ہندوستان میں عربی کے سب سے بڑے سکالر جن کا لوہا مصر وشام کے اساتذۂ فن نے مانا ہے، وہ علامہ عبد العزيز میمنی راجکوٹی[ت:1978ء] تھے جن کی تصنیف "سمط اللآلي” ادبِ عربی کے مآخذ میں شمار ہوتی ہےـ
علامہ میمنی کی نظر میں عربی زبان وادب میں مہارت حاصل کرنے کے لئے جن کتب کا مطالعہ ضروری ہے ان کا ذکر وہ اکثر اپنی نجی محفلوں میں کرتے تھے، اس حوالے سے شیخ نذیر حسین لکھتے ہیں :
"مولانا میمنی درسِ نظامی کے نصابِ تعلیم میں اصلاح و ترمیم کی ضرورت شدت سے محسوس کرتے تھے، نحو میں "کافیة” اور” شرح مُلا جامي” جیسی کتابوں کے بجائے "ألفية” کی بعض شروح اور ابن ہشام کی کتابیں پسند کرتے تھے، ابتدائی تعلیم کے لئے امام نووی کی "رياض الصالحين” کی سفارش کرتے تھے جس میں نورِ نبوت کے علاوہ ادبی چاشنی پائی جاتی ہے، اس کے علاوہ وہ "سنن أبي داؤد” کی "كتاب الأدعية” اور ترمذی کی "كتاب الزهد والرقاق” کے مطالعے کی بھی تاکید کیا کرتے تھے، "تفسير الجلالين” کے بجائے "جامع البيان” کی افادیت کے قائل تھے، ابن خلدون نے جن کتابوں کو اصولِ فن ادب قرار دیا ہے، ان کے متعلق انہوں نے الندوة (دور جدید) میں” میری محسن کتابیں” کے عنوان کے تحت بڑا دلچسپ تبصرہ لکھا تھا، ان کی یہ رائے تھی کہ "الكامل للمبرد” ایک مبتدی کے لئے زیادہ مفید ہے، "أدب الكاتب” کو "الاقتضاب” کے ساتھ پڑھا جائے تو انسان کو ایک محقق لغوی بنا سکتی ہے، "كتاب البيان والتبيين للجاحظ” میں فصیح نظم و نثر کے نمونے ان چاروں سے زیادہ ہیں اور نوادرِ لغت وشعر "أمّالي القالي” میں سب سے زیادہ ہیں، ان کے نزدیک حماسات میں ابوتمام کا "ديوان الحماسة” سب سے عمدہ اور بہتر ہے اور نقدِ شعر کے لئے ابن رشیق کی "کتاب العمدة” بہترین کتاب ہےـ کہا کرتے تھے کہ "الغريب المصنف لابن سلام” اور "إصلاح المنطق لابن السكيت” وہ کتابیں ہیں جن کا یاد ہونا ایک ادیب کے لئے نہایت ضروری ہے”ـ
مولانا عبدالعزیز میمنی – رحمہ اللہ – نے ایک مرتبہ ہندوستان میں عربی ادب کے زوال کی وجوہات پر اپنے ایک شاگرد سے فرمایا تھا:
” ہندوستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس کے حصے میں ابن عقيل تو آیا نہیں ابن حاجب آگیا، کہاں ابن عقيل کہاں ابن حاجب؟ "كافية” کوئی نحو سیکھنے کی کتاب ہے؟ پھر مزید ظلم یہ ہوا کہ” كافية” کی "شرح مُلّا جامي” یہاں مقبول ہو گئی، ملا جامی کوئی نحوی ہیں؟ اسی وجہ سے اہل ہند میں عربی زبان وادب کا ذوق پروان نہ چڑھ سکا”ـ
مطالعہ
شعبہ اردو ، رام لکھن سنگھ یادو کالج، بتیا (مغربی چمپارن )
بچپن میں سب سے پہلی کتاب جس نے ذہن و دماغ پر گہرا اثر چھوڑا وہ ہے ریاست ِ بہار کی نصابی کتاب "دارا ، داور ، روزی ” اس کےبعد مولانا سید محمد میاں کی کتاب "دینی تعلیم کا رسالہ "اور مولوی محمد اسمٰعیل میرٹھی کے”اردو زبان کا قاعدہ” نے بھی کتابوں سے انسیت پیدا کی ۔
کتابوں سے دوستی میں بچوں کے ماہنامہ امنگ کا بھی بڑا اہم رول رہا ۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب حروف و الفاظ جوڑ کر اردو پڑھنا سیکھ لیا تھا ۔اب اپنی پسند کی کتاب کی جستجو رہتی ؛ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ میرے رشتے کا ایک بھانجا شمشاد عرف پُتول آسنسول سے اپنی ننھیال مشکی پور آیا اور ساتھ ہی ماہنامہ امنگ کی ایک کاپی بھی لایا ، ہمیں دکھایا ، ہم اپنے ہم جولی زاہد اور اسرار وغیرہ کے ساتھ اسے دیکھنے لگے ، یہ ہمارے لیے ایک نئی چیز تھی ، ہمیں بہت پسند آئی ، ذوق شوق اور پورے انہماک کے ساتھ اس کی کہانیوں میں ہم کھو گئے ، بندروں والی اس کی ایک کہانی نے تو ہمیں دیوانہ ہی کر دیا ۔ اب ہم میں سے ہر ایک یہی چاہتا تھا کہ وہ رسالہ اسی کے قبضے میں رہے اور وہ اسے حرز ِ جان بنائے رکھے ۔ بالآخر جنگ کی نوبت آن پہنچی اور ہوئی بھی ۔جانی نقصان تو کچھ نہیں بلکہ مالی بھی نہیں ؛ بس ذرا سا جذباتی نقصان یہ ہوا کہ آپس کی چھینا جھپٹی میں ہماری محبوب و معشوق کتاب شہید ہو گئی ۔
