( مرحوم حاجی پور تاریخی اہمیت کا حامل مضمون ہے، جس میں صوبۂ بہار کے معروف علاقے حاجی پور و اطراف کے تاریخی واقعات و حادثات کو پیش کیاگیا ہے۔ یہ مضمون ایک تاریخی دستاویز ہے،خصوصاً ان افراد کے لیے،جواس علاقے پر تحقیق اور ریسرچ کا کام کررہے ہیں۔ اس مضمون کو موقر رسالہ ’’معاصر، پٹنہ‘‘ نے مئی ۱۹۴۶ء میں شائع کیاتھا۔جس کے مصنف ماسٹر محمد عبدالحکیم ہیں۔ماسٹر عبدالحکیم عرف نوحہ محلہ جڑھوا،حاجی پور کے رہنے والے تھے،گورنمنٹ ہائی اسکول حاجی پور میں ہیڈ مولوی تھے اور انتہائی نفاست پسند اور باوقار بزرگ تھے۔ پچھلی صدی کی چھٹی دہائی میں انتقال ہوا،قبر ملکی محلہ کے خاندانی قبرستان میں ہے۔عام قارئین کے استفادے کے لیےحاجی پور پر لکھے گئے ان کے اس مضمون کو ایک بار پھرشائع کیاجارہا ہے۔یہ مضمون ہمیں پروفیسر محمد سجاد( علی گڑھ مسلم یونیورسٹی)اور نورالزماں ارشد(سیدنا طاہر سیف الدین (منٹو سرکل) اسکول، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی)کے واسطے سے موصول ہوا ہے،جس کے لیے ہم ان کے شکر گذار ہیں)
دریائے گنگ وگنڈک و مہی کے سنگم پر جسے تربینی کہتے ہیں ،زمانۂ قدیم میں ایک شہر واقع تھا جسے ہری پور کہتے تھے ۔روایات راجہ ویشال کے ایک گڑھ کا بھی پتہ دیتی ہیں لیکن یہ شہر عہد اسلام میں زیادہ مشہور ہوا۔ ابوالمظفر شمس الدین حاجی الیاس شاہ جو اوائل میں ملک فیروزشاہ تغلق کا ایک معتمد ملازم تھا جودہلی سے بھاگ کر بنگال پہنچا ۷۴۴ ھ میں اپنے دودھ بھائی علاء الدین شاہ کا خاتمہ کرکے شمال و مغربی بنگال کا حکمراں بن بیٹھا لکھنوتی اور سنار گاؤں پر تصرف کرکے خطبہ و سکہ اپنے نام کا جاری کیا،جاج نگر اڑیسہ پر چڑھ دوڑا،ترہت کے راجہ کوباج گزار بنایا اور بہار سے اپنی فتوحات کا دائرہ بنارس تک پھیلایا ۔فیروز شاہ تغلق کی آنکھیں کھلیں، دہلی سے فوج جرار کے ساتھ روانہ ہوا اور حاجی الیاس کو پسپا ہونا پڑا، تفصیل غیر ضروری ہے۔ حاجی الیاس تقریباً ۷۶۰ھ میں راہی ملک عدم ہوا لیکن اس کی سلطنت کچھ عرصہ تک قائم رہی اسی ابوالعزم حاکم بنگال و بہار کو ہری پور کی جغرافیائی اہمیت کا اندازہ ہوا اور یہ جگہ اسے بہت پرفضا نظر آئی چنانچہ اس نے اسے بہت آباد کیا، ایک قلعۂ خام بنایا، فصیلیں دریائے گنڈک کے کنارے مضبوط بنائیں۔ اس وقت تک بہار کا صدر مقام بہار شریف تھا جس پر فیروز شاہ تغلق کی طرف سے یو…؟ شحنہ حاکم تھا لیکن تغلقوں کے زمانہ سے عہد شیر شاہی بلکہ اکبری دور تک حاجی پور کو کافی فروغ حاصل تھا ،کہتے ہیں کہ حاجی الیاس نے اورنگ محل اور شیش محل دریائے گنڈک کے کنارے، اس جگہ جسے آج اندر قلعہ کہتے ہیں کہیں بنوائے تھے۔ اسی کے نام پر بقول فرشتہ ہری پور حاجی پور ہوا، ایس ڈی او کے بنگلہ کے نزدیک اونچے مقام پر چند قبریںہیں، جن میں سے ایک حاجی الیاس کی بتائی جاتی ہے، کوئی کتبہ موجود نہیں ،معلوم ہوتاہے کہ بہار کی آب و ہوا اور حاجی پور کی فضا حکمرانان بنگال کو ایسی بھائی کہ انہیں اسے پایہ تخت بنانے کی سوجھی ،باشندگان حاجی پور اسے ہنوز بنگال کا پایۂ تخت کہا کرتے ہیں۔ حاجی پور وشمالی بہار پر شاہان شرقی جونپور نے تقریبا ایک سو دو برس تک اپنا تسلط قائم رکھا۔ حسین شاہ شرقی نے بہلول لودھی سے عارضی صلح کرکے اڑیسہ پر چڑھائی کی اثناء راہ میں ترہت پہنچا اور محافظان قلعہ حاجی پور کو جو راجہ ترہت کی طرف سے ان پر متصرف تھے ،نکال باہر کیا۔ جب راجہ ترہت نے تاج و خراج دینے سے انکار کیا، اسے شکست دی اس جنگ میں حاجی پور کافی غارت و برباد ہوا۔ ایک پورا پرگنہ جل کر خاک و سیاہ ہوا ،یہی وجہ ہے کہ اس کا نام جلوہہ یا جروہہ پڑگیا۔سکندر لودی نے حاجی پور و بہار کو سلطنت دہلی میں حسین شاہ کو شکست دے کر ملا لیا لیکن مغلوں کے اوائل زمانہ میں حاجی پور سلطنت بنگالہ میںنظر آتا ہے ۔نصب شاہ بنگالہ کی طرف سے مخدوم عالم حاجی پور پر حکومت کرتا تھامخدوم عالم نے فرید خاں (شیرشاہ) کا ساتھ دیا اور جاںکھوئی ،جب سوریوں کا زوال ہوا توقاینوں اور کرارانی افغانوں نے اپنا تسلط جمایا، تاج خاں کرارانی جو اسلام شاہ کا معتمد اور مشیر تھا اور جسے اسلام شاہ نے اپنے نابالغ بیٹے فیروز کا اتالیق اور وزیر مقرر کیا تھا، فیروز شاہ کے قتل کے بعد اس کے غاصب ہاتھوں مبارز خاں عرف عدلی شاہ دہلی سے منحرف ہوگیا۔ جنگ کی نوبت آئی ،ہمایوں بقال نے تاج خاں کو شکست دی مگر مغلوں کی یورش کی وجہ سے کرارانیوں کا استیصال ممکن نہ ہوسکا ،تاج خاں نے پہلے محمد خاں سور پھر سکندر سور کی سپہ سالاری قبول کی اور اس کا بھائی سلیمان مونگیر میں حاکم تھا، سکند سور نے حاجی پور کو اپنا دارالحکومت قرار دیا لیکن دو برس بعد اس دنیا سے چل بسا۹۶۶ ھ میں تاج خاں کرارانی اس کا وزیر و سپہ سالار اس کی جگہ مسند آرا ہوا اس نے بنگال کو بھی فتح کیا لیکن اس نے بھی دارالامارت حاجی پور میں برقرار رکھی۔
