لکھنؤ:کانگریس کے جنرل سکریٹری اور یوپی کے کانگریس انچارج پرینکا گاندھی واڈرا نے ہاتھرس کیس میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ (ڈی ایم) کو برخاست کرکے ان کے کردار کی تفتیش کا مطالبہ کیا ہے۔پرینکاگاندھی نے اتوار کے روز ٹوئٹ کرکے کہا کہ ہاتھراس کے متاثرہ کنبہ کے مطابق سب سے برا رویہ ڈی ایم کا تھا۔ انہیں تحفظ کون دے رہا ہے؟ انھیں نوکری سے برخاست کیا جانا چاہئے اور پورے معاملے میں ان کے کردار کی تفتیش کی جانی چاہئے۔انہوں نے کہا کہ متأثرہ خاندان عدالتی تحقیقات کا خواہاں ہے، توپھر ایسے میں سی بی آئی جانچ کے شور کے بعد ایس آئی ٹی کی تحقیقات کیوں ہورہی ہیں۔ اگر یوپی سرکارنیند سے بیدار ہوگئی ہے ، تو حکومت کو متأثرہ اہل خانہ کی بات سننی چاہئے۔ریاستی حکومت نے جمعہ کے روز ہاتھرس میں ایک دلت بچی کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کے بعد اس کی موت کے معاملے میں پولیس سپرنٹنڈنٹ ، پولیس آفیسر اور انسپکٹر سمیت پانچ پولیس اہلکاروں کو معطل کردیاہے۔ ادھر ڈی ایم پروین لکچھ کار کی ایک مبینہ ویڈیو منظر عام پر آگئی ہے ، جس میں وہ متأثرہ اہل خانہ کو دھمکیاں دیتے ہوئے نظر آرہے ہیں؛لہٰذا انہیں بھی برخاست کئے جانے کی مانگ طول پکڑ رہی ہے ۔
مدیرِانتظامی قندیل
اگلے سال جولائی تک 25 کروڑ افراد کو کرونا وائرس ویکسین دستیاب ہوگی:ہرش وردھن
نئی دہلی:ملک میں کرونا وائرس سے بچاؤ اور احتیاط کے درمیان مرکزی وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن نے عوام کو یقین دلایا ہے کہ اکتوبر کے آخر تک اس سلسلے میں پوراخاکہ تیار ہوجائے گا۔ جولائی 2021 کے آخر تک تقریباً 25 کروڑ افراد کوویکسی نیشن کا انتظام کیا جائے گا۔ مرکزی وزیر نے کہا کہ وہ امیونیٹی تو بڑھاتا ہے لیکن اس کے وسیع پیمانے پر اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ایسی دوا کا مثبت کردار ابھی تک سمجھ میں نہیں آیا ہے ۔ کرونا سے بچانے کے لئے وٹامن کی گولیوں پر انہوں نے کہا کہ طبی مشورے کے بغیر کبھی بھی کوئی دوا نہیں لینی چاہیے ۔ وٹامن سی ہمارے مدافعتی نظام کو مستحکم کرتا ہے اور بیماریوں سے لڑنے کے لئے قوت فراہم کرتا ہے۔ لیکن قدرتی غذا کے ذریعہ جسم میں غذائی اجزا کی فراہمی بہترین اور بہتر طریقہ ہے۔پنجاب میں کوڈ کے بہانے مریضوں کے اعضاء نکالے جانے کی فواہ پر انہوں نے کہا کہ کورونا کی وجہ سے مرنے والوں کو کوئی نہیں چھوتا،خصوصی نگرانی میں آخری رسومات کیلئے بھیجی جاتی ہے۔لاش سے اعضاء نکالے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پولیو اور روبیلا ویکسین کے دوران بھی ایسی ہی افواہ پھیلائی گئی اور عوام کی طرف سے طبی ٹیم کو مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔روسی ویکسین SPUTNIK-V کے تیسرے مرحلے کے ٹرائل کے سوال پر مرکزی وزیر نے کہا کہ حکومت اس سلسلے میں عوام کو ذہن میں رکھتے ہوئے کوئی فیصلہ کرے گی۔
جے پور:راجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت نے اتوار کے روز یوپی حکومت کی سخت تنقید کی ۔ انہوں نے ہا تھرس سانحہ پر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ متأثرہ لڑکی کے رات کے 2 بجے آخری رسومات ادا کردی گئیں ۔ یہ لاپرواہی دل دہلا دینے والی ہے اور ہمیشہ کے لئے عوام کے دل و دماغ پر سانحہ کا کرب چھایا رہے گا ۔وزیر اعلیٰ گہلوت نے لکھا ہے کہ پولیس کی نگرانی میں رات کے دو بجے آپ نے آخری رسومات ادا کردی گئیں ، اور ماں اپنی بیٹی کے آخری درشن کے لئے بلکتی رہی ۔کرونا میں بھی آخری رسومات کی ادائیگی کیلئے 20 افراد کی اجازت دی گئی ہے ۔ بغیر کورونا میں بھی لاش پہلے کنبہ کے حوالے کی جاتی ہے ۔ سرحد پر بھی ہمارے نوجوان شہید ہوتے ہیں ، ان کی لاشیں پہلے گاؤں لائی جاتی ہیں ،ہیلی کاپٹر کے ذریعے ، ہوائی جہاز کے ذریعے ، اور بیرون ممالک سے بھی لاشیں لائی جاتی ہیں ، یہ داہ سنسکار کو اعزاز دینے کا مسئلہ ہمیشہ ہمارے اقدار ، ثقافت اور مذہبی عقائد پر مبنی رہا ہے۔ انہوں نے بی جے پی حکومت کی تنقید کرتے ہوئے کہ داہ سنسکار سے صر ف نظر بی جے پی کے اقتدار کے دوران ہوا ، پھر بی جے پی کس ہندو ثقافت کی بات کرتی ہے؟ ہاتھرس کی متاثرہ کے ساتھ بھاجپا حکومت کا رویہ دلدوز:اشوک گہلوت
جے پور ، راجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت نے اتوار کے روز یوپی حکومت کی سخت تنقید کی ۔ انہوں نے ہا تھرس سانحہ پر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ متأثرہ لڑکی کے رات کے 2 بجے آخری رسومات ادا کردی گئیں ۔ یہ لاپرواہی دل دہلا دینے والی ہے اور ہمیشہ کے لئے عوام کے دل و دماغ پر سانحہ کا کرب چھایا رہے گا ۔وزیر اعلیٰ گہلوت نے لکھا ہے کہ پولیس کی نگرانی میں رات کے دو بجے آپ نے آخری رسومات ادا کردی گئیں ، اور ماں اپنی بیٹی کے آخری درشن کے لئے بلکتی رہی ۔کرونا میں بھی آخری رسومات کی ادائیگی کیلئے 20 افراد کی اجازت دی گئی ہے ۔ بغیر کورونا میں بھی لاش پہلے کنبہ کے حوالے کی جاتی ہے ۔ سرحد پر بھی ہمارے نوجوان شہید ہوتے ہیں ، ان کی لاشیں پہلے گاؤں لائی جاتی ہیں ،ہیلی کاپٹر کے ذریعے ، ہوائی جہاز کے ذریعے ، اور بیرون ممالک سے بھی لاشیں لائی جاتی ہیں ، یہ داہ سنسکار کو اعزاز دینے کا مسئلہ ہمیشہ ہمارے اقدار ، ثقافت اور مذہبی عقائد پر مبنی رہا ہے۔ انہوں نے بی جے پی حکومت کی تنقید کرتے ہوئے کہ داہ سنسکار سے صر ف نظر بی جے پی کے اقتدار کے دوران ہوا ، پھر بی جے پی کس ہندو ثقافت کی بات کرتی ہے؟
ممبئی:ہاتھرس کے معاملے پرشیوسینا کی رکن پارلیمنٹ پرینکاچترودی نے اداکارہ کنگنا رناوت کو بہت کھری کھوٹی سنائی ہے۔پرینکاچترویدی نے کہا ہے کہ کنگنا ، جو صرف چند روز قبل ممبئی پولیس پرلعنت بھیج رہی تھی ، مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ کے بارے میں قابل اعتراض بیان دے رہی تھیں ، کیا ہاتھرس کے معاملے پر ان کے منہ میں دہی جم گیا ہے۔آپ کو بتادیں کہ اداکارہ سوشانت سنگھ راجپوت کی خود کشی پر اداکارہ کنگنا رناوت اور مہاراشٹرحکومت کے درمیان بیان بازی کا ایک طویل سلسلہ چلتارہاہے۔ بی ایم سی نے کنگنا رناوت کی مبینہ غیر قانونی تعمیر کو بھی مسمار کردیا۔ اس دوران کنگنا نے خواتین کی حفاظت کے سلسلے میں مہاراشٹر حکومت کو مسلسل گھیر اہے۔کنگنا نے ہاتھرس کے معاملے پر اپنے آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ سے ایک ٹویٹ کیا ہے۔ کنگنا نے 30 ستمبر کو لکھا تھا کہ وہ یوگی حکومت کی قابلیت پراعتمادرکھتی ہیں اور امید کرتی ہیں کہ ہاتھرس کی متاثرہ کوانصاف ملے گا۔دریں اثنا ہفتے کے روز ، شیوسینا کی راجیہ سبھاکی رکن پارلیمان پرینکا چترویدی نے ٹویٹ کیا ہے کہ ممبئی پولیس پر لعنت بھیجنے کے لیے دن رات ایک کرنے پر Y + سیکیورٹی سے نوازا گیا، جو خواتین کی اونچی آوازبن گئیں، وزیراعلیٰ اور ریاست کے بارے میں قابل اعتراض بیانات دے رہی تھیں۔ اب ان کے منہ میں دہی جما ہواہے؟ہاتھرس کے معاملے پر ان کا کوئی ٹویٹ نظر نہیں آتا ہے۔
حکومت نے پلہ جھاڑا،صنعتوں کو ہمیشہ سبسڈی کی توقع نہیں کرنی چاہیے:پیوش گوئل
نئی دہلی:ہفتے کے روزمرکزی وزیر تجارت وصنعت پیوش گوئل نے کہاہے کہ ہندوستان میں بہت سے شعبوں میں عالمی لیڈربننے کی صلاحیت ہے۔ بس اس کے لیے مینوفیکچرنگ کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کی ضرورت ہے۔ گوئل ایکزم بینک کے زیراہتمام ایک ویبنارسے خطاب کر رہے تھے۔ مرکزی وزیرنے کہاہے کہ عالمی سطح پرمسابقت کی صلاحیت رکھنے والے شعبوں کی نشاندہی کرناہوگی۔مرکزی وزیرنے کہاہے کہ ہمیں برآمدات اور گھریلو شعبوں کے لیے مصنوعات کو الگ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں اچھے معیار ، ٹکنالوجی اورپیمانے کی ضرورت ہے۔اس کے لیے موجودہ وقت میں مددکی ضرورت پڑسکتی ہے۔انہوں نے کہاہے کہ اگر ہماری مصنوعات اچھی اور مسابقتی قیمت کی ہیں تو یقینا برآمدات میں اضافہ ہوگا۔ مرکزی وزیرنے کہاہے کہ صنعتو ں کو ہمیشہ یہ توقع نہیں کرنی چاہیے کہ سبسڈی ہی واحد حل ہے۔آزاد تجارت کے معاہدے (ایف ٹی اے)کے بارے میں بات کرتے ہوئے مرکزی وزیرنے کہاہے کہ ہم بڑی منڈیوں والی ترقی یافتہ مارکیٹوں کے ساتھ اس طرح کے معاہدے کر رہے ہیں۔ چلی اور پیروجیسے ممالک اس میں شامل نہیں ہیں۔ گوئل نے کہاہے کہ ہندوستان یقینی طورپرعالمی سپلائی چین کا ایک حصہ اور قابل اعتماد شراکت دار بن سکتا ہے۔پیداواری صلاحیت،پیمانے اوراچھی ای مینوفیکچرنگ پریکٹس میں اضافہ وقت کی ضرورت ہے۔
پٹنہ:نیشنل کرائم ریکارڈ بیورونے ملک بھر میں نسلی اور سیاسی تشدد (تنازعہ) سے متعلق اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔سال 2019 کے اعداد و شمار کے مطابق ، نسلی تشدد میں بہار سرفہرست ہے۔ ایک سال میں نسلی تشدد کے 131 واقعات ہوئے جن میں 269 افراد متاثر ہوئے۔ تمل ناڈو میں 80 واقعات ہوئے اور 108 افراد متاثر ہوئے۔مہاراشٹرا71 واقعات کے ساتھ تیسرے نمبر پر کھڑا ہے جس میں 94 افراد متاثر ہوئے ہیں۔ سیاسی تشدد کے معاملے میں بہارپانچویں نمبرپرہے۔ ایک سال میں بہار میں سیاسی تشدد کے 62 واقعات ہوئے جن میں 133 افراد متاثر ہوئے۔پہلے نمبرپرکیرالا ہے ، جہاں ایک سال میں 495 واقعات ہوئے جن میں 584 افراد متاثر ہوئے۔ اس کے بعد تلنگانہ میں ایک سال میں 118 واقعات ہوئے۔ملک بھر میں سیاسی تشدد کے 1209 واقعات ہوئے جبکہ ذات پات کے تشدد کے 492 واقعات ہوئے۔بہار میں بھی زمین اور املاک سے متعلق تنازعات سب سے زیادہ ہیں۔سال 2019 میں ، بہار میں زمین اور املاک سے متعلق 3707 واقعات ہوئے جن میں 5227 افراد متاثر ہوئے۔ نمبر دوپرکرناٹک میں 1105 واقعات ہیں ، مہاراشٹر میں 938 اور تیسرے نمبر پر اترپردیش میں 540 ہیں۔ خاندانی تنازعہ میں بہاریوپی اور ہریانہ سے بھی آگے ہے۔ 2019 میں بہارمیں 839 خاندانی جھگڑے ہوئے ہیں۔ یوپی میں 636 اور ہریانہ میں 453 واقعات ہوئے۔
بلیا سے بی جے پی ایم ایل نے کہا:لڑکیوں کے ناشائستہ چلن کی وجہ سے ہوتے ہیں ریپ کے واقعات،سرکار نہیں روک سکتی
بلیا:اترپردیش (یوپی) کے بلیا اسمبلی حلقہ سے بی جے پی ایم ایل اے سریندر سنگھ نے کہا ہے کہ یوپی میں بڑھتی ہوئی جنسی زیادتی کے واقعات کی وجہ لڑکیوں کا ناشایستہ اور غیر مہذب ہونا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تمام والدین کا یہ دھرم ہونا چاہیے کہ وہ اپنی جوان بیٹی کو مہذب ماحول میں رہنے ، چلنے اور شائستہ طرز عمل سکھائیں۔ یہ واقعات صرف لڑکیوں کے مہذب ہونے سے ہی رک سکتے ہیں۔ انہوں نے یہ بات این ڈی ٹی وی کے ذریعے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہی۔ ان سے پوچھا گیا تھا کہ کہا جاتا ہے کہ یوپی میں رام راجیہ چل رہا ہے ، لیکن اس رام راجیہ میں عصمت دری کے واقعات بھی پیش آرہے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ اس پر سنگھ نے کہا کہ "میں ایم ایل اے ہونے کے ساتھ ایک استاد بھی ہوں۔ ان واقعات کو صرف سنسکاروں کے ذریعہ ہی روکا جاسکتا ہے ، یہ حکومت اور تلوار سے رکنے والے نہیں ہیں‘‘۔ ایم ایل اے نے کہا کہ "یہ والدین کا دھرم ہونا چاہیے کہ وہ اپنی نو عمر بیٹیوں کو مہذب ماحول میں رہنا اور شایستہ طرز عمل سکھائیں۔ یہ سب کا دھرم ہے ، میرا بھی دھرم ہے ، حکومت کا بھی دھرم ہے وہیں خاندان کا بھی دھرم ہے کہ بچوں کو اخلاق سکھائیں۔ سرکار اور سنسکار مل کرہی ملک کو ایک خوبصورت شکل دے سکتے ہیں۔ کوئی اور آگے نہیں آنے والا ہے۔ "
(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
ہاتھرس گینگ ریپ اور یوگی و مودی سرکار کی بے حسی کا ایک تجزیہ
یہ نیو انڈیا ہے !