جب حصول ِ تعلیم کے لیے دیوبند جانا ہوا اوروہاں کی تعلیمی زندگی کا آغاز کیا تو ایک نئے ماحول سے سابقہ پڑا ۔ ویسے بھی یہاں کا قیام میرے لیے ایک نیا تجربہ ثابت ہونے جارہا تھا ۔ ہر طرف پڑھنے لکھنے کا چرچہ ، کہیں تقریر اور زبانی مشق و مزاولت کا غلغلہ توکہیں تحریری مسابقت کی ہوڑ، کہتے ہیں نا کہ ماحول سب سے بڑا استاذ ہوتا ہے ۔ اسی فضا میں راقم کے اندر مطالعے کی جوت جگی ،کچھ مشفق اساتذہ نےاپنے مفید مشوروں سے نوازا اور بعض مخلص احباب نے بھی رہنمائی کی۔ اس سلسلے میں استاذ محترم مولانا سلمان بجنوری اور مفتی اسعد اللہ سلطان پوری کی ذات گرامی سرِفہرست ہے اور دوستوں میں شاداب سہیل اور مظہر سوپولوی کے نام یاد رکھے جانے کے لائق ہیں ۔ کچھ کتابوں نے اندرون کو جنجھوڑااورکچھ نے کھردری راہوں پہ چلنا سکھایااور منزل کا راستہ آسان کیا ۔ ایسی پیاری کتابوں کی کہکشاں میں مولانا علی میاں کی ‘ پاجا سراغ ِ زندگی’ ،شیخ عبد الفتاح ابو غُدہ کی’ وقت کی اہمیت ‘ ، مولانا محمد ساجد قاسمی کی ‘ تحصیل ِ علم میں اسلاف کی قربانیاں’ ، مولانا محمد اسلم قاسمی شیخو پوری کی ‘بڑوں کا بچپن ‘، مولانا محمد عمران خان ندوی کی ‘ مشاہیر اہل علم کی محسن کتابیں ‘، مولانا عبد الماجد دریابادی کی ‘ آپ بیتی’ ، شورش کاشمیری کی ‘ شب جائے کہ من بودم’،مولانا ابو الحسن علی ندوی کی کتاب ‘روائع ِ اقبال’ کا اردو ترجمہ ‘ نقوش ِ اقبال ‘(پروفیسر شمس تبریز خاں قاسمی )، ڈاکٹر کلیم احمد عاجز کی کتاب ‘ وہ جو شاعری کا سبب ہوا’اور ماہنامہ ‘رفیق ِ منزل ‘دہلی (مطالعہ نمبر) جیسی کتابیں بطور خاص شامل ہیں ۔ ان کتابوں نے میری مطالعاتی زندگی میں جوالہ مکھی کا کام کیاجس کی چنگاری آج بھی گرم اور روشن ہے۔
آج کے اس ڈیجیٹل عہد میں بھی دیوبند میں کتابوں کا کلچر کسی قدر بحال ہے اور پندرہ بیس سال قبل تو یہ روایت مزید مستحکم تھی، طلبہ کے مختلف پروگرام منعقد ہوتے اور طلبہ کو انعامات سے نوازا جاتا اور بیشتر کتابوں ہی کی صورت میں انعامات دیے جانے کا رواج تھا اور آج بھی ہے ۔اساتذہ کی طرف سے بھی ایسی کتابوں کے مطالعہ کرنے کی تلقین کی جاتی جن سے طلبہ میں وقت کی اہمیت اور آگے بڑھنے اور کچھ کر گزرنے کا حوصلہ ملے ، ساتھ ہی زبان و بیان بھی پختہ ہو اور اسلوب و انداز بھی درست و شگفتہ ہو ۔ اس سلسلے میں راقم نے غالباً سب سے پہلے مولانا علی میاں کی ” پاجا سراغ ِ زندگی ” خریدی ، اس کے نام ہی میں دلکشی محسوس ہوئی لیکن مطالعے کے بعد اس نے مزید سحر زدہ کیا اور اس نکتے کی طرف رہنمائی کی کہ ایک طالب علم کیسے منزل مقصود تک پہنچ سکتا ہے اور عملی زندگی میں کیوں کر انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے ۔ سچ پوچھیے تو اس کتاب سے کئی اہم کتابوں کے پڑھنے کی تحریک ملی ۔تحصیل ِ علم میں اسلاف کی قربانیاں ،وقت کی اہمیت اورنقوش ِ اقبال نے کتابوں کا ایسا دیوانہ بنایا کہ اپنی درسی مصروفیات کے علاوہ ہمہ وقت کوئی نہ کوئی کتاب میرے ہاتھوں میں ہوتی ، چائے پیتے ، کھانا کھاتے ،قیلولہ کرتے ہوئے اور ٹرین و بس میں سفر کرتے ہوئے مطالعہ جاری رہتا ؛ آج بھی خالی بیٹھنا میرے لیے بہت دشوار ہوتا ہے ۔
