آغا شورش کاشمیری نے اپنی مشہور خود نوشت سوانح’’بوے گل،نالۂ دل،دودِچراغِ محفل‘‘میں ۱۹۳۶ میں گاندھی جی سے ملاقات کا احوال لکھا ہے۔یہ وہ دور تھا جب ہندوستانی سیاست تیزی سے کروٹ بدل رہی تھی اور فرقہ وارانہ انتہا پسندی کا عفریت اپنے دہانے کھول رہا تھا۔شورش نے گاندھی سے ملاقات کے دوران کئی سوالات کیے،جن کے جواب گاندھی جی نے بڑے انشراح و اعتماد کے ساتھ دیا،جو ان کا انداز تھا۔ان سوالوں میں سے ایک سوال مسلم لیڈرشپ کے بارے میں تھا،انھوں نے پوچھا:
’’ مسلمانوں کی ناکامی کا سبب کیاہے؟‘‘۔
گاندھی نے جواب دیا:
’’میں سمجھتاہوں کہ ان میں کوئی شخص بھی فقیری کرنا نہیں چاہتا؛بلکہ فقیری سے اٹھ کر شہنشاہی کر رہا ہے۔قومی خدمت صرف فقیری کرنے سے ہوتی ہے‘‘۔
شورش نے گاندھی کے اس جواب کا خاص پس منظر بیان کیاہے؛لیکن اگر ہم پچھلے سو ڈیڑھ سو سال کی مسلم سیاست ،قیادت پر نظر ڈالیں تو گاندھی کی یہ بات کتنی سچی ہے؛بلکہ اگر آپ خالی الذہن ہوکر تحریکِ آزادی کے دوران صرف مسلمانوں کے پلیٹ فارم سے بننے والی سیاسی پارٹیوں کا سرسری جائزہ لیں،تو گاندھی کی اس بات کی سچائی اور بھی روشن ہوکر سامنے آئے گی ۔آزادی سے پہلے کانگریس اور مسلم لیگ کے علاوہ درجنوں خالص مسلم سیاسی جماعتیں تھیں اور ان میں سے ہر ایک کا دعویٰ تمام مسلمانوں کی نمایندگی کا تھا۔خود مسلم لیگ جس نے مسلمانوں کے تحفظ و خود مختاری کے لیے پاکستان بنوایا،اس سے ٹوٹ کر اب تک وہاں لگ بھگ دودرجن سیاسی جماعتیں بن چکی ہیں۔ آزاد ہندوستان میں بھی ’’مسلم قیادت و سیاست‘‘کے کئی طوفان گزر چکے ہیں،اگر ان کی تاریخ دیکھ لی جائے ،تو اس سے بھی گاندھی کے ’’قومی خدمت‘‘اور ’’فقیری‘‘کے معنی سمجھے جاسکتے ہیں۔
حالیہ پانچ چھ سالوں کے دوران حکومت کی متعصبانہ پالیسیوں اور مبینہ سیکولر جماعتوں کی مسلمانوں سے کنارہ کشی کی وجہ سے جنوبی ہند کے سیاست داں اور ممبر پارلیمنٹ اسدالدین اویسی کو میدان خالی ملا اور انھوں نے مسلم مسائل پر کھل کر بولنا شروع کیا،جس کے نتیجے میں مودی حکومت کے پہلے دور کے شروع ہوتے ہی وہ قومی سطح کے مسلم لیڈر بن گئے اور پھر بتدریج مسلمانوں کے بہت بڑے طبقے میں ایک بار پھر ’’اپنی قیادت‘‘ اور ’’اپنی سیاست‘‘ کو فروغ دینے کا جذبہ پیدا ہوا ہے،مگر حیرت ؛بلکہ المیہ ہے کہ ایسا ہر شخص اِس چکر میں ہے کہ اسی کو قائدِاعظم مان لیا جائے اور باقی سارے لوگ اس کی جھنڈا برداری کرتے نظر آئیں۔سوشل میڈیا پر مفکری کی باڑھ آئی ہوئی ہے اور چوک چوراہوں پر سیاسی پھکیت اپنی ہفوات کو اتنی خود اعتمادی سے پیش کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے قوم کی نجات و ترقی کا تیر بہ ہدف نسخہ بس اسی مہاپرش کے پاس ہے۔
بہار الیکشن کے موجودہ منظرنامے پر غور کیجیے تو جو پارٹیاں مسلمانوں کے زخموں کا مداوا کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں،خود ان کی سمتیں بھی مختلف ہیں،مثال کے طورپر مجلس کسی اور اتحاد میں شامل ہے،جبکہ ایس ڈی پی آئی کسی دوسرے اتحاد کا حصہ ہے،جو کہ من حیث المجموع بہار الیکشن کا چوتھا اتحاد ہے۔ پھر مجلس کا اتحاد بھی بی ایس پی اور اوپندر کشواہا کی پارٹی سے ہے،جن کا بھی کچھ پتا نہیں کہ کیا گل کھلائیں گے۔ مایاوتی کی تاریخ بھی پلٹی بازی کی ہے اور کشواہا تو خیر این ڈی اے کے ذریعے ہی قومی سیاست میں نمایاں ہوئے ہیں اور مرکزی وزیر بھی رہے ہیں۔اس اتحاد میں اور بھی پارٹیاں شامل ہیں،مگر مرکز میں یہی تینوں ہیں اور یہ اتحاد پورے بہار میں الیکشن لڑ رہاہے۔ایس ڈی پی آئی نے چندرشیکھر آزاد اور پپو یادو والے الائنس میں شمولیت کا فیصلہ کیا ہے اور یہ الائنس بھی پورے صوبے میں الیکشن لڑ رہا ہے۔ دوسری طرف ان سے ،خصوصاً مجلس سے وابستہ کارکنان کا ردِعمل عجیب و غریب ہے۔ عام طورپر وہ اپنا موقف معروضیت کے ساتھ رکھنے کی بجاے دوسروں پر تبرے بازی پر اتر آتے ہیں، جو سیاست کے علاوہ عام زندگی میں بھی حد درجہ مذموم ہے اور ایسی حرکتوں سے آپ کے انفرادی کیرکٹر کی ہی پول نہیں کھلتی،پوری جماعت کی اصل شبیہ سامنے آتی ہے۔
دوسری طرف کچھ لوگ جو سیاسی طبع آزمائی کے لیے مجلس سے وابستہ ہوگئے تھے اور اس امید میں تھے کہ الیکشن لڑنے اور’’اسلام کی خدمت کرنے‘‘کا موقع ملے گا،جب انھیں ’’کسی وجہ ‘‘سے ٹکٹ نہیں دیا گیا،تووہ ایک سے بڑھ کر ایک انکشاف کر رہے ہیں۔اب تک کئی لوگ سوشل میڈیا پر آکر یہ الزام لگا چکے ہیں کہ مجلس نے لیاقت کی بجاے پیسے کو ٹکٹ کا معیار بنایا ہوا ہے اور بہار کے صںدرِ مجلس سمیت ان کے بعض خاص معاونین پر بھی پیسے لے کر ٹکٹ دینے کے الزامات لگ رہے ہیں،حالاں کہ یہ بات تو سارا ملک جانتا ہے کہ دوایک پارٹیوں کے علاوہ تقریباً تمام سیاسی جماعتیں انتخابات میں کسی بھی امیدوار کو مفت میں ٹکٹ نہیں دیتیں ؛لیکن اس کو سیاسی اخلاقیات یا مجبوری یا کچھ بھی کہیے کہ ایسی باتیں بس نجی محفلوں میں ہوتی ہیں،قومی سطح پر یہ کبھی موضوعِ بحث نہیں رہا۔
اب ان الزام لگانے والوں کی باتیں درست ہیں یا نہیں،اس کی وضاحت تو پارٹی کے ذمے داران کریں گے۔خبریں تو ایسی بھی آرہی ہیں کہ بعض ناراض کارکنان کو مجلس نے ٹکٹ دینے کا فیصلہ کرلیا ہے، مگر اس پورے سلسلۂ واردات سے دوباتیں سمجھ میں آتی ہیں۔ایک تو یہ کہ جو لوگ ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے پریشان ہیں ،مجلس کی قیادت کو کوس رہے ہیں اور اس کا بھانڈا پھوڑنے کا دعویٰ کررہے ہیں،وہ کبھی بھی نہ مجلس کے تئیں مخلص رہے اور نہ اپنے اس دعوے میں کہ وہ مسلمانوں کے لیے فلاں فلاں تیر ماریں گے۔دوسری یہ کہ خود مجلس کو اُسی طرح کی ایک سیاسی پارٹی سمجھنا چاہیے،جیسی ملک کی دوسری بڑی چھوٹی پارٹیاں ہیں، جو موقع لگنے پر کسی سے بھی اتحاد کر سکتی ہے اور امیدواروں کے انتخاب میں اس کا معیار بھی وہی ہے،جو دوسری پارٹیوں کا ہے،باقی کہنے اور اپنے لوگوں کو Motivateکرنے کے لیے بے شمار باتیں ہوسکتی ہیں ۔اویسی بلا شبہ ایک قابل سیاست دان ہیں اور انھوں نے مسلمانوں سے متعلق مسائل پر کھل کر اپنے موقف کا اظہار کیا ہے، مگر ایسے اور بھی بہت سے لوگ ہیں اور ان میں سے کچھ تو غیر مسلم بھی ہیں۔تو آپ اپنی صوابدید کے مطابق کسی بھی جماعت سے وابستگی اختیار کر کیجیے اور خلوص کے ساتھ سماجی و سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیجیے ؛لیکن فکر و عمل میں اعتدال و وسطیت کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔نہ کسی کی حمایت میں اندھا ہوجانا چاہیے اور نہ مخالفت میں حد سے گزرنا چاہیے،دونوں صورتیں مضر ہیں اور ہر حال میں مضر ہیں۔ آپ مجلس کو بھی ملک کی دوسری سیاسی پارٹیوں کی طرح ایک سیاسی پارٹی مان کر چلیے اور اگر دل چاہے تو اس کے پلیٹ فارم سے کام کیجیے،ایسے میں اگر خدا نخواستہ پارٹی سے کبھی آپ کا’’موہ بھنگ‘‘بھی ہوا،تو زیادہ تکلیف نہیں ہوگی؛لیکن اگر کہیں یہ سوچ کر اس سے وابستگی اختیار کرلی کہ مجلس کے جیتتے ہی مسلمانوں کے سارے مسائل ہوا ہو جائیں گے اور اویسی ’’اردوانِ ہند‘‘ہیں ،پھر کسی موقعے پر پارٹی یا اس کے قائدین آپ کی امیدوں پر کھرے نہیں اترے،تو ایسے میں تکلیف شدید ہوگی؛بلکہ بہت شدید ہوگی۔
مسلم قیادت
پروفیسر محمد سجاد کی تازہ تصنیف ’بھگوا سیاست اور مسلم اقلیت‘عنقریب منظرعام پر
علی گڑھ:علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبۂ تاریخ کے پروفیسر اور متعدد کتابوں کے مصنف پروفیسر محمد سجاد کی نئی کتاب ’بھگوا سیاست اور مسلم اقلیت‘ عنقریب منظر عام پر آنے والی ہے۔ اس کتاب میں انھوں ہندوستان کے موجودہ سماجی و سیاسی ماحول خصوصا فرقہ وارانہ سیاست کے عروج کے اسباب اور پس منظر کا جائزہ لیا ہے اور اس سلسلے میں اہم معلومات فراہم کی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کتاب کے ذریعے ایک مکالمہ شروع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایک تجویز رکھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ آج کے مشکل تر اور نا مساعد حالات کے پیش نظر ہندوستانی مسلمان اپنی ترجیحات کو از سر نو طے کرنے کی فکر یا ایسا تجربہ کر سکتے ہیں یا نہیں؟ سوشل میڈیا پر شمالی ہند کے مسلم نوجوانوں کی بڑی آبادی بہ ظاہر زیادہ دلچسپی انتخابی سیاست کی توڑ جوڑ، سیاست دانوں کے نجی و پبلک معاملات پر دکھاتی ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا لگنے لگتا ہے کہ انتخابی سیاست کی دنیا میں جو گراوٹ آئی ہے، اس کے خلاف بولتے ہوئے یا احتجاج کرتے ہوئے بیش تر کا مقصد شاید انہی خرابیوں میں ملوث ہو کر ذاتی مفادات حاصل کرنا ہے۔
پروفیسر سجاد کے مطابق اس کتابچہ کے ذریعے ایک ادنی کوشش کی جا رہی ہے کہ انتخابی سیاست کے رموز و نکات کو مطالعہ اور مشاہدہ کے ذریعہ باریکی سے سمجھنے کا عمل تو جاری رکھا جائے، لیکن فوقیت اور ترجیح دی جائے تعلیمی و اقتصادی ترقی پر۔ ساحلی صوبوں کیرالہ، حیدرآباد اور آسام میں جہاں مسلم سیاسی جماعتیں ہیں، وہاں ڈیموگرافکس کے علاوہ یہ بھی سچ ہے کہ ان علاقوں میں کئی تنظیمیں تعلیمی و اقتصادی میدان میں بھی قابل تعریف اقدام کر رہی ہیں۔ عمومی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ جنوبی ہند کے بیشتر بڑے شہروں اور خطوں میں مسلمانوں کی جدید تعلیم کے لئے کئی تنظیموں نے متعدد تعلیمی و تحقیقی ادارے بھی قائم کیے ہیں۔ مثلاً 1966 میں قائم شدہ، الامین ایجوکیشنل سوسائٹی بنگلور، مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی (کیرالہ قائم شدہ، 1964) اور 1955 میں قائم کیرل مسلم ایجوکیشنل ایسو سی ایشن اور 1902 میں قائم مسلم ایجوکیشنل ایسو سی ایشن آف ساؤدرن انڈیا (چینئی) وغیرہ۔ آندھرا پردیش، تلنگانہ میں بھی کئی ایسی تنظیمیں ہیں۔ سلطان العلوم ایجوکیشنل سوسائٹی، ادارۂ ادبیات اردو، دی مسلم ایجوکیشنل سوشل آرگنائزیشن، مدینہ گروپ آف ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنس وغیرہ۔