ریپ، گینگ ریپ یہاں جائز ہے ۔ یہاں لوگ، اعلیٰ ذات والے شدت پسند ، زعفرانی رنگ والے ہندوتوادی ، خاکی وردی پوش درندے ، یہ سب ہی اقلیتوں، پچھڑوں پر ظلم کرنے کے لیے آزاد ہیں ۔ اگر مسلمانوں کی عبادت گاہیں گرائی جائیں اور سب کے سب مجرم کیمرے کی آنکھ میں قید ہو جائیں اور سارے مجرموں کے چہرے روز نکلتے سورج کی طرح سب کے سامنے ہوں تب بھی عدالت انہیں باعزت بری کردیتی ہے، کیونکہ جو ٹھوس ثبوت عدالت کے سامنے پیش کیے گئے ہیں، عدالت کی نظر میں وہ بےبنیاد ہیں، پھسپھسے ہیں ۔ دیکھ ہی لیں بابری مسجد کی شہادت کے سارے مجرم بری ہی ہو گئے ۔ یہاں سب کی نظروں کے سامنے دھنٌا سیٹھوں کو غریبوں کی خوراک، غریبوں کی سواریاں اور غریبوں کے جھونپڑے دے دیئے جاتے ہیں اور کوئی غریب اُف نہیں کرتا، کیونکہ اُف کر ہی نہیں سکتا، اُف کرنے کی یہاں اجازت نہیں ہے ۔ کسانوں سے اس کی روزی روٹی کا سہارا چھین لیا جاتا ہے اور سارا میڈیا، چند ایک کو چھوڑ کر، واہ واہ کرتا ہے ۔ کسان سوال کرتے ہیں تو لاٹھیاں کھاتے ہیں ۔ یہاں اگر کوئی حقوقِ انسانی کی تنظیم کالے چہروں کو بے نقاب کرتی ہے، اکثریت کے ڑعم میں مبتلا فسادیوں اور نیتاؤں کے ہاتھوں ایک فرقے کی نسل کشی کو ساری دنیا کے سامنے اجاگر کرتی ہے تو اسے تنگ کر کے یہاں سے کھدیڑ دیا جاتا ہے یا اسے خود اپنا بوریا بستر لپیٹنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی مثال لے لیں ۔
جی یہ نیو انڈیا ہے! یہاں ہر وہ بات جو حکومت کے حق میں اور عوامی مفادات کے خلاف ہو، وہ نیو نارمل ہے ۔ مآب لنچنگ نیو نارمل ہے، بیف کے بہانے دہشت گردی کے الزام میں گرفتاری نیو نارمل ہے ۔ اور گینگ ریپ، اور ریپ کے بعد متاثرہ کی زبان کاٹ لینا، اس کے ہاتھ پیر توڑ دینا، ریڑھ کی ہڈی کو فریکچر کر دینا نیو نارمل ہے ۔ اگر متاثرہ مرجائے تو اس کے والدین اور بھائی کی اجازت کے بناء اس کی لاش رات کے اندھیرے میں جلا دینا نیو نارمل ہے ۔ متاثرین کو ان کے گھر میں مجرم کی طرح بندی بنا دینا نیو نارمل ہے ۔ اپوزیشن چلٌاے ، میڈیا متاثرین سے ملنا چاہے تو ان پر سخت ترین قدغن لگا دینا نیو نارمل ہے ۔ جی تالیاں بجائیں، خوشیاں منائیں کہ اب ہم سب اس نیو انڈیا کے شہری ہیں جہاں ہر عوام مخالف پالیسی، اقدام اور سرگرمی نیو نارمل ہے ! اب ہم اس نیو انڈیا میں سانس لیتے ہیں جہاں آنے والے کل کو سانس لینا بھی ممکن نہیں رہ جائے گا ۔
ہاتھرس کے بولگڑھی گاوں کے اس دلت پریوار کی یہی حالت بنا دی گئی ہے جس کی ایک جواں سال بیٹی کو، جسے اب ہاتھرس کی بیٹی کہا جا رہا ہے،اعلیٰ ذات کے ٹھاکروں نے ریپ کیا اور پھر اس قدر پیٹا کہ چند روز بعد وہ اسپتال میں چل بسی ۔ پولیس نے نہ اس کو فوری طبی سہولت دی نہ ہی ملازمین کے خلاف فوری کارروائی کی نہ ہی گینگ ریپ کے الزام کو قوی کرنے کے لیے فوری جانچ کروائی ۔ اب اس کی لاش جبرا جلانے کے بعد اس کے پریوار کو گھر کے اندر قید کر دیا گیا ہے، موبائل چھین لیے گئے ہیں، پولس کے اعلیٰ افسر اور ڈی ایم جن کا نام پروین کمار ہے، اس پریوار کو مسلسل دھمکا رہے ہیں کہ میڈیا آج یہاں ہے، کل نہیں رہے گا، آپ سرکار کی بات مان لیں ۔ سرکار کی بات مان لینے کے کئی مطلب نکالے جا سکتے ہیں، ایک تو یہ کہ یہ کہہ دیں کہ ان کی بیٹی کا ریپ نہیں ہوا ہے، یا یہ کہ مجرموں کو پہچاننے سے انکار کردیں یا پھر یہ کہ پوری طرح خاموش ہو کر بیٹھ جائیں اور یوگی سرکار جو معاوضہ دے اسے خوشی سے قبول کر لیں اوربیٹی کے ریپ اور اس کی دردناک موت کو دماغ سےنکال کر پولیس کو سارے معاملے پر سفیدی پوتنے دیں ۔ ایک پریوار کو آزادی کے ساتھ دکھ منانے کی چھوٹ بھی نہیں ہے ۔ یہی تو کسی کو سانس لینے سے روکنا ہے ۔ یو پی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ،جن کا فلسفہ ہے کہ کوئی اگر تمہیں مارے تو اسے پٹک کر مارو، اب ہاتھرس معاملہ میں زبردست عوامی غصے اور اپوزیشن کے سخت ترین احتجاجات کے بعد یہ کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ یو پی میں ماتاؤں اور بہنوں کے سمان سوابھیمان کو گزند پہنچانے والے کو ملیا میٹ کر دیا جائے گا، ماں بہن کی حفاظت کی
یو پی سرکار پابند ہے، لیکن اس بے شرمی اور بےغیرتی سے بھرے بیان کو حقیقت کی روشنی میں دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ سب ہوا میں کہا جا رہا ہے ۔ ہاتھرس کے بعد بلرام پور میں ایک دلت لڑکی کا گینگ ریپ ہوا، وہ بھی مر گئی، اعظم گڑھ میں ایک چھوٹی بچی کی عصمت تار تار کی گئی، بھدوہی میں ایک نابالغ دلت بچی کو ریپ کرنے کے بعد اس کے سر پر اینٹوں سے اتنی ضربیں لگائی گئیں کہ وہ مر گئی ۔ یہ اتنی بربریت ان زانیوں میں کہاں سے سما گئی ! شایداقتدار کو اپنے باپ داداؤں کی جاگیر سمجھنے والوں کی خاموشی نے انہیں ہر طرح کے ظلم کی چھوٹ دے رکھی ہے ۔ یہ خاموشی کوئی ایک دن کی نہیں ہے برسہا برس کی ہے ۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے تازہ اعداد و شمار نیو انڈیا کی، جو وزیراعظم نریندر مودی اور وزیراعلیٰ یوگی کا انڈیا ہے، حقیقت اجاگر کرتے ہیں ۔ مودی راج میں 2019ء میں ملک بھر میں خواتین کے خلاف جرم کے 405861 واقعات ہوئے ہیں جن میں سے 59853 واقعات یوگی کے یو پی کے ہیں ۔ جی ہاں یو پی عورتوں پر بالخصوص دلت عورتوں پر جرائم کے معاملے میں ساری ریاستوں میں سرفہرست ہے ۔ سال2018ء کے مقابلے خواتین کے خلاف ملک بھر میں جرائم میں 7 اعشاریہ 3 فیصد کا اضافہ ہوا ہے ۔ ہر روز ریپ کی 87 وارداتیں ہوتی ہیں ۔ بی جے پی کی حکومت والی ریاست آسام میں عورتوں کے خلاف جرائم کا فیصد سب سے زیادہ ہے جبکہ یو پی میں بچیوں کے خلاف سب سے زیادہ جنسی زیادتی کے معاملات ہیں 7444 ۔ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو ریکارڈ ہوئے ہیں جو ریکارڈ ہونے سے رہ گئے ہیں وہ کتنے ہیں اس کا کوئی اندازہ نہیں ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ قتل اور اغوا کی وارداتیں گھٹی ہیں لیکن نیو انڈیا میں جہاں بیٹی بچاو بیٹی پڑھاو کا نعرہ لگایا جاتا ہے ریپ کی وارداتیں بڑھتی ہی چلی جا رہی ہیں ۔ ویسے بھی کٹر ہندوتوادی ساورکر نے ریپ کو دوسروں کے خلاف ایک ہتھیار کی طرح استعمال کرنے کی آزادی دے رکھی ہے ۔اور پھر انتظامیہ اور پولیس کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں، ان میں دلتوں، پچھڑوں اور اقلیتوں کا بھلا شامل نہیں ہے ۔ مثلاً یہ دیکھیں کہ قانون کہتا ہے کہ کسی لڑکی کے پرائیوٹ پارٹ کو چھونا یا اس کو جنسی طور پر ہراساں کرنا بھی ریپ ہے مگر یو پی پولیس کے اعلی افسر، ایڈیسنل ڈی جی پی پرشانت کمار یہ کہتے ہوئے شرم نہیں محسوس کرتے کہ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کہتی ہے کہ لڑکی، مطلب ہاتھرس کی بیٹی، کے جسم پر مادہ منویہ نہیں ملا لہٰذا یہ مان لیا جائے کہ لڑکی کا ریپ نہیں ہوا ہے ۔ یہ وہی اے ڈی جی پی ہیں جو سارے میڈیا کو جبرا یہ قائل کروا رہے تھے کہ ہاتھرس کی بیٹی کا انتم سنسکار گھر والوں کی اجازت سے کیا گیا ہے ۔ میڈیا جسے بولگڑھی گاوں میں گھسنے نہیں دیا جا رہا ہے، جیسے ایمرجنسی لگی ہو اور یہ روک پورے ایک مہینے کے لیے ہے ! بھلا یوگی سرکار کیا چھپانا چاہتی ہے؟ کیوں میڈیا پر ناجائز پابندی لگا رکھی ہے؟ کیوں دفعہ 144 لگائی گئی ہے؟ کیا صرف اس لیے کہ جب کانگریس کے راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی اور دوسری سیاسی پارٹیوں کے لیڈران متاثرین سے ملنا چاہیں تو ان سے دھکا مکی کی جائے، لاٹھیاں برسائی جائیں؟ یوگی سرکار اس کام کی ماہر ہے، لوگوں نے دیکھا ہی ہے کہ کیسے سی اے اے اور این آر سی مخالف احتجاجیوں پر یوگی کی پولیس نے لاٹھیاں ہی نہیں گولیاں چلائی ہیں، املاک قرق کی ہے اور یو اے پی اے جیسے سخت ترین قانون کے تحت انہیں کال کوٹھڑیوں میں ڈالا ہے ۔ اصل میں ہم سب دوسروں پر ہو رہے مظالم پر اپنی آنکھیں بند رکھنے کے عادی ہو چکے ہیں اس لیے بیٹیوں کی عصمتیں تار تار ہو رہی اور وہ جان سے ماری جا رہی ہیں ۔ پیچھے مڑ کر دیکھیں تو گجرات اور مظفر نگر کے فسادات نظر آئیں گے جہاں ریپ کو ایک فرقے کے خلاف ہتھیار کی طرح استعمال کیا گیا تھا ۔ ایسا نہیں کہ سول سوسائٹی نے شور نہیں مچایا یا معاملے عدالت میں نہیں گئے ۔ سب ہوا لیکن ہم انہیں ہی کرسیوں پر بٹھاتے رہے جو قصورواروں کے سرپرست تھے ۔ گجرات میں ایک بلقیس بانو کے سوا کس کو انصاف ملا، وہ بھی اس لیے کہ بلقیس بانو ڈٹی رہی ۔ عشرت جہاں اور کوثر بی آج بھی انصاف سے محروم ہیں، ان کی روحیں تڑپ رہی ہوں گی ۔ یہ بھی تو ہندوستان کی بیٹیاں تھیں ۔ مظفر نگر کے خاطیوں کو تو یوگی سرکار نے آنکھیں بند کر کے معافی دے دی ! معافی پانے والوں میں وہ ’ مجرم‘ شامل ہیں جو مظفر نگر کے فسادات کے دوران عصمت دری اور عصمت دری کی شکار خواتین کے بچوں کے قتل میں ملو ث تھے ۔ مظفر نگر فسادات کے دوران اپنی عزت وآبرو کھونے والی عورتیں آج بھی انصاف کے لئے آواز اٹھارہی ہیں ، یہ سب بھی ’ ہندوستان کی بیٹیاں‘ ہیں ۔ گورکھپور کے فسادات کے دوران ، جس کا الزام یوگی آدتیہ ناتھ کی اشتعال انگیز تقریر کو جاتا ہے ( اب یوگی نے خود پر چلنے والے اس معاملے کو ختم کردیا ہے ۔ کیونکہ خود ہی سیاّں ہیں اور خود ہی کوتوال ) بے آبرو ہونے والی خواتین بھی ’ ہندوستان کی بیٹیاں‘ تھیں ۔۔۔ اور یہ سب ہندوستان کی بیٹیاں ہونے کے ناطے وزیراعظم مودی کی بھی بیٹیاں ہوئیں ، مگر یہ آج تک انصاف کے لئے بھٹک رہی ہیں ۔ مودی جی کی زبان سے نہ ان سب کے لیے اور نہ ہی ہاتھرس کی بیٹی کے لیے کوئی ایک لفظ نکلا ہے ۔ نہ ہی ان کا یہ تحریر لکھے جانے تک کوئی ٹوئٹ آیا ہے ۔ اصل میں بی جے پی میں جو سیاست دان شامل ہیں ان میں سے بہت سے ہیں جن پر عورتوں کے خلاف جنسی زیادتی اور جرم کے معاملات درج ہیں ۔ اناو کے ریپ اور بی جے پی کے رکن اسمبلی کلدیپ سینگر کی مثال لے لیں جسے اب ریپ اورقتل کے جرم میں سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا ہے ۔ چونکہ یہ برسراقتدار ٹولے کا رکن اسمبلی تھا اس لیے اس کی گرفتاری بڑے دنوں تک ٹلتی رہی تھی ۔ سارے ملک کی طرف سے دبائو پڑنے کے بعد اسے گرفتا ر کیاگیا تھا ۔ یہ سیاست کی گندگی کا ایک معمولی سا نمونہ تھا۔ یوپی کی کرسی پر جو ’یوگی‘ براجمان ہے وہ ذات کا ٹھاکر ہے، سینگر بھی ٹھاکر لہٰذا اس کا ٹھاکر ذات سے ہونا کام آیا ۔ ریاست کے اعلیٰ پولس افسران بھی ٹھاکر ہی ہیں ۔ تو یہاں کسی کی گرفتاری کا فیصلہ چاہے، وہ عصمت دری کا مجرم ہی کیوں نہ ہو، اس کی سیاست کے رنگ ’ہرا‘ ، ’گیروا‘ ، ’لال‘ اور اس کی ذات پات کی بنیاد پر ہی کیا جاتا ہے اس لیے انصاف کی امید کم ہی نہیں بلکہ ہوتی ہی نہیں ہے ۔ کٹھوعہ میں ننھی آصفہ کے ریپ اور قتل کا معاملہ مہینوں اس لیے دبا رہا کہ وہ بچی مسلمان تھی اور ملزم غیر مسلم تھے اور ان غیر مسلم ملزمین کے پیچھے ساری بی جے پی پارٹی کھڑی ہوئی تھی ۔ اب بی جے پی کا معاملہ لے لیں؛ اس پارٹی کا ریکارڈ بڑا ہی عجیب وغریب ہے۔ ’ایسوسی ایشن فار ڈیمو کریٹک ریفارم‘ (اے ڈی آر) کی ایک رپورٹ پر غور کریں جس میں بتایاگیا ہے کہ کوئی 48 ؍ممبران پارلیمنٹ و ممبران اسمبلی نے یہ اعتراف کیا ہے کہ ان پر خواتین سے متعلق جرائم کے معاملات درج ہیں ۔ ان میں سب سے زیادہ بی جے پی کے قانون ساز ہیں ۔ ان کی تعداد 12 ہے۔ بھاجپائی قصور واروں میں یوپی کے اناو ریپ معاملے کے رکن اسمبلی کلدیپ سنگھ سینگر کا نام بھی شامل ہے۔ جن قانون سازوں پر خواتین سے متعلق جرائم کے معاملات درج ہیں ان میں 45 ممبران اسمبلی اور تین ا یم پی ہیں۔ اب یہ بھی دیکھ لیں کہ ان پر الزامات کیسے کیسے ہیں ۔ ان پر عورتوں پر مجرمانہ حملے سے لے کر اغوا، جبراً شادی کرنے اور عصمت دری تک کے معاملات درج ہیں ۔ گھریلو تشدد اور عورتوں کی ٹرافکنگ کے معاملات بھی ان پر ہیں ۔ جی ہاں ہمارے ممبران اسمبلی اور ممبران پارلیمنٹ میں ایسے بھی ہیں جو عصمت دری کے ملزم ہیں بالخصوص بی جے پی کے ۔ (سوشل میڈیا پر تو بی جے پی کو لوگوں نے ’بھارتیہ بلاتکار پارٹی‘ تک لکھ دیا ہے) ۔ سوامی چنمیا نند بی جے پی کی واجپئی سرکار میں وزیر مملکت برائے داخلہ تھے، ان پر 2019ء میں ایک طالبہ نے، جو ان ہی کے کالج میں زیر تعلیم تھی ، جنسی زیادتی کا الزام لگایا تھا لیکن یوگی نے انہیں کلین چٹ دے دی، اب وہ دودھ کے دھلے ہیں ۔ یہ لمبی فہرست ہے نام گنوانے کا موقعہ نہیں ہے لیکن یہ کہنے سے کوئی ڈر بھی نہیں ہے کہ بی جے پی میں بہت سارے چہرے ایسے ہیں جنہیں سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے تھا ۔ ہاتھرس ریپ معاملہ میں کیا ہوگا کچھ کہا نہیں جا سکتا ہے ۔ آلہ آباد ہائی کورٹ نے از خود اس معاملے کا نوٹس لیا ہے، متاثرین اور پولیس اہلکاروں کو طلب کیا ہے، دیکھتے ہیں کہ وہاں کیا ہوتا ہے ۔ اب تو عدالتیں جب تک کوئی مبنی بر انصاف فیصلہ نہ دے دیں یقین کرنے کو دل نہیں چاہتا کہ انصاف ہوگا ۔ بابری مسجد معاملہ میں دو فیصلوں نے عدالتوں پر سے بھروسہ تقریباً ختم کر دیا ہے ۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس رنجن گگوئی نے تمام ثبوتوں کو نظر انداز کر کے بابری مسجد کی زمین رام مندر کے لیے سونپ دی اور راجیہ سبھا میں جا کر بیٹھ گئے ۔ اور سی بی آئی کی خصوصی عدالت کا جو فیصلہ ابھی ابھی آیا ہے اس پر کیا کہا اور کیا لکھا جائے سمجھ میں نہیں آتا ۔جج صاحب نے تو سارے ہی ثبوت ردی کی ٹوکری میں پھینک کر 28 سال کے مقدمے کے ملازمین کو چند منٹ کے اندر ہی باعزت بری کر دیا ۔ یہ انصاف کا خون ہے، انصاف کے نام پر ناانصافی ہے ۔ لہذا ہاتھرس میں بھی ممکن ہے ایسا ہی انصاف کر دیا جائے ۔ اعلیٰ ذات کے منصف کو ثبوت ممکن ہیں نظر ہی نہ آئیں ۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہوگی اور مودی دونوں پر دباو بنا رہے ۔ کانگریس، ترنمول، عام آدمی پارٹی اور دیگر پارٹیاں شور مچاتی رہیں، ہم جانتے ہیں کہ یہ سب سیاست ہے، لیکن سیاست تو نربھیا اور کرپشن کے نام پر بی جے پی نے بھی کی تھی، جیسے کو تیسا ! مظاہرے ہوں احتجاج ہوں تاکہ نیو انڈیا کے حکمرانوں کی کچھ تو نیند آڑے ۔ اگر اتنا بھی نہ کیا گیا تو پھر یہ تو نیو انڈیا ہے ہی، یہاں سب نیو نارمل ہے ۔ ریپ اور گینگ ریپ اور بربریت میں اضافہ ہی ہوتا جائے گا اور وہ بھی، جو خود کو محفوظ سمجھتے ہیں، اپنی بہو بیٹیوں کو زانیوں کے ہاتھوں سے بچا نہیں سکیں گے ۔
