آغا شورش کاشمیری نے اپنی مشہور خود نوشت سوانح’’بوے گل،نالۂ دل،دودِچراغِ محفل‘‘میں ۱۹۳۶ میں گاندھی جی سے ملاقات کا احوال لکھا ہے۔یہ وہ دور تھا جب ہندوستانی سیاست تیزی سے کروٹ بدل رہی تھی اور فرقہ وارانہ انتہا پسندی کا عفریت اپنے دہانے کھول رہا تھا۔شورش نے گاندھی سے ملاقات کے دوران کئی سوالات کیے،جن کے جواب گاندھی جی نے بڑے انشراح و اعتماد کے ساتھ دیا،جو ان کا انداز تھا۔ان سوالوں میں سے ایک سوال مسلم لیڈرشپ کے بارے میں تھا،انھوں نے پوچھا:
’’ مسلمانوں کی ناکامی کا سبب کیاہے؟‘‘۔
گاندھی نے جواب دیا:
’’میں سمجھتاہوں کہ ان میں کوئی شخص بھی فقیری کرنا نہیں چاہتا؛بلکہ فقیری سے اٹھ کر شہنشاہی کر رہا ہے۔قومی خدمت صرف فقیری کرنے سے ہوتی ہے‘‘۔
شورش نے گاندھی کے اس جواب کا خاص پس منظر بیان کیاہے؛لیکن اگر ہم پچھلے سو ڈیڑھ سو سال کی مسلم سیاست ،قیادت پر نظر ڈالیں تو گاندھی کی یہ بات کتنی سچی ہے؛بلکہ اگر آپ خالی الذہن ہوکر تحریکِ آزادی کے دوران صرف مسلمانوں کے پلیٹ فارم سے بننے والی سیاسی پارٹیوں کا سرسری جائزہ لیں،تو گاندھی کی اس بات کی سچائی اور بھی روشن ہوکر سامنے آئے گی ۔آزادی سے پہلے کانگریس اور مسلم لیگ کے علاوہ درجنوں خالص مسلم سیاسی جماعتیں تھیں اور ان میں سے ہر ایک کا دعویٰ تمام مسلمانوں کی نمایندگی کا تھا۔خود مسلم لیگ جس نے مسلمانوں کے تحفظ و خود مختاری کے لیے پاکستان بنوایا،اس سے ٹوٹ کر اب تک وہاں لگ بھگ دودرجن سیاسی جماعتیں بن چکی ہیں۔ آزاد ہندوستان میں بھی ’’مسلم قیادت و سیاست‘‘کے کئی طوفان گزر چکے ہیں،اگر ان کی تاریخ دیکھ لی جائے ،تو اس سے بھی گاندھی کے ’’قومی خدمت‘‘اور ’’فقیری‘‘کے معنی سمجھے جاسکتے ہیں۔
حالیہ پانچ چھ سالوں کے دوران حکومت کی متعصبانہ پالیسیوں اور مبینہ سیکولر جماعتوں کی مسلمانوں سے کنارہ کشی کی وجہ سے جنوبی ہند کے سیاست داں اور ممبر پارلیمنٹ اسدالدین اویسی کو میدان خالی ملا اور انھوں نے مسلم مسائل پر کھل کر بولنا شروع کیا،جس کے نتیجے میں مودی حکومت کے پہلے دور کے شروع ہوتے ہی وہ قومی سطح کے مسلم لیڈر بن گئے اور پھر بتدریج مسلمانوں کے بہت بڑے طبقے میں ایک بار پھر ’’اپنی قیادت‘‘ اور ’’اپنی سیاست‘‘ کو فروغ دینے کا جذبہ پیدا ہوا ہے،مگر حیرت ؛بلکہ المیہ ہے کہ ایسا ہر شخص اِس چکر میں ہے کہ اسی کو قائدِاعظم مان لیا جائے اور باقی سارے لوگ اس کی جھنڈا برداری کرتے نظر آئیں۔سوشل میڈیا پر مفکری کی باڑھ آئی ہوئی ہے اور چوک چوراہوں پر سیاسی پھکیت اپنی ہفوات کو اتنی خود اعتمادی سے پیش کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے قوم کی نجات و ترقی کا تیر بہ ہدف نسخہ بس اسی مہاپرش کے پاس ہے۔
