ہم نے فارسی زبان سے واقفیت کے ساتھ ہی اس زبان کے جن کلاسکس کے بارے میں سنایا پڑھا،ان میں مولانا روم کی مثنوی خصوصیت سے قابل ذکر ہے۔ایک زمانے میں یہ کتاب درسِ نظامی کا حصہ رہی ہے، اب شایدبرصغیر کے کسی مدرَسی نصابِ تعلیم میں شامل نہیں ہے،البتہ ہمارے بہار کے ضلع سیتامڑھی کی نمایاں تعلیم گاہ جامعہ اشرف العلوم میں اس کے کچھ حصے اب بھی پڑھائے جاتے ہیں۔بہر کیف ہم نے جب بھی اس کتاب کے بارے میں سنا یایا پڑھا یا خودگاہے بگاہے اس کتاب کے مختلف حصے پڑھے،تویہی محسوس ہوا کہ رومی کی یہ کتاب تربیتِ نفس اور تعلیمِ اخلاق کی کتاب ہے،جس میں حکائی انداز میں مختلف نبیوں،دیگر کرداروں کے واقعات بیان کرکے انسانی زندگی،کردار و اطوار سے متعلق اہم اسباق دیے گئے ہیں اور مختلف عملی و اخلاقی موضوعات پر بہت جامع نصیحتیں اس مثنوی میں موجود ہیں۔اسی وجہ سے اہلِ فارس اس مثنوی کو’’ زبانِ پہلوی میں قرآن‘‘ کا درجہ دیتے ہیں،جس کا مطلب یہ ہے کہ رومی نے اس کتاب میں انہی مضامین کو آسان شعری موضوعات اور حکایات وواقعات کے ذریعے بیان کیاہے،جنھیں قرآن کریم میں بیان کیاگیا ہے۔حتی کہ اس کتاب کی ترتیب بھی قرآن کریم کی طرح ہی ہے،یعنی ایسا نہیں ہے کہ یکے بعد دیگرے ترتیب کے ساتھ مختلف موضوعات کے مضامین بیان کیے گئے ہیں؛بلکہ کیف مااتفق بیان کیے گئے ہیں ۔ شروع سے لے کر اب تک مثنوی مولانا روم کا اسلامی اہلِ دانش کے نزدیک ایک خاص مقام ہے اور تربیتِ نفس و اخلاق کے سلسلے میں اس سے خصوصی رہنمائی حاصل کی جاتی رہی ہے۔علامہ شبلی نعمانی نے تصوف اور تربیت اخلاق کے علاوہ مثنوی کوتوحید،ذات و صفاتِ باری تعالیٰ،نبوت،معجزات،روح،معاد،جبروقدرجیسے مسائل کی تفہیم کے حوالے سے بھی عمدہ کتاب قرار دیاہے اور اس کے مختلف اشعار سے ان مسائل پر استدلال کیا ہے۔ایشیاکے عظیم مفکر،فلسفی و شاعر اقبال نے تو رومی کو اپنا روحانی مرشد مانا ہے اوراسی مثنوی کی تقلید میں اپنی مثنوی’’اسرارِ خودی‘‘اور’’رموزِ بے خودی‘‘ لکھی ۔
یوں تو مولانا رومی کی تصانیف میں ان کے ملفوظات پر مشتمل ’’فیہ مافیہ‘‘،مجموعۂ غزلیات و منظومات ’’دیوانِ شمس تبریز ‘‘اور خطبات کا مجموعہ ’’مجالسِ سبعہ‘‘بھی ہیں،مگر زیادہ شہرت مثنوی کو ہی حاصل ہے؛بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ادب و شعر کی دنیا میں رومی اسی کی وجہ سے زندہ ہیں اور اسی کی وجہ سے ان کی تعلیمات و افکار کوبھی بقا حاصل ہے۔ کشف الظنون کے مطابق مثنوی میں کل اشعار26660ہیں۔رومی کے سوانح نگار لکھتے ہیں کہ انھوں نے یہ مثنوی اپنے مرید حسام الدین چلپی کی فرمایش پر لکھی،چلپی رومی کے خاص مرید تھے؛بلکہ رومی کے دل میں ان کے تئیں احترام کے جذبات پائے جاتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ جب مثنوی کے پہلے دفترکے پایۂ تکمیل کو پہنچنے کے بعد حسام الدین کی بیوی کا انتقال ہوگیا،تواس سانحے کا اثر رومی کے ذہن و دماغ پر بھی بہت زیادہ ہوا اور مسلسل دوسال تک انھوں نے کچھ نہیں کہا،دوسال کے بعد بھی جب حسام الدین نے درخواست کی تب رومی کی زبان کی کھلی۔رومی نے اپنی مثنوی گو کہ حکیم سنائی کی ’’حدیقہ‘‘ اور شیخ فریدالدین عطار کی ’’منطق الطیر‘‘کو سامنے رکھ کر لکھی ،مگر اس کے باوجود اس میں مضامین و طرزِ پیش کش وغیرہ کے اعتبار سے ایسی انفرادیت تھی کہ اسے جو قبولیتِ عامہ حاصل ہوئی،وہ پہلے یا بعد میں اس موضوع کی کسی کتاب کو حاصل نہ ہوسکی۔شبلی نے مجمع الفصحا کے حوالے سے لکھاہے کہ ایران میں چار کتابوں کو جو شہرت و مقبولیت ملی،وہ کسی کتاب کو حاصل نہ ہوسکی: شاہنامہ، گلستاں، دیوانِ حافظ اور مثنوی مولانا روم۔ مگر ان چاروں میں بھی زیادہ مقبولیت اور اہلِ نظر کے یہاں اعتبار و اعتنا مثنوی کو ہی حاصل ہوا۔
یہی وجہ ہے کہ شروع سے ہی اس کی تشریح و توضیح پر علما نے خصوصی توجہ دی اور کئی لوگوں نے اس کے ترجمے کیے ہیں۔ شبلی نے اس کی چودہ شرحوں کا ذکر کیاہے،جن میں سے کچھ تو مکمل مثنوی کی شروحات ہیں،باقی مختلف اجزا کی تشریحات پر مشتمل ہیں۔ایک شرح علائی بن یحی واعظ شیرازی کی ہے،جس میں صرف مثنوی میں وارد ہونے والی آیاتِ قرآنی و احادیث کی تشریح کی گئی ہے۔ (سوانح مولانا روم،ص:65۔67،ط:دارالمصنفین اعظم گڑھ)قاضی سجاد حسین نے ان چودہ کے علاوہ مزید پانچ کتابوں کا ذکر کیاہے ،جو مکمل مثنوی یا اس کے بعض اجزا کی شرحیں ہیں۔(مثنوی مولوی معنوی،ص:11-12،ط:حامد اینڈ کمپنی،اردوبازار لاہور) اردو زبان میں غالبا سب سے ضخیم شرح مولانا اشرف علی تھانوی نے لکھی ہے ،ان کی شرح’’کلیدِ مثنوی‘‘چوبیس جلدوں اورچھ ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔رومی کی تفہیم کے حوالے سے مولانا تھانوی کوعلما اوراہلِ تصوف کا ایک بڑا حلقہ تو تسلیم کرتاہی ہے،مگر اس سلسلے میں رومی کے’’ مریدِ ہندی‘‘ علامہ اقبال بھی ان کے مقلد ہیں اور اس کا انھوں نے بہ قلم خود اظہار کیا ہے۔ ان کے اس اظہار کا پس منظر جاننا دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔خواجہ حسن نظامی حضرت نظام الدین اولیا کے خانوادے سے تعلق رکھنے والے اپنے دور کے مشہور ادیب،صحافی و صوفی تھے۔اقبال کےممدوحین میں تھے اورہر سال اپنے اخبار’’خطیب‘‘میں متحدہ ہندوستان کی اہم شخصیات کو ان کی مختلف خدمات کے عوض الگ الگ خطابات سے نوازا کرتے تھے،مارچ 1915 میں انھوں نے اقبال کو’’سرالوصال‘‘کے خطاب سے نوازااور اپنے نوٹ میں اقبال کو’’ مسلمانوں ہی نہیں کل ہندوستان کا قومی شاعر‘‘ قرار دیااور لکھاکہ:’’اگر آپ کے خیالات رابندر ناتھ ٹیگور کی طرح انگریزی میں ترجمہ ہوکر یورپ میں شائع ہوتے تو یقینا اہلِ یورپ بھی انہی کو ہندوستان کا ملکی شاعر تصور کرتے‘‘۔( خرم علی شفیق،اقبال:درمیانی دور(1914سے1922تک) ، ص:104،ط:اقبال اکادمی،پاکستان)مگر اسی سال ستمبر میں جب مثنوی اسرارِ خودی چھپ کر آئی اور خواجہ صاحب نے اسے دیکھا،تو نظریۂ وحدت الوجود اور حافظِ شیراز پر اقبال کی چوٹ نے انھیں چراغ پا کردیا۔30نومبر1915کو ’’خطیب ‘‘میں سید محمد شاہ ذوقی کے نام سے ’’اسرارِ خودی‘‘پر ایک تنقید شائع ہوئی۔