھنے والے کو ہندوستان میں شہریت مل جائے گی،گر چہ اس کے پاس کوئی بھی دستاویز نہ ہو،لیکن مسلمان کے پاس اگر مطلوبہ دستاویزات میں یکسانیت نہیں ہے یا آفیسر کو شبہ ہوگیا توایسی صورت میں اس بات کا اندیشہ ہےکہ لوگ ان آزمائشوں سے نجات پانے کے لئے اسلام کو الوداع کہہ کر بد دین نہ ہو جائیں۔یہ ایک زبر دست لمحۂ فکریہ ہے دین جس کی جانب ارباب حل وعقدکوتوجہ دینی چاہیے۔
ممبئی(نامہ نگار) عروس البلاد ممبئی کے مسلم اکثریتی علاقہ کرلا کے کونٹرڈکمپلیٹ فٹنس، اولڈاسٹیٹ بینک آف انڈیا، نزد مائیکل اسکول، ایل بی ایس روڈ، کرلا (ویسٹ)میں گزشتہ دنوں ’محفل مشاعرہ‘ کا انعقاد بزم ناز و بسمل(کرلا) کی جانب سے ہوا۔ باذوق سامعین سے خطاب کرتے ہوئے صدر مشاعرہ عارف اعظمی نے نوجوان شعرائے کرام کو اپنے اسلاف کی میراث کی حفاظت کرنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ اردو زبان کا مستقبل روشن اور تابناک ہے۔ انہوں نے میر، داغ،جگر، ذوق، ظفر سے لے کر عہد حاضر کے نوجوان شعرائے کرام کے چنندہ اشعار سنا کرسامعین کو محظوظ کیا۔ان سے قبل مہمان خصوصی کی حیثیت سے تشریف فرماصحافی میر صاحب حسن نے کمیٹی کے اراکین کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ اردو شعرائے کرام کے کلام کو اخبارات میں نمایاں مقام اس لئے دیا جاتا ہے کہ ان کی حوصلہ افزائی ہوسکے۔سیدہ تبسم نے کہا کہ شاعر اپنے گردوپیش کے حالات و واقعات کاعکاس ہوتا ہے۔نوجوان شعراء اپنے اسلاف کی میراث(یعنی اردو ادب) کی حفاظت کریں۔ کیونکہ ان کی نوک قلم سے جب کوئی تحریر صفحہ قرطاس پر ابھرتی ہے توآنے والی نسلوں کے لئے ایک سبق ہوتی تھی اس لئے آپ کی قلم اٹھے تو صداقت کے لئے اٹھے۔پروگرام کا آغازنصیب اللہ کی نعت پاک سے ہوا۔ غزل کے دور میں نوجوان شاعر راغب ارشاد نے جدید لب ولہجے میں منفرد غزل پیش کرکے سامعین کو جھومنے پر مجبور کر دیا۔پروگرام میں شریک تمام شعرائے کرام کو بزم نازوبسمل کے اراکین کے ہاتھوں ”خلیل الرحمان اعظمی ایوارڈ“پیش کیا گیا۔محفل مشاعرہ میں دیگر مہمانان اعزازی کے طور پراحتشام شیخ،حنیف قمر،بلال شیخ، جاوید انصاری(سی۔اے۔)، سیدابوسعد،افروز عالم، جمشید اعظمی،کراٹے ایسوسی ایشن کے صدر سوریہ نارائن گوراوغیرہ موجودتھے۔ ذاکر خان ذاکر،ارشد جمال، عبداللہ مسرور،مقصود آفاق، قمر بجنوری، منظر بلیاوی، تابش رامپوری، راغب ارشاد، شہزاد بے دل، نصیب اللہ بستوی، یاسر اعظمی،عبدالرحمان نائل، شاعرہ سیدہ تبسم ناڈکروغیرہ نے بہت ہی کم وقت میں سلیس زبان میں جامع کلام پیش کرکے اور یوسف رانا نے نظامت کرکے مشاعرے کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔
فیصل فاروق