بہار الیکشن کے موجودہ منظرنامے پر غور کیجیے تو جو پارٹیاں مسلمانوں کے زخموں کا مداوا کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں،خود ان کی سمتیں بھی مختلف ہیں،مثال کے طورپر مجلس کسی اور اتحاد میں شامل ہے،جبکہ ایس ڈی پی آئی کسی دوسرے اتحاد کا حصہ ہے،جو کہ من حیث المجموع بہار الیکشن کا چوتھا اتحاد ہے۔ پھر مجلس کا اتحاد بھی بی ایس پی اور اوپندر کشواہا کی پارٹی سے ہے،جن کا بھی کچھ پتا نہیں کہ کیا گل کھلائیں گے۔ مایاوتی کی تاریخ بھی پلٹی بازی کی ہے اور کشواہا تو خیر این ڈی اے کے ذریعے ہی قومی سیاست میں نمایاں ہوئے ہیں اور مرکزی وزیر بھی رہے ہیں۔اس اتحاد میں اور بھی پارٹیاں شامل ہیں،مگر مرکز میں یہی تینوں ہیں اور یہ اتحاد پورے بہار میں الیکشن لڑ رہاہے۔ایس ڈی پی آئی نے چندرشیکھر آزاد اور پپو یادو والے الائنس میں شمولیت کا فیصلہ کیا ہے اور یہ الائنس بھی پورے صوبے میں الیکشن لڑ رہا ہے۔ دوسری طرف ان سے ،خصوصاً مجلس سے وابستہ کارکنان کا ردِعمل عجیب و غریب ہے۔ عام طورپر وہ اپنا موقف معروضیت کے ساتھ رکھنے کی بجاے دوسروں پر تبرے بازی پر اتر آتے ہیں، جو سیاست کے علاوہ عام زندگی میں بھی حد درجہ مذموم ہے اور ایسی حرکتوں سے آپ کے انفرادی کیرکٹر کی ہی پول نہیں کھلتی،پوری جماعت کی اصل شبیہ سامنے آتی ہے۔
دوسری طرف کچھ لوگ جو سیاسی طبع آزمائی کے لیے مجلس سے وابستہ ہوگئے تھے اور اس امید میں تھے کہ الیکشن لڑنے اور’’اسلام کی خدمت کرنے‘‘کا موقع ملے گا،جب انھیں ’’کسی وجہ ‘‘سے ٹکٹ نہیں دیا گیا،تووہ ایک سے بڑھ کر ایک انکشاف کر رہے ہیں۔اب تک کئی لوگ سوشل میڈیا پر آکر یہ الزام لگا چکے ہیں کہ مجلس نے لیاقت کی بجاے پیسے کو ٹکٹ کا معیار بنایا ہوا ہے اور بہار کے صںدرِ مجلس سمیت ان کے بعض خاص معاونین پر بھی پیسے لے کر ٹکٹ دینے کے الزامات لگ رہے ہیں،حالاں کہ یہ بات تو سارا ملک جانتا ہے کہ دوایک پارٹیوں کے علاوہ تقریباً تمام سیاسی جماعتیں انتخابات میں کسی بھی امیدوار کو مفت میں ٹکٹ نہیں دیتیں ؛لیکن اس کو سیاسی اخلاقیات یا مجبوری یا کچھ بھی کہیے کہ ایسی باتیں بس نجی محفلوں میں ہوتی ہیں،قومی سطح پر یہ کبھی موضوعِ بحث نہیں رہا۔
اب ان الزام لگانے والوں کی باتیں درست ہیں یا نہیں،اس کی وضاحت تو پارٹی کے ذمے داران کریں گے۔خبریں تو ایسی بھی آرہی ہیں کہ بعض ناراض کارکنان کو مجلس نے ٹکٹ دینے کا فیصلہ کرلیا ہے، مگر اس پورے سلسلۂ واردات سے دوباتیں سمجھ میں آتی ہیں۔ایک تو یہ کہ جو لوگ ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے پریشان ہیں ،مجلس کی قیادت کو کوس رہے ہیں اور اس کا بھانڈا پھوڑنے کا دعویٰ کررہے ہیں،وہ کبھی بھی نہ مجلس کے تئیں مخلص رہے اور نہ اپنے اس دعوے میں کہ وہ مسلمانوں کے لیے فلاں فلاں تیر ماریں گے۔دوسری یہ کہ خود مجلس کو اُسی طرح کی ایک سیاسی پارٹی سمجھنا چاہیے،جیسی ملک کی دوسری بڑی چھوٹی پارٹیاں ہیں، جو موقع لگنے پر کسی سے بھی اتحاد کر سکتی ہے اور امیدواروں کے انتخاب میں اس کا معیار بھی وہی ہے،جو دوسری پارٹیوں کا ہے،باقی کہنے اور اپنے لوگوں کو Motivateکرنے کے لیے بے شمار باتیں ہوسکتی ہیں ۔