اراکین سلطنت کو علی قدر مراتب خطاب وانعام دے کر ان کی تسخیر قلوب کی اور حاجی پور کو جو حسین شاہ شرقی کے زمانے میں کافی برباد ہوچکا تھا از سر نو آباد کیا۔ اندر قلعہ کے رقبہ میں محل سرا اور عمارات عالیہ فرحت بخش و دلکشا تعمیر کرائیں، قلعہ کو پھر مستحکم کیا ،قلعہ کی کھائی کو پھر کھدوایا ،اس کے شمالی مشرقی گوشہ میں باغ چار سو بیگہ کے حلقہ میں نصب کرایا اور اس باغ کے درمیان میں ایک بہت بڑا تالاب ۳۷ بیگہ کے گرد میںکھدوایا اور تالاب کے کنارے ایک فرحت افزا بنگلہ تعمیر کرایا اور اس کے ہم بغل جانب جنوب ایک قناتی مسجد یا عید گاہ شہر تعمیر کرائی ان سب کے نشانات ابھی باقی ہیں ۔غرضکہ تاج خاں نے حاجی پور کو از سر نو فروغ دیا، اس کا قالب اسی قناتی مسجد یا عید گاہ سے ملحق ہیں جانب شمال مدفون ہے آج بھی اس رقبہ کا نام تاج خاں اوراس کے بھائی یا باج خاں کے نام سے مشہور ہے تاج کے مشور بھائی سلیمان خاں کرارانی نے نہایت تزک و احتشام اوررعب و دبدبہ سے پورے بنگال و بہار و اڑیسہ پر حکومت کی اور اکبر سے دوستانہ تعلقات قائم رکھے لیکن اس کے ناعاقبت اندیش پسر دوم داؤد خاں کرارانی نے اپنے سپہ سالار اور محسن لودی کو جس کے نام سے لودی محلہ مشہور ہے قید کرکے قتل کرا ڈالا اس کا مرنا تھا کہ اکبری افواج نے اس پر پے درپے حملے شروع کردیے منعم خاں سے پہلے تو کچھ بنائے نہ بن سکی خود شہنشاہ اکبر کو پٹنہ آنا پڑااور حاجی پور کی جنگ داؤد خاں سے لڑنی پڑی۔ حاجی پور کا قلعہ مفتوح ہوا داؤد بنگال بھاگا کچھ عرصہ بعد پھر شکست کھائی اور قتل ہوا لیکن افغانوں نے حاجی پور اور اطراف میں بار بار مغلوں کو تنگ کیا خان اعظم کو حاجی پور جاگیر میںملا اور اس نے بنگال پر حاجی پور کے قیام کو برابر ترجیح دی۔ حاجی پور کا قلعہ اکبرکے عہد تک برقرار تھا۔ مورخین نے اس کے متعلق بہت کچھ لکھا ہے لیکن اب حاجی پور کادور گیا پٹنہ کازمانہ پلٹا حقیقت یہ ہے کہ اکبری دور حاجی پور کے زوال کے آغاز کا پتہ دیتا ہے پٹر منڈی ایک انگریز سیاح نے ۱۶۳۲ میں حاجی پور کی اگلی رونق اور سیاسی اہمیت اورتجارتی چہل پہل کا حال لکھا ہے لیکن زوال کی ابتدا کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے سرجان مارشل عہد عالمگیری میں حاجی پور میں وارد ہوا شہر کی رونق اگل سی تو نہ تھی لیکن اب بھی حاجی پور لائق دید تھا رفتہ رفتہ ویران اورا جاڑ ہوتا ہوگیا اوراب تو نیرنگی زمانہ اورکرشمات قدت کا بین ثبوت ہے جہاں کاندھے سے کاندھا چھلتا تھا اب وہاں ویران اجاڑکھنڈرات ہیں قدیم حاجی پور فنا ہوگیا اب جو کچھ باقی ہے وہ مرحوم حاجی پور کا محض سوکھا ہوا ڈھانچہ ہے جس کاسر ہے نہ پیر ،فاعتبرویا اولی الابصار[…]
میری نظر سے ایک پرانی کتاب فارسی زبان میں ناقص و ناتمام گزری تھی حاجی پور کے تذکرہ کے موقع پر (تھانہ) منہار کو جوموجودہ حاجی پور سے جانب پورب آٹھ کوس پر ہے ناف شہر لکھا تھا۔ جس کے معنیٰ یہ ہوئے کہ منہار سے آٹھ کوس اور آگے یعنی مہدی نگر تک حاجی پور کی آبادی تھی۔کیونکہ موجودہ حاجی پور سے جانب پورب سولہ ۱۶ کوس پر مہدی نگر واقع ہے۔
اتر طرف حاجی پور کی سرا تھی جو انوار خاں(۱)کی سراکہلاتی تھی۔(چونکہ یہ بہت عرصہ کی بات ہے اس لیے یہ مجھے اچھی طرح یاد نہیں ہے کہ وہ کتاب قلمی تھی یا ٹائپ کے چھاپ کی(۲) اس نام کی صحت اور لفظ کی املا میں مجھے تامل ہے)۔ جہاں اب ریلوے اسٹیشن ہے اور جو موجودہ حاجی پور سے چار کوس کے فاصلہ پر ہے۔ اس سے اتر اور کہاں تک حاجی پور کی آبادی تھی اس کا کچھ ذکر نہ تھا۔
پچھم اور دکھن طرف کی آبادی کچھ زیادہ نہ تھی اس لیے کہ اس کے دونوں جانب دریاہے۔
حاجی پور کی بنی ہوئی فیل دنداں کی چٹائی اور کانچ کی چوڑی مشہور تھی۔ اُس روز میں اتنا اور بیان کرنا بھول گیا کہ اُس کتاب میں یہ بھی لکھا تھا کہ ’’یہاں بارہ سئے گھر حلوائی -نوسئے گھرنانبائی اور سات سئے گھر تبنولی بستے تھے‘‘۔
جس زمانے میں میںنے یہ کتاب دیکھی تھی اس وقت کے سب سے زیادہ دو بوڑھے بوڑھیوں سے ملاجن کی عمر یں ۷۰ ستر،اسی۸۰ بلکہ نوے۹۰ سے کم نہ تھیں۔ وہ دونوں آپس میں حقیقی بھائی تھے۔ اب ان دونوں کے پوتے پڑپوتے ہیں اور اپنے فن میںہوشیار ہیں خیر تو ان دونوں نے بیان کیا کہ ہم دونوں جروہہ کے قدیم باشندے نہیں ہیں۔ شادی کے بعدسے اپنی سسرال میں بس گئے ہیں ہم لوگوں کے خسر کبھی کبھی کہتے تھے کہ میرے دادا کہا کرتے تھے کہ ہم لوگوں کے یہاںہاتھی دانت کی آسنی (چھوٹی) اورچو کھوٹی چٹائی جس پر بیٹھ کر ہندو پوجا کرتے ہیں،بنا کرتی تھی۔ اور باہر باہر راجوڑوں میں جایا کرتی تھی۔چونکہ ہاتھی دانت نہایت سخت چیز ہے ۔ اس لیے خاص قسم کے سخت لوہے کی آری سے نہایت باریک کاغذی پتی تراشی جاتی تھی ۔ پتی تراشنے کے پہلے ہاتھی دانت مہینوں خاص خاص مصالحوں کے عرق میں بھگویا جاتا تھا۔ اور نرم کیا جاتا تھا۔ چونکہ یہ مشکل کام اور محنت طلب صنعت تھی اس لیے قیمت زیادہ ہوتی۔ اور خاص خاص ہی لوگ خریدار ہوتے تھے۔
حاجی پور میں دو محلے چوڑیہاروں کے تھے۔ ایک چوک مسجد کے قریب جو چوڑیہاری محلہ کہلاتا تھا۔ دوسرے مویشی اسپتال کے بہت ہی قریب پچھم جانب جوجوہری محلہ کہلاتا ہے۔ میں وہاں بھی جاکر چوڑیہاروں سے ملا۔ اور دریافت کیا۔ معلوم ہوا کہ اب حاجی پور میںکانچ کی چوڑی نہیں بنتی ہے۔ پٹنہ سے منگائی جاتی ہے اگلے وقتوں میں یہاں نفیس چوڑیاں بنتی تھیں۔ اور ویسادر بھی روانہ ہوتی تھیں۔ اب اللہ کا نام ہے۔
میںدوبوڑھے حلوائیوں سے بھی ملا جو چوک مسجد کے پرواڑی سڑک کی دونوں جانب رہتے تھے ۔ دونوں آپس میں حقیقی بھائی تھے۔ دونوں کی دوکانیں حاجی پور میں مشہور تھیں چیزیں اچھی بناتے تھے۔ دریافت سے معلوم ہوا کہ اگلے وقتوں میں یہاں اتنے حلوائی بستے تھے کہ کوئی حلوائی کسی شادی یا غمی کی تقریب میں اپنی ساری قوم کو نہیںکھلا سکتا تھا۔ یہاںکی کھجلی مشہور تھی۔روپیہ سیر بکتی تھی۔ ایسی چھوٹی ہلکی ہوتی تھی کہ ایک سیر میں پوری ایک سو کھجلیاں چڑھتی تھیں بے شیرے کی ہروقت تیار رہتی تھیں۔ جب خریدار آتے تھے تو شیرہ چڑھادیا جاتا تھا۔ شیرہ چڑھانے کی یہ خوبی تھی کہ ہر پرت پر ہلکی مٹھاس کا یکساں شیرہ چڑھتا تھا۔ میرے وقتوں میں یہاں نانبائی کا تو کوئی گھر تو نہ تھا مگر بڑے بوڑھوں سے برابر سنتا آتا ہوں کہ منہار والی سڑک کی دونوں جانب کھیتوں اور کنوؤں کی کھدائی اور مکانوں کی تعمیر میں نانبائیوں کے تنور نکلا کرتے تھے۔
حاجی پور چوک مسجد کے پاس نخاس والی سڑک پر ایک تنبولی کا گھر تھا جو پانچ چھ بھائی تھے۔ جو سب سے بڑا تھا۔ اس کی دوکان چوک پر تھی۔ بہت ضعیف چرم استخوان اور چھوٹے قد کا آدمی تھا خلیق اور ملنسار تھا لوگ پیٹی جی !پیٹی جی! کہا کرتے تھے۔ ایک روز میں اس سے بھی ملا۔ اس نے کہا کہ بڑوں سے سنا ہے کہ اگلے وقتوں میں حاجی پور کے تنبولیوں کے بیاہ برات کا تماشہ دیکھنے لوگ باہر سے آیا کرتے تھے۔ یہاں کے تنبولیوں کی برات مشہور تھی۔ کیونکہ اس وقت حاجی پور پورا آباد تھا۔ بڑے بڑے امیروں رئیسوں کا حاجی پور دولت کدہ تھا۔ اور تنبولی ان کو پان کھلاتے تھے۔ اس لیے سب کے سب ایسے موقعوں پر تنبولیوں کو ہر قسم کے سامان کی مدد دیتے تھے۔ آہستہ آہستہ رئیسوں امیروں کا تنبولیوں کو ان کے بیاہ برات کے موقعوں پر ہر قسم کی مدد دینا رسم ودستور میں داخل ہوگیاتھا۔ ایک مرتبہ عید کے موقع پر صوبہ دار صاحب نے فرمایا پیٹی! آج کچھ مانگو۔ عرض کیا سرکار! ہم تو حضور ہی کا دیاکھاتے ہیں۔ فرمایا نہیںکچھ ضرور مانگو عرض کیا حضور کی مرضی ہی ہے تو ایک فرمان دیا جائے کہ پیٹی کا تعزیہ سب تعزیوں کے آگے رہے۔ چنانچہ فرمان تانبے کی پتری پر کھد کر مل گیا۔ اس وقت سے اس وقت تک پان دریبہ کا اکھاڑا سب اکھاڑوں سے آگے رہتا تھا۔ میں نے بھی اس فرمان کو دیکھا ہے۔ اب اس تنبولی کے خاندان میںکوئی نہیں ہے۔ اس اکھاڑے کا اہتمام شاید پلّو میاں کے ہاتھوں میں ہے۔
میں نے اس پرانی کتاب کا ذکر اپنے ایک چچازاد بھائی سے بھی کیا۔ دونوں بزرگوں نے فرمایا مصنف نے حاجی پور کی ایک مشہور اور تحفہ چیز کے ذکر کو چھوڑدیا ہے۔ ہم لوگوں نے بزرگوں سے سنا ہے کہ یہاں کی مٹی کی صراحی مشہور تھی۔ جس کی مٹی سال بھر میںتیار کی جاتی تھی۔گورکھپوری پیسے سے ایک پیسے میںملتی تھی۔اور پیسے ہی بھر مٹی میں بنتی تھی۔صرف صراحی ہی نہیں بلکہ اس کا گلاس بھی سبک اورہلکی اتنی ہوتی تھی کہ خالی صراحی کھڑی نہیںرکھی جاتی تھی کیونکہ ٹھہر نہیں سکتی تھی۔ میں انہیں دونوں حضرات کے دریافت کرکے کمہار کے گھر پہونچا۔ ایک ضعیف سا آدمی ملا اس سے دریافت کیا اس نے کہا صراحی تو اب بھی میرے یہاں بنتی ہے۔ لیکن ویسی صراحی اب کئی پشتوں سے نہیں بنتی ہے میرے نانا کہتے تھے کہ اب میرے وقتوں سے بھی بہت پہلے سے بننا موقوف ہے۔ اب معمولی صراحیاں پھول کے گملے۔ مرتبان اور کھلونے وغیرہ بنا کرتے ہیں۔
جہاں تک مجھے یاد ہے وہ کتاب خاص حاجی پور کے تذکرہ میں نہ تھی بلکہ ہندوستان کی نامکمل تاریخ تھی۔ یہ کتاب مجھے مولوی عبدالحفیظ صاحب مرحوم ساکن موضع خدائی باغ شاہ پور ضلع چھپرہ کی وساطت سے ملی تھی اور چھپرہ ضلع کے کسی مڈل اسکول کی ملک تھی۔