وہ جو شاعری کا سبب ہوا ،بھی بڑی البیلی کتاب ہے ، ویسے تو کلیم عاجز مرحوم نےاس کتاب میں اپنے ، گھر ، خاندان اور پورے گاؤں کی شکست و ریخت کی خونی داستان رقم کی ہے اوراپنے گاؤں کی سنگی مسجد کی زبانی اپنی آپ بیتی ہمیں سنائی ہے ۔ کوئی بھی اس داستان کو پڑھ کر چھلک اٹھتا ہے اور بمشکل ہی اپنے آنسو روک پاتا ہے لیکن شاعر غمزدہ کے لہجے میں بجائے شکوہ شکایت اور نفرت و عداوت کے لفظ لفظ میں محبت کی خوشبو، حرف حرف میں صبر و شکیبائی اور نقطہ نقطہ میں ہمت و حوصلے کی کارفرمائی نظر آتی ہے ۔ عاجز مرحوم کی یہ کتاب کٹھن وقتوں میں ہمیں جینے کا حوصلہ بخشتی ہے ۔
شورش کی ‘شب جائے کہ من بودم’ اور دریابادی کی آپ بیتی نے اردو ادب سے مصافحہ و معانقہ کرایا ۔ اول الذکر نے اردو زبان کی بلندی و برتری کو سمجھایا ، اس کی وسعت و ندرت کو بتایااور محبت کی اس زبان کی عظمت و وقعت دل میں بٹھائی ۔ اردو نثر میں پختگی پیدا کرنے کے لیے یہ کتاب تعویذ بنائے جانے کی مستحق ہے ۔ دریابادی کی آپ بیتی نے جوش بشمول ہوش اپنے اندر ذوق ِ مطالعہ کی طرح ڈالی اور انگلی پکڑ کر مضمون نگاری کی راہ دکھائی ۔ اس کتاب نے یہ بھی بتایا کہ ایک مبتدی مضمون نگار کو کن کن پگڈنڈیوں سے گزرنا پڑتا ہے ، کیوں کر ایک کامیاب مضمون نگار اور جاندار مصنف بنا جاسکتا ہے ؟دریا بادی نے اپنی اس کتاب میں یہ گُر بھی سکھایا کہ کیسے تھوڑے وقت میں زیادہ کام کیا جا سکتا اور کم لفظوں میں زیادہ معانی پیدا کیے جاسکتے ہیں ۔ نوواردان ِ قلم کے لیے اس آپ بیتی کا مطالعہ میل کا پتھر ثابت ہوسکتا ہے ۔
نثری ادب میں مجھے خود نوشت سوانح ، خاکے اور سفرنامے بہت پسند ہیں بطور خاص حج کے سفرنامے ۔ اس سلسلے کی بھی درجنوں کتابیں پڑھیں لیکن آپ بیتی میں دریا بادی کی ‘آپ بیتی’ ، داکٹر کلیم عاجز کی ‘ وہ جو شاعری کا سبب ہوا ‘،علامہ سید
مناظر احسن گیلانی کی ‘ احاطہ دار العلوم میں بیتے ہوئے دن ‘ مولانا جعفر تھانیسری کی ‘ کالا پانی ‘اور شورش کاشمیری کی ‘بوئے گل، نالہ دل ، دودِ چراغ ِ محفل ‘کے مطالعہ نے دل میں عجیب بھونچال پیدا کیا تھا اور ذہن درد و کرب اور غم و مسرت کی مختلف کیفیات سے دوچار ہوا ۔ اول الذکر دو کی تفصیل اوپر آچکی ہے ۔علامہ گیلانی کی یہ آپ بیتی مکمل تو نہیں کہی جاسکتی لیکن دیوبند رہتے ہوئے کچھ اپنے اور کچھ دیگرطلبہ کی مصروفیات، ان کے مشغلے اور دارالعلوم دیوبند کے علمی جاہ و جلال ، دینی شوکت اور ادبی شان کی ایسی تصویر کشی کی گئی ہے کہ قاری تھوڑی دیر کے لیے یا تو خود اسی فضا میں گم ہوجاتا ہےیا پھر وہ ان مناظر کو دیکھنے کی تمنا کرنے لگتا ہے۔ کتاب زبان و بیان کے لحاظ سے بھی اور اپنے موضوع کے اعتبار سے بھی لائق ِ مطالعہ ہے ۔ کالا پانی ایک مجاہد ِ آزادی کی دردناک داستان ہے ، کچے ذہن کو اس کے مطالعے سے بچنے ہی میں عافیت ہے تاہم کتاب اپنے اندر بے پناہ دلکشی رکھتی ہے اور ساتھ ہی وطن پر جان نچھاور کرنے والے متوالوں کی لازوال قربانیوں کے بہت سے اسرار بھی ۔شورش کی آپ بیتی محض آپ بیتی نہیں؛تحریک آزادی ہند کی تاریخ کا ایک اہم باب بھی ہے ۔ اس میں ہندو مسلم کی قربانیوں ، باہمی رویوں ، فرقہ وارانہ فساد کی جڑوں اور سفید پوشی میں کالے دلوں کا قصہ بیان کیا گیا ہے ۔ شورش کا تعلق احرار سے تھا اور وہ خود ایک پریکٹیکل مسلمتھے تاہم ؛ جانبداری ، تعصب اور ناانصافی سے کوسوں دور تھے ۔انھوں نے اپنی آپ بیتی کتاب پڑھ کر نہیں زندگی کا مطالعہ کرکے لکھی تھی ۔تقسیم ہند پر یہ کتاب ایک قیمتی دستاویزکا درجہ رکھتی ہے ۔اس کا سب سے بڑا امتیاز غیر جانبدارانہ اسلوب ہے ۔ انداز ِ نگارش انتہائی البیلا اور اچھوتا ہے اور معلومات سے بھرپور اس کتاب کا مطالعہ ہر ہندوستانی کو کرنا چاہیے۔