اویسی بلا شبہ ایک قابل سیاست دان ہیں اور انھوں نے مسلمانوں سے متعلق مسائل پر کھل کر اپنے موقف کا اظہار کیا ہے، مگر ایسے اور بھی بہت سے لوگ ہیں اور ان میں سے کچھ تو غیر مسلم بھی ہیں۔تو آپ اپنی صوابدید کے مطابق کسی بھی جماعت سے وابستگی اختیار کر کیجیے اور خلوص کے ساتھ سماجی و سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیجیے ؛لیکن فکر و عمل میں اعتدال و وسطیت کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔نہ کسی کی حمایت میں اندھا ہوجانا چاہیے اور نہ مخالفت میں حد سے گزرنا چاہیے،دونوں صورتیں مضر ہیں اور ہر حال میں مضر ہیں۔ آپ مجلس کو بھی ملک کی دوسری سیاسی پارٹیوں کی طرح ایک سیاسی پارٹی مان کر چلیے اور اگر دل چاہے تو اس کے پلیٹ فارم سے کام کیجیے،ایسے میں اگر خدا نخواستہ پارٹی سے کبھی آپ کا’’موہ بھنگ‘‘بھی ہوا،تو زیادہ تکلیف نہیں ہوگی؛لیکن اگر کہیں یہ سوچ کر اس سے وابستگی اختیار کرلی کہ مجلس کے جیتتے ہی مسلمانوں کے سارے مسائل ہوا ہو جائیں گے اور اویسی ’’اردوانِ ہند‘‘ہیں ،پھر کسی موقعے پر پارٹی یا اس کے قائدین آپ کی امیدوں پر کھرے نہیں اترے،تو ایسے میں تکلیف شدید ہوگی؛بلکہ بہت شدید ہوگی۔
مدیر انتظامی قندیل
شعبۂ اردو نتیشورکالج،مظفرپور
حُسنِ ذات سے حُسن کائنات اور کربِ ذات سے کربِ کائنات کا سفر کیے بغیر تخلیقی شعور کا حصول ناممکن ہے۔ بات چاہے نثری ادب کی ہو یا شعری، ایک تخلیق کار اُسی وقت کامیاب ہو سکتا ہے جب وہ کائنات کے حسن کو، کائنات کے غم کوبلکہ یوں کہہ لیجیے کہ کائنات کو اس کی تمام جزئیات سمیت اپنے اندر ضم کرنے کی صلاحیت پیدا کر لے۔اس مقام تک پہنچنے کے لیے اپنی ذات کو آئینہ بنانا پڑتا ہے۔ ایک ایسا آئینہ جس کے سامنے بھلی بری ہر طرح کی شکلیں آتی ہوں اور وہ خاموشی سے ہر منظر کی گواہی دیتا ہو۔ اس کی گواہی میں چیخ تو ہو لیکن ہر کسی کو سنائی نہ دے، جھنجلاہٹ بھی ہو، لیکن ہر کسی کو دکھائی نہ دے۔تخلیق کا فن ہر لحظہ ’’ھل من مزید‘‘ کا متقاضی ہوتا ہے۔ اسی لیے ایک کامیاب تخلیق کار کبھی اپنی ذات سے مطمئن نظر نہیں آتا۔ وہ کبھی کائنات کے حُسن سے ’’شرابِ حسن‘‘ کشید کرتا ہے اور کبھی غمِ کائنات سے ’’شرابِ حزن و ملال۔ یہ شرابیں وقتی طور پر ایک تخلیق کار کو آسودہ کر سکتی ہیں لیکن جب وہ نشے کی کیفیت سے باہر آتا ہے تو پھر مختلف طرح کے نظارے اس کا تعاقب کرتے ہیں۔وہ ہر نظارے کو ایک نئی تخلیقی صورت دینے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ عمل متواترجاری رہتا ہے۔ اس پورے عمل میں تخلیق کار کن کن اذیتوں سے گزرتا ہے یہ وہی جانتا ہے۔ ماہرین فن کی نظر میں ایک اچھا تخلیق کار بننے کے لیے وسیع المطالعہ، وسیع المشاہدہ اور حساس ہونا ضروری ہے لیکن سچ پوچھیے تو ایک تخلیق کار کے تخلیقی شعور کی اساس ’’رنجیدگی‘‘ ہے۔ وہ اگر حُسن کی بات کر رہا ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ جو نظارے حسن سے خالی ہیں تخلیق کار ان نظاروں سے رنجیدہ ہے۔ موسم خزاں کی رنجش نہ ہو تو موسمِ بہار کا حسن بھلا کس کام کا؟ذات اور کائنات کی ’رنجش‘ سے ہی تخلیق کا فن وجود میں آتا ہے۔
اس طویل تمہیدی گفتگو کے بعد میں نوجوان افسانہ نگار محمد علیم اسماعیل کے تازہ افسانوی مجموعہ ’’ رنجش‘‘ سے آپ کو روبرو کروانا چاہتا ہوں۔ علیم اسماعیل کا نام اردو فکشن کی دنیا میں اب بہت زیادہ تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ ادبی حلقے میں ان کا نام اپنے تعارف کے لیے کافی ہے۔ بہت کم وقت میں انہوں نے فکشن کی دنیا میں اپنی ایک الگ پہچان بنائی ہے۔ علیم اسماعیل کے افسانوں کے موضوعات گرچہ بہت انوکھے نہیں ہیں لیکن ان کے افسانوں میں ہمیں امکانات کی ایک روشن دنیا نظر آتی ہے۔ اس کی وجہ وہی ہے جس کا ذکر میں نے اوپر کیا یعنی علیم اسماعیل کے افسانوں میں حسن ذات سے حسن کائنات اور کرب ذات سے کربِ کائنات کا سفر ملتا ہے۔’’رنجش‘‘ کا پہلا افسانہ ’’چھٹی‘‘ صد فی صد سچ پر مبنی ہے۔ یہاں افسانہ نگار کا کرب ’’چھٹی‘‘ کے بعد بھی ختم نہیں ہوتا بلکہ چھٹی کے ساتھ ہی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتا ہے۔ اس افسانہ کی قرأت قاری کو رنجیدہ کرتی ہے۔ ’’رنجش‘‘کا پہلا افسانہ ہی قاری کے دل میں افسانہ نگار کے تئیں ہمدردی کا بیچ بو دیتا ہے۔
’’افسانہ ‘‘ قصور علیم اسماعیل کے نمائندہ افسانوں میں سے ایک ہے۔ افسانہ کا مرکزی خیال ایک غریب ویٹر کی حساسیت ہے۔ وہ اپنی ایک چھوٹی سی غلطی کا کفارہ ادا کرنا چاہتا ہے۔ ویٹر کی معمولی سی غلطی سے صاحب کے کپڑے پر چکن بریانی کی پوری پلیٹ گر گئی ہے۔ واش روم سے فریش ہوکر آنے میں اتنا وقت لگ جاتا ہے کہ بس نکل چکی ہوتی ہے۔دوسری بس آنے میں کافی تاخیر ہے۔ ویٹر، صاحب کو ہوٹل میں ایک کمرے میں ٹھہراتا ہے، خاموشی سے کمرے کا کرایہ ادا کرتا ہے۔ دوسری بس آتی ہے تو انہیں بس تک چھوڑتا ہے۔ راستے کے لیے انہیں ناشتہ اور پانی کی بوتل پیش کرتا ہے۔ صاحب پاس کی دکان سے سیب لانے کے لیے اسے پیسہ دینا چاہتے ہیں لیکن وہ بنا پیسہ لیے ہی پھل کی دکان کی طرف لپک پڑتا ہے۔ اس بیچ بس چلنے لگتی ہے۔ وہ بس کا تعاقب کرنا چاہتا ہے لیکن ناکام ہو جاتا ہے۔ وہ گر پڑتا ہے۔ اس کے ہاتھ سے سیب گر کر بکھر جاتے ہیں۔ اس عالم میں بھی وہ اپنی چوٹ کی پروا کیے بغیر اپنے ہاتھ ہلا کر صاحب کو الوداع کہنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہاں پہنچ کر صاحب (واحد متکلم) کا سویا ہوا انسان جاگ اٹھتا ہے لیکن اب کافی دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ افسانہ کا اخری حصہ ملاحظہ فرمائیں:
