اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہونے کے ساتھ ساتھ دین فطرت بھی ہے جو ان تمام احوال و تغیرات پر نظر رکھتا ہے جن کا تعلق انسان اور کائنات کے باطنی اور خارجی وجود کے ظہور سے ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اسلام نے یونانی فلسفے کے گرداب میں بھٹکنے والی انسانیت کو نور علم سے منور کرتے ہوئے جدید سائنس کی بنیادیں فراہم کیں۔مذہب اسلام میں تعلیم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ پر سب سے پہلی وحی میں جو آیت نازل ہوئی اس میں تعلیم کا ہی ذکر ہے۔ ’’پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے تمہیں پیدا کیا۔ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد وعورت پر فرض ہے۔
سائنس و ٹکنالوجی سے مسلم امت کا تعلق کافی قدیم ہے ، یہ اتنا ہی پرانا تعلق ہے جتنی اس امت کی تاریخ۔ ابتداء سے ہی اس امت نے جہاں فقہ، حدیث ، قرآن کے ماہرین تیار کیے ہیں وہیں طب، طبیعات، جیومیٹری الجبرائ، فلکیات، کیمیا جیسے سائنسی علوم کے بے حساب اعلیٰ پائے کے ماہرین بھی پیدا کیے۔ اندلس جسے آج اسپین کہا جاتا ہے کسی دور میں مسلم تہذیب کا ایک اہم مرکز تھا اور ساتھ ہی اسے تقریباً ہر علم کے میدان میں یورپ کا استاد بھی مانا جاتا تھا۔
اسلام کے غلبے کے بعد سے ہی تعلیم کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ ان کی ایک عالمی تاریخ رہی ہے ان کے استفادہ کرکے ہی دوسری قوموں نے عروج حاصل کی۔مارکوئس کے الفاط میں:- ’’یہ مسلمانوں کاہی علم تھا، مسلمانوں کاہی فن تھا اور مسلمانوں کا ہی ادب تھا کہ جس کا یورپ بڑی حد تک مقروض ہے قرون وسطی کی تاریکی سے نجات حاصل کرنے میں‘‘۔ اہل یورپ کا دعویٰ ہے کہ سائنس کی تمام تر ترقی میں صرف ان کا حصہ ہے مگر اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ تجرباتی سائنس کی بنیاد مسلمانوں نے ہی رکھی ہے اور اس کا اعتراف آج کی ترقی یافتہ دنیا نے بھی کیاہے۔ اس ضمن میں ایک انگریز مصنف اپنی کتاب ’’میکنگ آف ہیومینٹی‘‘ میں لکھتا ہے: "مسلمان عربوں نے سائنس کے شعبہ میں جو کردار داا کیا وہ حیرت انگیز دریافتوں یا انقلابی نظریات تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ آج کی ترقی یافتہ سائنس ان کی مرہون منت ہے‘‘۔
ہندوستان کی آزادی کے بعد یہ کہا جاتا ہے کہ بالعموم مسلمانوں کی معاشی، سیاسی، تہذیبی، سماجی اورعلمی و سائنسی ترقی کا سلسلہ تھم گیا ہے۔ مسلمانو ں میں کوئی قابل ذکر افراد پیدا نہیں ہوا جنھوں نے اپنے اپنے شعبہ ہائے حیات میں کارہائے نمایاں انجام دیے ہوں۔ اگرچہ یہ بات سچ ہے کہ تقسیم ہند کے بدولت مسلمانوں کے پڑھے لکھے اور ذی شعور طبقے کا ایک بڑا حصہ سرحد کے دوسرے پار سدھار گئے تھے جس نے اس قوم کو ہندوستا ن میں ایک بڑا دھکا پہنچایا وہیں یہ بات بھی درست ہے کہ مسلمانوں نے ان نامساعد حالات میں بھی اپنے قابلیتو ں اور ذہانتوں کا لوہا منوایا ہے۔ یہ کہنا کہ ان میں کوئی قابل ذکر افراد پیدا نہیں ہوا یہ کہنا مناسب نہیں ہے۔
ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام کا تعلق ہندوستان کے میزائل پروگرامس سے ہوگیا۔ ہندوستان کے سبھی میزائل پروگرامس میں انھوں نے ایک اہم رول ادا کیا۔ ایک غریب گھرانے سے پل کر بڑھنے والے اے پی جے عبدالکلام کی خدمات کے عوض انھیں ہندوستان کے اعلیٰ ترین اعزازات پدم وبھوشن اور بعدازاں بھارت رتن سے نوازا گیا۔ڈاکٹر سید ظہور قاسم کو ہندوستان کے انٹارٹیکا مشن کے لیے جانا جاتا ہے۔ 80کی دہائی میں ڈاکٹرقاسم نے ہندوستان کے اس طرح کے کئی مشنس کی قیادت کی۔ وہ ہندوستان کے 1981 انٹارٹیکا مشن کا حصہ تھے۔ پی وی نرسمہارائو کے دور میں آپ ہندوستانی پلاننگ کمیشن کے ممبر رہے۔ 89تا 1991کے درمیان آپ نے ملک کی مشہور یونیو رسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلر کے ذمہ داری بھی ادا کی۔ علم سمکیات (Fisheries) ، ماحولیا ت اور Mari Cultureمیں آپ کی کافی خدمات رہیں آپ کی ان خدمات کے لیے ہندوستانی حکومت نے آپ کو اعلیٰ ترین قومی اعزازات پدم بھوشن اور پدم شری سے نوازا۔ انڈین سائنس کانگریس نے 2008میںآپ کو لائف ٹائم اچیومینٹ ایوارڈ سے نوازا۔ڈاکٹر سالم علی ہندوستان کے برڈ مین (Bird Man of India)کے لقب سے جاننے والے سالم معیزالدین علی ماہر طیوریات تھے جنھوں نے ہندوستان میں اپنی طرز کا پہلا پرندوں کا سروے کروایا اور پرندوں کے موضوع پر کئی کتابیں تصنیف کیں۔ Bharatpur Bird Sanctuary نیزSilent Valley National Park کے قیا م و تحفظ میں ان کا رول کافی اہم رہا۔ کئی پرندے اور پرندوں پر کام کرنے والے کچھ اداروں کو آپ کا نام دیا گیا ہے۔سالم علی کئی سائنسی اداروں کی ترقی اور مستحکم کرنے کے لیے بھی سرگرم رہے۔ ان کی خدمات کے لیے کئی اداروں اور یونیورسٹیزنے انھیں اعزازات اور ڈگریوں سے نوازا۔ ہندوستانی حکومت نے انھیں 1958میں پدم بھوشن اور 1976میں پدم وبھوشن سے نوازا۔ 1985میںو وہ راجیہ سبھا کے لیے بھی نامزد کیے گئے۔
ڈاکٹر عبید صدیقی ہندوستان کے مایہ ناز سائنسداں تھے۔وہ نیورو بائیلوجی اور جینیٹکس کے ماہر تھے۔ جنھوں نے ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف فنڈامنٹل ریسرچ، نشنل سینٹر فار بائیلوجیکل سائنس کے قیا م میں اہم کردار ادا کیا۔ انھوں نے پی ایچ ڈیUniversity of Pennsylvania سے کیا۔ اپنے ریسرچ کے دوران انھوں نے کافی اہم تحقیقاتی کام انجام دیا۔ہومی بھابھا کی دعوت پر 1962میں انھوں نے TIFRممبئی میں مولیکیولر بائیلوجی یونٹ (Molecular Biology)قائم کیا۔ 