مہاراشٹر میں راتوں رات دیویندر فرنویس کی حلف برداری اور ڈرامائی انداز میں حکومت سازی کے خلاف داخل کی گئی عرضی پر سپریم کورٹ نے گزشتہ دنوں تاریخی فیصلہ سنایا۔ کورٹ نے مہاراشٹر میں نہ صرف اراکین اسمبلی کی خرید و فروخت کا اندیشہ ظاہر کیا بلکہ جمہوری قدروں کے تحفظ کی وکالت کی اور عام شہری کے اُس حق کو تسلیم کیا کہ اُسے اچھی اور بہتر حکومت فراہم کی جاۓ۔ سپریم کورٹ نے منگل کو جیسے ہی کہا کہ بدھ کی شام ۵/بجے تک دیویندر فرنویس کو اکثریت ثابت کرنی ہوگی، تو اُن کے پیروں تلے زمین کھسک گئی۔ فیصلے کے کچھ ہی دیر بعد پہلے نائب وزیراعلیٰ اجیت پوار نے استعفیٰ دیا۔ اُس کے بعد یہ کہتے ہوئے کہ اُن کے پاس اکثریت نہیں ہے، فرنویس کو بھی استعفیٰ دینا پڑا۔
بی جے پی نے اجیت پوار کے بھروسے ہی مہاراشٹر میں حکومت بنانے کا قدم اٹھایا تھا اور اُسے پوری اُمید تھی کہ اجیت پوار اپنے ساتھ این سی پی کے کچھ اراکین اسمبلی کو توڑ کر لائیں گے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ بی جے پی آخر تک اقتدار اور ای ڈی، سی بی آئی جیسی ایجنسیوں کی طاقت پر منحصر رہی۔ صدر جمہوریہ اور مہاراشٹر کے گورنر تک کا ’استعمال‘ کیا گیا اور راتوں رات ’غیر مماثل شادی‘ کرا دی گئی۔ اتنا ہی نہیں صبح صبح گھر کے بڑوں، وزیراعظم اور وزیر داخلہ نے ٹویٹر کے ذریعہ سے اپنا ’آشیرواد‘ بھی دے دیا تھا۔
مہاراشٹر میں شیوسینا، بی جے پی کے مابین وزیراعلیٰ کا عہدہ تنازعہ کا باعث رہا۔ اِسی تنازعہ کو لے کر مہاراشٹر میں سیاست کا ’ ہائی وولٹیج مہا ڈرامہ‘ چلا۔ واضح رہے کہ مہاراشٹر کی ۲۸۸/اسمبلی نشستوں کیلئے ۲۱/اکتوبر کو انتخابات ہوئے تھے۔ نتائج کا اعلان ۲۴/اکتوبر کو کیا گیا تھا۔ ریاست میں حکومت بنانے کیلئے کسی پارٹی یا متحدہ محاذ ’مہا وکاس اگھاڑی‘ کا دعویٰ نہ پیش کرنے کے سبب ۱۲/نومبر کو صدر راج نافذ کر دیا گیا تھا۔ شیوسینا اور بی جے پی نے ساتھ مل کر یہ الیکشن لڑا تھا لیکن جب شیوسینا نے وزیراعلیٰ کے عہدے کا مطالبہ کیا تو بی جے پی کے ساتھ شیوسینا کا ۳۰/سالہ قدیم اتحاد ختم ہو گیا اور اِس طرح مہاراشٹر میں سیاسی بحران پیدا ہوا۔
مزے کی بات یہ رہی کہ لوگوں نے صبح اخبار میں پڑھا تو اُدھو ٹھاکرے وزیراعلیٰ تھے اور جب ٹیلیویژن دیکھا تو پتہ چلا کہ کوئی اور وزیراعلیٰ بن چکا ہے۔ لوگ نیند کی آغوش میں تھے اور تختہ پلٹ دیا گیا۔ مہاراشٹر میں ایسا سیاسی ڈرامہ پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ پہلے کبھی اِس طرح طاقت کے بنیاد پر جمہوریت کا مذاق نہیں بنایا گیا تھا۔ کانگریس کے سینئر لیڈر احمد پٹیل جنہوں نے کانگریس، این سی پی اور شیوسینا میں اتحاد کیلئے گفت و شنید میں مرکزی کردار ادا کیا تھا، نے اِس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’اُنہوں (بی جے پی) نے غیر قانونی طریقہ سے اقتدار حاصل کرنے کیلئے جس طرح ہمارے آئین اور اعلیٰ عہدوں کو نقصان پہنچایا ہے، اُس کی تلافی کیلئے دہائیاں درکار ہوں گی۔‘‘
