مصنف : جاوید عبدالعزیز
صفحات : 124،قیمت :80روپے ،سن اشاعت : 2020
ناشر : قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ،نئی دہلی
مبصر : عبدالباری قاسمی
بیسویں صدی میں اردو غزل کو منفرد اسلوب اور آہنگ عطا کرنے والوں میں ایک اہم نام ڈاکٹر کلیم عاجز کا بھی ہے ،کلیم عاجز بنیادی طورپر غزل کے شاعر ہیں اور غزل کی وجہ سے ہی انہوںنے برصغیر میں ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر اپنی شناخت قائم کی اور یورپی ممالک کا بھی سفر کیا ،مگر انہوں نے اردو شاعری کے اکثر اصناف میں طبع آزمائی کی ہے ،خاص طور پر ان کی نظمیںبہت عمدہ ہیں ،بیسویں صدی میں میرکے لب ولہجہ اور انداز بیان کو زندہ کیا اس وجہ سے ان کو میر ثانی بھی کہا جاتا ہے ،کلام میں سوز و گداز اور رنج و غم ایسا ہے کہ کہیں کہیں عاجز کے غم کے سامنے میر کا غم پھیکا معلوم ہوتا ہے ،عاجز لفظیات کے انتخاب اور تشبیہات و استعارات کے استعمال میں ایسی مہارت رکھتے ہیں کہ ان کا اسلوب اور طرز بیان ایسا مختلف ہو جاتا ہے کہ اپنے تمام معاصرین میں سب سے ممتاز نظر آتے ہیں ۔
اسی طر ح نثر میں بھی ان کاجواب نہیں ہے سوانح نگاری ،خاکہ نگاری ،سفرنامہ نگاری اور مکتوب نگاری میں بھی انہوں نے الگ شناخت قائم کی اور ایسااسلوب اختیار کیا ہے کہ اگر وہ شاعری نہیں بھی کرتے تو ادبی دنیامیں ان کا تعارف کرانے اور انہیں زندہ و تابندہ رکھنے کے لیے ان کی نثر ہی کافی ہوتی ۔
زیر تبصرہ مونوگراف کلیم عاجز جاوید عبدالعزیز نے تحریر کیا ہے ،اس کی فہرست کی دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف کی نگاہ عاجز کی شخصیت اور فن کے ہر پہلو پر ہے اور بہت گہرائی سے کلیم عاجز کا مطالعہ کیا ہے ،اس لیے اس مونوگراف میں کلیم عاجز کے فکرو فن کے تمام گوشوں کا مختصر انداز میں تعارف کرانے کی کوشش کی ہے اور اس انداز سے مواد کو سمیٹا ہے کہ بلا جھجک ہم کہ سکتے ہیں کہ جاوید عبدالعزیز دریا کو کوزے میں سمونے
میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔
مذکورہ مونوگراف تین حصوں پر مشتمل ہے ،پہلے حصہ کا عنوان شخصیت اور سوانح ہے ،اس میں خاندانی ماحول،پس منظر ،تعلیم و تربیت اور حالات زندگی کو بیان کیا گیا ہے ،دوسرا حصہ ادبی و تخلیقی سفر کے نام سے معنون ہے ،اس میں ابتدا میں ان کا شعری اور تخلیقی پس منظر اور اسباب کو بیان کیا ہے اس کے بعد ان کی تصانیف اور شعری مجموعوں کا تعارف کرایا گیا ہے جن میں بطور خاص ’’وہ جو شاعری کا سبب ہوا ‘‘،’’جب فصل بہاراں آئی تھی‘‘ ،’’یہاں سے کعبہ اور کعبہ سے مدینہ (سفرنامہ حج‘‘،’’ ایک دیس اک بدیسی ‘‘،’’جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی ‘‘،’’ابھی سن لو مجھ سے ‘‘ ،’’دیوانے دو ‘‘ ،’’دفتر گم گشتہ ‘‘ ،’’کوچہ ٔ جاناں جاناں‘‘۔’’پہلو نہ دکھے گا ‘‘،’’میری زبان اور میرا قلم (جلد اول اور جلد دوم )‘‘ ،’’ پھر ایسا نظارہ نہیں ہوگا ‘‘ ،’’مجلس ادب ‘‘ اور ’’ ہاں چھیڑو غزل عاجز‘‘ شامل ہیں ۔
