نئی دہلی۔ ہندوستان کے عہد ِوسطی کی تاریخ، تہذیب اور ثقافت کا ساراسرمایہ فارسی زبان وادب میں محفوظ ہے۔ آٹھ سو سالہ تاریخ پر محیط عہدوسطیٰ میں فارسی زبان وادب کے حوالے سے مختلف النوع کتابیں اردومیں لکھی گئی ہیں۔ اس کے باوجود فارسی زبان وادب کی مربوط تاریخ کا فقدان ہے۔اس کمی کو دیکھتے ہوئے قومی اردو کونسل نے ایک مبسوط اور معتبر تاریخ کی ضرورت محسوس کی ہے تاکہ فارسی اورعہدِوسطیٰ کے سرمائے کونئی نسل تک پہنچایاجاسکے۔یہ باتیں قومی اردو کونسل کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے کونسل کے صدردفترمیں منعقدہ فارسی زبان وادب کے پینل کی میٹنگ میں کہیں۔انھوں نے کہا کہ اردو میں صلاحیت پیدا کرنے کے لیے فارسی کا جاننا بہت ضروری ہے۔ بغیر فارسی کی افہام وتفہیم کے اردو زبان وادب پر عبور حاصل نہیں کیا جاسکتا۔انھوں نے کہا کہ اگرچہ یہ منصوبہ گزشتہ کئی سالوں سے زیرِ غور رہا ہے، تاہم اب اسے حتمی طورپر آئندہ چھ ماہ میں مکمل کرلیا جائے گا۔انھوں نے کہا کہ فارسی زبان وادب کی تاریخ کو چار ابواب میں منقسم کیا گیا ہے اورہر باب کے کئی ذیلی ابواب ہوں گے۔ اس کام کی تکمیل کے لیے ماہرینِ فارسی کی مدد لی جارہی ہے۔
اس موقع پر سید پروفیسر حسن عباس نے کہا کہ فارسی زبان ادب کی تاریخ کے منظر عام پر آنے کے بعد واقعی قومی اردو کونسل کی تاریخ میں ایک نئے روشن باب کا اضافہ ہوگااورنئی نسل ملک کے مختلف حصوں میں بکھرے پڑے فارسی زبان وادب سے متعلق علوم وفنون سے آشنا ہوگی۔پروفیسر ایچ ایس قاسمی نے کہاکہ ہم قومی اردو کونسل، بالخصوص جواں سال ڈائریکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد کے ممنون ہیں جو ہندوستان کی گزشتہ سات سوسالہ تاریخ کو قلم بند کرنے کے لیے کوشاں ہیں جو یقینا ایک غیر معمولی کام ہے۔ پینل کی صدارت پروفیسر آزرمی دخت صفوی نے کہا کہ یہ ایک انتہائی اہم موضوع ہے جس پر کونسل نے کام کرنے کا ارادہ کیا ہے۔عہد وسطیٰ کے ہندوستان کے مختلف خطوں میں فارسی زبان وادب کا غلبہ تھا اور شعرا وادبا نے اپنی جو تخلیقات پیش کی ہیں، وہ اس عہد کی ترجمانی کرتی ہیں جسے ایک مربوط اور مبسوط شکل میں لانے کی بات ہورہی ہے۔پینل میں پروفیسر عراق رضا زیدی،پروفیسر عبدالحلیم کے علاوہ کونسل کے اکیڈمک اسسٹنٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر شمع کوثر یزدانی، ڈاکٹر فیروز عالم اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر،جناب ساجد الحق کے ساتھ ڈاکٹر شاہد اختر نے شرکت کی۔
فارسی
نئی دہلی:غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیرِ اہتمام، بنیادِ فارسی ہند ، بنیادِ بیدل، تہران اور سروشِ مولانا، تہران کے اشتراک سے ’’ہندوستان میں رومی شناسی‘‘ کے موضوع پر ایوانِ غالب میں ایک دو روزہ بین الاقوامی سمینا رکااہتمام کیاگیا۔ جس کے افتتاحی اجلاس میں پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی،سکریٹری،غالب انسٹی ٹیوٹ نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ آج کے پراضطراب دور میں مولانا کی اہمیت دوبالا ہوجاتی ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ آج کی اس کانفرنس میں جو نتائج نکلے وہ چھپ کر ہر خاص و عام تک پہنچے۔پروگرام کے آغاز میں ڈاکٹر علی اکبر شاہ سکریٹری بنیاد فارسی ہند نے تعارفی کلمات میں مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے سمینار کے موضوع واس کے ا غراض ومقاصد کواُجاگر کرتے ہوئے کہاکہ ہم اس موضوع سے بخوبی واقف ہیں لیکن مولانارومی سے ہماری آشنائی کس حد تک ہے یہ ایک الگ مسئلہ ہے۔ہندوستان میں مثنوی کے بے شمارخطی نسخے موجود ہیں لیکن اس کی فہرست جیسی تیار ہونی چاہیے تھی ابھی تک اس نوعیت کا کام نہیںہوا۔ اس کانفرنس کے انعقاد کامقصد ہی اس خلا کوپرکرنا ہے۔ تمام ہندوستانی زبانوں میں مولانا پرجوکچھ بھی آج تک لکھا گیا ہے اس کوایک جگہ جمع کرنے کی کوشش کی ہے۔ہماری یہ کوشش رہے گی کہ جوتقریباً بیس فیصد کام ہندوستان میںرومی شناسی کے حوالے سے باقی رہ گیا ہے اگلی کانفرنس میں جو ۲۰۲۰ میں رومی شناسی ہی کے حوالے سے ہوگی اس میںاس کی ایک ببلیوگرافی شائع کریں گے۔پہلی بار مولانا روم پر منصوبہ بندی کے ساتھ کوی منظّم سمینار منعقد کیا جارہاہے۔ اس سمینار میں ہندوستان میں مولانا روم کے حوالے سے ہندوستان کی مختلف زبانوں میں لکھی گئی ساری نگارشات بشمول ان کے کلام کے تراجم اور شرحوں کا پوراحاطہ کیا گیا ہے۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر سید رضاحیدرنے استقبالیہ کلمات پیش کیے۔انہوں نے کہا میں خاص طورسے بیدل فاؤنڈیشن اوربنیاد فارسی ہند کاشکرگزار ہوں جن کی وجہ سے یہ کانفرنس منعقد ہوسکی۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے لیے تاریخی سال ہے ہم جشن گولڈن جبلی سال منارہے ہیں۔مولانا رومی اور غالب کو خراج عقیدت پیش کرنے کا اس سے بہتر موقع نہیںہوسکتاتھا۔کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے پروفیسر شریف حسین قاسمی نے کہا کہ مولانا رومی اور ہندوستان کا تعلق بہت دیرینہ ہے ،مولانا اپنی زندگی ہی میں ہندوستان میں شہرت پاچکے تھے۔جوآثارہندوستان میںمولاناکے حوالے سے لکھے گئے اتنا کام کسی دوسرے ملک میں نہیں ہوا۔ان کی مثنوی کے تتبع میں ہندوستان میں بے شمار مثنویاں لکھی گئیں۔مولانا صرف مسلمانوں میں ہی نہیں بلکہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں میں بھی اتنے مقبول تھے۔مہمانِ خصوصی محمد نعیم طاہرقادری،افغانستان کے سفیرنے کہامیرے لئے بڑی خوشی کی بات ہے کہ میں مولانا کی زادگاہ سے ہوں اور آج کے اس پروگرام میں شرکت کا موقع ملا۔انہوں نے مزید کہاکہ مثنوی کا ہر شعر انسانی زندگی کے لئے مشعل راہ ،انسان دوستی اوراخوت جہانی کاصحیفہ کہا جاسکتا ہے۔مہمانِ خصوصی ڈاکٹر علی رضا قزوہ نے مولانا رومی پر ہورہی اس کانفرنس پر خوشی کااظہار کیا۔مستقبل میں رومی شناسی کے سلسلے میں اپنے علمی تعاون کا یقین دلایا۔مہمانِ خصوصی اورمشہوررومی شناس استاد مصطفی ملکیان ،سرپرست سروشِ مولانا، تہران نے مولانا کے مختلف نظریات پرروشنی ڈالی اور مختلف نظریات پر بحث کرتے ہوئے اپنی گفتگو سے سامعین کو محظوظ کیا۔مہمانِ اعزازی ڈاکٹر سریش کمار،اسسٹینٹ ڈائرکٹر، انڈین کونسل فار ہسٹوریکل ریسرچ نے کہا کہ رومی کو تمام اعلیٰ اقدار کے حامل اور انسانی کمال کا مجسم بتاتے ہوئے کہاکہ رومی میرے لئے ایسے دانشور ہیں جنہوں نے انسان دوستی کی مثال پیش کی۔مہمانانِ اعزازی پروفیسرراجندر کمار،صدر شعبۂ فارسی،دہلی یونیورسٹی نے مولانا رومی کی مثنوی کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کی۔اختتامی کلمات پیش کرتے ہوئے پروفیسر چندرشیکھر،چیئرمین پی۔ایف۔آئی،ڈائرکٹرایل۔بی۔ شاستری سی۔ایف۔ آئی۔سی، تاشقند، ازبکستان نے ہندوستانی لائبریریوں میں مولانا رومی کی مثنوی کے قلمی نسخوں کی موجودگی پر خوشی اظہار کیا۔ افتتاحی اجلاس کے بعد چار ادبی اجلاس منعقد ہوئے۔ جن میں ایران،افغانستان، ازبکستان اورہندوستان کی مختلف ریاستوں سے سے تشریف لائے مقالہ نگاروں نے اپنے اپنے مقالات پیش کیے۔اس سمینار کا پانچواں اجلاس کل صبح دس بجے شروع ہوگااور اختتامی اجلاس سہ پہر کو ہوگا۔ڈاکٹر سید نقی عباس’کیفی‘،جوائنٹ سکریٹری، بنیاد فارسیِ ہند نے اس کانفرنس کے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ بڑی تعداد میںاہلِ علم اس جلسے میں موجود رہے۔