موگا:کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے آج مودی حکومت کے کسان قانون کے خلاف پنجاب کے شہر موگا میں ٹریکٹر یاتراکی شروعات کی۔ راہل گاندھی نے ایک جلسہ عام سے بھی خطاب کیا جس میں انہوں نے مودی حکومت پر شدید حملہ کیا۔ راہل گاندھی نے کہا کہ مودی حکومت میں انگریزوں کی طرح برتاؤ کیا جارہا ہے۔ راہل نے کہا کہ اگر وہ اقتدار میں واپس آئے تو وہ کالے قانون کو کالعدم کردیں گے۔راہل گاندھی نے کہا کہ کوویڈ میں کسانوں کے لیے قانون کیوں لائے؟ اگر قانون ٹھیک ہے تو کسان کیوں احتجاج کررہے ہیں۔ کووڈ میں مودی سرکار نے بڑے تاجروں کا ٹیکس معاف کردیا ، غریبوں کو کچھ نہیں دیا۔انہوں نے مودی سرکار کو صنعتکاروں کاحمایتی قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ حکومت مودی کی ہے ، لیکن وہ امبانی اور اڈانی چلاتے ہیں،کوئی اور پردے کے پیچھے سے کٹھ پتلی چلا رہا ہے۔ انہوں نے کہاہے کہ انگریزوں نے کسانوں کی ریڑ توڑی تھی، ملک غلام رہا ، نریندر مودی کاوہی مقصد ہے، اگر ہماری حکومت بنی تو ہم اس کالے قانون کو منسوخ کردیں گے۔وزیر اعلی پنجاب امریندر سنگھ ، کانگریس جنرل سکریٹری اور پنجاب امور کے انچارج ہریش راوت ، پنجاب کانگریس کے صدر سنیل جاکھر ، ریاستی وزیر خزانہ منپریت سنگھ بادل اور دیگر لیڈران بھی اس ریلی میں شرکت کے لئے موگا پہنچے تھے۔پنجاب کے جلسے میں راہل گاندھی نے ہاتھرس گینگ ریپ کا معاملہ بھی اٹھایا۔ انہوں نے کہاکہ کل میں یوپی میں تھا ، یہاں ہندستان کی ایک بیٹی تھی جسے قتل کیا گیا تھا اور مارے جانے والے افراد کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی تھی اور جس کنبہ کی بیٹی کو مارا گیا تھا وہ اپنے گھر کے اندر بند تھا۔ڈی ایم نے انہیں دھمکی دی ، وزیراعلیٰ انہیں دھمکی دیتے ہیں ، ہندوستان کی یہی حالت ہے۔
قانون
عام کہاوت ہے کہ قانون اندھا ہوتا ہے لیکن بابری مسجد شہید کرانے میں نامزد زندہ بچے ہوئے سبھی بتیس ملزمان کو با عزت بری کرنے و الے سی بی آئی کورٹ کے اسپیشل جج ایس کے یادو نے ثابت کردیا کہ اگر قانون اندھا ہوتا ہے تو عدالتوں میں بیٹھے جج ان کی طرح بہرے ہوتے ہیں۔جنہیں چشم دید گواہان کی باتیں سنائی نہیں دیتیں۔ ایس کے یادو نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، کلیان سنگھ، اوما بھارتی، نتیہ گوپال داس اور ونئے کٹیاروغیرہ نے بابری مسجد توڑنے کے لئے کسی کو بھڑکایا نہیں تھا۔ سماج اور قانون دشمن عناصر نے مسجد توڑی تھی یہ لوگ تو گرانے والوں کو روکنے کا کام کررہے تھے۔ عدالت نے کہا کہ ملزمان کے خلاف معقول ثبوت نہیں ہے سی بی آئی نے جو آڈیو اور ویڈیو ثبوت عدالت میں پیش کئے ان کی بنیاد پر کسی کو سزا نہیں دی جاسکتی۔ جج یادو نے اپنے بہرے ہونے کا ثبوت خود ہی پیش کرتے ہوئے کہا کہ جو آڈیو سی بی آئی نے عدالت میں پیش کئے وہ صاف سنائی نہیں دیتے۔ اٹھائیس سال بعد مقدمہ کا فیصلہ آیا ہے۔ اس مقدمہ کی سماعت کے دوران تین سو اکیاون گواہوں کے بیان ہوئے جن میں سے بیشتر نے اڈوانی، جوشی اور اوما بھارتی سمیت تمام ملزمان کے خلاف ہی گواہی دی۔ اب جج صاحب بے چارے تو بہرے تھے اس لئے انہوں نے گواہان کے بیانات سنے ہی نہیں۔ ثبوت کے طور پر چھ سو سے زیادہ دستاویزی ثبوت عدالت میں پیش کئے گئے۔ ان کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا کیونکہ قانون تو اندھا ہے۔ ایودھیا پر سپریم کورٹ نے گزشتہ سال جو فیصلہ دیا تھا اس میں صاف کہا تھا کہ بابری مسجد کا توڑا جانا غیر قانونی اور ملک کے آئین اور قانون کی ربریت بھری خلاف ورزی تھی اس کے ذمہ داران کو سخت سزا دی جانے چاہیئے۔
سی بی آئی کے اسپیشل جج ایس کے یادو نے اس قسم کا فیصلہ دے کر انصاف، قانون، آئین اور عدلیہ میں یقین رکھنے والوں خصوصاً ملک کے مسلمانوں کا بھروسہ توڑا ہے۔ اگر وہ ان ملزمان کو ایک دن کی علامتی سزا سناتے ہوئے کہہ دیتے کہ یہ علامتی سزا ہے اس لئے ملزمان کو جیل بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تب بھی لوگوں کا عدلیہ میں یقین قائم ر ہتا۔ فیصلہ سنانے کے فوراً بعد جج یادو رٹائر بھی ہوگئے۔ ان کا رٹائرمنٹ تو ایک سال پہلے تیس ستمبر کو ہی ہوگیا تھا لیکن انہیں اسی فیصلےکے لئے ایک سال کی توسیع دی گئ ی تھی۔
فیصلہ آتے ہی لال کرشن اڈوانی جئے شری رام کہتے ہوئے میڈیا کے سامنے آگئے۔مرلی منوہر جوشی نے اسے ایک تاریخی فیصلہ قرار دیا ملک کے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے ’ستیم وجئتے) ٹوئٹ کرکے اپنی خوشی ظاہر کی۔ اپنی زہرلی تقاریر کے لئے بدنام رہے دو ملزمان خود کو اچاریہ بتانے والے راجستھان کے دھرمیندر اور ونئے کٹیار نے فیصلہ سننے کے فوراً بعد کہا کہ اب متھرا اور کاشی کی تحریک شروع کی جائے گی۔بی جے پی کے لوگوں نے پورے ملک میںپٹاخے داغ کر اور گھروں پر روشنی کرکے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا۔ کئی مقامات پر وشو ہندو پریشد اور وشوہندو پریشد کے لوگوں نے غیرضروری نعرہ بازی کرکے مسلمانوں کو چڑھانے اور بھڑکانے کی بھی کوششیں کں لیکن مسلمانوں نے ہوشمندی سے کام لیا اور کہیں بھی ٹکراؤ نہیں ہونے پایا۔