پس نوشت : میڈیا بڑا خفا ہے، سوائے ارنب گوسوامی کے ریپبلک چینل کے ۔ کاش کہ یہ خفگی پہلے سے ہوتی، کاش کہ میڈیا گودی میں جاکر نہ بیٹھا ہوتا ۔ اگر ایسا ہوتا تو بہت کچھ بدلا ہوا ہوتا ۔ اچھا ہے کہ میڈیا پر جب پڑی ہے تو اسے کچھ ہوش آیا ہے ۔ امید یہی رکھنی چاہیے کہ یہ ہوش برقرار رہے گا ۔ ویسے یہ امید سچ ثابت ہو گی اس کا یقین بالکل نہیں ہے ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
نئی دہلی:ہاتھرس میں دلت بچی کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کے معاملے پر دہلی کے جنتر منتر پر احتجاج ہوا جہاں ہاتھرس کے واقعے کے خلاف سول سوسائٹی اور متعدد سیاست دانوں نے احتجاج کیا۔ دراصل اس سے قبل انڈیا گیٹ پر احتجاج ہونے والا تھا لیکن جمعرات کو دہلی پولیس کے ذریعہ کہا گیا کہ انڈیا گیٹ کے اطراف میںدفعہ 144 نافذہے۔ یہاں کسی بھی اجتماع کی اجازت نہیں ہے۔ چنانچہ ہاتھرس کیس پر احتجاج کرنے آئے لوگ شام 5 بجے سے جنتر منتر پر جمع ہوئے اور زوردار نعروں کے ساتھ ایک آواز میں لڑکی کے لئے انصاف کا مطالبہ کیا۔دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال سمیت متعدد سیاسی جماعتوں کے قائد جنتر منتر پر مظاہرے میں پہنچے۔سی پی ایم کے جنرل سکریٹری سیتارام یچوری اور سی پی آئی کے رہنما ڈی راجہ نے عوام سے خطاب کیا۔ عام آدمی پارٹی کے رہنماؤں سوربھ بھاردواج، جیگنیش میوانی اور اداکارہ سوارا بھاسکر نے بھی شرکت کی۔ سوراج انڈیا پارٹی کے صدر اور کارکن یوگیندر یادو نے بھی مظاہرے میں حصہ لیا اور انہوں نے کہا کہ اتر پردیش میں روزانہ جرائم سامنے آرہے ہیں ۔اس لڑکی کے اجتماعی عصمت دری کی گئی اور لاش کو ہندو روایت کے خلاف جلایا گیا، ماں آخر تک اپنی بیٹی کا چہرہ نہیں دیکھ پائی، باپ کا جھوٹا بیان لکھوایا جاتا ہے، ڈی ایم نے گھر بیٹھ کر دھمکی دی، بھائی کو کہنا پڑا کہ ہمیں دھمکایا جارہا ہے ،میڈیا پر پابندی ہے۔ کیا مصیبت چل رہی ہے؟یادو کا کہنا ہے کہ اگر یہ لڑکی دلت نہ ہوتی تو یہ نہ ہوتا۔ اجتماعی عصمت دری یا قتل ہوسکتا ہے، لیکن اس کے بعد جو کچھ ہو رہا ہے وہ صرف دلت کے ساتھ ہوسکتا ہے، لہٰذا وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کو اخلاقی ذمہ داری لیتے ہوئے استعفی دینا چاہئے۔
پٹنہ:بہار اسمبلی انتخابات سے پہلے بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کو اس وقت بڑاجھٹکا لگا جب اس کے ریاستی صدر بھرت بند نے ہفتہ کے روز راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) میں شمولیت اختیار کی۔ آر جے ڈی نے ٹویٹ کیاکہ بی ایس پی کے بہار پردیش کے صدر بھرت بند نے نیا بہار بنانے اور نوجوان مخالف بدعنوان نتیش حکومت کو ختم کرنے کے عزم کے ساتھ قائد حزب اختلاف تیجسوی یادو کی سربراہی میں آر جے ڈی میں شمولیت اختیار کی ہے۔ تیجسوی یادو نے بھرت بند کو آر جے ڈی کی رکنیت دلائی ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ریاست میں اسمبلی انتخابات کے لئے اوپیندر کشواہا کی راشٹریہ لوک سمتا پارٹی اور بی ایس پی کے مابین اتحاد ہوا ہے۔ اس اتحاد میں پیپلز پارٹی (سوشلسٹ) بھی شامل ہے۔
بہار انتخابات:مہاگٹھ بندھن میں سیٹ کی تقسیم پر ہوا اتفاق،آرجے ڈی 143اور 70 سیٹوں پر لڑ ے گی کانگریس
پٹنہ:بہار میں اہم پوزیشن پارٹی راشٹریہ جنتا دل کی سربراہی والے مہا گٹھ بندھن میں سیٹ شیئرنگ پر اتفاق رائے ہوگئی ہے ۔ ذرائع کے مطابق 243 رکنی اسمبلی کے لئے مہا گٹھ بندھن کی سب سے بڑی جماعت آر جے ڈی 143 نشستوں پر انتخاب لڑے گی، جبکہ کانگریس 70 نشستوں پر امیدوار کھڑا کرے گی۔ ذرائع کے مطابق بائیں بازو کی جماعتوں کو 28 سے 30 نشستیں ملی ہیں۔سیٹ شیئرنگ سے متعلق یہ معاہدہ پہلے مرحلے کی نامزدگی کے دوسرے دن ہوا ، حالانکہ اس کا باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ ریاست میں پولنگ کا پہلا مرحلہ 28 اکتوبر کو 71 نشستوں پر ہونا ہے۔ دوسرے اور تیسرے مرحلے کے انتخابات 3 اور 7 نومبر کو ہونے ہیں۔ ووٹوں کی گنتی 10 نومبر کو ہوگی۔ پہلے مرحلے کے لئے نامزدگی جمعرات (یکم اکتوبر) سے شروع ہوگئی ہے۔ یہ 8 اکتوبر تک جاری رہے گی ۔
ہاتھرس کیس کے ملزمین کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے یوگی حکومت:چندر شیکھر آزاد
نئی دہلی:بھیم آرمی چیف چندرشیکھر آزاد نےہاتھرس گینگ ریپ کیس میں مجرموں کو بچانے کی ذمے دار یوگی حکومت کو ٹھہرایا ہے۔ جب چندر شیکھر آزاد سے ہاتھرس گینگ ریپ معاملے میں انتظامیہ کی طرف سے متاثرہ افراد کے اہل خانہ کو چھپانے اور تشدد کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہاکہ واقعے کوچھپانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اگر چوروں کی طرح چھپانے کی کوشش نہیں کی گئی توبیٹی کی لاش کو اس طرح نہیں جلایا جاتا۔ اترپردیش حکومت کسی بھی طرح مجرم کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ کچھ افسروں اور ملازمین کو معطل کردیا گیا ہے، اس سے کچھ نہیں ہونے والا ہے کیونکہ وہ وہی کر رہے تھے جو وزیراعلیٰ انہیں بتا رہے تھے۔انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح لڑکی کے کنبہ کو یرغمال بنایا گیا ، اس خاندان کو میڈیا سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی،جیسے اتر پردیش میں داخل ہوتے ہی بنیادی حقوق ختم ہوجاتے ہیں، جس طرح سے اے ڈی جی کا بیان آتا ہے کہ عصمت دری نہیں ہوئی۔ جس طرح سے نارکو ٹیسٹ کی بات کی جارہی ہے، اس لیے مجھے لگتا ہے کہ کہیں نہ کہیں یہ اسی ٹریک پر کیس آرہا ہے، جیسا کہ اناؤ کیس میں ہوا تھا کہ مقتولہ کے چچا کو بند کردیا جاتاہے۔ بی جے پی لیڈر کے معاملے میں ہو ا تھا کہ لڑکی پر ہی مقدمہ درج کرکے جیل بھیج دیا گیا تھا۔ اس معاملے میں بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔ متاثرہ افراد کے اہل خانہ پر الزام لگا کر حکومت یہ ظاہر کرنا چاہتی ہے کہ اتر پردیش میں جرم نہیں ہو رہا، لوگ سیاست کر رہے ہیں۔چندر شیکھر آزاد نے مزید کہاکہ یہاں جمہوریت ہے، آئین بھی ہے لیکن آمریت بھی ہے۔ یوپی حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ دفعہ 144 نافذ ہے، وہیں پڑوس میں ملزمین کے حق میں کہ پنچایت ہوجاتی ہے۔ امتیازی سلوک توہو رہا ہے۔ اب نارکو ٹیسٹ کا یہ مطالبہ بھی ملزم پارٹی کا ہی ہے، جسے وزیر اعلی نے پورا کیا۔ وہ متاثرین کا مطالبہ توپورا نہیں کرسکتے ہیں۔
نئی دہلی:ویمن انڈیا موؤمنٹ (WIM) کی قومی صدر محترمہ مہرالنساء خان نے اپنے جاری کردہ اخباری بیان میں کہا ہے کہ یہ قومی شرم کی بات ہے کہ ہاتھرس کے خوفناک سانحہ کے بعد اتر پردیش حکومت کوئی ٹھوس قدم اٹھانے میں ناکام ہے جس میں ایک نو عمر دلت لڑکی کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی گئی تھی اور اسے بے دردی سے مارا گیا تھا جس کی وجہ سے اس کی موت ہوگئی۔ اس واقعے سے بی جے پی ریاستی حکومت اور وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کی شبیہ پر ایک اور داغ لگاہے۔ کیا ریاستی حکومت اتنی بے بس ہے یا وہ بیمار ہے؟۔ ویمن انڈیا موؤمنٹ کی قومی صدر مہرالنساء خان نے مطالبہ کیا ہے کہ اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کواپنے عہدے سے استعفی دینا چاہئے۔ مہر النساء خان نے اس واقعے کی سختی سے مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اتر پردیش میں عصمت ریزی اور چھیڑ چھاڑ کے واقعات کو دیکھ کر یہ پتہ چلتا ہے کہ اتر پردیش میں سخت لاء اینڈ آرڈ نافذ کئے جانے کے دعوی کھوکھلے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ اگر عام لوگ، خاص طور پر کمزور طبقات اور خواتین غیر محفوظ اور خطرہ محسوس کرتے ہیں تو ایسے میں پولیس اپنی بنیادی ذمہ داری میں ناکام ہوجاتی ہے۔ یہ افسوسناک واقعہ سماج میں پائے جانے والے گہرے عدم مساوات اور ناانصافیوں کی یاد دلاتا ہے۔ مبینہ طور پر کہا جارہا ہے کہ مجرم ٹھاکر خاندان سے تعلق رکھنے والے ہیں، جس ذات سے وزیر اعلی تعلق رکھتے ہیں۔ آئے دن ہورہے ان مظالم کے پس منظر سے پتہ چلتا ہے کہ اتر پردیش میں ذات پات کی حکمرانی غالب رہتی ہے جس طرح سماج وادی پارٹی کے دور حکومت میں یادو غالب رہے تھے۔ ویمن انڈیا موؤمنٹ کی قومی صدر محترمہ مہر النساء خان نے کہا کہ ملک بھر میں عام آدمی کا پولیس فورس سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔ لیکن ہندی علاقوں میں عوام کو پولیس فورس پر سرے سے اعتماد ہی نہیں ہے۔ ذات پات اور جاگیر دارانہ درجہ بندی اب بھی لاء اینڈ آرڈرنتظامیہ اور یہاں تک مقامی حکومتوں پر حاوی ہے۔ پولیس اور سول سروس میں خاص طور پر آبادی میں بڑے حصے کے تناسب کے لحاظ سے کمزور ذات کے نمائندوں کی نمائندگی کم رہتی ہے۔ مہرالنساء خان نے کہا کہ جب سے اتر پردیش میں بی جے پی کی حکومت بنی ہے تب سے عصمت دری کے واقعات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ جب حکومت بیدار ہوگی تبھی اس طرح کے جرائم کا خاتمہ ہوگا۔ اس طرح کے بھیانک واقعات کی روک تھام کیلئے حکومت کب کوئی ٹھوس قانون پاس کرے گی؟۔ مودی سرکار کا مستقل نعرہ’بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ’محض ‘جملہ’ثابت ہورہا ہے۔ملک میں خواتین کے تحفظ پر سوالیہ نشان لگاہوا ہے اور ان کی عزت پر ہاتھ ڈالنے والے غنڈے آزاد گھوم رہے ہیں۔ اگر ذات پات کے نام پر سیاست شروع ہوتی ہے تو یہ بڑی پریشانی کی بات ہے کہ ملک محفوظ ہاتھوں میں نہیں ہے۔ ویمن انڈیا موؤمنٹ (WIM) نے ہمیشہ خواتین کے خلاف جرائم کی شدید مذمت کی ہے اور ساتھ ہی اتر پردیش میں معصوم لڑکیوں کے ساتھ ہونے والے نا قابل معافی جرائم کیلئے بھی آواز اٹھاتی آرہی ہے۔ اس نے متعدد بار مرکزی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ ایسے جرائم کی روک تھام کیلئے ٹھوس اقدامات کرے اور مجرموں کو سخت سزا دی جائے تاکہ ایسے جرائم پر قابو پایا جاسکے۔ ویمن انڈیا موؤمنٹ نے اپنے متعدد یادداشت کے ذریعہ مرکزی حکومت کو ان حالات سے انتباہ کیا ہے لیکن حکومت نے کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھایا۔ لہذا، ویمن انڈیا موؤمنٹ صدر جمہوریہ سے اپیل کرتی ہے کہ وہ اتر پردیش میں بڑھتے ہوئے جرائم کی شرح کو روکنے کیلئے مناسب اقدامات کریں اور مرکزی حکومت کو بھی ایسے جرائم کے خلاف قوانین بنانے کی ہدایت کی جائے تاکہ ملک کی خواتین راحت کی سانس لے سکیں اور امن کے ساتھ رہ سکیں،کیونکہ خواتین کے تحفظ کے بغیر ملک کی ترقی ممکن نہیں ہے۔
عام کہاوت ہے کہ قانون اندھا ہوتا ہے لیکن بابری مسجد شہید کرانے میں نامزد زندہ بچے ہوئے سبھی بتیس ملزمان کو با عزت بری کرنے و الے سی بی آئی کورٹ کے اسپیشل جج ایس کے یادو نے ثابت کردیا کہ اگر قانون اندھا ہوتا ہے تو عدالتوں میں بیٹھے جج ان کی طرح بہرے ہوتے ہیں۔جنہیں چشم دید گواہان کی باتیں سنائی نہیں دیتیں۔ ایس کے یادو نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، کلیان سنگھ، اوما بھارتی، نتیہ گوپال داس اور ونئے کٹیاروغیرہ نے بابری مسجد توڑنے کے لئے کسی کو بھڑکایا نہیں تھا۔ سماج اور قانون دشمن عناصر نے مسجد توڑی تھی یہ لوگ تو گرانے والوں کو روکنے کا کام کررہے تھے۔ عدالت نے کہا کہ ملزمان کے خلاف معقول ثبوت نہیں ہے سی بی آئی نے جو آڈیو اور ویڈیو ثبوت عدالت میں پیش کئے ان کی بنیاد پر کسی کو سزا نہیں دی جاسکتی۔ جج یادو نے اپنے بہرے ہونے کا ثبوت خود ہی پیش کرتے ہوئے کہا کہ جو آڈیو سی بی آئی نے عدالت میں پیش کئے وہ صاف سنائی نہیں دیتے۔ اٹھائیس سال بعد مقدمہ کا فیصلہ آیا ہے۔ اس مقدمہ کی سماعت کے دوران تین سو اکیاون گواہوں کے بیان ہوئے جن میں سے بیشتر نے اڈوانی، جوشی اور اوما بھارتی سمیت تمام ملزمان کے خلاف ہی گواہی دی۔ اب جج صاحب بے چارے تو بہرے تھے اس لئے انہوں نے گواہان کے بیانات سنے ہی نہیں۔ ثبوت کے طور پر چھ سو سے زیادہ دستاویزی ثبوت عدالت میں پیش کئے گئے۔ ان کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا کیونکہ قانون تو اندھا ہے۔ ایودھیا پر سپریم کورٹ نے گزشتہ سال جو فیصلہ دیا تھا اس میں صاف کہا تھا کہ بابری مسجد کا توڑا جانا غیر قانونی اور ملک کے آئین اور قانون کی ربریت بھری خلاف ورزی تھی اس کے ذمہ داران کو سخت سزا دی جانے چاہیئے۔
سی بی آئی کے اسپیشل جج ایس کے یادو نے اس قسم کا فیصلہ دے کر انصاف، قانون، آئین اور عدلیہ میں یقین رکھنے والوں خصوصاً ملک کے مسلمانوں کا بھروسہ توڑا ہے۔ اگر وہ ان ملزمان کو ایک دن کی علامتی سزا سناتے ہوئے کہہ دیتے کہ یہ علامتی سزا ہے اس لئے ملزمان کو جیل بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تب بھی لوگوں کا عدلیہ میں یقین قائم ر ہتا۔ فیصلہ سنانے کے فوراً بعد جج یادو رٹائر بھی ہوگئے۔ ان کا رٹائرمنٹ تو ایک سال پہلے تیس ستمبر کو ہی ہوگیا تھا لیکن انہیں اسی فیصلےکے لئے ایک سال کی توسیع دی گئ ی تھی۔
فیصلہ آتے ہی لال کرشن اڈوانی جئے شری رام کہتے ہوئے میڈیا کے سامنے آگئے۔مرلی منوہر جوشی نے اسے ایک تاریخی فیصلہ قرار دیا ملک کے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے ’ستیم وجئتے) ٹوئٹ کرکے اپنی خوشی ظاہر کی۔ اپنی زہرلی تقاریر کے لئے بدنام رہے دو ملزمان خود کو اچاریہ بتانے والے راجستھان کے دھرمیندر اور ونئے کٹیار نے فیصلہ سننے کے فوراً بعد کہا کہ اب متھرا اور کاشی کی تحریک شروع کی جائے گی۔بی جے پی کے لوگوں نے پورے ملک میںپٹاخے داغ کر اور گھروں پر روشنی کرکے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا۔ کئی مقامات پر وشو ہندو پریشد اور وشوہندو پریشد کے لوگوں نے غیرضروری نعرہ بازی کرکے مسلمانوں کو چڑھانے اور بھڑکانے کی بھی کوششیں کں لیکن مسلمانوں نے ہوشمندی سے کام لیا اور کہیں بھی ٹکراؤ نہیں ہونے پایا۔
