لکھنؤ شہر کی تاریخ سرکاری دفاتر ، تاریخی عمارتوں ، مساجد ، امام باڑوں اور مقبروں کے اعتبار سے بہت زیادہ قدیم نہیں ہے دریائے گومتی کے کنارے بس ایک آبادی تھی جیساکہ تمام انسانی آبادی ہمیشہ سے دریاؤں جھیلوں سمندروں اور ہریالیوں کے اردگرد ہی آباد ہوتی آئی ہے ۔ آج ہم جسکو لکھنؤ کہتے ہیں اس کے آس پاس کا علاقہ جس میں تقریباً سات آٹھ اضلاع آتے ہیں 1893سے پہلے تک ” ریاست اودھ “ کہلاتا تھا ، اس ریاست کا دارالخلافہ فیض آباد تھا 1775 میں آصف الدولہ نےامور ریاست فیض آباد سے لکھنؤ منتقل کر دیے گئے اور تب سے لکھنؤ چمکنے دمکنے لگا ورنہ لکھنؤ اس منتقلی سے قبل گوشہ گمنامی میں تھا ، یہ شہر مسلمان کے عروج و زوال کو سمجھنے کے لئے اہم تاریخی حقائق رکھتا ہے ، امام باڑے مساجد مقبرے اور دیگر تاریخی مقامات جہاں عروج کی داستانیں بتلاتی ہیں وہیں گھنی آبادیاں ، رقاصاؤں و طوائفوں کے اڈے ، شیعہ سنی فسادات کی اندوہناک تاریخ جن پر آزادی کے بعد بریک لگ گئی کیونکہ شیعہ سنی دونوں گروہ خود متشدد ہندوؤں کے نرغے میں آگئے اور یوں ہندوؤں کے حملوں نے ہم کو ایک کر دیا ، پھر نواب غازی الدین حیدر کا 1814 میں ”نواب“ کا لقب ترک کرکے ”شاہ“ کا لقب اختیار کرنا جو مغل سلطنت سے بغاوت کا اعلان تھا ، واجد علی شاہ کی انگریزوں کی مکمل تابعداری ، یہ تمام چیزیں مسلمانوں کے زوال کی نشانیاں ہیں ۔ لکھنو میں زبان و ادب شعروشاعری بھی خوب پھلی پھولی ہے ، ” دبستان لکھنو “ اور ”لکھنوی تہذیب“ باقاعدہ اردو زبان و ادب کا ایک مستقل موضوع ہے ۔
یہ نزاکت ، یہ ناز ، یہ انداز
ایسا لگتا ہے لکھنوی ہیں آپ
زبان و ادب کے ماہرین کے مطابق جب کوئی قوم تنزلی کا شکار ہوتی ہے تو اس میں بہترین شاعر پیدا ہوتے ہیں اور یہ سچ ہے ، ہم دیکھتے ہیں کہ مرزا غالب اور اقبال دونوں ہی زمانہ انحطاط کی پیداوار ہیں ، بہادر شاہ ظفر مغل سلطنت سے ہاتھ دھونے کے بعد قید خانے کے اندر مرثیہ خوانی میں لگا رہتا تھا ۔ مسلمانوں کا اقتدار ختم ہونے کے نتیجے میں بھارتی مسلمان کئی طرح کے مسائل سے دوچار ہوئے ان مسائل کے حل کے لیے لئے ملت کے بہی خواہوں نے مختلف تدابیر اختیار کی ہیں اور ہر میدان میں کی ہیں ، دین اسلام کی بقا کے لیے مدارس و مکاتب کا نظام قائم کیا پھر ان مدارس کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کاخیال پیدا ہوا ، دارالعلوم ندوۃ العلماء اسی خیال کی عملی صورت ہے ۔ برصغیر پاک و ہند کی اسلامی تاریخ کبھی بھی دارالعلوم ندوۃ العلماء کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی ، جس میں سے زبان وادب ، علم و فن ، تاریخ و سیرت ، تفسیر و حدیث ، فقہ واصول کی انتہائی ممتاز شخصیات معرضِ وجود میں آئی ہیں ، علامہ شبلی نعمانی (وفات 1914) جنکو تحقیق و تنقید میں کمال حاصل تھا جہاں ان کی ہر تحریر اعلی معیار کی ہوتی ہے وہیں ان کے شاگرد بھی اپنے استاد کا صحیح عکس ہوتے ہیں ، مولانا عبد الماجد دریابادی نے علامہ شبلی نعمانی کو ” مصنف گر “ کہا ہے اور یہ سچ ہے ۔ سید سلیمان ندوی (وفات 23/ نومبر 1953 ) جن کو انسائیکلوپیڈیا آف اسلام کہاگیا ہے علامہ شبلی نعمانی کے شاگرد اور دارالعلوم ندوۃ العلماء کے پروردہ تھے ۔ مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی ( وفات 31/ دسمبر 1999 ) جن کو مولانا وحیدالدین خان صاحب مرحوم نے Man of the century کہا ہے (تعمیر حیات لکھنؤ مفکر اسلام نمبر صفحہ 155) وہ اسی دارالعلوم ندوۃ العلماء کے خوشہ چیں تھے ۔ برصغیر پاک و ہند کے دینی اداروں میں سے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ واحد وہ ادارہ ہے جس کے فضلاء میں سے ایک مولانا علی میاں ندوی صاحب مرحوم نے ” شاہ فیصل ایوارڈ “ حاصل کیا ہے ۔ خالص دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ اور اس کے فضلاء کی علم وفضل کے مختلف میدانوں میں خدمات و کارکردگی پر ایک اچھی خاصی ضخیم کتاب تیار ہوسکتی ہے ۔ میں نے دارالعلوم ندوۃ العلماء کے اکابر علماء کی تحریروں سے بہت استفادہ کیا ہے ، ماشاءاللہ ندوے کے علماء وطلباء سے ہرجگہ ملاقات بھی ہوتی رہتی ہے جن کے اخلاق و شائستگی سے میں بہت متأثر ہوتا ہوں ،اسلئے راقم کے دل میں یہ ایک دیرینہ خواہش تھی کہ میں دارالعلوم ندوۃ العلماء اور اداروں کا دیدار کروں ۔ خدا کا معاملہ بھی انتہائی حیران کن ہے ، انسان صرف ارادہ کرے وہ راستہ کھول دیتا ہے ، یہ ہی میرے ساتھ ہوا اور میں بفضل خداوندی دارالعلوم ندوۃ العلماء پہنچ ہی گیا ۔ لیہ لداخ کے بزرگ ندوی فاضل مولانا محمد عمر ندوی لداخی صاحب — جنکا مختصر تذکرہ آگے آتا ہے — نے واٹسپ پر ایک میسج لکھ کر مجھے ارسال کیا اور مہمان خانے میں میرے قیام کے انتظام کی کوشش کی لیکن کرونا وائرس کی وجہ سے ندوے کے تمام ادارے بشمول مہمان خانہ بھی بند تھا یا سخت باز پرسی کے مرحلے سے گزرنا ہوتا ہے اسلئے مجبوراً مسجد ہی میں ٹھرنا پڑا
26/جون 2021 بروز ہفتہ کی صبح فجر کی نماز میں نے دارالعلوم ندوے کی مسجد میں ادا کی ، نماز کے بعد میں مسجد ہی میں تھا کہ مولانا محمد فرمان ندوی صاحب جو امامت کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں — جنکو میں نے اپنے آنے کے بارے میں بتلادیا تھا ، تشریف لائے اور انہوں نے 6/ کتابوں کا ایک سیٹ مجھے دیا ماشاءاللہ مولانا خوش مزاج اور نرم طبیعت کے مالک ہیں ۔