مسجد توڑے جانے کے سلسلے میں چھ دسمبر ۱۹۹۲ کو ہی دو مقدمات درج کرائے گئے تھے۔ ایک مقدمہ شام کو سوا پانچ بجے نا معلوم کار سیوکوں کے نام تھا تو اس کے فوراً بعد پانچ بج کر پچیس منٹ پر دوسرا مقدمہ لکھوایا گیا جس میں اڈوانی، جوشی سمیت انچاس لوگوں کو نامزد کیاگیا ساتھ ہی یہ بھی لکھا گیا کہ ان کے ساتھ ہزاروں کار سیوک بھی تھے۔ ملزمان میں اب جو بتیس بچے تھے انہیں جج ایس کے یادو نے بری کردیا ان میں لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی، ونئے کٹیار، رتمبھرا دیوی، سچانند ساکشی، برج بھوشن سنگھ، پون کمار پانڈے، ستیش پردھان، جئے بھگوان گوئل، کلیان سنگھ، رام چندر کھتری، سدھیر ککڑ، سنتوش دوبے، امرناتھ گوپال، پرکاش شرما، جئے بھان سنگھ پبیا، دھرمیندر سنگھ گوجر، رام جی گپتا، للو سنگھ، چپت رام، کملیش ترپاٹھی، گاندھی ی ادو، اوم پرکاش پانڈے، ونئے کمار رائے، وجئے بہادر سنگھ، نوین بھائی شکلا، اچاریہ دھرمیندر دیو، آر این شریواستو، رام ولاس ویدانتی، دھرم داس اور مہنت نرتیہ گوپال داس جن سترہ ملزمان کی سنوائی کے دوران موت ہوگئی ان میں وجئے رادھے سندھیا، بالا صاحب ٹھاکر، اشوک سنگھل، وشنو ہری ڈالمیا، موریشور ساٹھے، رام نارائن داس، مہا منڈلیشور، جگدیش مونی، ونود کمار وتس، لکشمی نارائن داس، رمیش پرتاپ سنگھ، ڈی وی رائے، مہنت اودیدھناتھ، بیکنٹھ لال شرما، پرم ہنس رام چندر داس، ستیش کمارناگر اور ہر گووند سنگھ۔
مسجد کی شہادت کے سلسلے میں دو کریمنل کیس درج کئے گئے تھے۔ پہلاایف آئی آر نمبر ۱۹۷ اور دوسرا ایف آئی آر نمبر ۱۹۸۔ ۱۹۷ والے ایف آئی آر میں لاکھوں کار سیوکوں کے خلاف کیس درج کیا گیا، جس میں آئی پی سی کی دفعہ ۱۵۳ اے(مذہبی بنیاد پر دشمنی پھیلانا)، ۲۹۷(قبرستان میں قبضہ کرنا)، ۳۳۲(سرکاری ملازمین کو اس کے فرائض سے ڈگمگانے کے لئے جان بوجھ کر چوٹ پہونچانا)، ۳۳۷(دوسروں کی زندگی اور نجی سلامتی کو خطرے میں ڈالنا)، ۳۳۸(زندگی خطرے میں ڈال کر سنگین چوٹ پہونچانا)، ۳۹۵(ڈکیتی) اور ۳۹۷(لوٹ پاٹ، موت کی وجہ بننے کی کوشش کے ساتھ ڈکیتی) کے تحت کیس درج کیا گیا تھا۔
ایف آئی آر نمبر ۱۹۸ میں آٹھ لوگوں کے نام تھے: لال کرشن اڈوانی، ایم اے جوشی، اوما بھارتی، ونئے کٹیار، سادھوی رتمبھرا اور وشو ہندو پریشد کے لیڈر اشوک سنگھل، گری راج کشور اور وشنو ہری ڈالمیا کا نام ہے۔ ان لوگوں کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ ۱۵۳ اے(مذہب کی بنیاد پر دشمنی پھیلانا)، ۱۵۳-بی(دنگا کرانے کے ارادے سے بھڑکا حرکتیں کرنا) اور ۵۰۵ (لوگوں کو بھڑکانے کے لئے بھڑکاؤ بیان دینے) کے تحت کیس درج کرایا گیا تھا۔
فیضان مصطفیٰ: حیدرآباد واقع نیلسار لاء یونیورسٹی کے وائس چانسلرفیضان مصطفیٰ نے بی بی سی نمائندہ دویا آریہ سے بات چیت میں کہا کہ یہ فیصلہ مایوس کن ہے اور بھارت کی کریمنل جوڈیشیل سسٹم کے لئے ایک دھکا ہے۔ انہوں نے کہا،’بی جے پی شیو سینا کے لیڈران کے اس وقت کے بیانات موجود ہیں، تب جو دھرم سنسد منعقد ہورہی تھیں، ان میں دیئے نعرےدیکھے جاسکتے ہیں، جو کارسیوک اس دن آئے تھے وہ کلہاڑی، پھاوڑے اور رسیوں سے لیس تھے، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایک سازش تھی۔ پروفیسر مصطفیٰ کہتے ہیں کہ اتنے بڑے جرم کے لئے کسی کا گناہ گار نہ پایا جانا ملک کے نظم و نسق کے لئے اچھا نہیں ہے۔ انہو ں نے کہا،’اس سے لگتا ہے کہ سی بی آئی اپنا کام ٹھیک سے نہیں کرپائی کیونکہ اتنے آڈیو، ویڈیو ثبوت اور ساڑھے تین سو سے زیادہ چشم دید گواہان کے بیانات کے باوجود ٹھوس ثبوت نہ مل پانے کی بات سمجھ نہیں آتی۔ پروفیسر مصطفیٰ کے مطابق جانچ ایجنسی اور پراسیکیوشن کا الگ الگ اور آزاد ہونا ضرور ی ہے۔ ملک کی سب سے بڑی جانچ ایجنسی، سی بی آئی ، وزارت داخلہ، بھارت سرکار کے تحت آتی ہے۔