اس میں مضمون نگار نے لکھا:’’اس میں ذرا بھی شبہ نہیں کہ مثنوی اسرارِ خودی میں آزارِ خودی کی جن تیوروں سے حمایت کی گئی ہے،وہ باعتبار اپنے نتائج کے ایک حملہ ہے،جو اسلام پر،اسلام ہی کی آڑ میں ہوا ہے۔عوام الناس میں عموماً اور انگریزی داں طبقہ میں خصوصاً نہ معلوم کیوں اقبال کو دلدادۂ تصوف ہونے کی شہرت حاصل ہے‘‘۔(ایضا،ص:177-178)پھر30جنوری1916کے ’’خطیب‘‘کے شمارے میں خود خواجہ حسن نظامی نے’’سرِ اسرارِخودی‘‘کے نام سے ایک مضمون لکھا اور اسرارِ خودی پر متعدد اعتراضات کیے۔اسی مضمون میں خواجہ حسن نظامی نے اقبال پر طنز کرتے ہوئے لکھا کہ ’’اقبال نے مولانا روم کو خواب میں دیکھا،ان کی مثنوی کو بیداری میں نہ پڑھا۔اگر وہ ایسا کرتے ،توقرآن کے خلاف نہ چلتے؛بلکہ قرآن کے اصول کو اپنی مثنوی میں لکھتے‘‘۔(ایضا ،ص:203)اس کے جواب میں اقبال نے بھی مضمون لکھا،جو ’’وکیل‘‘امرتسر کے 9فروری1916 کے شمارے میں شائع ہوا۔اقبال نے اس مضمون میں بالترتیب خواجہ صاحب کے بیان کردہ ان اسباب کی تردید کی،جن کی وجہ سے انھوں نے مثنوی اسرارِ خودی کو’’غیر ضروری‘‘اور’’نامعقول‘‘وغیرہ قرار دیاتھا۔مولانا روم کے تعلق سے خواجہ صاحب کی بات کا جواب دیتے ہوئے اقبال نے لکھا:’’حضرت!میں نے مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ کی مثنوی کو بیداری میں پڑھا ہے اور باربار پڑھاہے۔آپ نے اسے شاید حالتِ سکر میں پڑھاہے کہ آپ کواس میں وحدت الوجود نظر آتا ہے۔مولوی اشرف علی صاحب تھانوی سے پوچھیے ،وہ اس کی تفسیر کس طرح کرتے ہیں؟میں اس بارے میں انہی کا مقلد ہوں‘‘۔(مقالاتِ اقبال،مرتب :سید عبدالواحد معینی،محمد عبداللہ قریشی،ص:221،ط:القمر انٹرپرائزیز،غزنی اسٹریٹ،لاہور2011)
مولانا تھانوی کے علاوہ قاضی سجاد حسین نے مثنوی کا ترجمہ مع حواشی شائع کیاہے،اس کا نام’’مثنویِ مولویِ معنوی‘‘ ہے۔1974میں دفترِ اول کا ترجمہ مع حواشی شائع ہوا اورجون 1978میں دفترِ ششم کا۔کل چھ جلدوں اور تقریباً ڈھائی ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ مولاناتھانوی کے مرید وں کے مرید حکیم محمد اختر صاحب نے بھی ایک شرح لکھی ہے،جو’’معارفِ مثنوی‘‘کے نام سےپہلی بار 1996میں کتب خانہ مظہری،کراچی سے شائع ہوئی ہے ۔ابھی پچھلے سال ایم آر پبلی کیشنز دہلی سے ڈاکٹر مغیث احمد کی کتاب ’’مولانا جلال الدین رومی- احوال و آثار ‘‘ شائع ہوئی ہے،جس کے مراجع میں انھوں نے عربی ،فارسی ، اردو و انگریزی میں مکمل مثنوی یا اس کے بعض اجزا کے پچاس سے زائد تراجم اور شرحوں کا ذکر کیاہے۔ترکی کے شہر قونیہ(جہاں مولانا نے عملی زندگی گزاری اور جہاں مدفون ہیں)کی میونسپلٹی کی جانب سے2005سے باقاعدہ ایک ٹرانسلیشن پروجیکٹ پر کام ہو رہاہے،جس کے تحت دنیا کی پچاس زبانوں میں مثنوی کا ترجمہ کیا جانا ہے۔دسمبر 2018تک اس پروجیکٹ کے تحت 26زبانوں میں مثنوی کے ترجمے ہو چکے تھے،جن میں ترکی،انگریزی ،عربی و اردو کے علاوہ جرمن ، سویڈش ، اطالوی ، فرانسیسی ، جاپانی ، البانوی ، ہسپانوی ، ترکمانی ، قزاقستانی ، ازبک ، چینی ، یونانی ، روسی ، آزربائیجانی ، ملائی ، سواحلی ، کرد ، بوسنین ، ڈچ ، کرغیزی ،پولش اورامہری تراجم شامل ہیں۔
قندیل نقد و تبصرہ
اردو میں طنز و مزاح کو تحرک اور توانائی عطا کرنے والوں میں ایک اہم نام مجتبیٰ حسین کا بھی ہے جنہوں نے طنز و مزاح کی شعریات اور تکنیکی فنی لوازمات کا خیال رکھا ہے۔ انہوں نے طنز و مزاح میں تعریض، تقابل اور تصریف لفظی ومعنوی کا بطور خاص استعمال کیا اور مزاح کے انہی حربوں اور تکنیکوں سے اردو طنز و مزاح کو ایک نئی معراج بھی عطا کی ہے۔
مجتبیٰ حسین کے مزاح میں مارک ٹوئن کی طرح شستگی اور شائستگی اور متانت ہے ۔کہیں کہیں انہوں نے مزاح سے مصوری کا بھی کام لیا ہے۔ مجتبیٰ حسین کے یہاں وہ تمام تشخصاتی اوصاف ہیں جو طنزو مزاح کے لئے لازمی ہیں۔ انہوں نے صرف تفریح طبع یا تفنن کے لئے مزاح نگاری نہیں کی بلکہ ان کے یہاں تفکر اور تجسس بھی ہے۔ لفظیات فکریات ، موضوعات اور مسائل کی سطح پر بوقلمونی اور تنوع ہے۔ مجتبیٰ حسین کا مزاح منجمد یا مضمحل نہیں ہے بلکہ ان کے مزاح میں اتنی تقلیبی قوت ہے کہ وہ انسانی ذہن کے انجماد کو توڑ کر پورے وجود میں انبساط کی ایک لہر دوڑا دیتا ہے۔ ان کے طنز و مزاح میں بے پناہ انبساطی قوت ہے۔
وہ ہمیشہ نئے موضوعاتی اور اسلوبی جزیرے کی جستجو میں رہتے ہیں۔ کبھی واقعات کے کھردرے پن اور کبھی کردار کی مضحکہ خیزی سے ایک معمولی سے احساس کو غیرمعمولی اظہار کا روپ دے دیتے ہیں۔ مجتبیٰ حسین کی نکتہ آفرینی ان کے ہر مضمون میں ملتی ہے اور ان کے ذہن رسا سے ایسے ایسے نکتوں کا نزول ہوتا ہے کہ حیرتوں کے در کھلتے چلے جاتے ہیں اور قاری ایک طلسم خانۂ تحیر میں قید سا ہو جاتا ہے۔
مجتبیٰ حسین کے طنز و مزاح میں شگفتگی اور نشتریت کا خوبصورت امتزاج ملتا ہے۔ انہوں نے اپنے طنز و مزاح کو سوقیانہ پن اور ابتذال سے محفوظ رکھا ہے۔ جعفر زٹلی یا کسی دوسرے طنز نگار کی طرح فضلیاتی لفظیات (ScatoLogical Vocabulary) کا استعمال نہیں کیا اور نہ ہی ایسے موضوعات کو اپنی تحریروں کا محور بنایا جو اخلاقیات کے دائرے سے باہر ہو۔ ان کے موضوعات سماج، سیاست اور ثقافت سے ماخوذ ہیں اور انہی کی ناہمواریوں کو طنز و مزاح کا نشانہ بناتے ہیں۔ اور بڑی بات یہ ہے کہ خود انہوں نے اپنی ذات کو بھی طنز کا ہدف بنانے سے گریز نہیں کیا۔اور اس طرح اپنی داخلی قوت اور خوداعتمادی کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ خود تنقیدی (Self Criticism)کا یہ عمل بہت کم لوگوں کے یہاں نظر آتا ہے۔ مجتبیٰ حسین نے جب روزنامہ سیاست حیدرآباد سے کالم نگاری کا آغاز کیا تو سب سے پہلے اپنا ہی مذاق اڑایا۔ ’اپنی یاد میں‘ کے عنوان سے لکھے خود وفاتیہ میں اس کی طرف وہ یوں اشارہ کرتے ہیں:
