افغانستان میں تیزی سے بدلتے حالات نے جنوبی ایشیائی
ممالک کے لیے ایک بار پھر خطرات کی گھنٹیاں بجادی ہیں، یہ ٹاپک پورے بیس پچیس سال سے کروڑوں انسانوں کے لیے تحیر انگیز اور ہر لمحہ چونکانے والا رہا ہےـ آپ دیکھیے کہ نائن الیون کے بعد امریکہ نے القاعدہ کا بھوت پکڑنے کے لیے افغانستان کا رخ کیا،جو اسے پاکستان میں ملا، مگر وہ یہاں بیس سال تک جما رہا، پہلے سے ہی غریب و نادار ملک کو نوچتا کھسوٹتا رہا اور پھر اچانک اسے خیال آیا کہ اب یہاں سے کوچ کرنا چاہیے اور چند ماہ کے اندر ہزاروں امریکی فوجیوں کا افغانستان سے نکل جانا طے ہوگیاـ مذاکرات کے کئی دور چلے، جن میں امریکہ سمیت افغان حکومت اور تیسرا فریق طالبان بھی موجود رہا، پڑوسی ممالک بھی ادھر ادھر حاشیے پر موجود رہےـ اب جبکہ اس مذاکرات کے مطابق امریکہ اور نیٹو اتحاد کی افواج افغانستان خالی کر رہی ہیں، تو پھر سے افغان فوج اور طالبان میں کشت و خون کا ماحول زوروں پر ہے، روزانہ کی بنیاد پر طالبان کی فتوحات کی خبریں ایسے آرہی ہیں کہ گویا انھوں نے کسی ملک پر حملہ کیا ہے اور ایک کے بعد دوسرے قلعے فتح کرتے جا رہے ہیں ـ دوسری طرف پاکستان دم بخود ہے، بھارت سرگرداں، ایران بھی نظریں گڑائے ہوئے ہے،چین و روس غالبا کسی نئی تدبیر میں مصروف اور امریکہ کسی تازہ موقعے کی تاک میں ـ سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ اگر امن مذاکرات کی تکمیل کے بعد امریکہ نے جانے کا فیصلہ کیا تھا تو پھر اس کے جاتے ہی یہ مار دھاڑ کیوں ہو رہی ہے؟
جمعرات کو ہندوستان کے ابھرتے ہوئے فوٹو جرنلسٹ دانش صدیقی قندھار میں افغان فون اور طالبان کے درمیان فائرنگ کے تبادلے کے دوران جاں بحق ہوگئے ـ عام طورپر خبریں آئیں کہ طالبان نے انھیں مارا اور آج یہ خبر بھی آئی کہ طالبان نے ان کی لاش ریڈکراس کو سونپ دی ہے اور اب اسے ہندوستان ان کے اہل خانہ کو سونپنے کا انتظام کیا جا رہا ہےـ میڈیا کی ممکنہ جانب داری یا تعصب سے قطع نظر دانش جیسے عالمی سطح کے ابھرتے صحافی کے قتل سے مجموعی طور پر طالبان کی شبیہ کو ہی نقصان پہنچاہے اور وہ طبقہ جو ان کے لیے کسی قدر نرم گوشہ رکھتا ہے، وہ بھی اس حرکت کی کسی طور حمایت نہیں کر سکتاـ گوکہ محاذِ جنگ پر پتا نہیں چلتا کہ کون دشمن کا بندہ ہے اور کون محض تماشائی یا صحافی اور اخباری نمایندہ، اسی وجہ سے طالبان نے دانش کی موت پر اظہارِ افسوس کیا ہے اور ان کے ترجمان نے کہا ہے کہ وار زون میں آنے والے صحافی ہمیں مطلع کریں، ہم ان کا دھیان رکھیں گے،مگر سب سے بڑا مسئلہ تو یہی ہے کہ اگر مذاکرات میں قیامِ امن کی شرطوں پر بات چیت ہوچکی تھی، تو پھر امریکہ کے نکلتے ہی آخر افغان حکومت اور طالبان آپس میں کیوں مرنے مارنے پر اتارو ہوگئے؟ کیا مذاکرات کا عمل محض ایک ڈرامے بازی تھی اور امریکہ کسی طرح جان چھڑا کر نکلنا چاہتا تھا؟
افغان حکومت کا رویہ بھی عجیب و غریب ہے، صدر صاحب پاکستان پر طالبان نوازی کا الزام لگا رہے ہیں، دوسری طرف بھارت سے فوجی امداد لینے کے امکان کا اظہار ہو رہا ہےـ مگر کیا بھارت اس پوزیشن میں ہے کہ وہ کسی ملک کی فوجی مدد کر سکے، جب سے افغانستان میں نئی صورت حال پیدا ہوئی ہے، ہمارے وزیر خارجہ اور مشیر برائے قومی سلامتی خود یہاں وہاں بھاگے پھر رہے ہیں اور حکومت اندرونی طور پر ایسے اندیشے سے دوچار ہے کہ پتا نہیں کل کیا ہوجائے؟ عمران خان کا بھی دلچسپ بیان میڈیا میں گردش کر رہا ہے، جس میں انھوں نے خطے میں امن و امان کے قیام میں رکاوٹ آرایس ایس کی آئیڈیا لوجی کو قرار دیا ہے، ظاہر ہے کہ عمران کا یہ بیان محض اپنے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ہے، ورنہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ خطے میں قیامِ امن کی راہ میں آر ایس ایس کے علاوہ مزید کونسے کونسے اور کہاں کہاں کے روڑے حائل ہیں ـ
بش کا بیان بھی دو دن قبل آچکا ہے کہ امریکہ نے افغانستان سے جانے کا فیصلہ غلط کیا ہے اور اس کے خطرناک نتائج سامنے آئیں گےـ یوں تو امریکہ کے رہتے ہوئے بھی افغانستان کے حالات ابتر ہی تھے، مگر نئے سرے سے جو خوں ریزی کا دور شروع ہوا ہے، وہ بڑا دردناک ہےـ بندگانِ اقتدار کی ہوس کے شکار نہ جانے کتنے معصوم ہوچکے اور آنے والے دنوں میں نہ معلوم اور کتنے بے گناہ ان کی درندگی کی نذر ہوں گےـ ایسا لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں افغانستان میں طالبان تو خیر اپنی حکومت کیا قائم کریں گے، مگر جنوبی ایشیا ایک نئی اور بڑی آفت سے دوچار ہوگا، جس میں کئی ملک اور ان کے عوام کے لیے تباہی و تاراجی لکھی ہوگی ـ واللہ اعلم
مدیر اعلی قندیل
نئی دہلی:کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے بدھ کے روز لکشدیپ کے مرکزی خطے میں نئے ضابطے کے مسودے پر مرکزی حکومت کو نشانہ بنایا اور الزام لگایا کہ ساگر میں واقع ہندوستان کا یہ زیور تباہ کیا جارہا ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ لکشدیپ کے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔راہل گاندھی نے ٹویٹ کیا ہے کہ ساگر میں لکشدویپ ہندوستان کا زیورہے۔ اقتدار میں بیٹھے جاہل بنیاد پرست اسے ختم کررہے ہیں۔ میں لکشدویپ کے لوگوں کے ساتھ کھڑاہوں۔کانگریس نے منگل کو اس معاملے پر مرکزی حکومت سے استدعا کی تھی کہ وہ فوری طور پر ان مسودوں کو واپس لے اور پرفل کھوڑا پٹیل کو ایڈمنسٹریٹر کے عہدے سے ہٹائے۔پارٹی کی جنرل سکریٹری پریانکا گاندھی واڈرا نے کہا تھا کہ کانگریس لکشدویپ کے لوگوں کے ساتھ کھڑی ہے اور اپنے ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لیے لڑے گی۔کانگریس کے جنرل سکریٹری کے سی وینوگوپال نے بھی پیر کو صدر رام ناتھ کووند کو ایک خط لکھا تھا جس میں لکشدیپ کے ایڈمنسٹریٹر پرفل پٹیل کو واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔اس کے علاوہ انہوں نے صدر سے بھی کہا ہے کہ وہ پرفل پٹیل کے دور میں لیے گئے فیصلوں کو منسوخ کریں۔اطلاعات کے مطابق مسودہ ضوابط کے تحت لکشدیپ سے شراب کے استعمال پر پابندی ختم کردی گئی ہے۔ اس کے علاوہ جانوروں کے تحفظ کا حوالہ دیتے ہوئے گائے کے گوشت سے تیار کردہ مصنوعات پر پابندی کا حکم دیا گیا ہے۔ لکشدیپ کی زیادہ تر آبادی ماہی گیروں پر منحصر ہے ، لیکن حزب اختلاف کے رہنماؤں کا الزام ہے کہ پرفل پٹیل نے کوسٹ گارڈ ایکٹ کی خلاف ورزی کی بنا پر ساحلی علاقوں میں ماہی گیروں کی جھونپڑیوں کو توڑنے کا حکم دیا ہے۔
ملک میں کورونا کا قہر اب بھی جاری ہے۔ لاکھوں لوگوں کی جان جا چکی ہے، کروڑوں متاثر ہیں۔ شہروں کے بعد دیہی علاقوں میں وبا کے پھیلنے سے دہشت کا ماحول ہے۔ اترپردیش میں پنچایت چناؤ، اتراکھنڈ میں کمبھ اور پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات نے حالات کو بے قابو کر دیا۔ لوگ اسپتال سے فٹ پاتھ تک آکسیجن اور دواؤں کی کمی کی وجہ سے تڑپ تڑپ کر مرے۔ مریضوں کو اسپتال میں اور مرنے والوں کو شمشان و قبرستان میں جگہ نہیں ملی۔ آخری رسومات کےلیے گھنٹوں انتظار کرنا پڑا۔ بہت سے تو اپنے عزیزوں کی میت کو بے یارو مددگار چھوڑ کر بھاگ گئے۔ کئی اپنے بزرگوں کو کورونا کے ڈر سے سڑکوں پر چھوڑ گئے۔ انسانی جانوں کی ایسی بے حرمتی ملک نے کبھی نہیں دیکھی۔ دیہی بھارت کی غربت، گندگی، طبی سہولیات کی عدم دستیابی اور کورونا سے موت کی دردناک صورتحال گنگا میں بہتی اور اس کے کنارے ریت میں دفن لاشیں بیان کرتی ہیں۔ نظام صحت کی ناکامی، حکومت کی نا اہلی، کاہلی اور حکمرانوں کی بے حسی کو دیکھ کر عدلیہ کو مجبوراً مداخلت کر ہدایات جاری کرنی پڑیں۔ بھارت کی صورتحال کو دیکھ کر دنیا کو عوام کی لاچاری پر اتنا ترس آیا کہ کئی ممالک مدد کےلیے آگے آ گئے۔ انہوں نے آکسیجن اور دواؤں کا بڑا ذخیرہ بھارت بھیجا لیکن یہ غیر ملکی مدد حکومت کی سستی کی وجہ سے بروقت عوام تک نہیں پہنچ سکی۔
کتنا عجیب ہے کہ سرخیوں میں رہنے والے سیاست داں کورونا کی دوسری لہر شروع ہوتے ہی غائب ہو گئے۔ پورے ملک میں ہاہاکار مچا تھا لیکن ان کا کچھ اتا پتا نہیں تھا۔ کورونا کے معاملوں میں کمی کے ساتھ ہی پھروہ دکھائی دینے لگے ہیں، وہ بھی ورچول روپ میں۔ وزیراعظم نریندرمودی ملک کے شہریوں کو مطمئن کرتے دکھائی دییے۔ پہلی مرتبہ نظر آئے تو کہا’چنوتی بڑی ہے لیکن ہمارے حوصلے اس سے بھی بڑے ہیں‘۔ عوام سے خطاب کرتے ہوئے وہ جذباتی ہو گئے۔ جبکہ عوام اس وقت آنسو نہیں، کورونا سے بچاؤ کے اقدامات، آکسیجن، دوائیں، ویکسین، اسپتال چاہتے ہیں۔ کانگریس کے بی وی سری نواس اور دپیندر ہڈا کے ذریعہ دہلی سے لے کر یوپی تک کورونا متاثرین کی مدد اور مرنے والوں کی تعداد ساڑھے چار ہزار یومیہ پہنچنے پر بی جے پی گھبرا گئی۔ اس نے اپنی ناکامی کو چھپانے کےلیے ٹول کٹ تلاش کر لی۔ کووڈ سے نبٹنے کے طور طریقوں پر توجہ دینے کے بجائے وہ کانگریس کے ذریعہ حکومت اور نریندرمودی کو بدنام کرنے کا راگ الاپنے لگی۔ ایسا ہی کچھ وہ کسان آندولن کے دوران بھی کر چکی تھی۔ کووڈ کی دوسری لہر کی تباہی کو دنیا بھر کے میڈیا نے کور کیا ہے۔ اس نے سیدھے طور پر وبا کے بے قابو ہونے کےلئے نریندرمودی اور ان کی حکومت کی لاپروائی کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
ادھر اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ اپنے افسروں کے بیچ چلتے نظر آئے۔ انہوں نے کہا کہ دیہی علاقوں میں اب حالات معمول پر آ رہے ہیں۔ ان کے افسران گھر گھر جا کر جانچ کر رہے ہیں۔ کورونا کی علامت نظر آتے ہی مریض کو فوراً اسپتال لے جانے کا انتظام کیا جارہا ہے۔ ان کا یہ ویڈیو کئی ٹیلی ویژن چینلوں پر دکھائی دیا۔ غور سے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ یہ اترپردیش حکومت کے ذریعہ دیا گیا اشتہار ہے۔ یعنی ڈھکوسلہ سراسر جھوٹ۔ بقول سینئر صحافی تولین سنگھ اگر ایسا ہوتا تو گنگا کے کنارے دور تک پھیلی وسیع چادر کی طرح بچھی ہوئی ریتلی قبریں دکھائی نہیں دیتیں۔ صحافی گاؤں گاؤں گھوم کر جو خبریں دکھا رہے ہیں، انہیں دیکھ کر دل دہل جاتا ہے۔ مقامی لوگ صحافیوں کو بتا رہے ہیں کہ کوئی دو ہفتوں سے دفنانے کےلیے دو سو کے قریب لاشیں لائی جا رہی ہیں۔ گنگا میں بہانے پر پابندی لگ گئی ہے، جو لوگ اتنے غریب ہیں کہ آخری رسومات ادا نہیں کر سکتے، وہ لاشوں کو دفنانے پر مجبور ہیں۔
اسی طرح نامہ نگار جب گاؤں میں گھر گھر جا کر لوگوں سے بات کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر دوسرے گھر میں کوئی بیمار ہے یا کسی کی موت ہوئی ہے۔ ایک رپورٹ میں یہ بھی دکھایا گیا کہ گاؤں میں موجود پرائمری ہیلتھ سینٹروں پر تالے لگے ہیں یا پھر ان میں مویشی باندھے جا رہے ہیں۔ اس لیے کہ دہائیوں سے ان میں نہ ڈاکٹر ہے نہ ہی علاج ہوا ہے۔ اخباری خبر کے مطابق اترپردیش کے ضلع فتح پور کے گاؤں میں 100 لوگوں کی بخار سے موت ہوئی ہے۔ للولی میں 10 اپریل کو بخار اور سانس پھولنے سے پہلی موت ہوئی تھی۔ بی بی سی کی رپورٹ اور بھی چونکانے والی ہے۔ بی بی سی کی نامہ نگار اورلا گیرن نے دیہی اترپردیش کا دورہ کرکے ان اساتذہ کے خاندانوں سے باتیں کیں جو پنچایت چناؤ میں تعیناتی کے دوران کووڈ سے متاثر ہو کر موت کا شکار ہوئے ہیں۔ ایسے اساتذہ کی تعداد ایک ہزار بتائی جاتی ہے۔ یوپی کے وزیر اعلیٰ کو کیا اس کی خبر نہیں ہے یا پھر انہوں نے اسے نظر انداز کر دیا ہے۔
بہار کا حال بھی اترپردیش جیسا ہی ہے۔ ہندی روزنامہ بھاسکر کی خبر کے مطابق آرا ضلع کے کلہڑیا گاؤں میں 95 فیصد آبادی میں کورونا کی علامات موجود ہیں۔ گاؤں میں نہ جانچ ہوئی نہ ہی کسی کو ٹیکہ لگا ہے۔ جبکہ اسمبلی انتخاب کے وقت کورونا کا ٹیکہ مفت دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ یہاں اب تک سو لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔ پرائمری ہیلتھ سینٹر میں خاتون ڈاکٹر دن میں سوتی ہوئی ملی، اسے شو کاز نوٹس جاری کیا گیا۔ دیہی بھارت میں صحت نظام کمزور اور طبی سہولیات کی دستیابی محدود ہے۔ پھر بھی ملک کی 65 فیصد سے زیادہ آبادی گاؤں میں رہتی ہے۔ کئی علاقوں میں پرائمری ہیلتھ سینٹر گاؤں سے پچاس کلومیٹر دور ہے۔ ایسے میں گاؤں کےلیے کورونا سے لڑنا مشکل ہو رہا ہے۔ گاؤں کی طرف اگر فوری توجہ نہ دی گئی تو وہاں کورونا سے جانی و مالی نقصان کا زیادہ خطرہ ہے۔ حکومت نے دیہی علاقوں میں کووڈ کی روک تھام کےلیے رہنما ہدایات جاری کی ہیں لیکن یہ ہدایات ایک سال قبل جاری ہونی چاہیے تھیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ متعدی بیماری سے لڑنے میں سرکاری نظام کتنا ڈھیلا ہے۔
دیہی علاقوں کو کورونا سے بچانے کےلیے گاؤں کی پنچایتوں کو فعال بناکر بیماروں کےلیے آئی سو لیشن سینٹر بنانے کی ضرورت ہے، جانچ اور ٹیکے لگانے میں ان کی مدد لینی چاہیے۔ جن مریضوں کو اعلیٰ سطح کی دیکھ بھال کی ضرورت ہو انہیں وقت پر ریفر کیا جائے۔ پرائمری ہیلتھ سینٹر اور ضلع کووڈ اسپتال کے بیچ کی کڑی مضبوط ہو۔ آکسیجن، دواؤں کی دستیابی اور ایمبولینس سروس کو یقینی بنایا جائے۔ اس سلسلہ میں مہاراشٹر کے ضلع احمد نگر کے گاؤں ہیورے بازار کے سرپنچ پوپٹ راؤ پوار کے تجربہ سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اپنے گاؤں کو کورونا سے نجات دلانے کےلیے جو قدم اٹھائے، ان پر دوسرے گاؤوں کے لوگ بھی عمل کر سکتے ہیں۔ احمد نگر کے ضلع کلکٹر اور چیف ایگزیکٹو آفیسر نے پوپٹ راؤ کو 1300 گاؤوں کے پردھانوں کو مخاطب کرنے اور ان کی مدد کرنے کی دعوت دی۔ اس موقع پر پوپٹ راؤ نے بتایاکہ مارچ میں گاؤں کے ایک شخص میں کووڈ کی علامت دکھائی دی تو انہیں فوراً پاس کے اسکول میں کورنٹین کیا گیا۔ ان کے رابطہ میں جو لوگ آئے تھے، انہیں بھی الگ الگ کر دیا گیا۔ ان سبھی کا آر ٹی – پی سی آر ٹیسٹ کرایا گیا۔ مارچ سے اپریل کے بیچ گاؤں میں کووڈ کے 52 مریض ہو گئے تھے۔ ان سب کا ٹیسٹ کراکر علاج کرایا گیا۔ چار کو وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑی، انہیں اسپتال میں بھرتی کیا گیا۔ بد قسمتی سے ایک کی جان چلی گئی لیکن پورا گاؤں محفوظ ہو گیا۔ یہاں کے لوگ صحت کارکنان کی ہدایات پر عمل کرتے ہیں۔ ماسک لگانے، سینی ٹائزر کا استعمال کرنے اور جسمانی دوری بنانے کا خیال رکھتے ہیں۔
بھاجپا حکومت اس طرح کے تجربات کو عام کرنے، پرانی غلطیوں سے سبق لیتے ہوئے کمیوں کو دور کرنے اور نظام صحت کو مضبوط بنانے پر دھیان دینے کے بجائے مودی جی کی شبہ چمکانے، مثبتیت (پازیٹوٹی) کا گیت گانے اور جھوٹی تشہیر کے ذریعہ عوام کا دھیان بھٹکانے کی فکرمیں لگی ہے۔ اس کے پاس آٹھ ماہ بعد اترپردیش میں ہونے والے انتخابات کی منصوبہ بندی کرنے کا وقت ہے، لیکن ویکسین کی کمی کو دور کرنے اور عوام کی تکلیفوں پر توجہ دینے کا وقت نہیں ہے۔ شاید اسی لیے بی جے پی کے پروپیگنڈہ کو اس بار کسی نے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ عوام صرف ایک چیز کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں وہ ہے موت کا بڑھتا ہوا گراف، ویکسین کی کمی، اسپتالوں کی بد حالی، حکومت کی بے حسی اور ضرورت کے وقت عوامی نمائندوں کی روپوشی۔ اس لیے وقت رہتے گاؤں کو کورونا سے بچانے کی طرف پورا دھیان دیا جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وبا گاؤں کو اپنی گرفت میں لے لے۔ اگر ایسا ہوا تو اس پر قابو پانا آسان نہیں ہوگا۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادب کے نئے جہانوں کی دریافت اور فکر و تحقیق کے اَن چھوے گوشوں کی بازیافت حقانی القاسمی کا خاصہ اور امتیاز ہے۔ ان کی فطرت میں مہم جوئی کی صفت ودیعت کی گئی ہے ،سوان کا ذہن و قلم روایتی موضوعات اور فرسودہ عنوانات کی بجاے غیر روایتی موضوعات کی کھوج میں مصروف رہتے ہیں۔وہ روایتی موضوعات کو بھی اپنی بے پناہ علمیت،تحقیقی سربرآوردگی،تنقیدی ژرف نگاہی اور ادبی و تخلیقی انفراد کی بدولت قاری کے لیے دلچسپ بنادیتے ہیں اور پامال عنوان پر لکھی ہوئی ان کی تحریر بھی بالکل تازہ و شاداب معلوم ہوتی ہے۔ حقانی القاسمی عصرِ حاضر کے ان گنے چنے ادیبوں میں سے ایک ہیں، جن کے یہاں اسلوب کے حسن و جمال کے ساتھ مواد و معلومات کی فراوانی بھی ہوتی ہے۔ انھیں پڑھیے تو نہ صرف زبان و ادا کا لطف حاصل ہوگا؛بلکہ متعلقہ موضوع پر آپ کے علم میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوگا۔ حقانی القاسمی کی تنقید پر تخلیق کی چھاپ ہوتی ہے اور ان کی سبک و شیریں نثر پڑھ کر ذوق ووجدان جھوم اٹھتے ہیں۔
حقانی القاسمی نے اپنے لگ بھگ چالیس سالہ علمی،ادبی،تنقیدی و صحافتی سفر میں نت نئے تجربے کیے ہیں اور ان کا تقریباً ہر تجربہ گوکہ قلیل العمر رہا ،مگر کامیاب و سرخرو ضرور رہا ہے۔’اخبارِ نو‘سے شروع ہونے والی ان کی عملی صحافتی و ادبی زندگی ’نئی دنیا‘سے ہوتے ہوئے ‘استعارہ‘تک پہنچی اور استعارہ سے ہی مختصر الوجود حقانی کی ادبی کوہ قامتی کے ایک سے بڑھ کر ایک نمونے سامنے آئے۔اس کے بعد سہارا گروپ سے وابستہ ہوئے اور اس کے ادبی رسالہ ’بزمِ سہارا‘ کو اپنی ادبی و ادارتی مہارتوں کی بدولت گوناگوں محاسن و امتیازات کا نمونہ بنادیا،جتنے دن اس رسالے سے وابستہ رہے اور حالات سازگار رہے، یہ رسالہ تمام تر ادبی،فنی و علمی خصوصیات کے ساتھ شائع ہوتا رہا۔ ادبی صحافت میں ایک نیا تجربہ انھوں نے ۲۰۱۶میں ’اندازِ بیاں‘کے نام سےکیا اور رسائل کے بے پناہ ہجوم میں اس کا امتیاز یوں قائم کیا کہ اسے یک موضوعی رکھا،یعنی یہ طے کیا کہ یہ رسالہ دراصل ایک کتابی سلسلہ ہوگا اور اس کا ہر شمارہ کسی ایک موضوع پر مرکوز ہوگا۔ یہ مجلہ بھی حقانی القاسمی کے ادبی اکتشاف اور تحقیق و جستجو کا شاندار نمونہ ہے۔ اس یک موضوعی مجلے کے ذریعے درحقیقت وہ ایک نئی ادبی تاریخ رقم کررہے ہیں۔ اس سے قبل کے اس رسالے کے دوشمارے(۲۰۱۶اور2018 (اردو دنیا میں غیر معمولی مقبولیت و شہرت حاصل کرچکے ہیں۔ پہلا شمارہ خواتین قلم کاروں کی خودنوشتوں کے جائزوں پر مشتمل تھا،جبکہ دوسرے شمارے میں انھوں نے اردو دنیا کو پولیس کے تخلیقی چہرے سے روشناس کروایا تھا۔ پولیس جوکہ برصغیر میں بہ وجوہ ایک مہیب؛بلکہ بہت حد تک مکروہ و قابلِ نفریں شبیہ کا حامل طبقہ ہے،اس کے نرم و ملائم پہلو کو سامنے لاتے ہوئے حقانی القاسمی نے ماضی بعید سے لے کر عصرِ حاضر تک کے ان شاعروں،ادیبوں،تخلیق کاروں، تنقید نگاروں اور فنکاروں کی کامیاب تلاش و جستجو کا نتیجہ قارئین کے سامنے پیش کیا،جو پولیس کی نوکری کرتے ہوئے زبان و ادب و تحقیق و تنقید کی زلفیں بھی سنوارا کرتے تھے یا اب بھی وہ اس کارِ خیر کو انجام دیتے ہیں۔
پولیس کے تخلیقی چہرے کی بازیافت کے بعد حقانی القاسمی کے ذہنِ رسا نے قبیلۂ اطبا کا رخ کیا اور بڑی عرق ریزی و جاں فشانی کے بعد اندازِ بیاں کا تیسرا شمارہ میڈیکل ڈاکٹروں کی ادبی خدمات کے نام کرتے ہوئے تقریباً ساڑھے پانچ سو صفحات میں ہندوبیرون ہند کے درجنوں ڈاکٹر تخلیق کاروں، ادیبوں، شاعروں،مترجمین،تنقید نگار اور محققین کی خدمات کا جائزہ پیش کیا ہے۔جو لوگ ہسپتالوں کے وارڈوں میں کٹے پھٹے ،بیمار و لاچار،مدقوق و مشلول جسموں کے درمیان رہتے اور ان کی جراحی و معالجے میں مصروف ہوتے ہیں،کیا انھیں ادب جیسے فنِ لطیف سے بھی کوئی واسطہ ہوتا ہوگا؟کیا ان پر بھی ایسے شاداب لمحے اترتے ہوں گے،جب رات شعر کہا کرتی ہے اور جب فکر کے سوتے پھوٹتے اور ادب و فن کے شہہ پارے وجود میں آتے ہیں؟حقانی صاحب ہمیں ’اندازِ بیاں‘ کے تازہ شمارے کے ذریعے جواب دیتے ہیں کہ ہاں بالکل!،ان میں بھی ایک سے بڑھ کر ایک ادیب،شاعر،نثرنگار،ناقد ،محقق و مترجم ہوتا ہے اور ہے،پھر وہ ہمیں ان کے احوال اور کارناموں سے بالتفصیل متعارف کرواتے ہیں۔
اس مجلے کا ہر مضمون اپنی جگہ بھرپور اور جامع ہے،مگر حقانی صاحب کا افتتاحیہ جسے انھوں نے‘دستِ مسیحائی’ کے عنوان سے لکھا ہے ، وہ لاجواب اور حقانی کے وفورِعلمیت و ادبیت کا شاہکار ہے۔ پچاس سے زائد صفحات پر مشتمل اس مضمون میں حقانی صاحب نے اردو ادب کی مختلف اصناف میں میڈیکل ڈاکٹروں کی خدمات پر مختصر مگر جامع تبصرہ کیا ہے اور قاری کی ذہنی و علمی لطف اندوزی کا بھرپور سامان فراہم کردیا ہے۔ اس مضمون میں حقانی صاحب نے ۲۸ڈاکٹر شاعروں،تین مزاح نگاروں،۱۱فکشن نویسوں،چار مصنفین،پانچ مترجمین، پانچ ناقدین و محققین کا تعارف کروایا ہے۔ ان شخصیات کا تذکرہ کرتے ہوئے انھوں نے ان کی فنی خوبیوں،تصانیف اور امتیازات کی بھی نشان دہی کی ہے۔ جو شاعر ڈاکٹر ہیں ان کے شاعرانہ کمالات بھی بیان کیے ہیں اور ان کے شعری نمونے بھی پیش کیے ہیں،جو فکشن نگارڈاکٹر ہیں ان کی کہانیوں کے خصائص و اوصاف پر بھی روشنی ڈالی ہے۔اس اداریے میں حقانی صاحب نے اردو زبان میں طب کی مختلف شاخوں اور گوشوں پر لکھی جانے والی کتابوں کی طرف بھی اشارے کیے ہیں اور ان ڈاکٹروں کا بھی تذکرہ کیاہے ،جو اپنے پیشے میں مصروف رہنے کے ساتھ زبان و ادب سے بھی والہانہ تعلق رکھتے اور وقتا فوقتا ادب دوستی کا ثبوت فراہم کرتے رہتے ہیں۔الغرض اپنی افتتاحی تحریر میں حقانی القاسمی نے ڈاکٹر اور ادب کے باہمی ربط و ارتباط کا نہایت جامع اور وسیع الذیل تعارف کروایا ہے۔حالاں کہ ساٹھ صفحے میں لکھاگیا یہ مضمون بھی ڈاکٹر ادیبوں اور تخلیق کاروں کا کلی احاطہ نہیں کرتا،کہ ان کی تعداد سیکڑوں نہیں، ہزاروں میں ہوسکتی ہے اور ان سب پر لکھنے کے لیے کئی جلدیں درکار ہوں گی ،جیسا کہ خود حقانی صاحب نے بھی لکھا ہے کہ:’’یہ محض تعارفی نوعیت کا تاثر ہے۔تفصیل سے لکھتا تو شاید ہزار صفحات بھی ناکافی ہوتے۔اس میں بہت سے ایسے نام شامل ہیں جن کی ادبی شناخت مستحکم اور مسلم ہے،ان کے علاوہ اور بھی بہت سارے تخلیق کار ہوں گے،جن کی جستجو جاری رہے گی۔اِسے آپ جستجو کا ایک آغاز کہہ سکتے ہیں‘‘۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ آغاز بھی کئی انجاموں پر بھاری ہے اور اپنے آپ میں غیر معمولی اہمیت و معنویت کا حامل ہے ۔ اردو زبان میں ڈاکٹر فنکاروں،ادیبوں اور تخلیق کاروں پر ایسا مبسوط ،مفصل اور معلومات افزا مقالہ میری نظر سے نہیں گزرا۔اس مضمون کو پڑھ کر اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے قارئین بے شمار مراجع تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں اور طلبا و اسکالرز اس کے اوّلی حوالہ جات و مصادر تک پہنچ کر باقاعدہ تحقیق و تصنیف کی بنیاد اٹھا سکتے ہیں۔گویا حقانی صاحب کا یہ مضمون میڈیکل ڈاکٹروں کی ادبی خدمات کو اجاگر کرنے کے حوالے سے بنیاد کا پتھر اور مشعلِ راہ ثابت ہوگا۔
مجلے کے باقی چالیس سے زائد مضامین بھی بھرپور ہیں اور اردو کے علاوہ عربی،انگریزی اور دیگر زبانوں میں لکھنے والے ڈاکٹروں کی علمی ،ادبی و تخلیقی خدمات کا مبسوط جائزہ پیش کرتے ہیں۔ آخر کے ایک باب میں ’اندازِ بیاں‘ کے پچھلے شمارے پر ملک و بیرون ملک کے مطبوعہ و برقی اخبارات،ویب سائٹس وغیرہ میں اردو اور انگریزی زبانوں میں شائع ہونے والے تبصرات و تاثرات کو بھی جمع کردیا گیا ہے۔جبکہ حقانی صاحب نے اس مجلے کا آخری باب اپنی مرحومہ و مغفورہ بیٹی انیقہ سے منسوب کیا ہے،جو ستمبر دوہزار انیس کو ایک حادثے کا شکار ہوکر جاں بحق ہوگئی تھی ،اس کی وفات پر بڑی تعداد میں موصول ہونے والے تعزیتی پیغامات اور اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کو اس میں محفوظ کردیا گیا ہے۔اس باب کے شروع میں حقانی صاحب کا نوٹ نہایت اثر انگیزہے اور معصوم و کم عمر بیٹی کی ناگہانی موت پر ایک حساس باپ کے درد و کرب کو بیان کرتا ہے۔ الغرض اندازِ بیاں کا یہ تیسرا شمارہ سابقہ شماروں کی طرح ہی ظاہر و باطن کے حسن و جمال آراستہ ہے اور اس کا مطالعہ ادب کے شائقین و قارئین کے لیے بے پناہ فائدہ مند ثابت ہوگا۔ادب دوست اور علم و مطالعہ کے شائقین یہ مجلہ اس کے ناشر عبارت پبلی کیشنز سے حاصل کر سکتے ہیں۔رابطہ نمبر9015698045/9891726444:
مشہور صحافی اور دارالعلوم دیوبند کے سابق ترجمان عادل صدیقی کا انتقال،قاسمی قبرستان میں سپردِ خاک
دیوبند:(سمیر چودھری)دارالعلوم دیوبند کے میڈیا ترجمان و شعبہ محاسبی کے سابق ناظم اور مسلم فنڈ ٹرسٹ دیوبند کی منتظمہ کمیٹی کے رکن ،صحافی اور ادیب عادل صدیقی کا طویل علالت کے بعدآج اپنی رہائش گاہ محلہ خواجہ بخش میں تقریباً 91سال کی عمر میں انتقال ہو گیا ۔ان کے انتقال کی خبر پر دارالعلوم دیوبند کے ذمہ داران شہر کے سرکردہ افراد نے رہائش گاہ پر پہنچ کر اہل خانہ کو تعزیت مسنونہ پیش کی ۔مرحوم کافی دنوں سے صاحب فراش تھے ۔عادل صدیقی نے اعلیٰ تعلیم مکمل ہونے کے بعد سہارنپور ،مظفر نگر اور سیوہارا میں تدریسی خدمات انجام دیں ۔بعد ازاں وہ حکومت ہند کے اطلاعات و نشریات کے محکمہ سے بطور اسٹنٹ انفارمیشن آفیسر منسلک رہے ۔ 1981میں اپنے ریٹائرڈمنٹ کے بعد قومی آواز،الجمعیۃ اور آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ رہے ، اسی کے ساتھ ساتھ ماہنامہ یوجنا اور آج کل کے نائب مدیر اعلیٰ کے طور پر بھی خدمات انجام دیں ۔عادل صدیقی اردو اور انگریزی زبانوں کے ماہر تھے ملک میں مختلف رسائل ،میگزین اور اخبارات میں ان کے مضامین اور تجزیے تسلسل کے ساتھ شائع ہوتے رہتے تھے ۔انہوںنے انگریزی زبان کی متعدد کتب کا اردو میں ترجمہ بھی کیا ۔ریٹائر منٹ کے بعد عادل صدیقی دیوبند واپس آ گئے اور دارالعلوم دیوبند کے دفتر محاسبی کے ناظم اور ادارہ کے ترجمان کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے ۔اس دوران وہ آل انڈیا ریڈیو کے مخصوص پروگرام ’’اردو سروس‘‘کے مختلف پروگراموں میں عرصہ دراز تک شرکت کرتے رہے ۔عادل صدیقی کی وفات پردارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی نے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے مرحوم کے لیے دعاء مغفرت کی۔مسلم فنڈ ٹرسٹ دیوبند کے منیجر سہیل صدیقی ،سابق چیئر مین انعام قریشی اور یوپی رابطہ کمیٹی کے سکریٹری ڈاکٹر عبید اقبال عاصم نے اپنے تعزیتی پیغامات میں عادل صدیقی کی وفات کو اردو صحافت کا بڑا حادثہ قرار دیا۔انہوںنے کہا کہ عادل صدیقی نے صاف ستھری صحافت کے جو نقوش ثبت کئے ہیں ہو نئی نسل کے لئے مشعل راہ ہیں ۔ان کا انتقال دنیائے اردو صحافت کا عظیم نقصان ہے ۔انہوںنے کہا کہ مرحوم کی خوش اخلاقی و خوش مزاجی ضرب المثل تھی ۔ملک کے صحافیوں میں بلند قامتی کے باوجود ان کی عاجزی و انکساری قابل دید و لائق تقلید تھی ۔اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے ۔ دیوبند کے تمام صحافیوں اور سینئر صحافی اشرف عثمانی نے بھی عادل صدیقی کی وفات کو صحافت کا خسارہ عظیم قرار دیا ۔نماز جنازہ بعد نماز عصر احاطہ مولسری میں دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی نے ادا کرائی ،بعد ازاں قاسمی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی ۔
نئی دہائی کا آغاز:مسلمانوں کا تعلیمی لائحۂ عمل کیا ہونا چاہیے؟-احمد حسین
یہ حقیقت ہے کہ افراد اور قوموں کی ترقی کی عمارت علم کی بنیاد پر تعمیر ہوتی ہے۔ فرد و ملت دنیا کے کسی بھی حصے میں بس رہے ہوں اگر وہ علوم سے نا آشنا ہیں یا علوم متداولہ میں انھیں دسترس نہیں ہے تو وہ دنیا کے معاملات میں دخل انداز ہونے کے اہل نہیں ہیں، اور نا ہی اہل دنیا ایسی قوم و ملت سے کوئی مطلب رکھتے ہیں۔ لہذا علوم سے نا آشنا و نا واقف قوموں کی کوئی وقعت اور کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی۔
جب ہم تاریخ کے صفحات کو پلٹ کر اسلام کے دورِ آغاز کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی نے اہل عرب کو آئندہ دنیا میں حکمرانی کا جو نسخۂ کیمیا بتایا تھا وہ علم ہی تھا، اقرأ کے لفظ سے آغاز کرنے والی قوم نے یک بیک ساری دنیا کو اپنے زیر نگیں کر لیاتھا، دنیا کی بڑی بڑی سپر پاور ان حدی خوانوں کے سامنے سر نگوں ہو گئی تھیں اور دنیا کی زمام اقتدار مسلمانوں کے قدموں میں آ گئی تھی اور یہ سب علم کا کرشمہ تھا۔
لہذا تعلیم کی غیر معمولی تاثیر کو کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کیوں کہ تعلیم وہ ہتھیار ہے جس سے قوموں میں شعور، قوت فکر و عمل اور دنیا پر حکمرانی کی اہلیت پیدا ہوتی ہے۔ جب کہ اس کے برعکس جہالت قوموں کو غلام بنا دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب دنیا کی کوئی طاقت کسی سرزمیں پر قابض ہوتی ہے اور وہاں دیر تک حکمرانی کرنا چاہتی ہے تو وہ وہاں کے باشندوں کا رشتہ تعلیم سے منقطع کر دیتی ہے۔ اگر ہم ہندوستان میں انگریزوں کے عہد کا مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ کس طرح ہندوستانی عوام کو تعلیم سے دور رکھا گیا تھا تاکہ حکومت کے خلاف کسی مزاحمت کا خیال تک ان کے ذہن میں نا آسکے اور بعینہ آزادی کے بعد وہی اسٹریٹجی مسلمانوں کے ساتھ اپنائی جارہی ہے۔ آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کو بے وقعت بنانے اور یہاں کی سیاست اور انتظام میں بلاواسطہ ان کے لئے دروازے بند کرنے کے لئے یہاں کی اکثریتی جماعت نے وہی منصوبہ مسلمانوں کے اوپر آزمایا اور افسوس کہ وہ اپنے اس منصوبے میں بہت کامیاب رہے۔ متعدد رپورٹس بتاتی ہیں کہ مسلمان آج تعلیمی اور معاشی اعتبار سے ہندوستان میں دلتوں سے بھی پیچھے ہیں۔
2004 میں جسٹس راجندر سچر کی نگرانی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی اور اس کمیٹی کی رپورٹ نے یہ صاف صاف لکھا کہ مسلمان مجموعی طور پر نہ صرف تعلیم میں بلکہ سماجی اور اقتصادی ہر سطح پر کسی بھی ہندوستانی سماج سے نہایت ہی پیچھے ہیں، یہاں تک کہ دلتوں کی حالت مسلمانوں سے بہتر ہے۔ سچر کمیٹی نے اس معمہ کو بھی واشگاف کر دیا جو عام طور پر مشہور ہے کہ مسلمان اپنے بچے مدارس میں بھیجتے ہیں، سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کے محض 4% طلباء مدارس کا رخ کرتے ہیں۔ ہندوستان کی مجموعی شرح خواندگی حالیہ مردم شماری کے مطابق 65 فی صد ہے ۔ مسلمانوں میں یہ شرح 59 فی صد ہے جب کہ ہندو 65 فی صد، عیسائی 80 فی صد ، سکھ 69 فی صد ، بدھ 72 فی صد اور جین 94 فی صد کے ساتھ تعلیمی میدان میں سب سے آگے ہیں۔ یہ صورتحال حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ہے، جب کہ حقیقت میں صورتحال اس سے کہیں بد تر ہے۔
اگر صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کے پاس تعلیم سے متعلق کوئی ٹھوس لائحۂ عمل نہیں ملتا، جب آزادی کے بعد ہندوستان کا رخ بہت تیزی سے تبدیل ہو رہا تھا، ہندوستاں کے مستقبل کو ایک نئی جہت دی جا رہی تھی اور انگریزون سے جنگ جیتنے کے بعد یہاں کے اکثریتی طبقے نے ہندوستان کے اندر مسلمانوں کے خلاف تہذیبی و ثقافتی جنگ چھیڑ دی تھی اس وقت مسلم جماعتیں زمام اقتدار دوسروں کے ہاتھوں سپرد کرکے آزاد ہندوستان میں چین کی نیند سو رہی تھیں، علما اپنے مدارس اور خانقاہوں میں واپس چلے گئے تھے، سیاسی رہنما جشن آزادی میں مصروف تھے، تقریبا تین دہائیوں کے بعد جب مسلمانوں کی نیندکھلی تب بہت دیر ہو چکی تھی، اور اچانک سب کچھ تبدیل ہو چکا تھا، ملک کا مسلمان ایک لا چار اور بے بس انسان کی طرح غیروں کے سامنے کاسۂ گدائی لیے کھڑا ہو گیا تھا، اس کے پاس نہ تعلیم تھی اور نا وہ اقتصادی طور پر مضبوط تھا۔ بیو روکریسی سے لےکر تعلیمی محکمے اور عدالتوں اور وکلا سے لےکر ہسپتالوں اور ڈاکٹروں تک مسلمان دوسروں کے محتاج تھے، بمشکل کوئی مسلم اہلکار ان اداروں میں ملتا تھا، ستر اور اسی کی دہائی میں جب مسلمان بیدار ہوئے تو اس وقت بہت سی تحریکیں ابھریں اور تعلیمی بیداری کے عَلم کو بلند کیے لیکن کوئی ٹھوس لائحہ عمل نا ہونے کی وجہ سے وہ تحریکیں بھی وقت کے ساتھ ساتھ تاریخ کے صفحات میں دفن ہوگئیں۔ آج بھی تعلیمی بیداری کی صدائیں بلند ہوتی ہیں لیکن مؤثر عوامل اور منظم منصوبہ بندی نا ہونے کی وجہ سے وہ بھی صدا بصحرا ثابت ہوتی ہیں۔
مدارس اپنی قدیم روایت میں چل رہے ہیں، اسکول اور کالجز میں پڑھنے والوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے کہ یہاں کے طلبا کیا حاصل کر رہے ہیں، ان کا مستقبل کیا ہوگا، آیا وہ مسلمان باقی رہیں گے یا نہیں؟ اس کی کوئی خبر گیری کرنے والا نہیں۔ اور نا ہی کوئی یہ جائزہ لینے کو تیار ہے کہ مدارس پہلے کی طرح مؤثر کیوں نہیں ہیں؟ اور ان کو کیسے مزید بہتر بنایا جائے۔ بالعموم ہم یہ تجزیہ کرنے میں ناکام ہو گئے کہ مسلمانوں کی آئندہ نسلوں کا مستقبل کیا ہوگا، بد قسمتی سے یہ ایک ایسی قومی غلطی ہندوستانی مسلانوں سے سرزد ہوئی جس کا الزام ہم کسی ایک فرد یا مخصوص جماعت کو نہیں دے سکتے، بہت روشن خیال لوگ علما اور مدارس کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں تو اہل مدارس سماج کے روشن خیال طبقہ کو متہم کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں یہ ایک ایسی تاریخی اور قومی چوک ہے جس کی ذمہ دار پوری قوم ہے اور اس کا تدارک تبھی ممکن ہے جب قوم کا ہر فرد سر جوڑ کر بیٹھے اور کوئی منظم لائحہ عمل تیار کرے۔ ایک دوسرے کو متہم کرنے کے بجائے عملی میدان میں قدم رکھے۔
ہمارا لائحہ عمل کیا ہو ؟
اس نئی دہائی میں ہم نہ صرف احتساب کریں بلکہ بلند بانگ نعروں اور تعلیمی بیداری کی تحریکوں سے ایک قدم آگے بڑھ کر عملی میدان میں بھی قدم رکھیں،آئینی طور پر ہمیں خصوصی بورڈ بنانے کا اختیار ہے، پرایویٹ ادارے قائم کرنے اور اپنے طریقے سے چلانے کا حق حاصل ہے، ہم اپنے ان آئینی حقوق کا اسعتمال کرتے ہوئے NCERT کی سطح پر بورڈ بنائیں،جو دینی و عصری نصاب تعلیم کا سنگم ہو،جس طرح دینی تعلیم کے لیے قریہ قریہ مکتب کا ایک جال بچھا ہوا ہے اسے مزید فعال اور مؤثر بنانے کے لیے لائحۂ عمل تیار کریں، اہل خیر کے تعاون سے ایسے پرایویٹ ادارے قائم کیے جائیں جہاں 10 ویں اور 12 ویں تک کی اسلامی ماحول میں تعلیم ہو تاکہ جب طالب علم بڑے بڑے کالجز اور یونیورسٹیز میں جائیں تو ان کے مستقبل کی فکر نا ہو۔
اس کے علاو رحمانی 30 اور زکوۃ فاونڈیشن کے طرز پر پورے ملک میں کوچنگ کے ادارے قائم کئے جائیں،تاکہ قوم کے وہ ہونہار طلبا جو مالی اعتبار سے کمزور ہیں ان کو میڈیکل اور سول سروسز کی تیاری کرائی جائے، مذکورہ اداروں کی کامیابی سے بآسانی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر اس طرح کے کئی اور ادارے ہوں تو ہمارے "تعلیمی بیداری مشن” کے کامیاب ہونے میں بہت زیادہ وقت نہیں لگےگا۔
اس کے علاوہ انتخابات میں جن ایم ایل ایز اور ایم پیز کو ہم منتخب کرتے ہیں ان کو مجبور کریں کہ وہ آپ کے علاقے میں تعلیمی ادارے قائم کریں، اور ذاتی طور پر پڑھے لکھے افراد ان سرکاری اسکیموں کو جو خصوصا تعلیم سے متعلق ہوں انھیں عوام الناس تک پہنچائیں، اپنے علاقہ کے سرکاری اسکولوں کے ذمہ داروں کی باز پرس کریں وہاں بہتر سے بہتر ماحول اور وہاں کی فضا کو علمی بنانے پر زور ڈالیں، یہ کرنا ملت کے ہر فرد کی اجتماعی و انفرادی ذمہ داری ہے تب جا کر ہماری تعلیمی حالت میں کچھ اصلاح ممکن ہے۔ جب تک ہم خود اس کی فکر نہیں کریں گے اس وقت تک تعلیمی، سماجی اور اقتصادی اعتبار سے ترقی ناممکن ہے۔