اسد الدین اویسی : بابری مسجد گرائے جانے کے معاملے میں فیصلہ آنے کے بعد اے آئی ایم آئی ایم کے صدر لوک سبھا ممبر اسد الدین اویسی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ تاریخ کا ایک سیاہ دن ہے۔جب مجرمان کو کلین چٹ دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ آخری فیصلہ نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ آخری ہوتا ہے۔ کورٹ کے فیصلے سے متفق نہ ہونا عدالت کی توہین نہیں ہے۔ آپ ہی کی چارج شیٹ میں لکھا ہے کہ اوما بھارتی نے کہا ایک دھکا اور دو، کلیان سنگھ نے کہا تعمیر پر روک ہے توڑنے پر نہیں، یہ تاریخ کا کالا دن ہے۔ آج مجرمین کو کلین چٹ دی گئی ہے۔ سی بی آئی اپیل کرے گی یا نہیں یہی دیکھنا ہے اسے اپنی آزادی برقرار رکھنا ہے تواپیل کرنی چاہئیے۔ اگر وہ نہیں کریں گے تو ہم مسلم پرسنل لاء بورڈ سے کہیں گے کہ اس کے خلاف اپیل کریں۔ اس دن جادو ہوا تھا کیا؟ آخر کس نے یہ کیا؟ بتائیے ہماری مسجد کو کس نے شہید کیا؟ بابری مسجد کے توڑنے کے گناہ گاروں کو بے گناہ قرار دے کر پیغام دیا گیا ہے کہ کاشی متھرا میں بھی یہی کرتے چلو رول آف لاء کی فکر نہیں ہے وہ کرتے جائیں گے کلین چٹ ملتی جائے گی۔ دلتوں اور مسلمانوں کے معاملات میں انصاف نہیں ہوتا ہے پوری دنیا کے سامنے ہوا چھ دسمبر اگر کوئی کہتا ہے کہ بھول جاؤ آگے بڑھو کیسے بھول جائیں کیا پیغام دے رہے ہیں ہم فیصلے سے؟
پرشانت بھوشن: سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے بی بی سی نمائندے دتیا آریہ سے کہا اس فیصلے سے یہی مانا جائے گا کہ عدالتوں میں انصاف نہیں ہوتا ہے بس ایک بھرم رہتا ہے کہ انصاف کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہی ہونا متوقع تھا کیونکہ مسماری کے کیس میں فیصلہ آنے سے پہلے ہی زمین کے مالکانہ حق پر فیصلہ سنا دیا گیا وہ بھی اس فریق کے حق میں جو مسجد ڈھائے جانے کا ملزم تھا۔ پرشانت بھوشن کے مطابق اس سے مسلمان طبقے میں نفرت میں اضافہ ہوگا کیونکہ کوئی بھی فیصلہ انہیں اپنے حق میں نہیں لگے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مسلمان طبقہ کو دوئم درجہ کا شہری بنایا جارہا ہے۔ ان کے سامنے اس وقت اور بڑی چنوتیاں ہیں جیسے جیسے ہندو راشٹر کی تعمیر کی کوششیں ہورہی ہیں ویسے ویسے ان میں مایوسی پیدا ہورہی ہے۔
سنجئے راؤت: شیو سینا کے راجیہ سبھا ممبر سنجئے راؤت نے بابری مسجد کی شہادت معاملے میں آئے فیصلے پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے سال رام جنم بھومی معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بابری مسجد توڑنے کے معاملے کی اہمیت ہی ختم ہوگئی تھی۔ اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے انہو ںنے کہا کہ خصوصی عدالت کا یہ مقدمہ پچھلے سال آئے سپریم کورٹ کے فیصلے اور وزیراعظم کے ہاتھوں بھومی پوجن کرنے کے بعد بے معنی ہوچکا تھا۔ انہو ںنے ساتھ ہی کہا کہ اگر بابری مسجد کو نہیں ڈھایا گیا ہوتا تو ایودھیا میں رم مندر کا بھومی پوجن نہیں ہوپاتا۔ سنجئے نے کہا کہ اب ہمیں اس معاملے کو بھول جانا چاہئیے۔
پاکستان نے کہا شرمناک: اس فیصلے کے بعد پاکستان کو بھی بولنے کا موقع مل گیا۔پاکستان نے بابری مسجد گرائے جانے کے معاملے میں آئے فیصلے کی سخت مذمت کرتے ہوئے ملزمان کو بری کئے جانے کو شرمناک بتایا ہے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کرکہا ہے اگر دنیا کے مبینہ سب سے بڑے جمہوریہ میں انصاف کا تھوڑا بھی احساس ہوتا تو وہ لوگ جنہوں نےکھل کر ایک مجرمانہ حرکت کی تھی ڈینگیں ہانکی تھیں وہ بری نہیں ہوئے ہوتے۔ بیان میں اس فیصلے کو بی جے پی- آر ایس ایس کی حکومت میں ایک کمزور عدلیہ کی ایک اور مثال بتایا ہے۔ جہاں جارح ہندوتو نظریات انصاف اور بین الاقوامی اصولوں کے سبھی اصولوں پر بھاری پڑتی ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ نے لکھا ہے کہ بھارت کے سپریم کورٹ نے پچھلے سال بابری مسجد کی زمین کو انہی لوگوں کو رام مندر بنانے کے لئے دینے کا فیصلہ دے کر ایک غلط راہ دکھا دی تھی جنہو ںنے تاریخی مسجد کو گرا دیا تھا۔ اور آج کا فیصلہ اس فیصلے کے بھی خلاف ہے جس میں یہ بات درج کی گئی تھی کہ مسجد کو توڑنا انصاف اور قانون کی سخت مخالفت تھی۔ اس نے لکھا ہے کہ ایودھیا کے فیصلے سے جوش میں آکر ہندو کٹرپنتھی اب سرکار میں بیٹھے آر ایس ایس کی شہ پر متھرا میں کرشن مندر کے بغل میں و اقع شاہی عید گا ہ مسجد کو بھی ہٹانے کی کوشش کررہے ہیں۔ پاکستان نے بھارت سرکار سے اپیل کی ہے کہ وہ اقلیتوں اور خاص کر مسلمانوں اور ان کے مذہبی مقامات اور اسلامی مقامات کی سلامتی یقینی بنائیں۔ ساتھ ہی پاکستان نے عالمی برادری، اقوام متحدہ اور دیگر انٹرنیشنل تنظیموں سے بھی توقع کی ہے کہ وہ بھارت میں اسلامی دھروہروںکی حفاظت کے لئے اپنا رول نبھائیں گے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
نیازاحمدملک
یہ سوال آج خاص طور پر اس لئے درپیش ہےکہ ہم تاریخ کے نازک ترین موڑ پر آ کھڑے ہوئے ہیں جب اس ملک میں ہمارے وجود پرخطرے کے بادل منڈلا رہے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ اللہ رب العزت نے جو اس ملک میں ہزار سالہ مہلت دی تھی اب اختتام کو ہے ۔
ہم ہمیشہ سے جذباتی رہے ہیں، زمینی حقائق سے قطع نظر،حال سے بے خبر دنیا پر حکومت کا خواب دیکھتے رہے ۔