ہر شہری کو آئین کی پاسداری کرنی چاہئے خاص طور پر آئینی عہدوں پر فائز افراد کو۔ میڈیا نے بھلے ہی گورنر بھگت سنگھ کوشیاری کی غیر آئینی اور غیر جمہوری حرکت کو ’کوشیاری کی ہوشیاری‘ کہا ہو لیکن حقیقت میں یہ گورنر موصوف کی ’ذہانت‘ کا کمال نہیں تھا بلکہ اُس ’ذہنیت‘ کا نتیجہ تھا جو اُنہیں ’شاکھا‘ سے حاصل ہوئی ہے۔ آدھی رات کو آئین کی روح کے منافی فیصلہ کرتے ہوئے موصوف کو یہ بھی یاد نہیں رہا کہ اِس وقت وہ ’پرچارک‘ یا ’شاکھا پَرمُکھ‘ نہیں ہیں بلکہ ملک کی ایک اہم ریاست کے پُروقار عہدے پر فائز ہیں۔ اپنی غلطی مان کر کوشیاری جی کو کچھ اخلاقیات کا مظاہرہ کرتے ہوئے استعفیٰ دے دینا چاہئے۔
مہاراشٹر میں حکومت بنانے کیلئے تمام تر حربوں کا سہارا لینے کے بعد بھی بی جے پی کو منہ کی کھانی پڑی۔ اِس سے پہلے ہریانہ میں بی جے پی زور شور سے ریاست کی ٩٠/میں سے ۷۵/سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے کا دعویٰ کر رہی تھی لیکن اُسے ۴٠/سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا اور نئی نئی وجود میں آئی دشینت چوٹالہ کی جَن نایک جنتا پارٹی کے ساتھ اتحاد کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ کانگریس سے پاک ہندوستان کا نعرہ بلند کرنے والی بی جے پی خود ہندوستان کے نقشہ سے اپنے خاتمے کی جانب بڑھ رہی ہے۔ اگرچہ بی جے پی کی حکومت ابھی بھی ۱۷/ریاستوں میں ہے مگر رقبہ کے لحاظ سے بڑی اور خصوصی ریاستیں ہاتھ سے نکل چکی ہیں۔
امیت شاہ کی قیادت میں بی جے پی کے سامنے یہ پہلا موقع ہے جب وہ اتنی نشستیں جیتنے کے بعد بھی اقتدار سے باہر ہوگئی۔ امیت شاہ اب اِس خوش فہمی سے باہر نکلیں کہ اُنہیں کوئی ہرا نہیں سکتا، وہ ناقابلِ شکست ہیں۔ مہاراشٹر سے قبل بی جے پی گوا اور ہریانہ جیسی ریاستوں میں اکثریت سے دور ہونے کے باوجود حکومت بنانے میں کامیاب رہی تھی۔ کرناٹک میں بی جے پی نے حکومت بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی لیکن مہاراشٹر میں شرد پوار کی سیاسی پختگی نے اُس کی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا۔ مہاراشٹر میں شہ اور مات کے کھیل میں شرد پوار نے ثابت کر دیا کہ وہ مہاراشٹر کی سیاست کے مردِ آہن ہیں۔
بہرحال، مہاراشٹر میں جو کچھ بھی ہوا اُس سے بی جے پی کی شبیہ کو نقصان ہوا ہے بلکہ اُس کی وجہ سے پارٹی کے وقار اور وزیراعظم کی شبیہ کو بھی زبردست دھکا لگا ہے۔ اِس سیاسی اُٹھا پٹخ میں شیوسینا سب سے زیادہ فائدے میں رہی اور بی جے پی نقصان میں۔ کل تک شیوسینا کو نائب وزیراعلیٰ کا عہدہ نہیں مل رہا تھا لیکن اب وزارت اعلیٰ کی کرسی مل گئی جبکہ اُس کے ارکان اسمبلی کی تعداد این سی پی کے ارکان اسمبلی سے کچھ ہی زیادہ ہے۔ مہاراشٹر میں بی جے پی کی اِس ذلت آمیز شکست سے دیویندر فرنویس پر مرزا صادق شرر دہلوی کا یہ شعر صادق آتا ہے:
نہ خدا ہی مِلا نہ وصالِ صَنم
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
اشعر نجمی، ممبئی، ہندوستان