اردو خاکوں میں منٹو کے خاکوں نے بہت متاثر کیا اور حال کے خاکوں میں پروفیسر غضنفر کے خاکے مجھے بے حد پسند ہیں کہ معلومات کی فراوانیوں کےباوجود افسانوی طرز پر یہ خاکے ڈھلے ہیں ۔ ان میں اسراف کے بجائے کفایت ِ الفاظ کی رعایت ملتی ہے ۔ منٹو کی کتاب ‘ گنجے فرشتے ‘ اور ‘ لاؤڈسپیکر ‘ 1937 سے 1948 تک کی فلمی دنیا ممبئی کا ایک خوبصورت تاریخی البم ہیں۔ ان میں چراغ حسن حسرت ، ستارہ اور رفیق غزنوی کے خاکے کم از کم اس درجے کے تو ضرور ہیں کہ ان پر مقدمے قائم ہوتے لیکن پتہ نہیں کیوں قائم نہیں ہوئے ، ممکن ہے یار لوگوں کے تحت الشعور میں یہ بات ہو کہ ان کے اس اقدام سے منٹو کا قد کہیں ایک مشت اور نہ بڑھ جائے ۔ یہ خاکے خاکہ نگاروں کے لیے ایک رہنما کا درجہ رکھتے ہیں ۔ ایسے ہی غضنفر کے خاکوں کے مجموعے ‘سرخ رو’ اور ‘روئے خوش رنگ ‘بھی تخلیقیت اور زبان و بیان کی چاشنی سے بھرپور ہے۔ انھیں معلومات کے لیے کم اور فن خاکہ نگاری سے واقفیت کے لیے زیادہ ، کے بطور پڑھنا چاہیے ۔
سفرنامے بھی درجنوں پڑھے ،ان میں مفتی تقی عثمانی کی ‘ جہانِ دیدہ ‘ ، ‘ شبلی کی ‘ سفرنامہ روم و مصر و شام ‘ اور مولانا منت اللہ رحمانی کی ‘ سفر مصر و حجاز ‘ایسی کتابیں ہیں جو ذہن کووسعت اورنظر کو کشادگی عطا کرتی ہیں ۔ جہان ِ دیدہ اسم با مسمیٰ کتاب ہے ، شاید اردو کا یہ پہلا سفرنامہ ہے جو بیس ملکوں کے اسفار پر محیط ہےاور وہاں کی جغرافیائی ،تاریخی ، دینی ، علمی اور تہذیبی احوال کا ایسا مرقع پیش کرتاہے کہ قاری تھوڑی دیر کے لیے خودکو ان ممالک کی سیر کرتا ہوا محسوس کرتا ہے ۔ ویزا پاسپورٹ کی جھنجھٹ کے بغیر اگر کوئی بیس ملکوں کی سیر کرنا چاہتا ہے تو اسے اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔شبلی اور رحمانی کے سفر کے بیچ (1894-1964)ستر برسوں کا وقفہ ہے تاہم دونوں کے سفرناموں میں نقطہ مشترک یہ ہے دونوں میں متعلقہ ممالک کا تعلیمی سروے پیش کیا گیا ہے ۔ ایک میں بطور خاص قدیم ترکی کا اور دوسرے میں مصر کا ۔ اُس وقت یہ کتابیں تعلیمی صورت حال کا نمونہ تھیں اِس وقت یہ کتابیں ان ملکوں کی تعلیمی تاریخ کا درجہ رکھتی ہیں ۔ شبلی کا سفر بحری اور طویل تھا اس لیے دوران ِ سفر کئی واقعات پیش آئے جنھیں بڑے پرلطف انداز میں سفرنامہ نگار نے بیان کیا ہے اور رحمانی کا سفر ہوائی اور مختصر تھا اس لیے سفرنامہ بھی مختصر ہی ہے تاہم دونوں سفرناموں میں زبان و بیان کی لطافت اور اسلوب و انداز کی شائستگی و برجستگی ہر جگہ برقرار ہے ، شبلی کی نثر تو جادو اثر ہے ہی لیکن رحمانی کی نثر بھی آبشاری ہے اور قاری کو قابو میں رکھنے کا ہنر رکھتی ۔
اس کورونائی عہد اور لوک ڈاؤن کے زمانے میں بھی کئی کتابوں کے پڑھنے کا موقع ہاتھ آیا ۔ ‘سفر مصرو حجاز’ اور’ بوئے گل’ کا ذکر اوپر گزر چکا ہے ۔ ایک اور کتاب ‘ کتابیں ہیں چمن اپنا ‘ کے مطالعے سے بھی ذہن آسودہ ہوا ۔ یہ کتاب عبد المجید قریشی کی ہے جو علی گڑھ کے فاضل اور ملتان کے رہنے والے ہیں ۔ کتابوں سے ان کا عشق ، ان کا لگاؤ اور ان کی دیوانگی قابل ِ دید و داد ہے ۔ ان کے ان ہی جذبات و احساسات کا ایک خوب صورت البم یہ کتاب ہے ۔
جناب اسے کتاب کیا کتابی کائنات کہیے ۔ بیک وقت یہ کتاب دنیا بھر میں بسے اپنے خاندان کی مختلف شاخوں سے باتیں کراتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ آپ بغیر کسی ْ ہرے پھٹکری ٗ کے بیٹھے بٹھائے دنیا کی کئی اہم لائبریریوں کی سیر کر لیتے ہیں اور سینکڑوں ادبا و شعرا اور اہل قلم سے آپ کی بات و ملاقات ہوجاتی ہے ۔ بھئی کتابوں کا عاشق ہو تو عبد المجید قریشی جیسا ؛بلکہ عاشقِ زار کہہ لیجیے ! کتابوں کو ماں جیسا پیار دینے والے اس دیوانے کو یہ بھی گوارا نہ تھا کہ کتاب بد صورت ہو ، کمزور ہو ، اسے ٹھوکر لگ جائے ، اس پر دھول جم جائے ، اس کا ورق مڑ جائے ، کتاب پر کوئی کچھ لکھ دے ؛ یہاں تک کہ ڈاک سے آئی کتاب پر بندھی رسی کا داغ بھی اس کے لیےنا قابل ِ برداشت تھا ۔