حاجی پور کے اگلے رئیسوں میں ایک بزرگ شیخ صاحب تھے وہ کسی ضرورت سے کہیں باہر جاتے تھے تو خود سولہ کہاروں کی پالکی پر ہوتے۔ پالکی کے پیچھے اُن کے دیوان جی کی مجھولی(ایک قسم کی بیل گاڑی) ہوتی۔ پالکی کے دونوں جانب پیادے اور خدام ہوتے۔جب گھر سے نکلتے تو پالکی کے ہر دونوںجانب کے پٹ کو بند کردیتے اور واپسی میں بھی ایسا ہی کیا کرتے۔ ایک روز خوش پاکر دیوان جی نے عرض کیا۔سرکار! آمد و رفت میںپٹ کیوں بند کردیتے ہیں؟ فرمایا ’’راہ میں ہردو جانب اکثر اور بیشتراپنے ہی مواضعات ہیں۔ اُن کی خوشحالی دیکھ کر ممکن ہے کہ نیت بگڑ جائے اور اضافہ لگان کا خیال پیدا ہوجائے‘‘ واہ سبحان اللہ! کیا خوش نیت بزرگ تھے۔
میںنے اس خاندان کے ایک خاص بزرگ کو بچشم خود دیکھا تھا۔ جو لاولد تھے ان کے امام باڑے کی عمارت اتنی وسیع اور کشادہ تھی کہ جب ایک بنگالی بابو وکیل صاحب نے اس کو خرید کیا اور اپنا سکونتی مکان بنایا تو صرف اصطبل اور ملازموں کے رہنے لیے لیے چند کوٹھریاں ان کو بنانی پڑیں اور بس۔
اب شیخ صاحب مرحوم کے خاندان میں کوئی نہیں ہے اور ساری جائدادیں بھی آہستہ آہستہ نکل گئیں اناللہ وانا الیہ راجعون۔
میرے ایک عزیز جوگورنمنٹ ملازمت کے ذریعہ کئی برسوں سے کلکتہ میں رہتے ہیں ایک بار مجھ سے کہتے تھے کہ میںکسی تعطیل میںجروہہ مکان پر آیا ہوا تھا۔ ایک ضرورت سے ایک قدیم راجپوت گھرانے کے تعلیم یافتہ۔ لائق اور نہایت مہذب صاحب سے ملنے گیا۔ اثنا ء گفتگو میں میں نے عرض کیا ۔ آپ کا گھرانا تو حاجی پور میں پرانا گھرانا ہے اور ماشاء اللہ تعلیم یافتہ بھی ۔ کیا آپ کے یہاں بھی کوئی ایسی تحریر نہیںہے جس سے حاجی پور کی کچھ اگلی باتیں معلوم ہوں‘‘ فرمایا معلوم کرکے کیا کیجیے گا۔ اب حاجی پور اور سکنائے حاجی پور کی ایسی گری حالت ہے کہ اگلی باتوں کے جاننے سے نہیں جاننا اچھا ہے۔ میرے دادا جی اپنے دادا جی سے سنی فرماتے تھے۔ جس زمانے میں حاجی پور حاجی پور تھا۔ ایک کشمیری تاجر کیسر(زعفران) کے بورے سے لدے ہوئے دس اونٹ لیکر کشمیر سے چلا اور دل میںعہد کیا کہ یہ سب کیسر کسی ایک ہی رئیس کو دیں گے اور قیمت میں صرف ایک سنہ کا روپیہ لیں گے۔ کشمیر سے پٹنہ پہونچ گیا ۔ مگر دونوں شرطوں کے ساتھ کوئی خریدار نہ ملا۔ پٹنہ میں بھی ناکامیابی رہی۔ہاں! پٹنہ میں اس قدر معلوم ہوا کہ حاجی پور میں میر صاحب ایک رئیس ہیں جو زعفران کے قدرداں ہیں۔ سارا سامان لیے ہوئے دریا کی راہ سے تاجر صاحب حاجی پور پہونچے۔ دریا کنارے سامان چھوڑ کر شہر میں آئے اور میر صاحب کو پوچھتے ہوئے در دولت پر پہونچے۔ اشراق کا وقت تھا۔ مزدور کام کررہے تھے۔ نیو کی کھدائی ہورہی تھی اور میر صاحب کھڑے کام دیکھ رہے تھے۔ اگلے رئیسوںکا دستور تھا کہ اپنے مکانوں پر بھی اپنے پورے لباس میں رہتے تھے تاجر نے سلام کیا اور میر صاحب کوپوچھا۔ کیا کام ہے؟ غرض بتائی ۔فرمایا مال کہاں ہے، کہا دریاکنارے۔فرمایا منگائیے۔ منگایا۔ فرمایا اس کا پورا حساب آپ کے پاس قلمبند ہے۔ عرض کیا جی ہاں! فرمایا اتروائیے۔ مال اتارا گیا۔ آپ نے مزدروں کو حکم دیا نیو میں ڈال دو۔ چشم زدن میں ساری زعفران نیو میں ڈالدی گئی۔ میر صاحب تاجر کو ساتھ لیے کر بیٹھکے میں آئے کھانے پینے کے بعد فرمایا۔ ہاں صاحب! کس سنہ کا روپیہ لیں گے؟ عرض کیا صرف ایک سنہ کے روپیوں کی شرط ہے خواہ جس سنہ کے ہوں۔ فرمایا آپ کی دوشرطوں کے ساتھ ایک شرط میری بھی رہے۔ کسی خاص سنہ کی تعین کیجیے۔آخر مجبور ہوکر تاجر کو ایک خاص سنہ بتانا پڑا۔ میر صاحب نے منشی کو حکم دیاحساب دیکھ کر روپے گن دو … روپیے گن دییے گئے۔ تاجر نے دست بستہ عرض کیا حضور! ہم نے اپنی دونوں کمینی اور ذلیل شرطوں کے نتیجے اپنی آنکھوں دیکھ لیے۔ معافی کا خواستگار ہوں۔
واقعی یہ دونوں شرطیں گری ہوئی تھیں۔ تاجر امیروں، رئیسوں کو آزماتا پھرتا تھا۔ جناب میر صاحب نے بھی تاجر کی اچھی تنبیہ کی اور اپنی ریاست کی شان بھی واضح طریقہ پر دکھا دیا جو مندر جہ بالا حکایت سے بخوبی ظاہر ہے۔
جروہہ محلہ سے حاجی پور جانیوالی سڑک پر لب سڑک ایک چبوترا ہے جس کو لوگ باون ہزاری کا چبوترہ کہتے ہیں۔ اس چبوترہ کی مختلف روایتیں مشہور ہیں۔
کوئی کہتا ہے اس کے مالک باون ہزار سپاہ کے سپہ سالار تھے۔
کوئی کہتا ہے صاحب چبوترا باون ہزاری منصب دارتھے۔ جو یقینی غلط ہے۔
کوئی کہتا ہے مالک چبوترا کے مواضعات کی سالانہ آمدنی باون ہزار تھی۔
کسی کا بیان ہے جس مکان کے صحن کایہ چبوترا ہے اس عمارت کی تعمیر میں باون ہزار روپئے صرف ہوئے تھے۔