اس کے بعد اس حصہ کو دو زمروں میں تقسیم کیا ہے کلیم عاجز بحیثیت شاعر اور کلیم عاجز بحیثیت نثر نگار ،پہلے زمرے میںعاجز کی شاعری کا تعارف ،امتیازات ، خصوصیات اور موضوعات کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے کلام کے متعلق ان کے کیا خیالات ہیںاور دیگر ناقدین نے ان کے کلام پر کیا کیا تبصرے کیے ہیں مختصر انداز میں پیش کیا ہے جبکہ دوسرے میں نثرنگاری کا تعارف کراتے ہوئے سفرنامہ ،خاکہ، مکتوب نگاری اور تنقید نگاری وغیرہ کو بیان کیا ہے اور نثری اسلوب کا تعارف کرایا ہے اور بطور مثال متعدد کتابوں سے چند اقتباسات پیش کیے ہیں جس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ کس کتاب میں کلیم عاجز نے کس طرح کا اسلوب اختیار کیا ہے اور ان کے موضوعات کیا ہیں ۔مونوگراف کے تیسرے حصہ میں کلیم عاجز کے منتخب کلام کو پیش کیا گیا ہے ،اس میں کلیم عاجز کی منتخب غزلیں ،نظمیں ،نعت اور مرثیہ وغیرہ شامل ہیں ۔
یہ مونو گراف کلیم عاجز کی شخصیت اور فن کو سمجھنے کے لیے بہت ہی اہم ہے ،طباعت بھی بہت عمدہ ہے اور اس لحاظ سے قیمت بھی مناسب ،امید ہے کہ قارئین پسند کریں گے ۔
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان
مہاتما گاندھی بین الاقوامی یونیورسٹی وردھا میں شعبۂ اردو کو برقرار رکھنے اور مہاتما گاندھی سینٹرل یونیورسٹی موتیہاری میں شعبۂ اردو کے قیام کے سلسلے میں وائس چانسلرز کے نام کونسل کی جانب سے مکتوب روانہ
نئی دہلی: موجودہ حکومت نے نئی تعلیمی پالیسی میں کہیں بھی اردو کی مخالفت نہیں کی ہے اور نہ ہی بنیادی تعلیمی نظام سے اردو کو خارج کرنے کا کوئی ذکر ہے۔ ملک کو 34 برسوں بعد ایک جامع قومی تعلیمی پالیسی ملی ہے جس کا سبھی کو استقبال کرنا چاہیے۔ یہ باتیں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے نئی تعلیمی پالیسی پر اظہارخیال کرتے ہوئے کہیں۔ انھوں نے کہا کہ پالیسی میں یہ واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ آئین کے آٹھویں شیڈول میں درج سبھی زبانوں کے فروغ پر توجہ دی جائے گی اور اس مقصد سے اکیڈمیوں کا قیام کیا جائے گا، ساتھ ہی ان کی ترویج و ترقی کے سلسلے میں ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے۔ ملک کا آئین جب مادری زبان میں بنیادی تعلیم کی وکالت کرتا ہے تو پھرملک کی تعلیمی پالیسی میں اس کی خلاف ورزی کیسے ہوسکتی ہے؟اس پالیسی میں واضح طورپر یہ کہا گیا ہے کہ شروع سے پانچویں کلاس تک لازمی طورپر اور آٹھویں کلاس تک اختیاری طورپر ذریعۂ تعلیم مادری اور مقامی زبان ہوگی ،اس سے بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ جن طلبہ کی مادری زبان اردو ہے وہ اردو میں ہی تعلیم حاصل کرنے کے مجاز ہوں گے۔ اس پالیسی کے تحت ملک کی تمام زبانوں کے تحفظ اوران کی ترقی کے لیے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹرانسلیشن اینڈ انٹرپریٹیشن(آئی آئی ٹی آئی ) کے قیام کے ساتھ ساتھ پالی، فارسی اور پراکرت جیسی زبانوں کے فروغ کے لیے قومی سطح کے اداروں کی بھی تشکیل کی جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ یہ پالیسی اس لیے بھی بہتر ہے کہ اس میں فرسودہ نظام تعلیم کو ختم کر کے نئے انداز میں تعلیم دینے کی بات کی گئی ہے۔ طالب علموں کو بنیادی سطح پر ہی ووکیشنل تربیت دی جائے گی، انھیں کوڈنگ سکھائی جائے گی اور درجہ 6 سے ہی انٹرن شپ کا موقع فراہم کیا جائے گا۔ کتابی علم سے زیادہ خود سے کرنے اور سیکھنے پر توجہ دی جائے گی،آن لائن نظام تعلیم اور ورچوئل کلاسز کا سسٹم بہتر کیا جائے گا۔حکومت کا مقصد ہے کہ 2030تک ملک میں خواندگی کی شرح 100 فیصد تک پہنچائی جائے ۔ یہی نہیں 2020 میں اسکول چھوڑ چکے 2 کروڑ بچوں کو دوبارہ اسکول سے جوڑنے کی کوشش کی جائے گی۔اعلی تعلیمی نظام میں مضامین منتخب کرنے کی آزادی ہوگی،چنانچہ اگر ہندی، سماجیات یا فلسفےکے ساتھ کوئی حساب یا علم حیوانات پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے۔ اسی طرح علم کیمیا کے ساتھ تاریخ بھی پڑھ سکتا ہے۔ اردو والے اپنی دلچسپی کا کوئی بھی سبجیکٹ منتخب کر سکتے ہیں۔ نئی تعلیمی پالیسی میں طالب علم خود ہی اپنی جانچ اور تعینِ قدر کرسکیں گے۔ایک بہت اچھی بات یہ بھی ہے کہ اس پالیسی میں جی ڈی پی کا 6 فیصد تعلیم پر خرچ کرنے کی بات کہی گئی ہے ۔ اس پالیسی کے نفاذ کے بعد ملک کا ایک بڑا طبقہ جو تعلیم سے دور تھا وہ بھی مین اسٹریم سے جڑے گا اور تعلیم کی جانب راغب ہوگا۔انھوں نے کہا کہ اردو والوں کو کسی بھی طرح کے خدشات دل سے نکالنے ہوں گے اور موجودہ حکومت کے تئیں کشادہ قلبی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ڈاکٹر عقیل نے یہ بھی بتایا کہ مہاتماگاندھی انٹرنیشنل یونیورسٹی وردھا کے داخلہ نوٹیفکیشن سے اردو کو حذف کیے جانے کےسلسلے میں ہم یونیورسٹی کے وائس چانسلرکو خط لکھ رہے ہیں کہ یونیورسٹی میں شعبۂ اردو کو برقرار رکھا جائے،اسی طرح کونسل کی جانب سے مہاتما گاندھی سینٹرل یونیورسٹی موتیہاری (بہار) کے وائس چانسلر کوبھی خط بھیجا جا رہا ہے کہ وہاں شعبۂ اردو قائم کیا جائے کیوں کہ اردو ہمارے ملک کی بائیس شڈٹولڈ زبانوں میں سے ایک اہم زبان ہے ، اس نے ہندوستان کی تاریخ و تہذیب کو سنوارنے میں غیر معمولی کردار ادا کیا ہے اور ہماری مشترکہ و سیکولر ثقافت کا گراں قدر سرمایہ اس زبان میں محفوظ ہے۔
ڈاکٹر عقیل نے کہا کہ اس حوالے سے جو بھی بحث طلب امور ہیں ان پر میں خود وزیر تعلیم عالی جناب رمیش پوکھریال نشنک جی سے بات کروں گا اور ان سے اردو پر خصوصی توجہ دینے کی گزارش کروں گا۔