لہذا ہم اس دہائی کا آغاز اپنے محاسبہ کے ساتھ کریں، ہمارے پاس مضبوط لائحۂ عمل ہو، تعلیمی بیداری کے جلسوں اور اسٹیج سے اتر کر عملی میدان میں قدم رکھیں، تاکہ باطل کی طرف سے کی جانے والی منظم سازشوں کو ناکام کیا جا سکے۔ کیوں کہ جب تک ہم تعلیم سے خود کو آراستہ نہیں کریں گے اسی طرح ذلت و رسوائی ہمارا مقدر بنی رہےگی، یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا-
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
سال کے اختتام پر کیا ہماری زندگی کا ایک سال کم نہیں ہوتا؟-ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی
ہمیں سال کے اختتام پر، نیز وقتاً فوقتاً یہ محاسبہ کرنا چاہئے کہ ہمارے نامۂ اعمال میں کتنی نیکیاں اور کتنی برائیاں لکھی گئیں ۔ کیا ہم نے امسال اپنے نامۂ اعمال میں ایسے نیک اعمال درج کرائے کہ کل قیامت کے دن ان کو دیکھ کر ہم خوش ہوں اور جو ہمارے لئے دنیا وآخرت میں نفع بخش بنیں؟ یا ہماری غفلتوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے ایسے اعمال ہمارے نامہ اعمال میں درج ہوگئے جو ہماری دنیا وآخرت کی ناکامی کا ذریعہ بنیں گے؟ ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہوگا کہ امسال اللہ کی اطاعت میں بڑھوتری ہوئی یا کمی آئی؟ ہماری نمازیں، روزے اور صدقات وغیرہ صحیح طریقہ سے ادا ہوئے یا نہیں؟ ہماری نمازیں خشوع وخضوع کے ساتھ ادا ہوئیں یا پھر وہی طریقہ باقی رہا جوبچپن سے جاری ہے؟ روزوں کی وجہ سے ہمارے اندر اللہ کا خوف پیدا ہوا یا صرف صبح سے شام تک بھوکا رہنا؟ ہم نے یتیموں اور بیواؤں کا خیال رکھا یا نہیں؟ ہمارے معاملات میں تبدیلی آئی یا نہیں؟ ہمارے اخلاق نبی اکرمﷺ کے اخلاق کا نمونہ بنے یا نہیں؟ جو علم ہم نے حاصل کیا تھا وہ دوسروں کو پہنچایا یا نہیں؟ ہم نے اپنے بچوں کی ہمیشہ ہمیش کی زندگی میں کامیابی کے لئے کچھ اقدامات بھی کئے یاصرف ان کی دنیاوی تعلیم اور ان کو دنیاوی سہولیات فراہم کرنے کی ہی فکر کرتے رہے؟ ہم نے امسال انسانوں کو ایذائیں پہنچائیں یا ان کی راحت رسانی کے انتظام کئے؟ ہم نے یتیموں اور بیواؤں کی مدد بھی کی یا صرف تماشہ دیکھتے رہے؟ ہم نے قرآن کریم کے ہمارے اوپر جو حقوق ہیں وہ ادا کئے یا نہیں؟ ہم نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی یا نافرمانی؟ ہمارے پڑوسی ہماری تکلیفوں سے محفوظ رہے یا نہیں؟ ہم نے والدین، پڑوسی اور رشتہ داروں کے حقوق ادا کئے یا نہیں؟
جس طرح مختلف ممالک، کمپنیاں اور انجمنیں سال کے اختتام پر اپنے دفتروں میں حساب لگاتے ہیں کہ کتنا نقصان ہوا یا فائدہ؟ اور پھر فائدے یا نقصان کے اسباب پر غور وخوض کرتے ہیں۔ نیز خسارہ کے اسباب سے بچنے اور فائدہ کے اسباب کو زیادہ سے زیادہ اختیار کرنے کی پلاننگ کرتے ہیں۔ اسی طرح ہمیں سال کے اختتام پر نیز وقتاً فوقتاً اپنی ذات کا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے کہ کس طرح ہم دونوں جہاں میں کامیابی وکامرانی حاصل کرنے والے بنیں؟ کس طرح ہمارا اور ہماری اولاد کا خاتمہ ایمان پر ہو؟ کس طرح ہماری اخروی زندگی کی پہلی منزل یعنی قبر جنت کا باغیچہ بنے؟ جب ہماری اولاد ، ہمارے دوست واحباب اور دیگر متعلقین ہمیں دفن کرکے قبرستان کے اندھیرے میں چھوڑکر آجائیں گے، توکس طرح ہم قبر میں منکر نکیر کے سوالات کا جواب دیں گے؟ کس طرح ہم پل صراط سے بجلی کی طرح گزریں گے؟ قیامت کے دن ہمارا نامہ اعمال کس طرح دائیں ہاتھ میں ملے گا؟ کس طرح حوض کوثر سے نبی اکرم ﷺکے دست مبارک سے کوثر کا پانی پینے کو ملے گا، جس کے بعد پھر کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی؟ جہنم کے عذاب سے بچ کر کس طرح بغیر حساب وکتاب کے ہمیں جنت الفردوس میں مقام ملے گا؟ آخرت کی کامیابی وکامرانی ہی اصل نفع ہے جس کے لئے ہمیں ہرسال، ہر ماہ، ہر ہفتہ بلکہ ہر روز اپنا محاسبہ کرنا چاہئے۔
ہم نئے سال کی آمد پر عزم مصمم کریں کہ زندگی کے جتنے ایام باقی بچے ہیں ان شاء اللہ اپنے مولا کو راضی رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ ابھی ہم بقید حیات ہیں اور موت کا فرشتہ ہماری جان نکالنے کے لئے کب آجائے، معلوم نہیں۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: پانچ امور سے قبل پانچ امور سے فائدہ اٹھایا جائے۔ بڑھاپا آنے سے قبل جوانی سے۔ مرنے سے قبل زندگی سے۔ کام آنے سے قبل خالی وقت سے۔ غربت آنے سے قبل مال سے۔ بیماری سے قبل صحت سے۔ (مستدرک الحاکم ومصنف بن ابی شیبہ) اسی طرح حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن کسی انسان کا قدم اللہ تعالیٰ کے سامنے سے ہٹ نہیں سکتا یہاں تک کہ وہ مذکورہ سوالات کا جواب دیدے: زندگی کہاں گزاری؟ جوانی کہاں لگائی؟ مال کہاں سے کمایا؟ یعنی حصول ِ مال کے اسباب حلال تھے یا حرام۔ مال کہاں خرچ کیا؟ یعنی مال سے متعلق اللہ اور بندوں کے حقوق ادا کئے یا نہیں۔ علم پر کتنا عمل کیا؟ (ترمذی) غرضیکہ ہمیں اپنی زندگی کا حساب اپنے خالق ومالک ورازق کو دینا ہے جو ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔
ابھی وقت ہے۔ موت کسی بھی وقت اچانک ہمیں دبوچ لے گی، ہمیں توبہ کرکے نیک اعمال کی طرف سبقت کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے مومنو! تم سب اللہ کے سامنے توبہ کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ (سورۃ النور ۳۱) اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: کہہ دو کہ اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر رکھی ہے، یعنی گناہ کررکھے ہیں، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ یقین جانو اللہ سارے کے سارے گناہ معاف کردیتا ہے۔ یقینا وہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ (سورۃ الزمر ۵۳) یقینانیکیاں برائیوں کو مٹادیتی ہیں۔ (سورۃ الہود ۱۱۴) یہی دنیاوی زندگی‘ اخروی زندگی کی تیاری کے لئے پہلا اور آخری موقع ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے: یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی پر موت آکھڑی ہوگی تو وہ کہے گا کہ اے میرے پروردگار! مجھے واپس بھیج دیجئے تاکہ جس دنیا کو میں چھوڑ آیا ہوں، اس میں جاکر نیک اعمال کروں۔ ہرگز نہیں، یہ تو بس ایک بات ہے جو وہ کہہ رہا ہے، اب ان سب (مرنے والوں) کے پیچھے ایک برزخ ہے جب تک کہ وہ دوبارہ اٹھائے جائیں۔ (سورۃ المؤمنون ۹۹ و ۱۰۰)
لہٰذا نماز وروزہ کی پابندی کے ساتھ زکوٰۃکے فرض ہونے پر اس کی ادائیگی کریں۔قرآن کی تلاوت کا اہتمام کریں۔ صرف حلال روزی پر اکتفا کریں خواہ بظاہر کم ہی کیوں نہ ہو۔ بچوں کی دینی تعلیم وتربیت کی فکر وکوشش کریں۔ احکام الٰہی پر عمل کرنے کے ساتھ جن امور سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے ان سے باز آئیں۔ ٹی وی اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے اپنے آپ کو اور بچوں کو دور رکھیں۔ حتی الامکان نبی اکرم ﷺ کی ہر سنت کو اپنی زندگی میں داخل کرنے کی کوشش کریں اور جن سنتوں پر عمل کرنا مشکل ہو ان کو بھی اچھی اور محبت بھری نگاہ سے دیکھیں اور عمل نہ کرنے پر ندامت اور افسوس کریں۔ اپنے معاملات کو صاف ستھرا بنائیں۔ اپنے اخلاق کو ایسا بنائیں کہ غیر مسلم حضرات ہمارے اخلاق سے متاثر ہوکر دائرہ اسلام میں داخل ہوں۔
نئے سال کی مناسبت سے دنیا میں مختلف مقامات پر Happy New Year کے نام سے متعدد پروگرام کئے جاتے ہیں اور ان میں بے تحاشہ رقم خرچ کی جاتی ہے، حالانکہ اس رقم سے لوگوں کی فلاح وبہبود کے بڑے بڑے کام کئے جاسکتے ہیں، انسانی حقوق کی ٹھیکیدار بننے والی دنیا کی مختلف تنظیمیں بھی اس موقع پر چشم پوشی سے کام لیتی ہیں۔ مگر ظاہر ہے کہ ان پروگراموں کو منعقد کرنے والے نہ ہماری بات مان سکتے ہیں اور نہ ہی وہ اس وقت ہمارے مخاطب ہیں۔ لیکن ہم مسلمانوں کو اس موقع پر کیا کرنا چاہئے؟ یہ اس مضمون کو لکھنے کا مقصد ہے۔ پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ شریعت اسلامیہ میں کوئی مخصوص عمل اس موقع پر مطلوب نہیں ہے اور قیامت تک آنے والے انس وجن کے نبی حضور اکرمﷺ ، صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، مفسرین، محدثین اور فقہاء سے Happy New Year کہہ کر ایک دوسرے کو مبارک باد پیش کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ اس طرح کے مواقع کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہماری رہنمائی فرمائی ہے: (رحمن کے بندے وہ ہیں) جو ناحق کاموں میں شامل نہیں ہوتے ہیں، یعنی جہاں ناحق اور ناجائز کام ہورہے ہوں، اللہ تعالیٰ کے نیک بندے اُن میں شامل نہیں ہوتے ہیں۔ اور جب کسی لغو چیز کے پاس سے گزرتے ہیںتو وقار کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔ یعنی لغو وبے ہودہ کام میں شریک نہیں ہوتے ہیں، بلکہ برے کام کو برا سمجھتے ہوئے وقار کے ساتھ وہاں سے گزر جاتے ہیں۔ (سورۃ الفرقان ۷۲)
عصر حاضر کے علماء کرام کا بھی یہی موقف ہے کہ یہ صرف اور صرف غیروں کا طریقہ ہے، لہٰذا ہمیں ان تقریبات میں شرکت سے حتی الامکان بچنا چاہئے۔ اور اگر کوئی شخص Happy New Year کہہ کر ہمیں مبارک باد پیش کرے تو مختلف دعائیہ کلمات اس کے جواب میں پیش کردیں، مثلاً اللہ تعالیٰ پوری دنیا میں امن وسکون قائم فرمائے، اللہ تعالیٰ کمزوروں اور مظلوموں کی مدد فرمائے۔ اللہ تعالیٰ شام، برما، عراق اور فلسطین میں مظلوم مسلمانوں کی مدد فرمائے، اللہ تعالیٰ ہم سب کی زندگیوں میں خوشیاں لائے۔ اللہ تعالیٰ ۲۰۱۷ کو اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی کا سال بنائے۔ نیز سال گزرنے پر زندگی کے محاسبہ کا پیغام بھی دیا جاسکتا ہے۔ ہم اس موقع پر آئندہ اچھے کام کرنے کے عہد کرنے کا پیغام بھی ارسال کرسکتے ہیں۔ غرضیکہ ہم خود Happy New Year کہہ کر پہل نہ کریں بلکہ اس موقع پر حاصل شدہ پیغام پر خود داعی بن کر مختلف انداز سے مثبت جواب پیش فرمائیں۔
نئے سال کے موقع پر عموماً دنیا میں سردی کی لہر ہوتی ہے، سردی کے موسم میں دو خاص عبادتیں کرکے ہم اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرسکتے ہیں۔ ایک عبادت وہ ہے جس کا تعلق صرف اور صرف اللہ کی ذات سے ہے اور وہ رات کے آخری حصہ میں نماز تہجد کی ادائیگی ہے۔ جیسا کہ سردی کے موسم کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ سردی کا موسم مؤمن کے لئے موسم ربیع ہے، رات لمبی ہوتی ہے اس لئے وہ تہجد کی نماز پڑھتا ہے۔دن چھوٹا ہونے کی وجہ سے روزہ رکھتا ہے۔ یقینا سردی میں رات لمبی ہونے کی وجہ سے تہجد کی چند رکعات نماز پڑھنا ہمارے لئے آسان ہے۔ قرآن کریم میں فرض نماز کے بعدجس نماز کا ذکر تاکید کے ساتھ بار بار کیا گیا ہے وہ تہجد کی نماز ہی ہے جو تمام نوافل میں سب سے افضل نماز ہے۔
سردی کے موسم میں دوسرا اہم کام جو ہمیں کرنا چاہئے وہ اللہ کے بندوں کی خدمت ہے اور اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ ہم غربا ومساکین ویتیم وبیواؤں وضرورت مندوں کو سردی سے بچنے کے لئے لحاف، کمبل اور گرم کپڑے تقسیم کریں۔ محسن انسانیت کے ارشادات کتب احادیث میں موجود ہیں: میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا دونوں جنت میں اس طرح ہوں گے جیسے دو انگلیاں آپس میں ملی ہوئی ہوتی ہیں۔ (بخاری) مسکین اور بیوہ عورت کی مدد کرنے والا اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔ ( بخاری،مسلم) جو شخص کسی مسلمان کو ضرورت کے وقت کپڑا پہنائے گا، اللہ تعالیٰ اس کو جنت کا سبز لباس پہنائے گا۔ جوشخص کسی مسلمان کو بھوک کی حالت میں کچھ کھلائے گا، اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے پھل کھلائے گا۔ جو شخص کسی مسلمان کو پیاس کی حالت میں پانی پلائے گا، اللہ تعالیٰ اس کو جنت کی ایسی شراب پلائے گا، جس پر مہر لگی ہوئی ہوگی۔ ( ابوداود، ترمذی)
غرض یہ کہ ہم سال کے اختتام پر اپنی ذات کا محاسبہ کرکے اچھے اعمال کی قبولیت کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں، جو فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی ہوئی یا گناہ ہوئے، ان پر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں اور نئے سال کی ابتدا پر پختہ ارادہ کریں کہ زندگی کے باقی ماندہ ایام میں اپنے مولا کو راضی کرنے کی کوشش کریں گے اور منکرات سے بچ کر اللہ کے احکام کو اپنے نبی کے طریقہ کے مطابق بجالائیں گے اور اپنی ذات سے اللہ کی کسی مخلوق کو کوئی تکلیف نہیں پہنچائیں گے ان شاء اللہ ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
رنگین دنیا کا یہ بھی ایک رنگیلا سا شوق ہے31؍دسمبر کی رات دنیا کے کم و بیش 90؍ فیصد لوگ رات کو ایک ساتھ جمع ہوکر گذشتہ سال کو رخصت کرتے اور نئے سال کو خوش آمدید کہتے ہیں۔اس رات کو منانے کی تیاریاں بڑے زور و شور سے کی جاتی ہیں،پہلے پہل یہ لعنت صرف خواص ہی میں پائی جاتی تھی؛لیکن اب سماج کے امیر و غریب دونوں طبقے اس میں ڈوبے نظر آرہے ہیں۔ہماری دوڑتی بھاگتی ممبئی میں بھی اس رات جیسے عام زندگی تھم سی جاتی ہے،رنگ و خوشبو کا ایک سیلاب سا امنڈ آتا ہے،شہر کا ساحلی علاقہ،سمندری جہاز، ہوٹل، پارک، میدان، اونچی عمارتوں کی چھتیں، حتیٰ کہ سڑکیں تک باقی نہیں چھوڑی جاتیں، جہاں پر اس رات کودل فریب بنانے کا سامان نہ کیا گیا ہو۔پیشہ ور رقاصائیں،فلمی اداکار،ناچنے گانے والوں کا ہر طبقہ اس میدان میں اپنے جلوے بکھیرنے کواتر پڑتا ہے اور ملک کے امرا منہ مانگے دام لگا کر ان کے پروگرام طے کرتے ہیں۔
سالِ نو منانے کی اس لعنت نے آہستہ آہستہ اسلامی روایات کے پاسدار لوگوں کو بھی اپنی زد میں لے لیا ہے،دکھ صرف یہی نہیں ہے، اس سے بھی بڑھ کر یہ ہے کہ ہماری پڑھی لکھی باشعور نوجوان نسل بھی اغیار کے منحوس سایے میں اپنے لیے آسرا تلاش کرنے لگی ہے،جبکہ اس سے ہماری امیدوں کی مشعل روشن ہے،ملک و ملت کی سر براہی انہی کے ہاتھو ں میں تو ہے،اپنے بڑوں کے آدھے ادھورے خاکوں میںیہ رنگ بھرے گی،مگر افسوس کا مقام ہے کہ ان ’’شاہین صفت بچوں‘‘ کی اٹھان ہی اتنی کمزور ہے کہ ان کی نظروں میں کوئی بڑا مقصد نہیں ،نہ ہی انہیں اپنے مقصدِ حیات سے واقفیت ہے؛ لہذا ان سے کوئی امید نہیں باندھی جا سکتی ۔ حال یہ ہوتا ہے کہ محض چند گھنٹوں کی رات کا جشن منانے کے لیے اربوں روپے خرچ کر دیے جاتے ہیں،کروڑوں کی ڈشز دستر خوان پر پڑی پڑی کچرے کے انبار تک پہنچ جاتی ہیں،یہ ایک ایسی کالی رات ہوتی ہے، جس میں بظاہر لاکھوں رعنائیاں اور رنگینیاں ہوتی ہیں ؛لیکن باطنی طور پر انسانیت کو شرمسار کرنے والے حقائق ہیں۔ اس کے لیے زنا کاری کے اڈے سجائے جاتے ہیں اور پھر کئی جوانیاں راضی برضا قربان بھی ہوجاتی ہیں،جبکہ کچھ بڑے بڑے امرا و رؤسا کی ناجائز خواہشات کا نوالہ بنا دی جاتی ہیں،شراب،چرس،گانجہ ،افیون اور دنیا کی مہنگی ترین منشیات کی در آمد و بر آمد اس مہینے میں سب سے زیادہ کی جاتی ہے،اس رات میں طبلے کی تھاپ پر جوانیاں رقص کرتی ہیں اور لڑکے و لڑکیاں اخلاق و شرافت کی ساری حدوں کو پار کررہے ہوتے ہیں،انجوائمنٹ کے نام پر اس رات نہ جانے کتنی عصمتیں داغدار ہو جاتی ہیں۔
غور کرنے کا مقام ہے کہ اس چھوٹی سی رات کو منانے کے لیے اس قدر انتظامات!لیکن کبھی ہمارے ذہن میں اس دن کے لیے کچھ کرنے کا خیال ذہن میں آیا، جس کی میعاد کی کوئی انتہا نہ ہوگی، نہ جانے کب تک ہم اللہ کے سامنے جزاو سزا کے لیے کھڑے رہیں گے۔مسلمانو!اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ اسلامی تہذیب کی بذاتِ خود ایک مکمل اور جامع تہذیب ہے اور اللہ کے رسول ﷺ کی ذات بطور نمونہ ہمارے لیے ایک مکمل گائیڈنس ہے، پھر بھی ہمارے گھرانوں میں اغیار کے اطوار کا فروغ کیوں ہے؟
انسان کبھی غور تو کرے،وقت کی سوئی مسلسل چلتی جا رہی ہے،زندگی کے شب و روز بڑی تیزی سے بھاگ رہے ہیں،سال مہینے کی طرح،مہینے ہفتے کی طرح،ہفتے دنوں جتنی تیزی سے گذرتے جارہے ہیں، دیکھا جائے، تو ان میں بظاہر کو ئی بڑی بات نہیں ہے۔ہر وقت گزرنے کے ساتھ اپنی قدر کھو دیتا ہے ؛لیکن ایک مومن بندے کے لیے اس کی زندگی کی گھڑیاں،اس کے خالی اوقات اس کے لیے برکت اور خیر کا پیغام لاتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’پس جب تو فارغ ہو ،تو عبادت میں محنت کراور اپنے پروردگار ہی کی طرف دل لگا‘‘۔
ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہماری زندگی کی معراج ہی یہی ہے کہ اپنے فارغ اوقات کو اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے اور اس کی مخلوق کے بھلائی کے کاموں میں صرف کریں،نہ کہ عیش پرستی میں ہماری قیمتی عمر ضائع ہو جائے ہمارے لیے ہر وہ لمحہ قیمتی ہے، جس میں ہمارے دل میں قوم و ملت کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ بیدار ہو جائے،جس میں ہماری فکرو نظر کی دنیا آباد ہو جائے، دل سے تاریکیاں مٹ جائیں، گناہوں کی بدلی چھٹ جائے اور بندۂ مومن اپنے رب کی رحمت کی تلاش میں لگ جائے،در حقیقت وہی پل، وہی ساعت سب سے حسین ہے ،جس میں دل سے گناہوں کا جمود ٹوٹتا ہے اور اللہ اور اس کی مخلوق کی محبت جاگ اٹھتی ہے ورنہ کوئی دن یاکوئی رات بذات خود کوئی وصف نہیں رکھتے۔اللہ کے رسول ﷺکی وہ حدیث بڑی اہم ہے، جسے ابو بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ فرمایا:’’سب سے اچھا انسان وہ ہے، جس نے لمبی عمر پائی اور اس میں نیک کام انجام دیے اور سب سے برا وہ ہے، جس نے لمبی عمر پائی اور اس میں برے کام کیے‘‘۔(صحیح الجامع:۷۹۲۳)حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ ہماری زندگی اللہ کی دی ہوئی امانت ہے ؛اس لیے یہ زندگی بھلائی کے کاموں میں ہی صرف ہونی چاہیے ،ورنہ زندگی خود انسانوں پر عذاب بن جائے گی۔
جشنِ سالِ نویہود و نصاریٰ کی فکری یلغار ہے ،جو اپنے افکار و نظریات،طرزِ زندگی، ذرائعِ ابلاغ کے ذریعے ہم تک پہنچاتے رہتے ہیں،سوال یہ ہے کہ انسانوں کی بھوک و افلاس پر تجارت کرنے والے کتوں کو امپورٹڈ بسکٹ کھلانے والے یہ روشن خیال لوگ کب سے ہمارے لیے نمونۂ حیات بن گئے؟
مسلمانوں کو کنزر ویٹو اور دقیانوسی کہنے والے اس مہذب سماج نے اپنی پوری شرافت کے ساتھ تین لوگوں کے ساتھ وہ شرمناک معاملہ کیا ،جس کی گواہ پوری دنیا بن گئی۔
2008ء میں ممبئی کے ایک پانچ ستارہ ہوٹل سے تین افراد (میاں،بیوی، بہن)نیا سال مناکر رات ایک بجے باہر نکلے،پہلے کچھ اوباشوں نے دونوں خواتین کو چھیڑا،پھر آہستہ آہستہ چھیڑنے والوں کی تعداد بڑھتی گئی،شوہر بیوی اور بہن کے بچاؤ کے لیے چیختا چلاتا رہا؛ لیکن کسی نے نہ سنا،مجمع میں دو تین فوٹو گرافر بھی تھے ؛لیکن وہ تصاویر لینے میں مصر وف تھے،بالآخر کچھ دیر بعد پولیس آئی اور پھر پچاس نا معلوم افراد کے خلاف کیس درج کیا گیا۔
خود کو روشن خیال سمجھنے والوں کا یہ بے حد گھناؤنا چہرہ ہے،سیکڑوں کی بھیڑ میں پچاس مرد دو عورتوں کی عصمت تار تار کرنے پر لگے ہو ئے تھے اور ساری بھیڑ خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی۔واقعہ کی یاد دلانے کا مقصد ہے کہ ایسی جشن کی راتوں میں جب کوئی لڑکی،عورت اپنے محرم کے ساتھ محفوظ نہیں ،تو پھر جو لڑکیاں تن تنہا ایسی مجلسوں میں انجوائے کرنا چاہتی ہیں ،ان کا انجام تو نا قابلِ تصور ہے۔
گزرتا سال زندگی کے ایام کم کر جاتا ہے؛ اس لیے یہ موقع تالیاں پیٹنے،گلے ملنے،دعوتیں اڑانے کا نہیں،رقص و سرور میں مدہوش ہونے کا نہیں ؛بلکہ خود احتسابی کا ہے کہ انسان اپنی ماضی کی غلطیوں پر تائب ہو اور آئندہ کے لیے خود کو از سرِ نو تیار کرے، پچھلے تجربات سے فائدہ اٹھانے کا موقع ہے؛ تاکہ ترقی کی راہ میں رکاوٹوں کو دور کیا جا سکے۔
جس ہستی کے نام کا کلمہ ہم پڑھتے ہیں ،جس کی محبت کے بلند و بانگ دعوے کیے جاتے ہیں، کیا ان کی زندگی کے اس پہلو پر غور کرنے کی کوشش کی گئی کہ اللہ کے رسول ﷺ نے کیسے اور کہاں صرف کیا؟ہمارے سامنے آپ کی مکی اور مدنی دونوں زندگیاں ہیں، ہم اسے اپنے لیے بطور نمونہ منتخب کریں،آپ ﷺ کی زندگی کا ہر آن،ہر لمحہ،ہر وقت صرف اللہ کے دین کے قیام پر خرچ ہوا،ہجرت جیسا عظیم دن آپ ﷺ کی زندگی میں آیا، مکہ چھوڑ کر جاتے ہوئے بھی اللہ کے رسول ﷺ نے نہ توگزرے ہو ئے دنوں پر سوگ منایا، نہ ہی بعد میں کبھی مدینہ کی امارت کو اپنے لیے فخر کا ذریعہ بنا کر جشن منایا،آپ ﷺ نے اپنے اصحاب کو بھی یہی تربیت دی اور وہ پوری زندگی نبی ﷺ کے مطیع و فرماں بردار بنے رہے۔اپنی کامیابیوں پر رقص و سرود کی مجلسیں سجانے کے بجائے اللہ کے ذکر کی،دینی تعلیم و تربیت کی مجلسیں قائم کرتے، ایک دوسرے کو لغو و بے کار خوشیوں کے پیغامات دینے کے بجائے وہ اپنی خوشیوں اور نعمتوں پر ایک دوسرے کو اللہ کے محاسبہ سے ڈراتے اور اللہ کے حکم کے مطابق زندگی بسر کرنے کی تلقین کیا کرتے۔ اس عظیم الشان جماعت نے انجان دیس، اجنبی لوگوں کے درمیان الفت ومحبت کی مثال قائم کردی۔
ہماری عقلوں پر عجیب پردہ سا پڑا ہوا ہے، ہم غیرو ں کی گندگیوں کو تواپنائے ہوئے ہیں؛ لیکن کبھی ان کی مضبوط اقتصادی و تعلیمی زندگی پر دھیان نہیں دیتے ،ان کی کامیابیوں کی وجہ تلاش نہیں کرتے،ہم دیکھیں کہ امریکہ نے جب جاپان پر ایٹم بم گراکر اسے مفلوج کردیا تھا، پھر کیا ہوا؟محض کچھ سالوں بعد اپنی انتھک کوششوں سے جاپان نے اپنے سارے نقصانات کی بھر پائی کر ڈالی اور آج جاپان کیا ہے، ہم سب جانتے ہیں۔اسی طرح دوسری جنگِ عظیم کے بعد اتحادیوں نے جر منی کا جو برا حال کیا تھا، اس کے بعد دنیا کے سبھی ماہرین کے لیے یہ نا قابلِ تصور بات تھی کہ جرمنی اب شاید کبھی ابھر پائے؛لیکن محض چند ہی سالوں میں دوبارہ اپنی پرانی شان و شوکت،علمی اور عملی قوت کے ساتھ ابھر پڑا،انہوں نے ہماری طرح اپنے اوقات جشن منا منا کر بر باد نہیں کیے، اپنے تباہ شدہ حالات کوبہترکرنے کاعزم کیااور پھر ساری قوم ایک ساتھ مل کر روزانہ اپنے ذاتی اوقات سے دو دو گھنٹے بلا معاوضہ کام کرتی رہی، یہاں تک کہ اس نے دنیاکے سامنے پھر سے اپنا کھویا ہوامقام حاصل کرلیااور ہمارا کیا حال ہے؟ہم نہ تو دین کے رہے اور نہ دنیا کے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی اپنی اصلاح کی توفیق سے نوازے۔ (آمین)
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
میں تصور نہیں کر سکتا کہ کوئی دنیا کیا اس قدر خراب ہو سکتی ہے ؟ کیا حقیقت میں وائرس تھے ؟ یا دنیا کو بے وقوف بنانے کا سلسلہ سپر پاور ممالک نے شروع کیا ؟ اب مجھے احساس ہوتا ہے کہ وائرس کو علامت بنا کر ملک میں ایک خوفناک کھیل کی بنیاد رکھی گئی اور اب بھی ، جب ان فائلوں کو غائب کیا جا رہا ہے ، جو آنے والے وقت میں حکمران طبقوں کو پریشان کر سکتی ہیں، یوگی کی فائلیں گم کہ آئندہ اتر پردیش میں کوئی حکومت غلطی سے آ جائے تو یوگی پر کوئی جرم بھی ثابت نہ کیا جا سکےـ سنگیت سوم جیسے زہریلے لوگوں کی فائلیں بند ہو رہی ہیں ـ یہ کام حکومت کے دو افراسیاب جادوگر پہلے ہی انجام دے چکے ہیں،مگر فائلیں کیوں گم کی گئیں ؟عدالتی سطح پر جرائم پیشہ لوگوں کو بری کیوں کیا گیا،ان سب کا جواب ہے کہ بڑی طاقتیں اب بھی خوف زدہ ہیں اور اب کسانوں نے مسلمان اور دلتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر جو پیغام دیا ہے ، وہ پیغام حکومت کی حکمت عملی کےخلاف جنگ کا بگل ہےـ آزادی کے بعد یہ پہلی حکومت ہے جو بدنامی، رسوائی ، جہالت کا تمغہ لگائے شٹر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپائے بیٹھی ہے اور پورا ملک ، ملک کی زمینیں، یہاں تک کہ کسان بھی امبانی ادانی کے ہاتھوں فروخت کر چکی ہےـ ہلاکت ، خوں ریزی،جنگ عظیم کی وحشتوں کے درمیان بھی انسانی سفر ختم نہیں ہوتا،دھول کی چادر میں لپٹی ہوئی زہریلی گیس تیزی سے ہماری طرف بڑھ رہی ہے، یہ ہماری اس نئی دنیا کا سچ ہے،جہاں تمام تر اقدامات کے باوجود ماحولیات کے تحفظ میں ہم ناکام رہے ہیں۔ ایک ایسی دنیا اور سیاسی نظام سامنے ہے جہاں پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے خوفناک اثرات کو دیکھتے ہوئے کتنی ہی امن پسند تنظیموں کو یہ ذمہ داری دی گئی کہ تیسری جنگ عظیم کی صورتحال کو پیداہونے سے روکا جاسکے۔ آج انسانی حقوق و تحفظ سے وابستہ تنظیمیں لاچارہیں اور ہم آہستہ آہستہ جنگی کہرے میں گھرتے جارہے ہیں۔ صیہونی فوجیوں کی انتقامی کارروائی، میانمار کے مظالم، روہنگیائی مسلمانوں کی بربادی، کابل میں مسلسل ہونے والے خودکش حملے، شام اور فلسطین میں ہونے والی انہدامی کارروائی، ہندوستان میں سیاہ چوغہ کا غلبہ اور مصنوعی مور سے جاری ہونے والا خون ، اقلیتوں کے لئے نفرت کا کھلا اظہار ، چین، جاپان، امریکہ اور روس کی حکمت عملیاں ـ غور کریں تو سیاسی میزائل تاناشاہوں کے حرم سے باہر نکل کر ایک دوسرے پر یلغار کررہے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اس بات سے واقف ہیں کہ عالمی سیاست پر آہستہ آہستہ جنگ عظیم کے خطرات منڈرانے لگے ہیں۔
جواب لکھا جارہا ہے /وہ اسی کہرے سے برآمد ہوا ہے۔
جو لفظ ابھی وجو د میں نہیں آیا /وہ اسی دھند سے عالم وجود میں آئے گا۔
سوچنا ضروری ہے کہ یہ خوفناک وحشتیں، ہمیں کہاں لے کر آگئی ہیں اور اس کا انجام کیا ہوگا۔؟نئی صدی کے بیس برسوں میں ایک دنیا تبدیل ہوچکی ہے۔ سیاست، ثقافت، مذہب، معاشرہ، مرد اور عورت کے تعلقات، بچوں کے مزاج، ہر جگہ بڑی تبدیلیاں دیکھی جاسکتی ہیں۔ ستر برسوں کی سیاست پر مذہبی رنگ حاوی ہے ۔ عدم برداشت اور عدم تحمل پر بحثیں ہوئیں۔ یہ نئی تہذیب کا المیہ ہے۔ جس کی پیشین گوئی برسوں پہلے ہرمن ہیسے نے اپنے مشہور زمانہ ناول ڈیمیان میں کی تھی۔”پرانی دنیا کا زوال نزدیک آرہا ہے۔ پرندے مررہے ہیں“۔ اس وقت سب سے بڑا حادثہ یہی ہے کہ انسان مہاجر پرندہ بن چکا ہے۔ آسمان سے زہریلی گیس برس رہی ہے۔ پرندرے مسلسل ہلاک ہورہے ہیں۔ اور ہم فنتاسی کی بد ترین دنیا میں قدم رکھ چکے ہیں . ایک حکمران ٹیگور کی طرح داڑھی بڑھاتا ہے مگر ایک مسلم پولیس انسپکٹر کا داڑھی رکھنا جرم ثابت ہوتا ہے . ہندو کسانوں کو لنگر کھلانے کی اجازت ہے اور مسلمانوں کو زعفرانی پولیس حقارت سے روکنے کا کام کرتی ہے . شہلا ، عمر ، شرجیل پر آزادی کی دیواریں بند کر دی جاتی ہیں اور سوم سنگیت ، راگنی تیواری ، کپل مشرا آگ بھڑکانے کے باوجود جشن زعفرانیت میں ڈوبے نظر آتے ہیں . قبر سے نکال کر مسلم عورتوں کا ریپ کرو ، کہنے والا یوگی ملک کی سب سے بڑی ریاست کا سر براہ بن جاتا ہے ، اور وائرس کا ٹھیکرا کمزور ، معصوم تبلیغی جماعت کے لوگوں پر پھوڑا جاتا ہے . فنتاسی .اذیت ناک فنتاسی . تاریخ کے خوفناک چہرے۔ میںتاریخ کی کتابوں سے ایک صفحہ پلٹا ہوں اور حیران رہ جاتا ہوں . ۔ مجھے وہ گھوڑ سوار نظر آئے جو شمشیریں لہراتے ہوئے خلا میں کھو گئے تھے۔ یہاں وہی چہرہ تھا، جسے میں نے خانقاہ میں دیکھا تھا۔ راسپوتین۔ میں نے دیکھا، وہ تصویر میں ہنس رہا تھا۔ میں نے نگاڑوں کی آواز سنیں۔ وہی آوازیں جو خانقاہ میں سنائی دی تھیں۔ اور راسپوتین نے کہا تھا۔ فوجی جنگ کی مشق کررہے ہیں اور مقدس گناہ نے میرے اندر کچھ مخفی اور پُر اسرار قوتیں رکھ دی ہیں۔ افراسیاب ہنس رہا تھا۔ یاد کرو، میں نے کیا کہا تھا۔ سلطنتیں تباہ ہورہی ہیں۔ کوئی ہے جس نے میرا چہرہ پہن لیا ہے… اور میں نے بھی کبھی کسی کا چہرہ پہنا تھا۔مقدس گناہوں نے تمہیں میری طرف بھیجا ہے۔ مضبوط لکڑی کا ایک مربع نما ٹکڑا پانی کے ساتھ بہتا بہتا میرے پاس آگیا ہے۔ میں اس وقت تیز بُو محسوس کررہا ہوں اور یہ بو اسی لکڑی کے ٹکڑے سے آرہی ہے۔راسپوتین۔ میں دو تین بار اس لفظ کو دہراتا ہوں۔ مجھے ہر بار وہ چہرے بدلتا ہوا نظر آتاہے۔مجھے اس کے قہقہے اس ملک کے دریا،سمندراور پہاڑوں میں گونجتے ہوئے نظر آتے ہیں… اور نخلستانوں میں۔ میں بہت دنوں بعد ریت کی آندھیوں کی زد میں ہوں۔ میں بھاگتا ہوں اور اڑتی ہوئی ریت میں اس کے خوفناک چہرے کو محسوس کرتا ہوں۔ اب میں صحرا سے دور نکل آیا ہوں مگر وہ چہرہ بدستور میرے سامنے ہے۔ میں خلا میں اس چہرے کو محسوس کرتا ہوں اور مجھے خوف کا احسا س ہوتا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ یہ چہرہ دیکھتے ہی دیکھتے خلا میں پھیل گیا ہے اور اس کے منہ سے نکلتی ہوئی بدبو دار سانسیں خلا میں جمع ہورہی ہیں۔پھر میں نے سڑک پر افراتفری کا ماحول دیکھا۔ ایک جم غفیر تھا، جو بھاگ رہا تھا۔ گاڑیاں ہوا میں اچھل رہی تھیں۔ہجوم چیخ رہا تھا…. وائرس….اور دیکھتے ہی دیکھتے سڑک ویران ہوگئی۔ جابجا لوگ گرے ہوئے تھے۔ پتہ نہیں زندہ تھے یا مردہ۔یا اس خوفناک چہرے کے منہ سے نکلتی ہوئی بدبودار سانسوں کے شکار۔ مگر مجھے یاد ہے، جب اس کے جبڑے کھلے تھے…. اور بدبودار سانسیں باہرنکلی تھیں، اس وقت آتش فشاں پہاڑوں سے آگ کی موجیں اٹھ رہی تھیں۔ سمندر گرج رہا تھا۔ گلیشیر ٹوٹ رہے تھے اور پگھل رہے تھے…. اور زمین پر گاڑیاں ہوا میں اچھل رہی تھیں۔….. کیا یہ فنتاسی ہے ؟
یہ سب حقیقت کہ ہم نے ٢٠٢٠ کو کلینڈر میں دفن دیکھا ہے . ٢٠٢١ میں ہم ٢٠٢٠ کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھیںگے . ٢٠٢٠ ، مردہ خانے میں عورت کا آخری صفحہ لکھتے ہوئے میں مغموم تھا ، کہ وقت کی کتاب میں انسانیت کا آخری صفحہ لکھا جا رہا ہے . ہم پیچھے پلٹ کر نہ دیکھیں لیکن اس نیی صوبۂ کا آغاز ضرور کریں ، جہاں نہ ہٹلر ہو ، نہ چنگیز ، نہ راسپتن ہو ، نہ سیاہ چوغہ والا فرقہ پرست .مرے چارہ گر کو نوید ہو صف دشمناں کو خبر کرو ..جو وہ قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چکا دیاـ
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
سیکولر پولیٹکس یا آئیڈینٹیکل پولیٹکس؟ کشمکش کا شکار ہندوستانی مسلمان ـ مسعود جاوید
میرے خیال میں اس بار ملی قیادت نے الیکشن کے تناظر میں سردمہری سے کام لیا اسے بہت زیادہ خوش آئند تو نہیں تجرباتی طور پر مناسب اقدام کہا جاسکتا ہے۔ ویسے بھی راۓ دہندگی ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے اور کسی جمعیت کے صدر یا سکریٹری ،جماعت کے امیر یا منتظم ، شاہی مسجد کے امام یا متولی ، خانقاہ کے پیر اور مزارات کے سجادہ نشین کا فرد کی آزادی میں دخل انداز ہوکر اپنے فرمان کے ذریعے راۓ دہندہ کو متاثر کرنا اس کے حق رائے دہی اور خود مختاری کو سلب کرنے کے مترادف ہے اور وہ اتنا ہی غلط ہے جتنا کسی راۓ دہندہ کو مال و زر یا اسباب cash or kind کے عوض ووٹ خریدنا۔ دارالعلوم دیوبند نے اپنے ایک فتویٰ میں کسی امیدوار سے مالی وغیر مالی منفعت کے عوض ووٹ حاصل کرنے کو رشوت لینے اور دینے کے زمرے میں رکھتے ہوئے ناجائز کہا ہے۔ الراشی والمرتشی کلاھما فی النار۔
تاہم ملک و ملت کے اعلیٰ مفادات میں عوام کو ووٹنگ پیٹرن بتانا، توقعات و خدشات کے بارے میں باخبر کرنا سول سوسائٹی اور ملت کے اس فیلڈ کے ماہرین( علماء و دانشور) کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔
ملت کے ان دو گروہوں ؛ ( دینی درسگاہوں سے نکلے ہوئے باخبر علماء اور عصری دانشگاہوں سے نکلے ہوئے سیاسی و سماجی طور پر متحرک دانشوران )
کے درمیان جو خلیج ہے اسے پاٹنے کی سخت ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے کا نقصان، ملت کے سیاسی اور سماجی امور سے وابستہ ہر معاملے میں جہاں اجتماعیت کی ضرورت ہوتی ہے، نظر آتا ہے۔ حالیہ بہار الیکشن کی انتخابی مہم سے پہلے اور دوران , ملت کے افراد کی ذہن سازی کرنے کی ضرورت تھی کہ کس کس پارٹی کو کن وجوہات کی بنا پر ووٹ کرنا بہتر ہوگا اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں کس طرح کے خدشات ہیں۔ ظاہر وہ کسی مخصوص پارٹی کے حق میں نہیں بلکہ ایک کامن گائیڈ لائن ہوتی تاکہ ووٹرز اپنی پسند کی پارٹیوں کا تعین کر سکیں اور انتخابی سیاست میں ملت کے سرگرم افراد ملی مسائل کو ان پارٹیوں کے انتخابی منشور میں شامل کرا سکیں۔ یہ جب ہی ممکن ہوگا جب ملت کے دونوں گروہ علماء و دانشور ایک دوسرے کی اہمیت کا احساس کریں اور اپنے اقوال وافعال سے آپس میں اعتماد بحال کریں۔ المیہ یہ ہے کہ بہت سے دانشور حضرات خود کچھ کرتے نہیں مگر جو لوگ کرتے ہیں ان پر بسا اوقات بے جا تنقیص اور بعض اوقات بجا تنقید کرتے ہیں۔ تنقید اور تنقیص سے اوپر اٹھ کر ایک دوسرے کے لئے مکتمل بننے کی ضرورت ہے۔
یہ ضرورت بہار الیکشن سے قبل کی نہیں تھی اور نہ بعد میں بنگال اور اپر پردیش کے لئے ہے۔ بلکہ ایک دائمی ضرورت ہے۔ پچھلے چند سالوں میں سیاست بالخصوص انتخابی سیاست میں مسلمانوں کو بے وقعت بنانے کی روش شروع ہوئی ہے اس کے پیش نظر ایک مکمل لائحہ عمل تیار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ تاکہ عمومی طور پر مسلمانوں کا ذہن ہر طرح کے کنفیوژن سے پاک رہے۔ مثال کے طور پر دستور میں دیۓ گۓ حقوق کے تحت جب کسی پارٹی کی تشکیل ہوئی اور اس کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے بعد الیکشن کمیشن آف انڈیا نے اس سیاسی پارٹی کو تسلیم کیا اور الیکشن لڑنے کا اہل قرار دیتے ہوئے سمبل دیا تو اس پارٹی کے خلاف ہفوات بکنا اسے فرقہ پرست کہ کر مطعون کرنا اور الیکشن لڑنے سے روکنے کی کوشش کرنا قانوناً درست نہیں ہے۔ ہاں ووٹرز کو اگر کسی مخصوص پارٹی میں خامیاں نظر آۓ تو ووٹرز آزاد ہیں ایسی پارٹی کو ووٹ دے یا نہ دے۔
اس لئے ضروری ہے کہ علماء و دانشور طبقے کے ارباب حل و عقد دیانت داری سے اپنی رائے دیں کہ اگر کسی مخصوص پارٹی کو ووٹ کرنے سے غیر مسلم طبقے کی صف بندی ہو سکتی ہے تو مسلمانوں کا یہ تھینک ٹینک اور مسلم لیڈرز نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے ساتھ تصادم کی بجائے الائنس کے لئے راضی کرائےـ
در اصل پچھلے چند سالوں سے ہندوستانی مسلمان دوراہے پر کھڑا ہے یا حالات نے لاکھڑا کیا ہے۔
جب ملک کی سب سے زیادہ طاقتور پارٹی مسلمانوں کو انتخابی سیاست میں عملا بے وقعت بنانے کی راہ پر چلی تو چونکہ انتخابی سیاست میں سر گنے جاتے ہیں۔اصول کی بہ نسبت تعداد کی زیادہ اہمیت ہوتی اس لئے دوسری نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے بھی مسلمانوں کو امیدوار بنانے اور ٹکٹ دینے میں معقول اور غیر معقول عذر کا سہارا لیا۔ ایک عذر ہے عدم قبولیت non acceptability یہ عذر اس وجہ سے معقول ہے کہ اب پارٹی کے نام پر کم اور امیدوار کی ذات اور مذہب کے نام پر زیادہ ووٹ کۓ جاتے ہیں۔ یہ کئ انتخابات کا ذاتی مشاہدہ ہے کہ راجد کے ریاستی یا ضلعی صدر یا سکریٹری اگر مسلم امیدوار ہے تو یادو کا ووٹ مسلم امیدوار کی بجائے کسی بھی پارٹی عموماً بی جے پی کی طرف شفٹ ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے مسلمان کا صرف مسلمانوں کے ووٹ سے جیت حاصل کرنا ممکن نہیں ہے اور غیر مسلموں کے ووٹ ملنا اصولاً ممکن ہوتا ہے عملاً نہیں۔ اسی پر دوسرا عذر مرتب ہوتا ہے مسلم امیدوار کی جیت کے عدم امکان یعنی non winnablity .. اس لئے سیکولر پارٹیوں کے مطمح نظر جب کسی بھی قیمت پر اقتدار حاصل کرنا ہو تو مسلم امیدوار کو ٹکٹ دے کر رسک کیوں لے !
