(تیسری اور آخری قسط)
E-mail: [email protected]
اس طرح کے اور بھی اشعار ہیں جن میں کفرواسلام کی امتیازی لکیروں پرخط تنسیخ کھینچ دی گئی ہے:
کفر کچھ چاہیے اسلام کی زینت کے لیے
حسن زنار ہے تسبیح سلیمانی کا
(سودا)
دیر و حرم آئینہ تکرار تمنا
واماندگی شوق تراشے ہے پناہیں
(غالب)
کفر واسلام کی نہ کر تکرار
دونوں یکساں ہیں چشم بینا میں
(جوشش)
٭
خدا کے دین اور شریعت سے انکاربھی کفر والحاد کے دائرے میں آتاہے۔ساحر لدھیانوی کے اشعار میں اس طرح کے ملحدانہ تصورات ملتے ہیں۔انھوں نے عقائد اورمذہب کوایک خیال خام سے تعبیرکیاہے:
عقائد وہم ہیں مذہب خیال خام ہے ساقی
ازل سے ذہن انساں بستہ اوہام ہے ساقی
آؤپرکھیں دین کے اوہام کو
علم موجودات کی باتیں کریں
بے زار ہے کشت و کلیسا سے اک جہاں
سوداگران دین کی سوداگری کی خیر
انسان الٹ رہاہے رخ زیست سے نقاب
مذہب کے اہتمام فسوں پروری کی خیر
الحاد کر رہا ہے مرتب جہاں نو
دیر و حرم کے حیلہ غارت گری کی خیر
ان شعروں میں ’کفروالحاد‘کا شائبہ ضرور ہے مگرحقیقت میں یہ اشعار تکفیر کی بنیاد نہیں بن سکتے کیونکہ تکثیر معنی اور منشائے مصنف کے تناظرمیں دیکھاجائے تو بادی النظر میں ان کے وہ مفاہیم و مطالب ضرورہوسکتے ہیں جو مستوجب کفر ہیں مگرحقیقت میں یہ متعینہ مفاہیم سے الگ ہیں اور اس کی تفہیم کے لئے دیدہ دل کی ضرورت ہے۔ علامہ اقبال نے کہا تھا:
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدہ دل وا کرے کوئی
۔ویسے بھی غزل ایک رمزیہ اظہار ہے اس میں استعارات وعلائم کا ایک مبسوط نظام ہے۔اس میں میخانہ، پیمانہ، ساقی کے وہ لغوی معانی نہیں ہیں جو رند ی کی طرف اشارہ کرتے ہیں بلکہ ان میں بھی تصوف کے اسرارورموز پنہاں نظر آتے ہیں۔ یہ وہ استعارے اور علامتیں ہیں جن کے مفاہیم کا دائرہ بہت وسیع ہے اور یوں بھی کفر کی شرعی اور شعریاتی تعبیر میں بہت فرق ہے۔ کفر کے تعلق سے علامہ اقبال کی شعری تعبیر یوں ہے:
ہر کہ اورا قوت تخلیق نیست
پیش ما جز کافر و زندیق نیست
(جوقوت تخلیق سے محروم ہے وہ ہمارے نزدیک کافرو زندیق ہے)
انہی کا ایک اور شعر ہے:
خرد نے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نظر جو مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
کارل مارکس کے بارے میں علامہ اقبال کا یہ خیال اسی تناظر میں ہے:
قلب او مومن دماغش کافر است
صوفی شاعر امیر خسرو کے شعروں میں اس کی تعبیر یوں روشن ہوئی ہے:
کافر عشقم مسلمانی مرا درکار نیست
ہر رگ من تار گشتہ حاجت زنار نیست
خلق می گوید کہ خسرو بت پرستی می کند
آری آری می کنم با خلق ما را کار نیست
شریعت اور شاعری کے تناظرات الگ الگ ہیں۔ شریعت نہ شاعری کی ساحری کو قید کر پائی اور نہ ہی شاعری نے اس کے اوامر و نواہی‘ محظورات و ممنوعات سے کوئی شرعی رشتہ رکھا۔ پیمانہ شریعت سے شاعری کو ناپا نہیں جاسکتا کہ شاعری گنجینہ معنی کا طلسم ہے۔