مسجد توڑے جانے کے سلسلے میں چھ دسمبر ۱۹۹۲ کو ہی دو مقدمات درج کرائے گئے تھے۔ ایک مقدمہ شام کو سوا پانچ بجے نا معلوم کار سیوکوں کے نام تھا تو اس کے فوراً بعد پانچ بج کر پچیس منٹ پر دوسرا مقدمہ لکھوایا گیا جس میں اڈوانی، جوشی سمیت انچاس لوگوں کو نامزد کیاگیا ساتھ ہی یہ بھی لکھا گیا کہ ان کے ساتھ ہزاروں کار سیوک بھی تھے۔ ملزمان میں اب جو بتیس بچے تھے انہیں جج ایس کے یادو نے بری کردیا ان میں لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی، ونئے کٹیار، رتمبھرا دیوی، سچانند ساکشی، برج بھوشن سنگھ، پون کمار پانڈے، ستیش پردھان، جئے بھگوان گوئل، کلیان سنگھ، رام چندر کھتری، سدھیر ککڑ، سنتوش دوبے، امرناتھ گوپال، پرکاش شرما، جئے بھان سنگھ پبیا، دھرمیندر سنگھ گوجر، رام جی گپتا، للو سنگھ، چپت رام، کملیش ترپاٹھی، گاندھی ی ادو، اوم پرکاش پانڈے، ونئے کمار رائے، وجئے بہادر سنگھ، نوین بھائی شکلا، اچاریہ دھرمیندر دیو، آر این شریواستو، رام ولاس ویدانتی، دھرم داس اور مہنت نرتیہ گوپال داس جن سترہ ملزمان کی سنوائی کے دوران موت ہوگئی ان میں وجئے رادھے سندھیا، بالا صاحب ٹھاکر، اشوک سنگھل، وشنو ہری ڈالمیا، موریشور ساٹھے، رام نارائن داس، مہا منڈلیشور، جگدیش مونی، ونود کمار وتس، لکشمی نارائن داس، رمیش پرتاپ سنگھ، ڈی وی رائے، مہنت اودیدھناتھ، بیکنٹھ لال شرما، پرم ہنس رام چندر داس، ستیش کمارناگر اور ہر گووند سنگھ۔
مسجد کی شہادت کے سلسلے میں دو کریمنل کیس درج کئے گئے تھے۔ پہلاایف آئی آر نمبر ۱۹۷ اور دوسرا ایف آئی آر نمبر ۱۹۸۔ ۱۹۷ والے ایف آئی آر میں لاکھوں کار سیوکوں کے خلاف کیس درج کیا گیا، جس میں آئی پی سی کی دفعہ ۱۵۳ اے(مذہبی بنیاد پر دشمنی پھیلانا)، ۲۹۷(قبرستان میں قبضہ کرنا)، ۳۳۲(سرکاری ملازمین کو اس کے فرائض سے ڈگمگانے کے لئے جان بوجھ کر چوٹ پہونچانا)، ۳۳۷(دوسروں کی زندگی اور نجی سلامتی کو خطرے میں ڈالنا)، ۳۳۸(زندگی خطرے میں ڈال کر سنگین چوٹ پہونچانا)، ۳۹۵(ڈکیتی) اور ۳۹۷(لوٹ پاٹ، موت کی وجہ بننے کی کوشش کے ساتھ ڈکیتی) کے تحت کیس درج کیا گیا تھا۔
ایف آئی آر نمبر ۱۹۸ میں آٹھ لوگوں کے نام تھے: لال کرشن اڈوانی، ایم اے جوشی، اوما بھارتی، ونئے کٹیار، سادھوی رتمبھرا اور وشو ہندو پریشد کے لیڈر اشوک سنگھل، گری راج کشور اور وشنو ہری ڈالمیا کا نام ہے۔ ان لوگوں کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ ۱۵۳ اے(مذہب کی بنیاد پر دشمنی پھیلانا)، ۱۵۳-بی(دنگا کرانے کے ارادے سے بھڑکا حرکتیں کرنا) اور ۵۰۵ (لوگوں کو بھڑکانے کے لئے بھڑکاؤ بیان دینے) کے تحت کیس درج کرایا گیا تھا۔
فیضان مصطفیٰ: حیدرآباد واقع نیلسار لاء یونیورسٹی کے وائس چانسلرفیضان مصطفیٰ نے بی بی سی نمائندہ دویا آریہ سے بات چیت میں کہا کہ یہ فیصلہ مایوس کن ہے اور بھارت کی کریمنل جوڈیشیل سسٹم کے لئے ایک دھکا ہے۔ انہوں نے کہا،’بی جے پی شیو سینا کے لیڈران کے اس وقت کے بیانات موجود ہیں، تب جو دھرم سنسد منعقد ہورہی تھیں، ان میں دیئے نعرےدیکھے جاسکتے ہیں، جو کارسیوک اس دن آئے تھے وہ کلہاڑی، پھاوڑے اور رسیوں سے لیس تھے، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایک سازش تھی۔ پروفیسر مصطفیٰ کہتے ہیں کہ اتنے بڑے جرم کے لئے کسی کا گناہ گار نہ پایا جانا ملک کے نظم و نسق کے لئے اچھا نہیں ہے۔ انہو ں نے کہا،’اس سے لگتا ہے کہ سی بی آئی اپنا کام ٹھیک سے نہیں کرپائی کیونکہ اتنے آڈیو، ویڈیو ثبوت اور ساڑھے تین سو سے زیادہ چشم دید گواہان کے بیانات کے باوجود ٹھوس ثبوت نہ مل پانے کی بات سمجھ نہیں آتی۔ پروفیسر مصطفیٰ کے مطابق جانچ ایجنسی اور پراسیکیوشن کا الگ الگ اور آزاد ہونا ضرور ی ہے۔ ملک کی سب سے بڑی جانچ ایجنسی، سی بی آئی ، وزارت داخلہ، بھارت سرکار کے تحت آتی ہے۔
اسد الدین اویسی : بابری مسجد گرائے جانے کے معاملے میں فیصلہ آنے کے بعد اے آئی ایم آئی ایم کے صدر لوک سبھا ممبر اسد الدین اویسی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ تاریخ کا ایک سیاہ دن ہے۔جب مجرمان کو کلین چٹ دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ آخری فیصلہ نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ آخری ہوتا ہے۔ کورٹ کے فیصلے سے متفق نہ ہونا عدالت کی توہین نہیں ہے۔ آپ ہی کی چارج شیٹ میں لکھا ہے کہ اوما بھارتی نے کہا ایک دھکا اور دو، کلیان سنگھ نے کہا تعمیر پر روک ہے توڑنے پر نہیں، یہ تاریخ کا کالا دن ہے۔ آج مجرمین کو کلین چٹ دی گئی ہے۔ سی بی آئی اپیل کرے گی یا نہیں یہی دیکھنا ہے اسے اپنی آزادی برقرار رکھنا ہے تواپیل کرنی چاہئیے۔ اگر وہ نہیں کریں گے تو ہم مسلم پرسنل لاء بورڈ سے کہیں گے کہ اس کے خلاف اپیل کریں۔ اس دن جادو ہوا تھا کیا؟ آخر کس نے یہ کیا؟ بتائیے ہماری مسجد کو کس نے شہید کیا؟ بابری مسجد کے توڑنے کے گناہ گاروں کو بے گناہ قرار دے کر پیغام دیا گیا ہے کہ کاشی متھرا میں بھی یہی کرتے چلو رول آف لاء کی فکر نہیں ہے وہ کرتے جائیں گے کلین چٹ ملتی جائے گی۔ دلتوں اور مسلمانوں کے معاملات میں انصاف نہیں ہوتا ہے پوری دنیا کے سامنے ہوا چھ دسمبر اگر کوئی کہتا ہے کہ بھول جاؤ آگے بڑھو کیسے بھول جائیں کیا پیغام دے رہے ہیں ہم فیصلے سے؟
پرشانت بھوشن: سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے بی بی سی نمائندے دتیا آریہ سے کہا اس فیصلے سے یہی مانا جائے گا کہ عدالتوں میں انصاف نہیں ہوتا ہے بس ایک بھرم رہتا ہے کہ انصاف کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہی ہونا متوقع تھا کیونکہ مسماری کے کیس میں فیصلہ آنے سے پہلے ہی زمین کے مالکانہ حق پر فیصلہ سنا دیا گیا وہ بھی اس فریق کے حق میں جو مسجد ڈھائے جانے کا ملزم تھا۔ پرشانت بھوشن کے مطابق اس سے مسلمان طبقے میں نفرت میں اضافہ ہوگا کیونکہ کوئی بھی فیصلہ انہیں اپنے حق میں نہیں لگے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مسلمان طبقہ کو دوئم درجہ کا شہری بنایا جارہا ہے۔ ان کے سامنے اس وقت اور بڑی چنوتیاں ہیں جیسے جیسے ہندو راشٹر کی تعمیر کی کوششیں ہورہی ہیں ویسے ویسے ان میں مایوسی پیدا ہورہی ہے۔
سنجئے راؤت: شیو سینا کے راجیہ سبھا ممبر سنجئے راؤت نے بابری مسجد کی شہادت معاملے میں آئے فیصلے پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے سال رام جنم بھومی معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بابری مسجد توڑنے کے معاملے کی اہمیت ہی ختم ہوگئی تھی۔ اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے انہو ںنے کہا کہ خصوصی عدالت کا یہ مقدمہ پچھلے سال آئے سپریم کورٹ کے فیصلے اور وزیراعظم کے ہاتھوں بھومی پوجن کرنے کے بعد بے معنی ہوچکا تھا۔ انہو ںنے ساتھ ہی کہا کہ اگر بابری مسجد کو نہیں ڈھایا گیا ہوتا تو ایودھیا میں رم مندر کا بھومی پوجن نہیں ہوپاتا۔ سنجئے نے کہا کہ اب ہمیں اس معاملے کو بھول جانا چاہئیے۔
پاکستان نے کہا شرمناک: اس فیصلے کے بعد پاکستان کو بھی بولنے کا موقع مل گیا۔پاکستان نے بابری مسجد گرائے جانے کے معاملے میں آئے فیصلے کی سخت مذمت کرتے ہوئے ملزمان کو بری کئے جانے کو شرمناک بتایا ہے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کرکہا ہے اگر دنیا کے مبینہ سب سے بڑے جمہوریہ میں انصاف کا تھوڑا بھی احساس ہوتا تو وہ لوگ جنہوں نےکھل کر ایک مجرمانہ حرکت کی تھی ڈینگیں ہانکی تھیں وہ بری نہیں ہوئے ہوتے۔ بیان میں اس فیصلے کو بی جے پی- آر ایس ایس کی حکومت میں ایک کمزور عدلیہ کی ایک اور مثال بتایا ہے۔ جہاں جارح ہندوتو نظریات انصاف اور بین الاقوامی اصولوں کے سبھی اصولوں پر بھاری پڑتی ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ نے لکھا ہے کہ بھارت کے سپریم کورٹ نے پچھلے سال بابری مسجد کی زمین کو انہی لوگوں کو رام مندر بنانے کے لئے دینے کا فیصلہ دے کر ایک غلط راہ دکھا دی تھی جنہو ںنے تاریخی مسجد کو گرا دیا تھا۔ اور آج کا فیصلہ اس فیصلے کے بھی خلاف ہے جس میں یہ بات درج کی گئی تھی کہ مسجد کو توڑنا انصاف اور قانون کی سخت مخالفت تھی۔ اس نے لکھا ہے کہ ایودھیا کے فیصلے سے جوش میں آکر ہندو کٹرپنتھی اب سرکار میں بیٹھے آر ایس ایس کی شہ پر متھرا میں کرشن مندر کے بغل میں و اقع شاہی عید گا ہ مسجد کو بھی ہٹانے کی کوشش کررہے ہیں۔ پاکستان نے بھارت سرکار سے اپیل کی ہے کہ وہ اقلیتوں اور خاص کر مسلمانوں اور ان کے مذہبی مقامات اور اسلامی مقامات کی سلامتی یقینی بنائیں۔ ساتھ ہی پاکستان نے عالمی برادری، اقوام متحدہ اور دیگر انٹرنیشنل تنظیموں سے بھی توقع کی ہے کہ وہ بھارت میں اسلامی دھروہروںکی حفاظت کے لئے اپنا رول نبھائیں گے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
صدر شعبۂ اردو،کالج آف کامرس،آرٹس اینڈ سائنس
اُتّر پردیش کو ہندستانی سیاست کا حقیقی کارخانہ کہا جاتا رہا ہے۔ایک مختصر مُدّت کے لیے گجرات ماڈل اور وہاں نریندر مودی کی حکومت کے کارناموں کو چھوڑ دیں تو ہندستان کے بُرے اور منفی سیاسی تجربات کا سب سے بڑا ماڈل ہمیشہ سے اُتّر پردیش ہی رہا ہے۔ آزادی کے بعد انگریزوں کی غلامی سے نجات اور ایک نئے جوش اور جذبے کے ساتھ حکومتوں کا جو سلسلہ شروع ہوا، اس میں اُتّر پردیش سب سے بڑی رکاوٹ کے طور پر سامنے آیا۔ یہ سوال قابلِ غور ہے کہ آخر کون سی بات ہے کہ ہندستان کے سب سے بڑے صوٗبے، سیاسی اعتبار سے سب سے زیادہ وزیرِ اعظم اور گورنر اور مرکزی وزرا عطا کرنے والے صوٗبے کو اب بھی پسماندگی کی مثال کے طور پر کیوں پیش کیا جاتا ہے۔آخر پنجاب، مہاراشٹر، ہریانہ، کیرل، کرناٹک اور آندھرا یا گجرات کی ترقّیوں کے ساتھ یہ صوٗبہ کیوں دوڑ سے باہر ہو گیا؟ سیاسی پُشت پناہی اور مواقع کے اعتبار سے اس صوٗبے کو تو ہر دور میں سبقت حاصل رہی۔
حقیقت یہ ہے کہ ہندستان کے اس سب سے بڑے صوٗبے کا المیہ یہ رہا کہ یہاں تہذیب و ثقافت اور سماجی انقلاب کی ہَوا تک بھی نہیں پہنچی۔ جاگیر دارانہ سماج انگریزوں کی غلامی کے بعد آزاد ہوتے ہی جمہوری دور میں خود کو سماجی غلامی کی بیڑیوں سے آزاد کرانے کی جِدّو جُہد میں اُترا ہی نہیں۔ سماجی اصلاح کے بغیر جمہوری ادارے محض بے روٗح ڈھانچا بن کر رہ جاتے ہیں اور سماج پھر سے پُرانی زنجیروں میں مُقیّد ہو جا تا ہے۔اُتّر پردیش کا المیہ یہ رہا کہ یہاں کانگریس اور مسلم لیگ (آزادی کے قبل) کے افراد اکثر و بیش تر جاگیر دارانہ سماج سے آتے تھے۔تقسیمِ ملک کے بعد سب کے سب کانگریس کا حصّہ ہو گئے اور یو پی کی کانگریسی حکومت نے ذات پات، مذہب اور اوٗنچ نیچ کی بنیادوں پر تفریقی سیاست کو ہی اہمیت دی۔ اس کے اصلی نتائج اب سامنے آ رہے ہیں۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ ہندستان کی آزادی کے بعد کانگریسی حکومتوں نے فرقہ وارانہ سیاست سے خود کو الگ کر لیا تھا اور آزاد جمہوری ملک کے خوابوں میں مُنہمک ہو گئے تھے۔ آلِ احمد سروٗر نے آزادی کے بعد یو ۔پی۔ کی کانگریس حکومت کو فرقہ پرستی کا کھُلا کھیل کھیلنے والا قرار دیا۔انھوں نے’ہندستان کدھر‘ خطبے میں کہا ہے کہ دہلی میں نہروٗ کی سیکولر ڈیموکریسی چل رہی تھی مگر لکھنؤ میں گوبند بلبھ پنت اور ٹنڈن کی فرقہ پرست سرکار اپنے ایجنڈے میں مشغول تھی۔ یو ۔ پی۔ میں اردو تعلیم کا جو جنازہ اُٹھا، وہ بھی ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت ہوا۔ پورے سماج میں ایک غیر روادارانہ ماحول بنایاگیا اور دیہی علاقوں میں فرقہ پرستانہ آگ لگا کر پورے معاشرے میں کانگریس نے مسلمانوں کے لیے اور ان کی زبان کے لیے عرصۂ حیات تنگ کیا۔
پہلا تجربہ فرقہ وارانہ ضرور تھا مگراحیا پسندی کے اپنے اصول ہوتے ہیں۔ ٹھیک جیسے غلامی کے آداب ہیں، ملوکیت کے اطوار ہیں اور اس کے برعکس جمہوریت،رواداری اور روشن خیال سماج کے طور طریقے ہوتے ہیں۔ آزادی کی جنگ کے دوران مساوات، یکجہتی اور سماجی انصاف کی ایک خاص تربیت ہوئی تھی مگر تقسیمِ ملک اور فساد کی آڑ لے کر خاص طور سے اُتّر پردیش میں فرقہ پرستی سے چکّے کو الٹا گھمانے کی کو شش ہوئی۔ اگلے مرحلے میں سماجی انصاف کا بھی جنازہ نکلنا تھا۔ جنگِ آزادی کے دوران اورآئین سازی کے مرحلے میں جس ہوش مندانہ ماحول میں برابری اور انصاف کے اسباق پڑھائے گئے تھے، سب کے سب دھرے رہ گئے۔
ایسا نہیں ہے کہ جاگیردارانہ جکڑ بندی میں صرف اُتّر پردیش کی حکومت اور پھر سماج کی شمولیت رہی۔ راجستھان، بہار، بنگال میں بھی یہ ماحول تھا مگر وہاں سماجی تحریکوں نے اس سلسلے سے مناسب کام کیے۔ پنجاب نے بھی جاگیر دارانہ ماحول سے کم و بیش آزادی حاصل کرنے کی مہم ۱۹۵۰ء کی دہائی میں ہی شروع کر دی۔ زمین کا مساویانہ بٹوارا اور روٹی کپڑا اور مکان کی مُہم نے کام کیا۔ دشواری یہی ہوئی کہ اُتّر پردیش میں پہلا تجربہ فرقہ پرستی کے حوالے سے ہی سامنے آیا اور احیا پسندوں کے لیے کارآمد ثابت ہوا۔ اب آگے کیا تھا، طاقت ور برادریوں کے افراد حکومت میں تھے، انھوں نے جمہوری اداروں کی چھانو میں اپنی طاقت اور دائرۂ اثر کو بڑھانے میں کامیابی پائی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کمزور طبقے کے افراد ، اقلیت کے پس ماندہ لوگ اور دلت بھائی بہنوں کے ساتھ عام خواتین اس نئی زندگی کا حصّہ ہی نہیں بن پائے یا انھیں اس ترقی میں شامل ہی نہیں ہونے دیا۔
اُتّر پردیش کا مسئلہ یہ ہے کہ وہاں نہ صرف کانگریس کی ترقی پسندانہ سیاست فیل ہوئی بلکہ وہاں سماج وادیوں کی سیاست بھی اسی جال میں پھنس کر ناکام ہوئی۔ رام منوہر ہوہیا، چودھری چرن سنگھ، کانگریس سے نکلے ہیم وتی نندن بہوگُنا، وشوناتھ پرتاپ سنگھ اور بعد میں ملائم سنگھ یادو اور ان کے خاندان کی سیاست۔اسی سلسلے میںمایاوتی جی کا نام بھی ہمیں شامل کرنا چاہیے۔ سرکاریں بنیں، ٹوٹیں اور پھر بنیں۔ محاذ قایم ہوئے اور ٹوٗٹے۔ مگر کسی نے ووٹ حاصل کرنے کے علاوہ سماجی انصاف، مساوات اور جمہوری تقاضوں کو عوام النّاس تک پہنچانے کی کوشش نہیں کی۔ لوگ اگر کہتے ہیں کہ ان میں بھی مکھوٹا سرکاریں رہیں۔ دیکھنے میں بر سرِ اقتدار آپ ہیں مگر آپ سے بالکل مختلف نقطۂ نظر کے افراد اندر سے حقیقی کام کر رہے ہیں۔ ملائم سنگھ اور ان کے خاندان یا کماری مایاوتی کا سیاسی زوال صرف اسی سازش کی وجہ سے ہوا۔اگر انھوں نے اپنی حکومت جن بنیادوں پر قایم کی تھی، پس ماندہ، غریب اور دلِت طبقے کے حقوق کی بازیابی کے لیے جس طرح ووٹ حاصل کیے تھے؛ حکومت کرتے ہوئے ان کاموں کو وہ لوگ یکسر بھول گئے۔