یہاں تک کہ مدھیہ پردیش اور راجستھان جیسے صوبوں (جہاں زعفرانی تسلط 1990 کی دہائی سے ہی قائم ہے) میں بھی مسلمانوں نے تمام مشکلات کے باوجود ایسے کچھ اقدام کیے ہیں۔ مثلاً مسلم ایجوکیشن سو سائٹی اور آل انڈیا مسلم بیک ورڈ کلاسز فیڈیریشن (مدھیہ پردیش)۔ ممکن ہے ایسی اور بھی تنظیمیں وہاں ہوں گی۔ راجستھان میں جودھپور ریاست کے راجہ امید سنگھ کی فراخ دلی سے 1929 میں قائم مارواڑ مسلم ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی نے بھی کئی (تقریباً 31) اسکول، کالج اور اسپتال قائم کیے ہیں۔
ایسے میں بہار، اتر پردیش، مغربی بنگال، جیسے صوبوں میں بھی ایسے اقدام اگر مسلمانوں کا اہل ثروت طبقہ اور دیگر خواص کرنے لگیں گے تو حالات میں خاطر خواہ تبدیلی آ سکتی ہے۔ اس کے برعکس ان صوبوں میں سر دست ایسے کئی لوگ اپنی دولت کا بہت بڑا حصہ الیکشن کا ٹکٹ حاصل کرنے اور چناؤ کی مہم میں (شکست کھا کر) خرچ کر دیتے ہیں۔ انتخابی سیاست چونکہ بری طرح جرم زدہ بھی ہے اور شدید بدعنوانی کی بھی شکار ہے، لہذا سیاسی عروج حاصل کرنے کے متمنی بعض لوگ جرم کا راستہ بھی اختیار کر رہے ہیں اور اس کے لئے مذہب کا بے جا استعمال اور وسیع تر سماجی یا فرقہ پرستانہ حمایت تیار کرنے کی چال بازیاں اور تگڑم بھی کی جاتی ہے۔ حصول اختیارات کے طریقوں میں ایک طریقہ جرم کو بھی مانا جاتا ہے اور اس طرح پڑھنے، لکھنے اور تجارت و ملازمت کرنے والے نوجوانوں کو گمراہ کر کے جرم کی اندھیری دنیا میں دھکیل دیا جاتا ہے۔
یعنی ایک وسیع تر اور مضبوط سماجی مہم جرائم کا راستہ اختیار کرنے کی روش کے خلاف بھی شروع کرنی ہوگی۔ اس کتاب کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ مسلمان اپنی سماجی و سیاسی ترجیحات از سر نو طے کریں،امید ہے کہ اس کتاب سے مسلمانوں کے درمیان ایک نیا ڈسکورس شروع ہوگا۔
شاہنوازبدرقاسمی
برادرِمحترم مولاناڈاکٹر عبدالقادر شمس قاسمی کی وفات مجھ جیسوں کیلئے کسی عظیم سانحہ سے کم نہیں ہے،ان کی رحلت کے بعد عوامی سطح پر انہیں جس طرح خراج عقیدت پیش کیاجارہاہے یہ ان کی مقبولیت اور محبوبیت کی دلیل ہے۔شمس بھائی نہ صرف ایک اچھے صحافی تھے بلکہ صحافت سے زیادہ انہیں سماجی وفلاحی کاموں میں دلچسپی تھی،جب بھی ان سے گفتگو ہوتی سیمانچل کی ترقی خوشحالی اور بہارمیں مسلم قیادت پر بہت فکر مندی کے ساتھ اپنی بات کہنے کی کوشش کرتے اور کہتے تھے کہ اپنے علاقہ کیلئے ابھی بہت کچھ کرناباقی ہے۔
ملی وسیاسی مسائل پر بھی ان کی گہری نظر تھی اور ملک کے کئی معتبر ملی وسیاسی رہنماؤں سے ان کاخصوصی تعلق تھا۔وہ ہمہ جہت خوبیوں کے مالک تھے انہیں صرف ایک صحافی کی حیثیت سے دیکھناسراسرنا انصافی ہوگی وہ سیمانچل کے مظلوموں کی آواز اور ملت کے بیباک ترجمان تھے۔صرف 48سالہ زندگی میں انہوں نے کئی ایسے نمایاں کا رنامے انجام دیے جن کیلئے وہ ہمیشہ یاد کئے جاتے رہیں گے،نئی نسل کے اردو صحافیوں کے لیے وہ آئیڈیل تھے انہوں نے کئی باصلاحیت نوجوانوں کو صحافی بنانے میں اہم کردار اداکیا۔