لیکن اگر یہ سیکولر پارٹیاں مسلم نمائندگی کے بارے میں واقعی سنجیدہ ہوتیں تو اپنے کیڈر کو تاکید کرتیں کہ پارٹی کا امیدوار پارٹی کا امیدوار ہے خواہ اس کی ذات برادری اور مذہب کچھ بھی ہو۔
ان حالات میں مسلمان اس کشمکش کا شکار ہے:
١- بہتر نمائندگی کے لئے اگر اپنی الگ پارٹی یا آئیڈنٹیکل پولیٹیکس کرتے ہیں تو غیر مسلم تو غیرمسلم خود مسلمانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ اس پارٹی کو دوسری مسلم لیگ کا نام دے کر شدید مخالفت کرتے ہیں۔
٢- اگر نام نہاد سیکولر پارٹیوں کی حسب معمول تائید کرتے رہے تو نہ صرف ایوانوں میں نمائندگی میں کمی ہو رہی ہے بلکہ مسلم ایشوز پر نام نہاد سیکولر پارٹیاں منہ کھولنے سے بھی کتراتی ہیں مبادا ان پر مسلم منہ بھرائی کا الزام نہ لگ جائے۔
کیا مسلمانوں کا کوئی تھینک ٹینک ہے اگر ہے تو وہ اس کشمکش سے باہر نکلنے کا راستہ دیکھا سکتا ہے۔۔۔ کوئ بیچ کا ایسا راستہ جس سے ہماری سیاسی نمائندگی بھی ہو اور فرقہ پرستی کا الزام بھی نہ لگے۔
ممکن تو ہے مگر افسوس پولیٹیکل سائنس کے ماہرین، پروفیسر حضرات ، سیاسی تجزیہ نگار، صحافی اور سابق جسٹس صاحبان اور نامور وکلاء یا تو خاموش رہتے ہیں یا اپنی مجلسوں میں بیٹھ کر دوسروں میں عیب نکال کر ان پر تنقید کرتے ہیں ۔ مثبت تنقید کا استقبال ہونا چاہئے لیکن عیب جو دانشوران کام کو صحیح سمت دینے میں اپنا بھی یوگدان دیں۔ ملی کام کسی کی جاگیر نہیں ہے اور نہ کسی ذات برادری طبقے کا اس پر مونوپولی ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
اس میں کوئی شک نہیں کہ خالق عالم جل جلالہ وعم نوالہ نے محسن انسانیت ، رحمت عالم ، شاہکار قدرت حضور سرور کونین ﷺ کو وہ بلند وبرتر ، عالی و شامخ ،عظیم و رفیع مقام عطا فرمایا ہے جس کا عقل نہ تو ادراک کر سکتی ہے اور نہ ہی زبان اسے بیان کر سکتی ہے ۔
آپ ﷺ کی عظمت ورفعت کے آفتاب و ماہتاب توریت ، زبور، انجیل ، قرآن کریم اور ان کے علاوہ تمام صحف سماویہ وکتب الٰہیہ میں چمکتے دمکتے نظر آ رہے ہیں۔
وہ تمام کمالات جو تمام انبیائے کرام و رسل عظام علیہم الصلوٰۃو السلام میں الگ الگ تھے اﷲ تعالی نے ان سب کو رسول اﷲ ﷺ میں جمع فرما دیا اور اس کے علاوہ ان کمالات اور خوبیوں سے نوازا جس میں کوئی آپ کا شریک و سہیم نہیں۔
ان تمام کمالات و خصائص میں سے ایک خصوصیت و کمال آپ کا رحمۃ للعالمین ہونا بھی ہے ، یوں تو رحمۃ للعالمین کا لفظ بہت مختصر ہے مگر اپنے دامن میں پوری کائنات لیے ہوے ہے، اس وصف میں آپ صلی اﷲعلیہ و سلم کی عظمتوں اور رفعتوں کا جو اظہار ہے وہ پوشیدہ نہیں ، اس میں نہ زمان کی قید نہ مکان کی نہ ہی یہ کسی وصف سے مقید ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ تمام مخلوقات ہر زمان و ہرمکان میں ہر طرح سے آپ کے رحمت کی محتاج ہیں اور کوئی بھی آپ کی رحمت سے مستغنی نہیں ہو سکتا اور یہ حقیقت ہے کہ پوری کائنات آپ کی رحمت کے گھنے سائے میں بڑے اطمینان و سکون کے ساتھ اپنی زندگی کے ایام گزار رہی ہے۔
آپ کے رحم وکرم ،فضل و احسان کی بارش سب پر ہوئی ،خوب ہوئی اور ہو رہی ہے ، کوئی بھی اس سے محروم نہیں ، بنی نوع انسانی بھی اس سے محروم نہیں بلکہ اس پر تو رسول اﷲ ﷺ کے اتنے کثیر احسانات ہیں جن کو ہم شمار نہیں کر سکتے ۔
ذیل میں آپ ﷺ کے کچھ احسانات مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر ملاحظہ کریں ۔
رسول اﷲ ﷺ کی بعثت سے پہلے انسانیت بالکل ذلیل تھی ،حقیر تھی ، رذیل تھی ، خود انسان کی نظر میں انسانیت کی کوئی قدر و منزلت نہ تھی اسکی پستی و خواری کا یہ حال تھا کہ بہت سے حقیر و ذلیل حیوان اس مقابلے میں عزیز و محترم تھے ان کی حفاظت اور نگہ داشت کا اہتمام تو تھا مگر اس کا نہیں ۔
اسکا خون تو ہر شئی سے ارزاں تھا ، معمولی باتوں پر ہزاروں ہزا رکا خون بہ جانا کوئی معنٰی نہیں رکھتا تھا ، کبھی تو اسے کسی جمادیا حیوان کی بھینٹ چڑھادیا جاتا تو کبھی رقص و سرور کی محفل میں اس کا خون بہا دیا جاتا ، جبکہ کبھی کسی ظالم و جابر کے نظام ظلم واستبداد قائم کرنے کے لئے اسے زینہ بنادیا جاتا۔
بہر حال انسانیت ذلت و مسکنت ، پستی و خواری کی اس انتہا پر تھی کہ یکایک رسول اﷲ ﷺ کی بعثت ہو جاتی ہے اور انسانیت آپ ﷺ کے طفیل پستی و خواری کے اس قعر سے نکل کر عزت و عظمت ، شرافت و کرامت کے اوج پر پہونچ جاتی ہے بلفظ دیگر ثریٰ سے ثریا پر پہونچ جاتی ہے ۔
کل تک انسانیت ذلیل تھی ، حقیر تھی اور آج رسول اﷲ ﷺ کے طفیل اشرف المخلوقات کا خطاب پاتی ہے
{اور بیشک ہم نے اولاد آدم کو عزت دی اور انکو خشکی اور تری میں سوار کیا اور ان کو ستھری چیزیں روزی دیں اور ان کو اپنی بہت مخلوق سے افضل کیا} (۱)
کی ندائے ربانی سنتی ہے کہ جس سے خلق کثیر پر ا س کی فضیلت او ربرتری ثابت ہو رہی ہے ۔
کل تک انسانیت کا نہ کوئی مقام تھانہ کوئی حیثیت بلکہ بہت سے حقیر وذلیل جانوروں کے مقابلے میں بھی ذلیل و حقیر تھی مگر آج رسول اﷲ ﷺ کے طفیل یہ اعلان ربانی سنتی ہے
{ وہی ہے جس نے تمہارے لئے بنایا جو کچھ زمین میں ہے }(۲)
پھر تو اسے اس بات کا احساس و ادراک ہو جاتا ہے کہ وہ اﷲ تعالی کی سب سے عزیز ترین مخلوق ہے اور اس کرئہ ارض کی ہر شئی یہ عالم نباتات و جمادات وحیوانات سب کے سب اس کی خدمت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔
کل تک انسان کا خون ہر شیٔ سے ارزاں تھا اور آج ہر شیٔ سے گراںاور قیمتی ہو گیا یہاں تک کہ ایک شخص کو نا حق اور فساد فی الارض کے بغیر قتل کرنا پوری انسانیت کو قتل کرنے اور ایک انسان کو جلا دینا پوری انسانیت کو جلا دینے کے مترادف ہو گیا ، شریعت مطہرہ کا مطالعہ کریں آپ پر واضح ہو جائیگا کہ خون تو خون شریعت مصطفویہ ـ علی صاحبہا الف الف تحیۃ وتسلیم ـ نے انسان کے ایک ایک عضو کو محترم و مکرم قرار دے دیا ہے، اب اسکے چہرے کا مثلہ بنانا اور اس کی شبیہ بگاڑنا تو بڑی بات ، اس کے چہرے پر مارنا بھی جرم قرار پا گیا ہے اس کے جسم کے کسی حصے کی بیع یا اس سے کسی طرح کا فائدہ اٹھانا حرام کر دیا گیا ،ذرا آپ شریعت کی زبان میں اس کی دلیل تو دیکھیں فقہی کتب میں اس کی دلیل اس انداز میں بیان کی جاتی ہے کہ ( لأن الآدمی مکرم لا مبتذل ) کہ انسان محترم ہے کمتر و ذلیل نہیں (۳)
یہ تکریم انسانیت اور احترام آدمیت کا کتنا عظیم تصور ہے جو شریعت مصطفویہ علی صاحبہا الف الف تحیۃ وتسلیم کے سوا کہیں نظر نہیں آتا ۔
آپ ذرا اس حدیث شریف کو پڑھیں جس کا مضمون ہے کہ:
[ اﷲ تعالی قیامت کے دن فرمائے گا کہ اے ابن آدم میں بیمار ہوا تو تو نے میری عیادت نہیںکی ابن آدم کہے گا کہ اے میرے رب! میں تیری عیادت کیسے کرتا جب کہ تو رب العالمین ہے فرمائے گا کیا تجھے نہیں معلوم کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا تو تونے اس کی عیادت نہیں کی کیا تجھے نہیں معلوم کہ اگر تو اسکی عیادت کر تا تو مجھے اس کے پاس ضرور پاتا اے ابن آدم !میں نے تجھ سے کھانا طلب کیا تو تو نے مجھے کھانا نہیں دیا ابن آدم کہے گا، کہ اے میرے رب !میں تجھے کھانا کیسے دیتا جبکہ تو رب العالمین ہے ،فر مائے گا کیا تجھے نہیں معلو م کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تو تونے اسے کھانا نہیں دیا کیا تجھے نہیں معلوم کہ اگر تو اسے کھانا کھلاتا تو اسے تو میرے پاس ضرور پاتا ، اے ابن آدم ! میں نے تجھ سے پانی طلب کیا تو تونے مجھے پانی نہیں دیا ابن آدم کہے گا اے میرے رب! میں تجھے پانی کیسے دیتا جبکہ تو رب العالمین ہے ، فرمائے گا کہ تجھ سے میرے فلاں بندے نے پانی مانگا تو تونے اسے پانی نہیں دیا کیا تجھے معلوم نہیں کہ اگر تو اسکو پانی دیتا تو اسے میرے پاس ضرور پاتا ](۴)
اس حدیث شریف میں رسول اﷲ ﷺنے واضح فرما دیا کہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک انسانیت کا کیا مقام و منزلت ہے ۔
بہر حال رسول اﷲ ﷺ ہی انسانیت کے وہ عظیم محسن ہیں جنھوں نے انسانیت کو ثریٰ سے ثریا پر پہونچایا اور اس کو اس کا حقیقی مقام و منزلت واپس دلایا اس کا خون ہی نہیں بلکہ اس کے ایک ایک عضو کو مکرم و محترم بنا دیا ،احترام انسانیت و تکریم آدمیت کا عظیم تصور دیا اور یہ واضح کر دیا کہ انسان سے بڑھ کر اس کائنات ہست و بود کی کوئی شئی نہیں جو اﷲ کے نزدیک اس سے زیادہ محترم و مکرم ہو ، یہ انسانیت پررسول اﷲ ﷺ کا ایسااحسان عظیم ہے کہ جس کو انسانیت کبھی فراموش نہیں کر سکتی ۔
آج اور آج نہیں ہمیشہ اجتماعی زندگی میں بنی نوع انسانی کے درمیان اختلاف اور ٹکراؤکی صور ت پیش آتی رہتی ہے جو بسا اوقات سنگین صورت اختیار کر لیتی ہے ،رسول اﷲ ﷺنے ا س اہم انسانی مسئلے کو ہر ایک کے حقوق متعین فرما کر حل فرمادیا (اس موضوع پر میرا ایک مقالہ بعنوان ’’الاسلام ہو الطریق الوحید لتحقیق الأمن والسلام فی الأرض ‘‘ ہے جو التربیۃ الاسلامیہ جلد ۳۶ ع ۸ بغداد عراق سے شائع ہو چکا ہے ) اس میں ان حقوق کی تفصیل اور موضوع کے تعلق سے طویل گفتگو ہے ۔
آ پ ﷺ کی بعثت سے پہلے دین و دنیا دو متبائن شئی تھے دونوں کے درمیان سخت ٹکراؤ بڑی کشمکش اور شدید اختلاف تھا دونوں کبھی یکجا نہیں ہو سکتے تھے یہی حال علم اور دین کا تھا جہاں علم وہاں دین کا گذر نہیں اور جہاں دین وہاں علم کا تصور نہیں ، آپ ﷺ ہی نے دین و دنیا کی کشمکش دین و علم کا اختلاف محو فرما دیا اب دین و دنیا کا نہ کوئی ٹکراؤ اور نہ علم و دین میں کوئی تعارض اس چیز نے انسانیت کے سامنے ترقی کے دروازے کھول دییے۔
آپ ﷺ کی بعثت سے پہلے عورتوں کا کیا حال تھا تاریخ اسلام اور سیرت طیبہ کا مطالعہ کرنے والے سے مخفی نہیں ہے آ پ ﷺ نے عورتوں کو ان کا کھویا ہوا مقام و حیثیت واپس دلایا او ر انھیں ایسا کپڑا پہنایا جو انکے قد سے نہ چھوٹا نہ ہی بڑابالکل ان کے برابر جس سے ان کا حسن اور دوبالا ہو گیا ۔
اور آپ ﷺ نے ہی انسانوں کے درمیان تفریق و تمیز کی ساری دیوار یںمنہدم فرما دیں ، وحدت بنی آدم اورانسانی مساوات کادرس دیااورواضح الفاظ میںارشادفرمایا:
[اے لوگو ! بیشک تمہا را رب ایک ، تمہارا باپ ایک تم سب آدم سے ہو اور آدم مٹی سے بیشک تم میں اﷲ کے نزدیک عزیز ترین وہ شخص ہے جو زیادہ پرہیزگار ہو ، کسی عربی کو کسی عجمی پر تقویٰ کے علاوہ کسی اور بناپر کوئی فضیلت نہیں ](۵)
اب رنگ و نسل وغیرہ معیار شرف و کرامت نہیں اور تقویٰ ہی شرافت وکرامت کا واحد معیار ہے۔
آپ ﷺ ہی انسانیت کو تاریکی سے نور کے طرف ،ہر طرح کی بندگی اور غلامی سے خدائے وحدہ لاشریک کی بندگی کے طرف ،تنگ و تاریک قفس سے جس میں انسانیت کا دم گھٹتا تھا کھلی فضا کے طرف اورتمام ادیان و خود ساختہ نظاموں کے جور و ظلم سے عدل اسلام کے طرف لائے آپ ﷺ ہی نے انسانیت سے وہ طوق وسلا سل ہٹائے جسے اس نے اپنے اوپر ڈا ل رکھے تھے، ان پاکیزہ نعمتوں کو اس کے لیے حلال کیا جن سے اس نے خود کو محروم کر رکھا تھا اوراس کے لئے گندی چیزوں کو حرام قرار دیا ، آپ ﷺ ہی نے اس کے ہر پہلو اور ہر گوشے پر مکمل توجہ دی اگر روح انسانی کی تشنگی دور فرمائی تو اس کے جسد کے فطری تقاضوں سے اغماض نہیں فرمایا ۔
آپ ﷺ نے انسان کے مقصد حیات کومعدہ ومادہ سے بہت بلند فرمایا آپ ہی کی تعلیمات کے صدقے اب اسکی تگ و دو ، سعی وکوشش اور جد و جہد ایک معمولی مقصد یعنی کھانا اور پینا جو صرف حیوانی مقصد ہے کے لیے نہیں رہیگی بلکہ ایک اعلی ترین مقصد و غایت کے لیے ہوگی جو کہ رضائے خدا ،و رسول ہے ( جل جلالہ ﷺ )
آپ ﷺنے انسانیت کے سامنے توبہ و انابت الی اﷲکا دروازہ کھولاجس سے انسانیت کو روحانی سکون و اطمینان حاصل ہوا ورنہ تو وہ اس سوچ سے گھٹ گھٹ کر مر جاتی کہ اسکی بخشائش نہیں ۔
آپ ﷺ ہمیشہ انسان کے اس طبقے کا خاص خیا ل فرماتے ہیں جس کا کوئی خیال نہیں کرتا جس کا کوئی غم گسار و غم خوار نہیں ہوتاجس کے حال زار پر کوئی نہیں روتا جس کے غم میں کوئی شریک نہیں ہوتا جس سے کوئی محبت نہیں کرتا جسے کوئی اپنے قریب نہیں کرتا ، میری مراد غریبوں اور غلاموں کا طبقہ ہے غریبو ں اور مفلسوں پر اس طرح نظر کرم فرمائی کہ امیروں کے مال میں سے ان کے لیے حصے مقرر فرما دیے یہ زکوٰۃ ،یہ عشر،یہ فطرہ یہ سب کس کے لیے ہیں ؟ یہ سب رسول اﷲ ﷺ نے انھیں کا خاص خیال فرماتے ہوے امیروں پر لازم فرمائے ہیں اور غلاموں پر تو اس طرح کرم فرماتے ہیں کہ فرماتے ہیں:
[یہ تمھارے لونڈی غلام تمھارے بھائی ہیں جن کو خدا نے تمھارے ماتحت کر دیا ہے تو جس کا بھائی اس کے ما تحت ہو وہ اسے وہی کھلائے جو خود کھاتا ہو اور اسے اسی قسم کا لباس پہنائے جو خود پہنتا ہو،مزید ارشادفرماتے ہیں ان سے کسی ایسے کام کی فرمائش نہ کرو جو ان کی طاقت کے باہر ہو اور اگر تم ایسے مشکل کاموں کی فرمائش کرو تو خود بھی ان کی مدد میں لگ جاؤ اور ان کا ہاتھ بٹاؤ](۶)
اور غلاموں کی آ زادی کا خاص خیال فرمایا کتاب و سنت کا مطالعہ کرنے والوں سے یہ امر پوشیدہ نہیں ۔
آپ ﷺ نے انسانیت کو ایسی تعلیمات سے نوازا جو اسے ترقی و خوشحالی وفلاح و کامرانی ، روحانی سکون و اطمینان اور دارین کی سعادتوں سے بہرہ ور کرتی ہیں ۔ صرف ایک تعلیم پیش ہے رسول اﷲ ﷺ اشاد فرماتے ہیں:
[اﷲ تعالی کی نعمتوں میںغور کرو اور ا س کی ذات میں غور نہ کرو ورنہ تو ہلاک ہوجاؤ گے](۷)
اسی ایک تعلیم پر عمل کر کے انسان آج مریخ پر کمندیں ڈال رہا ہے یہ صرف ایک تعلیم کاحال ہے اس سے بقیہ کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔
آپ ﷺ نے انسان کو اس شعور کی دولت سے مالا مال فرمایا کہ نفع و نقصان کا حقیقی مالک صرف اﷲ تعالی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ احقاق حق کے معاملے میں بالکل بے باک اور نڈر ہو گیا کہ اب اسے اس معاملے میں کسی طرف سے کوئی خطرہ نہیں رہ گیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس تو ہم پرستی کا خاتمہ ہو گیا کہ جو اسکی حیات کو مکدر کیے ہوئے تھی ۔
وہ کون سی نعمت ہے اور وہ کون سی نیکی اور بھلائی ہے جو انسانیت کو رسول اﷲ ﷺ کے در پاک سے نہیں ملی یہ اعلیٰ اخلاقی اقدار ، تواضع و انکساری ، حلم و بردباری ، صدق و صفا ،امانت و قناعت ، صلح و سلامتی ، امن وامان ، خلوص و للّٰہیت ،زہد و تقویٰ ، خدا طلبی کا ذوق ، خدا شناسی و خود شناسی کا جوہر ، عالی ہمتی ، بلند حوصلگی ، ضمیر کی بیداری ، عقل انسانی کی آزادی ، حدود الٰہیہ کا احترام کرتے ہوئے آزادی رائے کا تصور ، عدل وانصاف کی بالا دستی یہ سب کچھ انسانیت کو آ پ ہی کے در پاک سے ملے ہیں ۔
یہ قلم و قرطاس ، یہ علمی جستجو و تحقیقات ، یہ علم و تحقیق کے میدان میں دنیا کی تیز گامی ، یہ اسناد وروایت ، یہ نحو وصرف ومعانی ، یہ بیان و بدیع وعروض و قوافی ، یہ علم لغت و اشتقاق وغیرہ یہ سب تو آپ ہی کی بعثت کی ہی برکتیں ہیں ، عالم انسانیت پر ابر رحمت کے یہ چند قطرات تھے جنھیں آپ نے ملاحظہ کیا ۔
یہاں یہ خیال رہے کہ سرکار بطحا ﷺکے رحمت و کرم کا ابر صرف عالم انسانیت پر ہی نہیں برستاہے بلکہ جس طرح آپ ﷺ سب کے لیے رحمت ہیں اسی طرح آپ کی رحمت بھی سب کے لئے عام و تام ہے اورآپ کا ابر رحمت و کرم سب پر جھوم جھوم کر برستا ہے ۔
ان احادیث کریمہ کو ملاحظہ فرمائیں جس میں رحمت و رافت ، شفقت و محبت ، رفق و لین کے جام چھلکتے ہیں جو کسی طبقے، قبیلے اور ملک کے ساتھ خاص نہیں بلکہ ان تعلیمات کا ابر کرم سب پر یکساں برستا ہے پوری مخلوق ان سے خوب فیضیاب ہو رہی ہے ۔
سرکار بطحا ﷺ ارشادفرماتے ہیں :
[رحم کرنے والوں پر رحمٰن رحم فرماتا ہے زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم فرمائے گا] (۸)
مزید ارشاد فرماتے ہیں :
[ پوری مخلوق اﷲ کاکنبہ ہے(یعنی اللہ تعالی نے ان کے رزق کو اپنے ذمۂ کرم پر لے لیا ہے ) اﷲ تعالی کو وہی شخص سب سے پیارا ہوگا جواس کے کنبے کے ساتھ بھلائی کرے](۹)
آپ دیکھیں کہ ان تعلیمات میں آپ کا وصف رحمۃ للعالمین کس قدر درخشندہ و تابندہ ہے۔
حواشی:
(۱) سورۃ الاسراء آیت ۷۰ (۲) سورۃ البقرۃ آیت۲۹ (۳) ہدایہ آخرین ص۵۵ (۴) رواہ مسلم (۵) العقد الفرید ج ۲/۱۲۶(۶) رواہ البخاری (۷) الملفوظ ج ۲ / ص ۲۰۸ (۸) رواہ ابوداؤد والترمذی (۹) رواہ البیہقی
(استاذ دارالعلوم فیض الرسول براؤں شریف وسجادہ نشین آستانہ بدر العلماء بڑھیا، ضلع سدھارتھ نگر)
اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اردو،دہلی یونیورسٹی،دہلی
قبل مسیح کی چھٹی اور پانچویں صدیاں اس اعتبار سے بے حد اہم ہیں کہ ان میں کئی فلسفوں اور مذہبوں کے بانیان پیدا ہوئے جنھوں نے دنیا کوروشن خیالی، روحانی عرفان اورذہنی آسودگی کے اسباب مہیا کرائے۔چین میں کنفیوشش، ایران میں زرتشت،یونان میں فیثاغورث اور ہندوستان میں گوتم بدھ اور مہابیر کا تعلق انھی دو صدیوںسے ہے۔فی الوقت گفتگو مہاتما بدھ، بدھ مت،اس کے صحیفے ’دھَمَّپد‘ اوران سب کے رشتوںمیں آنے والی اردوزبان کے حوالے سے کی جائے گی۔
عہد عتیق کی چندبے حد برگزیدہ شخصیتوں میں سے ایک اہم اور محترم نام مہاتما گوتم بدھ کا ہے ۔گوتم بدھ کا پیدائشی نام سدھارتھ ہے۔ان کے والد قدیم ہندوستان کی ایک چھوٹی سی ریاست ’کپل وستو‘ کے راجہ تھے(کپل وستو اب نیپال میں ہے)۔ نوجوانی میں گوتم کی شادی یشودھرانام کی دوشیزہ سے ہوئی،دونوں کو ایک لڑکا پیدا ہوا جس کانام راہل رکھا گیا۔اور پھر یوں ہوا کہ گوتم بدھ شاہانہ زندگی اور بیوی بچے کو چھوڑ کر حق کی تلاش میں نکل پڑے۔برسوں کی تپسیا ،ریاضت اور مراقبے کے بعد آخر کار انھیں حق سے آشنائی یعنی معرفت حاصل ہوئی۔اور ان پر یہ اسرار منکشف ہوئے کہ ریاضت، تپسیا اور چلہ کشی سے نہیں بلکہ نیک اور پاکیزہ زندگی ، اعتدال پسندی ،صلہ رحمی اور ترک خواہشات سے حق کو پایا اور معرفت حاصل کی جاسکتی ہے۔
گوتم بدھ نے معرفت حاصل کرنے کے بعد عام لوگوںکوشفقت و محبت، ہمدردی و احترام ، وفاداری، مساوات، حسن سلوک اورادب و تعظیم کی ہدایات دیں۔ انھیںانسان کی بنیادی صفات و خصوصیات سمجھائیں، موت و حیات کافلسفہ بیان کیا، رنج و غم کے اسباب بتائے اور ان سے نجات کے طریقوںکی تعلیم دی ۔ تاہم انھوں نے دوسرے بڑے مذاہب جیسے ہندو،عیسائی، یہودی اور اسلا م کی مانند نہ تو خدا کے وجود پر کوئی بحث کی ہے ، نہ کائنات کی تخلیق کے اسباب پر روشنی ڈالی ،اور نہ ہی زندگی، موت اور روح کی وضاحت کی ہے۔آخرت، قیامت، حشر و نشر اور جنت و جہنم جیسے مسائل پر بھی ان کے فرمودات بہت واضح نہیں ہیں۔ بدھ نے ان کے متعلق غور و فکر، گفتگویا سوالات کو غیر ضروری قرار دیا ہے ۔اُن کے مطابق اِن سب باتوں کا جاننا،یا نہ جاننا انسان کے لیے نہ تو فائدہ مند ہے ، نہ نقصاندہ۔ گویا وہ ایک مذہب کے بانی سے کہیں زیادہ انسانی زندگی کے فلسفی ،مصلح اخلاق اور انسان دوست کے بطور اپنے افکار بیان کرتے ہیں۔مابعد الطبیعاتی پیچیدگیوں کے بجائے ان کا سارا زور دنیاوی زندگی کے فلسفے،حسنِ اخلاق،عمدہ افکار اور اعمالِ صالح پر ہے ۔ البتہ عقیدہ ٔ تناسخ یعنی آواگون (arvagona) کوانھوں نے تسلیم کیا ہے اور اسے کافی اہمیت دی ہے۔
عام خیال ہے کہ بدھ ’ناستک ‘یعنی خدا کے منکرتھے ،مگر بعض عالموں کی رائے یہ ہے کہ انھیں ’ ناستک‘ خدا کے انکار کی وجہ سے نہیں بلکہ مروجہ عقائد کی تردید اور ’ویدوں‘کا انکار کرنے کی بنا پر کہا گیا۔ ان علماء کی جماعت کے مطابق اس بات کے کئی شواہد موجود ہیں کہ گوتم بدھ خدا پر یقین رکھتے تھے ،خاص طور سے Tevigga Suttanamمیں مرقوم اس واقعے کے حوالے سے جب ـ’کوشالہ‘ نامی علاقے کا دورہ کرتے ہوئے Manasakta نام کے گاؤں میں گوتم بدھ کا مقامی برہمنوں کے ساتھ مکالمہ ہوتاہے۔اسی طرح وہ آخرت کے بھی قائل ہیں۔
دنیا کے بیشتر بڑے مذاہب اور عقائد کی اپنی مقدس کتابیں ہیںجن میں ان کے اصول وضوابط، احکام و مسائل اور تاریخ و واقعات محفوظ ہیں۔یہ کتابیں یا تو آسمانی صحائف کی شکل میں ہیں جیسے قران، انجیل، زبور اور تورات یا مذہب یا عقیدے کے بانی یابزرگوںکے اقوال و ملفوظات پر مبنی یاپھر ان کے پیروکارں کے ذریعے لکھی ہوئی کتابیںہیں۔ جیسے سکھوں کی گرو گرنتھ صاحب،زرتشت کی ’ژند وستا‘ہندو دھرم کی وید مقدس ،اپنشد،پُران اور گیتا وغیرہ ۔ لیکن بودھ کی مذہبی کتاب ایک دو یا پانچ سات نہیں ،بلکہ متعدد کتابوں کے مجموعے ہیں،جنھیں تین زمروں میں تقسیم کیا گیاہے ۔
یہ زمرے ’تری پٹک ‘(Tripitaka)یعنی تین پٹاریوںکے نام سے منسوب ہیں ۔ تینوں پٹاریوںمیںمتعدد ابواب پر مشتمل کئی کئی کتابیں شامل ہیں۔متعدد کتابوں پر مشتمل پہلی ٹوکری کانام ’وِنیا پِٹک‘ (Vinaya Pitaka)ہے۔ تیسری پٹک کانام’ ابھی دھم‘ (-Pitaka Abhidhamma)ہے ۔اس میں بھی کئی ایک کتابیں ہیں۔اور دوسری کانام سُتّ پٹک(Sutta Pitaka) ہے ۔سُتّ پِٹک پانچ حصوں میں منقسم ہے۔ اس کے پانچویںحصے’ کُھدّک‘(Khuddak) میں پندرہ گرنتھ ہیں انھی گرنتھوں میں سے دوسرے نمبر کا گرنتھ ’دھَمّپَد‘ (Dhammapada)ہے ۔
چونکہ گوتم بدھ (563ق م ) کے زمانے میں لکھنے پڑھنے کا رواج بہت کم تھا اس لیے ایک عرصے تک ان کی تعلیمات سینہ بہ سینہ یا کہیے زبانی منتقل ہوتی اور دیس بدیس پہنچتی رہیں۔تقریباً تین سو سال کے بعد 252ق م میںاشوک کے عہد میں پہلی مرتبہ انھیں مبسوط شکل میں ’پا لی‘ زبان میں قلمبند کیا گیا ۔دوسری روایت یہ ہے کہ بودھ گرنتھوں کوپہلی بار لنکا کے راجہ’ وَٹّا گامی‘(76-88 ق۔م ) کے حکم سے تحریری شکل میں جمع کیا گیا۔ ’مہاونش‘ نام کے گرنتھ میں اس بات کا ذکر موجود ہے۔ ( دَھمّپد، ہندی،کن چھیدی لال گپت، چوکھمبا ودّیا بھون،وارانسی،2012،ص، 14) ذہن نشیں رہے کہ بھگوان بدھ نے تمام احکامات وتلقینات اورپند وعظ بہار کی زبان ’ماگدھی‘ میں ارشاد فرمائے تھے ،جو اس وقت مگدھ کے عام لوگوں کی بول چال کی زبان تھی(جسے دیسی،یا پراکرت بھی کہا جاتا ہے) ۔ بدھ کی ان تمام باتو اور وعظوں کو تحریری شکل میں لانے کے لیے انھیں’پالی‘ زبان میںمرتب کیا گیا۔ مگر اصل جلدیں مرتب کیے جانے کے بعد کم عرصے میں ہی ناپید ہوگئیں۔حسن اتفاق ان کی ایک نقل راجا اشوک کے بیٹے مہند(Mahend) کے پاس محفوظ تھیں جنھیں وہ اپنے ساتھ سری لنکا لے گئے تھے جہاں ان کا ترجمہ وہاں کی سنگھالی زبان میں ہوا۔ کچھ عرصے بعدراجہ مہند والی وہ نقلیں بھی جو وہ اپنے ساتھ سری لنکا لے گئے تھے، اصل جلدوں کی طرح معدوم ہوگئے، مگر سنگھالی کا ترجمہ رہ گیاتھاجسے صوبۂ بہار کے ضلع ’ گیا‘ کے ایک راہب بدھ گھوش(Budh Gosh)نے اصل تسلیم کرتے ہوئے پھر سے اس کا ترجمہ پالی زبان میں کیا۔اب برصغیر میں یہی تری پٹک ( Tripitaka) مستند اور قدیم سمجھی جاتی ہیں۔
تری پٹک کومذہب ، فلسفہ، منطق، تمثیل،کتھا،تجربات (بشمول انسان اور متعدد جانداروں کے)اور سائنس کا خزانہ کہیے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ ان میںعلمیت ،ادبیت ،شعریت ،تجسس،آسودگی اورکنونسنگ پاورغضب کی ہے۔اسی تری پٹک خزانے کا ایک بیش بہا موتی ’دھَمّپَد‘ ہے۔ ’دھَمّپَد‘ دو لفظوں سے بنا ہے۔ایک سنسکرت لفظ’ دھرم ‘ جسے پالی زبان میں ’د َھمّ ‘ کہتے ہیں۔ دوسرا’ پد‘ جس کے معنی راستے کے ہیں ، یوں اس کے معنی ہوئے دھرم کا راستہ۔ ’پد‘ کے معنی ’فرمان ‘یا ’بول ‘کے بھی ہیں۔ اس طرح ’دھَمّپَد‘ کا ترجمہ ’مذہبی فرمان‘ یا’ بھگوان بدھ کی باتیں‘ بھی کرسکتے ہیں۔ ’دھَمّپَد‘ چھبیس ا بواب اور چارسو تئیس گاتھائوں (اقوال؍ باتوں)پر مشتمل صحیفہ ہے ۔ چھبیس ا بواب کے عنوانات درج ذیل ہیں۔عنوانات کے اردو ترجمے پنڈت بشیشور پرشاد منور ؔ لکھنوی کے کیے ہوئے ہیں۔پندرھویں باب کے عنوان کا انھوں نے کوئی ترجمہ نہیں کیا ہے:
پہلی گفتگو:نیک و بد کا مقابلہ ۔2۔عمل کی فضیلت۔3۔دل کی تربیت۔4۔پھولوں کا استعارہ۔5۔پانچویں جہالت کا نتیجہ۔6۔پنڈت (عالم) کا بیان۔7۔تارک کامل کا بیان۔8۔ہزار کا بیان۔9۔گناہ کا ذکر۔10۔سزا کا ذکر۔11 ۔ آگ کی تمثیل۔12۔اپنی ذات کے بارے میں۔13۔دنیا و عقبیٰ کے بارے میں۔14۔عقل مندوں کے باب میں۔ 15۔۔۔۔۔۔۔۔ 16۔محبت کے ذکر میں۔17۔غصے کے ذکر میں۔18۔کثافت کے باب میں۔19۔مضبوط دھرم کے باب میں۔20۔طریق عمل کے باب میں۔21۔بہترین مفاد کے بارے میں۔22۔دوزخ کے بارے میں۔23۔ہاتھی کی مثال۔24۔ترشنا یعنی حرص کے باب میں۔25۔فقیری کے ذکر میں۔26۔برہمن کے بارے میں۔(دھمپد،بشیشور پرشاد، انجمن ترقی اردو،(ہند)علی گڑھ، 1954)
دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا کے چھ بڑے مذاہب عیسائی،یہودی، اسلام،ہندو،جین اور بودھ میں سے تین یعنی ہندو، جین اور بودھ کا تعلق ہندوستان سے ہے، اور ان میں سے آخرالذکر دو کا صوبۂ بہار سے ہے ۔ گوتم بدھ کو بہار میں ہی معرفت حاصل ہوئی تھی اور انھوں نے بیشتر وعظ و تلقینات اور ہدایات بہار کے مختلف علاقوں میںہی دیے تھے۔’ دھپمد‘ میںبھی شامل بہت سے اپدیشوں کا تعلق بہار کی سرزمین سے ہے۔
دھمپد کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ بودھ مت کے مختلف گرنتھوں سے بھگوان بدھ کی باتوں کو منتخب کرکے اسے کتابی شکل دی گئی ہے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ اس میں دوسرے دھرموں کے شاستر کی اہم باتوں کو بھی شامل کیاگیا ہے۔ (ایضاً، 13 ) ’دھَمّپَد‘ کے انتخاب و ترتیب کے تعلق سے ایک روایت یہ ہے کہ اس کاانتخاب بھگوان بدھ کے نروان حاصل کرنے یعنی ان کے انتقال سے پہلے ہی کرلیا گیا تھا ، البتہ اسے تحریری شکل یا تو477 ق۔م،یا پھر لنکا کے راجہ وٹا گامی کے عہد (88-77 ق۔م)میں دی گئی۔ ’ دھَمّپَد‘ کی گاتھائیںچونکہ انتہائی اختصار سے بیان کی گئی ہیںاس لیے کن چھیدی لال گپت کا کہنا ہے انھیں اس وقت تک آسانی سے نہیں سمجھا جا سکتا ہے جب تک اس کے ساتھ دوسرا معاون گرنتھ’دَھمّپدَ ٹّھا‘نہ پڑھا جائے،جس میں دھمپد کے اپدیشوں سے متعلق تین سو پانچ کتھائیں (کہانیاں) ہیں۔ ممکن ہے کن چھیدی لال جی کی مراد ’دھَمّپَد‘ کے اقوال کی شان نزول یا سائل کے سوال ،یا تجسس کو سمجھنے ، یا بیان کی باریکیوں تک پہنچنے سے متعلق ہو، جن کے جوابات،یا سیاق میں کہی گئی باتیں ’دھَمّپَد‘ میں منقول ہیں۔ یوں ’دھَمّپَد‘ کے بنیادی اپدیشوں کو بغیر کسی معاون کتاب کے سمجھنا کچھ ایسا مشکل مسئلہ نہیں ہے، یہ کتاب اپنے آپ میں کافی ہے۔
’دھَمّپَد‘ پر مزید گفتگو سے پہلے بدھ مت کے تعلق سے چند بنیادی باتوں کا جان لینا شاید زیادہ بہتر ہوگا ۔مثلاً یہ کہ بدھ مت کا کلیدی فکری نظام چار عظیم سچائیوں پر استوار ہے جن میں بدھ مت کا بنیادی فلسفہ مضمر ہے۔ پہلی عظیم سچائی یہ ہے کہ زندگی دکھوں سے بھری ہوئی ہے۔ دوسری عظیم سچائی یہ ہے کہ دکھ بلا سبب نہیں،بلکہ اِن دکھوں کا کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے۔تیسری عظیم سچائی یہ ہے کہ اِن دکھوں سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے ، اورچوتھی عظیم سچائی یہ کہ دکھوں سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے کچھ طریقے ہیں ۔ پہلی تینوں سچائیاں در اصل بدھ مت کے نظریاتی اصول ہیں، جب کہ چوتھی سچائی آٹھ عملی طریق کارپر منحصر ہے جن کے اختیار کرنے سے دکھ دور ہوجاتے ہیں اور نروان حاصل ہوتا ہے۔ دکھ سے نجات حاصل کرنے کے یہ آٹھوںعملی طریقۂ کار ’اشٹانگک مارگ‘ (ہشت اصولی راستہ) کہلاتے ہیں۔جو حسب ذیل ہیں: صحیح علم۔صحیح ارادہ۔صحیح گفتگو۔صحیح عمل۔ صحیح ذریعہ معاش۔ صحیح کوشش۔ صحیح یادداشت ، اور صحیح غور و فکر (مراقبہ)۔
اب ذرا چار عظیم سچائیوںاور ان سے متعلق آٹھ اصولوں کوقدرے وضاحت سے اس طرح جانیںکہ :
(1)انسانی زندگی پیدائش سے لے کر موت تک دکھوں سے بھری ہوئی ہے ۔جس میں بشمول پیدائش اور موت، ناپسندیدہ چیزوں سے واسطہ پڑنا اور محبوب چیزوں کا بچھڑ جاناہے۔
(2)دکھوں کی وجہیںلاعلمی،امید،لالچ،حرص و ہوس اور خواہشات ہیں۔
(3) سچے علم کے حصول اورنفسانی خواہشات پر کنٹرول کے ذریعے ان دکھوںسے نجات حاصل کی جا سکتی ہے ۔
(4) سچے علم کو حاصل کرنے اوردکھوں سے نجات پانے کے لیے بدھ کے بتائے ہوئے وہ آٹھ طریقے یہ ہیں جنھیں بدھ مت میں اشٹانگک مارگ کہا جاتا ہے:
(1)سمیک درشٹی: (صحیح نقطۂ نظر)۔ چیزوں کو بالکل ویسی ہی دیکھنا جیسی کہ وہ ہیں۔کہہ سکتے ہیں کہ اس اصول کے تحت حقائق کی ماہیت اور ان کے صحیح ادراک پر زور دیا جاتا ہے، فانی اور غیر فانی میں امتیاز کیا جاتا ہے،شکوک اور غلط نظریات سے احتیاط کیاجاتا ہے ، علم اور لا علمی کے فرق کوجاننے کی کوشش کی جاتی ہے ،اورچاروں عظیم سچائیوں پریقین رکھاجاتاہے۔
(2) صحیح سنکلپ:( صحیح ارادہ)۔ اُن خیالات و جذبات سے پرہیز کرنا جو اخلاقی برائیوں کو جنم دیتے ہیں، مثلاً نفرت، غصہ،غرور، حسد،لالچ، شک ،خود غرضی، تعصب ،تشدد،دھوکا اور لذت پرستی وغیرہ۔ساتھ ہی تمام مخلوقات کے لیے ایثار، محبت اور ہمدردی کے رویے اپنانا۔
(3)سمیک واک:( صحیح کلام )۔ برائی اور فساد کو جنم دینے والی باتوں مثلاً جھوٹ، غیبت ، سخت کلامی،خود ستائی، اور یاوہ گوئی سے پرہیز اور حق گوئی، نرم گفتاری،معتدل اور مدلل طرز گفتگو اپنانا۔
(4) سمیک کرمانتا: (صحیح اعمال)۔ ان تمام اعمال سے بچنا جنھیں بدھ نے ممنوع قرار دیا ہے، مثلاً جھوٹ ،چوری، ظلم ،خود غرضی، بد چلنی اور فتنہ و فساد وغیرہ ۔ اسی طرح اس کے بتائے ہوئے اعمال کی پابندی کرنا جیسے حسن سلوک، خوش اخلاقی ، ہمدردی، خدمت خلق ،جانداروں پر رحم اور فیاضی وغیرہ۔
(5) سمیک اجیوا: (صحیح ذریعۂ معاش)۔ حلال رزق کاحصول اور کمانے کے غلط ذرائع سے پرہیز ۔مثلاً بے ایمانی، ظلم، زیادتی، رعب، جبر یا کسی کو نقصان پہنچاکر روزی یا دولت حاصل کرنا۔