’’آدمی چوںکہ ڈرپوک تھے اس لئے اپنے مضامین میں دوسروں کا مذاق اڑانے کے بجائے اپنا مذاق اڑانے لگے۔ یہ سب سے آسان طریقہ تھا مگر بعد میں کچھ تنقید نگاروں نے ان کی تعریف میں یہ کہنا شروع کر دیا کہ دوسروں کا مذاق تو ہر کوئی اڑاتا ہے لیکن خود اپنا مذاق اڑانا بڑی ہمت کا کام ہے۔ اس تعریف سے وہ اتنا خوش ہوئے کہ زندگی بھر کے لئے طنز کے اپنی تیروں سے ہی اپنے آپ کو ہلکان کرتے رہے۔ اتنے کم معاوضے میں شاید ہی کسی نے اپنے آپ کو لہولہان کیا ہو۔ ‘‘
مجتبیٰ حسین کا موضوعاتی کینوس بہت وسیع ہے۔ انہوں نے سفرنامے بھی لکھے، خاکے بھی تحریر کئے اور اپنے سفرناموں میں بھی طنز و مزاح کا بہت ہی ہنرمندانہ استعمال کیا۔ ’جاپان چلو جاپان چلو‘ ان کا بہت مشہور سفرنامہ ہے۔ اسی طرح ’آدمی نامہ‘ ، ’سو ہے وہ بھی آدمی‘ ، ’چہرہ در چہرہ‘ ،’ ہوئے ہم دوست جس کے‘ ان کے خاکوں کے مشہور مجموعے ہیں۔ ان کے خاکوں کی خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے نثری قصیدے نہیں لکھے بلکہ شخصیتوں کی تفہیم کا ایک نیا زاویہ بھی عطا کیا۔ ان کے مثبت اور منفی اوصاف سے روبرو کرایا۔ داخلی اور خارجی احوال سے واقف کرایا۔ انہوں نے جہاں اپنے بزرگوں، ہم عصروں کے خاکے لکھے ہیں وہیں اپنے خوردوں کو بھی اپنی شفقت اور محبت میں شامل رکھا ہے۔ یہ ان کا بڑا پن ہے جو اب بڑے ادیبوں کے مزاج کا حصہ نہیں رہا۔ وہ اپنے خاکوں میں نہ صرف شخصیات سے اپنی شناسائی، مراسم اور ان کی خوبیوں سے واقف کراتے ہیں بلکہ شخصیت کے ان زاویوں سے بھی روشناس کراتے ہیں جن سے ہمیں ترغیب اور تحریک ملتی ہے اور معاشرے کو ایک مثالی کردار ۔ خشونت سنگھ اور شیام لال جیسی شخصیات پر انہوں نے خاکے لکھے ہیں اور ان کی حیات و افکار کے ایسے زاویوںکو روشن کیا ہے کہ ہمیں خاکہ پڑھ کر ان شخصیات سے نہ صرف محبت بلکہ گہری عقیدت ہو جاتی ہے ۔آج کے تعصب پسند معاشرے میں ہمارے لئے یہ شخصیات ایک روشن مینار کی طرح ہیں۔ ذرا دیکھئے خشونت سنگھ جیسے انگریزی کے بڑے ادیب اور کالم نگار کے حوالے سے مجتبیٰ حسین نے کتنے خوبصورت پہلو کواجاگر کیا ہے:
’’دوسرے دن ان کے دفتر گیا تو میرے آداب عرض کے جواب میں حسب معمول وعلیکم السلام کہہ کر زوردار مصافحہ کیا۔ ابھی میں کرسی پر اچھی طرح بیٹھنے بھی نہ پایا تھا کہ میری نظر دیوار پر پڑ گئی جس پر ایک طغرے میں ’اللہ‘ لکھا ہوا تھا اور دوسرے طغرے میں ’سورہ یٰسین‘ میں سوچنے لگا، خشونت سنگھ بھی عجیب آدمی ہیں۔ کل وعلیکم السلام کے بعد قدسی الاصل اور پیر گردوں میں پھنسا دیا تھا اور آج وعلیکم السلام کے بعد ان طغروں کا نظارہ کرا دیا۔ تھوڑی دیر کے لئے مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں کسی اردو رسالے کے دفتر میں آگیا ہوں۔ میں ان کے طغروں کو غور سے دیکھنے لگا تو بولے جی ہاں، یہ طغرے ہمیشہ میرے دفتر میں ہوتے ہیں۔ السٹریٹیڈ آف انڈیا کا جب ایڈیٹر تھا تب بھی یہ طغرے میرے کمرے میں تھے۔ اب یہاں سے کہیں اور جائوں گا تو انہیں بھی ساتھ لیتا جائوں گا یہی نہیں میری موٹر کی چابی پر پوری آیت الکرسی لکھی ہوئی ہے۔‘‘
کیا آج کے عہد میں تلاش بسیار کے بعد بھی دوسروں کے شعائر اور عقائد کا احترام کرنے والے ایسے افراد مل سکتے ہیں؟ تعصب کے اندھیرے میں روشن خیالی اتحاد و محبت کی یہ علامتیں اب کہاں نظر آتی ہیں۔ اسی طرح شیام لال کے بارے میں انہوں نے جو کچھ لکھا ہے، اردو سے نفرت اور تعصب کے اس عہد میں ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں:
’’وہ بے حد اچھی اردو جانتے تھے اور ان کی لائبریری میں اردو کی کئی اہم کتابیں موجود ہیں۔ کبھی پوچھا تو نہیں کہ آیا انہوں نے کبھی شعر بھی کہے ہیں یا نہیں لیکن قیاس اغلب ہے کہ انہوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز اردو سے ہی کیا تھا۔ انہیں اردوکے کلاسیکی شعراء کے کئی شعر ازبر تھے جن کا وہ برموقع استعمال بھی کرتے تھے۔ اب انگریزی ادب و صحافت میں ایسے لوگوں کی کمی ہوتی جا رہی ہے جو اردو سے بھی کماحقہ واقف ہیں سوائے خشونت سنگھ کے جو اردو کے بڑے شیدائی اور دلدادہ ہیں اور اپنی تحریروں میں اردو ادب اور ادیبوں کا اکثر ذکر کرتے رہتے ہیں۔ شیام لال ادیب دس برس تک ٹائمز آف انڈیا کے ایڈیٹر رہے اور اپنے دور میں ٹائمز آف انڈیا کی ایک الگ شناخت بنائی اور اسے اعتبار بخشا۔‘‘
اب شیام لال جیسے ادیب کہاں، اب تو انگریزی کے ادیب اور مدیر اردو والوں کو ایک آنکھ بھی نہیں بھاتے۔ اسی طرح مجتبیٰ حسین نے ملک راج آنند جیسے انگریزی کے بڑے ادیب کے حوالے سے بہت ہی اہم ا نکشاف کیا ہے۔ جس سے شاید بہت کم لوگ واقف ہوں:
’’امرتاپریتم کے گھر سے کچھ دوری پرکرتار سنگھ دگل سابق رکن پارلیمنٹ پنجابی کے مشہور ادیب رہتے تھے۔ انہوں نے برسوں پہلے اپنے ادبی سفر کا آغاز اردو میں افسانے لکھ کر کیا تھا۔ اسی علاقے میں انگریزی کے شہرۂ آفاق ادیب ملک راج آنند رہا کرتے تھے جو ترقی پسند تحریک کے ابتدائی علم برداروں میں تھے اور اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے بھی اپنے ادبی سفر کا آغاز اردوسے کیا تھا۔‘‘
مجتبیٰ حسین نے اس طر ح کی بہت اہم شخصیات پر خاکے لکھے ہیں۔ خاص طور پر حیدرآبادی ادیبوں اور شاعروں پر تو ان کے خاکوں کی کثرت ہے کہ بنیادی طور پر مجتبیٰ حسین نے حیدرآبادیت سے ہر جگہ رشتہ جوڑے رکھا اور یہ حیدرآبادیت بھی ان کے طنز و مزاح کا ایک خاص پہلو ہے۔ اس باب میں وہ بالکل امروہہ والوں کی طرح تھے۔ رئیس امروہوی کا بہت مشہور شعر ہے:
شکل ظاہر کچھ بھی ہو جائے وہی رہتے ہیں ہم
جائیں دنیا میں کہیں امروہوی رہتے ہیں ہم