عبدالقادر شمس قاسمی ارریہ کے ڈوبا گاؤں میں پیداہوئے اور دارالعلوم دیوبند سے فضیلت اور جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرکے ایک بامقصد میدان کاانتخاب کرکے انہوں نے بڑی جدوجہد کے بعد مین اسٹریم میڈیا میں اپنی نمایاں شناخت قائم کی،وہ ایک بافیض شخصیت کے مالک تھے،شمس بھائی کے یہاں لفظِ ’’نہیں‘‘ کاتصور نہیں تھا،وہ ہر کام کیلئے ہاں کہہ دیتے تھے تعلقات نبھانے میں مہارت تھی،ان کے ذاتی تعلقات کن کن سے تھے اس بات کااندازہ لگانامشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے۔عبدالقادرشمس صرف بولتے اور لکھتے نہیں تھے بلکہ اسے عملی سطح پر کرنے کاجذبہ بھی رکھتے تھے دہلی میں رہتے ہوئے انہیں علاقائی پسماندگی نے بے چین کررکھاتھا،انہوں نے اپنے آبائی وطن میں ایک مشہور دینی ادارہ جامعہ دعوۃالقرآن،ایک ہاسپٹل، کئی مساجد ومکاتب بھی قائم کئے،مصیبت کی گھڑی میں ضرورت مندوں کی ہر ممکن مدد کرنے میں کبھی بخالت سے کام نہیں لیتے تھے،شمس صاحب کسی پریشان حال کو دیکھ کر بہت بے چین ہوجاتے تھے اور اسی بے چینی نے انہیں دہلی میں رہ کر اپنے علاقائی عوام کیلے یہ سب کرنے پر مجبور کررکھاتھا،بلاتفریق وہ خاموشی کے ساتھ مدد کرنے کے عادی تھے۔
ان کی تدفین میں شرکت کے بعد یہ محسوس ہواکہ وہ جتنے مشہور باہر تھے اس سے کہیں زیادہ مقبول اپنے علاقے میں تھے،کوروناکے قہراور خوف کے باوجود نماز جنازہ میں ہزاروں کامجمع جس میں سیمانچل سے تعلق رکھنے والے تمام نمایاں چہرے شامل تھے۔ شمس بھائی کی وفات پر ہر طرف اداسی چھائی ہوئی تھی اورپورا گاؤں صدمہ میں تھا،سیمانچل کی پسماندگی اور علاقائی مسائل کو ملکی سطح پر جس طرح سے انہوں نے پیش کیااس کے لیے سیمانچل کاہر شہری ان کااحسان مندرہے گا ۔ انھوں نے کئی علاقائی لیڈران کو متعارف کرانے اور انہیں ملکی سطح کاچہرہ بنانے میں بھی کلید ی کرداراداکیا۔ وہ بھلے ہی خود سیاسی لیڈر نہیں تھے لیکن سیاسی حکمت عملی بنانے میں ماہر تھے،سیمانچل سے متعلق کسی بھی مسئلے پر گفتگو کرتے وقت جذباتی ہوجاتے وہ اس خطہ کی بدحالی سے بہت مایوس تھے۔اسی لئے وہ اب صحافتی زندگی کے بجائے سیاسی زندگی کی شروعات کرناچاہتے تھے، اس کیلئے انہوں نے مجھ سے ذاتی طورپربھی کئی مرتبہ تبادلۂ خیال کیا اور حکمت عملی طے کی اور کہاکہ علاقائی حالات کو بہتر بنانے کیلئے سیاست میں آنااب بہت ضروری ہوگیاہے۔وہ مناسب وقت کاانتظار کررہے تھے لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظورتھا۔
ڈاکٹر عبدالقادر شمس کا تعلق ارریہ کے ایک غریب گھرانے سے تھالیکن انہوں نے اپنی جدوجہد،مستقل مزاجی اور اپنی خدمات کی وجہ سے اس گاؤں کو ایک نئی شناخت دی،وہ صرف جسمانی طورپر دہلی میں رہتے تھے لیکن ان کادل دماغ ہمیشہ اپنے علاقائی مسائل کے حل کیلے بے چین رہتاتھا۔
حضرت قاضی مجاہدالاسلام قاسمی ؒ اور حضرت مولانااسرارالحق قاسمیؒ کی رفاقت میں رہ کرانہوں نے بہت کچھ سیکھااور کیا،ان بزرگوں کی تربیت اور دعاوں کااثر تھاکہ وہ ملت کے ایک بیباک ترجمان کی حیثیت سے اپنی شناخت بنائی،مفتی محفوظ الرحمن عثمانی ان کے ہم عصروں میں تھے۔پروفیسر اخترالواسع،ممبرپارلیمنٹ احمد اشفاق کریم،حضرت مولاناغلام محمد وستانوی کے چہیتوں میں شامل تھے۔
شمس بھائی سے ہماراتعلق بہت دیرینہ تھاان کے ساتھ کئی سفر بھی کئے اور ان کے ساتھ کام کرنے کابھی موقع ملا، وہ ہمیشہ ہم جیسوں کی حوصلہ افزائی کرتے اور کہتے تھے بھائی اب جو کچھ کرناہے آپ ہی لوگوں کوکرناہے ،اس لئے ہمت اور حوصلے سے کام کیجئے، مجھے جب روزنامہ راشٹر یہ سہارا میں ایک سال کام کرنے کاموقع ملاتو شمس بھائی کاخصوصی تعاون رہا،ہفت روزہ عالمی سہارا کیلئے بھی کئی مضامین اور خصوصی رپورٹ لکھوائی،وہ ایک مخلص دوست کی طرح ہمیشہ کام آنے والے انسان تھے،مولاناعبدالقادر شمس اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود کئی کتابیں بھی تصنیف کیں،کئی ملی تنظیموں، مدارس اور اہم اداروں کے لیے بھی کام کرتے تھے،ان کی خدمات کادائرہ بہت وسیع تھا، ایسا محسوس ہوتا تھاکہ وہ کبھی تھکتے نہیں ہیں،ان کے اندر ایک جنون تھااور اسی انفرادیت نے انہیں اپنے ہم عصروں کے درمیان ممتاز ومنفرد بنایا۔
موت ایک اٹل حقیقت ہے لیکن کیامعلوم تھاکہ شمس بھائی اتنی جلد ی ہم سب کو چھوڑ کرہمیشہ کیلے چلے جائیں گے ابھی بھی یقین نہیں ہوتاکہ وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں،شمس صاحب غیر متنازعہ شخصیت کے مالک تھے جس کام کو کرتے پوری ایمانداری اور دلچسپی کے ساتھ اسے انجام تک پہنچانے کی کوشش کرتے ۔ وہ ہر حلقہ اور ہر طبقہ میں یکساں مقبول تھے،وفاداری اورخودداری ان کے خون میں شامل تھی ۔ کم عمری کے باوجود انہوں نے اپنے کئی مثالی کام سے جو معتبریت حاصل کی وہ تاریخی ہے،اللہ پاک شمس بھائی کی تمام مخلصانہ خدمات کو قبول فرمائے اور ان کے بھائی روزنامہ عوامی نیوز پٹنہ کے ایدیٹر عبدالواجد رحمانی اور اکلوتے بیٹے عمار جامی ندوی قاسمی سمیت تمام پسماندگان کو صبر جمیل عطافرمائے،آمین۔
مسعود جاوید
ما بعد آزادی ہند ،تقسیم ہند، ١٩٤٧ کے فوراً بعد خاک و خون کے المناک واقعات ، ان کے تھمنے کے بعد فرقہ وارانہ فسادات کا لا متناہی سلسلہ، مخصوص ذہنیت کی منظم جماعت کی طرف سے ، ابتدا میں محدود تعداد میں ہونے کے باوجود، مسلم تشخص کو مٹانے کی پے در پے کوشش، سیکولر حکومت کی جانب سے پس پردہ اس اینٹی مسلم جماعت کی حمایت اور مسلمانوں کے حقیقی مسائل پر سردمہری !بات کہاں سے شروع کی جاۓ؟ کہیں سے شروع کرتا ہوں ختم اس پر ہوتی ہے کہ ملت اسلامیہ ہند کے گونا گوں مسائل کو ملی قیادت اور مسلم سیاسی لیڈروں نے زخم سے ناسور بننے دیا اس کے بعد ان مسائل کے حل کی طرف سنجیدہ کم سنجیدہ یا غیر سنجیدہ توجہ دی۔
بابری مسجد قضیہ
٢٣ دسمبر ١٩٤٩ مسجد میں غیر قانونی طور پر مورتی رکھی گئی مقدمہ ہوا اور مسجد میں عدالتی فیصلہ آنے تک کے لئے تالا لگا دیا گیا۔
یکم فروری ١٩٨٦ ڈسٹرکٹ کورٹ کے فیصلے پر تالا کھولا گیا۔۔۔ یوپی اور مرکز میں مضبوط کانگریس کی حکومت تھی۔
٦دسمبر ١٩٩٢ مسجد شہید کی گئی۔ مرکز میں کانگریس کی حکومت تھی۔
٢٠١٠ میں ہائی کورٹ نے تالا کھلوانے کے فیصلے پر اعتراض درج کراتے ہوئے اسے غیر قانونی بتایا۔
٩نومبر ٢٠١٩ کو عدالت عظمیٰ نے تسلیم کیا کہ :
١- ١٩٤٩ میں رام للا پرکٹ نہیں ہوۓ تھے بلکہ مجرمانہ طور پر مورتی رکھی گئی تھی۔
٢- مسجد میں ١٩٤٩ تک نماز ادا کی جاتی تھی۔
٣- مندر توڑ کر مسجد نہیں بنائی گئی۔
٤- مسجد غیر قانونی طور پر ١٩٩٢ میں توڑی گئی۔ #تاہم عدالت عظمی نے اس بابری مسجد – رام جنم بھومی متنازع زمین کو رام جنم بھومی ٹرسٹ کو سونپنے کا حکم دیا۔