کتاب کی تمام رنگا رنگی کے ساتھ مصنف کی علیگیریت ، سرسیدی اسلوب اور مجازی شعریت ، لکھنؤ کے ٹونڈے کباب ، دہلی کی نہاری اور حیدر آبادکی بریانی کو بھی پیچھے چھوڑ تی محسوس ہوتی ہے۔اس البیلی کتاب کے مطالعے سے جہاں کتابوں سے عشق اور مطالعے کا ذوق بیدار ہوتا ہے وہیں وہ آج کے ایام ِ نظر بندی کی وحشت کو مانوسیت سے بدلتی ہے اور اس کی تنہائی سے دوستانہ بھی قائم کر دیتی ہے ۔ اس کتاب کی ایک اہم خوبی یہ بھی ہے کہ مصنف نے اپنے اس کتابی انسائیکلو پیڈیا کو کائنات کی تمام کتابوں کی ماں قرآن مجید سے منسوب کیاہے ۔
لوگ جسمانی غذا، اس کی قلت اور اس قلت کے مضمرات کو سمجھتے ہیں، مگر وہ اس حقیقت کا ادراک کرنے میں ناکام ہیں کہ انسان کو جس طرح جسمانی غذا کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح روحانی، ذہنی، نفسیاتی اور جذباتی غذا بھی درکار ہوتی ہے، اور مطالعہ اس غذا کی فراہمی کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔
قحط پڑتا ہے تو لاکھوں لوگ بھوک سے مر جاتے ہیں اور قحط کی خبر ہر اعتبار سے عالم گیر ہوجاتی ہے۔ اس کی وجہ ظاہر ہے۔ قحط ایک انتہائی غیر معمولی صورتِ حال ہے اور بھوک سے لاکھوں افراد کا ہلاک ہوجانا دل دہلانے والا واقعہ ہے۔ لیکن پوری دنیا میں مطالعے کا قحط پڑگیا ہے اور اس سے ہر سال لاکھوں افراد روحانی، ذہنی، نفسیاتی اور جذباتی موت کا شکار ہورہے ہیں، لیکن یہ صورت ِحال ابھی تک اخبارات میں ایک کالم کی خبر بھی تخلیق نہیں کرسکی ہے۔ اس کی وجہ ہے۔ لوگ جسمانی غذا، اس کی قلت اور اس قلت کے مضمرات کو سمجھتے ہیں، مگر وہ اس حقیقت کا ادراک کرنے میں ناکام ہیں کہ انسان کو جس طرح جسمانی غذا کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح روحانی، ذہنی، نفسیاتی اور جذباتی غذا بھی درکار ہوتی ہے اور مطالعہ اس غذا کی فراہمی کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ معاشرے میں جن لوگوں کو حقیقتِ احوال کا تھوڑا بہت اندازہ ہے انھوں نے مطالعے سے گریز اور اس کو نظرانداز کرنے کے سلسلے میں طرح طرح کے عذر تراش لیے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک عذر یہ ہے کہ کتابیں، رسالے اور اخبارات مہنگے ہوگئے ہیں۔ اور یہ بات ایک حد تک درست ہے۔ لیکن اس حوالے سے جب ہم اپنے معاشرتی منظرنامے پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ ہولناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہم 10 کروڑ کا گھر خریدتے ہیں، اس میں 20 لاکھ کی دو، دو، تین تین گاڑیاں رکھتے ہیں۔ اس گھر میں زندگی کی مہنگی سے مہنگی آسائش موجود ہوتی ہے مگر چھوٹا سا کتب خانہ نہیں ہوتا۔ حالانکہ ایک وقت وہ تھا جب متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے گھروں میں بھی سو، ڈیڑھ سو کتابیں ضرور ہوتی تھیں، مگر اب ہماری جھونپڑیوں میں کیا ’’محلوں‘‘ میں بھی کتب خانہ نہیں ہوتا۔ ہم آٹھ دس ہزار کا جوتا خریدتے ہیں اور اسے سستا سمجھتے ہیں، لیکن چار پانچ سو روپے کی کتاب کو ہم مہنگا کہتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ اب اکثر کتابوں کا ایڈیشن ایک ہزار کتابوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان میں سے دو، تین سو کتابیں مصنف خود دوستوں میں مفت تقسیم کردیتا ہے، باقی کتابیں تین چار سال تک کتب فروشوں کے یہاں پڑی رہتی ہیں۔ چنانچہ اب دیکھنے میں آرہا ہے کہ بہت سی کتب پانچ سو کی تعداد میں شائع ہوتی ہیں اور عام طور پر ان کی اشاعت خود مصنف کے سرمائے سے ہوتی ہے۔ اخبار کا مطالعہ، مطالعے کی سیڑھی کا پہلا پائیدان ہے، لیکن اس پائیدان کی حالت بھی خستہ ہے۔
اخبارات کے قارئین کا خاصا بڑا حصہ ’’مانگ کر‘‘ اخبار پڑھتا ہے۔ جو لوگ خرید کر اخبار پڑھتے ہیں اُن کی اکثریت پورا اخبار نہیں پڑھتی۔ اکثر قارئین اپنی دلچسپی کی خبریں پڑھتے ہیں۔ کم لوگ اخبار کی تمام خبریں ملاحظہ کرتے ہیں۔ اس سے بھی کم لوگ وہ ہیں جو اخبار کے کالم یا اداریہ پڑھتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ اخبار کے اکثر قارئین کا مطالعہ، مطالعہ کم اور اخبار کے ساتھ تانک جھانک یا “Flirt” زیادہ ہوتا ہے۔ اس صورت ِحال نے معاشرے میں ’’مطالعے کا قحط‘‘ پیدا کردیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس قحط سے نجات کیسے حاصل کی جاسکتی ہے؟ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ برصغیر کی معاشرت میں علم و ادب کا چرچا تھا۔ آج ہمارا کوئی ادبی رسالہ پانچ سو یا ہزار سے زیادہ شائع نہیں ہوتا لیکن ساٹھ، ستّر سال پہلے اردو کے بعض ادبی جرائد کی ماہانہ اشاعت 75 ہزار سے زیادہ تھی۔ اُس وقت بعض شاعر، ادیب اتنے مقبول تھے کہ ان کو فلمی اصطلاح میں ’’سپر اسٹار‘‘ کہا جاسکتا ہے۔ اُس زمانے میں پانچ دس ہزار افراد کے مشاعرے چھوٹے یا اوسط درجے کے کہلاتے تھے۔ تجزیہ کیا جائے تو اس فضا کا سب سے بڑا سہارا ہماری زبانی روایت یا Oral Tradition تھا۔ اُس زمانے میں کوئی گھر ایسا نہ تھا جہاں کہانیاں سنانے والا، لہک لہک کر نظمیں پڑھنے والا اور پہیلیاں بوجھنے والا نہ ہو۔ اُس زمانے کی کہانیاں متنوع ہوتی تھیں۔ ان میں مذہبی اور تاریخی قصے تھے۔ بادشاہوں، جنوں اور پریوں کی کہانیاں تھیں۔ ان میں انسان کی روح، قلب، ذہن اور تخیل کے لیے بہت کچھ تھا۔ ان قصوں اور کہانیوں سے بچوں میں مذہبیات اور ادب کا ذوق و شوق پیدا ہوجاتا تھا اور بچے اس ’’سمعی علم‘‘ کے ساتھ آسانی سے کتاب کی محبت میں گرفتار ہونے کے قابل ہوجاتے تھے۔ اُس وقت مشاعرے کا ادارہ اتنا مستحکم اور طاقت ور تھا کہ جو ایک بار مشاعرے میں چلا جاتا تھا اسی کا ہوکر رہ جاتا تھا۔ اُس وقت مشاعرے میں اتنی جان تھی کہ اگر کوئی شخص صرف مشاعرے کی روایت سے وابستہ ہوجاتا تھا اور لکھی ہوئی شاعری نہیں بھی پڑھتا تھا تو بھی اس کا شاعرانہ ذوق نکھر جاتا تھا۔ یہ ذوق اکثر لوگوں کو شاعری ہی نہیں ادب کی دیگر اصناف کی طرف لے جاتا تھا۔ پہیلیاں بظاہر معمولی چیز نظر آتی ہیں مگر ان میں ایک شعریت بھی تھی اور یہ صلاحیت بھی کہ وہ پہیلیاں پوچھنے اور بوجھنے والوں کو اشارے، کنائے اور رمز کی زبان بھی سکھا دیتی تھیں۔ اس گفتگو کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہمیں معاشرے میں مطالعے کا ذوق و شوق پیدا کرنا ہے تو اپنی کہانیاں کہنے، نظمیں سنانے اور پہیلیاں بوجھنے کی زبانی روایت یا Oral Tradition کو پھر سے زندہ کرنا ہوگا۔ یعنی ہمارے والدین کو اپنے بچوں، دادا دادی اور نانا نانی کو اپنے پوتوں پوتیوں اور نواسے نواسیوں، اور بڑے بہن بھائیوں کو اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے ایک بار پھر کچھ نہ کچھ وقت نکالنا ہوگا۔ اس سے صرف مطالعے کا رجحان ہی پیدا نہیں ہوگا بلکہ خاندانی مراسم بھی بہتر ہوں گے اور ان میں محبت و تعلق کے خیالات و جذبات کی ’’نئی سرمایہ کاری‘‘ بھی ہوگی۔