(6) سمیک ویایام: ( صحیح کوشش)۔ اپنے اندر پاکیزہ اور پسندیدہ خیالات و جذبات کو فروغ دینا اور غلط اور ناپسندیدہ خیالات و جذبات جیسے نفسانی خواہشات، نفرت ،لالچ،ہوس اور غصہ وغیرہ کو ابھرنے سے روکے رکھنے کی کوشش کرنا۔
(7) سمیک سمرتی:( صحیح یاد داشت) ۔ اچھی اور مناسب باتوںکو یاد رکھنا ،زندگی، موت اور دکھوں کو ذہن نشیں رکھنااورغلط اور بری باتوں کوبھول جانا۔
(8)سمیک سمادھی: (صحیح مراقبہ )۔ صحیح غور وفکرکے ذریعے اصل حقیقت تک پہنچنا۔ یہ آٹھواں اصول بنیادی حیثیت کا حامل اور بدھ مذہب کی اہم ترین عبادت ہے۔کیونکہ بدھ مت کے مطابق صحیح مراقبہ زندگی کے اصل مقصد یعنی باطن کی تطہیر کے لیے لازمی اور نروان کے حصول میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے ۔
بدھ مت میںنروان( ’نجات‘ ) ایک خاص حالت کو کہتے ہیں جس میں انسان رنج و خوشی،دوستی اور دشمنی ،آلام ومصائب آرزوؤں اور خواہشوں سے ماوریٰ ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ وہ زندگی اور موت (جنم اور مرن کے تسلسل؍مرنے اور پھر اعمال کے مطابق نئی نئی جون میں جنم لینے) سے دائمی نجات پاجاتا ہے ۔باربار اپنے کوموں کے پھل کے مطابق جنم لینے اور مرنے کے تسلسل میں آخری جنم اور آخری موت کو نروان کہا جاتاہے۔یہ نروان یعنی جینے اور مرنے کے دکھوں سے نجات ایک یا دو جنموں میں نہیں بلکہ کئی جنموں کے بعد اچھے کرموں اور بالکل پاک صاف زندگی گزارنے بعدحاصل ہوتا ہے۔ بھگوان بدھ بھی کپل وستو میں پیدا ہونے اور شراوستی میںآخری بار مرنے سے پہلے متعدد بار جنم لے چکے تھے۔یہ آخری موت بھگوان بدھ کے نروان کی منزل ہے۔
مذکورہ چار عظیم سچائیوں اور آٹھ اصولوں کے علاوہ مہاتما بدھ نے انسانی معاشرے کو انتشار سے بچانے اور افراد کو مہذب بنانے کے لیے پانچ باتوں پر مشتمل ایک اخلاقی نظام ’پنچ شیلا‘ بھی مرتب کیا، جو اس طرح ہے:
1۔کسی بھی جاندار کی جان نہ لینا
2۔چوری نہ کرنا
3۔جھوٹ نہ بولنا
4۔نشہ اور نشہ آور چیزوں سے پرہیز کرنا
5۔زنا نہ کرنا
آج بھی بدھ مذہب میں داخل ہونے کے لیے ’پنچ شیلا‘کو نبھانے کا عہد اس کے بنیادی ارکان میں سے ایک لازمی رکن ہے۔اس کے علاوہ بدھسٹوں کے لیے شرن کے یہ تین اصول بھی ضروری ہیں: (1) بدھم شرنم کچھامی۔(2) دھمم شرنم گچھامی۔(3) سنگھم شرنم گچھامی۔یعنی میں بدھ کی شرن (پناہ) میں جاتا ہوں۔میں دھرم کی شرن میں جاتا ہوں۔ میں سنگھ(تنظیم)کی شرن میں جاتا ہوں۔
بدھ نے والدین اور اولاد،استاذ اور شاگرد، میاں بیوی ، دوست اور ساتھی اور آقا اور ملازم کے احکام و فرائض بھی متعین کیے ہیں۔ بعض پیشوکی انھوں نے ممانعت کی ہے، مثلاً ہتھیار بیچنے،لونڈی اور غلام کوخرید نے اور بیچنے،شراب بنانے اور بیچنے، گوشت بیچنے اور زہر بیچنے سے۔ بدھ مت میں نسل، ذات، کلاس اورجنسی تفریق کو کو ئی دخل نہیں ہے ۔
شاید اس بات کے اعادے کی ضرورت نہیں ہے کہ پہلے پہل مہاتما بدھ کی تبلیغ کی طرف وہ لوگ راغب ہوئے جو معاشی اعتبارسے کمزور، سماجی لحاظ سے حاشیے پر رہنے والے اور لٹریری طور پر ادبی ذوق سے تقریباً عاری اور اعلیٰ طبقے کی زبان کے بجائے دیسی اور عام بول چال کی زبان بولنے اور سمجھنے والے لوگ تھے۔
بدھ مت کوایک مذہبی انقلاب کہنا چاہیے جو آلام و مصائب ،جسمانی کثافت،روحانی اسراراور اور زندگی اور موت کی پیچیدگیوں کے حل کی تلاش کی صورت شروع ہوا تھااور بالآخر ایک بے حد موثر اور منظم مذہب کے طور پر تشکیل پایا۔ بدھ مت نے لوگوں کو انسانی برابری ،سماجی انصاف،عزت نفس اور زندگی کے منطقی اور روحانی طریقوں سے روشناس کرایااور حسن اخلاق اور نیک اعمال کی ترغیب دی۔ بدھ مت میں عقیدت کے مقابلے منطقیت،عبادات کے مقابلے اعمال اور احساس ِ تفاخر کے مقابلے میں خاکساری پر زور دیا گیاہے ۔ اس نے ذات پات کی تفریق ، عورت اور مرد کی برتری اور کمتری اور مذہبی امور کی اجارہ داری کو بھی ختم کیا۔ بنیادی طور پر اس مذہب کی روح عمدہ خیالات،اچھے اخلاق اور صحیح اعمال میں پوشیدہ ہے۔شاید یہ کہنا غلط نہ ہو کہ مہاتما بدھ نے ہندوستان میں انسانی مساوات کا پہلا باضابطہ منشورجاری کیا۔شاید اسی وجہ سے عوام کی بڑی تعداد کے بعد خواص نے اور پھر بادشاہوں تک نے اس مذہب کو اپنایا، سرکاری حیثیتیں دیں اور اس کی تبلیغ کی۔ تسلیم یہ بھی کرنا چاہیے کہ غالباً تب تک کا یہ پہلا مذہب تھا جو بہار سے شروع ہوکر پورے ہندوستان اور پھرروم و یونان اور دوسرے ممالک تک پہنچا اور دنیا کے بیشتر حصوں میں پھلنے پھولنے لگا۔ لیکن اس کا دوسرا دردناک پہلو یہ بھی ہے کہ بوجوہ یہ ہندوستان میں کم اور پھر ختم ہونے لگا۔ علامہ اقبال نے’بانگ درا‘ کی نظم’نانک‘ میں، اپنی ہی جنم بھومی میں گوتم بدھ اور بدھ مت کے فلسفے کو نظر انداز کیے جانے کے حوالے سے بڑے معنی خیز اشارے کیے ہیں:
قوم نے پیغام گوتم کی ذرا پروا نہ کی
قدر پہچانی نہ اپنے گوہر یک دانہ کی
آہ! بدقسمت رہے آوازِ حق سے بے خبر
غافل اپنے پھل کی شیرینی سے ہوتا ہے شجر
آشکار اس نے کیا جو زندگی کا راز تھا
ہند کو لیکن خیالی فلسفے پر ناز تھا
شمع حق سے جو منور ہو یہ وہ محفل نہ تھی
بارش رحمت ہوئی لیکن زمیں قابل نہ تھی
آہ! شودر کے لیے ہندوستاں غم خانہ ہے
دردِ انسانی سے اس بستی کا دل بے گانہ ہے
برہمن سرشار ہے اب تک مئے پندار میں
شمع گوتم جل رہی ہے محفل اغیار میں
اس کے علاوہ علامہ اقبال نے اپنی مشہور زمانہ فارسی تخلیق ’جاوید نامہ‘میںبھی گوتم بدھ کا ذکر بڑے ہی سلیقے اور احترم کے ساتھ کیا ہے ۔ جب وہ رومی کے ساتھ فلک قمر پر پہنچتے ہیں تو وہاں ان کی ملاقات زرتشت، حضرت عیسیٰ اور حضرت محمدؐ کے ساتھ ساتھ گوتم بدھ سے بھی ہوتی ہے۔
گوتم بدھ کے حوالے سے اردو میںکئی کتابیںلکھی گئیں،جیسے منشی احمدالدین کی’ مہاتما بدھ‘جو 1903میںکشمیری پریس، لکھنؤسے شائع ہوئی،ڈاکٹر م۔حفیظ سید ایم۔اے کی ’گوتم بدھ: سوانح حیات و تعلیمات‘ جسے انجمن ترقی اردو (ہند) دہلی نے 1942میں شائع کیا ،ایسے ہی کئی اور کتابیں۔
’دھمپد‘ کا پہلا انگریزی ترجمہ 1840میں ہواتھااور پھر دنیا کی بیشتر زبانوں میں اس کے ترجمے کیے گئے۔ اردو میںبھی دنیا کی بیشتر مذہبی کتابوں کی طرح ’دھمپد‘ کے بھی ترجمے ہوئے۔ فی الوقت جو ترجمہ پیش نظر ہے ،وہ ہے اہم شاعر بشیشور پرشاد منورؔ لکھنوی کا منظوم ترجمہ’’ دھمپد یا سچی راہ ‘‘کے عنوان سے جو 1954میں انجمن ترقی( اردوہند)علی گڑھ سے شائع ہوئی تھی ۔ اسے اردوزبان کا امتیاز اور اس کی رواداری کہنا چاہیے کہ اس زبان نے اپنے اندر نہ صرف عالمی ادب ،تاریح وسیر، منطق وفلسفہ ،سائنس وکیمیااور ہر قسم کے موضوعات کو سمویا بلکہ دنیا کے تمام مذاہب اور بیشتر عقائد کا تعارف کرایا ،مضامین اور کتابیں لکھیںاور ان کے مقدس صحیفوں کے ترجمے بھی عام لوگوں تک پہنچائے ۔ دھمپد کا ترجمہ بھی اردو زبان کی علم دوستی اور مذہبی رواداری کی ایک عمدہ مثال ہے۔ اس ترجمے کی زبان بہت ہی آسان،عام فہم،دلنشیں اور دلچسپ ہے ۔اس کی خوبی یہ ہے کہ مشکل مسائل کو بھی کم سے کم اشعار میںبڑی خوبصورتی کے ساتھ سلیقے سے ڈھالا گیاہے۔ یہاں ’دھمپد‘ کے مختلف ابواب سے مہاتما بدھ کے کچھ منتخب ، فکر انگیز اپدیش منور صاحب کی منظوم شائستہ زبان میں ذہن کی آسودگی اور ذوق کی آبیاری کے لیے پیش کیے جارہے ہیں۔بعض مثالوں میں کچھ مصرعوں کو حذف کردیا گیا ہے:
دل کی تربیت :
بے حدچنچل ہوتا ہے دل
اس کو ٹھہرانا ہے مشکل
ہوتا ہے جو شخص خِرد وَر
آجاتا ہے غالب اس پر
کرلیتا ہے تیر کو سیدھا
جیسے تیر بنانے والا
عالم بے عمل :
دھرم گرنتھوں سے کیا حاصل
ان کا پڑھنا ہے لا حاصل
ان کو عمل میں لائے نہ جب تک
عیش پرستی جائے نہ جب تک
ایسا انساں ہے اک گوالا
گائیں پرائی دوہنے والا
اس کا بیڑا پار نہ ہوگا
وہ پھل کا حقدار نہ ہوگا
بے معنی ہے ایسا پڑھنا
بے مصرف ہے اس کا پڑھنا
محبت کے ذکر میں:
جو ہوں اپنے ساتھ ان کا چھوڑ دو
ہیں جو رشتے نام کے سب توڑ دو
جو ہوں بے گانے رہو اس سے بھی دور
دل نہ ہو لیکن کسی سے بھی نفور
ہے عزیزوں کی جدائی ناگوار
اس سے دل انساں کا رہتا ہے فگار
اور بے گانے کی جب ہوتی ہے دید
دل پہ اس سے چوٹ لگتی ہے شدید
شمع سے الفت، نہ پروانے سے ہو
لوث اپنے سے ، نہ بے گانے سے ہو
ہار جیت:
دشمنی ہوتی ہے پیدا جیت سے
اور بھی بڑھتا ہے جھگڑا جیت سے
ہارنے والے کو ہوتا ہے ملال
شیشہ دل میں پڑا رہتا ہے بال
دل سے بدلے کی ہوس جاتی نہیں
نیند راتوں کو اسے آتی نہیں
ہے نظر میں جس کی یکساں جیت ہار
اس کے دل میں ہے سکون پائیدار
امن میں اس کے خلل آتا نہیں
وہ کسی حالت میں گھبراتا نہیں
جہالت کا نتیجہ:
یہ تو میرا لخت جگر ہے
وہ تو میرا نور نظر ہے
میں ہوں مال و زر کامالک
گھر کامالک ،در کا مالک
دعویٰ جو یہ کیا کرتا ہے
رنج وہ مول لیا کرتا ہے
خود یہ جسم نہیں جب اپنا
پھر بے کا ر یہ دعویٰ کیسا
ہیں یہ سب اسباب مصیبت
کس کا بیٹا ، کس کی دولت
حرص:
حرص سے ہے گرم بازارِ الم
حرص سے رہتا ہے دل پابند ِغم
اس بلائے بد سے جو رہتا ہے دور
اس کے نشّہ سے نہیں رہتا جو چور
اس کے دل میں رنج آسکتا نہیں
وہ کسی سے خوف کھا سکتا نہیں
کثافت کے باب میں:
جس کے مسلک میں تشدد ہو دخیل
اور چوری جس کا پیشہ ہو رذیل
ہر سخن میں جس کے شامل ہو دروغ
نشہ بازی سے جو پاتا ہو فروغ
مشغلہ جس کا ہو عصیاں پروری
غیر عورت سے کرے ہم بستری
زندگی جس کی ہو سر تا پا گناہ
ہوکے رہتا ہے بشر ایسا تباہ
ہر عمل گویا ہے اس کا خود کشی
کھودتا ہے اپنی جڑ وہ آپ ہی
٭
ہے محبت کا نتیجہ رنج و غم
ہے محبت آئینۂ دار الم
فر قت محبوب ہے وجہ عذاب
عشق کیا ہے وہ جو ہوخانہ خراب
جس کو آزار محبت ہی نہیں
جو گرفتار محبت ہی نہیں
اس کو غم کوئی، نہ کوئی فکر ہے
خوف کا دہشت کا پھر کیا ذکر ہے
دل پر قابو:
ہاتھ آ نا ہے اس کامشکل
ہے رفتار میں تیز بہت دل
اس پر قابو پاجانے سے
اس کو راہ پہ لے آنے سے
غم سے فراغت مل جاتی ہے
امن کی دولت مل جاتی ہے
غصے کے ذکر میں:
دوسرا کوئی اگر غصا کرے
ہوش کھو بیٹھے غضب پرپا کرے
اپنا غصہ آدمی خود تھام لے
عقل سے فرزانگی سے کام لے
اس کو ٹھنڈے دل سے قابو میں کرے
جل نہ جائے خود بھی اس کی آگ سے
ہوبرا کوئی ، بھلائی تم کرو
کیوں برے بن کر برائی تم کرو
بخل پر حاوی رہے بخشش کا ہاتھ
راستی سے جنگ ہو باطل کے ساتھ
۳۔جسم۔
بے وقعت ہے جسم خاکی
ہے یہ اک تصویر فنا کی
ہوجائے گا یہ ناکارہ
کرلے گی جب روح کنارہ
کام نہ پھر کچھ بھی آئے گا
فرش زمیں پہ گر جائے گا
پھولوں کااستعارہ:
بھونرے پھول کا رس لیتے ہیں
رس لے لے کر چل دیتے ہیں
پھر بھی پھول کھلا رہتا ہے
دلکش رنگ بنا رہتا ہے
فرق نہیں خوشبو میں آتا
پھول نہیں اس سے مرجھاتا
مُنیوں کا بھی ڈھنگ یہی ہو
ان کی سیرت بھی ایسی ہے
قریہ قریہ جائیں خوشی سے
لاگ مگر رکھیں نہ کسی سے
تارک کامل۔
جمع کچھ اسباب کرتا ہی نہیں
دولت و زر پر جو مرتا ہی نہیں
آئینہ ہے جس پہ اسرار غذا
جس کو ہے معلوم مقدار غذا
آرزوئے ایں و آںجس میں نہیں
اک غرض کابھی نشاںجس میں نہیں
تارک کامل ہے جو آزاد کیش
مخلصی رہتی ہے جس کی پیش پیش
صورت مرغ فلک پرواز ہے
راز ہے اس کا چلن اک راز ہے
ہزار کابیان۔
جس نظم میں سپرد قلم ہوں ہزار شعر
ہر چند جان حسن رقم ہوں ہزار شعر
بے کار ہے جو کام کی بات اس میں کچھ نہ ہو
سرمایۂ مفید حیات اس میں کچھ نہ ہو
کافی ہے ایک شعر جو مطلب کی بات ہو
ہر لفظ جس کا باعث تسکین ذات ہو
اس اپدیش کو پڑھ کر ملا وجہی کا یہ شعر یاد آتا ہے:
جو بے ربط بیتاں تو بولے پچیس
بھلا ہے کہ یک بیت بولے سلیس
نفس پہ قابو:
جیتی ہزار بار لڑائی اگر تو کیا
لاکھوں پہ تو نے فتح بھی پائی اگر تو کیا
تو خود کو ایک بار بھی تسخیر اگر کرے
نفس دنی کو بستۂ زنجیر اگر کرے
یہ جیت واقعی ہو تری باوقار جیت
اس جیت کو کہوں گا میں اک شاندار جیت
بزرگوں کااحترام:
ہر ماہ سوبرس بھی اگر دان دے کوئی
خوش ہو ہَوَن سے، نام کرے یگیہ سے کوئی
اس کے مقابلے میں یہ بہتر ہزار ہے
اعمال انتخاب میں اس کا شمار ہے
عزت کرے بزرگ صفا کیش کی کوئی
پل بھر کے واسطے ہی بنے آدمی کوئی
سو سال کا وہ یگیہ ہَوَن وہ فضول ہے
اک لمحہ کی مگر یہ عبادت قبول ہے
ریاضت:
ہو پنّیہ کی غرض سے عبادت جو سال بھر
ہو یگّیہ کی ،ہوَن کی طریقت جو سال بھر
تعظیم نفس پاک کے آگے وہ گرد ہے
قائل جو اِس کا ہے وہی ممتاز مرد ہے
ہے پاک باطنوں کی سوا سب سے آبرو
بہتر ہزار درجہ ہے تکریم نیک خو
گناہ کا ذکر:
اچھے کام میں دیر ہی کیوں ہو
برپا یہ اندھیر ہی کیوں ہو
دیر جو اس میں ہوجاتی ہے
قسمت گویا سو جاتی ہے
دل بدعت ڈھانے لگتا ہے
سوئے بدی جانے لگتا ہے
سزا کا ذکر:
ہو کلام درشت سے پرہیز
تلخ گوئی سے واجبی ہے گریز
بولنے میں زبان سخت نہ ہو
لہجۂ گفتگو کرخت نہ ہو
بد زبانی خراب ہوتی ہے
اک گنہ، اک عذاب ہوتی ہے
نہ رہوگے جو اس عذاب سے دور
تم کو اس کی سزا ملے گی ضرور
آگ کی تمثیل:
دیکھو تو ذرا یہ جسم کیا ہے
آخر اس کا طلسم کیا ہے
اس میں لاکھوں اذیتیں ہیں
سب بربادی کی صورتیں ہیں
پھولا پھولا بدن یہ سارا
ہے اک امراض کا پٹارا
ہر وقت ہے زور خواہشوں کا
نرغہ ہے غموں، کاہشوں کا
اس کا نہیں اعتبار کوئی
صورت نہیں پائیدار کوئی
برہمن کے باب میں:
جٹائیں رکھ کے برہمن کوئی نہیں ہوتا
بزرگ اس سے کبھی آدمی نہیں ہوتا
نہ گوترسے ، نہ برہمن ہے جنم سے کوئی
فضول کیوں پھر اُسے برہمن کہے کوئی
جو راستی کا صداقت کا ہے علمبردار
نثار دھرم ہے جس پر، جو دھرم پر ہے نثار
شعار نیک ہو، محبوب ہو چلن جس کا
برنگ شعلۂ بے دودہو چلن جس کا
اسی کے وصف گنانے میں تر زباں رہیے
برہمن اصل میں ہے،برہمن اسے کہیے
نروان:
انساں دہر میں پیدا ہوکر
کرموں سے وابستا ہوکر
پاتے ہیں ہر کرم کا ثمرا
اس سے کوئی بچ نہیں سکتا
جو بے عقل بھٹک جاتے ہیں
پاپی بن کر نرک جاتے ہیں
اچھے کرم جنھیں بھاتے ہیں
سورگ میں خاص جگہ پاتے ہیں
بے لوثی میں ہیں جو کامل
کرتے ہیں نروان وہ حاصل
اپنی ذات :
آدمی اپنا آپ سالک ہے
آدمی اپنا آپ مالک ہے
وہ نہیں کسی غیر کا محتاج
ہو ہی سکتا ہے اس پہ کس کا راج
اس کا مالک نہیں خود اس سے جدا
اپنی تقدیر کا ہے خود ہی خدا
خود کو خود ہی جو زیر کرتا ہے
اپنے ہاتھوں سے خود سنورتا ہے
صاف کرتا ہے راستا اپنا
وہی بنتا ہے خود خدا اپنا
دنیا و عقبیٰ کے بارے میں:
جو بخیلی سے کام لیتا ہے
کوڑی کوڑی پہ جان دیتا ہے
کبھی جنت میں جا نہیں سکتا
زیست کا حظ اٹھا نہیں سکتا
جو تجمل شعار ہوتے ہیں
آدمی باوقار ہوتے ہیں
دان کرکے وہ سکھ اٹھاتے ہیں
زندگیٔ دوام پاتے ہیں
آغا شورش کاشمیری نے اپنی مشہور خود نوشت سوانح’’بوے گل،نالۂ دل،دودِچراغِ محفل‘‘میں ۱۹۳۶ میں گاندھی جی سے ملاقات کا احوال لکھا ہے۔یہ وہ دور تھا جب ہندوستانی سیاست تیزی سے کروٹ بدل رہی تھی اور فرقہ وارانہ انتہا پسندی کا عفریت اپنے دہانے کھول رہا تھا۔شورش نے گاندھی سے ملاقات کے دوران کئی سوالات کیے،جن کے جواب گاندھی جی نے بڑے انشراح و اعتماد کے ساتھ دیا،جو ان کا انداز تھا۔ان سوالوں میں سے ایک سوال مسلم لیڈرشپ کے بارے میں تھا،انھوں نے پوچھا:
’’ مسلمانوں کی ناکامی کا سبب کیاہے؟‘‘۔
گاندھی نے جواب دیا:
’’میں سمجھتاہوں کہ ان میں کوئی شخص بھی فقیری کرنا نہیں چاہتا؛بلکہ فقیری سے اٹھ کر شہنشاہی کر رہا ہے۔قومی خدمت صرف فقیری کرنے سے ہوتی ہے‘‘۔
شورش نے گاندھی کے اس جواب کا خاص پس منظر بیان کیاہے؛لیکن اگر ہم پچھلے سو ڈیڑھ سو سال کی مسلم سیاست ،قیادت پر نظر ڈالیں تو گاندھی کی یہ بات کتنی سچی ہے؛بلکہ اگر آپ خالی الذہن ہوکر تحریکِ آزادی کے دوران صرف مسلمانوں کے پلیٹ فارم سے بننے والی سیاسی پارٹیوں کا سرسری جائزہ لیں،تو گاندھی کی اس بات کی سچائی اور بھی روشن ہوکر سامنے آئے گی ۔آزادی سے پہلے کانگریس اور مسلم لیگ کے علاوہ درجنوں خالص مسلم سیاسی جماعتیں تھیں اور ان میں سے ہر ایک کا دعویٰ تمام مسلمانوں کی نمایندگی کا تھا۔خود مسلم لیگ جس نے مسلمانوں کے تحفظ و خود مختاری کے لیے پاکستان بنوایا،اس سے ٹوٹ کر اب تک وہاں لگ بھگ دودرجن سیاسی جماعتیں بن چکی ہیں۔ آزاد ہندوستان میں بھی ’’مسلم قیادت و سیاست‘‘کے کئی طوفان گزر چکے ہیں،اگر ان کی تاریخ دیکھ لی جائے ،تو اس سے بھی گاندھی کے ’’قومی خدمت‘‘اور ’’فقیری‘‘کے معنی سمجھے جاسکتے ہیں۔
حالیہ پانچ چھ سالوں کے دوران حکومت کی متعصبانہ پالیسیوں اور مبینہ سیکولر جماعتوں کی مسلمانوں سے کنارہ کشی کی وجہ سے جنوبی ہند کے سیاست داں اور ممبر پارلیمنٹ اسدالدین اویسی کو میدان خالی ملا اور انھوں نے مسلم مسائل پر کھل کر بولنا شروع کیا،جس کے نتیجے میں مودی حکومت کے پہلے دور کے شروع ہوتے ہی وہ قومی سطح کے مسلم لیڈر بن گئے اور پھر بتدریج مسلمانوں کے بہت بڑے طبقے میں ایک بار پھر ’’اپنی قیادت‘‘ اور ’’اپنی سیاست‘‘ کو فروغ دینے کا جذبہ پیدا ہوا ہے،مگر حیرت ؛بلکہ المیہ ہے کہ ایسا ہر شخص اِس چکر میں ہے کہ اسی کو قائدِاعظم مان لیا جائے اور باقی سارے لوگ اس کی جھنڈا برداری کرتے نظر آئیں۔سوشل میڈیا پر مفکری کی باڑھ آئی ہوئی ہے اور چوک چوراہوں پر سیاسی پھکیت اپنی ہفوات کو اتنی خود اعتمادی سے پیش کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے قوم کی نجات و ترقی کا تیر بہ ہدف نسخہ بس اسی مہاپرش کے پاس ہے۔
بہار الیکشن کے موجودہ منظرنامے پر غور کیجیے تو جو پارٹیاں مسلمانوں کے زخموں کا مداوا کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں،خود ان کی سمتیں بھی مختلف ہیں،مثال کے طورپر مجلس کسی اور اتحاد میں شامل ہے،جبکہ ایس ڈی پی آئی کسی دوسرے اتحاد کا حصہ ہے،جو کہ من حیث المجموع بہار الیکشن کا چوتھا اتحاد ہے۔ پھر مجلس کا اتحاد بھی بی ایس پی اور اوپندر کشواہا کی پارٹی سے ہے،جن کا بھی کچھ پتا نہیں کہ کیا گل کھلائیں گے۔ مایاوتی کی تاریخ بھی پلٹی بازی کی ہے اور کشواہا تو خیر این ڈی اے کے ذریعے ہی قومی سیاست میں نمایاں ہوئے ہیں اور مرکزی وزیر بھی رہے ہیں۔اس اتحاد میں اور بھی پارٹیاں شامل ہیں،مگر مرکز میں یہی تینوں ہیں اور یہ اتحاد پورے بہار میں الیکشن لڑ رہاہے۔ایس ڈی پی آئی نے چندرشیکھر آزاد اور پپو یادو والے الائنس میں شمولیت کا فیصلہ کیا ہے اور یہ الائنس بھی پورے صوبے میں الیکشن لڑ رہا ہے۔ دوسری طرف ان سے ،خصوصاً مجلس سے وابستہ کارکنان کا ردِعمل عجیب و غریب ہے۔ عام طورپر وہ اپنا موقف معروضیت کے ساتھ رکھنے کی بجاے دوسروں پر تبرے بازی پر اتر آتے ہیں، جو سیاست کے علاوہ عام زندگی میں بھی حد درجہ مذموم ہے اور ایسی حرکتوں سے آپ کے انفرادی کیرکٹر کی ہی پول نہیں کھلتی،پوری جماعت کی اصل شبیہ سامنے آتی ہے۔
دوسری طرف کچھ لوگ جو سیاسی طبع آزمائی کے لیے مجلس سے وابستہ ہوگئے تھے اور اس امید میں تھے کہ الیکشن لڑنے اور’’اسلام کی خدمت کرنے‘‘کا موقع ملے گا،جب انھیں ’’کسی وجہ ‘‘سے ٹکٹ نہیں دیا گیا،تووہ ایک سے بڑھ کر ایک انکشاف کر رہے ہیں۔اب تک کئی لوگ سوشل میڈیا پر آکر یہ الزام لگا چکے ہیں کہ مجلس نے لیاقت کی بجاے پیسے کو ٹکٹ کا معیار بنایا ہوا ہے اور بہار کے صںدرِ مجلس سمیت ان کے بعض خاص معاونین پر بھی پیسے لے کر ٹکٹ دینے کے الزامات لگ رہے ہیں،حالاں کہ یہ بات تو سارا ملک جانتا ہے کہ دوایک پارٹیوں کے علاوہ تقریباً تمام سیاسی جماعتیں انتخابات میں کسی بھی امیدوار کو مفت میں ٹکٹ نہیں دیتیں ؛لیکن اس کو سیاسی اخلاقیات یا مجبوری یا کچھ بھی کہیے کہ ایسی باتیں بس نجی محفلوں میں ہوتی ہیں،قومی سطح پر یہ کبھی موضوعِ بحث نہیں رہا۔
اب ان الزام لگانے والوں کی باتیں درست ہیں یا نہیں،اس کی وضاحت تو پارٹی کے ذمے داران کریں گے۔خبریں تو ایسی بھی آرہی ہیں کہ بعض ناراض کارکنان کو مجلس نے ٹکٹ دینے کا فیصلہ کرلیا ہے، مگر اس پورے سلسلۂ واردات سے دوباتیں سمجھ میں آتی ہیں۔ایک تو یہ کہ جو لوگ ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے پریشان ہیں ،مجلس کی قیادت کو کوس رہے ہیں اور اس کا بھانڈا پھوڑنے کا دعویٰ کررہے ہیں،وہ کبھی بھی نہ مجلس کے تئیں مخلص رہے اور نہ اپنے اس دعوے میں کہ وہ مسلمانوں کے لیے فلاں فلاں تیر ماریں گے۔دوسری یہ کہ خود مجلس کو اُسی طرح کی ایک سیاسی پارٹی سمجھنا چاہیے،جیسی ملک کی دوسری بڑی چھوٹی پارٹیاں ہیں، جو موقع لگنے پر کسی سے بھی اتحاد کر سکتی ہے اور امیدواروں کے انتخاب میں اس کا معیار بھی وہی ہے،جو دوسری پارٹیوں کا ہے،باقی کہنے اور اپنے لوگوں کو Motivateکرنے کے لیے بے شمار باتیں ہوسکتی ہیں ۔اویسی بلا شبہ ایک قابل سیاست دان ہیں اور انھوں نے مسلمانوں سے متعلق مسائل پر کھل کر اپنے موقف کا اظہار کیا ہے، مگر ایسے اور بھی بہت سے لوگ ہیں اور ان میں سے کچھ تو غیر مسلم بھی ہیں۔تو آپ اپنی صوابدید کے مطابق کسی بھی جماعت سے وابستگی اختیار کر کیجیے اور خلوص کے ساتھ سماجی و سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیجیے ؛لیکن فکر و عمل میں اعتدال و وسطیت کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔نہ کسی کی حمایت میں اندھا ہوجانا چاہیے اور نہ مخالفت میں حد سے گزرنا چاہیے،دونوں صورتیں مضر ہیں اور ہر حال میں مضر ہیں۔ آپ مجلس کو بھی ملک کی دوسری سیاسی پارٹیوں کی طرح ایک سیاسی پارٹی مان کر چلیے اور اگر دل چاہے تو اس کے پلیٹ فارم سے کام کیجیے،ایسے میں اگر خدا نخواستہ پارٹی سے کبھی آپ کا’’موہ بھنگ‘‘بھی ہوا،تو زیادہ تکلیف نہیں ہوگی؛لیکن اگر کہیں یہ سوچ کر اس سے وابستگی اختیار کرلی کہ مجلس کے جیتتے ہی مسلمانوں کے سارے مسائل ہوا ہو جائیں گے اور اویسی ’’اردوانِ ہند‘‘ہیں ،پھر کسی موقعے پر پارٹی یا اس کے قائدین آپ کی امیدوں پر کھرے نہیں اترے،تو ایسے میں تکلیف شدید ہوگی؛بلکہ بہت شدید ہوگی۔
(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
ٹی آر پی چوروں کو سزا تو ملنی ہی چاہیے لیکن یہ صرف ٹی آر پی کے چوروں کا ہی معاملہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ صرف ٹی آر پی کی چوری کا ہی جرم ہے ۔ یہ اپنے دامن میں کئی اور طرح کے چوروں بلکہ مجرموں اور جرائم کو چھپائے ہوئے ہے، جیسے کہ جھوٹ اورفریب کا پرچار، فیک بیانیہ اور اس فیک بیانیہ کے ذریعے ملک کے دو بڑے مذہبی گروہوں کے درمیان نفرت کو شدید تر کرنے کا بیوپار، انتہائی گھناؤنی فرقہ وارانہ جانبداری کا اظہار، سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنانے کے لیے ثبوتوں کو گڑھنے اور خریدے ہوئے گواہوں سے حلف دلوانے کا مجرمانہ طریقہ کار، اور ان سب کی بنیاد پر ملک بھر میں ناانصافی کو فروغ دینے یا ناانصافی کو ہی انصاف کہنے کی زوردار تکرار اور گروہی تشدد اور فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دینے کے لیے حقائق کا انکار ۔ یہ سب مکروہ جرائم ٹی آر پی کے پیٹ ہی سے نکلے ہیں ۔ جو نیوز چینل، این ڈی ٹی وی جیسے چند ایک کو چھوڑ کر، خود کو سب سے بڑا قوم پرست، نیشنلسٹ یا باالفاظ دیگر سب سے کٹر ہندو منوا لے اور اس بنیاد پر سارے ملک کا سب سے مقبول چینل بن جائے، جگہ جگہ دیکھا جائے، یقینا اسی چینل کی ریٹنگ، مرتبہ یا رتبہ بلند ہوگا لہذا اسی کا ٹی آر پی بڑھے گا اور اسی کے اشتہارات کے ریٹ یعنی در زیادہ ہوں گے اور تقریباً 40000 کروڑ روپے کے اشتہارات کے کاروبار میں اس کا حصہ سب سے زیادہ ہوگا ۔ تو یہ نیوز چینل وہ گدھ اور کوٌے ہیں جو اتنے بڑے کاروبار میں سے اپنے حصے کے حصول کے لیے کسی خبر پر یوں ٹوٹتے ہیں جیسے مردہ خور لاشوں پر ٹوٹتے ہیں ۔ آور پھر یہ تمام اخلاقیات اور صحافتی اصولوں کو طاق پر رکھ کرکائیں کائیں کرتے رہتے ہیں ۔ یہ کائیں کائیں فیک اور نفرت سے بھرپور ہوتا ہے، اور اس کے لیے ان کے سروں پر وہ ہاتھ سایہ کیے رہتا ہے جو مذکورہ تمام جرائم کو اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے. …. حکمران اور افسران…. لہٰذا ٹی آر پی چور تو چور ہیں ہی لیکن ٹی آر پی بٹورنے کی دوڑ میں انہیں دوڑانے والا بااقتدار طبقہ ان سے کم قصوروار نہیں ہے ۔ ایک حمام میں سب ہی ننگے ہیں، لہٰذا ٹی آر پی چوروں کے ساتھ ان پر بھی شکنجہ کسنا چاہیے، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کرے گا کون؟ اس سوال کا ایک ہی جواب ہے، عوام ۔ جی ہاں شکنجہ اگر کوئی کس سکتا ہے تو وہ عوام ہی ہے ۔ لیکن پھر یہ سوال اٹھ جاتا ہے کہ کیا عوام اس کے لیے تیار ہے؟ فی الحال ایسا لگ تو نہیں رہا ہے، لیکن تبدیلی فطرت کے اصولوں میں سے ایک اصول ہے لہذا تبدیلی آج نہ سہی کل ہونا ہی ہے ۔
بات ٹی آر پی چوروں اور ان کے سرپرستوں کی چل رہی تھی ۔حالیہ معاملہ میں جے پی کے بھونپو ارنب گوسوامی اور ان کے ریپبلک نیوز چینل کا نام سرفہرست ہے، یعنی ممبئی پولیس کی مانی جائے تو ریپلک نیوز چینل سب سے بڑا چور ہے ۔ اس چینل نے یا یہ کہہ لیں کہ ارنب گوسوامی نے ٹی آر پی کی چوری سے پہلے اپنا اور اپنے چینل کا رتبہ بڑھانے کے لیے فیک بیانیے اور نفرت کی تبلیغ کا کاروبار شروع کیا ۔ اور سارا فیک بیانیہ وہی تھا جو حکمراں طبقہ چاہتا تھا، گویا یہ کہ کوٌا کوٌے کے ساتھ اڑ رہا تھا ۔ مثال تبلیغی جماعت کی لے لیں ۔ تبلیغی جماعت پر جب ملک بھر میں کورونا وائرس پھیلانے کے لیے ہندوتواوادی انگلیاں اٹھا رہے تھے تب ریپبلک نیوز چینل نے تبلیغی جماعت کو مجرم قرار دینے کے لیے کسی عدالتی فیصلے کا انتظار کرنے کی ضرورت تک نہیں سمجھی تھی ۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ بھر سارے چینل، رویش کمار کے این ڈی ٹی وی کے پرائم ٹائم اور چند ایک کے علاوہ، کوٌے کی کائیں کائیں میں شامل ہو گئے تھے ۔ آج جو چینل ریپلک نیوز چینل کو ٹی آر پی چوروں کی صف میں کھڑا دیکھ کر اپنی بغلیں بجا رہے ہیں وہ سب کے سب اسی طرح فیک بیانیے اور نفرت کے پروپیگنڈے کا حصہ تھے جیسے کہ ریپبلک چینل، بلکہ اگر یہ کہا جائے تو شاید زیادہ درست ہوگا کہ وہ ارنب گوسوامی کے تحریرکردہ منظرنامے کے مہرے بن گئے تھے، ارنب گوسوامی کا چینل جس راہ پر چلتا وہ بھی اس راہ پر چلنے کو مجبور ہوتے تھے، اور آج بھی ریپبلک چینل کی راہ پر چلنے پر مجبور ہیں جیسے کہ سشانت سنگھ راجپوت معاملہ اوریا چکرورتی کا میڈیا ٹرائل ۔ اسے ارنب کی ایک بڑی کامیابی کہا جا سکتا ہے . آئیں ماضی قریب کے ان لمحوں کی طرف تھوڑی دیر کے لیے رخ کرلیں ۔
جب یہ خبر پھیلی کہ دہلی کے نظام الدین کے تبلیغی جماعت کے مرکز میں اجتماع کے بعد بھی بہت سے جماعتی، جن میں غیرملکی بھی شامل ہیں، اپنے اپنے ٹھکانوں پر واپس نہیں جا سکے ہیں تب ایک ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوا ۔ مرکزی حکومت اور دہلی کی اروند کیجریوال سرکار نے تبلیغی جماعت پر کورونا پھیلانے کا الزام عائد کیا، بی جے پی کے لیڈروں کو مسلم فرقے کو نشانہ بنانے کا موقعہ حاصل ہوگیا، بس کیا تھا ارنب گوسوامی فیک بیانیہ کے ساتھ ریپبلک چینل پر کائیں کائیں کرنے لگا کہ یہ ان کے بھارت دیش میں کورونا پھیلانے کی سازش ہے ۔ انتہائی ڈرامائی انداز میں ارنب نے کورونا کی وباء کو جہاد سے جوڑ دیا اور سارے ملک میں کورونا جہادی کے نام پر مسلمان نشانے پر لے لیے گئے ۔ آج تک، نیوز 18، ٹائمز ناؤ، زی نیوز، اے پی پی نیوز غرضیکہ سارا الیکٹرانک میڈیا ارنب کی راہ پر چل پڑا ۔ یہ نیشنلسٹ کہلانے والے میڈیا کا انتہائی غلیظ چہرہ تھا ۔ نفرت کے پروپیگنڈے نے مسلمانوں کی جان عذاب میں ڈال دی، مسلمان سبزی فروش اگر دوسروں کے محلے میں گئے تو ان پر کورونا جہاد کا الزام لگا کر انہیں پیٹا گیا، معاشی ناکہ بندی کی گئی اور مآب لنچنگ میں جان سے مارا گیا ۔ یہ جو جانیں گئی ہیں ان کے خون سے ٹی آر پی) چور نیوز چینلوں کا دامن لال ہے، زعفرانیوں کا تو ہے ہی ۔ آج جبکہ سارے فیک بیانیے کی قلعی کھل گئی ہے اور ممبئی ہائی کورٹ سمیت ملک کی کئی عدالتوں اور سپریم کورٹ تک نے کورونا کو پھیلانے کے الزام سے تبلیغی جماعت کو بری قرار دیا ہے، ان چوروں کے پھیلائے ہوئے جھوٹ کو بہت بہت سے لوگ سچ ہی سمجھ رہے ہیں ۔ جمعیۃ علماء ہند (ارشد مدنی) نے اس تعلق سے ایک درخواست
سپریم کورٹ میں ڈال رکھی ہے، اتفاق سے جس روز ٹی آر پی گھوٹالہ اجاگر ہوا اسی روز سپریم کورٹ میں اس معاملے کی شنوائی تھی، حکومت ہند نے اپنا جو حلف نامہ عدالت عظمیٰ میں داخل کیا تھا اس نے چیف جسٹس ایس اے بوبڑے کو سخت طیش دلا دیا اور انہوں نے بہت ہی غصے سے حکومت کو لتاڑتے ہوئے کہا کہ حالیہ دنوں میں اظہاررائے کی آزادی کا بےدریغ غلط استعمال ہوا ہے اور یہ کہ جو حلف نامہ عدالت میں داخل کیا گیا ہے وہ نامکمل ہے اور حیلہ سازی و ڈھٹائی پر مبنی ہے ۔ اتنے سخت الفاظ حکومت کو اس لیے سننے پڑے کہ وہ تبلیغی جماعت کو بدنام کرنے والے شرپسند الیکٹرانک میڈیا کو بچانا چاہتی ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ کوئی غلط اور منفی رپورٹنگ ہوئی ہی نہیں ہے ۔ سپریم کورٹ نے سخت لہجہ میں یہ سوال پوچھا ہے کہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ غلط اور منفی رپورٹنگ کا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں ! یہاں یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا ذکر ضروری ہے کہ انہوں نے کورونا کے پھیلاؤ کا سارا الزام تبلیغی جماعت پر لگا کر کہا تھا کہ یہ قابل مذمت جرم ہے ۔
ہاتھرس گینگ ریپ معاملہ میں یوگی کا کردار ایک جانبدار وزیراعلیٰ کے طور پر خوب ابھرا ہے ۔ خیر یوگی غیر جانبدار تو کھی نہیں رہے مگر ہاتھرس معاملہ میں انہوں نے حد کردی ۔ دلت لڑکی کی لاش کا راتوں رات جلا دیا جانا تو ان کا اور ان کی پولیس کا کالا کارنامہ ہے ہی اس سے بھی بڑا کارنامہ سارے بیانیہ کو مسخ کرنا ہے ۔ پہلے تو ریپ ماننے سے انکار، پھر دلت لڑکی کو بدچلن ثابت کرنے کی کوشش، حزب اختلاف پر ذات پات کے نام پر تشدد پھیلانے کا الزام، معاملہ کا رخ موڑتے ہوئے اسے حزب اختلاف کی اور پھر عالمی سازش قرار دینے کی کوشش، کسی طرح سارے معاملے کو
ہندو۔مسلم بنانے کے لیے پاپولر فرنٹ آف انڈیا، اسلامی جماعتوں کے نام سامنے لانے کی کوشش، چار مسلمانوں کو گرفتار کر کے یہ بیان دے کر کہ یہ یوپی میں تشدد پھیلا کر ان کی سرکار کو غیر مستحکم کرنے کی سازش تھی، اپنی اور اپنی پولیس اور انتظامیہ کو بچانے کی کوشش، یہ سب پل پل بدلتا رنگ یوگی کے زعفرانی رنگ کو مزید گہرا کرتا گیا ہے ۔ اور اس معاملے میں، کچھ دنوں تک دلت لڑکی سے ہمدردی جتا کر یہ الیکٹرانک میڈیا، جسے گودی میڈیا بھی کہتے ہیں اور جو اب ٹی آر پی چور بھی کہلاتا ہے، پھر سے زعفرانیوں کی باتیں کرنے لگا ہے ۔ ارنب گوسوامی نے اپنے ریپبلک چینل پر ایک ڈیبیٹ میں یہ سوال کھڑا کر کے کہ کیا ہاتھرس کے نام پر نفرت اور بدامنی پھیلائی گئی؟ یوگی جی کو بچانے کی بھرپور کوشش کی تھی ۔ زی نیوز کے سمیر چودھری تو یوگی نے جس عالمی سازش کا ذکر کیا ہے اس کی ساری تفصیلات سامنے لے آئے ۔ دوسرے نیوز چینل بھی اب یوگی سرکار سے زیادہ حزب اختلاف پر سوالوں کی بوچھار کرنے لگے ہیں ۔ بیانیہ تبدیل ہو رہا ہے ۔ حالانکہ سچ صرف یہ ہے کہ ایک دلت لڑکی کا گینگ ریپ ہوا، اسے بری طرح سے مارا پیٹا گیا، اس کی زبان کاٹ دی گئی اور وہ دہلی کے صفدر جنگ اسپتال میں مر گئی ۔ اگر اس لڑکی کی اعلیٰ ذات کے لڑکوں سے دوستی تھی، یہ بات مان بھی لیں تو بھی کیا اس کا ریپ جائز ہو جائے گا، مارپیٹ اور زبان کا کاٹا جانا قانونی کہلائے گا؟ میڈیا یہ سوال نہیں پوچھ رہا ہے کہ ہاتھرس گینگ ریپ معاملے میں عالمی سازش کیوں رچی جائے گی؟ کیوں سازش کا نظریہ گڑھ کر ساری اپوزیشن اور حقوق انسانی کے کارکنان پر قانونی کارروائی کی جا رہی ہے اور کیوں ریپ کی اس واردات کے سارے ملزمین یوگی سرکار کے لیے اتنے اہم ہو گئے ہیں کہ سارے مظاہرین اور احتجاجی ان کی نظر میں دیش دروہی ٹہرے ہیں؟ چار مسلمان کیرالہ کے صحافی صدیق کپُن، مسعود احمد، عتیق الرحمن اور محمد عالم تو پکڑ ہی لیے گئے ہیں ۔ ان میں سے مسعود احمد سول سروس کے امتحان کی تیاری کر رہا تھا، اب اس پر دہشت گردی اور دیش دروہ کا الزام ہے، یعنی اس سے پہلے کہ وہ سول سروس کا امتحان دے کر کامیاب ہو، آئی اے ایس افسر بنے، اس کی راہ میں اتنی روکاٹیں ڈال دی جائیں گی کہ وہ مایوسی کا شکار ہو جائے گا، اللہ نہ کرے ۔ سدرشن ٹی وی یہی تو چاہتا ہے کہ کوئی مسلمان آئی اے ایس نہ بنے کیونکہ مسلمان جہادی ہوتا ہے ۔ عتیق الرحمن پی ایچ ڈی کر رہا تھا ۔ اور احمد عالم ایمبرائڈری سے ڈرائوری میں آیا تھا ۔ چاروں پر نسلی فساد پھیلانے یا کرانے کی منصوبہ بندی کا الزام لگایا گیا ہے ۔ یہ چاروں یقیناً بےقصور ثابت ہوں گے لیکن کیا کیا جائے کہ ٹی آر پی چوروں کی ٹولی نے انہیں دہشت گرد ثابت کرنے کی شروعات کر دی ہے، یوگی کی یہی خواہش ہے ۔ یوگی کہہ چکے ہیں کہ ہاتھرس معاملہ سے اسی طرح نمٹا جائے گا جیسے سی اے اے کے مظاہرین سے نمٹا گیا تھا ۔ آئیں ایک جھلک دیکھ لیتے ہیں کہ اُس وقت یوگی سرکار اور یوگی کی پولیس نے کیا کیا تھا ۔ سچ یہ ہے کہ یوگی راج میں یوپی کے مسلمانوں کے لئے 2020 اپنے دوصفروں کی ایک ذرا سی تبدیلی سے 2002 ثابت ہورہا ہے ۔ سی اے اے مخالف مظاہروں کے دوران یوگی نے ’بدلہ‘ اور ’ انتقام‘ کا نعرہ دیا تھا جو رنگ لایا تھا ۔ ایک مثال مظفر نگر کی لیں : مظفر نگر سے یوگی کی پولس کی درندگی کی جو کہانیاں سامنے آئی تھیں وہ دردناک تھیں ۔ مولانا اسد رضا ، سادات بارہہ کے سادات مدرسہ و یتیم خانہ کے ذمے داروں میں سے ایک ہیں ، 20دسمبر کے روز سی اے اے ، این آرسی اور این پی آر مخالف مظاہرہ کے دوران پولس مدرسہ اور یتیم خانہ میں گھس گئی تھی اور بچوں کو، یہ یتیم بچے ہیں، لاٹھی ڈنڈوں سے پیٹنا شروع کیا تھا۔ مولانا اسد رضا بچوں کو بچانے کے لئے جب پہنچے تو انہیں بری طرح سے پیٹا گیا ۔ پولس نے اسی پر بس نہیں کیا انہیں اور مدرسہ کے بچوں کو پکڑ لے گئی، مولانا اسد رضا کو سیول لائنز کے قید خانے میں مادرزاد ننگاکر دیا گیا اور پھر لاٹھی اور ڈنڈوں سے ان کی پٹائی شروع کی گئی۔ مدرسہ ویتیم خانہ سے نکلنے سے پہلے پولس نے وہاں کی تمام چیزوں کو ، جن میں مذہبی اور دینی کتابیں بھی تھیں ، تہس نہس کردیا۔ آج تک مولانا کی روح گھائل ہے ۔ پولس نے ان بچوں سے جو 14 سال سے لیکر 21 سال کی عمر کے تھے ’’ہرہرمہادیو‘ اور ’ جئے شری رام‘ کے نعرے بھی لگوائے تھے ۔۔۔ الزام بدفعلی کا بھی لگا ہے ۔ یوپی میں جہاں جہاں سی اے اے کے خلاف مظاہرے ہوئے وہاں وہاں یوگی کی پولس نے مسلمانوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا ، پر ساتھ میں وہ برادرانِ وطن بھی زد پر آئے جو سی اے اے اور این آرسی کے خلاف مظاہروں میں مسلمانوں کے ساتھ کندھےسے کندھا ملا کر کھڑے ہوئے ہیں ۔ مثال سماجی کارکن ایکتا اور روی شیکھر کی لے لیں ۔ اس جوڑے کی سواسال کی بچی چمپک نے کھانا پیناتک چھوڑ دیا تھا۔ وارانسی میں ایک آٹھ سالہ بچہ اس وقت لوگوں کے پیروں تلے آکر روندا گیا تھا جب پولس نے مظاہرین پر ’لاٹھی چارج‘ کیا تھا۔ فیروز آباد میں تو پولس نے کمال کردیا، بنے خان کو مرے ہوئے چھ سال گذر چکے ہیں پر پولس نے انہیں ’’امن کےلئے خطرہ‘‘ قرار دے کر نوٹس بھیج دیا ! فیروز آباد میں یوگی کی پولس نے مظفر نگر سے کم ظلم نہیں ڈھایا ۔ مقامی پولس نے نشانہ بناکر لوگوں کے خلاف پر تشدد کارروائی کی ۔ 20 دسمبر کو فیروز آباد میں بھی سی اے اے کے خلاف زبردست مظاہرہ کیا گیا تھا۔ پولس کا الزام ہے کہ اس پر جگہ جگہ سے پتھراؤ کیا جارہا تھا۔ اس موقع کی ویڈیو میں پولس والوں کے ساتھ ’غیر پولس والوں‘ کو بھی دیکھا جاسکتا ہے ، یہ آزاد خان نامی ایک شخص کے گودام پر سنگباری کرتے اور پھر اسے جلانے کی کوشش کرتےہوئے دیکھے جاسکتے ہیں ۔۔ فیروز آباد میں چھ افراد پولس کی گولیوں کا نشانہ بنے تھے ۔ کچھ یہی حال پولس والوں نےمیرٹھ کا بھی کیا تھا ۔ اور بجنور کے نہٹور میں بھی ایسا ہی ہوا تھا، جہاں پولس کے ساتھ ’’پولس مِتر‘‘ بھی تھے ۔ میرٹھ ہی میں پولس ایس پی اکھلیش این سنگھ نے مسلمانوں کو پاکستان جانے کی ’’صلاح‘’ دی تھی۔۔۔ مظفر نگر سے لے کر کانپور ، اعظم گڑھ ، سنبھل ، علی گڑھ اور لکھنؤ تک میں یوگی کی پولیس نے گھروں کے اندر گھس کر توڑ پھوڑ کی ، لوگوں کو لاٹھی ڈنڈوں سے پیٹا، جبراً لوگوں سے ’عوامی املاک کی تباہی‘ کو ’بہانہ‘ بناکر ’جرمانہ‘ وصولا ۔ اور بڑی تعداد میں لوگوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا ۔ سارے ٹی آر پی چور اس ظلم کے خلاف خاموش تھے ۔ ظالموں کی حمایت کر رہے تھے ۔ اس لیے کہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹٌے بٹُے ہیں ۔ یوں تو سارے ملک میں ایسا ہی ہو رہا ہے لیکن ہاتھرس خاص نشانہ ہے، اس لیے وہاں آنے جانے والوں پر خاص نظر ہے ۔ یوگی نے جو سی اے اے مظاہرین کے ساتھ کیا وہی سب اب اپوزیشن، حقوقِ انسانی کے کارندوں اور دلتوں کے ساتھ ہوگا ۔ اور مسلمانوں کے ساتھ بھی ۔ اور یہ ٹی آر پی چوروں کی ٹولی، یہ گودی میڈیا پھر ایک بار ظالموں کی آواز میں آواز ملا کر کائیں کائیں کر رہی ہو گی ۔ لیکن فی الحال تو ریپبلک چینل گھیرے میں ہے ، سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا ہوگا تیرا ارنب ! سارے چینل انڈیا ٹوڈے اور آج تک بھی، جسے سشانت کے فیک ٹوئٹ پر ایک لاکھ روپے کا جرمانہ ہوا ہے، جیسا کہ کہا گیا ایک ہی حمام کے ننگے ہیں اس لیے ایک دوسرے کو بچانے کی کوشش کر سکتے ہیں ۔ اور ملک کے حکمران کہ سرپرست بنے ہوئے ہیں پوری کوشش کر سکتے ہیں کہ یہ چور سزا نہ پائیں ۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
پیسہ ملے اور خوب ملے، اصول، ضوابط اور اخلاق کا بھلے جنازہ نکل جائے ۔ ان دنوں اکثر ٹی وی نیوز چینل مذکورہ کلیہ پر آنکھیں بند کر کے عمل کرنے کو جائز سمجھنے لگے ہیں ۔ ایسے چینلوں میں بی جے پی کے بھونپو ارنب گوسوامی کا چینل ریپبلک بھارت سب سے آگے ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ چینل ٹی آر پی کے لیے لاشوں پر بھی کھیل جاتا ہے تو شاید غلط نہیں ہوگا ۔ جب سے ممبئی پولیس نے ارنب گوسوامی کے چینل کی، اپنی ٹی آر پی بڑھانے کے لیے کی جارہی غیر اخلاقی اور غیر قانونی سرگرمیوں کا پردہ فاش کیا ہے، ارنب گوسوامی بوکھلائے بوکھلائے پھر رہے ہیں ۔ کبھی وہ ممبئی کے پولیس کمشنر پرم بیر سنگھ کو عدالت میں گھسیٹ لینے کی دھمکی دیتے ہیں اور کبھی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ چونکہ سشانت سنگھ راجپوت معاملہ میں انہوں نے ممبئی کے پولیس کمشنر سے سوالات پوچھے تھے اس لیے یہ ٹی آر پی کے نام پر فراڈ کا معاملہ ان کے نیوز چینل ریپبلک بھارت کے سر منڈھا جا رہا ہے ۔ یہ فراڈ کس طرح کیا گیا اور پورا معاملہ کیا ہے اس پر بات کرنے سے پہلے ارنب گوسوامی کے ردعمل پر کچھ غور کرلیں ۔ ارنب نے ممبئی کے پولیس کمشنر کے ذریعے لگائے گئے الزامات کے بعد جو بیان جاری کیا ہے، اس میں، جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے سشانت سنگھ راجپوت کی خودکشی کا حوالہ دیا گیا ہے ۔ گوسوامی کا دعویٰ ہے کہ ممبئی کے پولیس کمشنر پرم بیر سنگھ نے اس معاملے کی جو تفتیش کی ہے وہ شک و شبہ کے گھیرے میں ہے، اور ان کے سوالات کی وجہ سے پولیس کمشنر نے یہ قدم اٹھایا ہے ۔ ارنب نے پالگھر مآب لنچنگ کا بھی ذکر کیا ہے ۔ ارنب کا کہنا ہے کہ یہ جو ریپلک نیوز چینل کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اس سے اسے سچائی کو اور زوردار انداز میں پیش کرنے کا حوصلہ ملے گا ۔ خیر ارنب جو بھی کہیں سچ یہ ہے کہ انہیں ان ہی کے انداز میں جواب دیا گیا ہے ۔ سشانت معاملہ میں انہوں نے جھوٹ کا پرچار کیا تھا، خودکشی کو قتل بنا کر پیش کیا تھا، اداکارہ رہا چکرورتی کو ملزم بنا کر کٹگھڑے میں کھڑا کر دیا تھا، ساری فلمی دنیا کو سشانت کا دشمن قرار دیا تھا اور فلمی دنیا کو منشیات کا گڑھ ثابت کرنے کے لیے نہ جانے کہاں کہاں سے آدھے ادھورے اور فیک ثبوت گڑھ کر پیش کیے تھے ۔ لیکن ایمس کی رپورٹ اور ریا چکرورتی کی ضمانت پر رہائی، بمبے ہائی کورٹ کا رہا کو کسی ڈرگ سنڈیکیٹ کا حصہ ماننے سے انکار اور سی بی آئی کا سشانت کے بینک کھاتے میں کسی طرح کے خورد برد کے بارے میں کسی ثبوت کا نہ پانا ، یہ وہ حقائق ہیں جو ارنب کے سارے دعوؤں کی قلعی کھول دیتے ہیں ۔ پتہ چلا کہ سب فیک تھا اور سارا کھیل ٹی آر پی کا تھا ۔ پالگھر معاملہ میں سونیا گاندھی کا نام لینا یقیناً زعفرانیوں کے اشارے پر تھا، یہ بھی ٹی آر پی کا ہی کھیل تھا ۔ ممبئی کے باندرہ علاقہ میں مہاجر مزدوروں کے ہجوم کو تبلیغی جماعت سے جوڑنا فرقہ وارانہ بھی تھا اور مسلمانوں کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف بھی، یہ بھی بلا شک و شبہ بی جے پی کو خوش کرنے کے لیے تھا اور ٹی آر پی بٹورنے کے لیے بھی ۔ دہلی فسادات اور حالیہ ہاتھرس گینگ ریپ معاملے میں بھی ریپبلک چینل کے جھوٹ سامنے آتے رہے ہیں ۔ یہ چینل لوگوں کو جھوٹ پروستا رہا ہے بھلے اس کے جھوٹ کی بنیاد پر ملک کے غریب، پچھڑے اور اقلیتیں بشمول مسلم اقلیت نشانہ بنائی جائے ۔ نشانہ بننے دو، ٹی آر پی بڑھے گی اور سیاسی آقا خوش ہوں گے اور دولت کی ریل پیل ہوگی ۔یہی ارنب اور ریپبلک چینل کا مطلوب تھا اور ہے ۔ اب سارا کیا دھرا سامنے آ گیا ہے ۔ پتہ چلا ہے کہ ٹی آر پی بڑھانے کے لیے یہ ناظرین کی خریداری کرتے تھے ۔ ہوا یہ کہ ٹی آر پی کا اندازہ کرنے کے لیے بی اے آر سی (بارک) نے ملک بھر میں 30 ہزار گھروں میں میٹر لگائے ہیں، ممبئی میں دس ہزار میٹر لگائے گئے ہیں، یہ میٹر ہنسا نامی ایک کمپنی کے ذریعے لگوائے گئے تھے ۔ میٹر کن کن گھروں میں لگے ہوئے ہیں اس کی جانکاری خفیہ رکھی گئی ہے لیکن چند چینلوں نے، جن میں ریپبلک بھارت شامل ہے، ہنسا کے پرانے ملازموں سے میٹر لگے بہت سے گھروں کا پتہ پیسے کے زور پر حاصل کیا پھر ان میٹر لگے گھروں کو اپنے چینل دن بھر چلاتے رہنے کے لیے پیسے دیئے، اس طرح ان کی ٹی آر پی میں اضافہ ہوا ۔ یہ عمل غیر قانونی اور غیر اخلاقی تھا، اس کی بدولت یہ چینل اپنی حیثیت سے زیادہ ریٹ میں اشتہار حاصل کرتے رہے یا بالفاظ دیگر کالے دھن سے اپنی تجوری بھرتے رہے ۔ واضح رہے کہ ہندوستان میں اشتہارات سے جینلوں کو 30,000 کروڑ روپے کی کمائی ہوتی ہے یعنی اتنی بڑی رقم کہ نسلیں بیٹھ کر کھائیں، اس رقم کو حاصل کرنے کے لیے بہت سے لوگ کچھ بھی کر سکتے ہیں بلکہ کرتے ہیں ۔ تو یہ تھا وہ کھیل جو بقول ممبئی پولیس کمشنر ارنب گوسوامی کھیل رہے تھے ۔ خیر ابھی ارنب سے صرف پوچھ گچھ کرنے کا اشارہ ہی دیا گیا ہے جبکہ دو چینلوں کے مالکان گرفتار کر لیے گئے ہیں ۔ یعنی یہ ٹریلر ہے ۔ ویسے ٹریلر ہی سے ارنب کے ہوش آڑے نظر آ رہے ہیں، آگے تو پوری پکچر ابھی باقی ہے ۔ ویسے جھوٹ اور فراڈ چھپتا نہیں ہے کبھی نہ کبھی سامنے آ ہی جاتا ہے، جیسے کہ آ رہا ہے ۔
مودی حکومت کے وضع کردہ شہریت کے قانون CAA کے خلاف دسمبر 2019 سے مارچ 2020 تک دہلی کے شاہین باغ میں منعقد ہونے والے تاریخی احتجاج کے تعلق سے سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا ہے وہ نیا نہیں ہے۔اس سے پہلے 2018 میں مزدور کسان شکتی سنگٹھن بنام حکومت ہند کے مقدمہ میں بھی وہ ایسا ہی ایک فیصلہ سناچکی ہے۔ فرق اتنا ہے کہ 2018 کا فیصلہ ایک خاص واقعہ کو محیط تھا اور اس میں مظاہرین کی تعداد اور دائرہ کو محدود کردیا گیا تھا جبکہ شاہین باغ والے فیصلہ میں سپریم کورٹ نے فیصلہ کے اثرات اور پولیس کے اختیارات کا دائرہ بڑھا دیا ہے۔
2018 میں کاشتکاری سے وابستہ مزدوروں کی جماعتوں نے جو دھرنا دیا تھا وہ جنتر منتر پر تھا۔۔ عدالت نے مظاہرین کی تعداد محدود کرنے اور احتجاج کے جمہوری حق کے ساتھ دوسرے شہریوں کے چلنے پھرنے کی آزادی کے حق کا بھی احترام کرنے کی تلقین کی تھی۔جبکہ شاہین باغ کے فیصلہ میں یہ دائرہ بڑھا دیا گیا ہے۔اس میں پولیس اور انتظامیہ کو ایک طرح سے کھلی چھوٹ کا واضح اشارہ دیدیا گیا ہے کہ آئندہ ملک میں جب بھی کوئی ”شاہین باغ“رونما ہو تو عدالت میں آنے کی بجائے اس سے خود نپٹا جانا چاہئے۔
عدالت نے اپنے فیصلہ میں شاہین باغ کے احتجاج کے Leaderless یا بے قائد ہونے کا بھی بطور خاص ذکر کیا ہے۔اس سلسلہ میں عدالت نے ان مذاکرات کاروں کی دو رپورٹوں سے استفادہ کیا ہے جن کو خود سپریم کورٹ نے ہی مقرر کیا تھا اور جن کو شاہین باغ اس امید میں بھیجا گیا تھا کہ وہ مظاہرین سے بات کرکے انہیں اس پر آمادہ کریں گے کہ وہ آنے جانے کا راستہ کھول دیں یا کسی دوسری جگہ بیٹھ کر اپنا احتجاج جاری رکھیں۔
مذاکرات کاروں نے اپنی رپورٹ میںAbsence of leadership (قیادت کے فقدان)اور Presence of influencers(اثر ورسوخ والوں کی موجودگی)کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہی دو عناصر کے سبب یہ مظاہرہ محض خواتین کی آواز اور ان کی طاقت کا محور نہیں رہ گیاتھا۔سپریم کورٹ کی سہ رکنی بنچ نے کہا کہ عدالت نے دو سینئر مذاکرات کاروں (سنجے ہیگڑے اور سادھنا راما چندرن) کو اس کوشش کے تحت مقرر کیا تھا کہ خول سے باہر آکر مظاہرین سے بات چیت کے ذریعہ مسئلہ کا حل نکل آئے۔عدالت نے کہا کہ ہمیں اس بات کا افسوس نہیں ہے کہ مذاکرات کاروں کی کوششیں بار آور نہ ہوسکیں۔اس لئے کہ کوشش کرکے نا کام ہوجانا اس سے بہتر ہے کہ کوشش بالکل ہی نہ کی جائے۔
عدالت نے پہلی رپورٹ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ”۔مطالبات بہت وسیع تھے اور کم سے کم آمد و رفت کا مسدود راستہ کھولے جانے کے لئے کسی درمیانے راستہ تک پہنچنا مشکل نظر آیا۔“ دوسری رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ مذاکرات کاروں نے اپنی سی بھر پور کوشش کی لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔عدالت نے اس رپورٹ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ احتجاج کے مقام پر لوگوں کی تعداد میں بھی آخر کارکمی آگئی تھی۔“
عدالت نے ایک اور نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ نجی گفتگو میں مظاہرین (کی طرف سے مذاکرات کرنے والے) جو کچھ کہتے تھے عوامی بیانات اور احتجاج کو خطاب کرتے وقت وہ اس سے بالکل مختلف بولتے تھے۔ اس کے علاوہ خواتین تو جہاں ٹینٹ کے اندر بیٹھتی تھیں باہر مرد رضا کاروں اور راہ گیروں کی بڑی بھاری تعداد موجود رہتی تھی جسے آمد و رفت کے راستہ کو مسلسل مسدود رکھنے میں دلچسپی تھی۔ایک مثال دیتے ہوئے کہا گیا کہ کورونا کی وبا کے آنے کے بعد 20 مارچ 2020 کو جب مظاہرہ گاہ کا دورہ کیا گیا توٹینٹ کے اندر کوئی 35-40 تخت رکھے تھے جن میں سے ہر تخت پر دو تین خواتین بیٹھی تھیں۔یعنی کل 75-100 خواتین تھیں جبکہ باہر 200 یا اس سے زیادہ تعداد میں مرد موجود تھے جن کا مظاہرہ سے تعلق تھا۔
عدالت نے رپورٹ کے حوالہ سے کہا کہ آنے کا جانے کا ایک طرف کا راستہ ٹینٹ نے مسدود کر رکھا تھا جبکہ دوسری طرف کا آدھا راستہ لائبریری‘انڈیا گیٹ کا بہت بڑا ماڈل اور لوہے کا بنا ہوا ہندوستان کا سہ رخی نقشہ نصب کرکے روک دیا گیا تھا۔لوہے کے اس نقشہ کو بہت مضبوط لوہے کے سہاروں پر رکھا گیا تھا اور لوہے کے ان سہاروں کو بہت بڑے پتھروں سے روک کر رکھا گیا تھا جن کو ہلانا بہت مشکل تھا۔
عدالت نے اپنے فیصلہ میں لکھا: ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ مظاہرین کی رہ نمائی کیلئے قیادت کے فقدان اور مظاہرین کے بہت سے گروپوں کی موجودگی ایسے اثر ڈالنے والے افراد کی موجودگی کا سبب بنی کہ جن کے ایک دوسرے سے مختلف مقاصد تھے۔۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ مظاہرہ محض خواتین کی طاقتور آواز نہیں رہ گیا تھا اور خود یہ خواتین بھی مظاہرہ کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت کھوچکی تھیں۔
عدالت نے اپنے فیصلہ میں مزید لکھا کہ ممکنہ طور پر مظاہرین کو وبا کے بڑھنے کا بھی احساس نہیں تھا اور اسی لئے وہ دوسری جگہ منتقل ہونے کو تیار نہ ہوئے۔ آخر کار یہ احتجاج ”اللہ کی مداخلت“ (Hand of God) کے سبب ختم ہوا۔. عدالت نے یہ بھی لکھا کہ ”یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ انگریزوں کی حکمرانی کے خلاف ظاہر کئے جانے والے اختلاف کے طور طریقوں کا موازنہ خود اپنی جمہوریت میں کئے جانے والے اختلاف سے نہیں کیا جاسکتا۔۔۔ آئین اختلاف رائے کے حق کی ضمانت دیتا ہے لیکن کچھ فرائض کی ادائیگی کی ذمہ داریوں کے ساتھ۔
عدالت نے اپنے فیصلہ میں ایک اہم بات یہ بھی لکھی: آئین کا آرٹیکل 19 (1) (A) اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے اور آرٹیکل 19(1) (B) حکومت کے کسی ایکشن یا عدم ایکشن کے خلاف کسی جگہ بغیر ہتھیار جمع ہوکر مظاہرہ کا حق دیتا ہے اور اس حق کا ریاست (حکومت) کو بھی احترام کرنا چاہئےـ
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
نئی دہلی:مرکزی وزیرتعلیم ڈاکٹر رمیش پوکھریال نشنک نے کہاہے کہ قومی اہلیت مقابلہ جاتی داخلہ امتحان NEET UG کے نتائج وقت پر جاری کردیئے جائیں گے۔ وزیر تعلیم نے کہاہے کہ نئے سیشن کے تاخیر سے شروع ہونے کی وجہ سے نتائج طے شدہ تاریخ کو جاری کردیئے جائیں گے۔ اس سلسلے میں قومی جانچ ایجنسی (این ٹی اے) 12 اکتوبر کو یا اس سے پہلے نتائج جاری کرے گی۔ میڈیکل انڈرگریجویٹ کورسز میں داخلہ کے لیے ntaneet.nic.in میں امیدوار اپنے نتائج ، اسکور کارڈ اوررینک کی جانچ پڑتال کرسکتے ہیں۔اس سال ، 15.97 لاکھ امیدواروں نے NEET UG امتحان 2020 کے لیے اندراج کیاتھا۔ این ٹی اے نے 13 ستمبر کو ملک بھر میں یہ امتحان کرایا تھا۔ تاہم امتحان سے قبل بہت سارے طلباء اورسیاسی جماعتیں اس کی مخالفت کر رہی تھیں۔ اسی تسلسل میں 7 ریاستوں کی حکومتوں نے بھی امتحان ملتوی کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی ، جسے بعد میں عدالت نے مسترد کردیا۔ کوروناکے مابین ہونے والے NEET-UG امتحان میں %85-90 امیدوار شریک ہوئے۔
ہاتھرس کیس:510 قانون کے طلبہ نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کوخط لکھا،مجرم افسران کے خلاف کاروائی کا مطالبہ
نئی دہلی:یوپی کے گینگ ریپ کے مبینہ کیس میں لاء (قانون) کے 510 طلبہ نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ایس اے بوبڑے کو خط لکھا ہے۔ قانون کے طلبہ نے سپریم کورٹ سے معاملے میں مداخلت کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے مجرم افسران کے خلاف کاروائی کی اپیل کی ہے۔ نوئیڈا کے دو قانون کے طلبہ نے اس خط پر دستخط کئے ہیں۔ مختلف یونیورسٹیوں اور کالجوں کے لاء طلباء کا نام درج ہے۔ خاص طور پر رات گئے متاثرہ بچی کی لاش کوجلانے پر طلبہ نے اعتراض کیا ہے۔خط میں لکھا گیا ہے کہ انسانی بنیادوں پر حکومت ہند نے حکومت پاکستان سے ایک دہشت گرد اجمل قصاب کی لاش لے جانے کی درخواست کی، یہ الگ بات ہے کہ حکومت پاکستان نے اسے قبول نہیں کیالیکن ہاتھرس میں یہ انسانیت پسندی اس خاندان کے ساتھ نہیں دکھائی گئی جس نے پوری زندگی ہندوستان میں بسر کی۔ وہ گھریلو لڑکی جس نے انتہائی گھناؤنے جرم میں اپنی جان گنوا دی۔اس خط میں مزید لکھا گیا ہے کہ پولیس نے مبینہ طور پر ایک بیان دیا ہے کہ فیملی سے مردہ بچی کی لاش کو جلا دینے کی اجازت لی گئی تھی، جبکہ متعدد مواقع پر متاثرہ کے اہل خانہ نے کہاہے کہ آخری رسومات ان کی مرضی کے خلاف انجام دی گئیں۔ پولیس کے پاس اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے ایسے دستاویزات موجود نہیں ہیں۔
ممبئی:ممبئی پولیس کمشنر پرمبیر سنگھ نے ایک پریس کانفرنس میں دعوی کیا ہے کہ ٹی آر پی کا جعلی ریکیٹ چل رہا ہے۔ اس معاملے میں 2 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ انہوں نے ریپبلک ٹی وی سمیت تین چینلز کے نام رکھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریپبلک ٹی وی پیسہ ادا کرکے ٹی آر پی خریدتا تھا۔ممبئی پولیس کمشنر پرمبیر سنگھ نے کہا کہ یہ ایک جرم ہے، ہم اس کی روک تھام کے لئے تحقیقات کر رہے ہیں۔ فورنسک ماہرین کی مدد لی جارہی ہے، جو ملزمان پکڑے گئے ہیں ان کی بنیاد پر مزید کارروائی کی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ دو چھوٹے چینل بھی اس میں شامل ہیں۔ ان کے مالکوں کو تحویل میں لیا گیا ہے۔ اعتماد کی خلاف ورزی اور دھوکہ دہی کے مقدمات درج ہیں۔انہوں نے کہاکہ بڑا ریکیٹ چل رہا ہے، یہ ریکیٹ جعلی ٹی آر پی کا ہے۔ ٹیلی ویژن اشتہاری صنعت کی مالیت تقریبا 30 سے 40 ہزار کروڑ کی ہے۔ اشتہار کی شرح کا فیصلہ ٹی آر پی ریٹ کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ کس چینل کو اشتہار ملے گا اسی کے مطابق فیصلہ کیا جاتا ہے، اگر ٹی آر پی میں کوئی تبدیلی آتی ہے تو اس سے آمدنی پر اثر پڑتا ہے، کچھ لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور کچھ لوگ اس سے نقصان اٹھاتےہیں۔ انہوں نے کہاکہ بی آر سی ٹی آر پی کی پیمائش کرنے والا ادارہ ہے۔ وہ مختلف شہروں میں بیرومیٹر لگاتے ہیں، ملک میں لگ بھگ 30 ہزار بیرومیٹر لگائے گئے ہیں۔ ممبئی میں لگ بھگ 10 ہزار بیرومیٹر لگائے گئے ہیں۔ بیرومیٹر لگانے کا کام ممبئی میں ہنسا نامی ایک ادارہ کو دیا گیا تھا۔ تفتیش کے دوران یہ انکشاف ہوا ہے کہ کچھ پرانے کارکن جو ہنسا کے ساتھ کام کر رہے تھے ٹیلی ویژن چینل سے ڈیٹا شیئر کررہے تھے۔
نئی دہلی:کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی وڈرا نے جمعرات کے روز دعویٰ کیا ہے کہ ہاتھرس میں مبینہ اجتماعی عصمت دری اور قتل کے معاملے میں مقتولہ کے کردار کو داغدار کرنے اور اسے اس جرم کے ذمہ دار ٹھہرانے کی سازش کی جارہی ہے جوقابل نفرت ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ دلت لڑکی انصاف کی مستحق ہے، بدنامی کی نہیں۔ پرینکا نے ٹویٹ کیاکہ ایک ایساماحول پیدا کرنا جس کا مقصد لڑکی کے کردار کو داغدار بنانا ہے اور کسی طرح اسے اپنے خلاف جرم کا ذمہ دار ٹھہرانا ہے ناگوار ہے۔ ہاتھرس میں ایک بہیمانہ جرم کیا گیا جس میں ایک انیس سالہ بچی کی موت ہوگئی۔ کنبہ کی رضامندی یا اس کی موجودگی کے بغیر اس کا جسم جلا دیا گیا۔ وہ بدنامی کی نہیں، انصاف کی مستحق ہے۔
ہم اظہاررائے کی آزادی کے نہیں شرانگیزی اور منفی رپورٹنگ کے خلاف ہیں:مولانا ارشدمدنی
نئی دہلی:’’حالیہ دنوں میں اظہاررائے کی آزادی کا بے دریغ غلط استعمال ہوا ہے اور یہ کہ مرکزکی طرف سے جو حلف نامہ عدالت میں داخل کیا گیا ہے وہ نامکمل ہے اور حیلہ سازی وڈھٹائی پر مبنی ہے ‘‘چیف جسٹس آف انڈیا ایس اے بوبڑے نے یہ سخت تبصرہ آج اس پٹیشن پر سماعت کے دوران کیا جو کروناوائرس کو مرکز نظام الدین سے جوڑ کر مسلمانوں بالخصوص تبلیغی جماعت سے وابستہ لوگوں کی شبیہ کو داغدار کرنے اور ہندوؤں ومسلمانوں کے درمیان منافرت پھیلانے کی دانستہ سازش کرنے والے ٹی وی چینلوں اور پرنٹ میڈیاکے خلاف مولانا سید ارشدمدنی صدرجمعیۃ علماء ہند کی ہدایت پر سپریم کورٹ میں داخل کی گئی ہے ، اس پٹیشن پر آج چیف جسٹس آف انڈیا کی سربراہی والی تین رکنی بینچ نے سماعت کی چیف جسٹس آف انڈیا نے اس بات کیلئے بھی مرکزکو زبردست لتاڑ لگائی کہ اس نے اپنے حلف نامہ میں کہا ہے کہ اسے خراب یا منفی رپورٹنگ کا کوئی ثبوت نہیں ملا ، چیف جسٹس نے سالیسٹر جنرل تشارمہتاسے سوال کیا کہ آپ یہ کس طرح سے کہہ سکتے ہیں کہ غلط اور منفی رپورٹنگ کا کوئی واقعہ رونماہی نہیں ہوا ، عدالت نے یونین آف انڈیا کی نمائندگی کرنے والے سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتاسے اس بات پر بھی اعتراض کیا کہ حکومت کی جانب سے جونیئر افسران کے ذریعہ داخل کردہ حلف نامہ میں یہ کیسے لکھ دیاگیا کہ عرضی گذار(جمعیۃ علماء ہند) نے بغیر کسی واقعہ اور حوالہ کے یعنی فیک نیوز کی تفصیلات دیئے بغیر پٹیشن داخل کردی ، عدالت نے تشار مہتا کو کہاکہ عرضی گذار نے پٹیشن میں تبلیغی جماعت کے تعلق سے چلائے جانے والی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں فرقہ وارانہ اور اشتعال انگیز خبروں سے متعلق تمام شواہد و ثبوت درج کئے ہیں۔چیف جسٹس نے تشار مہتا سے کہاکہ آپ عدالت سے اس طرح سے نہ پیش آئیں جس طرح آپ اپنے ماتحت افسران سے پیش آتے ہیں اور حلف نامہ نہایت ذمہ داری کے ساتھ حقائق پر مبنی داخل کریں جس پر تشار مہتا نے عدالت کو یقین دلایا کہ وہ اس معاملے کی اگلی سماعت پر سینئر افسر کے ذریعہ تیار کردہ تازہ حلف نامہ داخل کریں گے جو ان کی زیر نگرانی تیار کیا جائے گا۔عدالت نے سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشارمہتا سے یہ بھی کہا کہ حلف نامہ میں یہ خصوصی طور پر تحریر کریں کہ ماضی میں ایسی شکایتوں پر مرکزی حکومت نے کن قوانین کے تحت کیا کارروائی کی ہے نیز کیا حکومت کو ٹیلی ویژن پر پابندی لگانے کا اختیار ہے ؟ چیف جسٹس آف انڈیا نے سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشارکو مہتا کو حکم دیا کہ دو ہفتوں کے اندروزارت نشریات واطلاعات کے سیکریٹری کی جانب سے حلف نامہ داخل کرکے یہ بتائیں کہ ایسے نیوز چینلوںکے خلاف کیا کارروائی کی جاسکتی ہے ۔دوران سماعت چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا کہ آزادی ٔ اظہار رائے کا حالیہ دنوں میں بے دریغ غلط استعمال ہوا ہے ،یعنی کہ چیف جسٹس یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ آزادیٔ اظہار رائے کے نام پر جانب داری کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ اسی درمیان جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے بحث کرتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ دشینت دوے نے آج چیف جسٹس اے ایس بوبڈے، جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس وی راما سبرامنیم کوبتایا کہ یونین آف انڈیا کی جانب سے داخل کیا گیا حلف نامہ عدالت کو گمراہ کرنے والا ہے نیز ہماری جانب سے داخل کردہ پٹیشن میں سیکڑوں خبروں کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کو بدنام کیا گیا تھا ۔ایڈوکیٹ دشینت دوے نے عدالت کو بتایا کہ مرکزی حکومت کے حلف نامہ سے ایسا لگتا ہے کہ عرضی گذار نے پٹیشن داخل کرکے آزادی اظہار رائے پر پابندی لگانے کی کوشش کی ہے جبکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے ، اس کے برخلاف ہماری عدالت سے گذارش ہے کہ تبلیغی جماعت اور مسلمانوںکوبدنام کرنے والے ٹی وی چینلوں پر پابندی لگائی جائے۔اس معاملے کی سماعت بذریعہ ویڈیو کانفرنسنگ ہوئی جس کے دوران سینئر ایڈوکیٹ دشینت دوے کی معاونت کرنے کے لیئے ایڈوکیٹ اعجاز مقبول (ایڈوکیٹ آن ریکارڈ) اور ان کے معاونین وکلاء موجود تھے۔
