اگر سماج میں موجودہ خلفشار اور منافرت کی وجوہات جاننا چاہتے ہیں تو سنسنی خیز سرخیاں سننے اور پڑھنے کی ذہنیت کو ترک کرنا ہوگا اور زہر آلود بیانیوں پر جذباتی رد عمل سے احتراز کرنا ہوگا۔
اگر آپ میری اس راے سے متفق ہیں تو مندرجہ ذیل تحریر پڑھیں ورنہ نہیں ۔
گیان واپی مسجد اصولاً عبادت گاہ ایکٹ ١٩٩١ کی رو سے ناقابل بحث ہے ۔ اس ایکٹ کے تحت جس عبادت گاہ کی جو حیثیت ١٩٤٧ میں تھی وہ اسی طرح برقرار رہے گی مزید اس کے خلاف کسی عدالت میں عرضی داخل نہیں کی جائے گی۔
ہندوؤں نے گیان واپی مسجد بنارس اور عیدگاہ متھرا کے خلاف عدالت میں عرضی داخل کی۔ ہمیں ان عرضیوں کی عدم سماعت کے لئے عدالت عالیہ سے کہنا چاہیے ، حکومت کو اس قانون کی یاددہانی کرانی چاہیے، پارلیمنٹ میں اس کے خلاف سوال کرانا چاہیے اور صدر جمہوریہ سے کہنا چاہیے کہ یہ مخصوص کمیونٹی کے ساتھ زیادتی ہے اسے روکنے کا حکم صادر کریں ۔
لیکن افسوس مسلمان ان کے بچھائے گئے جال میں پھنس گئے اور عدالت کا فیصلہ آنے سے قبل ہی عدالت سے باہر بحث و تکرار اور ٹی وی ڈیبیٹ میں حصہ لینے لگے اور ٹی وی ڈیبیٹ کو اتنی اہمیت دینے لگے گویا فیصلہ عدالت میں نہیں ٹی وی اسٹوڈیوز میں ہونا ہے۔
اسی ٹی وی ڈیبیٹ کے لاحاصل پروگرام میں مسلم فریق کو مشتعل کرنے کے لئے آقائے نامدار محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کی گئی ۔
کاش ہمارے نام نہاد مسلم دھرم گرو چند جملوں میں اپنی بات کہہ کر ٹی وی ڈیبیٹ میں حصہ لینے سے انکار کر دیتے کہ یہ موضوع عدالت سے متعلق ہے ، عدالت میں اولا اس کی سماعت نہیں ہونی چاہیے تھی پھر بھی ہو رہی ہے تو عدالت سے باہر اس موضوع پر بحث کر کے اور رائے ظاہر کر کے اشتعال انگیزی سے ہم بچنا چاہتے ہیں۔
نہ وہ ٹی وی ڈیبیٹ میں جاتے اور نہ کسی کو اہانت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کا موقع ملتا۔
خبروں کے مطابق اہانت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقام لینے کے لئے دو مسلم نوجوانوں نے اودے پور میں ایک درزی کنہیا لال کی گردن اتار دی۔
جب کسی بھی عالم دین، امام ، خطیب، مذہبی لیڈر یا مذہبی جماعت نے انتقام کے نام پر ایسی کسی حرکت کی بات نہیں کی ہے ، اس لئے اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا ہے، تو پھر یہ دونوں نوجوان کون ہیں کس کی بات سے متاثر ہو کر ایسی گھناؤنی حرکت کی ہے ؟
علماء دین اور ائمہ مساجد نے ایسی کوئی بات نہیں کی مگر ان دونوں نے ایسی حرکت کی ، یہ بہت ممکن ہے کہ وہ ٹی وی ڈیبیٹ کی زہر افشانیوں سے مشتعل ہوئے ہوں۔ اس بہیمانہ قتل کا محرک کچھ بھی ہو اسے کسی بھی طرح جائز نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے۔
کسی مجرم کو قانون کے مطابق جرم کی سزا دینے کا حق ریاست کا ہے نہ کہ کسی فرد کا ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک عزیز کے مفاد میں اکثریتی طبقہ کے لوگ ہمارے ساتھ آئیں اور مل کر پر امن بقائے باہم کو یقینی بنائیں۔
ضرورت اس کی ہے کہ حکومت ہر چینل کو ہدایات دے کہ وہ مذہبی موضوعات پر کسی قسم کا ڈیبیٹ اور اسٹوری نہ کرے، مذہب کی بنیاد پر اس ملک کے شہریوں کو بانٹنے کی کوشش نہ کرے۔