بحیثیت طالب علم ہمیشہ یہ جاننے کا خواہاں رہا کہ مسلم لیڈرشپ کے زمرے میں کون لوگ آتے ہیں۔ انتخابات میں حصہ لینے والے خواتین و حضرات ؟ سیاسی پارٹیوں سے وابستہ سرگرم افراد ؟ مسلمانوں کے مسائل کو لے کراٹھنے والے داڑھی ٹوپی والے علما و غیر علما جو کبھی
مکمل سنجیدگی دیانتداری دانشمندی کے ساتھ اور کبھی دانستہ غیر دانستہ غلط سمت میں عوام کو لے جاتے ہیں، کبھی مخلصانہ کوشش تو کبھی مصلحت کی دبیز چادر میں لپیٹ کر غلط اقدام کرتے ہیں ؟ یا روشن خیال عصری دانش گاہوں کے اعلی تعلیم یافتہ ؟ یا مسلم معاشرے میں موجود ذہین اور انگریزی میں زبان و قلم سے راۓ عامہ ہموار کرنے کی صلاحیت رکھنے والے؟ یا موجودہ اور سابق ججز، وکلا اور پولیٹکل سائنس کے پروفیسرز؟ یا سیاسی تجزیہ نگار خواتین و حضرات ؟ یا مسلم ریٹائرڈ وائس چانسلرز ، بیورو کریٹس اور ایلیٹس ؟
ہر بار ہمیں ہیں ہدف سنگ ملامت
الزام کسی اور کے سر کیوں نہیں جاتے
پچھلے دنوں بابری مسجد قضیہ پر فیصلہ آنے سے عین قبل بعض سابق وائس چانسلر بیورو کریٹس وغیرہ ایک یا دو بار دہلی اور لکھنؤ کے فائیو اسٹار میں پرکٹ ہوئے اور بحیثیت کل ہند مسلم لیڈرس انلکچولس متعارف کراتے ہوئے پریس کو مخاطب کیا اور مصالحت کی تجویز رکھی۔ظاہر ہے وہ تجویز جمہور مسلم کے لئے ناقابل قبول تھی۔ اس کے بعد وہ آل انڈیا مسلم لیڈرشپ تنظیم ہوا میں محلول evaporate ہو گئی۔ کیا تنظیم کسی خاص مقصد اور متعین موضوع اور چند دن اور گھنٹے کے لئے وجود میں آتی ہے اور چند گھنٹوں میں مقصد کی برآری نہ ہو تو بوریا بستر گول کر لیتی ہے؟ بھومی پوجن ہو یا کسی بھی مذہب کو فروغ دینے کا کاریکرم اس میں حکمران وقت کی شرکت اور سرکاری مشینری کا استعمال دستور کی ان دیکھی کرنا ہے ایسا کئی سیاسی تجزیہ نگار، ماہرین دستور اور بعض غیر جانبدار صحافی لکھ رہے ہیں۔ ایسے وقت میں وہ مسلم دانشور، صحافی، تجزیہ نگار وکلا، ججز اور ماہرین پولیٹیکل سائنس وغیرہ خلوت نشینی میں عافیت سمجھتے ہوئے خاموش کیوں ہیں؟ وہ اپنی رائے اپنا تجزیہ کیوں نہیں سامنے رکھتے ہیں؟
کانگریس کے سینیئر ترجمان مسلم لیڈر شکیل صاحب نے بابری مسجد پر عدالت کے فیصلے پر کل لب کشائی کی زحمت کی ہے۔ وہ ناقابل ستائش اس لئے ہے کہ اب وہ اقتدار میں ہیں اور نہ ‘کل ہند اپوزیشن ‘ کانگریس میں رہتے ہوئے یہ بات کہی تھی۔ کاش یہ باتیں وہ کانگریس میں رہتے ہوئے کرتے ! اسی طرح کانگریس کے بعض سینیئر مسلم لیڈرس مرکزی وزیر ریاستی وزیر اور بیوروکریٹس ریٹائرمنٹ کے بعد مسلم ایشوز پر زبان کھول رہے ہیں،کتابیں لکھ رہے ہیں،کانگریس کی کرتوتوں کو سیکولرزم کے چہرے پر بدنما داغ کہ رہے ہیں، ان کی آرا کی مصداقیت اس لئے مشکوک ہے کہ جب وہ کہنے کی صلاحیت رکھتے تھے پارٹی کے اقدامات پر مؤثر ہو سکتے تھے اس وقت وہ چپ رہے۔
مسلم دانشوروں اور قلم کاروں کا ایک بہت بڑا طبقہ روایتی ملی قیادت پر ہمیشہ کی طرح بابری مسجد قضیہ میں بھی لعن طعن کر رہا ہے۔ روایتی ملی قیادت نے اپنی محدود صلاحیت اور دینی بیک گراؤنڈ کے باوجود قضیہ کی پیروی کے لئے بہترین وکلا کی خدمات حاصل کیں۔ اس پوری مدت میں یہ تنقید کرنے والے کہاں تھے، کیوں نہیں اپنی صلاحیت اور لیاقت کے مطابق اپنی خدمات پیش کیں؟
تنقید، تنقیص، عیب جوئی، الزام تراشی اور برہنہ گفتاری کےذریعے ملی کام نہیں ہوتا اس کے لئے عوام سے جڑنا زمینی پکڑ بنانا ہوتا ہے۔خدمت کے جذبہ کے ساتھ ساتھ کام کرنے سے متبادل وجود میں آئے گا۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)