کوئی کہتا ہے اس کے باون ہزار مریدوں کے پیر تھے وغیرہ وغیرہ۔ حقیقت خدا ہی کو معلوم ہے۔
جب اس کے پاس والی سڑک پر رو میںجاتی ہوئی گاڑی۔ ٹم ٹم ۔ موٹر اوریکے وغیرہ گزرتے ہیں تو زمین سے ایسی آواز نکلتی ہے جیسی پٹی ہوئی زمین سے آواز نکلتی ہے۔ معلوم نہیں کیا حقیقت ہے۔
جروہہ میں ہم لوگوں کے محلہ سے بہت ہی قریب ایک جگہ ایسی ہے جہاں دور تک مکانات کی نیو کی نشانات ہیں۔ اس جگہ کو لوگ سالاری کہتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہاں پر کسی سالار فوج کی عمارت تھی۔
اس سے کچھ آگے کرن پورہ کے قریب مہنار والی سڑک پر لب سڑک جانب اتر ایک بلند قبر ہے۔ اس کو لوگ سرمست خاں غازی کی قبربتاتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ صاحب کوئی فوجی آدمی تھے۔ اس جگہ زمین بھی دور تک نشیب و فراز ہے۔ قیاس چاہتا ہے کہ ان کے مکانات بھی وہیں پر تھے۔ اس سے آگے باؤلی ہے غالباً وہ باؤلی بھی انھیں کی تھی۔
اس سے کچھ آگے نوآبادہ میں ایک اونچی اور دور تک پھیلی ہوئی بلندی ہے جس پر پست قد چہار دیواری کے اندر چند چھوٹی بڑی قبر یں ہیں۔ اس بلندی کے چاروں طرف گھومنے سے مکانات کی نیوکے نشانات پائے جاتے ہیں۔معلوم ہوتاہے کہ یہ بلندی وہاں پر عمارت کی ڈھیہ ہے۔ بلکہ یقین ہے۔ اس بلندی کے نیچے سٹے ہوئے اتر جانب ایک بڑا اور مستحکم پختہ کنواں ہے اس کنوئیں میں قریب نصف گہرائی پر ایک کھڑکی لگی ہوئی ہے۔ جس کی چوکھٹ پتھر کی ہے۔ لوگوں کا بیان ہے کہ اندر اندر زنانے مکان سے کنوئیں تک راستہ تھا۔ اس راستہ سے دائیاں آکر کنوئیں سے پانی لے جاتی تھیں۔ اس کنوئیں کو کوڑیا ہاکنواں کہتے ہیں۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ بتاتے ہیںکہ جب وہاں کی عمارت بن رہی تھی تو اُس عمارت کی تعمیر میں کام کرنے والے مزدورں کی مزدوری سے ہرروز ایک کوڑی کاٹ لی جاتی تھی۔عمارت تیار ہونے پر اتنی کوڑیاں جمع ہوگئیں کہ اُسی کے خرچ سے یہ کنواں بنوایا گیا۔ عبرت اگر یہ روایت صحیح ہے تو سمجھ داروںکے لیے یہ نہایت عبرت دہ اورسبق آموز منظر ہے۔ جس عمارت کی تعمیر میں کام کرنیوالے غریب مزدوروں کی مزدوری سے کوڑیاں کٹتی تھیں۔ وہ عمارت تو آج عرصہ دراز سے بالکل بے نشان اور بے پتہ ہے کوئی جانتا بھی نہیں کب بنی کب گری۔ کس نے بنایا۔ بنانے والے کون تھے۔ کیا تھے کس زمانے میں تھے۔ مگر غریب مزدوری کی مزدوری سے جوکوڑیاں کٹتی تھیں۔ اس کے خرچ سے بنا ہوا کنواں اب تک موجود ہے اور بڑی شان سے خلق خدا کوسیراب کررہا ہے۔
ایک حل طلب خدشہ بلندی کے اوپر ان چند چھوٹی بڑی قبروں کا ہوتا اور وہ بھی چہار دیواری کے اندر حیرت میں ڈالنے والی بات ہے۔ اگر یہ بلندی عمارت کی ڈھیہ ہے تو عمارت مسمار ہونے پر اس عمارت کے بانی اور اس کے خاندان کی قبریں بلندی (ڈھیہ ) پر کیسے بنیں۔ اس کے بانی اور اس کے خاندان کی قبریں ہوتیں تو عمارت مسمار ہونے پر نیچے پڑ جاتیں۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ اس خاندان کی لڑکیاں جو دوسری جگہ بستی ہوں انہوں نے مرتے دم وصیت کی ہوکہ میری لاش لے جاجدی ڈھیہ پر دفن کرنا۔ یا یہ قبریں دوسرے خاندان کی ہیں۔
جروہہ میں ایک بڑا محلہ چشتی ہے۔ جہاں اگلے زمانے میں حضرت معین الدین چشتیؒ کے خاندان کے افراد بستے تھے۔ آج اُس محلہ میں ایک مسلمان بھی کسی قوم کا نہیں ہے۔
چشتی محلہ میں جانب دکھن گنگا دریا کے کنارے جانے کا ایک راستہ تھا۔ جس راستہ سے لوگ گھاٹ پر جاتے تھے۔ اس گھاٹ کو پنگھٹ کہتے تھے۔
جروہہ کی وجہ تسمیہ یہ بتائی جاتی ہے کہ جنگل جلا کر آباد کیاگیا تھا۔ پہلے اس کا نام جلوا تھااب جلوا سے جروہہ ہوگیا ہے۔جروہہ میں پختہ قبریں تو بے حساب میں مگر مندرجہ ذیل قبریں مشہور ہیں۔
مزار سرمست خاں غازی، مزار حضرت ماموں بھانجہ(خواب کی بنا پر لوگ دونوں بزرگ کا نام احمد اور محمد بتاتے ہیں۔ مگر یہ نام دو بھائیوں کے نام جیساہے اور وہ بھی خواب و خیال)۔ مزار حضرت مخدوم صاحب (مخدوم حضرت سید قاسم ولد مخدوم حضرت پیردمڑیا صاحب) مزار خواجہ یحییٰ صاحب۔ مزار حضرت پیردمڑیا صاحب۔
پیر دمڑیا کی وجہ تسمیہ کہتے ہیں کہ آپ مریدوں سے صرف ایک دمڑی کوڑی نذرانہ میں لیا کرتے تھے اور بس۔ آپ کا اسم گرامی کیا تھا مجھے معلوم نہیں کیونکہ کبھی کسی سے نہیںسنا آپ محلہ میناپور کے بزرگ رئیس تھے۔ یعنی آپ کا عشرت کدہ محلہ میناپورہ تھااورآپ ہی اس مسلم محلہ کے بلاشرکت غیرے مالک تھے یہ محلہ آپ ہی کے خویش و اقارب اور اعزہ سے آباد تھا۔ اس محلہ میں ہندومسلمان کی قریب قریب کل قومیں آباد تھیں۔ خدمتی پیشہ کی قوم (مثلاً دھوبی حجام اور مہتر) ہندو مسلم دونوں تھی۔ مسلمان حجام اور مہتر تو میرے وقتوں میں بھی تھے۔ حجام خط بھی بناتے۔ جراحی اور ختنہ بھی کرتے۔ ان کی عورتیں جراحی کے پیشہ میںہوشیار تھیں۔ مہتر روشن چوکی بجاتے تھے اور عورتیںکیڑہ (جونک) لگاتیں۔ دائی جنائی کی خدمت انجام دیتیں اور مستورات کا علاج معالجہ کرتیںنسوانی امراض کے علاج معالجہ میں یدطولیٰ رکھتیں تھیں۔ معلوم نہیں یہ ان کا آبائی پیشہ تھا یا خاص خاص نے اس فن کو مخصوص طور پر حاصل کیاتھا۔