اردو شاعری میں بھی ’کفر یا کافر‘کے جو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ان کے مفاہیم اور مطالب قطعی وہ نہیں ہیں جو دینیات میں ہیں۔یہاں کفراور اسلام کی آمیزش انسانی وحدت کے مثبت تصور کو جنم دے رہی ہے۔ یہاں مذہب سے انکار نہیں بلکہ احترام ادیان کا جذبہ حاوی ہے۔
کفر و ایماں دوندی ہیں عشق کیں
آخرش دونوں کا سنگم ہوئے گا
کافر ہوا ہوں رشتہ زنار کی قسم
تجھ زلف حلقہ دار کے ہرتار کی قسم
(سراج اورنگ آبادی)
کعبہ ودیر میں حاتم بخدا غیرخدا
کوئی کافر نہ کوئی ہم نے مسلماں دیکھا
(شاہ ظہورالدین حاتم)
نہیں ہے وحدت وکثرت میں فرق مومن وکافر
کہ یہ کہتا ہے ہردم وحدہ اور وہ کہے ہرہر
(شاکرناجی)
غرض کفر سے کچھ نہ دیں سے ہے مطلب
تماشائے دیر وحرم دیکھتے ہیں
عاشقوں کو شیخ دین وکفر سے کیا کام ہے
دل نہیں وابستہ اپنا سبحہ وزنار کا
(مرزامحمد رفیع سودا)
آئے ہیں میر کافر ہوکر خدا کے گھر میں
پیشانی پر ہے قشقہ زنار ہے کمر میں
آکے مسافر میر عرب میں اورعجم میں کہتے ہیں
(میرتقی میر)
کفر سے اسلام کو اے شیخ بیگانہ نہ جان
ہے تری تسبیح سے رشتہ مرے زنار کا
کفر واسلام ایک جا پایا
دیر کو خانہ خدا پایا
(اشرف علی فغاں)
اے مرد خدا ہو تو پرستار بتاں کا
مذہب میں مرے کفر ہے انکار بتاں کا
(عبدالحئی تاباں)
توڑ نا دیر وحرم تک بھی نہ چنداں ہے گناہ
اپنے مذہب میں ہے کچھ کفر نعرہئ آزردن دل
(قائم چاندپوری)
کفر اور دیں میں جدائی نہیں گردیکھے خوب
ساتھی تسبیح کے دانوں کی توزناربھی ہے
(شیخ غلام ہمدانی مصحفی)
دیر ومسجد میں سنے ذکرجواس کافر کا
در ودیوار سے سر شیخ و برہمن مارے
(شیخ قلندربخش جرأت)
عین ایمان سمجھتے ہیں ہم ان کا دیدار
نہ تو ہیں کفر سے آگاہ نہ دیں سے واقف
جا کے دیر و کعبہ میں کیا لوگے تم اے غافلو
ہاتھ اٹھاؤ کفر اور اسلام سے بیٹھے رہو
(بہادرشاہ ظفر)
مومن سوئے شرق اس بت کافر کا گھر ہے
ہم سجدہ کدھرکرتے ہیں اور کعبہ کدھر ہے
(مومن خاں مومن)
اے دل ہو مست کشمکش کفر ودیں سے چھوٹ
مے خانے بھی بنائے ہیں دیروحرم کے ساتھ
کافر عشق ہوں حاجت نہیں زنار کی بھی
بار تسبیح مبارک رہے دین داروں کو
(شیخ امام بخش ناسخ)
کفر واسلام سے آزاد ہوں بے قیدہوں میں
مجھ سے کافر بھی نہ جھگڑے نہ تودین دار الجھے
قول اپنا ہے یہ سبحہ وزنار کے لیے
دوپھندے ہیں یہ کافر وایمان دار کے لیے
کمندوں سے نہیں کم سبحہ وزنار کے پھندے
پھنسے وہ جو فریب کافر و دین دار میں آئے
کون چھینے بت کو توڑے برہمن کے دل کو کون
اینٹ کی خاطر کوئی کافر ہی مسجد ڈھائے گا
(خواجہ حیدرعلی آتش)
کفر آشنا کہاں ہے کوئی مجھ سا دوسرا
مسجد کا تارا ہاتھ میں زنار ہوگیا
(منشی امیراحمد امیرمینائی)