نئی دہلی۔ ہندوستان کے عہد ِوسطی کی تاریخ، تہذیب اور ثقافت کا ساراسرمایہ فارسی زبان وادب میں محفوظ ہے۔ آٹھ سو سالہ تاریخ پر محیط عہدوسطیٰ میں فارسی زبان وادب کے حوالے سے مختلف النوع کتابیں اردومیں لکھی گئی ہیں۔ اس کے باوجود فارسی زبان وادب کی مربوط تاریخ کا فقدان ہے۔اس کمی کو دیکھتے ہوئے قومی اردو کونسل نے ایک مبسوط اور معتبر تاریخ کی ضرورت محسوس کی ہے تاکہ فارسی اورعہدِوسطیٰ کے سرمائے کونئی نسل تک پہنچایاجاسکے۔یہ باتیں قومی اردو کونسل کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے کونسل کے صدردفترمیں منعقدہ فارسی زبان وادب کے پینل کی میٹنگ میں کہیں۔انھوں نے کہا کہ اردو میں صلاحیت پیدا کرنے کے لیے فارسی کا جاننا بہت ضروری ہے۔ بغیر فارسی کی افہام وتفہیم کے اردو زبان وادب پر عبور حاصل نہیں کیا جاسکتا۔انھوں نے کہا کہ اگرچہ یہ منصوبہ گزشتہ کئی سالوں سے زیرِ غور رہا ہے، تاہم اب اسے حتمی طورپر آئندہ چھ ماہ میں مکمل کرلیا جائے گا۔انھوں نے کہا کہ فارسی زبان وادب کی تاریخ کو چار ابواب میں منقسم کیا گیا ہے اورہر باب کے کئی ذیلی ابواب ہوں گے۔ اس کام کی تکمیل کے لیے ماہرینِ فارسی کی مدد لی جارہی ہے۔
اس موقع پر سید پروفیسر حسن عباس نے کہا کہ فارسی زبان ادب کی تاریخ کے منظر عام پر آنے کے بعد واقعی قومی اردو کونسل کی تاریخ میں ایک نئے روشن باب کا اضافہ ہوگااورنئی نسل ملک کے مختلف حصوں میں بکھرے پڑے فارسی زبان وادب سے متعلق علوم وفنون سے آشنا ہوگی۔پروفیسر ایچ ایس قاسمی نے کہاکہ ہم قومی اردو کونسل، بالخصوص جواں سال ڈائریکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد کے ممنون ہیں جو ہندوستان کی گزشتہ سات سوسالہ تاریخ کو قلم بند کرنے کے لیے کوشاں ہیں جو یقینا ایک غیر معمولی کام ہے۔ پینل کی صدارت پروفیسر آزرمی دخت صفوی نے کہا کہ یہ ایک انتہائی اہم موضوع ہے جس پر کونسل نے کام کرنے کا ارادہ کیا ہے۔عہد وسطیٰ کے ہندوستان کے مختلف خطوں میں فارسی زبان وادب کا غلبہ تھا اور شعرا وادبا نے اپنی جو تخلیقات پیش کی ہیں، وہ اس عہد کی ترجمانی کرتی ہیں جسے ایک مربوط اور مبسوط شکل میں لانے کی بات ہورہی ہے۔پینل میں پروفیسر عراق رضا زیدی،پروفیسر عبدالحلیم کے علاوہ کونسل کے اکیڈمک اسسٹنٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر شمع کوثر یزدانی، ڈاکٹر فیروز عالم اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر،جناب ساجد الحق کے ساتھ ڈاکٹر شاہد اختر نے شرکت کی۔
دہلی:آج دنیا ایک عالمی گاؤں کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ اس انقلاب کے پیچھے جدید ٹکنالوجی کا اہم کردار ہے، جس میں سرفہرست زبان کی رسائی ہے۔روز مرہ ضروریات کی تکمیل کے لیے زبان ایک اہم ذریعہ ہے۔ اردو زبان کے لفظوں میں حویلیوں، محلوں،، جھگیوں، جھونپڑیوں کا درد یکساں ہے، یہ زبان دل و دماغ میں موجزن خیالات کی تصویر کشی کرتی ہے یہی سبب ہے کہ یہ سرحدوں سے آزاد ہے۔ اس زبان کے الفاظ دنیا کی سبھی زبانوں میں اپنی تاثیر کے باعث جگہ بنا رہے ہیں۔ گویا اردو کا رشتہ عالمی سطح پر قائم ہو چکا ہے۔ اس لیے آئندہ 26-28، فروری2020 کو عالمی اردو کانفرنس کا انعقاد بہ موضوع ’ہندوستانی اور بیرونی زبانوں سے اردو کا لسانی و ادبی رشتہ‘ ہوگا۔
17/دسمبر2019بروز منگل، قومی اردو کونسل کے صدر دفتر جسولہ میں سہ روزہ عالمی اردو کانفرنس کے اہتمام کے سلسلے میں میٹنگ میں ان خیالات کا اظہار پروفیسر شاہد اختر کی صدارت میں قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے ایڈوائزری کمیٹی کے سامنے کیا۔ ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے پچھلی چھ کانفرنسوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پچھلی کانفرنسوں کے موضوعات میں قدرے یکسانیت تھی۔ لہٰذا ساتویں عالمی کانفرنس کا موضوع ایسا متعین کیا جائے جس سے زبانوں کے عالمی رشتے پر روشنی پڑے۔اردو زبان کی تشکیل میں السنہئ عالم کا خاکہ پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے پانچ ذیلی عنوانات طے کیے، جس کا احاطہ کانفرنس میں پڑھے جانے والے مقالے کریں گے جو درج ذیل ہیں۔
.1 اردو اور دیگر زبانوں کے درمیان لسانی و ادبی رشتوں کا تاریخی پس منظر
.2 اردو اور دیگر زبانوں کے درمیان لسانی و ادبی رشتوں کی نوعیت
.3 اردو اور دیگر زبانوں پر مرتب ہونے والے لسانی و ادبی اثرات کی توضیحات
.4 اردو اور دیگر زبانوں پر سیاسی، سماجی اور معاشرتی اثرات سے بدلتے لسانی و ادبی رشتے
.5 اردو اور دیگر زبانوں کے درمیان لسانی و ادبی رشتوں کا مستقبل
کانفرنس میں ہندوستان کی تمام ریاستوں کے علاوہ بیرونی ممالک کے دانشوروں، ناقدین اور ماہرین لسانیات کی شرکت متوقع ہے۔
ممبران کمیٹی کے مشوروں سے موضوع کی تعیین عمل میں آئی۔ نیز متوقع مندوبین کی فہرست تیار کی گئی۔ میٹنگ میں شریک ممبران میں پروفیسر شمیم حنفی، پروفیسر مظفر علی شہ میری، پروفیسر کمل کشور گوئنکا،پروفیسر محمد اسد الدین، پروفیسر محمد شبیر،ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد، ڈاکٹر فضل الرحمن، ڈاکٹر مسرور احمد بیگ، کونسل کے ریسرچ آفیسر ڈاکٹر کلیم اللہ،ڈاکٹر انوار الحق، ڈاکٹر فیاض عالم، ڈاکٹر جاوید اقبال، ڈاکٹر شاہد اختر اور ڈاکٹر عبد الرشید اعظمی نے شرکت کی۔
کوزی کوڈ میں ایک انٹریکٹیو سیشن میں ڈاکٹرشیخ عقیل کی شرکت،اردوکے مسائل پر اظہارخیال
کوزی کوڈ: کیرالہ اردو کا ایک بڑا مرکز بن سکتا ہے کیونکہ یہاں تعلیم کا معیار بہت اچھا ہے اور تعلیم کی شرح 100 فیصد ہے۔ یہاں کے لوگوں کے ہاتھوں میں اردو کا مستقبل محفوظ ہے۔ ساری دنیا میں کیرالہ سے اردو کی شمع روشن ہوگی۔یہ باتیں قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے کوزی کوڈ، کیرالہ میں مدارس کے ذمے داران، غیر سرکاری تنظیموں اور اداروں کے ساتھ ایک انٹریکٹیو سیشن کے دورران کہیں۔انھوں نے کہا کہ یہاں کے کچھ علاقوں کی مادری زبان اردو ہے لیکن وہ اپنا کام اردو میں نہیں کرپارہے تھے،اب ایک طویل جدوجہد کے بعد انھیں اردو زبان میں کام کرنے کا حق حاصل ہواہے،اس لیے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ نہ صرف کیرالہ میں اردو کے فروغ کے لیے کوشش کریں گے بلکہ ساری دنیا میں ان کے ذریعے اردو کی شمع روشن ہوگی۔انھوں نے مزید کہا کہ یہاں کی ریاستی حکومت سے ہم نے درخواست کی ہے کہ یہاں پرا ئمری سطح پر اردو تعلیم کا نظم کیا جائے۔ یہاں تقریباً دو ہزار اردو اساتذہ ہیں اور ان کی اپنی یونین بھی ہے۔ ان کے اشتراک سے ہم یہاں اردو اساتذہ کے لیے ایک تربیتی پروگرام بھی جلدی ہی منعقد کریں گے۔ یہاں کی لائبریریوں میں ہم قومی اردو کونسل سے کتابیں بھی بھیجیں گے۔انھوں نے کونسل کا تعارف بھی پیش کیا ساتھ ہی مختلف اسکیموں اور پروگراموں کی تفصیلات بھی بتائیں۔ انھوں نے کہا کہ کونسل سے کمپیوٹر کورس خطاطی اور گرافک ڈیزائننگ، مالی تعاون اسکیم کے تحت مسودے کی اشاعت، پروجیکٹ، کتابوں کی خریداری، قومی و عالمی سمیناروں کا انعقاد اور فاصلاتی تعلیم کے تحت اردو، عربی اور فارسی کے ڈپلومہ کورسس جیسے پروگرام اور اسکیمیں چلائی جاتی ہیں، جن سے کیرالہ کے لوگوں کو فائدہ اٹھانا چاہیے۔ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے کہا کہ یہاں کے مختلف اردو پروگراموں میں قومی اردو کونسل ہر ممکن تعاون دے گی۔ ریاستی حکومت کی جانب سے کرائے جانے والے کلچرل پروگراموں میں بھی کونسل مدد کرے گی۔اس انٹریکٹیو پروگرام میں ہی اردو کے ایک شیدائی نے جلد از جلدکوزی کوڈ سے ایک اردو اخبار جاری کرنے کی یقین دہانی کرائی۔
اردوزبان و ادب کے فروغ میں خواتین کی حصے داری پر گوامیں یک روزہ قومی سمینار کا انعقاد
گوا:(پریس ریلیز)گوا ہندوستان کا وہ خوبصورت اور طلسماتی جزیرہ ہے جو اپنی سیاحتی اور ثقافتی اہمیت کے پیش نظر پوری دنیا میں مشہور ہے۔یہاں کے ساحل سمندر سے وابستہ مختلف سیاحتی مقامات کی سیر کو پوری دنیا کے سیاح آتے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ اس خوبصورت جادو نگری میں اردو جیسی خوبصورت زبان کو ترقی دی جائے۔ گوا میں کمپیوٹر سنٹر، لائبریری،اردو عربی سرٹیفکٹ اور ڈپلومہ کورسیز،سیمناراور کانفرس وغیرہ سمیت قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کی تمام اسکیموں کو نافذکیا جائے۔ ہماری کوشش ہوگی کہ گوا میں اردو کی نصابی کتابیں فراہم کی جائیں۔ ان خیالات کا اظہار قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے حسینن ایجوکیشن اینڈ فیلو شپ سوسائٹی گوا اور قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان کے زیر اہتمام ”اردو زبان و ادب کی ترقی میں خواتین کا حصہ “کے عنوان سے یک روزہ قومی سیمنار کے افتتاحی اجلاس کے صدارتی خطاب میں کیا۔ ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے بتایا کہ انہوں گوا کے ایجوکیشن سکریٹری سے ملاقات کر کے اسکولوں میں پانچویں جماعت سے آگے بھی اردو تعلیم کے انتظام کی گذارش کی ہے۔ سیمنار کا کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے مشہور شاعرہ فوزیہ رباب نے کہا کہ اردو کا وہ کون سا دور،کون سی تحریک،کون سا رجحان، کون سی صنف اور اردو کی تاریخ کا وہ کون سا ورق ہے جو وجود زن سے رنگین اور تابناک نہ ہو۔شاعری، فکشن، غیر افسانوی ادب، تحقیق و تنقید،ادب اطفال اور صحافت وغیرہ ہر باب میں خواتین کے کارنامے نا قابل فراموش ہیں۔ سیمنار کے افتتاحی اجلاس میں بحیثیت مہمان خصوصی ڈائرکٹر برائے تعلیم گوا ڈاکٹر وندنا راوٗ(آئی اے ایس)نے خواتین کے حوالے سے سیمنار کے انعقاد پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گوا میں اردو جیسی شیریں زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کی بہت ضرورت ہے اور اس سلسلہ میں ہم بھر پور تعاون کے لئے تیار ہیں۔ انہوں نے کلیدی خطیب فوزیہ رباب کی اس تجویز کی بھر پور تائید کی کہ ”اکیڈمی برائے ادبیات خواتین“قائم کی جائے۔ ڈاکٹر وندنا راوٗ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ابتدائی تعلیم اردو میں ہونی چاہئے۔سیمنار کے کنوینر شیخ سلیمان کرول نے حسینن سوسائٹی اور سیمنار کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ حسینن ایجوکیشن اینڈ فیلو شپ سو سائٹی گوا کی وہ واحد تنظیم ہے جو گوا میں اردو کے فروغ کے لئے سر گرم عمل ہے۔اس تنظیم نے اس سے پہلے بھی گوا میں اردو کے ایک بڑے سیمنار کا انعقاد کیا ہے۔نیز اس تنظیم کی جانب سے گوامیں اردو کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس سیمنار کے انعقاد میں فوزیہ رباب نے صحیح معنوں میں کوآرڈی ینیٹر کا کردار ادا کرتے ہوئے بھر پور تعاون کیا ہے اور انہوں نے کلیدی خطیب، صدر اور مقالہ نگار کی حیثیت سے ہماری دعوت قبول کی ہے۔ استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے ایچ ای ایف ایس کی صدر ڈاکٹر آفرین نے کہا کہ ہماری تنظیم تعلیم اورا ردو کی اشاعت کے لئے گوا میں فعال کردار ادا کر رہی ہے اور اس سیمنار کی خصوصیت یہ ہے کہ گوا جیسے غیر اردو علاقہ میں اردو پر یہ سیمنار ہو رہا ہے اور خواتین کی اردو خدمات کے حوالے سے ہو رہاہے جس میں ملک بھر کی معروف خواتین ادیب و شاعر بحیثیت مقالہ نگار شریک ہوئی ہیں۔ فہمیدہ خان نے تمام مہمانان کا تعارف کراتے ہوئے گلدستے سے ان کا استقبال کیا۔اس سیمنار کے دو تکنیکی اجلاس میں فوزیہ ربا ب اور ڈاکٹر شرف النہار نے صدارت کے فرائض انجام دئیے۔دونوں اجلاس میں بارہ مقالات پیش کیے گئے۔ان اجلاس میں ڈاکٹر صادقہ نواب سحر نے اردو فکشن میں خواتین کا حصہ، ڈاکٹر شرف النہار نے اکیسویں صدی میں افسانہ نگار خواتین، ڈاکٹر حمیرہ تسنیم نے اردو کی ناول نگار خواتین،ڈاکٹر مسرت نے اردو میں تانیثی تنقید، ڈاکٹر نسرین رمضان نے اردو میں خواتین کے رسائل
و جرائد، ڈاکٹر نسرین بیگم نے اردو شعر و ادب میں عورتوں کا حصہ فوزیہ رباب نے خواتین کی شاعری میں احتجاج اور مزاحمت، ڈاکٹر ظل ہما نے کیفی کی شاعری میں عورت کا تصور، ڈاکٹر معیذہ نے اردو ادب اور خواتین، ڈاکٹر طاہرہ عبد الشکور نے بچوں کا ادب اور خواتین، اور رخسانہ شاہ نے اردو ادب کی ترقی میں خواتین کے سفر نامے کے عنوان سے گراں قدر مقالات پیش کیے۔اس سیمنار میں مشہور فکشن نگار ڈاکٹر صادقہ نواب سحر کے ناول”راجد یو کی امرائی“ کا اجرا عمل میں آیا۔ اس موقع پر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد کی صدارت میں مشاعرے کا بھی انعقاد کیا گیا۔سیمنار کا آغاز مولانا محمد غوث کی تلاوت اور اختتام ثریا خان کے اظہار تشکر پر ہوا۔شیخ سلیمان کرول اور فہمیدہ خان نے نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ سیمنار میں شروع سے لے کر آخر تک تقریبا ڈیڑھ سو محبان اردو شریک رہے۔ حسینن سوسائٹی کی جانب سے سیمنار کے تمام مندوبین کی خدمت میں مومنٹو پیش کیا گیا۔