آپ کی زمینداری دریا اس پار بھی تھی اور اُس پار بھی۔ آپ کے دو صاحبزدوں میں ایک مخدوم قاسم نے مینا پور کے سٹے محلہ سید پور میںسکونت اختیار کی تھی۔ساری عمر یہیں رہے۔ یہیں مرے۔ یہیں گڑے۔ یہاں کی عمارت کا بھی وہی حال تھا جومینا پور آپ کے والد ماجد پیر دمڑیا صاحب کی عمارتوں کاحال تھا۔ آپ صرف مردانی مسجد اور قبرستان کا حلقہ جس کے چاروں طرف پست قد چہار دیواری بگڑی حالت میں قائم ہے اور مردانے قطعہ کی ڈھیہ کا کچھ حصہ باقی ہے۔ باقی سب کچھ ایک ہندو زمیندار ساکن شہر بنارس کی زمینداری کچہری اور گدام کے حلقہ میں داخل ہے۔ میں نے اندر جاکر بھی دیکھاہے۔زنانی مسجد اور زبانی حویلی کے نشانات باقی ہیں اور سب بے نشان ہوگئے صرف ایک اونچی سی جگہ ہے خواجہ میردرد دہلویؒ نے نہایت ہی بجا اور بہت ہی درست فرمایا ہے ؎
کھیل ہے پتلیوں کا یہ بزم جہاں کا عالم رات بھر کا یہ تماشہ ہے سحر کچھ بھی نہیں
عوام میں آپ کی ایک کرامت مشہور ہے کہ شب بیداری اور ذکر فکر کی وجہ سے آپ کی آنکھوں میں اس قدر گرمی پیدا ہوگئی تھی کہ جب آپ صبح سویرے خواب سے بیدار ہوتے تو پہلے دریا کے کنارے جاتے۔ جو آپ کے در دولت سے سٹے جانب دکھن تھا۔ اور وہاں پر کئی جھاڑی پر نظر ڈالتے۔ جھاڑی آپ کی آنکھوں کی گرمیوں سے جھڑ سے آگ لگ جاتی جنگل کے جانور نکل نکل کے مارے مارے پھرتے۔ایک مرتبہ جھاڑی میں ایک کمھار رفع حاجت کے لیے گیا تھا جل کر مرگیا۔اُس کی[بیوی؟] روتی پیٹتی حاضر خدمت ہوئی اور فریاد کرنے لگی۔ جب سے آپ نے اپنا معمول یہ ٹھہرایا کہ گھانس کا دوپولا ہرروز پلنگ کے دائیں بائیںرکھوا لیتے۔ جب خواب سے بیدار ہوتے تو انھیں پولوں پر نظر ڈالتے پولے جل جاتے۔ ایک مجمع میں ایک صاحب نے مجھ سے بھی اس کرامت کو بیان کیامیں نے عرض کیا اس حکایت سے حضرت مخدوم صاحبؒ کی تنقیص ہوتی ہے۔ رسول ﷺ رحمت اللعالمین تھے۔ حضرت مخدوم صاحب پیغمبر صاحب صلعم کی اولاد اور لائق عزیز ہیں۔ آپ کی شان تو یہ تھی کہ سراپا رحمت ہی رحمت ہوتے ۔ اگر آپ یہ بیان کرتے کہ صبح سویرے اٹھکر جب آپ کسی پر نظر ڈالتے تو وہ بھلا چنگا ہوجاتا۔ مردے پر آپ کی پہلی نظرپڑتی تو وہ کلمہ پڑھتا ہوا زندہ ہوجاتا تو آپ کی یہ بڑی کرامت کا اظہار ہوتا اور میں خوشی سے بلاتامل تسلیم کرلیتا غور فرمائیے۔ بلاقصور اور بلاوجہ کتنے حیوان اور انسان جل کر خاک سیاہ ہوگئے ہوں گے خدا کی قسم! بزرگوں کی بزرگی اوراُن کی کرامتوں کی تسلیم میں میں اپنے ایمان کی سلامتی اوردارین کی عزت سمجھتا ہوں۔ ہاں ایسی کرامت کو ماننے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہوں جن سے ان کی شان گھٹتی ہو۔ اس قسم کی ایک حکایت عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف منسوب کرکے بیان کرتے پھرتے ہیںکہ ایک مرتبہ آپ کسی چٹیل میدان میں پڑ گئے۔گرمیوں کا دن تھا۔لوچل رہی تھی۔ آپ بہت بھوکے پیاسے تھے۔ میدان میں دورسے انجیر کا درخت نظر آیا۔ نہایت بے تابی کیساتھ درخت کے پاس پہونچے۔ وہ انجیر کے پھلنے کا موسم نہ تھا۔ اس لیے درخت درخت میںپھل نہ تھے۔ آپ نے طیش میںآکر فرمایا: ’’تو ایسا ہی پھلوں سے بے نصیب رہے گا‘‘۔ فرمائیے اس میںدرخت کا کیا قصور تھا۔ پھل کا موسم نہ تھا تو پھل کیسے ہوتے۔ آپ کی تو یہ شان تھی کہ بے پھل دیکھ کر فرماتے ’’پھل لے آ اور دوازدہ ماہ پھلا پھولا رہ‘‘۔
دوسرے مخدوم سید محمد نے پٹنہ محلہ ڈنکے کی املی میںقیام فرمایا تھا۔ وہیں آپ کا مزار ہے۔
آپ کی جہاں جہاں زمینداری تھی دو بیٹوں میں منقسم تھی۔ (۱)پٹی سید قاسم اور (۲) پٹی سید محمد۔
پیردمڑیا صاحب کا مزار مینا پور میں ہے۔ آپ کے سکونتی مکانات (زنانہ حویلی مردانہ قطعہ۔ ہر دور کی دو مسجدیں۔ خانقاہ،مدرستہ، مسافر خانہ طلبہ کے لیے قیام گاہ، لنگر خانہ) کے کھنڈرات کچھ کچھ اب تک موجود ہیں۔ اب ڈھیہ پر کھیتی ہوتی ہے۔ مردانہ مسجد اور خانقاہ کی دیوار کا کچھ حصہ اب تک موجود ہے مگر شبے ماند شب دیگر نمی ماند کی مصداق ہے حضرت عاصمی دہلوی فرماتے ہیں ؎
چمن کے تخت پر جسدم شبہ گل کا تجمل تھا
ہزاروں بلبلوں کا شور تھا فریاد تھی غل تھا
خزاں کے دن گئے تو کچھ نہ تھا جزخار گلشن میں