بہار اور اُتّر پردیش کم و بیش ایک ہی انداز کی سماجی دشواریوں کی بنیاد پر کھڑے ہیں مگر بہار میں کرپوری ٹھاکر اور ایک حد تک لالوٗ یادو کے عہد میں سماج کے کمزور طبقوں کی طرف داری میں حکومتوں کے سامنے آنے کے واقعات نظر آئے۔ درجنوں خوں آشام مواقع آئے مگر عوامی سطح پر مقابلے کے لیے کمزور لوگ سامنے آنے لگے اور حکومت نے بھی حسبِ گنجایش کمزوروں کی طرف داری کی۔ پولیس اور انتظامیہ کو بھی معلوم تھا کہ وہ اپنی حد سے آگے بڑھیں گے تو حکومت اور عوام برداشت نہیں کریں گے۔ اس لیے یہ ممکن ہوا کہ گذشتہ تیس برسوں میں چاہے کسی محاذ کی حکومت ہو، اس کا لیڈر سماج کے کمزور طبقے سے آئے گا۔ اب بھی طرح طرح کی سازشیں ہو رہی ہیں مگر فرقہ پرست جماعتوں کو بھی اپنی پس ماندہ قیادت کو ہی بہار میں آگے رکھنا پڑتا ہے۔
یہ سماجی شرم کی بات ہے کہ زنا کاروں، قاتلوں اور جرائم پیشہ افراد کی طرف داری میں اُتّر پردیش میں ایک طبقہ جلوس نکال رہا ہے۔ یہ علی الاعلان گذشتہ کئی برسوں سے ہو رہا ہے۔پہلے اندرونی طور پر یا انتظامیہ اور پولیس کی سطح پر یہ تماشے ہوتے تھے مگر اب یو پی کے وزیرِ اعلا کی وجہ سے بلند حوصلے کے ساتھ ایسی طاقتیں میدان میں آ گئی ہیں ۔اس کے برعکس کسی صحافی اور سیاسی کارندے کو متاثّرین سے ملنے نہیں دیا جا رہا ہے۔ پولیس اس طرح سے کام کر رہی ہے جیسے واقعی وہ جمہوری عہد میں نہ ہو بلکہ وہ کسی زمین دار کی نجی پولیس ہو اور اسے ظالموں کے ساتھ کھڑا ہونا ہے۔ ایک کے بعد ایک واقعات ہوتے جا رہے ہیں ، دلّی سے لے کر لکھنؤ تک کی حکومتوں کے مشاغل مختلف ہیں اور جو امکانات جاری ہو رہے ہیں ، اس سے اندازہ ہورہا ہے کہ حکومتوں کے اشارے سے سب کچھ ہو رہا ہے۔
اُتّر پردیش کا سیاسی کارخانہ جنگِ آزادی اور اس کے بعد آئین سازی کے دوران کے تمام مثالی کاموں پر کالکھ پوتنے کے لیے کاربند ہے۔بابری مسجدکے ہر دور کے معاملات پر نظر رکھیے تو یہ سمجھنا دشوار نہیں کہ سلسلہ در سلسلہ ظلم و جبر اور انصاف کے خون کی کہانیاں لکھی گئیں۔ پہلے بڑی عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹا کر لوگ کئی بار حکومت کی بے انصافی سے نجات حاصل کر لیتے تھے۔ اب کم و بیش وہ راستابند ہوتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ لوگ یہ سوچنے گے ہیں کہ کیا اِسی دن کے لیے ہزاروں لوگوں نے اپنی جانیں گنوائی تھیں؟ جمہوریت کتاب میں لکھی ہوئی اچھی اچھی باتوں کا نظام ضرور ہے مگر اِسے زمین پر اُتارنے کے لیے ایمان اور انصاف کی ضرورت ہوتی ہے۔ فرانس کے انقلاب میں آزادی، مساوات اور بھائی چارہ کے تصوّرات کو اصول کی طرح تسلیم کیا گیا تھا۔ ہندستان کی آزادی کے دوران مہاتما گاندھی کا ان اصولوں پر ہمیشہ زور رہا۔ افسوس اس کا ہے کہ برہمن وادی نظام کی ترجیحات کو ہم جمہوری اداروںکے حوالے سے آگے بڑھانے میں منہمک ہیں۔ اس میں سماج اور ملک دونوں کی شکست طے شدہ ہے۔
بابری مسجد کا انہدام بھی ایک بربریت اور قبیلائی طور تھا۔ گجرات کے فسادات بھی اسی نہج پر سامنے آئے۔سی بی آئی اور عدالتوں کے راستے بھی کم و بیش اسی انداز کے ہیں۔ حکومتیں مضبوط لوگوں کے ہاتھوں کی لاٹھی ہو گئی ہیں۔ اس لیے کمزور کی جان، مال اور آبروٗ کی حفاظت نہیں ہو سکتی۔ یہ جمہوری حکومتوں کا طور نہیں ہے۔ یہ جنگلوں کے زمانے کے انسانوں کا راج ہے۔ اس جبر کے خلاف کوئی سیاسی پارٹی دل سے نہیں کھڑی نظر آتی ہے۔ خدا اپنے بندوں کی حفاظت کرے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
(464 سالہ بابری مسجد کا 107سالہ قضیہ)
پہلی قسط
بابری مسجد کے قضیہ پر پچھلے 70 برسوں میں اور خاص طورپر آخری 34 برسوں میں جتنا لکھا گیا ہے اتنا شاید ہی آزاد ہندوستان میں کسی اور موضوع پر لکھا گیا ہو۔شمالی ہندوستان کے صوبہ اتر پردیش کے قصبہ ایودھیا میں 1528میں تعمیر ہونے والی یہ مسجد 464 سال تک قائم رہی لیکن اب اس کا نام و نشان بھی باقی نہیں ہے۔۔ اب وہاں حکومت ہند کی فعال شمولیت کے ساتھ رام مندر کی تعمیر شروع ہوگئی ہے۔اس مندر کا سنگ بنیاد وزیر اعظم نریندر مودی نے 5 اگست 2020 کو خود رکھا تھا۔شاید یہ اس کا جواب تھا کہ جس طرح 1528 میں شہنشاہ بابر (کے کمانڈر میر باقی) نے ایک مسجد کی بنیاد رکھی تھی اسی طرح ٹھیک 492 سال بعد 2020 میں وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی رام مندر کی بنیاد رکھ دی۔
لیکن یہاں ایک بڑا فرق ہے۔ یہ فرق ہمیشہ تاریخ کے صفحات میں درج رہے گا اور آنے والی نسلیں یہ جانتی رہیں گی کہ شہنشاہ بابر نے 1528میں جو مسجد بنائی تھی اس کے کسی مندر کو توڑ کر بنانے کا کوئی ثبوت سپریم کورٹ تک کو نہیں ملا تھا۔جبکہ نریندر مودی نے جس رام مندر کا سنگ بنیاد رکھا تھا وہ یقینی طور پر ایک مسجد کو توڑ کر بنایا گیا تھا۔یہ مسجد 6 دسمبر 1992 کو دن کے اجالے میں بی جے پی‘بجرنگ دل‘وی ایچ پی اور شو سینا کے ہزاروں کارسیوکوں نے منہدم کردی تھی۔اس موقع پر بی جے پی کے تین درجن سے زائد ممتاز لیڈر بھی وہاں موجود تھے اور کارسیوکوں کو جوش دلا رہے تھے۔ان میں رام مندر تحریک کے سرخیل لال کرشن اڈوانی‘مرلی منوہر جوشی‘اوما بھارتی‘اشوک سنگھل‘ ونے کٹیار اور وشنو ہری ڈالمیا بھی شامل تھے۔
تاریخ یہ بھی یاد دلاتی رہے گی کہ جس طرح مندر توڑ کر مسجد بنانے کا کوئی ثبوت نہ ملنے کے باوجود اور بابری مسجد کی زمین کی ملکیت ہندؤں کے حق میں ثابت نہ ہونے کے باوجود ملک کی سب سے اعلی عدالت سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی زمین کو رام مندر کی تعمیر کے لئے ہندؤں کے حوالہ کردیا تھا اسی طرح مسجد کے انہدام کے 28سال بعد 2020 میں لکھنؤ میں سی بی آئی کی اسپیشل عدالت نے مذکورہ تمام ملزمین کو (اور تاریخ کی نظر میں مجرمین کو) سازش اور انہدام کے ہر الزام سے بری کردیاتھا۔۔ واقعہ یہ ہے کہ بابری مسجد کے ساتھ ناانصافی کے عمل میں فیض آباد اور لکھنؤ کی مقامی عدالتوں کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ بھی برابر شامل رہی۔ اس ضمن میں الہ آبادہائی کورٹ کو قدرے مستثنی رکھا جاسکتا ہے۔تاریخ بتائے گی کہ مقامی عدالتوں اور سپریم کورٹ سے ہزار درجہ بہتر فیصلہ تو الہ آباد ہائی کورٹ نے ہی کردیا تھا۔اس کی تفصیل آگے بیان کی جائے گی۔لیکن اس نکتہ پرمورخ یہ سوال بھی اٹھائے گا کہ (گوکہ خود ہندو فریق بھی اس فیصلہ سے مطمئن نہیں تھا) حکومتوں‘عدالتوں اور مختلف سیاسی پارٹیوں کی شرپسندی سے واقف ہوجانے کے باوجود بابری مسجد کا فریق کیوں الہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلہ پر اکتفا نہ کرسکا۔
آئیے اب ذرا دوسری طرف رخ کرتے ہیں۔ہندوستان میں اس وقت (2020 میں) سرکاری اعداد و شمار کے مطابق نوجوانوں کی آبادی 34.33 فیصد ہے۔ظاہر ہے کہ اس وقت جن کی عمریں 30 تا 35 برس ہیں انہیں بھی بابری مسجد کے قضیہ اوراس کے انہدام کا کچھ زیادہ اندازہ نہیں ہوگا۔پھر 1992میں الیکٹرانک میڈیا بھی اس پیمانہ کا نہیں تھا۔ذرائع ابلاغ بھی وسیع تر نہیں تھے۔زیر نظر مضمون کی دوسری قسط میں لکھنؤ کی عدالت کے تازہ فیصلہ کا بھی جائزہ لیا جائے گا لیکن مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مختصر ہی سہی دور حاضر کی نسلوں کے لئے ایک سلسلہ وارٹائم لائن بیان کردی جائے۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا بابری مسجد کی تعمیر شہنشاہ بابر کے کمانڈر میر باقی نے 1528میں کی تھی۔اس مسجد میں 421 سال تک باجماعت نماز ادا ہوتی رہی۔ تین صدیوں کے بعد سخت گیر عناصر نے مسجد کے خلاف سازش شروع کردی لیکن پہلی معلوم سازش 1885میں رونما ہوئی۔ مسجد کی تعمیر کے 357 برس بعد مہنت رگھوبیر داس نے فیض آباد کی ضلع عدالت میں ایک درخواست دائر کی اوربابری مسجد کے احاطہ کے باہر ایک سائبان (Canopy) بنانے کی اجازت مانگی۔لیکن ضلع عدالت نے اس درخواست کو مسترد کردیا۔1885میں ہندوستان کے انتظام وانصرام پر مکمل طورپر انگریزوں کا قبضہ تھا۔عدالت کے ذریعہ ہندؤں کی درخواست کو مسترد کرنے کی وجہ لازمی طورپر قانونی استدلال کی کمی تھی۔عدالت کوہندؤں کا کوئی مالکانہ حق نہ بابری مسجد پر نظر آیا ہوگا اور نہ ہی اس کے باہر کے حصہ پر۔۔
انگریزوں پر ہندو مسلم آبادی کو آپس میں لڑانے کا الزام لگتا رہا ہے۔۔لیکن یہاں انگریزوں نے اس موقع کو استعمال نہیں کیا اور ہندؤں کے دعوے کو بے بنیاد پاکر اس درخواست کو مسترد کردیا۔مسجد کے احاطے کے باہر سائبان کی تعمیر کی درخواست یقینی طوپر ایک سازش کے تحت ہی کی گئی تھی لیکن انگریزوں نے سازش کے اس موقع کا استعمال نہیں کیا۔اس سازش کے 64 سال کے بعد اور ملک کی آزادی کے تقریباً ڈیڑھ سال بعد ہندؤں نے پھر ایک بڑی سازش کی اور 23 دسمبر 1949 کی شب 50-60 لوگوں نے بابری مسجد کی دیوار پھاند کر مرکزی محراب میں رام کی مورتی رکھ دی۔اس سے پہلے اکھل بھارتیہ راماین مہاسبھا نے بابری مسجد کے باہر 9 دنوں تک بغیر کسی وقفہ کے راماین کا پاٹھ پڑھنے کا پروگرام منعقد کیا اور آخری دن وہ حرکت انجام دیدی۔بالکل اسی طرح جس طرح 43 سال بعد 1992 میں پہلے علامتی کارسیوا کے نام پر ہزاروں لوگ جمع ہوئے اور پھربابری مسجد کو منہدم کردیا۔۔
چوری چھپے مورتی رکھنے کے چند ہفتوں بعد 1950 کے اوائل میں فیض آباد کی عدالت میں دو درخواستیں دائر کی گئیں۔گوپال سملا وشارد نے بابری مسجد کے اندر چوری سے رکھی اس مورتی کی پوجا کرنے کی اجازت مانگی جبکہ پرم ہنس رام چندر داس نے پوجا کے تسلسل اور مورتی کو نہ ہٹائے جانے کا مطالبہ کیا۔۔اس کے 9 سال بعد نرموہی اکھاڑا نے بابری مسجد کو اس کے حوالہ کئے جانے کیلئے درخواست دائر کی۔
23 دسمبر 1949 کو بابری مسجد میں آخری بار عشاء کی نماز باجماعت ادا ہوئی تھی۔اس کے بعد پھر اس مسجد میں نماز نہیں پڑھی جاسکی۔اور پھر 43 سال بعد اس کی شہادت واقع ہوگئی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا 1885سے 1992تک یعنی کل 107سال تک سازش کے علاوہ بھی کچھ ہوا؟
1961میں یوپی سنی سینٹرل وقف بورڈ نے بابری مسجد کو اس کے حوالہ کئے جانے کی درخواست عدالت میں دائر کی۔.. درخواست گزار کے طور پر ہاشم انصاری پیش ہوئے ۔ فیض آباد کی ضلع عدالت میں یہ مقدمہ 36 سال تک چلتا رہا اور فروری 1986میں اچانک عدالت نے بابری مسجد کا تالہ کھول کر اسے پرستش کے لئے ہندؤں کے حوالہ کئے جانے کا فیصلہ کردیا۔۔ یہاں پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس طرح غلام ہندوستان میں 1885میں انگریزوں کے تسلط کے دوران اسی فیض آباد کی عدالت نے ہندو فریقوں کی عیاری پر مبنی دائر درخواستوں کو مسترد کرکے ایک بڑی سازش کو ناکام بنادیا 1950سے 1986 تک آزاد ہندوستان میں (کانگریس حکومت کے دوران) فیض آباد کی اسی عدالت نے کیوں معاملہ کو اتنا طول دیا اور کیوں آخر کار اس سازش کو کامیاب کردیا۔۔ اس سوال کا جواب شاید اس سوال کے اندر پوشیدہ مل جائے کہ 23 دسمبر 1949 کی شب چوری چھپے مورتیاں رکھنے ہی کیوں دی گئیں اور جب وہاں پچھلے نو دنوں سے سخت گیر ہندؤں کا راماین پاٹھ پروگرام چل رہا تھا تو انتظامیہ اور حکومت نے حفظ ماتقدم کے تحت کوئی سخت انتظام کیوں نہیں کیا؟۔۔۔
اسی سے وابستہ سوال یہ ہے کہ جب 1528 سے 1949 تک وہاں نماز باجماعت ادا ہو رہی تھی تو انتظامیہ اور حکومت نے چوری چھپے مورتیاں رکھنے والوں کے خلاف کیا کارروائی کی؟ کیوں مسجد میں تالہ لگایا گیا اور کیوں مسلمانوں کو وہاں نماز پڑھنے سے محروم کیا گیا؟چوری چھپے مورتی رکھنا ایک مجرمانہ عمل تھا لیکن اس مجرمانہ عمل کو جاری رکھنا حکومت کا اس سے بڑا مجرمانہ عمل تھا۔کیا اس عمل میں کانگریس کے اس وقت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کی شمولیت نہیں تھی؟
بہر حال فروری 1986میں مقامی عدالت کا فیصلہ آتے ہی مسجد کا تالہ کھول دیا گیا۔اس وقت یوپی میں کانگریس کے ویر بہادر سنگھ وزیر اعلی تھے جبکہ ملک کے وزیر اعظم راجیو گاندھی تھے۔آخر اس فیصلہ کے خلاف فوری طورپر حکومت کیوں ہائی کورٹ نہیں گئی؟ کیوں ہنگامی حکم کی درخواست نہیں کی گئی؟اس کے بر خلاف سرکاری ٹیلیویزن دور درشن پر اس فیصلہ کی خوب تشہیر کی گئی اور وہاں ہندؤں کو پوجا کیلئے ساری آسانیاں فراہم کی گئیں۔۔پورے ملک سے ہندوؤں نے وہاں جانا شروع کردیا۔اگست 1989 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے صورت حال کو جوں کا توں رکھنے کا حکم دیا۔۔ یعنی مسلمان بابری مسجد سے دور رہیں اور ہندو بدستور پوجا کرتے رہیں۔۔۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ بابری مسجد کا تالہ کھلنے کے بعد مسلمانوں کی طرف سے سیاسی اقدام کی تحریک مرکزی طور پر دہلی سے شروع ہوئی۔اس تحریک میں چند نام بہت بڑے تھے۔مثال کے طورپر سید شہاب الدین‘شاہی امام عبداللہ بخاری‘ابراہیم سلیمان سیٹھ‘غلام محمود بنات والا اورسلطان صلاح الدین وغیرہ۔ اس کے علاوہ دوسری سطح کے مسلم لیڈر بھی اس تحریک سے وابستہ ہوئے۔ان میں ظفر یاب جیلانی‘قاسم رسول الیاس‘جاوید حبیب وغیرہ تھے۔ لیکن دوسری جانب تالہ کھلنے‘پوجا شروع ہونے اور ہائی کورٹ سے "اسٹیٹس کو” کے حکم کے باوجود بی جے پی نے اس تحریک کو مزید آگے بڑھایا۔
راجیو گاندھی کے خلاف ان کی جماعت کے وشوناتھ پرتاپ سنگھ جب الگ ہوکر سیاسی میدان میں آئے تو ان کے ساتھ اتحاد میں شامل ایک طرف جہاں بایاں محاذ تھا وہیں بی جے پی بھی تھی۔بی جے پی کے پاس اس وقت تک لوک سبھا میں صرف دو سیٹیں (اٹل بہاری باجپائی اور ایل کے اڈوانی کی) ہوا کرتی تھیں۔لیکن وشوناتھ پرتاپ سنگھ کی عنایت اور رام مندر تحریک کے سبب بی جے پی دوسے 88 سیٹوں تک پہنچ گئی۔ اڈوانی بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے مطالبہ کو لے کر 25 ستمبر 1990 کو سومنات سے رتھ یاترا لے کر نکلے اور پھر جہاں جہاں گئے فسادات کی ایک خونی لکیر چھوڑتے چلے گئے۔۔ وہ ایک دن میں 300 کلو میٹر کا سفر کرتے اور کم سے کم 6 جلسوں کو خطاب کرتے۔۔ اس رتھ کو صرف بہار میں جاکر بریک لگا جب اس وقت کے وزیر اعلی لالو پرساد یادو نے اڈوانی کو پٹنہ میں ہی گرفتار کرکے دہلی واپس بھیج دیا۔