’’میں نے بس کی نشست سے ٹیک لگاتے ہوئے ایک لمبی سانس لی اور اپنے دونوں ہاتھوں کو چہرے پر پھیرا۔ میرا چہرہ تمتما گیا تھا۔ کان دہکتا ہوا شعلہ بن گئے تھے۔ جسم سے آگ کی لپٹیں نکل رہی تھیں۔ باہر کھڑکی سے آنے والی سرد ہوا جسم میں گھسی جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔ کانوں میں عجیب سی آوازیں آنے لگی تھیں، سیٹیاں بجنے لگی تھیں، چنگھاڑتی، بھنبھناتی، ٹراتی ہوئی آوازیں ایک ساتھ خلط ملط ہو گئی تھیں اور میں نے دونوں ہاتھوں سے اپنے کان بند کر لیے تھے۔۔۔۔۔۔ بس کنڈیکٹر دھیرے دھیرے مسافروں کو ٹکٹ دیتا ہوا میرے پاس آیا۔ میں نے ٹکٹ مانگا، اس نے ٹکٹ دیا، میں نے پیسے دینا چاہے لیکن اس نے انکار کرتے ہوئے کہا۔ ’جو صاحب آپ سے باتیں کر رہے تھے انہوں نے آپ کی ٹکٹ کے پیسے پہلے ہی دے دیے تھے۔‘‘
’’رنجش‘‘ علیم اسماعیل کا ایک بہترین افسانہ ہے۔ ایک ذرا سی غلط فہمی کس طرح برسوں کے رشتوں کو رنجش میں بدل دیتی ہے،یہی اس افسانے کا تھیم ہے۔ کاظم اور کاشف بچپن کے دوست ہیں۔ دونوں کے دل میں ایک دوسری کی بے پناہ محبت ہے۔ایک تیسرا شخص پیسوں کی تنگی کی وجہ سے اپنی بالکل نئی کار آدھی قیمت پر فروخت کرنا چاہتا ہے۔ کاشف اس کار کو خریدنا چاہتا ہے لیکن کاظم اپنی ضرورت کا حوالہ دے کر کار خرید لیتا ہے۔ کاشف کو اپنے دوست کاظم کا یہ رویہ پسند نہیں آتا اور وہ اس سے قطع تعلق کر لیتا ہے۔ اس کے دل میں کاظم کے تئیں اتنی رنجش پیدا ہو جاتی ہے کہ رات کو دو بجے جب کاظم کی بیوی کاشف کے دروازے پر دستک دیتی ہے اور کاظم کی طبیعت خرابی کا حوالہ دے کر اسے ساتھ چلنے کو کہتی ہے تو کاشف دروازہ تک نہیں کھولتا ہے۔ وہ اپنے رویے سے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے گویا وہ سویا ہوا ہو۔صبح اسے معلوم ہوتا ہے کہ کاظم کا ہارٹ اٹیک سے انتقال ہو چکا ہے۔ اسے اپنے رویے پر شدید افسوس ہوتا ہے۔ میت کو قبر میں اتارنے تک وہ ضبط کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن آخر کار اس کا ضبط جواب دے دیتا ہے، وہ چیخ چیخ کر روتا ہے۔ اس نے اپنے بچپن کا ایک مخلص دوست کھو دیا ہے۔ اب اس افسانہ کا اختتام بھی دیکھیں:
’’ کاظم کے انتقال کے تین دن بعد صبح چائے پیتے ہوئے کاشف کی بیوی نے اس سے کہا ’رات میں کاظم بھائی کی بیوی گھر آئی تھی، وہ بتا رہی تھی کہ کاظم بھائی نے بطور گفٹ (تحفہ) آپ کے لیے کار خریدی تھی، آپ جلد سو گئے تھے تو وہ یہ کار کی چابی دے کر چلی گئی۔‘‘