بتاتاباغباں رو رو یہاں غنچہ یہاں گل تھا
واللہ! میری نظروں میں تو اس کا پورا پورا نقشہ کھنچ جاتا ہے اور بے اختیار آنکھوں سے آنسوؤں کے قطرے ٹپک پڑتے ہیں۔
اس عمارت کی موری کا رخ اترجانب سڑک پر تھا۔ میں نے بچشم خود دیکھا تھا کہ اتنی کشادہ تھی کہ ایک پورے قد کا آدمی بیٹھ کر موری کے اندر چلا جاسکتا تھا۔ آپ چند برسوں سے منہدم ہوکر بے نشان ہوگئی ہے۔ اس خاندان کے افراد ابھی تک باہر باہر مقاموں میں بفضلہ موجود ہیں۔ مگر یہاں مینار پور میں بس اللہ کا نام ہے ایک متنفس کا بھی نام و نشان نہیںہے ۔
خاص دونوں مذاکور الصدر مسجدوں کے علاوہ دو مسجدیں اور ہیں ایک نظر ان کی مسجد جس میںجمعہ ہوتا ہے۔ یہ مسجد لب سڑک ہے۔ دوسری بی بی ولیہن کی مسجد جو دریا کنارے ہے۔ اس میں پنج وقتی نماز ہوتی ہے۔ دونوں کو انصاری خاندان یعنی مومن برادری کے لوگ آباد کیے ہوئے ہیں۔
میناپور میں دیوان صاحب کا کاٹھ کا تعزیہ مشہور تھا۔ دیوان صاحب کے وقتوں میں عشرہ کے دن بتیس کہاروں کی مدد سے کربلا جاتا تھا۔ اب امام باڑہ میں پڑا رہتا ہے۔شائد بے مرمت بھی ہوگیا ہے۔
میرے وقتوں میںمیناپور وہ مینا پور تو نہ تھا مگر جو کچھ تھا وہ بھی بسا غنیمت تھا میرے بچپنے کے زمانے میں جب کہ میںدس بارہ برس کی عمر کاتھا ایک بزرگ میر مومن علی صاحب تھے کم وبیش سو برس کی عمر تھی۔ مسافران رفتہ کے قدموں کا نشان بناتے تھے اور گویا زبان حال سے فرماتے تھے۔ مجھے دیکھ لو اور غور سے دیکھ لو مجھ ہی پر اگلے بزرگوں کو قیاس کرلو۔ میں اُن کا ایک دھندلا سا نشان ہوں میرے بعد یہ دھندلا نشان بھی ڈھونڈو گے نہ پاؤگے۔ اور دست وست حسرت مل کررہ جاؤ گے۔ حلیہ : لانبا قد۔ بڑے بڑے ہاڑ کتابی چہرہ۔ صاف رنگ بڑھاپے کی وجہ سے ذرا سونلا گیا تھا۔ جسم پر چرم واستخواں کے سوا بوٹی کا نام نہیں۔ پوری مگر ہلکی لانبی داڑھی۔ترشی مونچھیں۔سر پر زلف کانوں سے ذرا نیچے تک۔الٹی مغزی کی دوپلی ٹوپی، جسم کے اوپری حصے میں نیچی چولی کا بند دار نیچا انگرکھا اُس کے نیچے کرتا۔ نچلے حصے میں برکا برخاتہ پائجامہ۔ کمر میں پٹکا۔ بند سے بندھا ہوا رومال جو کندھے پر دھرا رہتا تھا۔ پاؤں میں چپتی نوک کی دلی والی جوتی۔ ہاتھ میں پتلی سی نہایت خوبصورت چھڑی۔ جس میں چاروں خوبیاں یکساں موجود تھیں۔ یعنی گول، گھنگرہ،گاؤدم اور نہایت سرخ، وزن کا حال خدا کو معلوم، کیونکہ ہاتھ میں لیکر میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ شاید چھڑی میں چاندی دستہ بھی لگا تھا۔ حقے سے بہت شوق تھا۔ مگر تکلف سے نوش فرماتے تھے۔ کش بہت ٹھہرٹھہرکر اور آہستہ آہستہ کھینچتے تھے۔ نہایت مہذب بے حد خلیق اور ملنسار بزرگ تھے۔ لڑکوں سے بھی آپ فرماکر باتیں کرتے۔ جب کبھی کوئی جانکلتا تو نہایت پیار و محبت سے باتیں کرتے۔ ایک ایک کی خیریت پوچھتے ، بات بات پر دعائیں دیتے ’جیتے رہئیے‘‘ خوش رہیے! اللہ سلامت رکھے! اپنی امان رکھے‘‘ آپ کا تکیہ کلام تھا۔ فارسی اساتذہ کے برمحل کلام بہت یاد تھے۔ آپ کے چچا زاد بھائی میر عاشق علی صاحب تھے۔ جو عرصہ سے اپنی سسرال آرہ میں رہ پڑے تھے۔ بس ہو بہو میر مومن علی صاحب مرحوم تھے۔ معلوم نہیں ان دونوں میں بڑے کون بزرگ تھے۔ ایک مرتبہ مجھے بھی اُسی زمانہ میں جب کہ میں دس بارہ برس کا تھا آرہ میں آپ سے نیاز حاصل ہوا تھا۔ جب آپ کو معلوم ہوا کہ میں جروہہ کا رہنے والا ہوں او رفلاں کافلاں ہوں۔ تو بار بار سینے سے لگاتے۔گال پکڑ کر بوسہ لیتے کندھے پر ہاتھ دھر کر فرماتے ’’آپ جروہہ کے رہنے والے ہیں۔ بھائی حسین بخش مرحوم کے بھتیجے ہیں، آپ تو میرے خاص عزیز ہیں۔ خوب کیا کہ مجھ سے مل لیا ۔ جب آرہ آئیے تو مجھ سے ضرور مل لیا کیجیے ۔ میں کوئی غیر نہیںہوں‘‘۔ اورمیں تھا کہ آپ کے بار بار آپ‘‘ فرمانے پر زمین میں گڑا جاتا تھا۔
اُسی زمانے میں اُسی عمر اور اُسی طرز معاشرت۔ اُسی قدر و قامت۔اُسی وضع قطع کے دو بزرگ حاجی پور میں اور بھی تھے ایک جعفر علی خانصاحب جن کا دولت خانہ محلہ رام بھدر تھا۔ میںنے ان سے زیادہ لانبے قد کاحاجی پور میںکسی دوسرے بزرگ کو نہیں دیکھا۔اور دوسرے الطاف علی خاں صاحب محلہ پوکھرناج باز خاں کے مالک و رئیس تھے۔ ان دونوں بزرگوں کی عمریں طرز معاشرت۔ لباس پوشاک اور ساری باتیں میرصاحبان جیسی تھیں۔ بس صرف اسقدر عرض کردینا کافی ہے کہ یہ چاروں بزرگ ایک ہی سانچے کے ڈھلے تھے۔ دونوں خانصاحب ٹوپی پر عمامہ بھی باندھتے تھے اور انگرکھے پر عبا زیب تن فرماتے تھے۔ سب سے پہلے جناب الطاف علی خاں صاحب مرحوم نے انتقال فرمایا۔ آپ کے خاندان کے افراد ابھی تک بفضلہ موجود ہیں۔ خدا سلامت باکر امت رکھے! جائدادیں قریب قریب ختم ہیں۔ بس کماتے ہیں اور اپنی شرافت کو نباہتے ہیں۔پھر میر مومن علی صاحب مرحوم کا انتقال ہوا۔ اولاد اور جائداد سب کا خاتمہ ہے۔شاید باہر کوئی ہو۔ پھر میر عاشق علی صاحب مرحوم نے انتقال کیا۔ معلوم نہیںآرہ میںکوئی نام و نشان ہے یا نہیں۔آخر میںجناب جعفر علی خاں صاحب مرحوم نے انتقال فرمایا۔ اس خاندان میں بھی ہر قسم کا خاتمہ ہے۔ ایک متنفس یا بالشت بھر زومین بھی نہیں ہے۔ کیسا باغ تھا کیسی حویلی تھی۔ کیسا حویلی کا پھاٹک تھا۔ آج سب کے سب کا نقشہ اپنے دیکھنے والوں کی نظروں میں زبان حال سے کہتا ہوا گھوم رہا ہے ؎
زندگی موت تھی اک عمر میں ثابت یہ ہوا
میرا ہونا تھا فقط میرے نہ ہونے کے لیے
حاجی پور کے کسی محلہ میں میں نے اس یا اس سے زیادہ عمر کا کوئی پانچواں بزرگ مسلمانوں میں نہیں دیکھا۔
جروہہ کی چند عمارتیں بھی مشہور ہیں۔ مثلاً مدرسہ یا مدرسہ کی مسجد۔ کالے خاں کی مسجد،اسحاق کی مسجد، عیدگاہ، سرنگ، محلہ چشتی کا حوض، کربلا۔
یہی حال حاجی پور کا ہے۔ حاجی پور میںسنگی مسجد شاہی یادگار ہے اس مرتبہ کے زلزلے نے اس کا برا حال کردیاتھا۔ بقول امام مسجد مذکور ایک ہندو مجسٹریٹ (جو ابھی ابھی حاجی پور سے بدل کر دوسری جگہ تشریف لے گئے ہیں) کی توجہ سے اس کی اصلاح ہورہی ہے۔
حاجی پور میں ایک دوسری پرانی یاد گار نیپالی چھاؤنی ہے۔ اگرچہ اس کے اندر کی کھدی ہوئی تصویریں کسی شریف با حیاانسان کو اندر جانے کی اجازت نہیںدیتیں مگر ان کے دیکھنے سے اتنا ضرور پتہ چلتا ہے کہ اس وقت کے نیپالی کس تہذیب کے مالک تھے۔
ہائی انگلش اسکول سے بہت ہی قریب سرکٹ ہاؤس کے پاس اس ڈی او کی کوٹھی اور سنگی مسجد پر جانیوالی سڑک پر لب سڑک ایک پختہ اور بلند چبوترے پر حاجی حرمین صاحب بانی حاجی پور مرحوم کا مقبرہ ہے اور ٹھیک اُسی جگہ جبوترے سے نیچے جانب پچھم لب سڑک ایک بہت لانبی سی پختہ قبر ہے۔اور حاجی صاحب مرحوم کے مزار اور اس پختہ قبر کے درمیان میں صرف سڑک حائل ہے اور بس اس قبر سے سٹی ہوئی جانب پچھم ایک دوسری پختہ قبربھی ہے۔ لوگوں کا بیان ہے کہ انھیں دونوں قبروں میں سے ایک قبر میرن مرحوم ولد میر جعفر مرحوم کی قبر ہے جنھوں نے بجلی گرنے سے حاجی پور میں انتقال فرمایا تھا۔ کوئی پہلی قبر کو میرن مرحوم کی قبر بتاتا ہے اور کوئی دوسری کو واللہ اعلم بالصواب۔
حاجی پور میں صوبہ داری کے زمانے کے قلعہ کا نشان ابھی تک موجود ہے یہ ایک خام (مٹی کا) دور تک پھیلا ہوا گڑھ ہے۔ اب اس پر کھیتی ہوتی ہے۔جگہ جگہ چھوٹی چھوٹی ٹولیاں بھی آباد ہوگئی ہیں۔ مگر مکانات سب کے سب خام ہیں کہیں کہیں کیلہ واڑی بھی ہے۔ جنگلی درخت بھی ہیں۔ کہیں کہیں قبرستان بھی ہے یہ اگلا نشان ہائی انگلش اسکول کے پاس ہے۔ اب بلندی کی حالت یکساں نہیں ہے کہیں زیادہ بلند ہے اورکہیںکم کہیں بہت ہی کم۔
یہ سب کچھ تو ہوا اور ہے ۔ مگر بااستثناء بعض کے ان کی تاریخی حالتیں کسی کتاب میں دیکھنے میں نہیں آتیں۔ کچھ باتیںلوگوں کی زبانوں پر چڑھی ہوئی ہیں۔ مگر وہ سب سنی سنائی یا خواب و خیال ہیں۔ فلاں نے یہ بیان کیا۔ فلاں سے یہ سنا۔ فلاں نے یہ خواب دیکھا۔ قیاس یہ چاہتا ہے۔قرینہ یہ معلوم ہوتا ہے۔ حقیقت حال خدا کو معلوم ہے اور یہی پچھلی ایک بات بلاشک و شبہ صحیح ہے۔
بڑے بوڑھے فرماتے ہیں کہ حاجی پور میں تین سو ساٹھ محلے تھے اور اُن میں سے بیشتر اب بھی موجود ہیں۔ جس کی تصدیق خاندانی لوگوں کے نجی کاغذات ۔ سروے دفتر میونسپلٹی آفس اور ڈاکخانے کے ڈاکیوں وغیرہ سے بخوبی ہوتی ہے۔ مثلاً اندر قلعہ ۔نخاس رام بھدر، رام چوڑا، باؤلی، کٹرہ، مہاجن ٹولی، نون گولہ، میدانی مل بنوار ٹولہ، پٹھان ٹولی، شیخ ٹولی،قاضی ٹولہ،سید واڑہ، مفتی محلہ، کھاتہ جنگی، جوہری محلہ، گنج۔گدائی سرا، پوکھرتاج باز خان، باغ ملی(باغ امام علی) باغ دلہن، بی بی کا روضہ،باغ موسی، انور پور، دولت ، منڈلی ابراہیم گنج، یوسف پور، تنگول، لودی پور، مدھو بن ، چودھری بازار، کھتری ٹولی، چھیپی ٹولی، چوہٹہ، کسیرہ ٹولی، سنار ٹولی، چق ٹولی، کنجڑا ٹولی، میرشکار ٹولی، سید پور ادر یس، مینا پور، جروہہ ، چستی پور۔
اطلاع: ان محلوں میں چند مستقل محلے ہیں اور چند محلے کے محلے اور یہ محلے بالترتیب، سلسلہ وار نہیں لکھے گئے ہیں بلکہ جیسے جیسے یاد آتے گئے قلمبند کرلیے گئے۔ اور کل محلوں کے نام نہیںہیں۔ بلکہ بطور نمونہ یکے از ہزار اور مشتے از خروار ہیں۔
اب میں اپنی اس بے ربط اورالجھی ہوئی تحریر کو اس شعر پر ختم کرتا ہوں اور سمع خراشی کی شوخی کی معافی چاہتا ہوں ؎
بھلا مٹی بھی کوئی شئے ہے لیکن اُف رے نیرنگی
ابھی گل ہے ابھی گِل ہے ابی گل ہے ابھی گُل ہے