1857 کی جنگ آزادی میں بھی ہم نے حقائق کو ایک طرف رکھ کر جذبات سے جنگ لڑی،نتیجہ وہی ہوا جو ہونا تھا اس کے باوجود ہم 1947 تک اسی خوش فہمی میں رہے کہ اس ملک کے اصلی وارث ہم ہی ہیں ۔ اس سوچ کا نقصان یہ ہوا کہ ہم ہی برباد ہوئے ۔ اسی سوچ نے دو قومی نظریہ پیش کیا اور تب تک چین سے نہیں بیٹھے،جب تک ملک دو ٹکڑوں میں نہیں تقسیم ہوگیا۔ اس تقسیم نے مسلمانوں کی کمر توڑ دی اور حد تو تب ہوگئی جب اسلام کے نام پر بننے والی ریاست نسلی اور لسانی بنیادوں پر دو حصوں میں منقسم ہو گئی ۔ کیونکہ ہم جذباتی تھے ۔
پچھلے دوسو سالوں میں ہم نے مختلف نوعیت کی تحریکیں برپا کیں، مگر وہاں بھی حقیقت پسندی کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ ان تحریکات کے ایجنڈے میں عام انسان کے مسائل اور ان کی ضروریات کو کبھی ترجیحات حاصل نہیں رہیں ۔
تقریبا اسی اثنا میں مدارس کی ایک باڑھ سی آئی ۔ ان مدارس اور ان کے علما نے عوام کے حقیقی مسائل سے چشم پوشی اختیار کی، یا زمین کے نیچے یا آسمان کے اوپر کی باتیں کیں ۔ جس زمین پر زندگی گذار کر آخرت حاصل کرنا تھی،اس کے ہر مسئلے سے بے پرواہ رہے ۔ انھیں یورپ کی شراب اور ننگی ٹانگیں تو دکھیں،مگر عالم انسانیت کی زندگی بہتر بنانے میں جو اس کردار ہے ہمیشہ اسے نظر انداز کیا۔ اسی انگریز کی بنائی ہوی سواری پر سفر کرتے رہے، اسی کی ادویات استعمال کرتے رہے اوراس کی مختلف ایجادات کا استعمال تو کرتے رہے، مگر کبھی یہ غور کرنےکی توفیق نہیں ہوئی کہ ہم رحمت للعالمین کی امت ہیں اور ہمارابھی انسانیت کی فلاح میں کچھ حصہ ہوناچاہیے۔ ان مدارس سے ایسے علمانکل کر آئے جو اپنے زمانے کو نہیں جانتے ۔ اب اندازہ کیجئے یہ صورتحال کہاں لے جانے والی ہے۔
اب بھی وقت ہے اے کاش ہم حقیقت کا سامنا کریں اور سماجی اور تعلیمی ڈھانچے کو اس انداز میں ڈھال لیں کہ اس امت کو زندگی بخشنے والے لوگ پیدا ہو سکیں۔
یہ ملک مسلمانوں کے لیے سیاست کا میدان ہرگز نہیں بن سکتا،تقسیم ہند کا المیہ نہ ہوتا توشاید ممکن بھی تھا، مگرموجودہ منظرنامے میں تقریبامشکل ہےـ احادیث کے ذخیرے میں ایک مختصر اور دین کی بہت جامع تعبیر ہے ” دین خیر خواہی کا نام ہے ” مسلمان اگر خیر خواہ ہے اپنوں اور غیروں کے لئے تو دنیا کی کوئی طاقت اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ۔
تعلیم اور معیشت کے میدان میں مسلمانوں کا کیا تناسب ہے ؟علمااور لیڈران نے امت کو کس کام میں لگایا ہوا ہے؟کبھی آپ نے غور کیا کہ یہ کرسچن مشنریز کس طرح کام کرتی ہیں؟ یہ سب سے پہلے اسکول اور اسپتال بناتی ہیں؛تاکہ سماج کو یہ باور کرایا جاسکے کہ وہ انسانیت کے خیر خواہ ہیں ۔ اکثر اس کے ساتھ ان کا چرچ بھی ہوتا ہے ۔ وہ بہت قلیل تعداد میں لوگوں کو اپنے مذہب میں داخل کر پاتے ہیں، مگر ایک کثیر تعداد کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو جاتےہیں کہ وہ انسانیت کے محسن ہیں، ان سے نفرت نہیں کی جاسکتی ـ کاش ہم حقیقت کا سامنا کرسکیں!
تحریر: عبد الخالق (سکریٹری جنرل لوک جن شکتی پارٹی)
ترجمہ مولانا محمد عادل فریدی، امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
۹/ نومبر ۹۱۰۲ء کو ہندوستان کی جمہوریت اور انصاف کے لیے تاریخ کی سب سے تاریک رات کے طور پر یاد رکھا جا ئے گا۔اسی دن سپریم کورٹ کی آئینی بنچ کے پانچ ججوں نے فیصلہ سنایا کہ ایودھیا میں واقع شہید بابری مسجد کی زمین کو رام مندر کی تعمیر کے لیے بھگوان ”رام للا“ کے حوالہ کر دیا جائے۔المیہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں تسلیم کیا کہ مسجد کو شہید کرنا ”قانون کی خلاف ورزی“ تھی، لیکن اس کے با وجود سپریم کورٹ نے مسجد شہید کرنے والوں کو زمین مسلمانوں کے سپرد کرنے کا پابند نہیں بنایا۔اس کے بر خلاف سپریم کورٹ نے ہندوؤں کو زمین سپرد کرتے ہوئے نہایت بچکانہ دلیل دی کہ ہندو اس کو بھگوان رام کی جائے پیدائش مانتے آئے ہیں۔ یعنی کھلے طور پر آستھا اور عقیدے نے انصاف اور قانون پر فتح حاصل کر لی۔
آئین کے پیش لفظ میں ہندوستان کا جو تصور پیش کیا گیا ہے وہ کتنا خوبصورت ہے، ہندوستان کے اس خوبصور ت چہرے کا قتل کر دیا گیا۔ اب تک ہمارے سیکولرزم کا مطلب یہ تھا کہ یہاں مختلف مذاہب، رسم و رواج او رتہذیب و ثقافت کو قبول کیا گیا ہے اور ان کی منفرد شناخت کو تسلیم کیا گیا ہے،اس میں تمام مذاہب کے لئے مساوات اور احترام ہے،کسی بھی مذہب کو عوامی سطح سے مکمل طور پر بے دخل کرنا ہمارے سیکولرزم کا حصہ نہیں ہے۔ بلا شبہ مہاتماگاندھی کے سیکولرزم کی بنیاد ایسے مذہبی عقیدے پر تھی جس نے انہیں سچائی، رواداری، دوسرے مذاہب کوبرداشت کرنے اور عد م تشدد کے نظریہ پر مضبوطی سے جمادیا تھا۔ان نظریات و افکار کی گہری چھاپ ان کے افعال و اعما ل پر تھی، لیکن آج سیاست اور مذہب کی خطرناک ملاوٹ کا استعمال اقلیتوں کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پرکیا جا تا ہے۔ پچھلے مہینے ہمارے وزیر دفاع نے فرانس سے پہلے رفائیل جنگی جیٹ طیارے کی وصولی کے موقع پر پورے بین الاقوامی تام جھام کے ساتھ شستر پوجا کی۔ایک ایسے ملک میں جو کثیر المذاہب شناخت رکھتا ہے اور مختلف عقیدوں اور رسم و رواج پر فخر کرتا ہے، وہاں کھلے عام نیشنل سیکورٹی کے ساتھ ہندوازم کی علامتوں کو شامل کرنا بھی اکثریتی مذہب کو غیر متنازعہ اولیت دینے کا کھلا اعلان ہے۔گویا کہ ہندوتو اب ہندوستان کا سرکاری مذہب ہو چکا ہے۔
اس تناظر میں ایودھیا کا فیصلہ بالکل بھی حیرت انگیز نہیں ہے، فیصلہ آنے سے پہلے کے مراحل میں سپریم کورٹ کی پروسیڈنگ کے دوران ہم دیکھتے رہے ہیں کہ کس طرح سے پوری شدو مد کے ساتھ ببانگ دہل تحریک چلائی گئی اور سپریم کو رٹ کی آئینی بنچ پر دباو ڈالا گیاکہ وہ ایسا فیصلہ سنائے جو رام مندر کی تعمیر کے حق میں ہو۔مختلف ہندو مذہبی رہنماؤں نے کھلے عام الیکٹرونک میڈیا کا استعمال کر کے بھگوان رام اور ہندو سماج کی جیت کا فاتحانہ انداز میں جشن منایا۔یہ بھی اخباروں میں آیا کہ کس طر ح بی جے پی کے ممبر پارلیامنٹ ساکشی مہاراج نے اپنے اس اعلان سے معاملہ کو گر ما دیا تھا کہ رام مندر کی تعمیر ۶/ دسمبر سے پہلے شروع ہو جائے گی، ۶/ دسمبر وہ تاریخ ہے جس دن بابری مسجد کو شہید کیا گیاتھا۔سب سے اہم پیشگی جشن کا موقع وہ تھا جب دیوالی کے موقع پر ایودھیا میں پانچ لاکھ دیے روشن کیے گئے تھے، اس جشن نے ان کی جیت کی امیدوں کو اور بڑھا دیا تھا۔یوگی آدتیہ ناتھ اور آر ایس ایس نے صبر کرنے اورتحمل برتنے کی اپیلیں کیں، یہ بھی سپریم کورٹ کے لیے ایک خاموش اشارہ تھا کہ اگر فیصلہ ہندوؤں کے خلاف آئے گا، تو بڑا فسادبرپا ہو گا اور اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر سماجی بد امنی پیداہو گی۔ان سب کے پیچھے کا پیغام صاف تھا؛ کہ رام مند ر ہندو سماج کابہت بڑا جذباتی معاملہ ہے اور کورٹ کو اس کے حق میں فیصلہ کرنا ہی ہو گا۔
بلاشبہ سپریم کو رٹ کو اس طرح کے کسی دباؤ یا زبردستی کی ضرورت ہی نہیں تھی، ماضی میں بھی ہماری عدالت عظمیٰ نہ صرف ہندوتوکی معاشرتی طاقت اور بالادستی کو تسلیم کر چکی ہے بلکہ اس کو جائز بھی ٹھہرا چکی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ۶۹۹۱ء کے اپنے ایک فیصلہ میں یہ کہہ چکی ہے کہ ہندوتو ایک ”طرز زندگی“ ہے اور ہندوستانیت کا مترادف ہے، یعنی ایک یونیفارم کلچر کا فروغ جو ملک میں موجودتمام الگ الگ کلچر اور تہذیب و ثقافت کے درمیان کے فرق کو ختم کر دے۔سپریم کورٹ کایہ نظریہ بالکل ہندو تو کے اسی نظریہ کی عکاسی تھا جو ہندو مذہب کی تمام دوسرے مذاہب اور ثقافتوں پربالادستی کی بات کرتا ہے۔سپریم کورٹ نے مختلف مواقع پر کئی بار اس متنازعہ فیصلہ پرنظر ثانی اور ترمیم کا حکم جاری کیا۔جس کی وجہ سے ہندو تو کے حامیوں کا یہ فاتحانہ دعویٰ ثابت ہو گیا کہ سپریم کورٹ نے ہندوتو ا کے سنگھی نظریہ پرقانونی مہرلگا دی ہے۔اکثریت کے اعتقاد پر سپریم کورٹ کی حد سے زیادہ غفلت کا مقابلہ سیدھے طور پرمسلمانوں کی حساسیت سے ہے۔۴۹۹۱ء میں سپریم کو رٹ نے اپنے ایک فیصلہ میں کہا تھاکہ ”مسجد میں نمازپڑھنا اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے۔ اورمسلمان کہیں بھی نماز پڑھ سکتے ہیں حتی کہ کھلی جگہ میں بھی“سپریم کورٹ کے اس ریمارک سے مسلمان بھونچکے رہ گئے تھے۔ایودھیا کا جو فیصلہ آیا ہے آج کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے شاید پہلے سے ہی اس کا اندازہ ہو گیا تھا، کیوں کہ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب ہندوتواور اس کے حامی حکومتی اداروں اورعوام دونوں کو کنٹرول کررہے ہیں۔
۰۱۰۲ء میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کے بنچ نے اس معاملہ میں تجرباتی و مشاہداتی حقائق میں توڑ مروڑ، غیر یقینی تاریخی اعداد و شمار،گمراہ کن رپورٹس اور آستھا کی بنیاد پر فیصلہ سنانے کا کام کیا تھا۔اپنے فیصلہ میں انہو ں نے جن دلیلوں کا سہارا لیا تھا، اس کو”بادشاہ سلمان کا حل“ (یہ انگریزی کا محاورہ ہے، بائبل کے ایک قصہ پر مبنی ہے، جس میں بادشاہ سلمان نے ایک بچے کے بارے میں یہ حل پیش کیا تھا جس کے لیے دو عورتیں لڑ رہی تھیں ہر ایک کا دعویٰ تھا کہ وہ اس کی ماں ہے، معاملہ بادشاہ کی عدالت میں پہونچا تو بادشاہ نے یہ حل پیش کیا کہ بچے کے دو ٹکڑے کر کے ایک ایک ٹکڑا دونوں عورتوں کو دے دیا جائے۔)سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔عدالت نے متنازعہ زمین کو تین برابر حصوں میں تقسیم کر کے تینوں مدعیوں کو ایک ایک حصہ حوالہ کرنے کا حکم دے دیا، مدعی اور ان کے حامی اس یکطرفہ اور ناقابل عمل فیصلہ سے حیران رہ گئے جس میں کوئی فاتح قرار نہیں دیاگیا۔گویا فیصلہ کے باوجود حقیقت میں معاملہ جوں کا توں برقرار رہا۔اور جیسا اندیشہ تھا ناراض فریقوں نے سپریم کور ٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اس کے نتیجہ میں ملک کو ۹ / سالوں کا طویل انتظار کرنا پڑا۔
سپریم کورٹ کو متنازع زمین کی ملکیت کے انتہائی متنازعہ ہونے اوراس معاملے میں دونوں جانب سے زبردست دباؤ کا احساس تھا، لہٰذا اس تنازعہ میں عدالتی کارروائی کے ساتھ ساتھ مرکزی فریقوں کو شامل کر کے ثالثی کے ذریعہ حل تلاش کرنے کی کوشش بھی ہوتی رہی۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی سمجھوتہ پررضامندی ہوچکی تھی،لیکن پھر دونوں طرف سے سخت گیروں نے اس کو ختم کردیا۔معاہدے کی وسیع شکل یہ تھی: (الف) مسلمان متنازعہ مقام پر دعویٰ چھوڑ دیں گے۔(ب) مسلمانوں کو مسجد کے لیے متبادل جگہ اورفنڈ دیا جائے گا۔(ج)اور ریاست”ورشپ ایکٹ ۱۹۹۱ء“کے نفاذ کو یقینی بنائے گی، جس کے مطابق کسی بھی عبادت گاہ کو منتقل کرناممنوع ہے۔سپریم کورٹ نے بنیادی طور پر اس معاہد ہ نامہ کی توثیق کی ہے۔
مسلمان بخوبی واقف ہیں کہ وہ لوگ جو مندر کے حامی ہیں وہ معاشرتی، سیاسی اور قانونی شعبوں میں حاکمانہ عہدوں پر قابض ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کی پرامن زندگی کی واحد امید، عارضی ہی سہی، متنازعہ مقام پر ان کے حقوق کی بازیابی تھی، لیکن اس معاملہ میں انصاف کا گلا گھونٹ دیا گیا۔
اب وہ یہ دعا کر رہے ہیں کہ ان کی دوسری عبادت گاہیں پلیسز آف ورشپ ایکٹ ۱۹۹۱ء کے تحت محفوظ رہیں۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اس بات سے بھی واقف ہیں کہ کشمیریوں کو بھی یقین تھاکہ دفعہ ۰۷۳/کی خلاف ورزی نہیں کی جا سکتی ہے،مسلمانوں کو اس بات کا بخوبی ادراک ہے کہ آج کے ہندوستان میں اکثریت کا نقطہ نظر غالب رہے گا، اور اس بارے میں کسی کی پرواہ نہیں کی جائے گی۔
جسٹس او ہومس کا یہ تبصرہ مشہور ہے کہ”سپریم کورٹ کورٹ آف لا(قانون کی عدالت)ہے کورٹ آف جسٹس(انصاف کی عدالت) نہیں ہے۔“ لیکن ایودھیا کیس میں سپریم کورٹ نے نہ تو قانو ن کا خیال رکھااور نہ انصاف کی پرواہ کی۔اس نے اکثریت کی آستھا کو تقویت بخشی ہے جس کے بھگوان کو متنازعہ مقام سونپ دیاگیاہے۔
(مضمون نگا سول سروس میں رہے ہیں اور لوک جن شکتی پارٹی کے سکریٹری جنرل ہیں، مضمون میں پیش کیے گئے خیالات ان کے ذاتی ہیں۔)
ڈاکٹرمحمد رضی الاسلام ندوی
موجودہ دور میں ایک سماجی مسئلہ، جس نے ملکی اور عالمی دونوں سطحوں پر گمبھیر صورت اختیار کرلی ہے، خواتین کی عزت و آبرو کی پامالی اور عصمت دری ہے۔ کبھی معاملہ عصمت دری پر رک جاتا ہے تو کبھی ظلم کی شکار خاتون کو اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ ایک گھناونی صورت اجتماعی آبروریزی کی ہے، جس میں کئی نوجوان مل کر کسی معصوم لڑکی کو اپنی ہوس کا شکار بناتے ہیں، پھر بڑے درد ناک طریقے سے اسے قتل کردیتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات آئے دن پیش آتے رہتے ہیں۔ کسی دن کا اخبار اٹھاکر دیکھ لیجیے، عصمت دری کی بہت سی خبریں اس میں مل جائیں گی۔ ان میں سے کچھ ہی معاملے عدالتوں تک پہنچ پاتے ہیں اور جو پہنچتے ہیں، ان میں بھی عدالتی پیچیدگیوں کی وجہ سے فیصلہ آنے میں کئی سال لگ جاتے ہیں اور بہت کم ہی کیسوں میں مجرموں کو سزا مل پاتی ہے۔
یہ واقعات اب اتنی کثرت سے پیش آنے لگے ہیں کہ ان کی سنگینی کا احساس ختم ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن انہی کے درمیان کبھی کوئی درد ناک واقعہ رونما ہوتا ہے تو عوام بیدار ہوجاتے اور اس کے خلاف سراپا احتجاج بن جاتے ہیں۔ اس موقع پر ایسے جرائم کی روک تھام کے لیے مختلف تجاویز سامنے آتی ہیں۔ مثلاً مجرموں کو سرِ عام پھانسی دینے کا مطالبہ کیاجاتا ہے، سخت سے سخت قوانین بنانے کی بات کہی جاتی ہے، کڑی نگرانی کے لیے سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرنے اور مضبوط سیکورٹی فراہم کرنے پر زور دیا جاتا ہے، لڑکیوں کو جوڈو کراٹا سیکھنے اور خود حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ اس ضمن میں بعض اطراف سے ایک آواز یہ بھی سنائی دیتی ہے کہ زنا کی وہ سزا نافذ کی جائے جو اسلام نے تجویز کی ہے۔ اسی بات کو بعض لوگ ان الفاظ میں کہتے ہیں کہ سزائے زنا کے لیے عرب ملکوں جیسا قانون بنایا جائے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ مطالبے ان لوگوں کی طرف سے بھی ہوتے ہیں جو اسلام کے شدید مخالف ہیں ، جو اسلام پر اعتراضات کرنے اور مسلمانوں کو برا بھلا کہنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، لیکن چوں کہ انھوں نے کہیں سے سن رکھا ہے کہ اسلام زنا کرنے والے کو پتھر مار مار کر ہلاک کرنے کا حکم دیتا ہے، اور جرم کی سنگینی کی بنا پر یہ سزا ان کے دل کی آواز ہوتی ہے، اس لیے ان کے اندرون میں چھپی خواہش ان کی زبان پر آجاتی ہے اور وہ خواہی نہ خواہی اسلام کا نام لینے لگتے ہیں۔