’’ریجکٹ‘‘، ’’اجنبی‘‘، ’’ادھورے خواب‘‘،’’سودا‘‘،’زہر‘‘،’’اعتماد‘‘ اور ’’جنون‘‘ جیسے افسانوں سے علیم اسماعیل کے تخلیقی شعور کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ علیم اسماعیل کے افسانوں کی خاص بات ان کا اختصار ہے۔ وہ اپنی کہانیوں کو غیر ضروری طوالت سے بچاتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں کہیں کوئی پیچیدگی نہیں ہے۔ ان کے افسانوں میں کردار اور مکالمے گرچہ کم ہوتے ہیں لیکن افسانہ کی قرات کے دوران کرداروں کی ایک مکمل شبیہ ہمارے ذہن میں محفوظ ہو جاتی ہے۔ ان کے مکالمے بھی مختصر مگر برمحل اور مکمل ہوتے ہیں۔
مجھے امید ہے کہ مستقبل میں علیم اسماعیل کا نام فکشن کی دنیا میں حوالہ بن کر ابھرے گا۔ ’’رنجش ‘‘ کی اشاعت پر انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ایم ودود ساجد
این ڈی ٹی وی نے بتایا ہے کہ آج شاہین باغ کے احتجاج میں 80 کی دہائی کے ‘اجڑے’ ہوئے کچھ پنڈت پہنچ گئے ۔انہوں نے ہاتھوں میں بینر لے رکھے تھے۔ان کا کہنا ہے کہ انہیں آج ہی کے دن یعنی 19 جنوری کو کشمیر سے اجاڑ دیا گیا تھا۔
یہ پنڈت شاہین باغ اس لئے نہیں پہنچے تھے کہ انہیں مظاہرین سے اظہار یکجہتی کرنا تھا،وہ تو CAA کی مخالفت ہی نہیں کرتے اور اس سلسلے میں حکومت کے ساتھ ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ فلم اداکار سوارا بھاسکر نے آج شاہین باغ میں جشن شاہین منانے کا اعلان کیا تھا جس میں کچھ غزل سرائی اور شعروشاعری کا منصوبہ تھا۔ اس پر فلم ساز وویک اگنی ہوتری نے ٹویٹ کرکے کہا تھا کہ آج ہی کے دن کشمیری پنڈتوں کو اجاڑا گیا تھا اور آج جشن شاہین منایا جارہا ہے لہذا آج شام کو پانچ بجے کشمیری پنڈت شاہین باغ پہنچ کر اس کے خلاف مظاہرہ کریں ۔وویک اگنی ہوتری کی مودی نوازی چھپی ہوئی بات نہیں ہے۔
این ڈی ٹی وی کو ایک کشمیری پنڈت نے بتایا کہ ہم سی اے اے کی حمایت کرتے ہیں اور یہاں ہم اپنے اجڑنے کی داستان سنانے آئے تھے۔ایک کشمیری پنڈت خاتون کچھ زیادہ ہی جوش میں تھی۔اس نے کہا کہ ان لوگوں نے (شاہین باغ کے مظاہرین نے) غلط اعلان کیا کہ ہم ان کی حمایت کرنے آئے ہیں ۔وہ کچھ اور کہتی اس سے پہلے ہی دوسرے پنڈت نے بات سنبھال لی۔اس نے کہا کہ شاہین باغ والوں نے ہمیں اپنی بات کہنے کےلئے اپنا اسٹیج پیش کیا اور ہمارا درد سن کر ہم سے اظہار یکجہتی کیا۔
مشہور کشمیری پنڈت اے کے رینا نے تو اسٹیج پر یہاں تک کہہ دیا کہ گو کہ ہم سی اے اے کی حمایت کرتے ہیں لیکن آپ لوگ اتنے دنوں سے یہاں جمع ہیں تو ہم آپ کا بھی درد سمجھتے ہیں ۔
تو وزیراعظم صاحب!
اب تو کچھ شرم کرلیجئے۔جن پنڈتوں کا نام لے کر آپ نے 80 لاکھ کشمیریوں کا دم گھونٹ دیا ہے وہ بھی اپنی بپتا سنانے کے لئے اُس اسٹیج کا سہارا لینے پر مجبور ہیں جو آپ کے مخالفین نے سجایا ہے۔۔۔ یہ پنڈت کتنے بھولے’ سادہ مگر مجبور ہیں کہ ہندوستان کے جس بڑے طبقے کی مخالفت کر رہے ہیں اسی کے پروگرام کو اپنی داستانِ رنج والم سنانے کے لئے استعمال کر رہے ہیں ۔ شاید انہیں بھی اب احساس ہوگیا ہے کہ ان کی بات دنیا اسی اسٹیج سے سنے گی جہاں سی اے اے کے خلاف ہزاروں خواتین ایک مہینہ سے سینہ سپر ہیں ۔