اسی سیاق میں وحید اختر نے لکھا ہے کہ جو خصوصیت مجتبیٰ حسین کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے وہ ان کی حیدرآبادیت ہے۔یوں تو مجتبیٰ حسین نے عالمی، قومی اور مقامی مسائل پر بھی لکھا ہے لیکن انہوںنے اردو کے عصری موضوعات اور مسائل کے حوالے سے جو لکھا ہے اس پر عش عش کرنے کو جی چاہتا ہے۔ جب کہ ان مسائل پر اردو کے اخبارات و رسائل میں سینکڑوں صفحات سیاہ کئے گئے ہیں پھر بھی ذہن کی سیاہی دور کرنے میں یہ ناکام رہے۔ لیکن مجتبیٰ حسین نے بہت اختصار کے ساتھ ان مسائل پر لکھا تو ذہن کو روشنیوں اور تحرک سے بھر دیا۔ ذرا پڑھئے تو عالمانہ ، دانشورانہ اور مزاحیہ تحریروں کی خشکی اور مزاحیہ تحریروں کی شگفتگی کے ساتھ تاثیر اور تسخیر کا بھی اندازہ ہو جائے گا۔ ایک ہی طرح کے موضوعات اور مسائل پر لکھی گئی دونوں طرح کی تحریروں میں بنیادی فرق بے ساختگی اور آورد کا ہے۔ مزاحیہ تحریروں میں تاثیر اس لئے ہے کہ وہ قینچی اور گوند سے نہیں لکھی گئی ہیں بلکہ ان تحریروں میں ایک فطری ولادت کی کیفیت نظر آتی ہے اور ایسے نکتے روشن ہوتے ہیں جن کی طرف شاید ناقدین اور محققین کی نظر بھی نہیں پہنچ پاتی۔ اردو میں قاری کے بحران کے تعلق سے بہت کچھ لکھا جاتا رہا ہے۔ مدیران مجلات بھی اکثر اپنے اداریوں میں برسوں سے یہی رونا روتے رہے ہیں۔ دہلی کے ایک البیلے اور طرح دار شاعر شجاع خاور نے بھی برسوں پہلے کہا تھا :
جدھر دیکھئے اک قلم کار ہے
نہیں ہے تو قاری نہیں ہے میاں
اسی موضوع کو مجتبیٰ حسین نے مس کیا تو اس موضوع کی معنویت کو اپنے انداز بیاں سے کیسا رنگ دے دیا کہ پڑھنے کے بعد آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں اور ہم ایک لمحے کو سوچنے کے لئے مجبور ہو جاتے ہیں کہ آخر یہ المیاتی صورتحال کیوں کر پیدا ہوئی اور اس کی اصل وجہ کیا ہے۔ ’اردو کا آخری قاری‘ کے عنوان سے لکھے گئے اس طنزیہ مزاحیہ تحریر کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے:
’آپ نے اردو کیوں نہیں سیکھی؟‘
’میں پرندوں کی بولیاں سیکھنے کو ضروری نہیں سمجھتا۔‘
ایک اور شخص سے پوچھا گیا: آپ اردو جانتے ہیں؟
وہ بولا: میں اردو سیکھنا تو چاہتا تھا مگر مجھے معلوم ہوا کہ اردو بڑی میٹھی زبان ہے اور مجھے شوگر کی بیماری ہے۔ ڈاکٹروں نے میٹھی چیزوں سے پرہیز بتایا ہے۔ اس لئے اردو سے بہت دور رہتا ہوں۔
عام لوگوں سے مایوس ہو کر اردو کے شاعر و ادیب اردو کے ایک مرحوم نقاد کے بیٹے کے پاس گئے اور کہنے لگے:
بھئی تمہارے والد بزرگوار تو اردو کے پروفیسر اور نقاد تھے، وہ اردو کی بقا کے لئے ایک انجمن بھی چلاتے تھے، تم اردو ضرور جانتے ہو گے؟
نقاد کے بیٹے نے کہا: بھیا! کیوں میرے والد کی روح کو تکلیف پہنچاتے ہو۔ وہ اردو کے نقاد تھے ضرور مگر صرف اس لئے اردو کے نقاد تھے کہ انہیں کوئی دوسری زبان نہیں آتی تھی ورنہ کون اس زبان میں تنقید لکھتا۔ رہی اردو کی بقا کے لئے انجمن چلانے کی بات تو بھیا پیٹ بڑا بدکار ہے، شرافت کی زندگی گزارنے کے لئے آدمی کو بہت سے دھندے کرنے پڑتے ہیں۔ میرے والد نے صرف انجمن چلائی تھی، کسی کی جیب تو نہیں کاٹی تھی۔ اگر وہ انجمن نہ چلاتے تو میری تین بہنوں کی شادیاں اس قدر دھوم دھام سے کون کرتا؟
نقاد کے بیٹے سے پوچھا گیا: کیا تمہارے والد مرحوم نے تمہیں اردو نہیں سکھائی تھی؟
جواب ملا: میرے والد دوسروں کے لڑکوں کو اردو ضرور پڑھایا کرتے تھے لیکن ذرا سوچئے وہ خود اپنی اولاد کے ساتھ ایسی زیادتی کیسے کر سکتے تھے۔ اسی اردو سے بچنے کے لئے انہو ںنے مجھے انگلینڈ بھیجا تھا۔ میرے والد بڑے دوراندیش آدمی تھے۔ اردو کی خدمت اس ڈھنگ سے کرتے تھے کہ بھلے ہی اردو تباہ ہو جائے لیکن خاندان پر کوئی آنچ نہ آئے۔ نتیجہ میں آج ہمارا خاندان دن دونی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے اور اردو کا حشر دیکھئے کیا ہو چکا ہے؟‘
اسی مسئلہ سے جڑی ہوئی ان کی یہ تحریر بھی دیکھئے اور عبرت حاصل کیجئے کہ آج کی صارفی معاشرت میں کتاب کلچر سے ہمارا رشتہ کیوں ٹوٹتا جا رہا ہے:
’’جاپان کی آبادی تقریباً ساڑھے گیارہ کروڑ ہے اور سال بھر میں تقریباً 80 کروڑ کتابیں فروخت ہوتی ہیں۔ گویا ہر جاپانی سال بھر میں ساڑھے چھ کتابیں ضرور خریدتا ہے۔ ایک ہم ہیں کہ پڑھنے لکھنے کے معاملہ میں شہرت رکھنے کے باوجود پچھلے تین برسوں میں ہم نے کوئی کتاب نہیں خریدی۔ ہاں ادیب دوستوں کی کتابوں کے اعزازی نسخے ضرور قبول کرتے ہیں اور انہیں پڑھے بغیر ردی میں بیچ دیتے ہیں۔‘‘
مجتبیٰ حسین کی یہ تحریریں ہمیں ہنسانے سے زیادہ رلاتی ہیں۔ انہوں نے طنز ومزاح کی آڑ میں ہمارے ذہن اور ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے۔ ہمیں خوابِ گراں سے بیدار کیا ہے اور نہایت قرینے سے ہماری بے حسی پر طنز کیا ہے۔ ان کے مزاح میں مقصدیت ہے اور اسی مقصدیت نے شاید ان کے طنز و مزاح کو سنجیدہ ادبی حلقے میں بھی اعتبار عطا کیا ہے۔ ان کے طنز و مزاح سے بند ذہن کی کھڑکیاں بھی کھل جاتی ہیں اور انسانی وجود میں اضطراب اور ارتعاش کی ایک لہر سی پیدا ہو جاتی ہے۔
مجتبیٰ حسین کے مزاح میں تخیل بھی ہے اور تحیر بھی۔ ان کے طنز و مزاح میں ایک طلسماتی اثر ہے، ایک سحر ہے جس میں قاری کھو سا جاتا ہے اور شاید یہی تسخیری قوت تھی جس کی وجہ سے میں علی گڑھ کے زمانۂ طالب علمی سے ہی مجتبائی مزاح کا قتیل رہا۔اور انہی تحریروں کا اثر تھا کہ میں نے بھی بعد میں کالم نگاری کا سلسلہ شروع کیا اور ہندوستان کے مقبول عام ہفت روزہ ’نئی دنیا‘ میں میرا کالم بھی ’تکلف برطرف‘ کے اسی عنوان سے شائع ہونے لگا جس عنوان سے مجتبیٰ حسین کی کتاب 1968ء میں اس وقت شائع ہوگئی تھی جب کہ میرے وجود کی اشاعت کو کئی برس باقی تھے ۔ بعد میںمیرے سیاسی، سماجی، ا دبی کالموں کا یہ مجموعہ ’تکلف برطرف‘ کے عنوان سے ہی شائع ہوا تو میں نے اپنے مقدمے میں ان کے کتاب کے عنوان پر شبخون مارنے کا اعتراف کیا اور یہ کتاب مجتبیٰ حسین کی خدمت میں پیش کی تو انہوں نے از راہ شفقت و محبت روزنامہ ’سیاست ‘حیدرآباد کے 13؍فروری؍2005 ء کے شمارے میں میرے حوالے سے ایک کالم لکھا جس میں مجھ ناچیز کی بڑی ہمت افزائی کی۔ یہ ان کی نوازش کرم عنایت ہے کہ انہوں نے مجھ جیسے نو آموز اور نومشق کالم نگار کی کاوشوں کو سراہا اور محبت میں مبالغہ کرتے ہوئے یہ بھی لکھ دیا کہ’’ وہ ہمارے محبوب ادیب ہیں اور صاحبِ طرز کالم نگار ہیں۔‘‘ اگر خود نمائی پر محمول نہ کیا جائے تو ان کا یہ اقتباس پیش کرنے کی جرأت کروں جو انہوں نے اس کمترین کالم نگار کے تعلق سے لکھا ہے:
’’حقانی القاسمی اپنے منفرد لب و لہجہ اور اچھوتے اسلوب کے ذریعہ پہچانے جاتے ہیں۔ ان کا مطالعہ نہایت وسیع اور زبان و بیان پر انہیں گہری قدرت حاصل ہے۔ نہ صرف اردو بلکہ عربی، فارسی اور انگریزی پر بھی وہ یکساں عبور رکھتے ہیں۔ ان کے پاس لفظوں کا ایک وافر ذخیرہ ہے اور وہ ہر لفظ کو حسب موقع اور حسب ضرورت استعمال کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریر میں ہر لفظ نگینہ کی طرح جڑا ہوا نظر آتا ہے۔ ان کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ زبان پر گہری قدرت کے باوجود وہ الفاظ کی فضول خرچی کے مرتکب نہیں ہوتے۔ یوں حقانی القاسمی ہمارے پسندیدہ کالم نگار ہیں۔‘‘
مجتبیٰ حسین کے ان محبت بھرے جملوں کے لئے میں پوری زندگی ان کا شکریہ ادا کرتا رہوں پھر بھی شکریہ ادا نہیں ہو پائے گا۔ یہ کالم اس بات کا ثبوت ہے کہ مجتبیٰ حسین صرف ظریف نہیں ہیں بلکہ باظرف بھی ہیں۔ وہ اپنے چھوٹوں کے ساتھ بھی شفقت کا معاملہ رکھتے ہیں جو ان کی بہت بڑی خوبی ہے۔ میری اور ان کی عمر میں بعد المشرقین ہے بلکہ انہی کی زبان میں کہا جائے تو وہ عمر اور تجربہ میں مجھ سے دو جنگ عظیم آگے ہیں پھر بھی انہوں نے نہ صرف میری حوصلہ افزائی کی بلکہ ہمیشہ اپنی محبتوں میں شامل رکھتے ہیں اور اکثر ٹیلیفون کے ذریعے خیریت دریافت کرتے رہتے ہیں جب کہ جو لوگ میرے ساتھ رہے اور اچانک بڑے ہوگئے وہ کبھی اتنی محبت سے نہ بات کرتے ہیں اور نہ ہی خیال رکھتے ہیں۔ مجھے ایسے وقت میں بس جون ایلیا کا ایک شعر یاد آتا ہے:
ہم کو یاروں نے یاد بھی نہ رکھا
جون یاروں کے یار تھے ہم تو
میرے لئے فخر کی بات یہ ہے کہ میں نے مجتبیٰ حسین کو نہ صرف دیکھا ہے بلکہ ان سے اکثر مکتبہ جامعہ کے سابق منیجر اور کتاب نما کے مدیر شاہد علی خاں کے مکتبہ میں ملاقات بھی ہوتی رہی ہے۔ مجتبیٰ حسین نے خود ہی لکھا ہے کہ ’’جب بھی ہم دہلی میں ہوتے ہیں تو ہر اتوار کی شام شاہد علی خان سے ملنے مکتبہ جامعہ ضرور جاتے ہیں۔ اسے آپ حقانی القاسمی کی محبت نہ کہیں تو اور کیا کہیں گے کہ وہ ہم سے ملنے کے لئے شاہد علی خان صاحب کے پاس ضرور آجاتے ہیں۔‘‘
میرے لئے خوشی کی بات یہ ہے کہ جن کی تحریروں سے ملاقات کا سلسلہ علی گڑھ میں شروع ہوا تھا اور میں مدتوں سے جن سے ملنے کا متمنی اور مشتاق تھااس شخصیت سے میری ملاقات کی آرزو دہلی میں آکر پوری ہوئی۔ علی گڑھ میں ملاقات ہوتی تو شاید یہ برمحل اور موزوں نہ ہوتی کیو ںکہ وہاں بہت بلند بالا اور قدآور شخصیتیں ضرور تھیں مگر قطب مینار جیسی کوئی بلند عمارت نہیں تھی اور شاید مجتبیٰ حسین جیسے طنز و مزاح کے قطب مینار سے اسی دہلی میں ملنا مقدر میں لکھا تھا جہاں سے اس بلند بالا مینار کا رشتہ ہے۔
Cell:9891726444
E-mail:[email protected]
پروفیسرتوقیراحمدخاں
سابق صدرشعبہ اردو، دہلی یونیورسٹی، دہلی
یہ’بانگ درا‘ کی نظم ہے جو کتاب کے حصہ سوم میں شامل ہے۔ اس نظم میں حق اور باطل کے فرق کو واضح کیاگیاہے اور بتایاگیا ہے کہ حق،باطن اور پوشیدہ ہے ہمیشہ رہنے والا ہے جب کہ باطل ظاہر اورموجودتوہے مگر فناہونے والا ہے اس نظم میں پانچ تلمیحات ہیں۔
اوّل یہ کہ یہ شعر ایران کے شاعر رضی دانش مشہدی کے شعرپر تضمین ہے۔ یہ ایران کے شہرمشہد کا رہنے والاتھا۔
’عہد شاہجہانی میں اپنے باپ کے ساتھ ہندوستان آیا۔ بادشاہ کی خدمت میں ایک قصیدہ لکھ کر پیش کیا، جس کا مطلع تھا:
بخواں بلند کہ تفسیر آیۂ کرم است
خطے کہ از کفِ مبارکش پیداست
شاہجہاں نے خوش ہوکر دوہزار روپے کاانعام دیا۔ کچھ عرصہ بعد بادشاہ کو چھوڑ کر اس نے داراشکوہ کی ملازمت اختیارکرلی۔ اس عقل مند شہزادہ نے اس کوایک شعر پرایک لاکھ روپے انعام دیا:
تاک را سرسبز کن اے ابر نیساں در بہار
قطرئہ تامی تواند شد چرا گوہر شود ‘
(یوسف سلیم چشتی، شرح بانگ درا، ص635)
دوم:کلیم طور یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام انھوں نے کوہِ طور پرتجلی خداوندی کا نظارہ کیا تھا۔ وادیٔ سینا وہ پہاڑی خطہ ہے جہاں کوہِ طور واقع ہے۔ وادیٔ سینا کے اس پہاڑ کو طورِ سینا بھی کہتے ہیں۔
سوم:آتش نمرود، نمرود بادشاہ تھا جس نے خدائی کا دعویٰ کیاتھا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جلاکر ختم کردینے کے لیے بہت بڑا الاؤ لگایاتھا لیکن اللہ کے حکم سے آگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کوجلانہ سکی اور ان کے لیے ٹھنڈی اورسلامتی والی ہوگئی۔
چہارم:ایمان خلیل، حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسا کامل یقین انھوں نے اللہ کی رضا کی خاطر گھربار چھوڑا۔ لخت جگر حضرت اسماعیل کو قربان کیا اور خود انھیں آگ میں ڈالا گیا۔ لیکن بحکم ایزد ان کوکسی قسم کا نقصان نہ پہنچا۔ یہ ایمان خلیل ہے۔
پانچویں: وادیٔ فاراں، یہ وہ وادیٔ بے آب و گیاہ ہے جہاں حضرت ابراہیم نے اپنے شیرخواربچے اوربیوی حضرت ہاجرہ کو تن تنہاچھوڑدیاتھا۔ وہ پانی کی تلاش میں صفا و مروہ پر دوڑتی تھیں آخرکار ایک دن ساراسامان خوردونوش ختم ہوگیا تو پیاس کی شدت سے بچہ حضرت اسماعیل نے تڑپ کر زمین پرایڑیاں رگڑدیں جن کی رگڑ سے اللہ تعالیٰ نے میٹھے پانی کاچشمہ جاری کردیا اس کو حضرت ہاجرہ نے انگلی سے گھیرابناکر روک دیا اور کہا زم زم تھم جا تھم جا وہ آب زم آج تک جاری وساری ہے۔