آبرو ریزی کے واقعات کی روک تھام کے لیے سخت سے سخت قانون بنانے کی بات کی جائے، یا اسلامی سزائے زنا کو نافذ کرنے کی تجویز رکھی جائے، دونوں مطالبے جذباتیت کے مظہر اور سنجیدگی سے محروم ہیں۔ کتنا ہی سخت قانون بنا لیا جائے، اس سے جرائم کا بالکلیہ خاتمہ ممکن نہیں، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے سماج کو پاکیزہ بنانے کی تدابیر اختیار کی جائیں اور جو چیزیں غلط کاموں پر ابھارتی اور جرائم کے ارتکاب کی جانب مائل کرتی ہیں، ان پر پابندی عائد کی جائے۔ قانون جرائم کو روکنے میں معاون تو ہوسکتا ہے، لیکن محض قانون سے ان کا سدِّ باب ناممکن ہے۔ اگر جرائم کے تمام محرکات اور ترغیبات کو علی حالہ باقی رکھا جائے اور محض کوئی سخت تر قانون منظور کرلیا جائے تو جرائم میں تو کوئی کمی نہیں آئے گی، البتہ قانون کے غلط انطباقات کے اندیشے بڑھ جائیں گے۔ عدالتوں کے بھاری مصارف کی بنا پر اس کا خدشہ رہے گا کہ غریب اور اپنے دفاع سے عاجز سزاپاجائیں اور مال دار اور طاقت ور اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے سزا سے بچ جائیں۔اسی طرح اسلام کے کسی ایک حکم کا مطالبہ اور دیگر احکام سے صرفِ نظر درست رویّہ نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے اسلامی نظام کو ایک کل کی حیثیت سے قبول کرنا ہوگا۔ اسلامی تعلیمات کے اثرات کا مشاہدہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پورے کے پورے اسلام کو نافذ کیا جائے۔ جس طرح کوئی مشین اسی وقت صحیح طریقے سے کام کرے گی، جب اس کے تمام پرزے اپنی اپنی جگہ فٹ ہوں، اگر اس میں سے کوئی ایک پرزہ نکال لیا جائے تو نہ مشین صحیح ڈھنگ سے وہ کام کرے گی جس کے لیے اسے بنایا گیا ہے اور نہ اس نکالے گئے پرزے سے وہ کام لیا جاسکتا ہے جو پوری مشین کے کرنے کا تھا، اسی طرح اسلام کے کسی ایک قانون کو نافذ کردیا جائے اور اس کے دیگر احکام پر عمل نہ کیا جائے تو اس سے بھی مطلوبہ فائدے حاصل نہیں ہوسکتے۔
ہر انسان میں فطری طور پر جنس (Sex) کی خواہش پائی جاتی ہے۔ اس کے تعلق سے مختلف رویّے اختیار کیے گئے ہیں۔ایک رویّہ جنسی خواہش کو دبانے اور کچلنے کا ہے تو دوسرا رویہ اس کے معاملے میں ہر طرح کی آزادی کی وکالت کرتا ہے۔ اسلام نہ تو جنسی جذبہ کو دبانے اور کچلنے کی ترغیب دیتا ہے اور نہ انسان کو کھلی چھوٹ دے دیتا ہے۔ وہ ہر انسان کو اپنی جنسی خواہش پوری کرنے کا حق دیتا ہے، لیکن ساتھ ہی اس نے اس کی تکمیل کو نکاح کا پابند بنایا ہے اور اس سے ماورا کسی طرح کا تعلق رکھنے کو حرام قرار دیا ہے۔اس کی نظر میں جتنا سنگین جرم زنا بالجبر ہے، اتنا ہی سنگین جرم زنا بالرضا بھی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کوئی بھی لڑکا یا لڑکی بلوغت کی عمر کو پہنچنے کے بعد بغیر نکاح کے نہ رہیں، بلکہ جلد از جلد نکاح کے بندھن میں بندھ جائیں۔ چنانچہ وہ ان کے سر پرستوں کو اس کی طرف متوجہ کرتا اور ان کا نکاح کرادینے کی تلقین کرتا ہے۔اللہ کے رسول ﷺ نے نکاح کی صرف ترغیب ہی نہیں دی، بلکہ اسے آسان بنانے کے صریح احکام دیے ہیں۔
ایک چیز یہ بھی اہمیت کی حامل ہے کہ اسلام کے بنیادی عقائد انسان کی بھرپور تربیت کرتے ہیں اور اسے زندگی کے کسی معاملے میں بہکنے سے بچاتے ہیں۔ ان عقائد پر ایمان سے آدمی کی زندگی سنورتی اور اس میں پاکیزگی آتی ہے۔ خاص طور پر دو عقائد کا کردار اس معاملے میں بہت نمایاں ہے:ایک یہ عقیدہ کہ اللہ تعالیٰ ہرجگہ موجود ہے اورہر انسان کو دیکھ رہا ہے۔ وہ کوئی کام چاہے علانیہ کرے یا چھپ کر، اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کی خبر ہوجاتی ہے، کوئی چیز اس سے مخفی نہیں ہے۔دوسرا عقیدہ آخرت کاہے۔ اس کے مطابق یہ دنیا امتحان گاہ ہے۔ ایک وقت آئے گا جب یہ دنیا فنا ہوجائے گی اور دوسری دنیا برپا ہوگی۔ اس میں تمام انسان دوبارہ پیدا کیے جائیں گے اور ان سے اس دنیا میں کیے گئے ان کے تمام اعمال کا حساب لیا جائے گا۔ جن لوگوں نے یہاں اچھا کام کیے ہوں گے انھیں جنت عطا کی جائے گی، جس میں طرح طرح کی نعمتیں ہوں گی اور جن لوگوں نے یہاں برے کام کیے ہوں گے انھیں جہنم میں جھونک دیا جائے گا، جس میں تکلیف و اذیت کا ہر سامان موجود ہوگا۔ اس کے علاوہ اسلام نے ہر فرد کے اندر حیا کا جذبہ ابھارا ہے۔یہ جذبہ اسے بے حیائی کے کاموں سے روکتا ہے۔ اگر کسی کے اندر حیا نہ ہو تو وہ غلط سے غلط کام کا ارتکاب کرسکتا ہے۔
اسلام نے افراد کے لیے جنسی آسودگی فراہم کرنے کے ساتھ معاشرہ کی پاکیزگی قائم رکھنے کے لیے مختلف احتیاطی تدابیر اختیار کی ہیں۔ یہ تدابیر افراد کو جرائم کا ارتکاب کرنے سے باز رکھتی ہیں اور جنسی جرائم کے تمام ممکنہ چور دروازوں کو بند کرتی ہیں۔ مثلاً اس نے مردوں اور عورتوں دونوں کو حکم دیا ہے کہ وہ بدنگاہی سے بچیں اور آبرو کی حفاظت کریں۔ اس کی ایک تعلیم یہ ہے کہ کوئی مرد یا عورت کسی نامحرم کے ساتھ تنہائی میں نہ رہے۔ وہ مردوں اور عورتوں کا آزادانہ اختلاط پسند نہیں کرتا۔ وہ چاہتا ہے کہ مرد اور عورتیں گھل مل کر نہ رہیں،اس لیے کہ مخلوط طور پر رہنے سے ان میں صنفی جذبات ابھرنے کا امکان رہتا ہے اور یہ چیز بسا اوقات بدکاری تک پہنچا سکتی ہے۔اسلام کی ایک ہدایت یہ ہے کہ کوئی عورت اپنے شوہر یا محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔وہ اپنی ضروریات کے لیے مختصر مسافت تک تو تنہا نکل سکتی ہے، لیکن دور کی مسافت پر تنہا جانا اس کے لیے روا نہیں ہے۔اسلام نے حکم دیا ہے کہ کوئی عورت سج دھج کر گھر سے باہر نہ نکلے اور نہ باہر نکلتے وقت خوشبو لگائے۔ اس لیے کہ اگر وہ ایسا کرے گی تو اجنبی مردوں کی نگاہیں اس کی جانب اٹھیں گی اور ان کے صنفی جذبات مشتعل ہوں گے، اس وجہ سے اس پر دست درازی کے امکانات بڑھ جائیں گے۔اسلام کا ایک حکم یہ ہے کہ عورتیں ایسا لباس پہنیں جو ان کے پورے جسم کو (سوائے چہرہ اور ہاتھ کے) چھپانے والا ہو۔ نہ ان کا سر کھلا ہو، نہ گریبان چاک ہو اور نہ لباس اتنا شفّاف ہو کہ ان کا بدن جھلکتا ہو۔ وہ غیر مردوں کے سامنے اپنی زینت کا اظہار نہ کریں۔
درج بالا احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے ساتھ اسلام نے ان چیزوں پر بھی پابندی عائد کی ہے جو بدکاری پر ابھارنے والی اور مردوں اور عورتوں میں صنفی جذبات برانگیختہ کرنے والی ہیں۔چنانچہ اس نے شراب کو حرام قرار دیا ہے۔شراب کے بارے میں یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ وہ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ شراب پینے کے بعد آدمی اپنے ہوش و حواس میں نہیں رہتا اور بھلے برے کی تمیز کھو بیٹھتا ہے۔ اسے کچھ پتہ نہیں رہتا کہ کب کیا حرکت کر بیٹھے؟ اسی طرح شراب سے آدمی کے صنفی جذبات برانگیختہ ہوتے ہیں اور رشتوں کی تمیز اٹھ جاتی ہے۔ظاہر ہے، جب اسلام کے نزدیک شراب نوشی حرام ہے تو وہ شراب کی فیکٹریاں قائم کرنے اور اس کا کاروبار چلانے کی کیوں کر اجازت دے سکتا ہے!اسی طرح اسلام سماج میں فحاشی کی اشاعت کی قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ وہ ان تمام چیزوں پر پابندی عائد کرتا ہے جن کے ذریعے بے حیائی اور عریانی عام ہو، گندی باتوں اور گندے کاموں کا پرچار ہو، جنھیں دیکھ کر اور سن کر عوام کے صنفی جذبات بھڑکیں اور برائی اور بدکاری کی جانب ان کا میلان ہو۔ موجودہ دور میں سماج میں فحاشی، بے حیائی اور عریانی پھیلانے والی بہت سی چیزیں رواج پا گئی ہیں، مثلاً گندی فلمیں، عریاں پوسٹر اور اشتہارات، بے حیائی کا پرچار کرنے والے رسائل، انٹرنیٹ پربے شمار عریاں سائٹس وغیرہ۔ سماج کے لیے ان چیزوں کا ضرر رساں ہونا کھلی حقیقت ہے، لیکن چوں کہ انھوں نے انڈسٹریز کی شکل اختیار کرلی ہے اور ان سے حکومت اور سربر آوردہ طبقہ کو خطیر رقمیں حاصل ہوتی ہیں اس لیے ان کی خطرناکی کو نظر انداز کرکے انھیں خوب بڑھا وا دیا جا رہا ہے۔
ان تعلیمات اور ہدایات کے بعدآخر میں اسلامی قانون اپنا کام کرتا ہے۔ ان تمام کوششوں کے باوجود سماج میں کچھ ایسے بدخصلت افراد ہوسکتے ہیں جو بدکاری میں ملو ّث ہوجائیں۔ ایسے لوگوں کے لیے اسلام درد ناک سزا تجویز کرتا ہے۔ وہ قانون یہ ہے کہ زنا کرنے والے غیر شادی شدہ لڑکے اور لڑکی، ہر ایک کو سو کوڑے مارے جائیں اور اگر وہ شادی شدہ ہوں تو انھیں پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا جائے۔
معاشرہ کو پاکیزہ رکھنے کے لیے اسلام کی ان تعلیمات کے اثرات کا دنیا نے اپنی کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے۔ عرب کا معاشرہ فسق و فجور کے دلدل میں غرق تھا، عصمت و عفّت کے کوئی معنیٰ نہیں تھے۔ اسلام کی ان تعلیمات کے نتیجے میں ان کی زندگیاں پاکیزہ ہوگئیں اور عورت کو عزت و توقیر حاصل ہوئی۔ بعد کے ادوار میں جہاں جہاں ان تعلیمات پر عمل کیا گیا اور ان احکام کو نافذ کیا گیا وہاں سماج پر ان کے خوش گوار اثرات مرتب ہوئے۔ آج بھی جو لوگ سماج میں برائیوں کو پنپتا دیکھ کر فکر مند ہیں اور آبرو ریزی کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنے کے لیے اسلامی سزا کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھ رہے ہیں اور اسے نافذ کیے جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں، اگر وہ سنجیدہ ہیں تو انھیں پورے اسلامی نظام معاشرت کو قبول کرنا اور اسلام کی تمام تعلیمات پر عمل کرنا ہوگا، تبھی مطلوبہ فائدے حاصل ہوسکتے ہیں، برائیوں پر قابو پایا جاسکتا ہے اور معاشرہ کی پاکیزگی قائم رکھی جاسکتی ہے۔