ادھر مسلمانوں کی تحریک بھی عروج پر تھی۔شاید آزاد ہندوستان کی تاریخ میں دہلی کے بوٹ کلب پر لاکھوں مسلمان پہلی بار جمع ہوگئے تھے۔لیکن اسٹیج پر مسلم قائدین ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوگئے اور مسلمانوں کی بنی بنائی ہوا اکھڑ گئی۔سید شہاب الدین اور شاہی امام دونوں اپنی گرم طبیعت کو اعتدال میں نہ رکھ سکے۔ اڈوانی کی تحریک بڑھتی چلی گئی اور ان کے ساتھ کئی سخت گیر تنظیمیں بھی جڑ گئیں۔
اکتوبر 1990میں سخت گیر کار سیوکوں نے بابری مسجد پر چڑھ کر اسے منہدم کرنے کی کوشش کی۔لیکن اس وقت یوپی میں ملائم سنگھ کی حکومت تھی۔پولس نے گنبد پر چڑھے ہوئے کارسیوکوں پر گولی چلائی اور ایک درجن سے زائد ہلاک ہوگئے ۔۔ اس کے بعد 1991 کے الیکشن میں بی جے پی حکومت میں آگئی‘ کلیان سنگھ یوپی کے وزیر اعلی بنے اورشرپسندوں کی بہار آگئی۔۔1992 میں مرکز میں کانگریس کی حکومت تھی لیکن وہ یوپی میں بی جے پی کی حکومت کو بابری مسجد کے خلاف منصوبے کو آگے بڑھانے سے روکنے میں ناکام رہی۔اسوقت وزیر اعظم نرسمہاراؤ تھے۔۔ رام مندر کی تحریک اب نکتہ ارتکاز (Saturation point) پر تھی۔
دسمبر 1992 میں ایودھیا میں ہزاروں کارسیوکوں کو جمع کرکے پھر کارسیوا کا پروگرام بنایا گیا۔نرسمہاراؤ کو اپوزیشن سمیت خود ان کی پارٹی کے لوگوں نے بھی متنبہ کیا۔ یہاں تک کہ قومی یکجہتی کونسل National Integration Council کی میٹنگ میں نرسمہاراؤ سے کہا گیا کہ وہ یوپی حکومت کو برخاست کردیں کیونکہ انٹلی جنس رپورٹوں کے مطابق بھی شرپسندوں کے عزائم اچھے نہیں ہیں اور یوپی حکومت فعالیت کے ساتھ انہیں راہ دے رہی ہے۔اسی دوران معاملہ سپریم کورٹ میں گیا اور بی جے پی/وی ایچ پی کی کارسیوا کو روکنے کی گزارش کی گئی۔عدالت نے تمام تر اندیشوں کے باوجود یوپی کے وزیر اعلی کلیان سنگھ کے اس حلف نامہ پر یقین کرکے محدود کارسیوا کی اجازت دیدی جس میں کہا گیا تھا کہ یہ محض علامتی کارسیوا ہوگی اور حکومت مسجد کو کوئی گزند نہ پہنچنے دے گی۔
ادھر قومی یکجہتی کونسل نے نرسمہا راؤ سے کہا کہ وہ بابری مسجد کے تحفظ کے لئے اقدامات کریں اور یوپی حکومت پر بھروسہ نہ کریں۔نرسمہاراؤ نے کہا کہ ہنگامی حالات سے نپٹنے کیلئے ہماری تیاری پوری ہے اور پیرا ملٹری فورسز پوری طرح تیار ہیں۔ 5دسمبر 1992 کو لکھنؤ میں ونے کٹیار کے گھر پر بی جے پی لیڈروں کی میٹنگ ہوئی جس میں (سی بی آئی کی چارج شیٹ کے مطابق) یوپی کے وزیر اعلی کلیان سنگھ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے تعمیر پر پابندی لگائی ہے توڑ پھوڑ پر نہیں۔6دسمبر کو صبح سے ہی ان تمام لیڈروں نے مائک پر نفرت انگیز تقریریں کرنی شروع کردی تھیں اور کارسیوکوں کا حوصلہ بڑھایا جارہا تھا۔آخر کار کارسیوک مسجد کے گنبدوں پر چڑھ گئے اور کدالوں سے توڑنے لگے۔بعد میں رسیاں باندھ کر گنبدوں کو گرادیا گیا۔چند گھنٹوں میں ہی 464 سال پرانی مسجد کو زمیں بوس کردیا گیا۔اور وہاں رام للا کو بٹھاکر میک شفٹ (عارضی مندر) بنادیا گیا۔ اسی رات وہاں بھجن کیرتن بھی شروع کردیا گیا۔
پورا ملک دیکھتا رہا۔حکومت دیکھتی رہی۔وزیر اعظم دیکھتے رہے۔اور سپریم کورٹ بھی دیکھتا رہا۔تمام وعدے اور حلف نامے دھرے کے دھرے رہ گئے۔اپوزیشن سمیت متعدد لیڈر اور مسلم قائدین چیختے رہے لیکن پہلے گنبد کی شہادت سے آخری اینٹ کے گرنے تک نرسمہاراؤ خاموشی سے دیکھتے رہے۔۔ وہ چاہتے تو سریع الحرکت کارروائی کرکے ٹوٹی پھوٹی بابری مسجد کو بکھرنے سے بچاسکتے تھے۔۔ان کی بھیجی ہوئی فورس کوئی زیادہ دور نہیں تھی۔۔۔لیکن انہوں نے مجرمانہ خاموشی اختیار کی اور بابری مسجد کو مکمل طور پر شہید ہوجانے دیا۔
میرا موقف یہ ہے کہ بابری مسجد کے خلاف سازش تیار کرنے میں ایک طرف جہاں ہندو جماعتوں سے لے کر بی جے پی تک سرگرم عمل تھی وہیں پنڈت جواہر لعل نہرو‘راجیو گاندھی اور نرسمہاراؤ بھی اس سازش کا متحرک حصہ نہ سہی تو خاموش حصہ ضرور تھے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
رنجن گگؤیی نے بابری مسجد کا فیصلہ سنایاـ چالیس دن تک عدالت چلتی رہی اور عدالت نے قبول کیا کہ رام جنم بھومی کا معاملہ بہت حد تک فرضی ہےـ مسلمانوں کا پلڑا بھاری تھا، فیصلہ آیا، جہاں سب کچھ فرضی تھا ، وہ جیت گئے، کہا گیا کہ عقیدے کی بنا پر فیصلہ سنایا گیا ہےـ یہ بھی کہا گیا کہ ایسا نہ ہوتا تو ملک میں فرقہ وارانہ فسادات شروع ہو جاتے ـ عقیدہ ہندوؤں کے پاس تھا،عقیدہ مسلمانوں کے پاس نہیں تھا . دو انصاف دو قانون کی جو واہیات شکل عدلیہ نے پیش کی ، اس کی نظیر ساری دنیا میں نہیں ملے گی،اس وقت بھی یہ سوال پیدا ہوا کہ پھر سیدھے سیدھے فیصلہ دے دیتے ، چالیس دن تک سنوائی کی کیا ضرورت تھی ـ
بابری مسجد کے مجرم بری ہو گئے . تمام شواہد آج بھی سرچ کرنے پر مل جائیں گے . جوشی کے کندھے پر سوار اوما بھارتی، دہشت گردکدال پھاوڑوں کے ساتھ اینٹ سے اینٹ بجاتے ہوئے لاکھوں کا مجمع اور اس سے قبل دہشت اور وحشت کا رتھ ، جو جمہوریت کی سڑکوں کو روندتے ہوئے بڑھا ، اور اس وقت رتھ کے مہارتھی اڈوانی کو کہاں علم تھا کہ وقت نے انھیں ایک ایسے بلیک ہول میں پھیکنے کی تیاری کر لی ہے کہ ان کی باقی زندگی ان کے لئے بوجھ بن جائے گی . فیصلہ ٢٨ برس بعد آیا . فیصلہ سنانے والا جج اسی دن ریٹائر ہونے والا تھا، اس نے اخبار نہیں دیکھاتھا،ٹی وی پر دہشت گردوں کے حملے نہیں دیکھ تھے،اس نے کہا ، دھول اڑ رہی تھی اور کسی کا چہرہ واضح نہیں تھا،صرف اتنا بتانے میں ٢٨ برس لگ گئےـ
ہاتھرس ، بلرام پور – ھاتھرس میں یوگی کی پولیس رات تین بجے منیشا کے جسم پر پیٹرول ڈال کر آگ لگا دیتی ہےـ منیشا کا ریپ اور قتل کرنے والوں کی حمایت کرتی ہے . بڑی ذات کے ہندو لاکھوں کی تعداد میں جمع ہو کر عصمت دری کرنے والوں کی حمایت کرتے ہیں ـ پیٹرول ڈال کر آگ لگانے والے نر بھکشی کو موت کی سزا کیوں نہ دی جائے ؟ آر ایس ایس نے اس جاہل ڈھونگی کو وزیر ا علی کی کرسی دیتے ہوئے یہ ضرور غور کیا ہوگا کہ اسی جاہل شخص نے اپنی تقریر میں مسلمان عورتوں کو قبر سے نکال کر بلاتکار کرنے کو کہا تھا، جو مسلمانوں کو قبرستان بھیجے وہ وزیر ا علیٰ،جو قبر سے نکال کر ریپ کرنے کو کہے ، اسے ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست تحفے میں دی جائے، میڈیا نے آواز بلند کی،مگر مجھے اس میڈیا پر بھروسہ نہیں ہے،جب میڈیا کو مزید قاروں کے خزانے کی تلاش ہوتی ہے تو اس کی آواز بدل جاتی ہے . ایک زمانہ تھا ، جب ارنب گو سوامی بھی فسطائی طاقتوں کے خلاف چیختے تھے .قیمت مل گئی تو فسطائی طاقتوں کے لئے چیخنے لگے .کردار بدل گیا . اسی فیصد کانگریسی این ڈی اے کا حصّہ بنے،کردار بدل گیا . ملک غارت ہوا .کوئی آواز نہیں .ملک تباہ ہوا .کوئی آواز نہیں، کروڑوں کے روزگار گئے ، کوئی آواز نہیں ـ کسانوں کو کمزور کرنے کے لئے قانون آیا ، کوئی آواز نہیں،مسلمان سڑکوں ، شاہراہوں ، گلیوں میں مارے جاتے رہے اور میڈیا کے آتشی بیانات انھیں ہلاک کرنے کے لئے مخالفت کی صدا بلند کرتے رہے . اس میڈیا پر بھروسہ نہیں ـ
ایک برس قبل ٹائم میگزین رپورٹ کے حوالے سے ایک مختصر جائزہ پیش کیا گیا تھا . جائزے میں مودی کو ، ملک کو تقسیم کرنے والا قرار دیا گیا . ایک دنیا ہماری سیاست پر نظر رکھ رہی ہے . کیا حقیقت میں تقسیم کے راستے کھل گئے ہیں ؟
فسطائی طاقتیں انسانی نفسیات کا مطالعہ رکھتی ہیں۔ ہٹلر کے پاس بھی فدایین تھے –جو اسکے اشاروں پر ایک لمحے میں جان دے دیا کرتے تھے — ملک کے موجودہ حالات مسلمانوں کے لئے بد تر ہوئے جا رہے ہیں ـ حکومت یہ سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے کہ مسلمانوں کو زیر کرنے کے لئے کیا کیا تدبیریں کی جا سکتی ہیں .ہم مسلسل شکست سے دوچار ہوتے رہے . تمام فیصلے ہمارے خلاف ،انصاف دو حصّوں میں تقسیم،حکومت کے پاس مسلمانوں کو زیر کرنے کے لئے ایک لمبی فہرست ہے ـ پھر ایک کے بعد دوسرا نشانہ لگنا شروع ہو جاتا ہے-حکومت کی فسطائی منطق کے سامنے آپ بے بس اور مجبور ہیں۔ممکن ہےکہا جائے لاوڈ اسپیکر پر اذان نہ دیں،محلے میں ایک مسجد کی جگہ تین مسجدیں کیوں ؟ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی آپکو زیر کیا جائے گا .یاد کیجئے حکومت بننے کے ساتھ ہی راج ناتھ سنگھ نے پہلا بیان ملک کے سیکولر اور لبرل کردار پر دیا تھا .در اصل فسطائی طاقتوں کو ان دو لفظوں سے ڈر محسوس ہوتا ہے — فسطائی طاقتیں پوری شدّت اور منصوبوں کے ساتھ مذہب ،مشترکہ وراثت پر حملہ کر رہی ہیں . کیا یہ تقسیم کی شروعات نہیں ہے ؟ ہماری ملت اور گنگا جمنی تہذیب کو چند برسوں میں کچلنے کی سازش ہوئی ہے ۔ تصویر کا ایک رخ یہ ہے کہ ایسے مواقع پر پر جوش و خروش کا مظاہرہ کیا جاتا تھا ۔لیکن نئی فسطائی تھذیب نے آپس کی دوستی کو مضبوط کرنے کا خوبصورت بہانہ بھی ہم سے چھین لیا ہے۔پرب تیوہار کے موقع پر سب سے بڑا خطرہ فرقہ وارانہ فساد کا ہوتا ہے ۔ایک مخصوص نظریہ کے لوگوں نے ملت ،اخوت بھائی چارگی کے درمیان زبردست دیوار حائل کر دی ہے .پچھلے کچھ برسوں میں ہم لگاتار ایسے موقعوں پر حادثوں سے دوچار ہوتے رہے ہیں دو برس 26 جنوری کے موقع پر کاس گنج میں ،ہم دیکھ چکے ہیں کہ قومی پرچم لہرانے کے جذبے کو بھی کس طرح ایک مخصوص نظریہ کے لوگوں نے کچلنے کی کوشش کی۔ہماری حب الوطنی بھی ان لوگوں کو منظور نہیں ۔ کاس گنج کے معصوم مسلمانوں نے اپنے دل کی آواز سنی اور پرچم لہرانے کی کوشش کی تو بھگوا بریگیڈیر نے نہ صرف انکے معصوم جذبوں کو ٹھیس پہچایی بلکہ جب صورت حال نازک ہوئی تو حب الوطن مسلمانوں پر پولیس نے گرفتاری کے بعد غداری کی دفعہ بھی لگادی اور سیکو لرزم کے صدیوں پرانے لباس کو تار تار کر دیا۔. ہندوستان آھستہ آھستہ تقسیم کی طرف جاتا ہوا نظر آ رہا ہے . زیادہ تر مخالف بیانات کا پس منظر یہ ہے ،کہ دنگے بھڑکے نفرت کا پر تشدد ماحول پیدا ہوا۔ملک کے حالات خراب ہوئے۔ ملک کے مختلف حصّوں میں آگ لگی۔انسانیت داغدارہوئی — سامانوں کو نقصان پہچا۔. ایسے اشتعال انگیز بیانات سامنے اہے جنہونے گووند پانسرے ،بھولکر ،کلبرگی ، پہلو خان ،اخلاق کو مارنے میں نمایاں کردار ادا کیا .یہ وحشت اور دہشت کو زندہ کرنے والے ملک مخالف بیانات تھے جنہوں نے گاو رکشکوں کے متعدد مشتعل ہجوم کو پیدا کیا .انکے تشدد کے واقعات سڑکوں پر آج بھی عام ہیں ـ پاکستان اور قبرستان بھیجو جیسے نعرے دینے والے ،قانون اور آئین کی شق سے کس دائرے میں آتے ہیں ؟۔کیونکہ ایسے ہر اشتعال انگیز بیان کے بعد فسادات ،انسانوں کی ہلاکت ،جان و مال کے نقصان جیسی خبریں سامنے آی ہیں ۔اس مکمل جایزے پر آئیے تو بیشتر نیوز چینل اور میڈیا ہندوستانی جمہوریت کا مذاق اڑاتا ہوا نظر آتا ہے .۔۔ان میں سے زیادہ تر چینلوں نے مخالف آگ بھڑکا کر انسانی جانوں کا زیاں کیا ہے۔اور آج بھی کر رہے ہیں . ترسیل اور ابلاغ پر حکومت کا دباو قایم . ہے . اخبارات اور ٹی وی چنیلز سے اعتماد اٹھ چکا ہے ۔ الیکشن کمیشن اور عدالتیں بھی شک کے دائرے میں ہیں . متھھی بھر سیکولر لوگوں کی بے چینی بتاتی ہے کہ ملک کہاں جا رہا ہے ۔یہ میرا انڈیا نہیں ہے . ایک مخصوص نظریہ کی پارٹی نے شہہ اور مات کاایسا کھیل شروع کیا ہے ، جس کے صفحات عالمی سیاست کے لئے بھی نئے ہیں۔
حکومت کے تمام سیاسی مہرے پٹ چکے ہیں . ہر طرح کی ناکامیاں سامنے ہیں . پھر بھی سیاست کے ان گلیاروں میں جشن ہے . کیونکہ زعفرانی بندر ان کے ساتھ ہیں . تازہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے کیا ملک ایک بڑے انقلاب کے لئے تیار ہے ؟ ایسا لگتا نہیں ہے . انتخابات میں شکست و فتح کے کھیل کا کویی مطلب نہیں رہ گیا . این ڈی اے شکست خانے کے بعد مہرے خرید کر حکومت بنا لیتی ہے . یہ کوئی اور ملک ہے ـ یہ میرا ملک نہیں ہے ـ
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
سیر و سوانح کی قدیم کتاب ‘وفیات الاعیان’ سے تمام اہل علم واقف ہوں گے ، جو علامہ ابن خلکان ( 608ھ/1211ء _ 681ھ/ 1282) کی تصنیف ہےـ اس کا پورا نام ‘وفیات الاعیان و انباء ابناء الزمان’ ہے _ اس کتاب میں مؤلف نے اپنے عہد تک کی نام ور شخصیات کا جامع تذکرہ جمع کردیا ہے ۔ اس موضوع پر عربی زبان میں بہت کتابیں ہیں اور اردو زبان بھی خوب مالامال ہے کہ اس میں مختلف علوم و فنون کی نمایاں شخصیات کی سوانح اور تذکروں پر بہت کتابیں لکھی گئی ہیں ـ اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے برادر محترم و مکرم حکیم وسیم احمد اعظمی کو ، جنھوں نے اطبائے ہند و پاک کے حالاتِ زندگی جمع کرنے کا ایک بڑا پروجکٹ شروع کیا ہےـ بجا طور پر اسے طب کی ‘وفیات الاعیان’ کہا جاسکتا ہےـ
طبی دنیا حکیم اعظمی کی علمی و طبی خدمات سے خوب واقف ہے ـ طبی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والا کوئی شخص اگر ان سے ناواقفیت کا اظہار کرے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے دورانِ طالب علمی کتابوں سے کوئی واسطہ نہیں رہا ہےـ اس لیے کہ طبی نصاب کے بیش تر موضوعات پر ان کی کتابیں موجود ہیں ، مثلاً امراضِ نسواں ، امراضِ اطفال ، امراضِ اذن و انف و حلق ، کلیاتِ ادویہ ، علم الصیدلہ ، تحفظی و سماجی طب اور معالجات (4 جلدیں) ـ انھوں نے غیر نصابی موضوعات پر بھی خوب لکھا ہےـ
بیت الحکمت کی طبی خدمات ، محمد بن زکریا رازی ـ احوال و آثار ، اردو طبی رسائل و جرائدـ بر صغیر ہند و پاک میں اور مطالعہ مخطوطات _ طب یونانی کے خصوصی حوالہ سے ان کی چند اہم تصانیف ہیں ـ
وسیم صاحب مرکزی کونسل برائے تحقیقات طب یونانی (CCRUM ) کے لٹریری شعبہ سے وابستہ تھےـ انھوں نے متعدد مخطوطات کی ایڈیٹنگ میں حصہ لیا ہےـ اس کے علاوہ عرصہ تک کونسل کے ترجمان سہ ماہی ‘جہانِ طب’ کی ادارت بھی کرتے رہے ہیں _ ابھی چند برس قبل وہ وظیفہ یاب ہوئے ہیں ـ اس کے بعد بھی ان کی علمی و تحقیقی سرگرمیاں زوروں پر ہیں ـ طبیبوں میں ان کا امتیاز یہ ہے کہ وہ تنقیدی ذوق اور مزاج رکھتے ہیں ـ انھوں نے اپنی تحریروں میں تحقیق کا اعلیٰ معیار پیش کیا ہےـ وہ مصنفین کی اغلاط کی نشان دہی میں ذرا بھی رو رعایت نہیں کرتے ، چاہے وہ کوئی بھی ہوں ـ