اردو کی صورت حال پر قومی کونسل کے ڈائرکٹر اور ایجوکیشن سکریٹری گوا کے مابین تبادلہ خیال
پنجی: قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے گوا کے حالیہ دورے کے دوران ریاست کی ایجوکیشن سکریٹری محترمہ نیلا موہنَن سے ملاقات کی اور ان سے ریاست میں اردو کی صورت حال اور اردو تعلیم و تربیت کے شعبے میں درپیش مسائل و امکانات پر گفتگو کی۔ اس گفتگو کے دوران جن اہم نکات پر تبادلہ خیال کیا گیاان میں درجہ پنجم سے اوپر کی کلاسوں میں بطور مضمون اردو تعلیم کے آغاز کو منظوری نہیں دینا، اسکولوں کے نصاب میں اردو بطور مضمون شامل ہونے کے باوجود ریاستی حکومت کا مستقل اساتذہ کی بحالی نہ کرنا اور گذشتہ سات برسوں سے ضلع اسکول انسپکٹر کے ذریعے معائنہ نہ کرنا بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف اسکولوں کے نمائندوں سے یہ بھی پتہ چلا کہ وہاں اردو کی نصابی کتابیں وقت پر مہیا نہیں کی جاتی ہیں۔ برسرروزگار اردو اساتذہ کے لیے تربیت کا کوئی معقول نظام نہیں ہے جس سے ان کی تدریسی صلاحیتیں مزید بہتر ہوسکیں۔ ڈاکٹر عقیل احمد نے ایجوکیشن سکریٹری سے خاص طور پر اردو میڈیم اسکولوں میں تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کی سمت میں کوشش کرنے کی درخواست کی تاکہ ریاست میں اس اردو زبان کا فروغ ہو جو ہماری گنگا جمنی تہذیب کی ایک روشن علامت ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اردو زبان کو عام کرنے کے لیے ریاست میں ایک اردو اکادمی قائم کی جانی چاہیے تاکہ اردو زبان کے فروغ کے لیے مرکزی حکومت کی طرف سے چلائی جارہی اسکیموں کا ریاست میں نفاذ ہوسکے۔ قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر نے کہا کہ گوا کی ریاست میں اقلیتوں کی بھی ایک معتد بہ آبادی ہے اسی لیے اقلیتی آبادی والے علاقوں کے سرکاری اسکولوں میں اردو کو بطور تیسری زبان پڑھانے کا نظم بھی کیا جائے۔ گفتگو کے دوران محترمہ نیلا موہنن نے کہا کہ ہم قومی اردو کونسل کے ساتھ اردو کے فروغ کے لیے مفاہمت نامے پر دستخط کریں گے تاکہ ریاست میں اردو کو جائز مقام مل سکے۔ ریاستی حکومت کے ذریعے کرائے جانے والے پروگراموں میں بھی قومی کونسل کے ذریعے کلچرل پروگرام کے انعقاد کرانے کی بھی درخواست کی گئی۔ ایجوکیشن سکریٹری نے یقین دلایا کہ گوا میں پرائمری سطح پر جتنے بھی سرکاری وغیر سرکاری اسکول ہیں ان سب میں اردو کو بطور تھرڈ لینگویج پڑھایا جائے گا۔ قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے کہا کہ قومی اردو کونسل نصابی کتابوں کی اشاعت میں گوا سرکار کو تعاون دے گی۔