غور کیا جائے تو ہماری زبانی روایت یا Oral Tradition میں دو بڑی خوبیاں تھیں۔ وہ برجستہ بھی تھا اور مرتب یا Institutionalized بھی۔ مطالعے کے رجحان کو مزید مرتب اور منظم کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ ہم مطالعے کو اپنے پورے تعلیمی نظام کا جزو لاینفک بنادیں۔ اس کی روایتی صورت تو یہ ہے کہ ہمارے معمول کے تدریسی نظام میں لائبریری کے لیے کچھ وقت مقرر ہوتا ہے، اس وقت کو بڑھانے کی ضرورت ہے اور ہفتے میں کم از کم تین پیریڈ لائبریری کے لیے مختص ہونے چاہئیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر اسکول، ہر کالج اور ہر یونیورسٹی میں ایک اچھا کتب خانہ موجود ہو۔ تاہم مطالعے کو تعلیمی نظام کا ناگزیر حصہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ پانچویں جماعت سے کتاب بینی ایک لازمی مضمون کے طور پر متعارف کرائی جائے۔ اس مضمون میں بچوں کو کسی بھی موضوع بالخصوص ادبی نوعیت کی تین کتابیں پڑھنا اور پھر ان پر ایک تبصراتی اور تجزیاتی مضمون لکھنا ضروری ہو۔ بڑی جماعتوں بالخصوص یونیورسٹی کی سطح پر کتابوں کی تعداد مزید بڑھا دی جائے اور طالب علموں کے لیے ضروری ہوکہ وہ کتابوں پر لکھے ہوئے اپنے مضمون کو پوری جماعت کے سامنے سنائیں اور اس پر اگر کوئی اعتراض ہو تو اس کا تسلی بخش جواب دیں۔ اس طرح مطالعہ نہ صرف یہ کہ ابتدا ہی سے بچوں کی ’’عادت‘‘ بن جائے گا بلکہ ان کے فہم کی سطح بھی بلند ہوگی اور ان کی اظہار کی تمام صلاحیتیں بھی فروغ پائیں گی۔ ہر سطح کے تعلیمی نظام میں تقریر اور تحریر کے مقابلوں کو اس طرح ادارتی یا Institutionalize صورت دینے کی ضرورت ہے کہ ان مقابلوں کی پوری عمارت مطالعے پر کھڑی ہو۔ بدقسمتی سے ہمارے تقریری مقابلوں میں ساری توجہ زورِبیان پر دی جاتی ہے۔ حالانکہ خطابت میں اصل چیز صداقت اور مواد ہے۔ جس تقریر میں صداقت نہیں اور جس تقریر میں مواد کی سطح بلند نہیں وہ بے کار بلکہ چیخ پکار ہے۔ ہمارے تقریری اور تحریری مقابلوں کا ایک بڑا نقص یہ ہے کہ ان کے لیے بہت چھوٹے انعامات اور اعزازات رکھے جاتے ہیں، حالانکہ ان کے لیے انعام اور اعزاز اتنا بڑا ہونا چاہیے کہ شرکاء مقابلہ جیتنے کے لیے اپنے پورے وجود کی قوت صرف کردیں۔ ایسے مقابلے اگر ضلعی، صوبائی اور قومی سطح پر منعقد ہونے لگیں تو ان کے معیار اور ساکھ دونوں میں اضافہ ہوگا اور مطالعہ طالب علموں کے لیے محض ’’مشغلہ“ یا Part time نہیں رہے گا، ایک ’’اہم ضرورت“ بن جائے گا۔ ہماری قومی زندگی کا المیہ یہ ہے کہ اس میں طاقت، دولت، شہرت اور ان کی اقدار کا غلبہ ہوگیا ہے۔ اس پر طرہ یہ ہے کہ یہ چیزیں چند شعبوں مثلاً سیاست، کھیل، اداکاری اور گلوکاری سے وابستہ ہوکر رہ گئی ہیں۔ چنانچہ نئی نسل کے ہیروز یا تو کھلاڑی ہیں یا اداکار، گلوکار یا سیاست دان۔ اس منظرنامے میں نہ کہیں علم موجود ہے نہ صاحبِ علم۔ چنانچہ ہماری نئی نسلوں کے لیے علم اور تخلیقی سرگرمیوں میں کوئی کشش نہیں۔
اس صورتِ حال کی تبدیلی کے لیے ہیروز کی تبدیلی اور ہیروز کی فہرست میں ترجیحات کے اعتبار سے ردوبدل ناگزیر ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اقتدار اہلِ علم کے ہاتھ میں ہو، تاکہ علم اور طاقت کی یکجائی اجتماعی زندگی کا مرکزی حوالہ بن جائے۔ اس سلسلے میں ذرائع ابلاغ کا کردار اس لیے بنیادی ہے کہ مثالیوں یا Ideals کی تشکیل کے حوالے سے ان کی بڑی اہمیت ہوگئی ہے۔ اخبارات کو طے کرنا ہوگا کہ اگر وہ کھلاڑیوں، اداکاروں اور گلوکاروں کے لیے ہفتے میں ایک صفحہ مختص کرتے ہیں تو انہیں اہلِ علم کے لیے ہفتے میں کم از کم تین صفحے وقف کرنے ہوں گے، یا اگر ریڈیو اور ٹیلی ویژن ہفتے میں کھلاڑیوں اور اداکاروں کو ایک گھنٹہ دیتے ہیں تو انہیں اہلِ علم کے لیے تین گھنٹے صرف کرنے ہوں گے۔ ہیروز کی اس پیشکش میں پورے معاشرے کے لیے ایک پیغام ہوگا اور اس کے نتیجے میں ہم پورے معاشرے کو علم اور مطالعے سے منسلک کرسکیں گے۔ پوری انسانی تاریخ میں کتب خانوں نے مطالعے کے رجحان کو پیدا کرنے، اسے فروغ دینے اور برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ دنیا کے بڑے شہر دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ بڑے کتب خانوں سے بھی پہچانے جاتے تھے۔ لیکن اب ہمارے ملک کی صورتِ حال یہ ہے کہ کراچی دو کروڑ سے زیادہ آبادی کا شہر ہے اور اس میں کوئی ایسی لائبریری نہیں جہاں سے کتابیں جاری کراکے مطالعے کے لیے گھر لائی جاسکیں۔ مثالی بات تو یہ ہے کہ کونسلر کے حلقے کی سطح پر چھوٹی چھوٹی لائبریریوں کے قیام کے ذریعے پورے ملک کو کتب خانوں سے آراستہ کردیا جائے۔ لیکن یہ ممکن نہ ہو تو بڑے شہروں میں دس لاکھ افراد کے لیے کم از کم ایک کتب خانہ ضرور ہونا چاہیے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ کتابوں کی بڑھتی ہوئی قیمتیں مطالعے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کررہی ہیں۔ کتابوں کی قیمتیں کم کرنے کی تین صورتیں ہیں: ایک یہ کہ ہم اپنے ملک میں ہی کاغذ پیدا کرنے لگیں، دوسرے یہ کہ اشاعتی اداروں کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ ہر قابلِ ذکر کتاب کے مجلّد یا Hard bound اور غیر مجلّد یا Paper Back ایڈیشن شائع کریں تاکہ کم آمدنی والے افراد بھی غیر مجلّد کتاب خرید کر اپنے شوقِ مطالعہ کی تسکین کرسکیں۔ کتابوں کی قیمتوں کو کم کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ زیادہ تعداد میں شائع ہونے والی کتابوں کی شرحِ منافع کی حد مقرر کردی جائے۔ مطالعے کے فروغ کی ایک صورت یہ ہے کہ کتاب کو معاشرے کا سب سے بڑا اور قیمتی ’’تحفہ“ بنادیا جائے، یہاں تک کہ معاشرے میں کتاب کا تحفہ دینا اور لینا فخر اور مسرت کی بات بن جائے۔ لیکن ان تمام کاموں سے پہلے معاشرے کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ مطالعے کے فوائد بے شمار ہیں۔
انسان کے مشاہدات و تجربات اور خیالات بہت ہونے کے باوجود کم ہی ہوتے ہیں، لیکن مطالعہ مشاہدات، تجربات اور خیالات کا سمندر ہے، اور جو شخص کتاب پڑھتا ہے، یہ سمندر اُس کی ذاتی متاع بن جاتا ہے۔ مطالعے کی اہمیت یہ ہے کہ صرف ایک کتاب کا اچھی طرح مطالعہ انسان کو کچھ سے کچھ بنادیتا ہے۔ انسان جب کتاب پڑھنا شروع کرتا ہے تو وہ کسی اور طرح کا آدمی ہوتا ہے، اور جب وہ کتاب ختم کرتا ہے تو کسی اور طرح کا شخص بن چکا ہوتا ہے۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر ایک کتاب انسان کو اتنا بدل سکتی ہے تو سو کتابیں انسان کو کس طرح تبدیل کرسکتی ہیں! مطالعے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ یہ انسان کو مرتب اور منظم انداز میں سوچنا اور اظہار کرنا سکھاتا ہے، اور انسان کی کند ذہنی اور گونگا پن دور ہوجاتا ہے۔ مطالعہ کند ذہن شخص کو اوسط درجے کی ذہنی صلاحیت عطا کردیتا ہے، اوسط ذہنی صلاحیت کے حامل شخص کو ذہین بنادیتا ہے، اور ذہین شخص کو مطالعہ عبقری یا Genius بنادیتا ہے۔ مطالعہ خودآگہی اور ماحول شناسی کا ذریعہ ہے اور ان دونوں چیزوں کے بغیر انسان اپنی زندگی کی معنویت کا تعین نہیں کرسکتا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ایک اچھی اور بڑی کتاب سے زیادہ سستی چیز کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔ اچھی اور بڑی کتاب دو سو روپے کی کیا دو ہزار، دو لاکھ یا دو کروڑ روپے کی ہو تو بھی سستی ہے کیونکہ وہ مٹی کو سونا، حیوان کو انسان اور قبیح کو جمیل بناسکتی ہے۔