زیر نظر کتاب ‘وفیات اطبائے ہند و پاک’ طبی سوانحی لٹریچر میں ایک قیمتی اضافہ ہےـ اطباء کے تذکروں پر اردو میں بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں ـ اِس کتاب کے پیش لفظ میں ان کی فہرست پیش کی گئی ہےـ ان سب کا مواد اس کتاب میں شامل کرنے کی کوشش کی گئی ہےـ خاص بات یہ ہے کہ اس میں حوالوں کا اہتمام کیا گیا ہےـ ہر شخصیت کا تذکرہ کرنے کے بعد ان مصادر و مراجع کی فہرست پیش کی گئی ہے جن سے مواد لیا گیا ہےـ اسے الف بائی ترتیب پر مرتّب کیا گیا ہےـ اس کتاب کو جلد اول کی حیثیت حاصل ہے ، اس لیے کہ اس میں صرف ان اطباء کا تذکرہ ہے جن کا نام الف سے شروع ہوتا ہےـ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کتاب کئی جلدوں پر مشتمل ہوگی ـ
اس کتاب کو اصلاحی ہیلتھ کیئر فاؤنڈیشن نئی دہلی نے 2019 میں شائع کیا ہے _ لاک ڈاؤن (اواخرِ مارچ 2020) شروع ہونے سے کچھ دنوں قبل راقم سطور کو یہ مصنف سے ملی تھی ـ افسوس اور معذرت کہ ذہن سے اوجھل ہوجانے کی وجہ سے اس کا تعارف کرانے میں تاخیر ہوگئی ـ
ہاتھرس سانحے پر مولانا محمود مدنی کا ردِ عمل:اترپردیش سرکار کی ترجیحات الگ ہیں،اسے لا اینڈ آرڈر سے کوئی دل چسپی نہیں
نئی دہلی:اترپردیش کے ہاتھر س میں دلت خاتون کے ساتھ مبینہ طور سے کی گئی عصمت دری اور وحشیانہ سلوک پر افسوس اور دکھ کا اظہار کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے سرکار اور پولس ا نتظامیہ کے کردار پر سوال اٹھا یا ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ اترپردیش سرکار کی ترجیحات الگ ہیں، اسے ریاست میں بنیادی مسائل، عوامی ضروریات اور لاء اینڈآرڈر سے دل چسپی نہیں ہے۔جس کی وجہ سے سماج دشمن عناصر آزادگھوم رہے ہیں اور وہ قانون کی پکڑ سے خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ ہاتھرس میں جو کچھ بھی ہوا، اس کی مذمت کے بقدر ہمارے پاس کوئی لفظ نہیں ہے اور اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اہل خانہ کی مرضی اور اجازت کے بغیر پولس نے متاثرہ کی لاش کو خود سپرد آتش کردیا، اس سے زیادہ خاندان کے لیے اذیت کی بات کچھ اور نہیں ہو سکتی،یہ انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی ہے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ اترپردیش میں ایسے واقعات مسلسل ہورہے ہیں جو ایک مہذب سماج کے لیے بدنما داغ ہیں۔ یہ واقعات ریاست میں لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال پر بھی سوال کھڑا کرتے ہیں۔ کمزورطبقات، اقلیتوں اور خواتین کے حقوق کی حفاظت کے لیے علیحدہ قوانین موجود ہیں، لیکن یہ اسی وقت موثر ہوسکتے ہیں جب کہ قانون کے رکھوالے اسے ایمانداری سے نافذ کریں۔مذکورہ معاملے میں یوپی پولس نے شروع میں اسے ہلکا معاملہ بنا کر پیش کیا اور کہتی رہی کہ گاؤں والوں کی آپسی لڑائی ہے، اور اس نے ایسی حالت کے باوجود پانچ دن تک اس کی ایف آئی آر تک درج کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی، اس لیے ایسے پولس افسران پر سخت کارروائی کی جائے جو دلت اور غریب خاندان کا معاملہ دیکھ کر یا طاقتوروں سے ہاتھ ملا کر اس معاملہ کو دبانے میں ملوث پائے جائیں۔
مولانا مدنی نے کہا کہ متاثرہ کو انصاف دلانے کے لیے فاسٹ ٹریک کورٹ میں مقدمہ چلایا جائے اور مجرموں کو کیفرکردار تک جلد پہنچا کراسے نشان عبرت بنایا جائے۔
قومی اردو کونسل کے ڈائریکٹر شیخ عقیل احمد کا سابق وزیرِ اعظم کے یومِ پیدایش پر خراجِ عقیدت
نئی دہلی:لال بہادر شاستری اُن عظیم ہندوستانیوں میں سے ایک تھے جنہوں نے ہماری سماجی زندگی پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ ہماری عوامی زندگی میں شری لال بہادر شاستری کی شراکت انفرادیت کی حامل تھی کہ وہ عام ہندوستانیوں کی زندگی کے قریب تر تھے۔ ان کی بے مثال سادگی و انکساری کی وجہ سے ہندوستانی عوام انھیں اپنے ہی جیسا سمجھتے تھے۔یہ باتیں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ڈائریکٹر شیخ عقیل احمد نے سابق وزیر اعظم لال بہادر شاستری کو ان کے یوم پیدایش پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہیں۔انھوں نے کہا کہ لال بہادر شاستری کا یہ ماننا تھا کہ ایک مضبوط اور طاقتور قوم کی تشکیل کے لئے خود کفیل ہونا لازم ہے اور اسی وجہ سے انھوں نے جدید ہندوستانی معیشت کے استحکام پر خاص توجہ دی۔ شاستری جی نے اہم اقتصادی پالیسیاں تیار کیں جن سے ہندوستان کے معاشی حالات کو بہتر بنانے میں خاصی مدد ملی۔ڈاکٹر عقیل نے کہا کہ لال بہادر شاستری کا نعرہ ‘جے جوان، جے کسان’ آج بھی ملک کے طُول و عرض میں مقبول ہے، جس کی بنیادی روح اپنے وطن اور قوم کی تعمیر و ترقی کے جذبے سے عبارت ہے۔ انھوں نے ایک طرف جہاں ہندوستانی فوج کی حوصلہ افزائی کی اور اس کے نتیجے میں 1965کی جنگ میں ہندوستان نے کامیابی حاصل کی وہیں ملک کو غذائی اجناس فراہم کرنے والے کسانوں کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا اور ان کی ہمت بڑھائی، چنانچہ دیش بھر میں سبز انقلاب برپا ہوگیا اور غذائی اَجناس کی پیداوار میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ شیخ عقیل نے کہا کہ مودی جی کی حکومت بھی انہی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے دونوں محاذوں پر قابلِ قدر کام کررہی ہے اور جہاں اِس حکومت میں ہندوستانی فوج کے وقار میں اضافہ ہوا ہے وہیں کسانوں کی ترقی و خوشحالی کے لیے بھی اس حکومت نے اہم اقدامات کیے ہیں۔حال ہی میں حکومت نے زرعی اصلاحات سے متعلق جو بل منظور کیے ہیں ان سے کسانوں کو غیر معمولی فائدہ ہوگااور نہ صرف زرعی شعبے میں ایک انقلاب آئے گا، بلکہ اس سے کروڑوں کسانوں کو بااختیاربھی بنایا جاسکے گا۔
راہل اورپرینکاگاندھی کوہاتھرس جانے نہیں دیاگیا،گرفتاری اوردھکامکی کاالزام،دہلی واپس لوٹے
لکھنؤ:کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی اورپارٹی کی جنرل سکریٹری پرینکاگاندھی واڈراکوجمعرات کے روز پولیس نے گینگ ریپ کا نشانہ بننے والی لڑکی کے اہل خانہ سے ملنے کے لیے ہاتھرس جانے سے روک دیا ۔دھکامکی کے نتیجے میں راہل گاندھی گرگئے ۔اس درمیان ان دونوں کی گرفتاریوں کی خبربھی آئی ۔اب وہ دونوں دہلی واپس ہوگئے ہیں۔ریاست میں ان دونوں کو روکا گیاانھوں نے جنگل راج کاالزام لگاتے ہوئے پولیس پر لاٹھیاں چلانے کا الزام لگایاہے اورکہاہے کہ مغرور حکومت کی لاٹھیاں ہمیں نہیں روک سکتی ہیں۔ادھر پارٹی نے کچھ تصاویر جاری کی ہیں جن میں یہ دعویٰ کیاگیا ہے کہ اتر پردیش پولیس نے راہل گاندھی کو روکنے کے لیے ان کے ساتھ زیادتی کی جس کی وجہ سے وہ زمین پر گر پڑے۔کانگریس ذرائع کے مطابق، دونوں لیڈروں کے قافلوں کو گریٹر نوئیڈا پولیس نے روکا تھا۔ اس کے بعد وہ پیدل ہی ہاتھرس کے لیے روانہ ہوئے۔تھوڑی دور کے بعد پولیس نے انہیں دوبارہ روک لیا۔کانگریس نے ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں پارٹی کے سابق صدر پولیس سے پوچھتے دکھائی دیتے ہیں کہ انہیں کس سیکشن کے تحت گرفتار کیا جارہا ہے۔پولیس کے روکنے کے بعد راہل گاندھی نے الزام لگایا کہ ریاست میں جنگل راج کی یہ حالت ہے کہ متاثرہ خاندان سے ملنابھی حکومت کو خوفزدہ کرتا ہے۔انھو ں نے کہاہے کہ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ، پیاروں کو غم کی گھڑی میں تنہا نہیں چھوڑا جاتا ہے۔اترپردیش میں جنگل راج کا عالم یہ ہے کہ کنبہ سے ملنے سے حکومت کو خوف آتا ہے۔ اتنا خوفزدہ نہ ہوں ، چیف منسٹر!‘‘پرینکاگاندھی نے الزام لگایاہے کہ پولیس نے ان کو اور راہل گاندھی کو ہاتھرس جانے سے روکنے کے لیے لاٹھیوں کااستعمال کیا ، لیکن مغرور حکومت کی لاٹھی سے انہیں روک نہیں سکتی۔انہوں نے ٹویٹ کیاہے کہ ہمیں ہاتھرس جانے سے روک دیاگیاہے۔جب ہم سب راہل گاندھی کے ساتھ پیدل نکلے تو ہمیں بار بار روکاگیا ، وحشیانہ انداز میں لاٹھی استعمال کی گئی۔
تھانے:جمعرات کو مہاراشٹرا کے وزیراعلیٰ اودھوٹھاکرے نے کہا کہ ریاست میں ہاتھرس گینگ ریپ جیسے واقعات کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور جو خواتین کے خلاف جرائم میں ملوث ہیں ان کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔ اترپردیش میں ہاتھرس کی ایک 20 سالہ دلت لڑکی کو 14 ستمبر کو چار افراد نے زیادتی کا نشانہ بنایا اور منگل کو اس کی موت ہوگئی۔ اس بارے میں ملک بھر میں غم و غصہ پایا جارہا ہے۔ ٹھاکرے نے یہ ریمارکس پولیس کمشنریٹ آن لائن کا افتتاح کرتے ہوئے دیے۔ انہوں نے کہاہے کہ وہ جب اترپردیش میں اس طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں ، تو ہم عام طور پر اس پر کچھ دیرکے لیے تبادلہ خیال کرتے ہیں اور پھر اسے بھول جاتے ہیں ، لیکن مہاراشٹر میں اس طرح کے واقعات کی اجازت نہیں ہوگی۔ خواتین کے خلاف ہر طرح کے جرم کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔
لکھنؤ:بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی)کی سربراہ مایاوتی نے اتر پردیش کے نظم ونسق پرسخت حملہ کیا ہے اورمرکزی حکومت سے ریاست میں قیادت تبدیل کرنے یا صدرراج کامطالبہ کیا ہے۔ریاستی حکومت نے یہ کہتے ہوئے جوابی حملہ کیاہے کہ مایاوتی کے دورمیں یوپی میں ایک ہزار سے زیادہ دلت مارے گئے تھے اور آج وہ حکومت پر انگلی اٹھا رہی ہیں۔ مایاوتی نے آج صحافیوں کوبتایا کہ خواتین کے خلاف جرائم کے پیش نظرجوماحول پیداہواہے ، مرکزی حکومت کویوگی آدتیہ ناتھ کی جگہ ریاست میں ایک قابل شخص کو وزیر اعلی بنانا چاہیے اوراگریہ ممکن نہیں ہے تو صدرراج نافذکیاجائے۔ بی ایس پی سپریمونے یوپی کے ہاتھرس اور بلرام پور میں مبینہ اجتماعی زیادتی کے بعد دو نوجوان خواتین کی ہلاکتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ واقعات دہلی میں نربھیاواقعے کی یاد دلانے والے ہیں۔ مایاوتی نے کہا کہ میں یوگی آدتیہ ناتھ سے یہ کہناچاہتی ہوں کہ آپ عورت کے رحم سے پیدا ہوئے ہیں اور آپ کو دوسروں کی بہن بیٹیوں کو بھی اپنی بہن بیٹی سمجھناچاہیے اوراگرآپ ان کی حفاظت کرنے سے قاصر ہیں توآپ کوخود استعفیٰ دے دیناچاہیے
اکثریت پرستوں کے سامنے ہندوستانی عدلیہ کی سپر اندازی (اداریہ ٹائمس آف انڈیا)
ترجمہ:نایاب حسن
لکھنؤ میں سی بی آئی کی ایک خصوصی عدالت نے 28 سالہ بابری مسجد انہدام کیس کے تمام 32 ملزموں کو ثبوت کی کمی کا حوالہ دیتے ہوئے بری کردیا ہے۔ فیصلے کے مطابق عدالت کو یہ پتا چلا کہ مسجد کا انہدام پہلے سے منصوبہ بند نہیں تھا ، سی بی آئی کے ذریعے فراہم کردہ آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگ کی صداقت ثابت نہیں ہوسکی اور فائنل تجزیے کے مطابق سماج دشمن عناصر نے اس ڈھانچے کو منہدم کیا اور نامزد ملزموں نے انہدامی عمل میں شرکت کی بجاے انھیں روکنے کی کوشش کی۔
اس کے ساتھ ہی ایل کے اڈوانی ، مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی جیسے بی جے پی کے سینئر قائدین بری ہوگئے؛ لیکن اس فیصلے سے کچھ سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ بابری مسجد کا انہدام ہندوستانی جمہوریت کے لئے ایک تاریک دن تھا اور یہ نیوز کیمروں کے سامنے ہواتھا۔ سپریم کورٹ نے اسے ایک ایسا جرم مانا، جس نے ہندوستانی سیکولرزم کو ہلاکر رکھ دیا تھا،مگر اب یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بھارتی جمہوریت ، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عدالتی نظام سفاک اکثریت پرستی کے سامنے ڈھیر ہوتے جارہے ہیں اور یہ ملک میں قانون کی حکمرانی نافذ کرنے کے قابل نہیں رہے۔ اگر مسجد کے انہدام اور اس کے بعد ہونے والے فسادات کو محض بڑے پیمانے پر جذبات کے اُبال کے نتیجے کے طورپر دیکھا جائے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اس طرح کے جذبات آیندہ نہیں بھڑکیں گے اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے غیظ و غضب کی شکار کوئی دوسری اقلیت نہیں بنے گی؟ کیا پھر ہجوم کی حکمرانی ،انارکی اور تشدد ہی مستقبل میں ہندوستان کا مقدر ہوگا؟
یہ خاص طور پرقابلِ ذکر اس لیے ہے کہ ہندوستانی قانونی نظام ہجومی تشدد کے خلاف جامع و ہمہ گیر مقدمہ چلانے میں بارہا ناکام رہا ہے،جس کی وجہ سے سزا سے بچ نکلنے کا کلچر پیدا ہوا اور اسی کے نتیجے میں فسادات رونما ہوتے رہتے ہیں؛حالاں کہ بروقت پولیس مداخلت اور فسادیوں پر سخت قانونی کارروائی کے ذریعے اس طرح کے تشدد کو آسانی سے دبایا جاسکتا ہے۔ مگر سیاسی آقاؤں کے خوف سے سسٹم بھی کماحقہ کام نہیں کررہا اور حالات روز بروز ناگفتہ بہ ہوتے جاتے ہیں۔اب بابری مسجد انہدام پر تازہ فیصلے نے ایک بار پھر ہندوستان کے عدالتی-پولیس نظام کی خود احتسابی کی شدید ضرورت کو واضح کیا ہے،مگر کیا ایسا ہوگا؟
ہاتھرس کیس:وزیر اعظم مودی نے کی وزیر اعلیٰ سے بات،یوگی نے ایس آئی ٹی تشکیل دی
لکھنؤ:وزیر اعظم نریندر مودی نے ہاتھرس میں ایک دلت بچی کی مبینہ اجتماعی عصمت دری اور کی ہلاکت کے سلسلے میں بدھ کے روز وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ سے بات کی اور مجرموں کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت کی۔ وزیر اعلی کے دفتر نے یہ اطلاع دی ہے۔ادھر وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے اس معاملے میں تین رکنی خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دی ہے۔ ایس آئی ٹی کو سات دن میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ انہوں نے کیس کی سماعت فاسٹ ٹریک عدالت میں کرنے کی ہدایت بھی دی ہے۔ چیف منسٹر آفس نے ٹویٹ کیا کہ وزیر اعظم نے ہاتھرس کیس میں وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ سے بات کی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے ہاتھرس کے واقعے پر بات کی ہے اور کہا ہے کہ مجرموں کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہئے۔ اس سے قبل مبینہ طور پر اجتماعی عصمت دری اور مقتولہ کی موت کے معاملے میں وزیر اعلی یوگی نے یوپی حکومت کے ہوم سکریٹری بھگوان سوروپ کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا حکم دیا۔ ایس آئی ٹی سات دن میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔وزیراعلیٰ نے کیس کے ملزمان کے خلاف فاسٹ ٹریک عدالت میں کارروائی کرنے کی ہدایت دی ہے۔