کتابوں کے اس سیٹ کو ندوے کی مختلف سینئر ترین شخصیات کی تصنیفات اور ان کی علمی و ادبی خدمات کو ” مطالعۂ تصنیفات “ کے سلسلے کے تحت مختصراً مرتب کیا گیا ہے ، مختلف مصنفین و مختلف موضوعات کا باقاعدہ مطالعہ کرانا اور ان پر طلباء سے تحقیقی مضامین مرتب کرانا ندوے کے طریقۂ تعلیم کا لازمی جز ہے اور اس کام کے لئے النادی العربی اور انجمن الاصلاح جیسی طلباء کی انجمنیں موجود ہیں اور ندوے کے تمام دارالاقاموں ( ہاسٹلز ) میں لائیبریریوں کاجال بچھا ہوا ہے ۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء اگرچہ صالح قدیم نافع جدید کی ذہنیت سے قائم کیا گیا تھا ، لیکن ندوے کا موجودہ تعلیمی و نصابی رجحان زیادہ تر علوم شرعیہ کی طرف ہے باقی چیزیں جوندے کے اندر ” نافع جدید “ کی کہلاتی ہیں وہ ضمنا اور ضروتا ہیں ناکہ مقصد قیام کے عین مطابق ۔ علامہ شبلی نعمانی صاحب مرحوم اپنے مقالے میں لکھتے ہیں کہ
” ندوے کے قائم ہونے کی سب سے بڑی ضرورت جو ظاہر کی گئی اور واقعی تھی بھی ، وہ نصاب تعلیم کی اصلاح تھی ، ندوے کے مقاصد میں یہ اہم المقاصد تھا اور آج تک ندوے کے جتنے اجلاس ہوئے اس مقصد کو نہایت بلند آہنگی سے بیان کیا گیا لیکن یہ امر بظاہر نہایت تعجب انگیز ہے کہ چار سال تک جو نصاب جاری تھا وہ تقریباََ وہی قدیم نصاب تھا جو دیوبند وغیرہ میں جاری ہے ۔ اس کی وجہ بہت بڑی یہ ہے کہ اصلاح نصاب کا خیال صرف چند روشن خیال علماء کے دل میں پیدا ہوا ہے ، باقی تمام لوگ اسی لکیر کے فقیر ہیں اور چونکہ فیصلہ عموما کثرتِ رائے پر ہوتا ہے اس لئے انہیں بزرگوں کا پلہ بھاری رہتا ہے “ ۔ (مقالات شبلی جلد سوم صفحہ 130 )
دارالعلوم ندوۃ العلماء کی میری پسندیدہ خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ وہاں پر طلباء میں مطالعہ کا بڑا شوق ہے اور پھر اس شوق کی تسکین کے اسباب بھی موجود ہیں شبلی لائبریری طلباء سے بھری رہتی ہے ، اس وقت جبکہ کووڈ 19 کی وجہ سے ملک کے تمام تعلیمی ادارے بند ہیں ابھی بھی یہاں شبلی لائیبریری میں مطالعہ و تحقیق کے شوقین آتے رہتے ہیں ، دارالعلوم دیوبند کے لائبریرین حضرات ایک طالب علم کو صرف ایک کتاب دیتے ہیں دوسری کتاب کے لئے آدھے گھنٹے کا انتظار کرنا ہوگا اور پہلی کتاب جمع کرنی ہوگی اس کے برخلاف دارالعلوم ندوۃالعلماء میں آپ بیک وقت تین چار یا زائد کتابیں بھی لے سکتے ہیں ۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں طلباء و اساتذہ کے درمیان ”عقیدت و ارادت “ کا تعلق نہیں ہے بلکہ ”علم اور دوستی“ کا تعلق ہے یہ ہی وجہ ہے کہ ندوۃالعلماء کے ماحول میں طلباء و اساتذہ آپس میں بہت حد تک گھلے ملے رہتے ہیں ۔ تیسری خصوصیت یہ ہے کہ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں صفائی کا کافی خیال رکھا گیا ہے ، کہیں بھی روٹی کے ٹکڑے ، بچا ہوا سالن و سبزی نالیوں میں نظر نہیں آیا ، شاید اس کا کوئی خاص انتظام کیا ہوا ہو ؟ ۔ چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ ندوے میں طلباء کے کھانے کا نظام بہت منظم شائستہ اور قابل تقلید ہے وہ یہ کہ کھانا ٹفن بند کرکے طلباء کے کمروں تک پہنچادیا جاتا ہے اور طلباء کھانے سے فارغ ہونے کے بعد ٹفن کو متعین جگہوں میں رکھ دیتے ہیں جہاں سے ملازم حضرات لیجاتے ہیں ، ایک صاحب نے بتلایا کہ ندوے میں کھانا ٹفن میں ، درسگاہوں میں میز اور کرسی ، کمروں میں سونے کےلئے بیڑ شروع ہی سے ہیں ۔ پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ ندوے کی مسجد میں کثیر تعداد میں قرآن مجید کے نسخوں کے علاوہ کوئی کتاب نظر نہیں آئی ، اسی طرح بقیہ دارالعلوم اور اس کے دس کیمپس میں کہیں بھی پھٹے ہوئے اوراق کاغذ و کتاب نظر نہیں آئے ، یعنی دارالعلوم ندوۃ العلماء وضع الشئ فی محله کی عمدہ تصویر ہے ۔ چھٹی خصوصیت یہ ہے کہ اسلام کے پیغام کو عام کرنے کے لئے اندرونِ ندوہ ہی دو اہم ادارے مجلس تحقیقات و نشریات اسلام قائم ہے جس کے تحت بہترین تحقیقی کتابیں چھاپی جاتی ہیں اور پیام انسانیت جس کے تحت انسانیت اور سیرت پر مبنی چھوٹے کتابچے تیار کئے جاتے ہیں اور پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں ۔ ساتویں خصوصیت یہ ہے کہ یہاں پر دارالافتاء کے ساتھ ساتھ دارالقضاء کا بھی عمدہ نظام ہے اس وقت بھی 26/6/2021 بروز ہفتہ کو کئی خواتین و حضرات اپنے اپنے عائلی کیسز کے حل کے لئے قاضی صاحب کا انتظار کر رہے تھے ۔ خیال رہے کہ سیکولر ممالک کی عدالتوں میں مسلمانوں کے خالص عائلی کیسز کو دائر نہیں کیا جاسکتا اسلئے دارالقضاء کی اہمیت سے انکار نہیں ، مگر بڑی بدقسمتی ہے کہ ایک تو مسلمان خود دارالقضاء کو نہیں جانتے دوسرے امت مسلمہ بالخصوص بھارتی مسلمانوں کے سامنے دارالقضاء کی کارکردگی اور اسکا طریقۂ کار بالکل نہیں ، اس کی اچھے سے تشہیر تک بھی نہیں کی گئی ، نتیجتاً مسلمانوں کے عائلی کیسز انتہائی پیچیدگی کا شکار ہیں ، اگر مسلم تنظیمیں اور ذمہ داران دار القضاء کی تشہیر و اشاعت کی طرف منصوبہ بند طور پر توجہ دیں تو اس سے ایک تو مسلمانوں کے عائلی کیسز کو حل کرنے میں مدد ملے گی ۔ دوسرے ، علماء کرام کے لیے ایک معاشی میدان کا اضافہ ہوگا ۔ تیسرے ، دین اسلام کی خاموش دعوت ہوگی ۔ مگر یاد رکھیئے اس راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ مسلمانوں کی آپسی مسلک پرستی اور شخصیت پرستی ہے ، مسلمانوں میں امت کا تصور مفقود ہونے کے بعد ظاہر سی بات ہے کہ ہر مسلک کا الگ دارالقضاء ، ہر فرقے کا الگ امیرالہند درکار ہوگا ، یہ چیزیں اس راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں مسلک پرستی کے اس بدترین رجحان کی وجہ سے دارالقضاء کے فیصلے بھی یقیناً مختلف بلکہ متصادم ہوں گے جو اسلام کی بدنامی اور مسلمانوں کی عمومی ذلت کا سبب بھی بن سکتے ہیں ۔
دارالعلوم ندوۃ العلماء سے مختلف زبانوں میں کئی ماہنامے ، پندرہ روزہ رسائل بھی شائع ہوتے ہیں تعمیر حیات ، کاروانِ ادب ، سچا راہی (ہندی) الرائد اور البعث الاسلامی ( عربی ) Fragrance of East ( انگلش ) ندوے کےاکثر و بیشتر اساتذہ لکھنے کا ذوق رکھتے ہیں اور کئی اچھی کتابوں کے مصنف بھی ہیں ۔