آج کی قانونی پیش رفت پر اپنے ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے کہا کہ چیف جسٹس آف انڈیا ایس اے بوبڑے نے آج کی سماعت کے دوران جو باتیں کہی ہیں اور جن کی انہوں نے وضاحت چاہی ہے اس سے ہمارے موقف کی مکمل تائید ہوگئی انہوں نے کہا کہ عدالت کے استفسار پر مرکزی حکومت کی طرف سے حیلہ سازی پر مبنی ایک نامکمل حلف نامہ کا داخل کیا جانا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حکومت کی نیت میں کھوٹ ہے اوروہ متعصب میڈیا کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرنا چاہتی انہوں نے کہا کہ جمعیۃعلماء ہند نے اپنی عرضی میں ثبوت وشواہد کے ساتھ جو کچھ کہا ہے سالیسٹر جنرل آف انڈیا اس کو غلط ڈھنگ سے پیش کرنا چاہ رہے ہیں اور مرکزکی طرف سے داخل کئے گئے حلف نامہ میں بھی کچھ ایسا ہی تاثر دینے کی دانستہ کوشش ہوئی ہے کہ عرضی گزارنے اس طرح کی عرضی داخل کرکے اظہاررائے کی آزادی پر قدغن لگانے کی بات کہی ہے جبکہ سچائی یہ ہے کہ عرضی میں اظہاررائے کی آزادی پر پابندی لگانے جیسی کوئی بات سرے سے ہے ہی نہیں بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ جو نیوز چینل ایک مخصوص قوم کو منصوبہ بند طریقہ سے اپنی شرانگیز اور یکطرفہ رپورٹنگ کے ذریعہ نشانہ بناکر ملک میں فرقہ وارانہ منافرت کو ہو ادینے کی دن رات سازشیں کرتے ہیں ان پر پابندی لگنی چاہئے اور ان کے لئے کوئی حتمی گائیڈلائن مقررکی جانی چاہئے ۔ مولانا مدنی نے کہا کہ یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ اس حوالہ سے جمعیۃعلماء ہند کو جو کچھ کہنا چاہئے تھا چیف جسٹس آف انڈیا نے اپنے تبصرے میں کہہ دیا ہے ۔ انہوں نے ایک طرح سے یہ کہہ کر کہ حالیہ دنوں میں اظہاررائے کی آزادی کا بے دریغ غلط استعمال ہوا ہے متعصب میڈیا کے کردارپرسے نقاب الٹ دی ہے ، مولانا مدنی نے آگے کہا کہ آئین نے ملک کے ہرشہری کو اظہارکی مکمل آزادی دی ہے ہم کلی طورپر اس سے اتفاق کرتے ہیں لیکن اگر اظہاررائے کی اس آزادی سے دانستہ کسی کی دل آزاری کی جاتی ہے کسی فرقہ یا قوم کی کردارکشی کی کوشش ہوتی ہے یا اس کے ذریعہ استعال انگیزی پھیلائی جاتی ہے تو ہم اس کے سخت خلاف ہیں ، آئین میں اس کی مکمل وضاحت موجود ہے ،انہوں نے ہاتھرس کے حالیہ واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک مجبورلڑکی کی آبروریزی ہوتی ہے اسے سخت ذہنی وجسمانی اذیت دی جاتی ہے یہاں تک کہ بعد میں وہ اسپتال میں دم توڑدیتی ہے مگر اس واقعہ میں بھی ملک کی فرقہ پرست ذہنیت اور متعصب میڈیا ہندوومسلمان کا رخ تلاش کرنے لگتاہے کہا جارہا ہے کہ اس واقعہ کی آڑمیں اترپردیش میں بڑے پیمانہ پر دنگافسادبرپا کرنے کی بین الاقوامی سازش ہوئی ہے ، کیرالاسے ہاتھرس رپورٹنگ کرنے گئے کچھ مسلم صحافیوں کو گرفتارکرکے اب اس سازش کو حقیقت کا روپ دینے کی کوشش ہوئی ہے اور اس کے بعد ہی سے بیشتر نیوزچینلوں کا رویہ بدل چکا ہے ، متاثرہ لڑکی کو انصاف دلانے کی جگہ فرقہ پرست ذہنیت اوریہ نیوزچینل اب اس پورے واقعہ کو ہندومسلم کا رنگ دینے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں ۔ مولانا مدنی نے کہا کہ اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بھی میڈیا راہ راست پر آنے کو تیارنہیں ہے البتہ آج چیف جسٹس آف انڈیا نے جس طرح کے سخت تبصرے کئے ہیں اس سے اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس معاملہ میں جلد ہی کوئی مثبت فیصلہ آئے گا اورفرقہ پرست ذہنیت اور متعصب میڈیا کے منہ میں لگام پڑجائے گی۔ واضح رہے کہ جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل پٹیشن میں گلزار احمد اعظمی مدعی بنے ہیں جس میں عدالت کی توجہ ان ڈیڑھ سو نیوز چینلوں اور اخبارات کی جانب دلائی گئی ہے جس میں انڈیا ٹی وی،زی نیوز، نیشن نیوز،ری پبلک بھارت،ری پبلک ٹی وی،شدرشن نیوز چینل اور بعض دوسرے چینل شامل ہیں جنہوں نے صحافتی اصولوں کو تار تار کرتے ہوئے مسلمانوں کی دل آزاری کی اور قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے کی ناپاک سازش کی تھی ان کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔
مسلمانوں سے بدلہ لینے کےلیے۔ ایم ودود ساجد
مشرقی دہلی کے فسادات کے سلسلہ میں دہلی پولیس نے دو مسلم نوجوانوں کے قتل اور فساد پھیلانے کے مقدمہ میں 18 ملزموں کے خلاف ایک اضافی چارج شیٹ داخل کی ہے۔اس چارج شیٹ کے مشمولات بڑے دلچسپ ہیں۔۔فسادات کے دوران ہاشم علی اور اس کے بھائی عامر علی کا قتل گوکل پوری میں ہوا تھا جس کا مقدمہ چیف میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ پرشوتم پاٹھک کی عدالت میں چل رہا ہے۔۔پولیس نے اس چارج شیٹ میں دفعہ 153-A اور 505 بھی شامل کی ہے۔۔ یہ دونوں دفعات بالترتیب مختلف طبقات کے درمیان رنگ‘نسل‘مذہب اور زبان کی بنیاد پر دشمنی کو فروغ دینے اورمذہب کی بنیاد پر دوسرے طبقہ کے متاثرین سے بدلہ لینے کے لئے کسی جگہ اکٹھا ہونے سے بحث کرتی ہیں۔
آپ کو یاد ہوگا کہ مارچ 2020 میں‘ میں نے اس سلسلہ کے ایک سے زائد مضامین لکھے تھے۔ان مضامین میں بہت سے غیر مسلم صحافیوں کی رپورٹوں کی بنیاد پر کئی اہم نکات شامل کئے تھے۔ان میں سے ایک اطلاع یہ تھی کہ پولیس نے 125 نوجوانوں کے ایک وہاٹس ایپ گروپ کودریافت کیا ہے جو 25 فروری کی صبح ہی تشکیل دیا گیا تھا اور جس کا نام ’کٹر ہندوایکتا‘ ہے۔
26 ستمبر کو پولیس نے جو اضافی چارج شیٹ داخل کی ہے اس میں مذکورہ گروپ میں ہونے والی گفتگو کے کچھ اقتباسات بھی شامل کئے ہیں۔ان میں سے ایک جگہ گروپ کا ایک ممبر ’بنی‘ Binni کہتا ہے: بھائی آر ایس ایس کے لوگ آگئے ہیں یہاں سپورٹ میں‘۔ پولیس نے لکھا ہے کہ یہ میسج 25 فروری کو تشکیل دئے گئے مذکورہ گروپ میں رات کو 8 بج کر ایک منٹ پر لکھا گیا تھا۔
ہاشم علی وغیرہ کے قتل اور فساد پھیلانے کے الزام میں جو نوجوان جیل میں ہیں ان کے نام یہ ہیں: لوکیش کمار سولنکی‘ پنکج شرما‘ سمت چودھری‘ انکت چودھری‘ پرنس‘ جتن شرما‘ وویک پنچل‘ رشبھ چودھری اورہمانشو ٹھاکر۔۔اس کے علاوہ مزید 9 ملزم ہیں جو ابھی تک گرفتار نہیں کئے جاسکے ہیں۔۔ پولیس نے اس چارج شیٹ میں لکھا ہے کہ مذکورہ وہاٹس ایپ گروپ 25 فروری 2020 کو مسلم طبقہ سے بدلہ لینے کیلئے بنایا گیا تھا۔
پولیس نے وہاٹس ایپ گروپ پر ممبروں کی باہمی گفتگو کے جو چند اقتباسات پیش کئے ہیں ان میں ایک جگہ وہ گفتگو ہے جس میں یہ لوگ مدرسوں اور مسجدوں کو تباہ کرنے اور مسلمانوں کو قتل کرنے کی بات کر رہے ہیں۔۔ پولیس نے ایک جگہ لکھا ہے کہ: وہاٹس ایپ گروپ پر باہمی گفتگو کے مطابق ان لوگوں نے ہندؤں پر حملہ کرنے کے جواب میں مسلمانوں کو سبق سکھانے کی ساز ش کی۔۔ وہ لاٹھی ڈنڈوں‘چھڑیوں‘ تلواروں اور آتشیں اسلحہ سے لیس تھے اور انہوں نے ہاشم علی‘ اس کے بھائی عامر علی سمیت 9 بے گناہ مسلم افراد کو قتل کیا تھا۔
چارج شیٹ میں مزید لکھا گیا کہ: مذکورہ الزام اس حقیقت سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ نوجوان مسلمانوں سے بدلہ لینے کیلئے اس پروپگنڈے کی نچلے درجہ کی حماقت کو سمجھنے میں ناکام رہے کہ وہ اپنی کمیونٹی کے محافظ ہیں اور اسی لئے انہوں نے یہ وہاٹس ایپ گروپ تشکیل دیا۔گروپ کے افراد نے اپنی انفرادیت کو ضم کرتے ہوئے ایک ’ہجوم‘کی ذہنیت سے کام کرنا شروع کردیا۔۔جے شری رام اور ہر ہر مہادیو جیسے فاتحانہ مقدس نعروں نے ان کے دماغ کو ماؤف اور ان کی تخلیقی فطرت کو مفلوج کرکے رکھ دیا۔
چارج شیٹ میں کپل مشرا کا بھی ذکر آیا ہے۔بتایا گیا ہے کہ وہاٹس ایپ گروپ کی گفتگو میں کپل مشرا کا نام بھی لیا گیا۔۔ 25 فروری کی شب 9 بج کر 13 منٹ پر ایک ممبر نے لکھا: میں دیکھ رہا ہوں کہ بہت سے سمجھ دار لوگ لکھ رہے ہیں کہ کپل مشرا قصوروار ہے۔آخر کپل مشرا نے (ایسا) کیا کہہ دیا ہے؟ یہی نا کہ اگر روڈ کلیر نہ کیا گیا تو سی اے اے کے حامی بھی روڈ پر آجائیں گے؟ یہ بھی اسی طرح آئینی طور پر جائز ہے جس طرح یہ دنگائی اپوزیشن اور پروٹیسٹ کے نام پر روڈ کو بلاک کئے ہوئے ہیں۔آخر الٹی میم دینے میں کیا غلط ہے۔ جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ کپل مشرا نے آگ بھڑکائی اور اسی کی وجہ سے یہ سب ہوا وہ جامعہ (تشدد) اور شاہین باغ (احتجاج) کا ذمہ دار کسے سمجھتے ہیں؟ -امانت اللہ اور شرجیل کے بارے میں بھی بات کرو-اگر کپل مشرا کی باتو ں کی وجہ سے دنگا بھڑکا ہوتا تو پورے دیش میں آگ لگ جاتی“۔
یہاں دہلی پولیس کی چارج شیٹ کی بات ختم ـ
میں اس چارج شیٹ پر اپنا تجزیہ پیش کرنے کے لئے تیار کرچکا تھا کہ ذہن میں آیا کہ آج کسی ماہر قانون سے اس کا تجزیہ معلوم کیا جائے۔۔اس ضمن میں میں نے معروف وکیل اور دہلی بار کونسل کے وائس پریذیڈنٹ حمال اختر ایڈوکیٹ سے بات کی۔انہوں نے کہا کہ یہ فسادات فرقہ وارانہ تھے اوران کا سی اے اے کے خلاف احتجاج سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔۔۔انہوں نے پولیس کی مذکورہ چارج شیٹ پر اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے ممکن ہے کہ اس یکطرفہ کارروائی کا جواز پیدا کرنے کیلئے اس طرح کی چارج شیٹ تیار کی ہو جو وہ مسلمانوں کے خلاف کر رہی ہے لیکن یہ ایک اچھی چارج شیٹ ہے اور اس موقع کو مسلمان اپنے حق میں استعمال کرسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ چارج شیٹ میں آر ایس ایس اورکپل مشرا کا ذکر پولیس نے اپنے انداز میں کیا ہے اورممکن ہے کہ دونوں کو بچانے کی کوشش کی ہو لیکن میں سمجھتا ہوں کہ چارج شیٹ میں یہ بہت اہم نکات شامل ہوگئے ہیں۔
حمال اختر نے کہا کہ اگر پولیس نے آر ایس ایس کا ذکر شامل کیا ہے تو سمجھ لیجئے کہ آر ایس ایس کا ذکر شامل کرنے کی کوئی بہت بڑی مجبوری ہوگی۔۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس کیس کو انتہائی فہم وشعور کے ساتھ لڑا جائے تو اسی بنیاد پر آر ایس ایس پر پابندی لگوائی جاسکتی ہے اور کپل مشرا کے خلاف متاثرین کی طرف سے درخواست دے کر اسے عدالت میں گھسیٹا جاسکتا ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
اترپردیش میں صحافی کی گرفتاری غیر قانونی اور انتہائی قابل مذمت:ایس ڈی پی آئی
نئی دہلی:سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (ایس ڈی پی آئی) کے قومی جنر ل سکریٹری کے ایچ عبدالمجید نے اپنے جاری کردہ اخباری بیان میں کہا ہے کہ اتر پردیش میں صحافی اور سماجی کارکنان کا گرفتار کیا جانا غیر قانونی اور انتہائی قابل مذمت ہے۔ یوگی کی حکمرانی والا اتر پردیش اب آمریت کاحقیقی مظہر بن گیا ہے۔اترپردیش میں پولیس کا استعمال کرکے اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ برا سلوک کیا جارہا ہے۔ اختلاف رائے کی آوازوں کودبایا جارہا ہے۔ احتجاج کو روکاجارہاہے اور انصاف کےلیے لڑنے والوں کو فرضی مقدمات میں گرفتار کرکے انہیں جیل میں دھکیلا جارہا ہے۔ ہاتھرس معاملے نے یوپی کے ڈکٹیٹر کو پریشان کردیا ہے۔ اس ڈکٹیٹر کی جمہوریت مخالف سرگرمیوں کے ایک حصے کے طور پر کیرلا یونین ورکنگ جرنلسٹ (KUWJ) کے سکریٹری اور ملیالم صحافی صدیق کپپن، کیمپس فرنٹ آف انڈیا کے قومی خازن عتیق الرحمن، سماجی کارکنان مسعود احمد اور عالم جو ہاتھرس کی نربھیاکے سوگوار خاندان سے ملنے جارہے تھے ان کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اس گرفتاری کے تعلق سے پولیس کا کہنا ہے کہ پولیس کو اطلاع ملی کہ کچھ ‘مشکوک افراد دہلی سے ہاتھرس جارہے ہیں ‘اور انہوں نے ان نوجوانوں کو ٹول پر روک لیا۔ ان کے موبائل فون، ایک لیپ ٹاپ اور کچھ لٹریچر ‘جس کا اثر ریاست کے امن وامان پر پڑسکتا ہے ‘پر پولیس نے قبضہ کرلیا ہے!۔ان نوجوانوں کا مبینہ طور پر پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے ساتھ تعلقات ہے۔ ایس ڈی پی آئی قومی جنر ل سکریٹری کے ایچ عبدالمجید نے اس بات کی طرف خصوصی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاپولر فرنٹ قانونی طور پر کام کرنے والی ایک تنظیم ہے،جو سال کے آغاز میں سی اے اے شہریت مخالف مظاہروں میں صف اول میں ہونے کی وجہ سے عام طور پر سنگھیوں اور خاص طور پر یوگی کے آنکھوں کا کانٹا بن چکی ہے۔ صحافی اور سماجی کارکنان کی گرفتاری سے یوگی کی بزدلی بے نقاب ہوتی ہے۔ ان کو خوف ہے کہ کہیں ان کی ریاست میں جو لاقانونیت، مظالم اور انتشار ہے اس کے بارے میں کہیں ساری دنیا کو معلوم نہ ہوجائے۔ ہاتھرس کی نربھیا کی آخری رسومات ادا کرنے سے بھی ان کے خاندان کو محروم کرکے راتوں رات کریا کرم کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ یوگی اس معاملے کو دبانا چاہتے ہیں اور مجرموں کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہاتھرس میں ہوئی درندگی اور اجتماعی زیادتی و قتل سے پورے ملک میں شدید غم وغصہ ہے۔ دوسرے دن جب اپوزیشن لیڈران ہاتھرس کی متاثرہ کے گھر جارہے تھے تو اتر پردیش پولیس نے ناکہ بندی کرکے ان کے ساتھ برا سلوک کیا۔ ہاتھرس کی نربھیا کے انصاف کےلیے ہورہے مظاہروں کے پیچھے سازش ہونے کا الزام لگا کر یوگی آدتیہ ناتھ مظاہرین کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کر کے اپنا چہرہ بچانے کی کوشش کررہے ہیں۔ سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا پرزورمطالبہ کرتی ہے کہ گرفتار نوجوانوں کو فوری طور پر رہا کیا جائے اور یوپی حکومت کی مظالم کو روکا جائے تاکہ وہ اس مسئلے کو بغاوت کا نام دیکر اصل معاملے سے عوام کی توجہ ہٹا نے میں کامیاب نہ ہوسکے۔
یکسانیت، فکری، فنی یا اظہاری سطح پر ہو۔بوریت، اکتاہٹ اورجھنجھلاہٹ کا باعث ہوتی ہے۔ ایک ہی موسم، ماحول،فضا، رنگ،آہنگ ہوتو بے کیفی سی محسوس ہوتی ہے۔ ایسی صورت حال اس کرشمہ یا کشش سے محروم ہوتی ہے جو دامن دل کو کھینچتے ہیں۔ نئی فضا، نئے افق، نئے جزیرے کی جستجو اس لیے ہوتی ہے کہ انسان تحیرواستعجاب کی کیفیت سے ہمکنار رہے اور اس کے اندر کا اضطراب اور تجسس زندہ رہے ورنہ یا تو وہ مرجائے گا یا پھر منجمد ہوجائے گا۔
یکسانیت اورMonotonyسے نجات حاصل کرنے کے لیے ہی انسان نے نئے علاقوں اور منقطوں کو دریافت کیا، نئی وادیوں کی جستجو کی۔ ادب جو انسانی فطرت کا آئینہ دار ہے وہاں بھی یہی ’ذوق جستجو‘ بلکہ سودائے جستجو اس کے پرکیف اور حسن تازہ کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ادب کے جمال کی دوشیزگی میں یہی عمل تجسس کارفرما ہے۔ اگر یہ عمل ٹھہرجائے تو پھر ادب بھی منجمد کائی زدہ گھاس یا پانی کی طرح کثافت زدہ ہوجائے گا۔ ہر دور میں ادب کو ایک نئی آکسیجن کی ضرورت محسوس ہوتی رہی ہے۔ ہرلحظہ نیا طور نئی برق تجلی ہی ادب کی زندگی کا ضامن ہے۔ ستاروں سے آگے کے جہاں کی جستجو ہی ادب کا مقصد ہے۔ اگر یہ مقصد فوت ہوجائے تو پھرادب ایک ’تن مردہ‘ میں تبدیل ہوجائے گا۔
ادب نئی کائناتوںکی جستجو سے عبارت ہے۔ احساس واظہار کے باب میں بھی معاملہ کچھ ایسا ہی ہے کہ جب تک کوئی نیا تخیل، تصور، اسلوب،آہنگ، سمفنی، میلوڈی نہ ہو تو احساس و اظہار کی معنویت منکشف نہیں ہوتی اور نہ ہی قاری ایسے احساس واظہار کا اسیر ہوسکتا ہے۔ قاری کے لطف وانبساط یااسیری کے لیے احساس کا انفراد اوراظہار کا تفرد ناگزیر ہے۔
یکسانیت باطن میں ہو یا خارج میں، انسان اسے زیادہ دیر تک برداشت نہیں کرسکتا۔ ایک متحرک اور حساس ذہن ایک مقام ایک منزل میں منجمد نہیں رہ سکتا۔ انجماد اس کے لیے موت ہے یا سب سے بڑی سزا اور ایسے انسان کو ہمہ وقت کسی نئے نکتہ کی تلاش رہتی ہے اورجب تک اسے کوئی ایسا نقطہ تحیر نہ مل جائے، تب تک وہ ملتہب رہتا ہے۔ ایسے انسان زیادہ تر تخلیقی عمل سے جڑے ہوتے ہیں اور شاید تخلیق بھی اسی اضطراب والتہاب کا نام ہے۔
معتبر، جینوئن تخلیق ہمیشہ نئے پانیوںمیں قدم رکھتی ہے اورتازہ سیال پانی کے لمس سے اپنے معنوی وجود کو توانا اور تابندہ کرتی ہے اور تازہ خوشبوؤں سے مشام جاں کو معطر کرتی ہے اس طرح اپنی روشنی اورخوشبو دور دور تک پھیلاتی ہے اور ایسی ہی تخلیق ماورائے زماں ومکاں ہوتی ہے۔
یہ سچ ہے کہ ہمارے عصری تخلیقی ادب کا ایک بڑا حصہ ذہنوں کو نئے نکتوں سے آشنا کرنے یاقاری کو ’دیدہ حیراں‘ عطا کرنے میں ناکام رہاہے۔ اس صورت حال کے تناظر میں دیکھا جائے تو مغرب میں آباد تارکین وطن اردو ادیبوں، تخلیق کاروں کی ایک خاصی تعداد ایسی ہے جو ہمارے ذہنوں کو نئی روشنی،نئے زاویے اور نئے نکتوں سے آشنا کرتی ہے۔ ان کی تخلیق میں تازہ ہواؤں کی خوشبو، نئے موسموں کی بشارت اور دلوں کی نئی دھڑکنیں ملتی ہیں۔ مغرب کے اجنبی ماحول اورنئے موسم نے ان کی تخلیق کا آہنگ اور ایڈیم بدلا۔ان کے تخلیقی ذہن کے لیے یہ نیا موسم نہایت زرخیز ثابت ہوا اورانھوں نے اپنی تخلیق کی ایک ’نئی رہ گزر‘ تلاش کرلی جو اپنے وطن، اپنی مٹی میں شاید بڑی مشقت کے بعد بھی نصیب نہ ہوتی۔ ایسے تخلیق کاروں کا ایک امتیازی نقطہ یہ بھی ہے کہ ان کے احساس واظہار کی کونپلیں شگفتہ وشاداب اس لیے ہیں کہ انھیں نئی ہوائیں میسر ہیں۔ ایسابھی نہیں ہے کہ مغرب میں آباد اردو کے تخلیق کاروں نے اپنی مٹی، موسم یا ماحول سے منہ موڑ لیا، ہاں یہ ضرور ہوا کہ اپنی مٹی،موسم میں مغرب کی خوشبو اورمہک بھی شامل کرلی۔ ان تخلیق کاروں کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ ’مشرقیت‘ کے صحت مند لمس نے ان کے اظہار واحساس میں حرارت، شدت اورحدت کے ساتھ تاثیر و تسخیر کی کیفیت بھی پیدا کردی ہے۔ اپنی تہذیبی،لسانی جڑوں سے جڑے ہونے کے باوجود ان کے طرزاحساس واظہار میں وہ صحت مند فعال، متحرک عناصر بھی شامل ہیں جو خالصتاً مغربی کلچر اور ایتھوس پر مبنی ہیں۔ اس ’فیوژن‘ نے ان کی تخلیق کو آفاقیت اور ثقافتی عالمگیریت کے تصور کو نئی تعبیر عطا کی ہے۔ متضاد اورمتخالف کلچر میں سانس لینے والے بھی ایسی تخلیق کو ’نگاہِ اعتبار‘ سے دیکھتے ہیں۔ ان تخلیق کاروں کے ہاں ’تضادات کی تطبیق‘ کا عمل سب سے زیادہ روشن ہے۔ مشرق و مغرب کے تہذیبی ،لسانی افتراق کو وصال اورتصادم کوتفاہم اور ترابط میں تبدیل کرنے کی یہی کوشش انھیں عالمی سطح پر معتبربناتی ہے۔ ان تخلیق کاروں نے مغربی لسان وتہذیب کی داخلی لہروں کے انتشار کوسمجھا ہے اور اس کے ارتباط سے بھی آگاہ ہیں۔ ان کی تخلیق میں دومتضاد تہذیبی لہروں کا Interplayصاف طور پر نظرآتاہے۔ کس طرح دولہریں ایک دوسرے میں مدغم ہوکر ایک سمت میں رواں ہوتی ہیں،اس کا پتہ بھی نہیں چل پاتا۔ ان کی تخلیق میں Harmonyکاایک مثبت اور توانا عنصر ہے۔گلوبلائزیشن اورcybernetic communicationکے اس عہد میں ایسی ہی فکری، اظہاری وسعت کی ضرورت ہے جس کی تمنا غالب ؔنے کبھی یوں کی تھی:
کچھ اور چاہیے وسعت میرے بیاں کے لیے
مغرب میں آباد اردو کے تخلیق کاروں کو یہی ’وسعت بیان‘ میسر ہے جس کی وجہ سے ان کا تخلیقی ادب زرخیز اور ثروت مند ہے اور اردو کی عمومی Ghetto mentalityسے الگ ۔افسانیات کا باب ہو یا شعریات کا، ان کے ہاں محیط الارضی آفاقی حسیت نمایاں ہے۔ شاید اردو کی نئی بستیوں میں مقیم تخلیق کاروں کے اسی تخلیقی تلاطم نے تنقید نگاروں کی توجہ مبذول کرائی ہے اور انھیں ان ’تخلیقی لہروں‘ کے اسرار کے اکتشاف پرمجبور کیاہے۔ یہ ’تخلیقی لہریں‘ گم بھی ہوسکتی تھیں مگرمخزن برطانیہ نے ان ’لہروں‘ کو گمشدگی کے غار سے بچالیا اورجب یہی لہریں ہمارے دل کی زمیں سے ٹکرائیں توہمیں ان لہروں کی قوت تازگی اور توانائی کا احساس ہوا۔
مخزن برطانیہ (مدیر:مقصودالٰہی شیخ) نے ان لہروں کونہ صرف نئی سمت عطا کی بلکہ انھیں اوربھی تحرک بخشا۔ اس طرح مخزن کے وسیلے سے مغربی ممالک میں آباد اردو کے ادیبوں کی تخلیقی حرکیات اور نفسی کیفیات سے ہمیں آگہی ہوئی۔ مخزنؔ نے ہی ان تخلیقی جواہرات کے امتیازات اور تفردات کو روشن کیا۔ مخزن کی وجہ سے ہی ان تخلیقی لہروں کوشناخت کی منزل ملی اوران کی تفہیم وتعبیر کے ساتھ تعیین قدر کا معاملہ بھی سامنے آیا۔ مخزن کا مقصد شاید اصرف شناخت عطا کرنا ہی نہیں بلکہ اپنی تہذیبی ولسانی جڑوں کی طرف مراجعت کے جذبہ کو بیدار کرنا بھی ہے۔ ڈاکٹر منیرالدین احمد (جرمنی) نے اپنے مکتوب میں بہت لطیف اشارہ کیاہے کہ :
’’وہ (مقصودالٰہی شیخ) چاہتے ہیں کہ مغربی دنیا میں رہنے والے اردو دانوں کو جن کی اگلی نسل اردو کی طرف پیٹھ پھیرتی نظرآتی ہے ان کی ماں بولی کی طرف متوجہ کیاجائے۔اگر ماںباپ اپنے وطن کی زبان سے بے اعتنائی برتیں توپھربچے کیسے اس زبان کو اہمیت دیں گے۔ میرے سامنے جرمن آباد کاروں کی مثال ہے جو سات صدیاں قبل روس میں جاکر آباد ہوگئے تھے۔ ان کے یہاں آج بھی جرمن زبان بولی جاتی ہے۔ میں نے اس کی دوسری مثال جنوبی امریکہ کے ملک چلی میں دیکھی جہاں پرجرمن آبادکار سترھویں اوراٹھارھویں صدی میں جانے لگے تھے جب میں وہاں گیاتو یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ ہسپانوی کے پہلو بہ پہلو جرمن بولی جاتی ہے اور اس بات پر وہ لوگ بے حد فخر مند ہیں۔‘‘
مخزن نے اسی روایت کا احیا کیا ہے اور اس جذبہ وجنوں کو زندہ رکھا ہے جو کسی بھی فرد کا اپنی مادری زبان کے ساتھ جڑا ہوتاہے۔ مخزن کے شماروںمیں جو تخلیقات شائع ہوئی ہیں، وہ اس جذبہ وجنوں کی زندہ تعبیریں ہیں۔ اور ان تخلیقات میںمہجوری کا جو کرب پنہاںہے اس سے اندازہ ہوتاہے کہ اپنے ثقافتی اور لسانی اقدار کے تئیں ان کا شغف کتنا گہرا ہے۔ وہ اپنی زمیں اور زبان سے دوری کے باوجود مربوط ہیں اورچاہتے ہیں کہ یہ ربط اور رشتہ نہ صرف بحال رہے بلکہ ان کی آنے والی نسلیں بھی اس سے جڑی رہیں۔
مخزن میں شائع ہونے والے مہاجر یا تارکین وطن تخلیق کاروں میں درباب افسانہ نعیمہ ضیاء الدین (جرمنی)، ڈاکٹر عمران مشتاق (یوکے)، قیصرتمکین(یوکے)، صفیہ صدیقی(یوکے)، رضاء الجبار(کنیڈا)، جتیندریلو(لندن)، بانوارشد(لندن)، آغامحمدسعید(لندن)، جمشیدمرزا، پروین لاشاری،افتخار نسیم، سائیں سچا، آصفہ نشاط، محسنہ جیلانی، نجمہ عثمان وغیرہ شامل ہیں اور شاعری کے ذیل میں احمدفقیہ،حسن شکیل مظہری، خالدیوسف ، سوہن راہی، طلعت اشارت، طلعت سلیم، حسن عباس رضا، باصرکاظمی، اکبر حیدرآبادی، ترغیب بلند، منور احمد کنڈے وغیرہ کے نام شامل ہیں۔ان میں بیشتر وہ ہیں جو برصغیر کے مقتدر مجلات و رسائل میں تواتر وتسلسل کے ساتھ شائع ہوتے ہیں اور اپنے منفرد اورمختلف تخلیقی آہنگ و اسلوب سے قاری کو چونکاتے ہیں اور انھیں خاطرخواہ پذیرائی بھی ملتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ان کی پذیرائی صرف اس لیے ہوتی ہے کہ یہ دیارِغیر میں اردو زبان وتہذیب کاچراغ روشن کیے ہوئے ہیں بلکہ اس لیے ہے کہ ان کی تخلیق خودان کے انفراد کی گواہی دیتی ہے۔ تخلیق کی تعیین قدر کا خواہ کوئی بھی پیمانہ مقرر کیاجائے،ان کی تخلیق کو جینوئن ادب سے خارج نہیں کیاجاسکتاکہ ان کی تخلیق میں نئے احساس کا فسوں ہے اورنئے اظہار کا طلسم بھی۔ ان کے مشاہدات کی دنیا بھی وسیع ہے اورتجربوں کی کائنات بھی بسیط۔ ان کے پاس اسالیب کے نئے پیرہن بھی ہیں اور نادیدہ خیال کی خوشبو بھی۔ ان کی تخلیق میں تہذیبی جڑوں کے تحفظ اوراپنے تہذیبی وثقافتی شعور کی توسیع کا عمل بھی روشن ہے۔ اس طرح ان کا تخلیقی تجربہ بھی مختلف ہے اور تصوربھی۔ انھوںنے ان دیواروں کوبھی منہدم کیاہے جوتہذیب ولسان کے نام پر کھڑی کی گئی ہیں۔ان کی تخلیق ایک نئی سمفنی اورنئی میلوڈی سے عبارت ہے۔ اس تخلیق میں مشرق کا نقش بھی ہے اور مغرب کا عکس بھی۔ یہی وجہ ہے کہ تہذیبی تصادم کی تفہیم کے لیے یہی تخلیقات سب سے موثر ترین وسیلہ ہیں کہ ان میں تعصب کی وہ عینک نہیںہے جو مغرب سے دور اورنابلد ہوکر بھی ہماری آنکھوں پر لگی ہوئی ہے۔ وہاں کے تخلیق کاروں نے براہِ راست مغربی کلچر کا مشاہدہ کیا ہے اور اس سے مکالمہ بھی اس لیے ہمارے لیے ایسی تخلیقات زیادہ معتبر حوالہ بن سکتی ہیں۔اوراسے معتبر حوالہ بنانے کی سعی مشکور مخزن نے کی ہے۔میں نے یہاں اپنے مطالعہ کو ان ہی تخلیقات پرمرکوز رکھا ہے جو مخزن برطانیہ میں شائع ہوئیں اور جن سے یہ احساس ہوا کہ ان تخلیق کاروں کا اپناوژن ہے اور ملٹی کلچرل تناظر بھی۔ ان کے وژن میں مشاہداتی ادراک اور مطالعاتی منہج کا بھی عمل دخل ہے۔ان کے زاویہ نظر کی اپنی ایک داخلی منطق، ترتیب وتسلسل بھی ہے۔
مغرب میں آباد ایسے تخلیق کاروںمیں نجمہ عثمان بھی ہیں جنھوںنے شیکسپیئر، برناڈشا، ایملی ژولا، ورجینیا وولف اور اگاتھا کرسٹی کے مطالعہ سے اپنے ذہنی وتخلیقی افق کو وسعت عطا کی اور اظہاری دائرے کوندرتوں سے ہمکنار کیا۔نجمہ عثمان شاعرہ بھی ہیں اور کہانی کاربھی۔ان کا پہلا شعری مجموعہ ’شاخِ حنا‘ ہے اور دوسرا مجموعہ ’کڑے موسموں کی زد پر‘ مختلف اصناف سے ان کا تخلیقی رشتہ ہے اوراسی ہمہ جہتی نے ان کی فکر اورفن کو اعتبار عطا کیا ہے۔ ان کی طرزِفکر اورطرزِاحساس سے آگہی کے لیے جہاں ان کی بہت سی کہانیاں معاون ہو سکتی ہیں وہیں ان کے زاویہ فکر اور اندازِنظر کی تفہیم کا ایک مستحکم حوالہ ان کی کہانی ’سنگ گراں‘ ہے جو مخزن برطانیہ-۴میں شائع ہوئی ہے۔
کہانی،ان کے ذہن وضمیر کی شفافیت کے ساتھ ساتھ اقدار کی غیرمشروطیت کوبھی نمایاں کرتی ہے۔ مغربی ومشرقی قدروں کے مابین تصادم سے عبارت اس کہانی میںمعروضیت (objectivity)کی لہرموجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کہانی کے باطن میں موجزن ایک ’نئی ذہنی رو‘ نظرآتی ہے جو شاید زیادہ مبنی برحقیقت ہے اورجس کا مسلمات یامفروضات سے کوئی رشتہ نہیں ہے بلکہ آنکھوں دیکھی حقیقت پرمبنی ہے اوریہ یوں بھی ضروری ہے کہ سماج میں بہت سے موہوم اورمبنی برغلط تصورات جگہ پاگئے ہیں اورکسی بھی چیز کے بارے میں معروضیت کے بجائے جذباتیت اورادعائیت والا رویہ حاوی ہے۔ اس کہانی سے ’ثناخوان تقدیس مشرق‘ کوکئی سطح پر ذہنی اور جذباتی جھٹکے لگ سکتے ہیںکیونکہ یہاں معاملہ جو ہے وہ نہیں ہے اورجو نہیں ہے وہ ہے والا معاملہ ہے۔ بات یہ ہے کہ ہرچیز کو ایک طے شدہ تعصب سے دیکھنے کی روش عام ہے اوربغیر کسی تفتیش اور تحقیق کے اپنے ذہن میں مفروضوں کا گھروندا تیار کرنے کا طریقہ بھی عام ہے۔ اسی ذہنیت کی وجہ سے حقیقتیں مفروضوں میں بدل جاتی ہیں اور مفروضات حقائق میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ کسی بھی تہذیب یا معاشرہ کے بارے میں پہلے سے یہ طے کرلینا کہ وہ اچھا ہے یا برا ہے۔ اساسی طورپر ایک غلط ذہنی رویہ ہے۔ نجمہ عثمان کی یہ کہانی ’’سنگ گراں‘‘ اسی ’ذہنی روش‘ پرکاری ضرب لگاتی ہوئی سماج کے اس چہرہ کو دکھاتی ہے، جو آنکھوں سے اوجھل ہے۔ ایک سماج ظاہری طورپر خواہ کتنا ہی بہترنظرآئے،اگر اس کا ’باطن‘ برا ہے تو پھر وہ سماج قابل لعنت وملامت ہے۔
اس کہانی کی کردار ’سیما‘ ایک حقیقت پسندانہ ذہن رکھتی ہے جبکہ زبیدہ کریم ’مذہبی رومانیت‘ میں کھوئی رہتی ہیں اور ’مشرقیت‘ ہی ان کے لیے نجات دیدہ ودل ہے۔ مگر آخر میں ان کی مذہبی رومانیت اور مشرقیت کی شکست ہوتی ہے اور احساس ہوتاہے کہ مذہبی دعائیں بھی اپنا اثرکھوبیٹھتی ہیں۔ اب محض یہ ایسے الفاظ ہیں جو اپنے معانی کھوچکے ہیں۔ اورلفظ جب اپنی ’روح‘ کھودیتے ہیں توپھر وہ منجمد پتھر بن جاتے ہیں۔ یہاں بھی معاملہ دعاؤں کی بے اثری کا ہے۔ وہ دعائیں جو مشرقی اقدار سے مزین ایک مذہبی عورت اٹھتے بیٹھتے مانگتی رہتی ہے۔ کہانی سے سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ درس اوردعائیں، حقیقت سے راہ فرار اختیار کرنے کی ترکیبیں ہیں۔ یا جو ذہن حقائق کا سامنا نہیں کرناچاہتے، ان کے لیے مذہبی دعائیں ’پناہ گاہ‘ بن جاتی ہیں۔
اس کہانی میں ایک رجعت پسندانہ اورایک حقیقت پسندانہ تصور کے مابین ٹکراؤ کی کیفیت کہانی کی کئی باطنی سطحوںکو منکشف کرتی ہے۔ ماں جوکردار ہے وہ رجعت پسند ہے اور بیٹی جو کردار ہے وہ حقیقت پسند ہے۔ ان دونوں کرداروں کی ذہنی ساخت اور رویے کوسمجھنے کے لیے یہ ڈائیلاگ معاون ہوسکتے ہیں:
(الف) ان لوگوں سے دور رہو۔ یہ مغربی معاشرے کی آزاد تتلیاں ہیں تم مسلمان لڑکی ہو، ہماری تہذیب ان سے مختلف ہے۔
(ب) ہر معاشرے میں اچھی اور بری باتیں ہوتی ہیں۔ ان سے اچھی باتیں بھی توسیکھی جاسکتی ہیں۔ اورہمارا کلچر کون سا عیب سے پاک ہے۔
(الف) پروردگار اس کڑی آزمائش سے گزرنے کا حوصلہ دے۔
(ب) عامر اندر سے کتنا گہرا ہے آپ سوچ بھی نہیں سکتیں۔ مذہب کی آڑ لے کر اسلام کو بدنام کرنے والے ایسے لوگ دنیا کے ہرحصے میں موجود ہیں اورہماری سوسائٹی کوکھوکھلا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ میں ہیلن کوجانتی ہوں عامرنے اس سے رومانس لڑایا اور جب وہ حاملہ ہوگئی تویہ کہہ کر جان چھڑانا چاہی کہ نہ جانے کس کا بچہ ہے۔آپ انگریز قوم کوجتنا بھی برا بھلا کہیں ان میں ایک خوبی ہے کہ جھوٹ اوردوغلے پن سے دور رہتے ہیں۔خاص طور پر جہاں بچوں اورفیملی کی بات آجائے۔
(الف) کیاسوچا تھا اورکیا ہوگیا؟
(ب) آپ معاشرے سے ڈرتی ہیں۔ عامر میں سچ کہنے کی ہمت نہیں۔ اپناٹیسٹ کرانے کا وہ سوچ بھی نہیں سکتا۔ ماں کے کہنے پر شادی کرلی۔ یہ سوچ کر کہ بہت سی لڑکیوں کے بچے نہیں ہوتے۔ بات خوبصورتی سے ڈھکی رہے گی۔ سارا الزام لڑکی پر آئے گا۔ مسٹرکریم جیسے شرفا سب کچھ سہہ جاتے ہیںاورمیں۔۔۔ سیماکریم آپ کی اس دوغلی سوسائٹی کی زد پر آگئی۔ میرا کیاقصور تھا امی؟ برطانیہ کے ترقی یافتہ ماحول میں پلی بڑھی لڑکی اپنے حقوق کے لیے نہیں لڑسکتی صرف اس لیے کہ شرافت اور نیک نامی کے لباس پر چھینٹے آجائیں گے۔ مسٹرکریم پرلوگوں کوانگلیاں اٹھانے کا موقع مل جائے گا۔ زبیدہ کریم کے درسی حلقے میں ان کی عزت گھٹ جائے گی۔
(الف) پروردگار اس دیارغیر میں ہمارے بچوں کوسیدھے راستے پر چلا۔ بچوں کو نیک برعطافرما۔ ہرآزمائش سے گزرنے کا حوصلے دے۔ میرے مولا۔ صبردے،توہم سب کو صبردے۔۔۔ تو مجھے صبردے!