نظم کا مطلب یہ ہے کہ ایک دن اقبال نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا کہ آتشِ کفریعنی نمرود کی آگ تو آج بھی ہرجگہ موجود ہے اورخوب تیزی سے بھڑک رہی ہے لیکن تونے جو تجلی خداوندی کی روشنی دیکھی تھی وہ نور اور اس کی جلن کیوں آنکھوں سے پنہاں ہوگئے۔ توحضرت موسیٰ نے جواب دیا کہ تو اگر مسلم ہے تو غائب کوچھوڑ کر ظاہر پرستی اور حاضرکاشیدائی نہ بن۔ اوراگر تجھ کو حاضر و موجودات کاذوق ہے توپھر اس کا مقابلہ کرنے کے لیے حضرت ابراہیمؑ جیساایمان بھی پیدا کر۔ ورنہ حاضروموجود کی آگ تجھے جلاکر راکھ کردے گی۔ اوراگر توغائب کادیوانہ ہے تو شریعت کی پابندی کراور ظاہری شعلوں کی کچھ پرواہ نہ کر اوروادیٔ فاران میں حضرت ہاجرہ کی طرح خیمہ گاڑدے اور رحمت ِخداوندی کا انتظار کر۔ کیوں کہ ظاہرداری اورحاضر کی شان وشوکت عارضی ہے یہ اہل کفر کی علامات میں سے ہے وہی بت گرامی وبت پرستی کرتے ہیں، حاضر وموجود کی عبادت کرتے ہیں۔ اور غائب یعنی جو نگاہوں سے پوشیدہ ہے وہ ذات خداوندی ہے۔ حق و صداقت ہے وہ ہمیشہ باقی رہنے والی ہے اور اس حقیقت کوراہِ محبت میں ایسا تعلق ہے جیسا جان اور تن کا ربط یعنی محبت سے یہ یقین اور کامل ہوجاتاہے کہ روح باقی رہنے والی شئے ہے نورانی وبراقی ہے اورجسم ختم ہونے والا ہے یعنی حاضر اورظاہر ہے مٹی کے اصنام کی طرح۔ تواے اقبال توظاہر وباطل کو چھوڑ کر باطن اور غائب پرایمان لا۔ شعلہ نمرود اگر دنیا میں بھڑک رہاہے تواس کی کچھ پروا نہ کر کیوں کہ وہ ایک دن خود بخود ٹھنڈا ہوجائے گا جس طرح شمع انجمن میں اپنے آپ کو جلاتی تو ہے لیکن رفتہ رفتہ اپنے وجود کوختم کردیتی ہے اس لیے ہمارانور چقماق پتھر کی طرح نظروں سے پوشیدہ ہی رہنے میںبہترہے۔ یعنی ایمان بالغیب ہی میں عافیت ہے وہی اصل شئے ہے جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایاہے :’ہدی للمتقین الذین یومنون بالغیب ویقیمون الصَّلوٰۃ وممارزقنھم ینفقون۔‘گویا ہدایت ان کے لیے جو غائب پرایمان لاتے ہیںنماز ادا کرتے اور جو کچھ اللہ نے دیاہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
اقبال ایک ایساحیران کن شاعر ہے کہ شعرائے عالم کے برخلاف ان کے یہاں دو متضاد قوتیں یا دھاریں (Streams)ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ مثلاً خدا اور شیطان، حب الوطنی وقوم پرستی، فرداورملت، ذات اورجماعت، عمل اور سکون، خلوت اور جلوت، کفر اور ایمان، مومن وکافر، تقدیر اورتدبیر، جسم اور روح،ظاہر اورباطن وغیرہ کلام اقبال سے ان میں سے ایک ایک کا تجزیہ کرناچاہیں گے تومحسوس ہوگا کہ اقبال ہرایک کی تعریف میں ثنا خوں ہیں۔ بالکل اسی طرح اقبال جس طرح سے جسمانی طاقت، جہدوعمل اور ظاہری قوت کے طرف دارہیں اسی طرح وہ روحانی قدرت، باطنی خصوصیات اورکشف و کرامات کے بھی مبلغ ہیں۔ وہ بار بار یادلاتے ہیں کہ مسلمان کاجسم تو باقی ہے مگراس کی روح نکل چکی ہے۔ روحانی مراتب کے لیے ان کے یہاں تصوف کے مراتب کی طرح ولی، ابدال اور قطب وغیرہ کی مانند مسلمان کی ہیئت کے لیے مومن، مردمومن، فقیر اور درویش یا قلندر کی اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں۔ مسلمان یعنی خدا کا نائب یافی الارض خلیفہ بننے کے لیے پہلا درجہ مومن کا ہے۔ مومن یا مسلمان کون ہے اس کی تعریف اس طرح کرتے ہیں:
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
پھربتاتے ہیں کہ مومن کون ہے اورکون شخص مومن کہلانے کا مستحق ہے:
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
ہمسایۂ جبریل امیں بندئہ خاکی
ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشان
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے
دنیا میں بھی میزان قیامت میں بھی میزان
مومن کے معنی امن والا یا insuredکے ہیں وہ اللہ کے دین حق کی خدمت واشاعت کے لیے وقف ہے۔ وہ غارت گرباطل ہے اور تھا مگر اب وہ جذبہ ناپید ہے:
تیری نگاہ سے دل سینوں میں کانپتے تھے
کھویا گیا ہے تیرا جذب قلندرانہ
وہ سجدہ روح زمیں جس سے کانپ جاتی تھی
اسی کو آج ترستے ہیں منبر و محراب
اس جذبہ قلندرانہ اورروحانی تعلق سے وہ آج عاری ہوچکاہے۔
محبت کا جنوں باقی نہیں ہے
مسلمانوں میں خوں باقی نہیں ہے
صفیں کج دل پریشاں سجدہ بے ذوق
کہ جذب اندروں باقی نہیں ہے
ایمان کی صفت اختیار کرنے کے بعد اگلاقدم فقر کاہے یعنی مومن فقیر کے مرتبہ کو پہنچتا ہے۔ فقرکیاہے اس کی تعریف کرتے ہوئے سمجھاتے ہیں:
اک فقر سکھاتا ہے صیاد کو نخچری
اک فقر سے کھلتے ہیں اسرار جہاں گیری
اک فقرہ سے مٹی قوموں میں مسکینی و دل گیری
اک فقر سے مٹّی میں خاصیتِ اکسیری
اک فقر ہے شبّیری اس فقر میں ہے میری
میراثِ مسلمانی سرمایۂ شبّیری
کمال ترک نہیں آب و گل سے مہجوری
کمال ترک ہے تسخیر و نوری
میں اسے فقر سے اے اہل حلقہ باز آیا
تمہارا فقر ہے بے دولتی و رنجوری
جب مومن فقر کی حقیقت سے آگاہ ہوجاتاہے تواس کی نگاہوں میں اسرار جہاں گیری یعنی پوشیدہ رازنمایاں ہوجاتے ہیںاور وہ اس فقر کی بدولت صفات جہاں گیری کا حامل ہوجاتاہے:
یہ فقر مرد مسلماں نے کھو دیا جب سے
رہی نہ دولت سلمانی و سلیمانی
نہ مومن ہے نہ مومن کی اسیری
رہا صوفی گئی روشن ضمیری
خدا سے پھر وہی قلب و نظر مانگ
نہیں ممکن امیری بے فقیری
یہ ذکر نیم شبی یہ مراقبے یہ سرور
تری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں
خرد نے کہہ بھی لاالٰہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
l اقبال کی شاعری میں شاہین کی علامت بہت زیادہ استعمال ہوئی ہے۔ علی گڑھ میں فلسفہ کے پروفیسر ظفراحمد صدیقی کے نام ایک خط میں انھوں نے بتایا کہ شاہین کااستعارہ محض شاعرانہ نہیں ہے بلکہ اس جانور میں اسلامی فقر کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ اوّل یہ کہ ’خودداراورغیرت مندہے اور ماراہواشکار نہیں کھاتا۔‘ مرد مومن بھی مالِ حرام کو نہیں چھوتا محنت سے کماتاہے اور پھرکھاتاہے۔
l دوم یہ کہ ’خلوت پسندہے۔‘ اللہ والے بھی تنہائی میں بیٹھ کر یادِالٰہی کاذکر کرتے ہیں۔
l سوم یہ کہ ’تیزنگاہ ہے‘ مردمومن کی نگاہ بھی تیزہوتی ہے بعیداز فہم چیزوں کو بھی دیکھ لیتا ہے۔
l چہارم یہ کہ ’بلندپرواز ہے‘ مردمومن کی پرواز بھی بلند ہے۔ اس کی فہم و فراست آسمانوں پر کمندڈالتی ہے۔ کائنات کاکوئی کونہ اس کی پہنچ سے باہرنہیں۔
l اورپانچویں یہ کہ ’وہ بے تعلق ہے آشیانہ نہیں بناتا‘ اس طرح مرد مومن بھی دنیا میں رہنے کے لیے نہیں آیا اس کا ٹھکانہ چرخ نیل فام سے بھی اوپرہے:
پرے ہے چرخ نیل فام سے منزل مسلماں کی
یہ صوفی یافقیر یہ درجہ دوم تھا۔ اس کے بعد مسلمانیت کی آخری منزل آتی ہے جس میں مومن کائنات میں نہیں بلکہ مومن میں کائنات نظرآتی ہے۔ جب بندہ دوعالم سے بے نیاز ہوجاتاہے تویہ دنیااس کی ٹھوکروں میں آن گرتی ہے:
یہ غازی یہ تیرے پُراسرار بندے
جنھیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ اُن کی ہیبت سے رائی
دو عالم سے کرتی ہے بے گانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق
جب مومن الٰہیانہ صفات کا حامل ہوجاتاہے تو کائنات اس کے اشارہ پرچلنے لگتی ہے۔ اقبال نے اسرارخودی میں بوعلی شاہ قلندر کے ایک مرید کا قصہ رقم کیا ہے کہ ان کاایک مرید دہلی گھومنے آیا اورنیچے سرجھکائے مراقبہ کے عالم میں چلاجارہاتھا یہاں بادشاہ کی سواری نکل رہی تھی۔ چوب دار نے آواز دی کہ راستہ چھوڑ دو سواری نکل رہی ہے۔ وہ نہ سمجھا کہ کیسی سواری ۔ اس پرچوب دار نے اس کے سر پر ڈنڈا ماراجس سے اس کا سر پھوٹ گیاخون بہہ نکلا وہ خون بہتاسرلے کر الٹے پاؤں اپنے پیر کے پاس پہنچا اور پھوٹا ہوا سر ان کی گود میں رکھ دیا۔ قلندر کوجلال آگیا اورکہا کہ بادشاہ کاتختہ پلٹ دیاجائے گا۔ یہ خبردہلی پہنچی تو بادشاہ اجلاس میں تھا۔ تھرتھر کانپنے لگا اور چہرہ زرد پڑگیا۔ پھر اُس نے قرآن پڑھنے کو کہا توقاری نے ألابذکراللّٰہ تطمئن القلوب پڑھی۔ اس بادشاہ کوذراہوش آیا تو انھوں نے امیر خسرو کومعافی نامہ لے کر پانی پت بھیجا اور اس طرح اس کی خطامعاف ہوئی۔
نہ تاج و تخت میں نے لشکر و سپاہ میں ہے
جو بات مرد قلندر کی بارگاہ میں ہے
جب مردمومن درویشی یا قلندری کے درجہ کوپہنچ جاتاہے تواس کی رضارضائے الٰہی میں شامل ہوجاتی ہے۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ اپناسارا اثاثہ حضورِ رسالت مآبؐ میں لے آئے تو وحی نازل ہوئی کہ پوچھو ہمارابندہ کیاچاہتاہے۔ اقبال نے لکھاہے:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
یہ وہ مقام اورمرتبہ ہے کہ مٹی کے بسترپرلیٹنے والاروزوشب کی گردش کوتبدیل کردیتا ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علیؓ سے ٹیک لگاکر سوگئے عصر کا وقت تھا سورج غروب ہوگیا۔ حضرت علیؓ کے آنسو ٹپکے تورسول خدا نے پوچھا کیاہوا تو انھوں نے بتایا کہ عصر کی نماز نہیں پڑھی اور سورج غروب ہوگیاتو رسولِ خدا نے دعاکی کہ اے اللہ اس کی نماز اداہوجائے عصرکاوقت دوبارہ پیداکرتوسورج مغرب سے دوبارہ واپس آگیا اورعصرکا وقت ہوگیا پھرحضرت علیؓ نے نمازادا کی:
مہر و مہ و انجم کا محاسب ہے قلندر
ایام کا مرکب نہیں راکب ہے قلندر
علامہ اقبال کہتے ہیں:
یقیں پیدا کر اے غافل یقیں سے ہاتھ آتی ہے
وہ درویشی کہ جس کے سامنے جھکتی ہے فغفوری
خودی کی جلوتوں میں مصطفائی
خودی کو خلوتوں میں کبریائی
زمین و آسماں کرسی و عرش
خودی کی زد میں ہے ساری خدائی
¡¡
نایاب حسن
قرآن کریم کاایک پہلو علمی ہے کہ اس کے ظاہری الفاظ و تعبیرات سے علوم و فنون کے مختلف پہلووں پر استدلال کیا جائے اور اس کا دوسرا پہلو خالص عملی اور انسان کی اجتماعی و انفرادی زندگی سے وابستہ ہے،قرآن کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ ایک دائمی معجزہ ہے،جو ہمارے نبی پاکﷺکو دیاگیا تھااورتب کی فصیح و بلیغ عربی قوم سے لے کر آج تک کوئی بھی انسانی فردیا جماعت اس کی ایک آیت کا بھی مقابل ومماثل نہ پیش کر سکی۔آپ ؐسے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو لاٹھی کا معجزہ دیا گیا تھا ،کہ اس کو پتھر پر مارنے سے نہر جاری ہوجاتی یا اسے زمین پر پٹکتے تو وہ سانپ کی شکل اختیار کرلیتی،اسی طرح حضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھوں میں لوہا موم ہوجایاکرتاتھا ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہ معجزہ عطا کیا گیا تھا کہ وہ بیماروں پر ہاتھ پھیردیتے ،تو وہ صحت مند ہوجاتے یا مردہ ان کے حکم سے زندہ ہوجاتا؛ لیکن آخری پیغمبر حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم کاخالص علمی معجزہ دیا گیا ، یہ معجزہ قیامت تک کے لیے ہے ؛کیونکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر انبیا کا سلسلہ ختم کردیا گیا،آپ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے، آپؐ کے ذریعے لایاگیا دین قیامت تک کے لیے ہے؛اس لیے آپ کا یہ معجزہ بھی قیامت تک کے لیے ہے، یہی وجہ ہے کہ آج چودہ صدی کے بعد بھی قرآن کی تعلیمات تازہ ہیں اور قرآن نے جوحقائق بیان کردیے ہیں، وہ حرف بہ حرف سچ ہیں۔ سائنس داں اورمحققین صدیوں کی ریسرچ اور کھوج کے بعد آج جو باتیں بیان کررہے ہیں ، ان میں سے بہت سی باتیں قرآن چودہ صدی قبل ہی بیان کرچکاہے ۔
قرآن پاک کی اسی ابدیت وجامعیت کے پیش نظر اس کے معارف و نکات کی تشریح و تفسیر پر اب تک دنیا بھرکی سیکڑوں زبانوں میں ہزاروں کتابیں لکھی جاچکی ہیں اوریہ سلسلہ تاہنوز جاری و ساری ہے،ماہرینِ علوم و فنون نے مختلف حوالوں سے قرآن کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا اور اس سمندر سے علم و فکر کے رنگا رنگ موتی نکالے ہیں۔ہندوستان کو اس حوالے سے ایک طرح کا امتیاز حاصل ہے کہ یہاں مختلف زمانوں میں بے شمار تراجمِ قرآن لکھے گئے،تفسیریں لکھی گئیں اور قرآن پاک کی توضیح و تبیین پر علماومفکرین کی ایک بڑی جماعت نے اپنا علمی،ذہنی و فکری سرمایہ صرف کیا۔
اِس وقت ہمارے پیش نظر پروفیسر غلام یحیٰ انجم صاحب کی مرتب کردہ کتاب’’قرآن کریم کے ہندوستانی تراجم و تفاسیر کا اجمالی جائزہ‘‘ہے، جس میں شروع سے لے کر اب تک ہندوستان بھر میں قرآنیات پر ہونے والے کام کا تحقیقی جائزہ لینے کی قابلِ قدر کوشش کی گئی ہے۔پروفیسر صاحب معاصر علمی حلقے میں خاصے متعارف ہیں ،جامعہ ہمدرددہلی میں شعبۂ اسلامک اسٹڈیز کے سربراہ اور بیس سے زائد مختلف علمی و تحقیقی کتابو ں کے مصنف و مرتب ہیں۔زیر نظر کتاب بھی ان کی غیر معمولی محنت و کاوش ، دقت نظری وبصیرت مندی کا نمونہ ہے،اس کتاب میں انھوں نے ہندوستان میں عربی و اردو کے علاوہ تیلگو، بنگلہ، سنسکرت، گورمکھی،کنڑ،سندھی،کشمیری،گجراتی،ہندی،انگریزی وغیرہ زبانوں میں ہونے والے قرآن کریم کے تراجم و تفاسیر کا تعارف پیش کیاہے،ان کے تعارف میں انھوں نے بلا تفریق تمام مسالک و مکاتبِ فکر کے علماکے ذریعے لکھی گئی کتابوں کو پیش نظررکھاہے،مسلمانوں کے علاوہ عیسائی اور قادیانی تراجم و تفاسیرِ قرآن بھی مؤلف کے زیر تذکرہ آئے ہیں۔کتاب کے مشمولات کی جامعیت و ہمہ گیریت کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے شروع سے اب تک قرآنیات پر ہونے والے کاموں کا تقریباً احاطہ کرلیا ہے اوران کی یہ کتاب ہندوستان میں قرآنیات کی تفہیم،تفسیر و تحقیق کے تعلق سے ایک بہترین انسائیکلوپیڈیا قراردیے جانے کے لائق ہے۔
کتاب کا آغازترتیب وار پانچ تقریظوں سے ہوا ہے،ان سے قبل مؤلف نے اپنے ابتدائیہ میں کتاب کی تالیف کے تعلق سے اپنی محنت،متعلقہ موضوع کی وقعت و گیرائی اور اس کتاب کے مشمولات پر مختصر گفتگو کی ہے۔مقدمہ میں مؤلف نے قرآن اور تفہیمِ قرآن کے تعلق سے مختلف علمی پہلووں پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے،سوصفحات میں پھیلا ہوا یہ مقدمہ علوم القرآن پر مؤلف کے درک و بصیرت کا آئینہ دار ہے اور قرآنِ کریم کے طالبِ علم کے لیے اس میں سیکھنے کے بہت سے پہلو ہیں،اس مقدمے میں فاضل مؤلف نے وحی کی اقسام،نزولِ قرآن کے مراحل،قرآن کریم کے نام،تلاوتِ قرآن کے آداب، ترجمہ، تفسیر، تاویل کی تعریف وتشریح،مفسرین کے طبقات ،مختلف زمانی مراحل میں لکھی جانے والی اہم تفاسیر کی نشان دہی اور ہندوستان میں تفسیر نویسی کے آغاز پر نہایت پر مغز اور علم ریز گفتگو کی ہے۔صفحہ نمبر۱۷۱؍سے اصل کتاب شروع ہوتی ہے،مختلف مرکزی عناوین کے تحت کتابوں کا تعارف پیش کیاگیا ہے،پہلا عنوان ہے ’’قرآن کریم کی ہندوستانی تفاسیر‘‘دوسرا عنوان ہے’’قرآن کریم کے بعض اجزاکی تفاسیر‘‘تیسراعنوان ہے ’’قرآن کریم کے اردوفارسی تراجم‘‘چوتھا عنوان ہے’’قرآن کریم کے منظوم تراجم و تفاسیر‘‘چھٹا عنوان ہے’’قرآن کریم کی آیاتِ احکام کی تفاسیر‘‘اس کے تحت بارہ کتابوں کا ذکر ہے،ساتواں عنوان ہے ’’تفاسیر قرآن کریم کی ہندوستانی شروح و حواشی اور تعلیقات‘‘اس کے تحت مختلف تفاسیر قرآن کی سو ہندوستانی شروح،حواشی وتعلیقات کا تعارف پیش کیا گیا ہے،آٹھواں عنوان ہے’’شیعی علماکے تراجم و تفاسیر‘‘اس کے تحت مختلف دور میں شیعی علماکے ذریعے کے کیے گئے ڈیڑھ سو سے زائد تراجم و تفاسیرِ قرآن کا ذکر ہے،نواں عنوان ہے’’قرآن کی موضوعی تفاسیر‘‘اس کے تحت آٹھ کتابوں کا تذکرہ ہے،دسواں عنوان ہے’’قرآن کریم کے قادیانی تراجم و تفاسیر‘‘اس کے تحت پندرہ کتابوں کا تعارف ہے،’’گیارہواں عنوان ہے’’عیسائی علماکے قرآنی تراجم‘‘اس کے تحت پانچ تراجمِ قرآنی اوران کے عیسائی مترجم کے نام نقل کیے گئے ہیں،بارہواں عنوان ہے’’قرآن کریم کے مختلف زبانوں میں تراجم‘‘جس میں مختلف زبانوں میں کیے گئے بہت سے تراجمِ قرآنی کا ذکر ہے ۔ تعارف میں عام طورپر زیر تذکرہ کتاب کا سن تالیف،مختصر تعارف،بعض مفسرین کے علمی مقام و مرتبہ کی تعیین اورکہیں کہیں نمونۂ ترجمہ و تفسیربھی درج کردیاگیا ہے، مؤلف نے حتی الامکان کوشش کی ہے کہ جس تفسیریا ترجمے کا ذکر کریں ،توساتھ میں کتاب اور صاحبِ کتاب کا مختصر تعارف بھی کرادیں،مگر اس کے باوجود بہت سی ایسی تفاسیر اور ترجمے رہ گئے،جن کے بارے میں مؤلف کوصرف کتاب اور مصنف کے نام کا پتا چل سکاہے،بہر کیف مجموعی طورپر یہ ایک غیر معمولی اہمیت کی حامل کتاب ہے اور اس سے ہندوستان میں(ماقبل ومابعدآزادی) گزشتہ سیکڑوں سال کے دوران قرآنیات پر ہونے والے کاموں کاایک خوب صورت خاکہ سامنے آجاتا ہے۔
بہت سی خوبیوں کے ساتھ اس کتاب میں بعض خامیاں بھی ہیں،حالاں کہ فی الجملہ کتاب کے اسلوب میں سلاست ووضاحت ہے،مگربعض جگہ زبان و بیان پیچیدہ ہوگیا ہے،کئی مقامات پر ایک کتاب کے تعارف کے دوران دوالگ الگ مراجع کے حوالے سے ایک ہی بات مکرر لکھی گئی ہے،صفحہ نمبر۲۸۵پر ’’اردوتفاسیر‘‘کے حوالے سے مولانایحی کاندھلوی سے منسوب تفسیر’’الکوکب الدری‘‘کا ذکرآیاہے،حالاں کہ ’’الکوکب الدری‘‘مولانا کی تفسیر نہیں ؛بلکہ عربی زبان میں سنن ترمذی کا نوٹ ہے،جسے بعد میں ان کے صاحبزادے مولانامحمد زکریاکاندھلوی نے اپنے حاشیے کے ساتھ دوجلدوں میں شائع کروایا ہے اور علم حدیث سے وابستگی رکھنے والے حلقوں میں مقبول و متداول ہے۔علی گڑھ سے ایک علمی و تحقیقی رسالہ’’تحقیقاتِ اسلامی‘‘کے نام سے جولائی ۱۹۸۲ء سے شائع ہورہاہے،اس کے موجودہ مدیر مولانا سید جلال الدین عمری اور معاون مدیرڈاکٹر رضی الاسلام ندوی ہیں،مؤلفِ محترم نے مولانا امین احسن اصلاحی کی تفسیر’’تدبرقرآن‘‘کا تعارف کراتے ہوئے اس رسالے میں شائع شدہ خورشید حسن رضوی کے مضمون کے حوالے سے تدبرقرآن کا تفسیری نمونہ پیش کیا ہے،مگر رسالے کانام وہ صفحہ نمبر۱۸۹؍پر’’تحقیقات‘‘اور اگلے صفحے پر’’سہ ماہی تعلیمات‘‘لکھ گئے ہیں،ظاہر ہے ایک تحقیقی تالیف میں اس قسم کی غلطی نظر انداز نہیں کی جاسکتی ،اسی طرح قرآن کریم کی آیتوں کی تعداد صفحہ نمبر۷۲؍پرچھ ہزار دوسوپچاسی لکھی ہے،جبکہ صفحہ نمبر۱۰۲؍پرچھ ہزار چھ سوچھیاسٹھ،حالاں کہ دوسری تعداد ہی زیادہ مشہور ہے،مگر فاضل مؤلف کو اپنی تحقیق کے مطابق کسی ایک ہی راجح تعداد کا ذکرکرنا تھا۔کئی جگہ عربی عبارتیں غلط املا میں لکھی گئی ہیں،جو یقیناً کمپوزنگ کی غلطیاں ہیں،مگر ان کی تصحیح ہونی چاہیے تھی،کئی اردو الفاظ بھی غلط کمپوزہوگئے ہیں،امید ہے کہ آیندہ ایڈیشن میں ان کی اصلاح کرلی جائے گی۔
بہر کیف پروفیسر غلام یحی انجم کی یہ کتاب ہندوستان میں علومِ قرآنی پر ہونے والے کاموں کا بھرپوراحاطہ کرتی ہے اور غالباً اردو زبان میں اپنی نوعیت کی یہ منفرد کتاب ہوگی،جس میں مختلف ادوارمیں مختلف طبقات ومکاتبِ فکر کے علماکے ذریعے کیے گئے قرآن پاک کے تراجم ،تفاسیرکا جامعیت کے ساتھ جائزہ پیش کیا گیاہے۔کتاب کی طباعت قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ذریعے ۲۰۱۷ء میں ہوئی ہے ،طباعت معیاری،دیدہ زیب اور خوب صورت ہے، ۶۰۰؍سے زائد صفحات پر مشتمل اس گراں قدر کتاب کی قیمت۲۶۰؍روپے نہایت مناسب ہے۔ امید ہے کہ موصوف کی یہ کتاب قرآنیات سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے گنجِ گراں مایہ اور آیندہ اس موضوع پر کام کرنے والوں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوگی۔