دارالعلوم ندوۃ العلماء کے بعد میں لکھنؤ کے امام باڑے دیکھنے نکل گیا محمد اسحاق صدیقی نے اپنے مضمون ” لکھنؤ کے امام باڑے“ میں 24 امام باڑوں کا تذکرہ کیا ہے جن کی پوری تفصیل خاصیت اور تاریخ وغیرہ بھی ذکر کی گئی ہے ، تفصیل کیلئے دیکھئے ( اودھ آئینۂ ایام میں صفحہ 96/ تا 112 ) لیکن دو ہی امام باڑے تاریخی اہم اور قابل دید ہیں چھوٹا امام باڑا اور بڑا امام باڑا ، دونوں کے درمیان ”رومی دروازہ“ عین سڑک پر قائم ہے ۔ امام باڑے دیکھنے کے بعد حسین آباد میں شیعہ جامع مسجد دیکھی ، شیعہ حضرات نے اپنی مساجد اور امام باڑوں کے اندر لائبریری اور کتابوں کا اچھا خاصا نظام کیا ہوا ہے ۔ یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مولانا محمد عمر ندوی لداخی کا مختصر تعارف کرایا جائے ، مولانا محمد عمر ندوی لداخی جو دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے قدیم طالب علم رہے ہیں اور اب رٹائرڈمنٹ کے بعد بھی ندوے سے ان کی محبت وفاداری غیر مشکوک ہے — نے میری بھرپور راہنمائی کی ہے ، ندوے کے اساتذہ وذمہ داران سے انکے اچھے تعلقات ہیں ، عمر ندوی صاحب انتہائی ملنسار اور خیرخواہ ہیں ، لیہ لداخ میں بیٹھے بیٹھے ہی راقم کے قیام و طعام کے بارے میں متحرک رہے اور جب تک میں واپس اپنے گھر پیراگپور سہارنپور نہیں پہنچ گیا برابر فون کر کے خیریت دریافت کرتے رہے موصوف کو میں اس لیے اچھا نہیں کہہ رہا ہوں کہ انہوں نے میرے ساتھ احسان کا معاملہ کیا ہے بلکہ ان کے ہمعصر ساتھی بھی ان کو اچھا کہتے ہیں ، مثلا ڈاکٹر محمد اکرم ندوی جو اس وقت آکسفورڈ یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات میں خدمت انجام دے رہے ہیں انہوں نے ”ندوے کا ایک دن“ نام سے کتاب لکھی ہے جس میں انہوں نے اپنے ساتھی محمد عمر ندوی لداخی کا تذکرہ اچھائی سے کیا ہے ، طارق شفیق ندوی صدر آل انڈیا ملی کونسل مشرقی اترپردیش نے تو باقاعدہ ایک طویل مضمون لکھا ہے جسکا عنوان تھا ” مولانا محمد عمر لداخی ندوی ایک شریف النفس عالم باعمل “ جس میں اپنے ساتھی محمد عمر ندوی لداخی کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ
” پاک دل و پاک باز ، شریف و صالح اور ایک سچے و پکے مسلمان کا نام مولانا محمد عمر لداخی ندوی ہے ، 04 / جون 1959 کو لداخ کے ٹھیکسے ( THIKSAY ) نامی گاؤں میں پیدا ہوئے اور اپنی دینی و علمی خدمات ، دعوت و تبلیغ کے اسفار اور بطور خاص درس قرآن و حدیث کی بدولت صاحب علم و تقویٰ اور صاحب طریقت بزرگوں میں ان کا شمار ہوتا ہے ۔ الحمدللہ آج کل موصوف قرآن کریم کا ترجمہ و تفسیر لکھنے میں مشغول ہیں “ ۔
ماشاءاللہ مولانا دعوتی سرگرمیوں میں کافی متحرک رہتے ہیں اپنے علاقے میں دعوتی سرگرمیوں کو اچھے ڈنگ سے کرنے کے مخاطبین کے مذہب بدھسٹ کے بارے میں بھی کافی معلومات رکھتے ہیں ۔