میں نے کبھی کہا تھا کہ ہندوستان میں اردو کے فروغ میں مدارس اسلامیہ کا بڑا ہاتھ ہے، میں اب بھی اس سے انکار نہیں کرتا لیکن فی الحال ہم وہیل چیئر پر بیٹھی ہوئی اس اردو زبان کے متعلق بات نہیں کر رہے ہیں جس کی جیب مذہبی خزانوں سے بھری ہوئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ “منہاج العربیہ” اور “تسہیل المصادر” رٹتے رٹتے مدرسوں کے طلبا کی اردو بحیثیت محرر اور بطور خاص بحیثیت مقرر کافی اچھی ہو جاتی ہے لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ طلبا اردو کو عربی اور فارسی کے توسط سے سیکھنے کا شرف حاصل کرتے ہیں۔ انھیں اردو زبان سے کچھ کوئی خاص لینا دینا نہیں ہوتا۔ یہ محض “اسلامیات” پڑھنے کے لیے اس زبان کو سیکھنے پر مجبور ہیں۔ اس کا ایک اور برا نتیجہ یہ ہوا کہ اردو زبان میں قصداً عربی اور فارسی کا تسلط قائم کیا جاتا رہا اور دوسری طرف ہندی الفاظ کا اخراج عمل میں آتا رہا۔ حتیٰ کہ یہ مدارس کے طلبا اور اساتذہ اردو بولتے ہوئے بھی مخرج کی ادائیگی اسی طرح کرتے ہیں، جس طرح انھیں عربی الفاظ کو ادا کرنے کی عادت ڈال دی گئی ہے؛ چنانچہ یہ اردو نہیں بولتے، کوئی اور زبان ہی بولتے ہیں۔
میں ان ہندوستانی یونیورسٹیوں کی بھی بات نہیں کررہا ہوں جہاں اردو پڑھنے والے بیشتر طلبا کا مقصد زبان و ادب میں ایم فل یا پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر کے انھیں یونیورسٹیوں میں لیکچرر کے منصب پر فائز ہونا ہے۔ ایک بار فضیل جعفری نے ان یونیورسٹیوں کو جہالت مینو فیکچر کرنے والی ایسی فیکٹریاں کہاتھا جہاں سے ہر سال جہلا کی ایک بڑی کھیپ نکلتی ہے اور انھی یونیورسٹیوں میں مزدوری پر مامور ہوجاتی ہے؛ تاکہ نئی کھیپ تیار کی جا سکے۔ بات تلخ ہے لیکن یہی حقیقت ہے۔
معروف مورخ ڈاکٹر مبارک علی نے کتنی پیاری بات کہی ہے کہ کسی بھی زبان میں لکھا جانے والا لٹریچر اس زبان کے بولنے والے لوگوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ذہنی پختگی کے کس درجہ پر ہیں۔ اگر زبان میں نئے الفاظ و اصطلاحات کا اضافہ رہتا ہے تو اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سماج میں نئے خیالات، افکار اور نظریات کو روشناس کرایا جارہا ہے۔ اگر زبان ایک جگہ ٹھہر جائے اور اس کے الفاظ و اصطلاحات میں جمود آجائے تو اس سے معاشرے کی پسماندگی کا اظہار ہوتا ہے۔ انیسویں صدی کے جرمنی دانشوروں نے جرمن زبان کو صرف ادب کے بل بوتے پر نہیں بلکہ فلسفہ، تاریخ، سائنس اور دوسرے علوم پر کتابیں لکھ کر اسے معیاری زبان بنایا۔ بیسویں صدی میں عربی زبان کو لبنان کے عیسائی دانشوروں نے نئے علوم سے مالا مال کیا۔ بلاشبہ اردو میں یورپ کی زبانوں سے سائنس، ٹیکنالوجی، سماجی علوم اور ادب کے تراجم ہوئے لیکن محض ترجموں کے ذریعہ کسی زبان کو اہم نہیں بنایا جا سکتا۔ تراجم زبان کو مقروض بنا دیتے ہیں، جب تک کسی زبان میں بنیادی تحقیقی کام نہ ہو، اس کے بولنے والوں کی ذہنی ترقی نہیں ہوسکتی۔