(ب) میری وہ سہیلیاںجن کی صحبت سے آپ مجھے بچاتی تھیں وہ کم ازکم سچ سہنے اوربولنے کا حوصلہ تورکھتی ہیں اورحقائق کا سامنا کرتی ہیں۔اوریہ بات میں نے ان سے ہی سیکھی ہے—— شادی شدہ ہوتے ہوئے بھی ان میریڈ مدر کی طرح زندگی گزاروں گی۔
’’الف ‘‘کی سوچ میں رجعت پسندی اور مفعولیت ہے جبکہ ’’ب ‘‘کی سوچ میںحقیقت پسندی اور فاعلیت ہے۔ کہانی میں دونوں کے فکری تضادات کی تصویریں نمایاں ہیں اور اس فکری تناؤ کی وجہ سے کہانی بہت بامعنی، معنویت سے معمور اور پراثر ہوگئی ہے۔کہانی کار نے کہیں بھی اپنی فکرکے زاویے کو نہیں پیش کیاہے بلکہ دونوں کرداروں کے تناؤ سے وہ سارے تناظرات روشن کردیے ہیں جو مشرق اورمغرب سے متعلق ہیں اور اس کہانی میں مغربی تناظر زیادہ پاورفل، بامعنی نظرآتاہے جبکہ مشرقی تناظر پرمنفیت حاوی ہے۔ مشرق نمائشی مذہب پسندی کی علامت کے طورپر سامنے ہے جبکہ مغرب ایک حقیقت پسندمعاشرہ کی صورت میں ہے۔ سیماؔ کا حجاب میں رہتے ہوئے اپنے حقوق کے لیے لڑنے کی بات کرنا دراصل مغربی معاشرہ سے لمس کا مرہون منت ہے۔ جہاں لوگ فراریت پسندی کے بجائے چیلنج کا سامناکرنے کی قوت رکھتے ہیں۔ موضوعی اعتبار سے یہ کہانی مشرقی اور مغربی معاشرہ کے تضادات کوپیش کرتی ہے اوراس طورپر مغربی معاشرہ کی ایک مثبت تصویرتعبیر اور تفہیم سامنے آتی ہے جبکہ مشرقی معاشرہ کی ایک منفی تصویر ابھرتی ہے۔ یہ کہانی اپنے مقصد کے اعتبار سے بھی کامیاب ہے کہ بہت سے تصورات صرف سماج کے زائیدہ ہوتے ہیں۔ ا ن کی کوئی حقیقی بنیادنہیں ہوتی۔ کہانی ایک غیرمشروط ذہن کے ساتھ لکھی گئی ہے اس لیے کامیاب ہے۔ جہاں تک زبان وبیان کا تعلق ہے تویہ کہانی روایتی سانچے میں نہیں لکھی گئی ہے۔ کسی بھی سطح پر کہانی میں نہ ژولیدہ بیانی ہے اورنہ ہی ابہام۔ کہانی کا ایک ایک لفظ بین السطور میں مخفی مفاہیم اور مقاصد کوروشن کرنا نظرآتاہے۔
مشرقی ذہن اور ضمیر کو جھنجھوڑ دینے والی اس کہانی میں مشرق کے لیے ایک بہت بڑا پیغام بھی ہے کہ جھوٹے وقار اور شان وعزت کی خاطر چپ رہنا اورظلم سہنا بھی گویا ظلم کو جواز عطا کرنا ہے اور مشرق اسی مرض میں صدیوں سے مبتلا ہے۔
اسی طرز فکرکی ترسیل عطیہ خاں کی کہانی ’’یہ رشتے‘’ (مطبوعہ مخزن برطانیہ-۶) میںنظرآتی ہے۔ اس کہانی میں مشرقی اورمغربی قدروں کے مابین کشمکش اورتناؤ کا بیان ہے جس سے مشرق کی مجہولیت، مفعولیت روشن ہوتی ہے۔ جہاں’اقدار‘ کے نام پر ’آزادی‘ سلب کرنے کی روش کو تہذیب وشرافت کانام دیا جاتا ہے۔ جہاں اپنی آزادی اورخودمختاری کا کوئی مفہوم ہی نہیں ہے۔ جہاں انسانی جذبات واحساسات کا کوئی احترام نہیں، خاص طورپر لڑکیوں کی ’آزادی‘ کا توکوئی خانہ ہی نہیں ہے۔ اس کہانی کا کردار نزہت نامی ایک لڑکی ہے جو بہت سیدھی،خوش مزاج اور فرماں بردار ہے۔ کہانی کارنے اس کردار کو جس طرح پیش کیاہے اس سے محسوس ہوتاہے کہ وہ مغربی تہذیب کے جراثیم سے محفوظ رہنے کے لیے بہت سارے جتن کرتی ہے۔ کہانی کار کے بقول:
(الف) ’’نزہت کو یونیورسٹی میں لڑکیوں کی لڑکوں کے ساتھ حد سے زیادہ بڑھی ہوئی بے تکلفی سخت ناپسند تھی کہ کسی بھی لڑکے کے ساتھ پب گئیں اور پھررات اسی لڑکے کے ساتھ گزاردی۔ لڑکوں کی پیش قدمی سے بچنے کے لیے اس نے مذہب کا سہارا لیاتھا۔ یوں تواپنے والدین کی طرح نماز روزے کی پابندوہ پہلے سے تھی۔ حجاب پہن کر اس نے مغربی تہذیب کی جنسی آزادیوں سے خودکو محفوظ کرلیاتھا۔‘‘
(ب) ’’اس کے نزدیک خاندان کی بڑی اہمیت تھی۔ مغربی معاشرہ میں جولڑکیاں آزادی کے غلط تصور سے مدہوش ہوکر خاندانی زندگی کو ٹھکراکر نکل پڑتی ہیں۔ کم سن مائیں بن جاتی ہیں اور یہ غیرشادی شدہ کمسن مائیں کونسل کے فلیٹوں میں تنہا رہ کر اپنے بچوں کومناسب تعلیم وتربیت بھی نہیں دے پاتیں۔ نزہت کومغربی تہذیب کی اس طرح کی آزادی سخت ناپسندتھی۔‘‘
مشرقی تہذیب کے سانچے میں ڈھلی ہوئی اورمغربی کلچر سے متنفر نزہت آخرکیوں بدل جاتی ہے۔ اورعین نکاح کے وقت شادی سے انکار کربیٹھتی ہے۔ اوریہ محسوس کرتی ہے کہ وہ مغربی ماحول کی پروردہ ایک آزاد وخودمختار انسان ہے اوروہ زنجیر جواسے زبردستی پہنائی جارہی تھی اسے توڑکر وہ آزاد ہوگئی ہے۔
تقلیب ماہیئت کایہ کرشمہ کیسے ہوا؟ یہ سوال ذہن میں اٹھتا ہے اور کہانی میں ہی اس پرشن کا اُتّر بھی ہے۔ نزہت یقینی طور پر مشرقی تہذیب میں پلی بڑھی اور اس کے لاشعورمیں یہ بات بٹھادی گئی کہ مغربی تہذیب میں صرف برائیاں ہوتی ہیں اور مشرقی تہذیب میں اچھائیاں، مگر جب اس کا مطالعہ ومشاہدہ بڑھا اوربرطانیہ کی فضا سے غیرشعوری طورپر متاثرہوئی تواس کے سامنے مشرق اورمغرب دونوں کی آزادی کا مفہوم روشن ہوگیا۔ وہ گوکہ مغرب کی آزادی سے متنفر تھی مگر انسان کی آزادی اورخودمختاری سے متنفرنہیں تھی۔ اسے احساس ہوا کہ مشرقی روایت اورتہذیب میں انسانی آزادی یاخودمختاری کا کوئی معنی نہیں ہے۔اس طرح مشرق ومغرب دونوں کے تصورات کونزہت نے پرکھا اور محسوس کیا کہ مشرقی روایت ایک طرح سے انسان کی آزادی کو سلب کرلیتی ہے۔اسے اتنا بھی حق نہیں دیتی کہ وہ اپنی زندگی کا خودفیصلہ کرسکے جبکہ مغرب نے اتنی آزادی دے دی ہے کہ اس کی نہ حد ہے اور نہ کوئی سمت ۔اسی لیے نزہت عین ایجاب وقبول کے وقت شادی سے انکار کردیتی ہے کہ روایت کی پاس داری کا یہ مطلب قطعی نہیں ہے کہ انسان کی آزادی اور خودمختاری چھین لی جائے۔
مشرق کی روایت پسندی اورمغرب کی آزادی دونوں ہی صحت مند معاشرہ کے لیے نقصان دہ ہیں۔ کہانی سے ایسا ہی احساس ہوتاہے۔ کہانی کے بین السطور سے واضح ہے کہ مغرب ہو یا مشرق دونوں کو اپنے معاشرتی رویے میں تبدیلی لانی چاہیے۔ روایت، تہذیب،حیا اورحجاب کے نام پر عورتوں کوان کے حقوق سے محروم نہیں رکھا جاسکتا۔
عطیہ خاں نے ایک نہایت ہی اہم مسئلہ پر کہانی لکھی ہے اور مشرقی ومغربی احساس کے مابین تصادم کی اچھی تصویر کشی کی ہے۔ یہاں بھی دونوں تناظرات اپنی حقیقی شکل میں موجود ہیں۔ کہانی کارنے کسی بھی تناظر کو مسخ کرنے کی کوشش نہیںکی ہے اور نہ ہی کسی طرح کی بے جا وکالت کی ہے۔ عطیہ خاں نے دونوں تناظرات کی تفہیم کے بعدہی کوئی منطقی نتیجہ اخذ کیاہے اور یہی منطقیت کہانی کو موثربناتی ہے۔
عطیہ خاں کی اس کہانی میں بھی ایک حقیقت پسندانہ تناظر ہے۔ عطیہ ایک مشہورافسانہ نگار ہیں جن کا افسانوی مجموعہ ’’تجربات وحوادث‘‘ کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے۔ عطیہ خاں مغرب میں آباد پرانی اورنئی نسل کی نفسیات اوران کی ذہنی پیچیدگیوں سے بھی آگاہ ہیں۔ ان کی کہانیوں میں مشرقی ومغربی طرز احساس کی لہریں موجزن ہیں۔ وہ نہ مغرب کے مزاحم کردار اور نہ ہی مشرق کے دفاع کارکی حیثیت سے سامنے آتی ہیں بلکہ تجربات وحوادث کی بنیادپر کہانی کے تانے بانے بنتی ہیں۔
مغرب ومشرق کے تہذیبی، ثقافتی، فکری تناظرات کی تفہیم میں صفیہ صدیقی کی کہانیاں بھی رہنمائی کرتی ہیں۔ صفیہ اپنی تہذیبی جڑوں سے جدا نہیں ہیں۔ انھیں اپنی مٹی سے محبت ہے اور مغرب میں آباد ایشیائی تارکین وطن کے درد وکرب سے آگاہ ہیں اورانھیں یہ بھی احساس ہے کہ مشرقی عورت دو دنیاؤں میں گرفتار ہے۔ ان کی ایک الگ طور وطرز کی کہانی ہے، ایک طوفانی شام (مطبوعہ مخزن برطانیہ-۴) جس میں انھوںنے مغرب میں آزاد جنسی تعلقات اورغیرازدواجی رفاقت کے گمبھیر مسئلہ کونہایت فنکاری کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اورمغرب کی اس آزادروی سے متاثرمشرقیوں کے سماجی شعور کی تبدیلی کے المیہ کو اجاگرکیا ہے۔ اس کہانی میں اپنی تہذیبی اور نسلی شناخت کی گمشدگی کا کرب بھی نمایاں ہے اور مغرب کی مادیت پرست صارفی ذہنیت پر طنز بھی ہے۔
جنید اور سالم کھان اس کہانی کے دوکردار ہیں جو اپنی متوازی سوچ کے ساتھ کہانی میں موجود ہیں۔ جنید مشرقی تہذیب وروایت کا پاسدار ہے جبکہ سالیم کھان مشرقی ہوتے ہوئے اپنی تہذیبی شناخت اورسماجی اقدار سے واقف نہیں ہے۔ وہ مغربی رنگ میں مکمل طورپر ڈوبا ہوا ہے۔ اس لیے وہ گرل فرینڈ کے ساتھ بغیر شادی کیے ہوئے زندگی گزارتا ہے، کہانی کے متن میں دونوں کرداروں کی سوچ کی متوازی لہریں یوںنمایاں ہوتی ہیں:
(الف) نہیں میں اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ چارسال سے رہ رہا ہوں مگرہم نے شادی کی ضرورت نہیں محسوس کی۔ ایک کاغذ کے ٹکڑے میں کیا رکھا ہے؟
(ب) ہم جب دوپاؤنڈ کی کوئی چیز خریدتے ہیں تواس کی گارنٹی مانتے ہیں اورجب اتنا بڑا ایموشنل انوسٹمنٹ ہوتو کوئی گارنٹی نہیں۔ گارنٹی توکسی رلیشن شپ کی نہیں ہوتی مگراتنی لاتعلقی کہ کاغذ کا ٹکڑا کہہ کر شادی کے اگریمنٹ کورد کردینا۔ پھر یہ کہ میں اس رلیشن شپ کوبہت اہم سمجھتاہوں کیونکہ اس میں بچے بھی شریک ہوتے ہیں اور پارٹنر چینج کرتے رہنے میں بچے بہت خوار ہوتے ہیں اور اس سولائزدنیا میں بچوں کی جوبربادی ہوتی ہے وہ کسی غریب اورجاہل ملک میں نہیں ہوتی پوری نسل کی نسل تباہ ہوجاتی ہے۔
(الف) میری دوسال کی بیٹی ہے مگریہ پوائنٹ مجھے معلوم نہیں تھا۔ سیلی تومجھ سے کہتی تھی۔ میں ہی تیارنہیں ہوا۔ ڈیڈی بھی کہتے تھے کہ شادی کرلوگے تو ہرچیز میں سے آدھالے لے گی۔ شادی کی جھنجھٹ ہی میں نہ پڑو۔
(ب) جناب اب قانون بن گیا ہے کہ اگرآپ دونوں ساتھ رہتے ہیں توگھرمیں اس کا بھی حصہ ہے کیونکہ گھر تو عورت سے ہی بنتا ہے خواہ شادی شدہ ہوں یا نہ ہوں۔
الف کی سوچ پرمغربیت حاوی ہے جبکہ ب کی سوچ مکمل طورپر مشرقی ہے۔ کہانی کارنے مشرقی فکر کومتوازن اورمنطقی ثابت کرتے ہوئے الف کی سوچ کی تبدیلی کو بھی بیان کیا ہے۔
’’سیلی کہتی ہے کہ ہم لوگ کیوں نہ کنورٹ ہوجائیں، پھر مسلم میرج کریں۔‘‘ کہانی اپنے پیغام کی ترسیل میں کامیاب ہے۔ مشرق کو فتح اورمغرب کوشکست ملتی ہے اور معاملہ کچھ یوں ہوتا ہے کہ سیلی کی ماں جو اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ رہتی ہے، وہ بھی شادی کرنے پر رضامند ہوجاتی ہے۔مگر آگے کیا ہوتاہے۔ وہ کہانی کے کلائمکس میں ہے کہ ’’سیلی کی ماں کویہ یادہی نہیں کہ اس کاباپ کون تھا۔‘‘
اس ایک جملہ میں مغرب کی جنسی آزاد روی پر کتنا گہرا طنز ہے اور اس بات پر ملال بھی کہ مغرب کی کوئی تہذیبی شناخت ہے اورنہ ہی نسلی شناخت، اسی لیے مغرب میں خاندانی نظام بکھراؤ یا انتشار کا شکار ہے، کم ازکم مشرق کے پاس اپنا نسلی شناخت نامہ تو ہے۔اس کہانی میں مغرب کے آزادی نسواں کے تصور پربھی کاری ضرب ہے کہ مغرب نے عورتوں سے جنسی معروض کے علاوہ ان سے تمام شناخت چھین لی ہے اور عورت کے جذباتی اور اقتصادی استحصال کے لیے شادی کے متبادل تلاش کرلیے ہیں۔ کیا یہ عورت کی آزادی کا احترام ہے یا آزادی کے نام پر اقتصادی استحصال—— کہانی کارنے یہ پیغام بھی دیا ہے کہ عورت ایک باوقار وجود کا نام ہے، صرف جنسی معروض نہیں۔ اور تہذیبی جڑوں سے کٹ کر کوئی بھی عورت اپنی مکمل شناخت کے ساتھ زندہ نہیں رہ سکتی۔
صفیہ صدیقی نے کہانی بہت ہی پراثرانداز میں لکھی ہے۔ اور یہ کہانی کئی سطحوں پراحساس کو مرتعش کرتی ہے۔ صفیہ کے اسلوب میں بڑی توانائی اورطاقت ہے اور انھیں اپنی بات کہنے کا صرف ہنرنہیںآتابلکہ کنونس کرنے کا طریقہ بھی معلوم ہے۔
صفیہ صدیقی کے وژن میں وسعت اور اظہار میں تازگی اور جدت ہے اور اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنے مطالعاتی دائرہ کوصرف اردو تک محدود نہیں رکھا ہے بلکہ انھوں نے جین آسٹن، ہارڈی، چارلس ڈکنز، وکٹوریا ہالٹ، اسٹائن بک، گبرائیل گارسیا مارکیز جیسے عالمی تخلیق کاروں کو پڑھا ہے اوراپنے باطن میں جذب بھی کیاہے۔ ان کے تین افسانوی مجموعے شائع ہوچکے ہیں اور ایک ناول بھی ’دشت غربت میں‘ کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے۔ وہ فکشن کی معاصر لہروں سے آگاہ ہیں اور ادب کی آتی جاتی لہروں پربھی ان کی نگاہ ہے۔
آصفہ نشاط بھی ان تخلیق کاروں میں سے ہیں جنھوںنے تارکین وطن کے مسائل اور مشکلات کو اچھی طرح سمجھا ہے اور مشرق و مغرب دونوں کے تہذیبی، معاشرتی تناظرات سے بھی آگاہ ہیں۔ان کے مشاہدات و تجربات کی دنیا بھی وسیع ہے۔ فکشن اورشاعری دونوں سے ربط ہے۔
’بھابھی کی لیبارٹری‘ان کی ایک ایسی کہانی ہے جس میں اپنے تہذیبی تشخص اورنسلی شناخت کی گمشدگی کا کرب نمایاں ہے۔ اس کہانی کا کردار جب امریکہ پہنچتا ہے تو وہ محض ایک ’عدد‘ یا ایک مشین میں تبدیل ہوجاتاہے۔ مادیت اور دولت کی اندھی ہوس انسان سے اس کا سارا تشخص ہی چھین لیتی ہے۔ انسان صرف اپنی ذات میں محدود یا ملازمت میں مقید ہوکر رہ جاتاہے۔ آصفہ نشاط کی یہ کہانی اس کرب کا خوب صورت اظہاریہ ہے۔ کہانی کے کردار کو بھی اس بات کا احساس ہے کہ وہ اپنی تہذیبی جڑوں سے کٹ گیا ہے اوراپنے شجر سے بچھڑ گیاہے۔ اب اس کی کوئی تہذیبی، یا نسلی شناخت نہیں ہے،اس کی پہچان صرف ایئرکنڈیشنڈ گھر،انٹرکام سسٹم، موبائل فون اور موبل ہوم ہے۔ کہانی کا کردار افسردہ ہے اسے احساس ہے کہ:
’’موبل ہوم میں وہ خوشی کہاں تھی جوآنگن میں کھیلتے بچوں کی کلکاریوں سے ملتی۔ میرے اندر کوئی چیخ رہا تھا کہ میں کیکٹس ہوں، بے پتے، بے شاخ کا پھل، لاولد ہوں، میں نے اپنی رگیں کیوں کاٹ دیں کیوں ختم کی میں نے اپنی نسل۔اگر میں نے اپنی تہذیب کا خاتمہ کرہی دیاتھا تو میں نے اپنے آپ کو بانجھ کیوں کرلیا۔ کیا کھویاکیاپایا۔‘‘
یہ مغرب میں آباد تارکین وطن کا مجموعی المیہ ہے جو دولت کی چکاچوندھ میں ہر چیز فراموش کردیتے ہیں اور اس طرح ان کا پورا وجود بانجھ ہوجاتاہے۔
کہانی میں ایک پیغام مخفی ہے اوراس پیغام کی ترسیل میں آصفہ نشاط کا اظہار اسلوب کامیاب ہے۔ تہذیبی تشخص کے تئیں بیداری اوراپنی تہذیبی جڑوں کا تحفظ ہی اس کہانی کا بنیادی مقصد ہے۔ کہانی میں مغرب پرطنز نہیں ہے بلکہ مغرب میں آباد ان افراد پر طنز ہے جو اپنی تاریخ،تہذیب اور تشخص کوبھلابیٹھے ہیں۔
آصفہ نشاط نے اس نوع کی اوربھی کہانیاں لکھی ہیں جن سے مشرق ومغرب کے تہذیبی تناظرات کی تفہیم نو میں مدد مل سکتی ہے۔
مغرب میں آبادافتخارنسیم ایک متحرک،منحرف توانا تخلیقی ذہن کا نام ہے جس کی تخلیق میں Neo-humanismکی عبارتیں روشن ہیں اور جس کی تخلیقی رگوں میں وہ درد لہریںہیں جو انسانی ذہن وضمیر کومرتعش کردیتی ہیں۔ وہ معاشرتی رسوم وقیود، مسلمات و مفروضات سے آزاد اپنے طورپر کائناتی حقائق کی تعبیر و تفسیر تلاش کرنے والے تخلیق کارہیں۔ انھیںکہنگی اور فرسودگی سے سخت بیرہے۔ وہ ہر ایک لمحہ ایک نئی کائنات اورایک نئے جہاں کی جستجو میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کی اپنی ذہنی ترجیحات ہیں اور ان کے اپنے مخصوص نفسیاتی ادراکات بھی ہیں۔ ان کے لیے کائنات ایک معمہ ہے اوراس معمہ کو حل کرنے کے لیے اپنے ذہن کی توانائی صرف کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ممنوعہ علاقے کیا ہیں اور ان ممنوعات کی منطق کیا ہے وہ تمام تر ممنوعات، محظورات کو مسترد کرتے ہوئے اپنی منطق کا استعمال کرتے ہیں اور اس طرح کائنات کو بالکل تازہ تناظر میں دیکھتے ہیں۔
افتخار نسیم کا اپنا ایک مخصوص وژن ہے اوراسی کی روشنی میں وہ حیات وکائنات کے مسائل اور مدوجزر کو دیکھتے اور پرکھتے ہیں۔ ان کی ہر کہانی ایک نئے زاویے اور نئی جہت کا کشاف ہوتی ہے۔ انھوں نے اپنی ذات کے باطن میں مستغرق ہوکر کائنات کوتمام تر زاویوں سے دیکھا ہے اور اس طرح کہ ان کی داخلی کائنات، خارجی کائنات سے الگ وجود نہیں رکھتی۔ وہ پوری کائنات کوہی اپنی ذات میں شامل سمجھتے ہیں۔ اس لیے ان کی ذات سے کرب اور درد کے وہ تمام سلسلے جڑگئے ہیں جن سے انسانیت ہرلمحہ، ہرپل گزرتی رہتی ہے۔ ان کی شخصیت میں جتنی شفافیت ہے، اتنی ہی ان کی تخلیق اورنظریے میں۔انھوں نے خارج کے آئینے میں اپنا چہرہ نہیں دیکھا بلکہ اپنے باطن کے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا ہے اس لیے دیگر لوگوں کی طرح انھیں اپنا ’چہرہ‘ چھپانے یا نقاب لگانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی وہ معاشرہ میں معتوب و مردود قرار دیے جاسکتے ہیں مگر منافق یا محجوب نہیں،ان کا ہر نظریہ عمل روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ ان کے قول وعمل میں بھی اس طرح کا تضاد نہیں ہے جو بعض مذہب پرستوں کی روش خاص ہے۔ ان کے لیے جرأت، بے باکی اوراپنے نظریے کا بے باکانہ اظہار ہی سب سے بڑا سرمایہ ہے۔
ان کی کہانی ’’اپنی اپنی زندگی‘‘ ایک مختلف زاویہ نظر سے اسلوب اظہار ، منطقی استدلال اوراساطیری ،استعاراتی حسن کی وجہ سے مقبول ہے۔ یہ کہانی گوکہ Gay Movementسے متعلق ہے مگر اس میں انسانی دردمندی کی وہ آگ روشن ہے جوپتھردل انسان کوبھی موم کرسکتی ہے۔کہانی اپنی منطقی ترتیب، تاریخی تسلسل کے ساتھ آگے بڑھتی ہے اورآگہی کے ایسے دیے روشن کردیتی ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔
ان کی یہ کہانی دردمندی سے عبارت ہے اوراحتجاج بھی ہے ایسے سنگ دلوں کے خلاف جومذہبی ہوتے ہوئے بھی انسانیت کا درد نہیں سمجھتے۔ جواخوت وانسانیت کا درس تو دیتے ہیں مگرخود اس پر عمل نہیں کرتے۔ افتخار نسیم نے اسی معاشرتی منافقت کے خلاف احتجاج کیا ہے:
’’پردیس میں اپنوں کی بے حسی نے اس کے دماغ پر بہت برااثرڈالا اس کے بھائی کے پاس دنیابھر کی دولت تھی لیکن اب وہ مڈل ایج میں داخل ہوچکا تھا اور امریکہ میں رہنے والے دوسرے مسلمانوں کی طرح جو۱۹۷۰ء کے شروع میں یہاںآئے سب کچھ کیا۔ وطن واپس جاکر شادی کرکے بیوی کولے آئے اوراب Born again Muslimہوگئے۔ ایسا کیوں ہوتاہے کہ جو مذہبی ہوجاتے ہیں ان کے دل بجائے نرم ہونے کے اورسخت ہوجاتے ہیں۔ طبیعت میں ایک کرختگی سی آجاتی ہے۔ وہ ایک قسم کے God Complexکا شکار ہوجاتے ہیں۔ راحت کے بھائی کو جب علم ہوا کہ راحت Gayہے تو اس نے اس کے ساتھ تعلقات ختم کرلیے۔‘‘
ان جملوںمیں جونشتریت ہے وہ دراصل اس لیے ہے کہ انسان، اپنے انسانی رشتوں کوبھول چکاہے اور اس نے اچھے اور برے کے درمیان اتنا فرق یافاصلہ پیداکردیا ہے کہ ’برا‘ لاکھ اچھا ہونا چاہے، اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ ایسے لوگوں نے اپنے انسانی منصب اورفرائض کوبھی فراموش کردیاہے۔ ان کی ذات خدا سے بھی برتر ہوگئی ہے جو گنہ گار بندوں کے لیے رحیم و کریم ہے، جس کے دامن عفو دراز میں ہرخاطی وعاصی کوجگہ مل جاتی ہے مگران خداترس برگزیدہ بندوں کا معاملہ کچھ یوں ہے:
’’کیا میدان حشر میں ہوں؟خون کو خون نہیں پہچان رہا۔ یہ وہی لوگ ہیں جو مسجدوں کوچندہ دیتے ہیں لیکن ایک بیمار کی مدد نہیں کرسکتے۔ اگرراحت Gayنہ ہوتاHetro sexualہوتا تو کیا اس کا بھائی اس کی مدد کرتا؟ کیا ہمارا معاشرہ صرفMajorityکا ساتھ دیتا ہے؟ Minorityکا کوئی خدا نہیں؟‘‘
ایک بڑا سوال انسانی اور خاص طور پر مذہبی معاشرے کے سامنے ہے۔ کیا اقلیت اور اکثریت کی یہ تفریق مناسب ہے۔ کیا انسانیت کو ایسے خانوںمیںبانٹا جاسکتا ہے۔سوال بہت اہم ہے مگرجواب کسی کے پاس نہیں کہ سماج کے اپنے نارمس ہیں، اپنے اصول وضوابط ہیں، اپنے قاعدے قانون ہیں،جو ان نارمس سے انحراف کرے گا،اذیت اس کا مقدر ہوگی۔
افتخار نسیم نے اس طرز احساس کے خلاف زبردست احتجاج کیاہے۔ وہ انسانی وجود کواس کے اعمال وافعال کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک انسان کی حیثیت سے اس کے دکھ، درد میں شریک ہیں۔ اعمال و افعال کی بنیادپر سزا تو یوم الحساب میں ملے گی مگر یہ انسانی کائنات میدان حشر تونہیں ہے۔ یہاں تو خدانے بندوں کو صرف درد دل کے واسطے بھیجا تھا مگر آج کے عہد کا انسان طاعت کے پیمانے پرانسانی وجود کو ناپ رہاہے۔
افتخار نسیم کی دردمندی کا احساس ان کی کہانیوں میں نمایاں ہے۔ وہ بنی نوع آدم کو اعضائے یک دیگر ندجان کر ان کے دردوکرب کواظہار کے پیکرمیں ڈھالتے رہتے ہیں۔ ان کی خوبی یہ بھی ہے کہ سفید چاک سے سیاہ تختے پرمعاشرہ کا اعمال نامہ لکھ رہے ہیں تاکہ میدان حشر میں معاشرے کوگنہ گاروں کی صف میں کھڑا کیاجاسکے۔ افتخار نسیم کا بس یہی ایک گناہ ہے مگر وہ معاشرے سے خوف زدہ نہیں بلکہ خودمعاشرہ ہی افتخار نسیم سے خوف زدہ ہے۔
افتخار نسیم نے بہت سی بولڈ کہانیاں لکھی ہیں اور اپنی جرأت مندی کا ثبوت دیاہے۔ اگروہ مغرب کے بجائے مشرقی معاشرہ میں ہوتے تو شایدسنگ ہوجاتے یا ان کے لیے ایسی کہانیاں لکھناممکن نہ ہوتا ’اپنی اپنی زندگی‘ جیسی کہانی لکھنے کے لیے انھیں تحریک مغرب سے ملی ہوگی اورتحرک بھی۔
مغرب میں مقیم اردو کے مہاجر تخلیق کار، فنی، فکری، ہیئتی اور اظہاری سطح پر نئے نئے تجربے کررہے ہیں اور اردو کے تخلیقی ادب کو مالامال کررہے ہیں۔ان کی تخلیقات میں مغربی آہنگ واحساس بھی ہے اورمشرق کی میلوڈی بھی۔اس طرح اردو کے قاری احساس و اظہار کی دو متضاد لہروں سے بیک وقت روبرو ہوتے ہیں۔اسی لیے میں ان تخلیق کاروں کو سلام کرتاہوں کہ ان کی وجہ سے مغرب و مشرق کے تہذیبی تصادم کی نئی تفسیر اور تعبیر سامنے آتی ہے اور دونوں کے مابین جومکالمہ ہے، وہ عرفان وآگہی کے منظرنامہ کومنورکرتاہے۔
مغرب میں ایسے تخلیق کاروں کی ایک بڑی تعداد ہے جو مشرق ومغرب کے مابین خلیج کوپاٹنے میںاہم کردار ادا کررہی ہے اوریوں بھی جب مشرق و مغرب کی منزل ایک ہوتو پھر سمتوں کے اختلاف کو اور وسیع کرنے کی ضرورت ہی کیاہے۔ یہ تخلیق کاراس لیے بھی قابل احترام ہیں کہ یہ لسانی وفکری اجنبیت کو ’مانوسیت‘میں تبدیل کرنے کے عمل میں مصروف ہیں مغرب میں آبادتارکین وطن کے اس تخلیقی زاویے اوراس فکری جہت سے آشنائی کاسہرا مخزن برطانیہ کے سر ہے جو مغرب و مشرق کے مابین ایک تہذیبی وثقافتی رابطے کی راہ مسلسل ہموار کررہاہے۔
تعارف مصنّفہ:
ان کا پورا نام ڈاکٹر ہادیہ شامخات مسعودی ہے ۔ والد کا نام ڈاکٹر محمد عبدالرؤف ہے ، جو عثمانیہ دواخانہ کے ریٹائرڈ فزیشین ہیں ۔ ان کی پیدائش 1951 میں ہوئی ۔ انھوں نے ساتویں جماعت تک ابتدائی تعلیم بیدر سے ، دسویں جماعت آندھرا میٹرک بورڈ سے اور انٹرمیڈیٹ ویمنس کالج حیدرآباد سے حاصل کی ۔ محترمہ پیشہ سے ڈاکٹر ہیں ۔ انھوں نے گاندھی میڈیکل کالج حیدرآباد سے 1978ء میں ایم بی بی ایس کیا ہے ۔ منسٹری آف ہیلتھ سعودیہ عربیہ میں تین سال لیڈی میڈیکل آفیسر بھی رہی ہیں ۔ 1978 ء میں ان کی شادی ڈاکٹر غلام عباس احمد سے ہوئی ۔ ان کے دو لڑکے اور تین لڑکیاں ہیں ۔
دینی تعلیم سے وابستگی اور قرآن سے رغبت اور لگاؤنے انھیں دینی تعلیم کی طرف متوجہ کیا ، لہٰذا اپنی پیشہ ورانہ مصروفیت کے باوجود انھوں نے مدرسہ عبداللہ بن مسعود (زیر انتظام المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد) سے پانچ سالہ عالمہ کا کورس مکمل کیا اور اب وہ پریکٹس کے علاوہ اسی مدرسہ میں داخلہ لینے والی خواتین کو قرآن و حدیث اور دیگر علوم شرعیہ کی تعلیم دیتی ہیں ۔ اس کے ساتھ لفظی ترجمۂ قرآن کے مراکز میں ہفتہ میں دو دن خواتین کو قرآن پڑھنا بھی سکھاتی ہیں ۔ اس مصروفیت کے دوران میں انھیں احساس ہوا کہ بہت سی خواتین قرآن سے رغبت اور شغف کے باوجود قرآن کو سمجھ کر پڑھنے اور اس کے صحیح معانی و مطالب سمجھنے سے قاصر ہیں _ لہٰذا انھوں نے اس مقصد سے قرآنی الفاظ کی ایک جامع ڈکشنری تیار کی ہے اور اسے کلید الفاظ قرآنی کے نام سے موسوم کیا ہے –
تعارف کتاب:
قرآن کے الفاظ کو سمجھنے اور لفظ لفظ کے معنی کو سمجھ کر اس کی تشریح و تفسیر بیان کرنے کے مقصد سے بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں اور قرآنی الفاظ کے انڈیکس مع معنیٰ تیار کیے گئے ہیں ۔ موجودہ کتاب ’کلید الفاظ قرآنی‘ مکمل قرآنی الفاظ کے معانی ، مادے ، صیغے اور ابواب کی تحقیق پر مشتمل ایک جامع ڈکشنری ہے ۔ 584 صفحات پر مشتمل یہ کتاب اکتوبر 2016ء میں پہلی بار کرسٹل پبلی کیشنرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرز سے شائع ہوئی ہے ۔عرض ناشر اور عرض مرتب کے علاوہ اس کا پیش لفظ مشہور عالم دین مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے لکھا ہے ۔
کتاب کی ابتداء میں فہرست صرف ایک ورق کی ہے ، جس میں سورہ کا نمبر ، سورہ کا نام اور صفحہ نمبر درج ہے ۔ سب سے پہلے اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم اور بسم اللہ الرحمن الرحیم کے لفظی معانی وغیرہ بیان کیے گئے ہیں ۔ اس کے بعد سورۂ فاتحہ سے لے کر سورۂ ناس تک قرآن کے الفاظ کے معانی بیان کیے گئے ہیں ۔ سب سے پہلے آیت نمبر ، پھر اس کے الفاظ ، معانی ، لفظ کا مادہ ، فعل،صیغہ ، مصدر ، باب ، واحد ، جمع بالترتیب مذکور ہیں ۔ زیادہ تر الفاظ کا انتخاب کیا گیا ہے اور ان کے معانی وغیرہ بیان کیے گئے ہیں ، لیکن اس کے باوجود چند الفاظ محترمہ کی گرفت سے رہ گئے ہیں اور ان کا احاطہ نہیں کیا گیا ہے ۔ مثلاً سورۂ الناس میں ملک ، الناس ، یوسوس ، صدور ِاور جنۃ کے الفاظ کے معانی ذکر کیے ہیں، لیکن الہ ، شر ، خناس جیسے الفاظ چھوٹ گئے ہیں ۔ غالبا جو الفاظ اس سے پہلے آچکے ہیں اور جن کا احاطہ دیگر سورتوں میں ہو چکا ہے ان کی تکرار سے بچنے کے لیے ایسا کیا گیا ہے اور ایک لفظ ، جو بار بار آیا ہے اس کی وضاحت بھی ایک ہی جگہ کی گئی ہے ، لہٰذا سورۂ اخلاص میں بھی اسی تکرار سے بچنے کے لیے صرف لفظ الصمد اور کفواً کا معنیٰ بیان کیا ہے ۔
یہ کتاب اردو خواں طبقہ کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے ، خاص طور سے ان لوگوں کے لیے جو کسی اور زبان سے نابلد ہیں ۔ اس کتاب کے ذریعہ الفاظ قرآنی اور ان کے معانی و مفہوم کو بغیر کسی پریشانی کے آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے ۔
مصنفہ نے اس کتاب کو بہتر اور معتبربنانے کے لیے اسے دیگر اصحاب علم کو دکھایا ہے اور ان سے تعاون حاصل کیا ہے ، جس کا اعتراف انھوں نے پیش لفظ میں کیا ہے:
”ابتداءاً میں نے اس کتاب کو استاذ محترم مولانا سرفراز احمد قاسمی کے سامنے پیش کیا اور خواہش کی کہ اس کو مزید مفید بنانے کی بابت مشورہ دیں ، چوں کہ ابتدا میں میں نے صرف الفاظ قرآن ، اسم و فعل کی شناخت اور مادے جمع کیے تھے ، جو آیات نمبر اور سورتوں کی ترتیب پر مشتمل تھے ۔ مولانا موصوف نے حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم سے اس سلسلہ میں مشورہ کیا ۔ حضرت مولانا نے مشورہ دیا کہ بہتر ہو کہ الفاظ کے ساتھ معانی ، صیغے ، مادے اور کلمات کی شناخت کا اضافہ کردیا جائے تو اس کی افادیت دوبالا ہوجائے گی ۔ چنانچہ حضرت والا کے حکم سے المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد کے شعبۂ تخصص فی الحدیث کے چند طلبہ کو اس کام پر مامور کیا گیا اور طلبہ نے ذوق و شوق سے اس کام کو انجام دیا ، لیکن ان کی اپنی تعلیمی اور تحقیقی کاموں کی وجہ سے تقریبا نصف کتاب کا ہی کام ہوسکا۔۔۔۔۔۔پھر مولانا نے مجھے حکم دیا کہ میں خود اس کام کو مکمل کروں اور جہاں ضرورت محسوس ہو آپ سے رابطہ کروں ۔ مولانا کی حوصلہ افزائی اور مسلسل تقاضے کے نتیجے میں یہ کام ہوسکا ۔”
(عرض مرتب،vi،vii)
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ، جنھوں نے اس کتاب کا پیش لفظ لکھا ہے ، وہ اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں :
” انھوں نے بڑی محنت سے قرآن مجید کے الفاظ و معانی کے ساتھ ساتھ اس سے متعلق ضروری نحوی و صرفی تحقیق کو شامل کرتے ہوئے پیشِ نظر کتاب تالیف کی ہے ، جو اس طریقہ پر ترجمۂ قرآن پڑھنے والے مردوں اورعورتوں کے لیے ان شاء اللہ بہت مفید ثابت ہوگی ۔ قابل اطمینان بات یہ ہے کہ اس کو مدرسۂ عبداللہ بن مسعودؓ کے ذمہ دار عزیز مکرم جناب مولانا سرفراز احمد قاسمی بارک اللہ فی حیاتہ و جہودہ نے مکمل طور پر دیکھا ہے _ راقم الحروف نے بھی جابجا اس کام کو دیکھا ہے اور اپنی دانست کے مطابق اسے درست پایا ہے _ دعا ہے کی یہ کتاب عام مسلمانوں کو قرآن مجید سے مربوط کرنے میں مفید ثابت ہو ۔”(پیش لفظ صviii)
ماخوذ از:
خواتین اور خدمتِ قرآن
ڈاکٹر ندیم سحر عنبرین
ناشر : ھدایت پبلی کیشنز ، نئی دہلی
صفحات :376 ، قیمت:350 روپے
یہ تو ایک حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بہار کے مسلم ووٹرز نے ہمیشہ اپنے شعور کی پختگی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی صوابدید پر ووٹ کیا ہے کبھی کسی شاہی امام یا جماعت و جمعیت کے ” حضرت” کے ” فتووں” کو قابل اعتنا نہیں سمجھا۔ ان کی صوابدید ہمیشہ مقامی ایشوز پر مبنی ہوتی تھی جس سے ضروری نہیں بہار کے باہر والے تجزیہ نگار مکمل اتفاق کریں۔ تاہم اب حالات بدل چکے ہیں اور مقامی کے ساتھ ساتھ مرکزی حکومت اور پارٹی کی پالیسی کل ہند سطح پر مسلمانوں کے ملی قومی ثقافتی اور لسانی مفادات کو متاثر کرنے والی ہے۔ ایسے میں محض سڑک چیک ڈیم تالاب بجلی اور پانی کو پیش نظر رکھتے ہوئے ووٹ کرنے کا فیصلہ عقل پر مبنی نہیں ہوگا۔
اس وقت بہار اسمبلی الیکشن میں صورت حال بہت سیال diluted ہے، بی جے پی کے ایک حلیف نے اعلان کیا ہے کہ وہ مودی حکومت کے ایجنڈے کو اپنا ایجنڈا بنائے گی اور مودی کے نام پر الیکشن لڑے گی اس لئے کہ این ڈی اے کے دوسرے حلیف جدیو اور اس کے لیڈر نیتیش کمار لائق اقتدا نہیں ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ اگر بی جے پی اور مودی حکومت کا ایجنڈا ہی اس کے انتخابی منشور کا محور ہوگا تو ماضی کا دیا اور حال کا کمل ہی کافی ہے چراغ کی ضرورت کیا ہے ؟ کیا پچھڑی جاتیوں کے ووٹ بٹورنے کے لئے؟ نتیش کمار کی جدیو اور این ڈی اے کی دوسری حلیف پارٹیاں کامن مینیمم ایجنڈا کے تحت مکمل عملی طور پر نہ سہی زبانی ہی سہی اقلیت مخالف پالیسیوں پر کھل کر رضامندی سے کتراتی تو تھیں اگر مرکز اور بی جے پی کے دباؤ میں منظوری دے بھی دی تو شرما شرمی میں تاویل اور رفو تو کرتی تھیں۔ ظاہر ہے ہارڈ ہندوتوا کو یہ پسند نہیں اس لئے بہت ممکن ہے بی جے پی نیتیش کمار سے خلاصی کا سوچ رہی ہو۔ بالفاظ دیگر نیتیش کمار کے برے دن آنے والے ہیں۔ پچھلے الیکشن میں بی جے پی مخالف نعروں کے سہارے اقلیتوں کا ووٹ بلکہ مینڈیٹ حاصل کرنے کے بعد بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت بنانا بہار کی اقلیت نہیں بھولی ہو گی اس لئے امید تھی کہ بڑے بھائی بی جے پی ڈوبتے کو سہارا دیتی۔ لیکن نیتیش اور جدیو بی جے پی کے لئے مفید تھی اس لئے کہ اقلیتوں کا ووٹ اسے ملتا تھا اب نیتیش پر سے چونکہ اقلیتوں کا اعتماد اٹھ گیا تو وہ بی جے پی کے لئے بھی غیر مفید ہے۔
یہ تو ہوئے سیاسی امکانات مگر جو سوال بہار کی اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کے تعلق سے اہم ہے وہ یہ کہ ان کے پاس متبادل کیا ہے؟ یہ جائیں تو جائیں کدھر؟ لالو پرساد یادو کی کرشماتی شخصیت کی عدم موجودگی اور آج کے تناظر میں ایم وائی سمیکرن کا کھوکھلا پن ، کانگریس اور راجد کی مسلم چہروں کو نمایاں کرنے میں جھجک اور مسلم ایشوز پر بات کرنے میں اکثریتی طبقے کی ناراضگی کے ڈر نے دراصل مسلمانوں کو ڈرا دیا ہے کہ شاید اب ایم وائی سمیکرن کی بات کبھی نہ ہو۔ ہاں ٹکٹ کچھ مسلمانوں کو مل جائے لیکن ان کی پالیسی کیا ہوگی یہ واضح نہیں ہے۔
اس لئے ضروری ہے کہ کہ ووٹرز اپنے اپنے حلقۂ انتخاب میں پارٹی اور امیدواروں سے مطالبہ کریں کہ وہ انتخابی منشور میں اقلیتوں کے مفادات کو یقینی بنائیں۔ اور انتخابی منشور محض کاغذ کا ٹکڑا ثابت نہ ہو اس پر عمل کرنے کا عہد کرائیں۔
اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے اہم ترین مفادات اس ملک کے دستور ، مذہب اور جات برادری کی تفریق کیے بغیر ہر طبقہ کی شمولیت inclusiveness سیکولر اقدار کا تحفظ اور پسماندہ طبقات کی سماجی سیاسی معاشی اور تعلیمی ترقی کے لئے روڈ میپ، ان امور پر کاربند ہونے کا عہد commitment ان کا بنیادی مطالبہ ہونا چاہیے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
امت مسلمہ کایہ متفقہ فیصلہ ہے کہ اس روئے زمین پر نسل انسانی میں انبیاء ومرسلین کے بعد کسی کاعالی مرتبہ اور درجہ ہے ،تو وہ صرف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کاہے۔
کیوں کہ ان ہی کےذریعہ ہم تک یہ دین اسلام پہنچاہے اور آج ہم مسلمان ہیں،ورنہ آج ہم ضلالت وگمرہی کی کس وادی میں بھٹک رہےہوتے ،کسی کوکچھ خبرنہیں۔
اور فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم :مااناعليه وأصحابي .کی روشنی صحابہ کرام ہی معیارحق اور معماردین ہیں۔
ان کی اتباع در اصل ملت اسلامیہ کی اتباع ہے اور ان سے الفت ومحبت درحقیقت پیارے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے الفت و محبت کرنے کےمترادف ہے؛کیوں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کاواضح فرمان ہے:من احبهم فبحبي احبهم ومن ابغضهم فببغضي ابغضهم.اور اسی طرح ان کی مدح وسرائی میں رطب اللسان رھنا یقینافخرکائنات محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے کمال وابستگی اوربےپناہ قربت کی ایک واضح دلیل ہے؛اس لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی حیات مبارکہ ہم نابکاروں کے لیے مشعل راہ ہے۔
مزید برآں یہ کہ صحابہ کرام آسمان ھدایت کے تابندہ وپائندہ ستارے ہیں ؛کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:اصحابي كالنجوم بايهم اقتديتم اهتديم (الترمذي )۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ایک عظیم الشان معجزہ جماعت صحابہ کرام کا وجود ہے جن کے واسطے اللہ جل جلالہ نے اپنے حبیب ومحبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے عالمگیر پیغام رسالت کو خطہ ارضی کے ہر گوشہ تک اس کی حقیقی روح کے ساتھ پھیلایا ۔
صحابہ کرام نے اپنی پوری زندگی تبلیغ و ترویج کےلئےوقف کردیا تھا اور ان کے قلب وجگر میں ایمان ویقین اس طرح پیوستہ ومنجمد تھا کہ اولاد کی محبت کو درکنا کرکے دامن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےوابستہ رہنے کوہمہ وقت اپنےلیےسعادت ونیک بختی شمار کرتے تھے۔
لفظ صحابی کی لغوی واصطلاحی تحقیق:
لغوی تحقیق :صحبت کا لغوی مفہوم :دو افراد کا باہمی تعلق ہے،طویل ہو یا مختصر،حقیقی ہو یامجازی(المنھج الاسلامی فی الجرح والتعدیل)لفظ صحابی کی نسبت، صحابہ کی طرف ہے،جو مصدر ہے اور صحبت کے معنی میں ہے۔
اصطلاحی تحقیق:جس نے بھی بحالت ایمان، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کیااور پھراس کاخاتمہ بھی ایمان ہی پرہواہو ،وہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہیں،”قید ملاقات "کے تحت وہ تمام افراد آتے ہیں:جو طویل وقفے کے لئے آپ کی مجلس میں رہے یا مختصر وقفے لئے؛آپ سے روایت نقل کی ہویا نہ کی ہو ؛کسی غزوہ میں شریک ہوئے ہوں یا نہ ہونے ہوں؛جس نے بھی آپ کو ایک بار بھی دیکھ لیاہو،اوراگرکسی عذر کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدارہی کرنے سے قاصر وعاجز رہا ہو مثلا:وہ نابیناتھا؛لیکن اسے آپ کی مجلس میں بیٹھنے کاشرف حاصل ہواہو،وہ بھی اس تعریف کی روشنی میں صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
چناں چہ جس نے بھی حالت کفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کاہو یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ملاقات کے وقت تو کا فر تھا ؛لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد مشرف بہ اسلام ہوگیا۔یا کسی اورپر ایمان کی حالت میں آپ سے ملاہو مثلا اہل کتاب؛ایسے تمام لوگ صحابی رسول نہیں کہلائیں گے؛لھذا جس نے بحالت ایمان آپ سے ملاقات کیا،بعدہ- نعوذباللہ -مرتد ہوگیا اور حالت ارتداد ہی میں مرگیا؛وہ اس تعریف سے خارج ہے۔جیسے عبد اللہ بن خطل اور عبیداللہ بن جحش ،اور جس نے بحالت ایمان آپ سے ملاقات کااور پھر-نعوذباللہ – مرتد ہوگیا، پھربتوفیق ایزدی آپ کی وفات سے قبل مشرف بہ اسلام ہوگیا،وہ صحابی کی تعریف میں داخل ہے ۔مثلا اشعث بن قیس، اور قرہ بن ہبیرہ،(ارشاد الفحول ص/7)۔
صحابہ کرام کے فضائل ومناقب ،شمائل وخصائل،مقام ومرتبہ،عظمت وجلالت ،قدرومنزلت ،عزت ورفعت قرآنی آیات و احادیث میں بکھرے ہوئے ہیں ؛مگر یہاں صرف دوقرآنی آیتیں اور دواحادیث مبارکہ ہدیہ قارئین کیا جاتا ہے۔
شان صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین قرآن کے آئینے میں:(1)محمد رسول الله والذين معه اشداء علي الكفار رحماء بينهم تراهم ركعا سجدا يبتغون فضلا من الله ورضوانا سيماهم في وجوههم من اثر السجود.ذلك مثلهم في التوراة ومثلهم في الانجيل .(الفتح:29)۔
ترجمہ:حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ کے صحبت یافتہ ہیں وہ کافروں کے مقابلےمیں تیز ہیں، آپس میں مہربان ہیں ،اے مخاطب!تو ان کو دیکھے گا کہ کبھی رکوع کررہےہیں، کبھی سجدہ کررہے ہیں، اللہ تعالی کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہمہ وقت لگے ہوئے ہیں ۔ان کے آثار بوجہ تاثیر سجدہ کے ان کے چہروں پر نمایاں ہیں ،یہ ان کے اوصاف توریت میں ہیں اور انجیل میں بھی۔
آیت کریمہ ،صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کا یہ امتیاز بتاتی ہےکہ وہ بڑے نمازی، مخلص،نیک دل،رضائے الہی وثواب کے خواہاں ہیں،اوران کے چہرے کی علامت بتاتی ہےکہ وہ کثرت سے سجدہ ریز ہوتے ہیں اور یہ کہ کفار کے مقابلے میں سخت اور آپس میں رحم دل ہیں اور بھائی بھائی بن کر،محبت وتعاون اور رحم وکرم کی فضامیں زندگی گذارتے ہیں ۔
(2)الذين أمنوا وهاجروا وجاهدوا في سبيل الله باموالهم وانفسهم اعظم درجة عند الله وأولئك هم الفا ئزون (سورة توبة /20)۔
ترجمہ:جوایمان لائے،گھر چھوڑے اور لڑے اللہ کی راہ میں،اپنے مال اور جان سے،ان کے لئے بڑا درجہ ہے،اللہ کے یہاں اور وہی مراد کو پہنچنے والے ہیں ۔
یہ آیت کریمہ واضح کررہی ہےکہ صحابہ کرام، ایمان والے ہیں، انہوں نے راہ خدا میں،اپنا گھر چھوڑا،اپنی جان ومال کو قربان کیا،جس کےسبب،اپنے قدر داں پروردگار کے پاس،عظیم ترین مقام کے مستحق ہوئے ہیں۔
شان صحابہ احادیث مبارکہ کی روشنی میں:حضرابوسعید خدری رضی اللہ اللہ عنہ سےرسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشادعالی منقول ہے:لاتسبوا اصحابي فوالذي نفسي بيده لو أنفق أحدكم مثل احد ذهبا مابلغ مد أحدهم ولا نصيفه (بخاري/كتاب الفضائل)۔
ترجمہ:میرے صحابہ کو برابھلا مت کہو؛کیوں کہ تم میں سےاگر کوئی آدمی احد پہاڑ کے برابربھی سونا،اللہ کی راہ میں خرچ کرےگا،پھر بھی وہ صحابہ کرام کے ایک "مد”بل کہ نصف مد کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتاہے۔
اس حدیث سے یہ بات آشکارا ہوتی ہےکہ صحابہ کرام اللہ کے یہاں اس قدراعلی وارفع مقام پر فائز تھے،کہ بعد کے لوگ بڑے سے بڑا کارنامہ انجام دیں، تو بھی وہ صحابہ کرام کے مقام عالی کوکسی بھی صورت میں نہیں پاسکتےہیں۔
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اذارأيتم الذين يسبون أصحابي، فقولوا:لعنة الله على شركم.(ترمذي/كتاب المناقب)۔
ترجمہ:جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو کہ جو میرے صحابہ کو برابھلا کہتے ہیں،تو ان سے کہو:خدا کی لعنت ہو،اس پر جو تم دونوں( صحابی اور تم)میں سے برا ہو۔
اس حدیث میں صحابہ کرام کو برا بھلا کہنے والے کو مستحق لعنت قرار دیا گیا ہے ۔
اللہ تبارک و تعالی ہم تمام مسلمانوں کےقلوب میں صحابہ کرام کی عظمت ودیعت فرمائے،آمین ۔
جب سے” بی جے پی” برسراقتدار آئی ہے، اس وقت سے ہندو مسلم کے مابین بہت ہی دوری ہو نےلگی ہے اور ہر ہندو مسلمانوں کو اپنا جانی و مالی دشمن خیال کرنے لگا ہے۔متعصب ہندو افراد ہر روز کسی نہ کسی صوبہ میں ایک نہ ایک معصوم عن الخطا مسلمان کو فرضی جرائم کی پاداش میں اس وقت تک اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنائے رکھتے ہیں، جب تک کہ اس کی روح قفس عنصری سے پرواز نہیں کر جاتی ہے، ہندو مسلم کے مابین دوری کی اس سے بڑی اور کیا دلیل ہو سکتی ہے؟۔
اسی طرح اس کی حکومت میں جو جسے اور جب چاہتا ہے دھمکی دیتا ہے اور افسوس کہ اس کے خلاف کوئی کاروائی بھی نہیں ہوتی ہے، جس کی وجہ سےظالموں کاظلم آئےدن بڑھتے ہی جا رہا ہے ،اوراب تو عدلیہ بھی ظالموں کے ظلم کے فروغ میں ایک اہم رول اداکررہی ہے ،نیزحکومت و عدلیہ بھی اب یہی چاہتی ہےکہ مسلمانوں پر خوب ظلم و ستم ڈھائے جائیں۔اورمسلمانوں پر ہر چہار جانب سے یلغاریں ہوں اور مسلمانوں کو ظلم و ستم کی چکی میں خوب پیساجائے ،تاکہ انہیں حکومت وعدلیہ کے خلاف کچھ بولنے کی جرأت بھی نہ ہو،اور وہ غلامانہ زندگی جینے پر مجبور ہوجائیں۔
یہی وجہ ہے کہ اب ہندوستان میں نہ ہی مسلمانوں کی جانیں محفوظ ہیں، نہ عزتیں، نہ اموال اور نہ ہی مساجد ومدارس اور خانقاہیں،الغرض سب کچھ غیرمحفوظ ہیں۔
ہر ملک میں ملک سے ظلم وستم کے خاتمے اور ظالم مظلوم کے مابین عدل و انصاف کے قیام کے لیے عدلیہ کا قیام عمل میں آتا ہے اور عدلیہ اسی وقت تک عدلیہ کہلانے کا حق رکھتا ہے،جب تک اس کے ذریعے عوام الناس کوان کے ہر معاملے میں عدل و انصاف ملے اور وہ عدل و انصاف کو اپنا فرض منصبی بھی سمجھتی ہو، نیز اس کے ذریعے ملک میں امن و امان بھی قائم رہے ؛مگر جب عدلیہ ہی خود عدل و انصاف کا جنازہ نکالنے لگے اور ملک میں بدامنی کی فضا قائم کردے،تو پھر ملک میں ظلم و ستم ایک عام سی بات نہیں ہوگی، تو پھر اور کیا ہوگی؟۔
ابھی حال ہی میں یعنی 30 /ستمبر 2020ء کو مسلمانوں کے ساتھ بڑا ظلم و ناانصافی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سی بی ائی کی خصوصی عدالت نے 28/سالہ قدیم مقدمہ بابری مسجد انہدام کے تمام ہی ملازمین کو معصوم عن الخطا قرار دے کر بری کر دیا ہے۔
سی بی ائی کی خصوصی عدالت نے ان 32/ ملزمین کو یہ کہتے ہوئے بری کردیا ہے:کہ ان کے خلاف ٹھوس ثبوت فراہم نہیں ہوسکے ہیں ،انہوں نے مسجد انہدام کے لیے مشتعل ہجوم کو روکنے کی کوششیں کی تھیں،سی بی آئی کے ذریعہ فراہم کردہ آڈیواور ویڈیو ریکارڈنگ کی صداقت ثابت نہیں ہوسکی ہے اور یہ بھی کہا:کہ مسجد کی شہادت پہلے سے منصوبہ بند نہیں تھی، یعنی کسی منصوبے کے تحت مسجد کو شہید نہیں کیا گیا تھا، جج ایس کےیادو نے کہا :کہ یہ ایک حادثاتی واقعہ تھا اور حتمی تجزیہ یہ ہے کہ سماج دشمن عناصر نے مسجد کا ڈھانچہ شہید کیا تھا، جب کہ ملزمین انہیں ہجومی اشتعال سے روکنے کی کوششیں کررہے تھے؛ اس لیے یہ ملزمین مجرم نہیں؛بل کہ خیرخواہ ہوئے،(30/ستمبر 2020ء،سماج نیوزسروس ایجنسیاں)۔
جب کہ یہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اصل ملزم و مجرم یہی لوگ ہیں، دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ دن کی روشنی میں مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ بابری مسجد کو شہید کیا گیا، دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ کن لوگوں نے اللہ کے گھر کی بے حرمتی کی اور اسے زمین بوس کردیا، ایسا بھی نہیں ہے کہ ان کے ملزم ہونے کی دلیلیں موجود نہیں ہیں؛ بل کہ آج بھی ویڈیو میں ان کی تصویریں دیکھی جا سکتی ہیں، شاید اسی لیے تو ملکی اور بین الاقوامی میڈیا نے ان کے ویڈیو بنا لیے تھے،کہ کہیں ان کے حامین انہیں معصوم قرار دے کر ان کی رہائی کا اعلان نہ کردے اور ایسا ہی ہوا بھی کہ سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے بالآخرسارےحتمی براہین کونظر انداز کرتےہوئے،رکیک ولچر تاویلات کے ذریعے انہیں معصوم قرار دےکررہائی کااعلان کرہی دیا۔
جب کہ 9/نومبر 2020ء کو عدالت عظمی سپریم کورٹ کی پانچ رکنی آئینی بینچ نے بابری مسجد -رام جنم بھومی حق ملکیت پراپناجانب دارانہ اور غیر منصفانہ فیصلہ رام مندر کےحق میں سناتے وقت ،چند حقائق و شواہد کا کھلے لفظوں میں اعتراف بھی کیا تھا ،وہ حقائق وشواہد مندرجہ ذیل ہیں: وہ اعتراف یہ تھا کہ اجودھیامیں سن 1528ء میں ظہیر الدین بابر کے حکم سے ان کے کمانڈر میر باقی نے خالی جگہ میں بابری مسجد تعمیر کیا تھا، وہاں کسی طرح کا کوئی مندر نہیں تھا ،22/ 23/ دسمبر کی رات میں بابری مسجد میں مورتیوں کا رکھناغیرقانونی اور مجرمانہ عمل تھا،جن لوگوں نے جن کے اشاروں سے بابری مسجد کی عزت وحرمت کو تار تار کیا ،ان تمام کو اس کی پاداش میں کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے تھا، اسی طرح 6/دسمبر 1992ء کو بابری مسجد شہید کرنا، کسی بھی طرح صحیح نہیں تھا،ان ظالموں نے بابری مسجد شہید کرکے دین اسلام، مسلمان اور شعائراللہ کا مذاق اڑایا ،یہ ظلم بھی ناقابل برداشت تھا۔ اسی طرح ہندوؤں کا ایک دعوی یہ بھی تھا کہ یہاں پہلے سے مندر تھا، جسے توڑ کر بابری مسجد تعمیر کی گئی تھی، اس دعوٰی بےبنیاد کو بھی عدالت عالیہ نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ بابری مسجد کی داغ بیل خالی جگہ میں ڈالی گئی تھی، وہاں کبھی بھی کسی طرح کا کوئی مندر نہیں تھا۔نیز ان کاایک دعوٰی یہ بھی تھاکہ آثارقدیمہ کی کھدائی میں کچھ ایسےڈھانچےبھی دستیاب ہوئےتھے،جن سےصاف معلوم ہوتا تھا کہ پہلےوہاں مندرتھا،جسےتوڑ کربابری مسجد بنائی گئی تھی ،سپریم کورٹ نے ہندوؤں کےاس باطل دعوٰی کوبھی یہ کہہ کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیاکہ آثار قدیمہ کی کھدائی میں کوئی ایک بھی ایساڈھانچہ نہیں مل سکا،جس سے یہ دعوٰی قائم کیاجاسکے کہ "بابری مسجد "کی جگہ پہلے”مندر”تھا،جسےمنہدم کرکےبابری مسجد بنائی گئی تھی ۔
یہ چندحقائق ہیں ،جن کاعدالت عظمی نےاقرار کیاہے اور ان سےہرہندوستانی خواہ وہ مسلم ہویامشرک بخوبی واقف ہے ؛بل کہ میں تویقین کامل کےساتھ کہتاہوں کہ سی بی آئی کی خصوصی عدالت کےجج صاحبان بھی بباطن ان ہی 32/شرپسند افراد کوبابری مسجدانہدام کےاصل مجرم تسلیم کرتےہوں گے؛مگر پھر بھی یقینی شواہد ودلائل سےپہلوتہی اختیار کرتےہوئے سی بی آئی کی خصوصی عدالت کامن چاہی فیصلہ صادر کرنا،انتہائی افسوس ناک ہے اور ظلم وستم پرمبنی حیران کن یہ فیصلہ جمہوری اور سیکولر ملک کےلیے ایک بدنما داغ ہے ۔
مجھےحیرانی اس بات کی ہے کہ بابری مسجد انہدام کا مقدمہ ایک ایسامقدمہ ہے ،جس کےحقیقی ملزمین کی شہادت ہربیناشخص دیتاہے؛حتی کہ بعض ملزمین بھی گاہے بگاہے خود اقرار جرم بھی کرچکےہیں کہ واقعی بابری مسجد انہدام کےاصل مجرم ہم ہی ہیں اور عدالت عالیہ کےحقائق کےاعتراف سے بھی یہی معلوم ہوتاہے کہ اس کےنزدیک بھی اس کےحقیقی مجرم یہی 32/افراد ہیں ،پھر بھی سی بی آئی کی خصوصی عدالت کاحقائق کےخلاف فیصلہ سنانا،چند بڑے اور اہم سوالات ضرور پیداکرتاہے۔
بالفرض ہم مان بھی لیتےہیں کہ یہ 32/افراد ملزم نہیں ہیں، توپھر بالآخر اس کےملزم کون ہیں؟کیابابری مسجد خود بخود شہید ہوگئی تھی؟اگر خود بخود شہید ہوگئی تھی تواتنابڑاہنگامہ کیوں بڑپاہواکہ بابری مسجد کی جگہ پہلے رام مندرتھا؟اور پھرظلمانہ فیصلے کےذریعے اس پراب قابض بھی ہوگئے۔
کیاسی بی آئی کی خصوصی عدالت نےعدالت عظمی پریہ الزام عائدنہیں کیاکہ اس نے جوبابری مسجد شہادت کےچند حقائق وشواہد کااعتراف کیا،وہ غلط تھا؟اور سی بی آئی کی خصوصی عدالت کاسپریم کورٹ پریہ الزام عائد کرنا،قطعی درست نہیں ہوسکتاہے؛کیوں کہ سپریم کورٹ نے ایسےحقائق کااعتراف کیاہے،جن سے ہرشخص اچھی طرح باخبر ہے،ان کاانکاردرحقیقت ایساہی ہے کہ کوئی دن کےاجالے میں کہے:کہ یہ دن نہیں؛ بل کہ رات ہے۔
اسی سے یہ سوال بھی پیدا ہو گیا کہ جب حقائق کی روشنی میں ملزمین کی شناخت یقینی تھی، تو پھر کیوں سی بی ائی کی خصوصی عدالت نے سارے براہین کا انکار کرتے ہوئے ایک ظالمانہ فیصلہ سنایا؟کیا عدالت کامعنی ظلم کرنا ہے؟ اگر ظلم ہی کرنا ہے،تو پھر عدالت کیسے؟۔
یقینا سی بی ائی کی خصوصی عدالت اپنے اس ظالمانہ فیصلے کے ذریعے ملک میں ظلم و ستم کی مختلف راہیں کھول دی ہے،اس فیصلہ کواگر سراپاظلم ہی کہہ دیا جائے،تو کوئی غلط نہیں ہوگا،اس لیے اس فیصلے کی جس قدر بھی مذمت کی جائے بہت ہی کم ہے۔
اس ظالمانہ فیصلہ کےتناظرمیں چند بڑے مذہبی اور سیاسی قائدین کے اقوال پیش خدمت ہیں: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سیکریٹری حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب نے کہا: کہ یہ ایک بے بنیاد فیصلہ ہے، جس میں شہادتوں کو نظر انداز کیا گیا ہے اور قانون کابھی پاس ولحاظ نہیں رکھا گیا ہے، مولانا نے کہا: کہ یہ فیصلہ اسی ذہنیت کا آئینہ دار ہے ،جوذہنیت حکومت کی ہے اور اس کا اظہار بابری مسجد کیس میں سپریم کورٹ کے ججوں نے کیا تھا،مولانا نے مزید کہا:کہ لوگوں کویادہوگا کہ بابری مسجد کی شہادت کے عظیم حادثہ کے بعد ملک میں فرقہ وارانہ تعصب کی لہر چل پڑی اوربڑے پیمانے پر مسلمانوں کے جان ومال کانقصان ہوا۔
سی بی آئی کی خصوصی عدالت کایہ فیصلہ مسجد کی شہادت کی ذمہ داری کسی پرنہیں ڈالتا،توکیاوہ سارامجمع اورسارے لوگ جو بی جے پی میں بہت بڑی حیثیت کےمالک رہے ہیں،مسجد کوشہید نہیں کیا؟یاکسی غیبی طاقت نے مسجد کی عمارت کونیست ونابود کردیا؟یقینایہ فیصلہ ناانصافی کی تاریخ میں ایک مثال کی حیثیت سے پیش کیا جائے گا ۔
جمعیت علمائے ہند کے صدراور دارالعلوم /دیوبند کےاستاذ حدیث حضرت مولانا سیدارشدمدنی صاحب نےکہا:کہ سی بی آئی کورٹ یہ کہہ رہی ہےکہ ان 32/ملزمین کاکوئی قصور نہیں ہے اور یہ باعزت بری کیےجاتےہیں،عقل حیران ہے کہ اس کوکس چیز سے تعبیر کیاجائے،اس فیصلے کوکس نظریہ سےدیکھاجائے ،کیااس فیصلہ سےعوام کاعدالت پراعتماد بحال رہ سکےگا؟۔
مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن اوربابری مسجد ایکشن کمیٹی کے کنوینر ایڈوکیٹ ظفریاب جیلانی نےکہا:کہ ایک بارپھرمسلم فریق کوانصاف نہیں ملا،عدالت جن ویڈیو اور آڈیوکوثبوت نہیں ماناہے،وہی اصل میں ثبوت ہیں، ہمارے پاس متبادل موجود ہے،ہم صلاح و مشورہ کرکےہائی کورٹ کارخ کریں گے ۔
جمعیت علمائے ہند کےجنرل سکریٹری حضرت مولانا محمودمدنی صاحب نے کہا:کہ سی بی آئی کورٹ کایہ فیصلہ انتہائی تشویش ناک ہے؛ کیوں کہ جہاں ایک طرف اس سے فسطائی عناصرجوکہ دیگر مساجد کوبھی اپنےظلم وستم کانشانہ بناناچاہتےہیں،انہیں شہ ملےگی اور ملک میں امن وامان کوزبرست خطرہ لاحق ہوگا،تووہیں دوسری طرف اقلیتوں اورکمزورطبقات کےدرمیان مایوسی پھیلےگی اورعدالتوں پراعتماد میں کمی آنے کےباعث بہت سارے تنازعات پرامن طریقے سےحل کیےجانےکےبجائےزورزبردستی اورتشدد کےذریعے طےکرنےکارواج قائم ہوگا۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
قانون ٹھیک ہے توکسان پریشان کیوں؟امبانی،اڈانی چلاتے ہیں مودی حکومت:راہل گاندھی
موگا:کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے آج مودی حکومت کے کسان قانون کے خلاف پنجاب کے شہر موگا میں ٹریکٹر یاتراکی شروعات کی۔ راہل گاندھی نے ایک جلسہ عام سے بھی خطاب کیا جس میں انہوں نے مودی حکومت پر شدید حملہ کیا۔ راہل گاندھی نے کہا کہ مودی حکومت میں انگریزوں کی طرح برتاؤ کیا جارہا ہے۔ راہل نے کہا کہ اگر وہ اقتدار میں واپس آئے تو وہ کالے قانون کو کالعدم کردیں گے۔راہل گاندھی نے کہا کہ کوویڈ میں کسانوں کے لیے قانون کیوں لائے؟ اگر قانون ٹھیک ہے تو کسان کیوں احتجاج کررہے ہیں۔ کووڈ میں مودی سرکار نے بڑے تاجروں کا ٹیکس معاف کردیا ، غریبوں کو کچھ نہیں دیا۔انہوں نے مودی سرکار کو صنعتکاروں کاحمایتی قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ حکومت مودی کی ہے ، لیکن وہ امبانی اور اڈانی چلاتے ہیں،کوئی اور پردے کے پیچھے سے کٹھ پتلی چلا رہا ہے۔ انہوں نے کہاہے کہ انگریزوں نے کسانوں کی ریڑ توڑی تھی، ملک غلام رہا ، نریندر مودی کاوہی مقصد ہے، اگر ہماری حکومت بنی تو ہم اس کالے قانون کو منسوخ کردیں گے۔وزیر اعلی پنجاب امریندر سنگھ ، کانگریس جنرل سکریٹری اور پنجاب امور کے انچارج ہریش راوت ، پنجاب کانگریس کے صدر سنیل جاکھر ، ریاستی وزیر خزانہ منپریت سنگھ بادل اور دیگر لیڈران بھی اس ریلی میں شرکت کے لئے موگا پہنچے تھے۔پنجاب کے جلسے میں راہل گاندھی نے ہاتھرس گینگ ریپ کا معاملہ بھی اٹھایا۔ انہوں نے کہاکہ کل میں یوپی میں تھا ، یہاں ہندستان کی ایک بیٹی تھی جسے قتل کیا گیا تھا اور مارے جانے والے افراد کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی تھی اور جس کنبہ کی بیٹی کو مارا گیا تھا وہ اپنے گھر کے اندر بند تھا۔ڈی ایم نے انہیں دھمکی دی ، وزیراعلیٰ انہیں دھمکی دیتے ہیں ، ہندوستان کی یہی حالت ہے۔
عصمت دری کے بڑھتے ہوئے معاملات،لگتاہی نہیں کہ اس ملک میں کوئی حکومت اور پولیس بھی ہے:رنجنا کماری
نئی دہلی:خواتین حقوق کی کارکن اورسینٹر فار سوشل ریسرچ کی ڈائریکٹر رنجنا کماری نے عصمت دری کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین کے خلاف جرائم ، خاص طور پر عصمت دری کے واقعات میں حکومت کہیں موجود نہیں دکھائی دے رہی ہے۔ انہوں نے خواتین کے تحفظ اور حقوق سے متعلق بہت سے امور پر کھل کر بات کی۔ خواتین کمیشن کے کردار پر بھی سوال اٹھایا۔ انہوںنے کہاکہ اب عصمت دری کے ایسے بہت سے واقعات ہیں ، ایسا لگتا ہے کہ حکومت یا پولیس نہیں ہے۔ ریاست میں کسی بھی پارٹی کی حکمرانی کے تحت کوئی مناسب نظام موجود نہیں ہے۔ حکومتوں کی تیاری کووڈ 19 کے دوران بھی نہیں دیکھی گئی۔ خواتین کے خلاف تشدد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور تازہ ترین واقعات خود اس کی گواہ ہیں۔ ہاتھرس کا معاملہ دیکھیں۔ ایف آئی آر درج کرنے میں آٹھ دن لگتے ہیں اور پھر پورا ملک اس واقعے سے واقف ہوتا ہے، لڑکی کی موت، اس کے بعد والدین کو اس کا چہرہ بھی نہیں ملتا ہے،پولیس نے اس کا جسم جلا دیا، اگر عورت کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور حکومت اس کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے ، اگر پولیس اس کے ساتھ تعاون کرتی تو پیغام جاتا ہے کہ مجرموں کو بچانے اور اس کیس کو کور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ خاص طور پر اترپردیش میں کسی بھی پارٹی کی حکمرانی سے کوئی فرق نہیں پڑتا ، جب تک کہ پولیس خواتین کی حفاظت کے لئے پوری احتیاط کے ساتھ کام نہیں کرے گی صورتحال بدلے نہیں ۔ خواتین وزراء یا دیگر عہدوں پر بیٹھی خواتین کے موقف کو دیکھ کر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ملک میں کچھ نہیں ہورہا ہے۔