عدالت کاسول سروس امتحانات 2020 ملتوی کرنے سے انکار،4اکتوبر کو ہوں گے امتحانات
نئی دہلی:سپریم کورٹ نے بدھ کے روز ملک کی متعدد ریاستوں میں کورونا وائرس اور سیلاب کی صورتحال کے پیش نظر 4 اکتوبر کو ہونے والے یونین پبلک سروس کمیشن کےابتدائی امتحان 2020 کو ملتوی کرنے سے انکار کردیا۔جسٹس اے ایم کھانویلکر، جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس کرشنا مراری کے بنچ نے مرکز سے کہا کہ وہ امیدواروں کو موقع فراہم کرنے پر غور کریں جو کورونا کی وبا کی وجہ سے اپنی آخری کوشش میں شامل نہیں ہوسکیں گے۔بینچ نے سول سروس کے 2020 کے امتحان کو 2021 کے ساتھ ملا کر منعقد کرنے پر غور کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔بینچ کورونا وائرس اور سیلاب کی صورتحال کی وجہ سے کمیشن سروسزابتدائی 2020 امتحان دو سے تین ماہ کے لئے ملتوی کرنے کی دائر درخواست کی سماعت کررہی تھی۔اس کی مخالفت کرتے ہوئے یونین پبلک سروس کمیشن نے کہا تھا کہ 4 اکتوبر کو امتحان کے انعقاد کے لئے تمام ضروری تیاری کرلی گئی ہے۔یو پی ایس سی نے بتایا کہ پہلے سے طے شدہ نظام الاوقات کے مطابق امتحان 31 مئی کو ہونا تھا، لیکن اس کے ملتوی ہونے کے بعد چار اکتوبر کے انعقاد کا فیصلہ کیا گیا ہے۔کمیشن نے واضح طور پر کہا تھا کہ یہ حکومت ہند کی بنیادی خدمات کے لئے ایک امتحان ہے اور اب اس کو ملتوی کرنا ناممکن ہے۔
نئی دہلی:بابری مسجد انہدام کیس میں سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے تمام 32 ملزمان کو بری کردیا ہے۔ جج ایس کے یادو نے کہا کہ متنازعہ ڈھانچے کو مسمار کرنے کی کوئی سازش نہیں کی گئی تھی۔ یہ واقعہ اچانک ہوا۔فیصلے کے بعد وزیر داخلہ امیت شاہ نے سابق نائب وزیر اعظم ایل کے اڈوانی سے فون پر بات چیت کی اور مبارکباد دی۔ اسی دوران بی جے پی صدر جے پی نڈا اور مرکزی وزیر قانون روی شنکر پرساد لال کرشن اڈوانی سے ملنے گئے ۔وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے کہاکہ میں بابری مسجد انہدام کیس میں ایل کے اڈوانی، کلیان سنگھ، ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی، اوماجی سمیت 32 افراد کے کسی بھی سازش میں شامل نہ ہونے کے لکھنؤ کی خصوصی عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ اس فیصلے سے ثابت ہوا ہے کہ دیر سے ہی سہی لیکن انصاف کی جیت ہوتی ہے۔ یوپی کے سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ نے کہاکہ سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم ہے۔
بہار الیکشن کی تاریخوں کا اعلان ہو چکا ہے ۔ اسی کے ساتھ سیاسی جماعتوں کی جوڑ توڑ تیز ہو گئی ہے ۔ سیٹوں کے بٹوارے اور ووٹ حاصل کرنے کی حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے ۔ انتخابی ہل چل کو دیکھ کر کورونا کے دوران انتخاب کیسے ہوگا، کیا تمام طرح کی احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں گی، بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے بیماری کو بڑھنے سے کیسے روکا جائے گا، الیکشن ڈیوٹی میں لگائے گئے اسٹاف کی حفاظت کا کیا انتظام ہو گا، اس پر کتنی رقم خرچ ہوگی اور کیا حکومت یہ بوجھ اٹھانے کی حالت میں ہے وغیرہ سوالات فطری طور پر ذہن میں آتے ہیں ۔ کئی ممالک نے اپنے یہاں ہونے والے انتخابات کو کورونا کی وجہ سے ٹال دیا ہے ۔ لیکن حکومت ہند نے بہار الیکشن کا اعلان کرکے یہ واضح کر دیا کہ اس کا سروکار عوام کے بجائے حصول اقتدار سے ہے ۔ تبھی تو ایسے وقت بہار میں الیکشن کی قواعد شروع کی گئی ہے جب ہر گھر کی چوکھٹ پر کورونا، بے روزگاری، سیلاب کا پانی جمع ہونے سے پیدا ہونے والی بیماریوں اور موت کی آہٹ دستک دے رہی ہیں ۔ پہلے مرحلے کی ووٹنگ بھی سیلاب زدہ علاقوں میں ہی کرانا طے ہوا ہے ۔ جہاں ابھی تک حالات معمول پر نہیں آ پائے ہیں ۔ سیلاب کی وجہ سے گھر چھوڑنے والوں کی نہ واپسی ہو پائی ہے اور نہ ہی ٹوٹی ہوئی سڑکوں کی مرمت ۔ متھلا کا یہ تاریخی علاقہ آج ہر لحاظ سے پسماندہ ہے ۔ یہاں نہ کوئی صنعت ہے نہ ذریعۂ معاش، نہ صحت کی سہولیات کا مناسب بندوبست ہے نہ تعلیم کا ۔ مگر الیکشن تو پھر بھی ہونا ہی ہے ۔
یہ الیکشن پہلے سے مختلف ہوگا، اس میں نہ لالو پرساد کے محاورے ہوں گے نہ نتیش کمار کا اپنا انداز بیان، نہ ریلیاں ہوں گی نہ عوامی جلسے جلوس ۔ مانجھی ہوں یا تیجسوی یادو، چراغ پاسوان، اوپیندر کشواہا ہوں یا کنہیا کمار ان کا روب دار بھاشن بھی نہیں ہوگا ۔ ڈور ٹو ڈور جا کر امیدوار سمیت پانچ لوگ ہی تشہیر کر سکتے ہیں ۔ البتہ ورچول ریلیوں کا دور شروع ہونے والا ہے ۔ جن کے ذریعہ پارٹیاں اپنے من کی بات ووٹروں تک پہنچائیں گی ۔ جگہ جگہ ٹیلی ویژن لگا کر خواب دیکھائے اور جملے اچھالے جائیں گے، ہو سکتا ہے نوٹ بھی بٹیں ۔ اس بہانے ہو سکتا ہے کئی گھروں میں دو جون کی روٹی آ جائے ۔ ہو سکتا ہے دیوالی سے پہلے جب چناؤ کے نتیجے آئیں تو کچھ کے لئے یہ بہت شاندار دیوالی ہو کیوں کہ یہ بہار ہے ۔ وہی بہار جس کے نوجوان، کسان اور عوام اقتدار بدلنے کی طاقت رکھتے تھے ۔ جس کا انوویشن، تحقیق اور دانشوری میں نام تھا ۔ جو تحریکوں کی جنی کہلاتا ہے ۔ جہاں الیکشن کے آخری گھنٹہ میں طے ہوتا تھا کہ کس کو جتانا یا کس کو ہرانا ہے ۔
بہار کی طاقت نہرو، اندرا سے لے کر لوہیا، جے پی اور وی پی سنگھ تک نے محسوس کی ۔ مگر اقتدار کی چاہ رکھنے والے سیاست دانوں نے بہار کو مہرے کی طرح استعمال کیا ۔ اس کے نتیجہ میں آج یہاں اندھیرا ہی اندھیرا ہے ۔ اس کی حالت جھارکھنڈ سے بھی زیادہ خراب ہے ۔ سینئر صحافی پونیہ پرسون باجپئ کی رپورٹ کے مطابق بہار میں دو کروڑ 73 لاکھ مزدور ہیں ۔ ان میں سے ایک کروڑ 95 لاکھ نے من ریگا کے تحت رجسٹریشن کرایا مگر جوب کارڈ ایک کروڑ 76 لاکھ کو جاری کیا گیا ۔ لیکن جنہیں کام دیا گیا ان کی تعداد صرف 65 لاکھ ہے ۔ یہاں رجسٹرڈ بے روزگار گریجویٹ کی تعداد 55 لاکھ ہے ۔ یہ وہی بہار ہے جہاں 15 لاکھ سے زیادہ کاروباری کنگال ہو چکے ہیں ۔ سات لاکھ سے زیادہ کسان ہیں جن کے پاس اپنی زمین ہے لیکن اس سے گزارے لائق آمدنی بھی نہیں ہوتی ۔ 40 لاکھ مہاجر مزدور جو کورونا کے دوران 16 یا 32 اضلاع میں لوٹے ان کے پاس آج بھی کام نہیں ہے ۔ انہیں زندگی جینے کے لئے جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے ۔ یہاں کا ہر دوسرا شخص بے روزگار ہے ۔ سیاست دانوں نے بہار کو اس حال میں لاکر کھڑا کر دیا ہے کہ دو جون کی روٹی کے لئے بھی نوجوان، کسان اور مزدور سڑکوں پر نہیں اتر پا رہے ہیں ۔ اس بہار میں الیکشن ہونے والا ہے اور آخری گھنٹہ کورونا متاثرین کے لئے ہے ۔ جنہیں نہیں معلوم کہ ووٹ دینے کے بعد وہ زندہ بھی رہیں گے یا نہیں ۔
ریاست کی زمینی حقیقت یہ ہے کہ ریونیو، جی ایس ٹی کا کلیکشن بھی کم ہے ۔ لوگ انکم ٹیکس دینے کی حالت میں نہیں ہیں ۔ انڈسٹریز، چھوٹی، منجھولی اور گھریلو صنعتوں کو فروغ دینے پر حکومت کی توجہ نہیں ہے ۔ اس لئے انڈسٹریز کا پروڈکشن اور ریاست کی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) نیچے چلی گئی ۔ آمدنی کے لحاظ سے زراعت بھی خراب حالت میں ہے ۔ اسی وجہ سے ترقی کی شرح میں گراوٹ درج کی جا رہی ہے ۔ تعلیم، صحت، روزگار، پینے کا صاف پانی، بجلی کی فراہمی، انفراسٹرکچر کو لے کر بھی اجالا دکھائی نہیں دیتا ۔ رہی سہی کسر ہر سال آنے والا سیلاب پوری کر دیتا ہے ۔ حالات یہ ہیں کہ بہار مزدور پیدا کرنے والی ریاست بن کر رہ گیا ہے ۔ اسی لئے بہار چھوڑ کر جانے والوں کی تعداد میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے ۔ 2011 کی مردم شماری میں ریاست چھوڑ کر جانے والوں کی تعداد ایک کروڑ 12 لاکھ بتائی گئی تھی ۔ ایک طرف عوام کے حالات دگر گوں ہیں وہیں دوسری طرف گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران ہوئے ہر انتخاب سے عوام کی مشکلوں اور سیاست سے جڑے لوگوں کی دولت میں اضافہ ہوا ۔ اے ڈی آر کی رپورٹ کے مطابق 2015 میں 160 ممبران اسمبلی کروڑ پتی تھے ۔ اس وقت 243 ممبران میں سے 222 کروڑ پتی اور ہر تیسرا ممبر کرمنل ہے ۔
موجودہ الیکشن کی بات کریں تو اسے کرانے کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا اعادہ کیا گیا ہے ۔ مثلاً ایک بوتھ پر پندرہ سو کی جگہ ایک ہزار ووٹ ڈالے جائیں گے ۔ ان کو کوور کرنے کے لئے زیادہ پولنگ بوتھ بنائے گئے ہیں ۔ وقت ایک گھنٹہ بڑھایا گیا ہے، اب صبح سات بجے سے شام چھ بجے تک ووٹ ڈالے جائیں گے ۔ پہلے پانچ بجے تک ووٹ ڈالے جاتے تھے ۔ چھ لاکھ پی پی ای کٹ، 46 لاکھ ماسک، چھ لاکھ فیس شیلڈ، 23 لاکھ گلبس، 47 لاکھ ہینڈ سینی ٹائزر کا انتظام کیا گیا ہے ۔ ہر بوتھ پر تھرمل اسکینر، صابن اور سینی ٹائزر موجود رہے گا ۔ بزرگوں سے ووٹ ڈلوانے کا الگ نظم کیا گیا ہے ۔ اس الیکشن کو کرانے کے لئے اتنی کثیر اضافی رقم خرچ ہونے والی ہے کہ اس سے بہار کے تمام ضلع اسپتالوں کی حالت سدھر سکتی تھی ۔ جو انتہائی خستہ حالت میں ہیں ۔ دربھنگہ ضلع اسپتال میں تو اسٹریچر تک دستیاب نہیں ہے ۔ نالندہ ضلع اسپتال کے وارڈ میں پانی گھسنے، پینے کا پانی موجود نہ ہونے کی بات اب کسی سے چھپی نہیں ہے ۔ بہار ہی وہ ریاست ہے جہاں 29 ہزار لوگوں پر ایک ڈاکٹر ہے جبکہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ایک ہزار افراد پر ایک ڈاکٹر ہونا چاہئے ۔ مگر برسراقتدار جماعت اور حکومت کی ترجیحات میں عوام نہیں ہے ۔ اسے الیکشن کرانا ہے، جیتنا ہے اور حکومت بنانی ہے ۔
بہار کے لوگوں سے پوچھئے تو اندازہ ہوگا کہ نتیش کمار ہار رہے ہیں، لیکن مینجمنٹ کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بی جے پی جیت رہی ہے ۔ نتیش کمار اس کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ کون جیتے گا اور کس کی حکومت بنے گی یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن اس بار کا الیکشن آسان نہیں ہے ۔ ایک طرف سوشاسن کی ہر سطح پر ناکامی کی وجہ سے عوام میں مایوسی ہے ۔ دوسری طرف تین نوجوان تیجسوی یادو، کنہیا کمار اور چراغ پاسوان انہیں چنوتی دے رہے ہیں ۔ تیسری طرف پپویادو کی سربراہی میں بنا پروگریسو ڈیموکریٹک الائنس اور سماجوادی جنتادل، ایم آئی ایم کا اتحاد بھی کئی علاقوں میں جے ڈی یو، بی جے پی کو ٹکر دیگا ۔ کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی بھی اس انتخاب میں زیادہ وقت دینے والے ہیں ۔ جانکاروں کا ماننا ہے کہ شاید اس بار کسی بھی پارٹی کو اکثریت نہ ملے ۔ اسی کے پیش نظر راجپوت ووٹوں کو اپنے پالے میں کرنے کے لئے سوشانت سنگھ خودکشی معاملہ کو طول دیا گیا ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سوشانت سنگھ کی موت کے ارد گرد ابھرا بہاری عزت کا مدا زیادہ کارگر رہے گا یا مہاجر مزدوروں، کووڈ -19 کے متاثرین اور سیلاب زدگان کی تکلیفوں کا بیورا ۔ اس الیکشن سے یہ بھی صاف ہو جائے گا کہ ووٹروں میں جنگل راج کی یادیں زیادہ گہری ہیں یا موجودہ حکومت سے امیدیں ٹوٹنے کی مایوسی ۔ دیکھتے جایئے کہ عوام کا فیصلہ آنے تک الیکشن کیا کیا رنگ دکھاتا ہے ۔ بہر حال عوام کے فیصلہ کا انتظار کیجئے کہ وہ کسے چنتی ہے پریشانیوں سے چھٹکارہ دلانے والوں کو یا نتیش کمار کو ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
پٹنہ:چراغ پاسوان کی وجہ سے این ڈی اے میں ہلچل مچی ہوئی ہے۔ ریاست میں ایک ماہ بعد اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ایسی صورتحال میں اب سیاسی جماعتیں اپنے اپنے اتحادیوں پرنظریں مرکوز کی ہوئی ہیں۔ لوک جن شکتی پارٹی کے سربراہ چراغ پاسوان،این ڈی اے کاحصہ،پارٹی کے مستقبل کے بارے میں جلدہی فیصلہ لے سکتے ہیں۔ نشستوں کے سلسلے میں ہلچل کے درمیان،پارٹی کے قومی جنرل سکریٹری نے کہا ہے کہ چراغ پارٹی کے چیف منسٹر کے امیدوار ہوں گے۔لوک جن شکتی پارٹی کے قومی جنرل سکریٹری شاہنواز احمدکے بیان سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ چراغ پارٹی سے وزیراعلیٰ کے امیدوار ہوں گے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے۔
جے پور:کانگریس زرعی قانون سازی کے حوالے سے جارحانہ موڈمیں ہے۔ راجستھان کے سابق نائب وزیراعلیٰ سچن پائلٹ نے زرعی قانون کے خلاف جے پور میں پریس کانفرنس کی ، جب کہ وزیراعلیٰ اشوک گہلوت اور ریاستی صدر گووند سنگھ ڈوٹاسار راج بھون گئے اور گورنر کلراج مشرا کو ایک میمورنڈم پیش کیا۔سچن پائلٹ نے کہا کہ کسان زرعی ایکٹ کی زد میں آگئے ہیں۔راجیہ سبھا میں جس طرح سے بل منظور ہوا وہ جمہوریت کا قتل ہے۔ جس طرح سے بل منظور کیا گیا ہے اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حکومت کے پاس اکثریت نہیں ہے۔ سچن پائلٹ نے کہاہے کہ نہ صرف کانگریس بلکہ این ڈی اے کے حلقے بھی زرعی قانون کی مخالفت کر رہے ہیں۔راجستھان کے قبائلی علاقوں میں تشدد کے بارے میں سچن پائلٹ نے کہاہے کہ تشدد کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ کوئی بھی حکومت امن و امان خراب ہونے کاخواہاں نہیں ہے۔ کچھ لوگوں نے اس تحریک کو مشتعل کرنے کے لیے کام کیا ہے۔ ہمارے قبائلی بھائی بہنیں تشدد پر یقین نہیں رکھتے۔ سچن پائلٹ نے کہاہے کہ جب کانگریس زرعی قانون کی مخالفت کر رہی ہے تو راجستھان میں اس کو کیسے لاگو کیا جاسکتا ہے۔ زراعت ریاست کا موضوع ہے ، لیکن کسی سے بات نہیں ہوئی۔اسی کے ساتھ ہی گورنر کلراج مشرا کو میمورنڈم پیش کرنے کے بعد ، سی ایم گہلوت نے ٹویٹ کیاہے کہ راجستھان ریاستی کانگریس کمیٹی نے نئے زرعی قوانین کو واپس لینے اور ترمیم کے لیے راجستھان گورنرکومیمورنڈم پیش کیاہے۔اس سے قبل اشوک گہلوت نے مودی سرکار پر حملہ کرتے ہوئے کہاتھاکہ ان فاشسٹوں کو جمہوریت پراعتمادنہیں ہے ، لہٰذا وہ ایسے کام کرتے رہتے ہیں جس سے لوگوں کی توجہ ہٹ جاتی ہے۔انھوں نے کہاہے کہ جس طرح سے یہ تینوں بل پارلیمنٹ میں منظور ہوئے وہ شرمناک ہے۔