1980کی دہائی میں ڈاکٹر صدیقی نے ذائقہ پر اپنا تحقیقی کام کیا جس نے جدید سائنس کو یہ سمجھنے میں مدد دی کہ ذائقہ اور سونگھنے کی حسیات دماغ میں کس طرح پہنچتی ہیں اور دماغ انھیں کس طرح سمجھ پاتا ہے۔ انھیں اپنے کام کے لیے کئی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ہندوستانی حکومت نے بھی انھیں پدم وبھوشن اور پدم بھوشن سے نوازا۔ پروفیسر ای اے صدیق ہندوستان کے مایہ ناز زرعی سائنس داں ہیں جنھوں نے اپنے کام کے ذریعے اعلیٰ معیار کی چاول کی کئی نئی اقسام کی پیداوار میںمدد دی۔ ہندوستانی حکومت نے انھیں ان کے کام کے لیے 2011میں پدم شری سے نوازا۔ ان کی تحقیق کا اصل میدان جینیٹک ریسرچ رہا جس کے ذریعے انھوں نے چاول کی کئی نئی اقسام ایجاد کی گئی۔ پوسا باسمتی 1، پوسا 2-21، پوسا 33، پوسا 4 اور پوسا 834جینے اقسام آپ کے نام معنون کی جاتی ہیں۔ ڈاکٹرقدسیہ تحسین علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں زولوجی کی پروفیسر ہیں۔ آپ ہندوستان کی دو سائنس اکیڈمی سے وابستہ رہے ہیں۔ Nematology کے میدان میں ان کی خدمات کے لیے انھیں ONTA (Organization Nematologists of Tropical America) کی جانب سے 2005میں خصوصی اعزاز سے نوازا گیا۔ اس اعزاز کو حاصل کرنے والی وہ ایشیا سے پہلی خاتون ہیں۔ Taxonomy, Biodiversity جیسے موضوعات آپ کے تحقیق کا مید ان رہے ہیں۔ Nematodesکی کئی نئی اقسام اور ان کی تفصیلات پر بھی آپ نے کافی کام کیا ہے۔ڈاکٹر شاہد جمیل مایہ ناز سائنسداں ہیں۔ آپ Hepatites Eوائرس پر اپنے ریسرچ کے لیے جانے جاتے ہیں۔ 2000میں انھیں ہندوستان کے اعلیٰ ترین سائنسی ایوارڈ شانتی سوروپ بھٹناگر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ وائرس پر آپ کی تحقیقا ت کی ابتدا آپ کے قیام امریکہ کے دوران ہوئی جہاں انھوں نے Hepatities Bوائرس پر کام کیا۔ اس کے بعد انھوں نے Hepatities Eاور HIVوائرس پر تحقیق کی۔
ڈاکٹر احتشام حسنین ملک کے جانے مانے بائیلوجیکل سائنس داں ہیں جو بائیوٹیک سے مربوط کئی اداروں سے جڑے ہیں اور ساتھ ہی ملک کی کئی ریاستو ں میں سائنسی مشیر کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ حکومت ہند نے آپ کو بائیوٹیک کے میدان میں آپ کی خدمات کے لیے پدم شری سے نواز ا۔اسی کے ساتھ جرمنی نے اپنے اعلیٰ ترین شہری اعزاز Order of Merit (ہندوستان کے بھارت رتن کے مماثل) سے بھی آپ کو نوازا۔ اس اعزاز کو حاصل کرنے والے آپ واحد ہندوستانی ہیں۔ ایک سائنس داں کے علاوہ آپ کی پہچان پالیسی ساز اور ایک قابل منتظم (ایڈمنسٹریٹر) کے طور پر بھی جانی جاتی ہے۔ڈاکٹر شمیم جیراجپوری ہندوستان کے ایک نمایاں با ئیلوجیکل سائنس داں ہیں جو nematologyکے میدان میں اپنی تحقیق اور کام کے لیے جانے جاتے ہیں۔ حکومت ہند کی وزارت ماحولیا ت کی جانب سے شروع کردہ Janki Ammal National Award for Taxonomyسب سے پہلے آپ کو عطا کیا گیا۔ ملک کے کئی سائنسی اداروں کی قیادت کا اعزاز بھی آپ کو حاصل ہوا ہے۔ آپ کی تحقیقات کا اصل میدان درختوں اور مٹی کے Nematodes رہے ہیں۔ آفرین علام بایومیڈیکل کمپنی SinonTherapeuties کی بانی اور سی ای او ہیں۔ انہوں نے میڈیکل میں باضابطہ نہ کوئی ڈگری حاصل کی اور نہ ہی وہ پی ایچ ڈی ہیں، علام کی توجہ کا مرکز کاربن ڈائس رہے ہیں۔ کاربن ڈائس کافی چھوٹے ذرات (NanoParticles)کو کہا جاتا ہے جو ادویات اور علاج کے دیگر ذرائع کو لے جانے والے ذرائع کا کام انجام دیتے ہیں۔ آئی آئی ٹی میں اپنے ریسرچ کو انھوں نے آگے بڑھایا۔ اور 2014-15کے آس پاس انھوں نے اپنے کمپنی کی بنیاد ڈالی۔ڈاکٹرسید محمود نقوی جیو لوجی کے مشہور سائنس داں ہیں۔ ہندوستان میں اس موضوع پر مہارت رکھنے والے چند لوگوں میں مانے جاتے تھے۔ 1960کے بعد انھوں نے محنت کے ذریعے تمام وسائل سے مالامال جیو کمیسٹری لیبویلٹریز کے قیام کو ممکن بنایا۔انیس الرحمن کو کمپیوٹرنگ اپلی کیشنس میں ان کی خدمات کے لیے جانا جاتا ہے۔ آج بھی کمپیوٹرز میں لکھے جانے والے کئی Codesکی بنیاد ان کے ذریعے دیے گئے۔ ڈاکٹر انیس الرحمن کو MolecularDynamics کا باوا آدم کہا جاتا ہے جو کمپیوٹر سے تعلق رکھنے والی فزکس کی ایک مخصوص شاخ ہے۔ American Physical Societyکی جانب سے فزکس میں قابل ذکر کارنامے کے لیے ہر سال انیس الرحمن ایوارڈ دیا جاتا ہے۔
آزادی کے بعد ہندوستان میں سائنس اور ٹکنالوجی کو جو سمت اور رفتار ملی اس کا سہرا بلاشبہ پنڈت جواہر لعل نہرو اور مولانا ابوالکلام آزاد کی قیادت اور وزارت کے سرجاتا ہے۔ ہندوستان میں نمبر ایک سائنس داں کی حیثیت سے جامعہ ملیہ اسلامی میں کیمسٹر ی کے پروفیسر عمران علی کا انتخاب ہوا ہے ۔ اسی طرح پوری دنیا کے دو فیصد سائنس دانوں میںا سے ایک حیثیت سے جامعہ ہمدرد نئی دہلی کے پرو وائس چانسلر ڈاکٹر احمد کمال بھی ہیں۔ڈاکٹر یوسف خواجہ حمید پر ہر ہندوستانی کو فخر ہوگا کیوں کہ کیمبرج یونیورسٹی نے اپنی کیمسٹری ڈپارٹمنٹ کا نام ان کے نام سے رکھا ہے۔ ڈاکٹر یوسف خواجہ حمید ہندوستان کی پوری دنیامیں ایلوپتھک دوا ساز کمپنی سپلا (CIPLA) کے مالکوں میں سے ہیں۔ ڈاکٹر یوسف خواجہ حمید اپنے زمانے کے نامور سائنس داں جرمنی سے کیمسٹر ی میں پی ایچ ڈی ہیں۔ اسی طرح فیشیریز (Fisheries) کے میدان میں جس شخص کو فادر آف انڈین فیشیریز کہا جاتا ہے وہ کیرالہ کے ڈاکٹر کے کْنہا علی کا نام ہے۔ جس آدمی نے سمندری نمکیات پر غیر معمولی کام کیا اور اپنی پہچان بنائی وہ مرزا محمد تقی خاں تھے جنہیں علمی اور سائنسی حلقوں میں ایم ایم تقی خاں کے نام سے جانا جاتا ہے۔ علم نباتات یعنی باٹنی میں لکھنؤ کے ڈاکٹر اختر حسین جو جامعہ ہمدرد کے پہلے وائس چانسلر بھی بنے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسررعایت خاں کا نام خاصہ اہم ہے۔ غیر نامیاتی علم کیمیا (InorganicChemistry ) میں پروفیسر وحیدالدین ملک نے علی گڑھ مسلم یونیو رسٹی اور ریجنل انجینئرنگ کالج رڑکی میں اپنے نام کو کام سے اونچا کیا۔ پروفیسر وحید الدین ملک کے علمی مرتبے، تحقیقی مہارت کی وجہ سے جھانسی یونیورسٹی، کشمیر یونیورسٹی سری نگر اور الہ آباد یونیورسٹی کا یکے بعد دیگرے وائس چانسلر بنایا گیا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے میڈیکل کالج میں مائیکرو بایولوجی میں پروفیسر سہیل احمد اور بایو کیمسٹر ی میں پروفیسر احمد صلاح الدین نے انتہائی خاموشی سے جو اعلیٰ و عرفا تحقیقی کام کیے وہ آج بھی جواہر لعل نہرو میڈیکل کالج کے لیے وجہ افتخار ہیں۔امروہہ جو اپنی ادبی زرخیزی کے لیے ساری دنیا میں جانا جاتا ہے اور جو رثائی ادب کا لکھنو کے بعد بڑا مرکز رہا ہے اس نے بھی ہمیں دو اہم سائنس داں دیے۔ جن میں ایک سید محمود نقوی مرحوم تھے جو علم طبقات الارض (Geo-Chemistry) کے غیرمعمولی ماہرین میں تھے۔ علی گڑھ کے تعلیم یافتہ تھے لیکن تقریباً چالیس سال تک حیدرآباد میں نیشنل جیو فیزیکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سے جڑے رہے۔ ڈاکٹر نقوی کو مختلف اعزازات کے ساتھ 1983میں علم طبقات الارض کے مید ان میں شانتی سروپ بھٹناگر ایوراڈ سے سرفراز کیا گیا۔ اسی طرح ڈاکٹر سید وجیہ احمد نقوی کا نام سمندری آبی کیمسٹر ی، بایو جیو کیمسٹر ی میں خاصہ اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے ہندوستان اور جرمنی کے مشترکہ تحقیقی پروجیکٹ میں چیف انڈین سائنٹسٹ کے طور پر غیرمعمولی خدمات انجام دیں۔ ڈاکٹر وجیہ نقوی کو بھی تمام علمی اعزازات کے ساتھ 1996میں شانتی سروپ بھٹناگر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ وہ سائنس کے متعلق بے شمار انجمنوں اور بین الاقوامی تحقیقیہ پروجیکٹس کا حصہ رہے ہیں۔
ان سب کے باوجود آج مسلمان سائنسی علوم میں پیچھے رہنے کے باعث مادی اور معاشی ترقی میں بہت پسماند ہ ہوگئے ہیں۔آج زمانے میں جتنی بھی مصنوعات اشیاء خواہ وہ زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتی ہوں ان کے ایجادات اور دریافت میں کسی مسلمان کا کوئی عمل دخل اوراعانت شامل نہیں ہے۔ آج دنیا میں مسلمانوں کے زیر تصرف 57ممالک ہیں جہاں مسلمانوں کی اپنی حکومت ہے۔ دنیا میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً ایک ارب ساٹھ کروڑ پر مشتمل ہے لیکن یہ ہمارے لیے بڑی شرمندگی کی بات ہے کہ اب تک صرف تین مسلمانوں نے نوبل پرائز حاصل کیا۔ لیکن ان سب کے باوجود جب ان کا ماضی روشن رہا ہے تو امید ہے کہ مستقبل بھی تابناک رہے گا:
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی