لکھنؤ:بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی)کی سربراہ مایاوتی نے اتر پردیش کے نظم ونسق پرسخت حملہ کیا ہے اورمرکزی حکومت سے ریاست میں قیادت تبدیل کرنے یا صدرراج کامطالبہ کیا ہے۔ریاستی حکومت نے یہ کہتے ہوئے جوابی حملہ کیاہے کہ مایاوتی کے دورمیں یوپی میں ایک ہزار سے زیادہ دلت مارے گئے تھے اور آج وہ حکومت پر انگلی اٹھا رہی ہیں۔ مایاوتی نے آج صحافیوں کوبتایا کہ خواتین کے خلاف جرائم کے پیش نظرجوماحول پیداہواہے ، مرکزی حکومت کویوگی آدتیہ ناتھ کی جگہ ریاست میں ایک قابل شخص کو وزیر اعلی بنانا چاہیے اوراگریہ ممکن نہیں ہے تو صدرراج نافذکیاجائے۔ بی ایس پی سپریمونے یوپی کے ہاتھرس اور بلرام پور میں مبینہ اجتماعی زیادتی کے بعد دو نوجوان خواتین کی ہلاکتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ واقعات دہلی میں نربھیاواقعے کی یاد دلانے والے ہیں۔ مایاوتی نے کہا کہ میں یوگی آدتیہ ناتھ سے یہ کہناچاہتی ہوں کہ آپ عورت کے رحم سے پیدا ہوئے ہیں اور آپ کو دوسروں کی بہن بیٹیوں کو بھی اپنی بہن بیٹی سمجھناچاہیے اوراگرآپ ان کی حفاظت کرنے سے قاصر ہیں توآپ کوخود استعفیٰ دے دیناچاہیے
مرکزی حکومت
لیبر کوڈ پر سنگھ حکومت کے خلاف،بھارتیہ مزدور سنگھ نے کہا:جلدبازی میں کیوں منظور کرایا بل ؟
نئی دہلی:مرکزی حکومت کے لیبر ریفارم ایجنڈے کو لے کر سنگھ پریوار میں اختلافات ہیں کیونکہ آر ایس ایس سے منسلک بھارتیہ مزدور یونین(بی ایم ایس) نے لوک سبھا سے منظور تین لیبر کوڈ بلوں کی مخالفت کی ہے۔ بی ایم ایس کے زونل سکریٹری پون کمار نے کہاکہ جس طرح سے حکومت نے لیبر کوڈ کے تین بل منظور کیے ہیں، ہم ان کی مخالفت کرتے ہیں۔ حکومت نے لیبر کوڈ بل جلدی میں منظور کیاہے، جو ٹھیک نہیں ہے۔ اس پر تفصیل سے بات نہیں ہوسکی۔ حکومت نے ہمارے اہم مطالبات کو قبول نہیں کیا ہے۔ ہم نے مطالبہ کیا تھا کہ سوشل سکیورٹی کوڈ کے تحت مزدوروںکےسماجی تحفظ کے نظام کو بہتر کرنا چاہیے یعنی ملک کے ہر مزدور کو سوشل سکیورٹی سسٹم کا فائدہ ملنا چاہئے، لیکن حکومت نے ایسا نہیں کیا۔ان کا مزید کہنا ہے کہ ہم نے حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیا تھا کہ ضابطہ برائے پیشہ ورانہ حفاظت سے متعلق تحفظات کو بھی مزدوروںکے لئے آفاقی بنایا جائے لیکن منظور شدہ بل میں سکیورٹی صرف ان مزدوروں کو دی جائے گی جو ان اداروں میں کام کرتے ہیں، جہاں 10 یا اس سے زیادہ مزدور کام کرتے ہیں۔پون کمار نے مزید کہاکہ بھارتیہ مزدور یونین حکومت کے اس اقدام کی مخالفت کرتی ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ سوشل سکیورٹی کوڈ بل میں ای ایس آئی سی اورای پی ای او یعنی ملک کے ہر مزدورکو پروویڈنٹ فنڈ سے متعلق سہولیات فراہم کی جائیں۔ حکومت نے اس مطالبہ کو ہمارے بل میں شامل نہیں کیا ہے۔ بھارتیہ مزدور یونین کی 2 سے 4 اکتوبر کے درمیان 3 دن کی ایک ورچوئل کانفرنس ہوگی، جس میں 3000 مندوبین شرکت کریں گے۔ اس میٹنگ میں ہم اس مسئلے سے متعلق اپنی آئندہ کی حکمت عملی طے کریں گے۔
قوانین واپس نہیں کیے گئے تو دہلی کاسفر ہوگا،کسانوں کامرکزی حکومت کو انتباہ
پٹیالہ:پٹیالہ شہر کی گلیوں میںآس پاس کے درجنوں دیہاتوں سے آنے والے کسانوں کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے۔ شہر کے منی سیکریٹریٹ کے قریب ان کسانوں کا اجتماع بہت بڑا ہوتا جارہا ہے اورتقریباََ دوکلومیٹر سڑک کسانوں سے بھری ہوئی بسوں اورٹریکٹروں سے بھری ہوئی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم نے آج احتجاج نہیں کیا تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔اگران قوانین پر عمل درآمدکیاگیاتوپنجاب کے کسان بربادہوجائیں گے۔کسانوں نے کہا کہ ہم ابھی اپنے گھروں سے باہر آئے ہیں اور دہلی کانپ رہی ہے ، اگر یہ قوانین واپس نہیں کیے گئے تو دہلی کا سفر کریں گے۔ ان میں ہر عمر اور ہر طبقے کے کسان شامل ہیں۔کسانوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اب ہزاروں کسان بسوں کی چھت پر چڑھ کر اپنے قائدین کی باتیں سن رہے ہیں۔بھارتیہ کسان یونین کے پٹیالہ ضلعی صدر منجیت سنگھ دیال نے یہ کہتے ہوئے سب کی تعریف کی کہ یہ قوانین کسانوں کی موت کے وارنٹ کے مترادف ہیں۔ اس کے بارے میں ان کاکہناہے کہ اگرپنجاب کاکسان پورے ملک میں سب سے زیادہ خوشحال ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ یہاں کےمنڈی سسٹم اور ایم ایس پی کا ملاپ ہے۔
نئی دہلی۔ ہندوستان کے عہد ِوسطی کی تاریخ، تہذیب اور ثقافت کا ساراسرمایہ فارسی زبان وادب میں محفوظ ہے۔ آٹھ سو سالہ تاریخ پر محیط عہدوسطیٰ میں فارسی زبان وادب کے حوالے سے مختلف النوع کتابیں اردومیں لکھی گئی ہیں۔ اس کے باوجود فارسی زبان وادب کی مربوط تاریخ کا فقدان ہے۔اس کمی کو دیکھتے ہوئے قومی اردو کونسل نے ایک مبسوط اور معتبر تاریخ کی ضرورت محسوس کی ہے تاکہ فارسی اورعہدِوسطیٰ کے سرمائے کونئی نسل تک پہنچایاجاسکے۔یہ باتیں قومی اردو کونسل کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے کونسل کے صدردفترمیں منعقدہ فارسی زبان وادب کے پینل کی میٹنگ میں کہیں۔انھوں نے کہا کہ اردو میں صلاحیت پیدا کرنے کے لیے فارسی کا جاننا بہت ضروری ہے۔ بغیر فارسی کی افہام وتفہیم کے اردو زبان وادب پر عبور حاصل نہیں کیا جاسکتا۔انھوں نے کہا کہ اگرچہ یہ منصوبہ گزشتہ کئی سالوں سے زیرِ غور رہا ہے، تاہم اب اسے حتمی طورپر آئندہ چھ ماہ میں مکمل کرلیا جائے گا۔انھوں نے کہا کہ فارسی زبان وادب کی تاریخ کو چار ابواب میں منقسم کیا گیا ہے اورہر باب کے کئی ذیلی ابواب ہوں گے۔ اس کام کی تکمیل کے لیے ماہرینِ فارسی کی مدد لی جارہی ہے۔
اس موقع پر سید پروفیسر حسن عباس نے کہا کہ فارسی زبان ادب کی تاریخ کے منظر عام پر آنے کے بعد واقعی قومی اردو کونسل کی تاریخ میں ایک نئے روشن باب کا اضافہ ہوگااورنئی نسل ملک کے مختلف حصوں میں بکھرے پڑے فارسی زبان وادب سے متعلق علوم وفنون سے آشنا ہوگی۔پروفیسر ایچ ایس قاسمی نے کہاکہ ہم قومی اردو کونسل، بالخصوص جواں سال ڈائریکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد کے ممنون ہیں جو ہندوستان کی گزشتہ سات سوسالہ تاریخ کو قلم بند کرنے کے لیے کوشاں ہیں جو یقینا ایک غیر معمولی کام ہے۔ پینل کی صدارت پروفیسر آزرمی دخت صفوی نے کہا کہ یہ ایک انتہائی اہم موضوع ہے جس پر کونسل نے کام کرنے کا ارادہ کیا ہے۔عہد وسطیٰ کے ہندوستان کے مختلف خطوں میں فارسی زبان وادب کا غلبہ تھا اور شعرا وادبا نے اپنی جو تخلیقات پیش کی ہیں، وہ اس عہد کی ترجمانی کرتی ہیں جسے ایک مربوط اور مبسوط شکل میں لانے کی بات ہورہی ہے۔پینل میں پروفیسر عراق رضا زیدی،پروفیسر عبدالحلیم کے علاوہ کونسل کے اکیڈمک اسسٹنٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر شمع کوثر یزدانی، ڈاکٹر فیروز عالم اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر،جناب ساجد الحق کے ساتھ ڈاکٹر شاہد اختر نے شرکت کی۔