٥ پانچ اگست ٢٠٢٠ بھومی پوجن یعنی مندر تعمیر کا افتتاحی تقریب ہوا۔
١٩٤٩ سے لے ٢٠١٤ تک اچھی تعداد میں ملی شخصیات اور بااثر مسلم سیاسی لیڈران اقتدار میں شامل معاون اور حامی رہے (جواہر لعل نہرو سے لے کر آئرن لیڈی اندرا گاندھی اور سوفٹ ہارٹیڈ راجیو گاندھی تک، اور سیکولر وزرائے اعظم چندر شیکھر اور وی پی سنگھ تک )۔۔۔ یہ مسلم رہنما انعامات و اعزازات سے نوازے جاتے رہے، لیکن اس مسئلے کا مناسب حل نہیں نکالا گیا۔
شمالی دہلی میں فرقہ وارانہ فسادات ہوتے ہیں مسلمانوں کی جان و مال کا نقصان ہو رہا ہے لوگوں کے مکانات اور دکانوں میں آگ لگا دی جاتی ہے لوگ جان بچانے کے لیے اپنے گھروں کو چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں مساجد کی بے حرمتی کی جا رہی ہے اور پولیس کی زیادتی اور غیر جانبدرانہ تصرفات کی رپورٹ آرہی ہے۔ ۔۔۔۔ تمام بڑی ملی تنظیموں کے مرکزی دفاتر دہلی میں ہیں مگر قائدین خاموش ہیں کوئی وزیر داخلہ اور متعلقہ وزراء و افسران کے سامنے ان مظلوموں کی جان و مال کی فریاد نہیں کرتا کوئی دھرنا پر نہیں بیٹھتا آخر کیوں ؟ ۔ ۔۔۔۔۔ اس کے کئی دنوں کے بعد ملی تنظیموں کے نمائندے ریلیف کا کام شروع کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔ یعنی پہلے جان و مال کا نقصان ہونے دیں پھر ان لٹے پٹے بچے ہوئے مسلمانوں کی مدد کے لئے آئیں۔
مظفر نگر فرقہ وارانہ فسادات۔۔۔ حالات اتنے خراب ہوۓ کہ عدالت عظمیٰ کو از خود نوٹس لینا پڑا۔۔۔ یوپی اسمبلی میں ستر ممبران کوئی استعفیٰ نہیں کوئی دھرنا پردرشن نہیں وزیر اعلی کے داہنے ہاتھ سمجھے جانے والے نے بھی کوئی احتجاج نہیں کیا ملی تنظیموں نے کوئی اجتماعی ردعمل کا عندیہ تک نہیں دیا۔ اس کے بعد ریلیف اور دو تین کمروں پر مشتمل مکانات کی تعمیر!
ٹارگیٹڈ اینٹی کمیونل رایٹ قانون بنانے کی عوامی تحریک چلانے کی ضرورت پر توجہ کب دی جائے گی؟ اس بل کو کانگریس نے ٢٠٠٨ سے ٹھنڈے بستہ میں رکھا یہاں تک کہ ٢٠١٤ میں شکشت فاش کو گلے لگا کر اقتدار سے باہر ہوئی۔
کشمیر کی صورت حال کا ذمے دار کون ہے۔ جب مرکز میں اقتدار کے پایہ کے لوگوں کے ساتھ کشمیری لیڈروں کا یارانہ تھا ان دنوں سنجیدگی سے اس کا حل نہیں ڈھونڈا ٣٧٠ ختم کرنے کا اعلان بہت پہلے انتخابی منشور کے ذریعہ کر دیا گیا تھا۔۔۔۔ مگر اس پر توجہ نہیں دی گئی کوئی اس گمان میں رہا کہ بی جے پی مرکز میں حکومت نہیں بنا پائے گی تو کوئی بی جے پی کے ساتھ الائنس کر کے ریاست میں حکومت بناتی ہے۔۔۔ یہاں تک کہ وہ دن آ گۓ کہ نظر بند رہنا پڑ رہا ہے۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی، منشور میں موجود تمام نقاط پر عملدرآمد ہوگا۔ ہمارے ملی لیڈران کہتے رہیں کہ کامن سول کوڈ کے نفاذ میں خود غیر مسلموں کے لئے پیچیدگیاں پیدا ہوں گی اس لئے یہ بل پیش نہیں کیا جائے گا ! پھر اچانک ایک دن بل پاس ہو جائے گا۔ ابھی اس کا خدشہ ہے، کبھی کھل کر کبھی دبے لفظوں میں اظہار کیا جاتا ہے یعنی ابھی زخم ہے عنقریب ناسور بن کر ابھرے گا۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
مسعود جاوید