اردو زبان کی نشوونما میں دہلی اور لکھنؤ کی اشرافیہ کا حصہ ہے، لہٰذا ابتدا میں زبان آرائی کو تخلیق کا کارنامہ سمجھا جاتا تھا۔ اردو زبان کا دوسرا اہم موضوع مذہب تھا بلکہ اب بھی ہے۔ چنانچہ شعر و شاعری، داستانوں اور مذہبی عقائد نے اردو زبان کو اپنا لیا اور اسے بولنے والوں کا یہی مخصوص ذہن بنا دیا۔
ذرا اپنے گرو پیش کا جائزہ لیں اور بتائیں کہ کیا آج بھی ہمارے یہاں سے شائع ہونے والے بیشتر اردو اخباروں کو مسلمانوں کے مسائل کی جذباتی نمائندگی سے فرصت ہے؟ کیا ان اردو اخباروں کے صفحات مذہبی ایام میں اسلامی تہواروں کے مخصوص ضمیمے نہیں نکالتے؟ کیا دوسرے ہندوستانی تہواروں پر یہ اخبار یہی اہتمام کرتے ہیں؟ کیا بیشتر مشاعروں کا آغاز تلاوت قرآن، حمد و نعت سے نہیں کیا جاتا؟ کیا ان مشاعروں میں شامل غیر مسلم شعرا ذہنی طور پر اردو کو مسلمانوں کی زبان نہیں سمجھ بیٹھے ہیں کہ اپنے تماشائیوں کو خوش کرنے کے لیے قصداً مسلمانوں کے سیاسی اور سماجی جذبات کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں، حتیٰ کہ بعض غیر مسلم شعرا تو مسلمانوں کو خوش کرنے کے لیے حمد اور نعت بھی پڑھنا شروع کردیتے ہیں اور تماشائیوں میں شامل مدارس کے طلبا اور اساتذہ کی ایک کثیر جماعت جھوم جھوم کر اچھل اچھل کر داد کے ڈونگرے برساتے ہیں؟ ماشا اللہ، سبحان اللہ، الحمد اللہ وغیرہ جیسی مخصوص اسلامی اصطلاحات اردو زبان کے اندر اس حد تک سرایت کرچکی ہیں کہ ایک روشن خیال ادیب بھی اس کی گرفت سے خود کو آزاد نہیں کر پاتا۔ میں جب بیمار پڑا تو فیس بک پر بیشتر ادیبوں نے اللہ سے میری صحت عاجلہ و کاملہ کی دعائیں مانگیں، اور جب کوئی چل بستا ہے تو اکثر اس کی مغفرت کی دعائیں مانگتے ہوئے لوگ نظر آتے ہیں، حتیٰ کہ کسی اچھے شعر یا نثر پارے پر “اللہ جزائے خیر دے” کی گردان بھی کرتے ہوئے لوگ مل جائیں گے۔ دراصل ہمارا پورا معاشرہ “ہمپٹی ڈمپٹی” کی طرح مذہب کی دیوار پر چڑھ بیٹھا ہے جس سے وہ اترنے کی کوشش کرنا بھول چکا ہے۔
سوال اٹھتا ہے کہ پھر اردو کا وہ سیکولر رویہ کہاں ہے جسے ثابت کرنے کے لیے آپ کلاسیکی ادب سے جدید ادب تک غیر مسلم ادیبوں اور شاعروں کے اسمائے گرامی گنواتے پھرتے ہیں؟ پھر آپ آر ایس ایس سے شاکی کیوں ہیں جو اردو کو مسلمانوں کی زبان ثابت کرنے پر عرصہ دراز سے محنت کررہی ہے؟ یہ کام تو خود آپ کر رہے ہیں اور ڈنکے کی چوٹ پر کر رہے ہیں۔
اردو بولنے والوں کے اس ذہنی رویے نے اسے دیگر سماجی علوم سے قطع تعلق کردیا ہے۔ اردو کا شاعر یا ادیب فراٹے سے کلاسیکی ادب، ترقی پسند ادب، جدید اور مابعد جدیدیت پر بات کرلے گا، فلسفہ کو بھی کچھ لوگ ضمناً قبول کرلیں گے لیکن سائنس، ٹیکنالوجی، سیاسیات، عمرانیات، الٰہیات وغیرہ پر بات کرتے ہوئے ہکلانا شروع کردیتے ہیں۔ ایک واقعہ یاد آتا ہے۔ ژاں پال سارتر سے پاکستان کا ایک ادیب ملاقات کرنے پہنچا۔ سارتر نے اسے آدھ گھنٹے کا وقت دیا تھا۔ رسمی گفتگو کے بعد سارتر نے حضرت ادیب سے دریافت کیا کہ جنوبی ایشیا میں موجود سیاسی کشمکش کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ ادیب صاحب نے بڑے فخر سے منھ بناتے ہوئے کہا، “جناب، میں شعر و ادب کا بندہ ہوں، مجھے سیاست سے کیا سروکار؟” سارتر اپنی جگہ سے فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور یہ کہتے ہوئے رخصت ہوگیا کہ “جو شخص اپنے گردو پیش سے اتنا لاتعلق ہو، اس کے ادیب ہونے پر بھی مجھے شک ہے۔”
میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہمارے اردو ادیبوں کا سماجی، تاریخی اور سیاسی شعور صفر ہے، بلکہ میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ یہ شعور صرف ادب کے حوالے سے ہے۔ شمس الرحمٰن فاروقی کے افسانوں اور ناولوں کو دیکھیے تو ان کے تاریخی شعور کا پتہ چلتا ہے اور بھی کئی ہیں جن کی تخلیقات میں ان کے سماجی، تاریخی اور سیاسی شعور کی جھلک نمایاں ہوتی ہے، لیکن یہ صرف تخلیق ادب تک محدود رہتی ہے، ادیب کی شخصیت اسے انگیز نہیں کر پاتی۔ اس کی مثال بالکل مدرسہ کے ان طلبا کی سی ہے جو محض اسلامیات کا مطالعہ کے لیے اردو زبان کا شعور رکھتے ہیں اور بقدر ضرورت رکھتے ہیں۔ میں یہاں ‘ادیب کا منصب’ یا ‘ادب اور زندگی’ یا جدلیاتی مادیت جیسے فرسودہ موضوعات پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتا لیکن آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا وہ فرانسیسی ادیب و دانشور احمق تھے جنھوں نے شہنشاہ لوئی چہار دہم کی بعض جنگوں کی مخالفت کی؟ نپولین کے تشدد کی مزاحمت کی؟ نطشے تو شاید آپ کی نظر میں گھامڑ ہی ہو گا، جس نے جرمنوں کی فرانسیسی انقلاب کی مخالفت کرنے پر برطانوی ارباب اقتدار کو لتاڑا؟ یہ صرف تاریخی کہانیاں نہیں ہیں؛ عصر حاضر میں ایڈورڈ سعید، مارٹن لوتھر کنگ، نوم چامسکی، طارق علی اور اروندھتی رائے جیسے لوگوں نے اعزازات، انعامات، خطابات اور مراعات کو ٹھوکر مار کر اپنی ساری زندگی اپنے لکھے ہوئے کو جینے میں لگا دی، کیا انھوں نے اپنا وقت ضائع کیا؟ امریکی ادب اور سماجیات پر ہارپر لی (Harper Lee) کا کیا اثر ہے، اسی بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے ناول “To Kill a Mockingbird” کی اشاعت کے فوراً بعد ہی سارے امریکہ میں سیاہ فاموں کے حقوق کی جدوجہد زور پکڑ گئی اور گذشتہ پچاس سال میں انسانی حقوق کی کئی تحریکیں اس کے زیر اثر رہیں۔ ہمیں ایڈورڈ سعید کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ وہ ایک فلسطینی عیسائی تھا لیکن اس نے اپنی ساری زندگی ہر فلسطینی بشمول مسلمان، کے حق کے لیے قربان کردی۔ مثالیں اور بھی ہیں لیکن یہاں سوال اٹھتا ہے کہ اردو زبان اس منظر نامے سے خالی کیوں ہے؟
مضمون نگارممبئی کے سہ ماہی جریدے ”اثبات“ کے مدیرہیں