دارالعلوم کے بانی مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے مالی وسائل کی فراہمی (چندہ) کے لئے منتظمین کی توجہ اس طرف مبذول کرائی تھی کہ جہاں تک ہو سکے کسی ریاست، سلطنت، حکومت، جاگیردار، نواب، اور امیر و کبیر سے اخراجات پوری کرنے کی ضمانت نہ لی جائے۔ اس سے اعتماد علی اللہ میں کمی آئےگی۔ اخراجات کی فراہمی کے لئے مسلمانوں کے تعاون پر اکتفا کیا جائے بالخصوص علاقے کے عام لوگوں سے چندے ؛ روپے پیسے اور اجناس کی شکل میں تعاون لیا جائے اس کے کئی فوائد ہیں ان میں سب سے اہم دو فائدے یہ ہیں
١- وسائل کی کمی وجہ سے منتظمین کو عوام اور بالخصوص علاقے کے معاونین کے سامنے جوابدہی کا احساس رہے گا۔
٢- جبکہ ریاست،حکومت یا امیر و کبیر کی طرف سے اخراجات اٹھانے کی صورت میں مدرسے کے نصاب اور انتظامی امور میں بجا و بے جا مداخلت اور آزادانہ کام کرنے کی بجائے ان کے لحاظ میں یا رعب سے متاثر ہو کر لائحہ عمل طے کرنے کے امکانات ہیں اور سب سے اہم یہ کہ توکل علی اللہ میں کمی ہو جائے گی۔ امرا کی خوشنودی حاصل کرنا مطمح نظر ہوگا۔
انہی سنہرے اصول کا نتیجہ تھا کہ ہمارے اسلاف قلندر صفت اور قناعت سے بھرپور ہوتے تھے۔ جابر حکمران یا بگڑے نوابوں اور جاگیر داروں کے سامنے بھی کلمۂ حق بولنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ ہمارے مدارس مساجد اور ملی تنظیموں کے دفاتر کی عمارتیں مادی طور پر بہت عالیشان نہیں ہوا کرتی تھیں مگر ان عمارتوں کی روحانی شان و شوکت ایسی ہوتی تھی کہ بڑے بڑے عہدے والے بھی ان کچی عمارتوں میں بیٹھے بوریہ نشینوں سے ملنے کے لئے خود آتے تھے نا کہ اس کے برعکس۔
اس کے بعد دن بہ دن دنیا قریب سے قریب تر ہوتی گئی،بیرون ملک سفر کرنا آسان ہوتا گیا، پٹرو ڈالر کا دور آیا،ملازمت اور تجارت کے لئے ملک سے باہر مقیم دین،ملک اور ملت کے لئے فکر مند خیر خواہان این آر آئیز کا دور آیا،اندرون ملک بھی مسلمانوں کی معاشی حالت بہتر ہوئی ـ مختصر یہ کہ مدارس، مساجد اور ملی تنظیموں کے لئے بڑی بڑی رقومات کے راستے کھلے،جس کی وجہ سے کثرت سے مساجد اور مدارس پورے ملک میں تعمیر ہوئے اور ہو رہے ہیں،مگر افسوس رقومات کی ریل پیل نے ان کے منتظمین کے اندر سے وہ قلندرانہ صفت ختم کر دی اور قائدین کے ہاتھ کہیں نہ کہیں دبے ہیں،مال و دولت کا خبیث اور مضر پہلو مفید پہلو پر ایسا حاوی ہوا کہ حکومت وقت یا اصحاب اثر ورسوخ کے سامنے کلمۂ حق کہنے کی جرات سلب کر لی ۔ بعض قائدین،علما اور غیر علما نے اپنے اوپر مصلحت کی دبیز چادر ڈال کر ” بدون خوف لومة لائم” کو جزدان میں لپیٹ کر طاق پر رکھ دیا ہے۔
کاش روپے پیسے کی اتنی ریل پیل نہ ہوتی، کاش ہماری مسجدیں قیمتی پتھروں سے نہ بنائی جاتیں،کاش ہمارے مدارس اور ملی دفاتر کی اتنی عالیشان عمارتیں نہ بنائی جاتیں
کاش ہمارے قائدین تعمیراتی ترقی کے لئے حساب کتاب، آڈٹ ، فارن ایکسچینج ریگولیشن ، ٹی اے ڈی کے جھمیلوں میں نہ الجھتے اور نہ کسی محکمے سے خائف رہتے۔کاش ہمارے قائدین اسلاف کے نقش قدم پر چلتے اور اقتدار کےگلیاروں میں اپنی شناخت بنانے اور قانونی پیچیدگیوں سے بچنے کے لئے اثر ورسوخ والوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی بجائے اللہ ربّ العزت پر مکمل اعتماد اور افراد سازی پر اپنی توانائی صرف کرتے اور اس پر آشوب وقت میں مختلف تنظیمیں ایک پلیٹ فارم پر آتیں اور مشترکہ طور پر قوم کی رہنمائی کرتیں!