برہمن وشیخ ہیچ ہیں سب نہ کوئی مذہب نہ کوئی ملت
ہمیں تری بندگی سے مطلب کہاں کا جھگڑا یہ کفر و دیں کا
(سیدضامن علی جلال لکھنؤی)
اسلام وفکر کچھ نہیں آتاخیال میں
مدت سے مبتلاہوں میں آپ اپنے حال میں
بے خودی پوچھے جو مذہب کوئی کیااس کو بتائیں
نہ خبر کفر کی ہم کو ہے نہ اسلام کی ہے
(سیدعلی محمدشادعظیم آبادی)
جبیں صرف جبیں بے جبیں معلوم ہوتی ہے
طبیعت بے نیاز کفر ودیں معلوم ہوتی ہے
جو مومن وکافر ہیں وہ دل ہی نہیں رکھتے
دنیائے محبت میں کعبہ ہے نہ بت خانہ
(شوکت علی خاں فانی بدایونی)
اے شیخ وہ بسیط حقیقت ہے کفر کی
کچھ قیدوبند نے جسے ایماں بنا دیا
رسم فرسودہ نہیں شایان ارباب نظر
اب کوئی منظر بلند از کفروایمان دیکھئے
(اصغرگونڈوی)
سب ترے سوا کافر آخراس کا مطلب کیا
سر پھرادے انسان کا ایسا خبط مذہب کیا
نشہ یک رنگ میں دونوں ہیں کیا ڈوبے ہوئے
کیسی جنگ زرگری ہے کافر و دیں دار میں
(یاس یگانہ چنگیزی)
قیامت کے یہ کالے کوس روشن ہو نہیں سکتے
عبث ہے ہم رکاب کافر ودین دار ہوجانا
(یگانہ)
یہ تمام اشعار اندھی مذہبیت اور خبط مذہب کے خلاف ہیں یہ اس مذہبی آویزش سے متعلق ہیں جو صرف محبت کو نفرت میں نہیں بدلتی بلکہ قتل و غارت گری کا مذہبی جواز بھی تلاش کرلیتی ہے۔شعرا چونکہ انسانیت کو سب سے بڑا مذہب مانتے ہیں اسی لیے وہ مذہبی ظاہر پرستی کے ہر رنگ و روپ کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔
ڈاکٹر یوسف حسین خاں نے بجا لکھا ہے کہ:
”شاعر اور خاص طور پر غزل گو شاعر کا مزاج اور افتاد طبع ادعا پسندی کی کبھی حریف نہیں ہو سکتی۔ ادعا پسندی کا علمبردار زندگی کے پے چیدہ حقائق کو من مانے طور پر سادہ تصور کر کے صرف اپنے نقطہ نظر سے انہیں سمجھنا چاہتا ہے۔ وہ کسی دوسرے کے نقطہ نظر کو دیکھنا پسند نہیں کرتا اور نہ سمجھنا چاہتا ہے ۔ وہ سب کچھ کرتا ہے سوائے احتساب نفس کے۔کٹر پن اور ادعا پسندی کے جلو میں تعصب اور تنگ نظری کا قافلہ بھی ہے جو ہر اس تصور کو اپنے پاؤں تلے روندتا جاتا ہے جس میں رواداری اور انسانی محبت کی بات ہو۔ یہ ادعا پسندی ایک زمانے میں مذہبی رنگ لئے ہوئے تھی۔ اسی لئے ہمارے شاعروں نے زہد پر چوٹیں کیں اور اس کی چوریاں ایک ایک کرکے دکھائیں اور تجریدی اور مذہبی اصول سے زیادہ محبت اور انسانیت کو اہمیت دی۔“
(اردوغزل: ڈاکٹر یوسف حسین خاں ص312)
ایسا نہیں ہے کہ اردو شاعروں نے مذہب پر تنقید کی نئی طرح ڈالی ہو۔ قدیم زمانے سے ہی یونان و روما میں مذہبی تصورات پر تنقید کی روایت عام رہی ہے مذہب کو فرد اور سماج کے لئے نہ صرف مضر قرار دیا گیا بلکہ ذہنی مرض‘ افیم اور مقتدرہ حاکم طبقہ کے مفادات اور مراعات کے تحفظ کے لئے حربہ بھی کہا گیا۔ انسانوں کے قتل اور غارت گری کے لئے بھی اسے ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ مذہب کی مسخ شدہ شکلوں نے ہی مذہب بیزاری کے رجحان کو بڑھاوا دیا۔اور یہ حقیقت ہے کہ یہودیوں کے احبار اور عیسائیوں کے رہبان نے مذہب میں اتنی تحریف اور ترمیم کی ہے کہ اس کی اصل روح ہی ختم ہو گئی۔ اور یہی سازش اسلام کے ساتھ کی گئی کہ تفاسیر میں اسرائیلی روایات کی آمیزش بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ کی گئی کہ بہت سی مذہبی حقیقتیں مسخ ہو گئیں۔تحریف کی کوششوں کی وجہ سے علامہ اقبال کو یہ کہنا پڑا:
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
اسی تحریف اور ترمیم کے تناظر میں ڈاکٹر اسرار عالم نے منطقی دلائل کے ساتھ ایک معروضہ پیش کیا ہے جس سے علما ء دین قطعی اتفاق نہیں کریں گے کہ ”نبی آخر الزماں حضرت محمد صلعم کا برپا کردہ نظام اسلام 661 عیسوی میں ختم کر دیا گیا اور اس کی جگہ ربیائی یہودیت (Rabbinic Judaism) اسلام مذہب کا لبادہ زیب تن کر کے برپا ہو گئی“(سرسیدکی بصیرت ص 161)۔حساس فنکاروں نے بھی شاید یہ محسوس کیا ہوگا کہ دین کے نام پر جو تعبیرات پیش کی جا رہی ہیں وہ اسلام کی اساس سے مطابقت نہیں رکھتیں اس ل’ے مذہب کے تعلق سے ان کا رویہ تشکیک اور تذبذب کا رہا۔ اردو کے زیادہ تر شاعروں نے مذہب کی ظاہر پرستی پر ہی طنزکیا ہے۔ مذہب کی بنیادی روح پر وار کرنے کی ہمت یاجرأت کامظاہرہ نہیں کیاہے اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اردو شاعری پرتصوف کابہت گہرا اثررہاہے اور یہ وہ مثبت فلسفہ ہے جو بقول ڈاکٹر وحیداختر:
”ادعائیت، ملائیت، مذہبی تشدد و سخت گیری، ظاہرپرستی،تفرقہ اندازی اور ابن الوقتی کے خلاف بغاوت بن کر روشن خیالی، رواداری، انسان دوستی اور عوام سے قربت کا مسلک بن جاتاہے۔“
(تصوف اوربھکتی کاتہذیبی کردار،بحوالہ سیکولرزم اور اردوشاعری،اختربستوی،ص۱۴۵)
اردو کی غزلیہ شاعری میں ایسے افکار کی کثرت ہے جوکفر کی شقوں مثلاً کفرالعناد، کفرالانکار، کفرالکبر، کفر النفاق، کفر الاستحال، کفرالکرہ، کفرالاستہزا،کفرالارادہ، کفرالاستبدال کے ذیل میں آتے ہیں مگر اس سے کسی بھی شاعر کی فنی عظمت مجروح نہیں ہوتی کہ شاعر کی مذہب یالامذہبیت اس کی عظمت کا معیار ومیزان نہیں ہے کیونکہ اگر مذہب معیار ہوتا تو حضورؐ امراء القیس کے بارے میں یہ نہ کہتے’اشعرالشعرا وقائدہم الی النار‘ اور پھر حضرت علیؓکا واقعہ مشہور ہے کہ کسی نے ان سے پوچھا سب سے بڑا شاعر کون ہے تو انھوں نے فرمایا:
قوم نے اس میدان میں ایک ہی اسلوب میں نہیں دوڑلگائی کہ نشانہ اڑاتے وقت تیز رفتار اور کامیاب پہچان لیا جائے اگر یہ فیصلہ ضروری ہی ہے تو پھرامراؤ القیس
ابن ابی الحدید لکھتے ہیں:
”حضرت علیؓ رمضان میں ہرشب لوگوں کو کھانے پر مدعو کرتے تھے اور ان کو گوشت کھلاتے تھے لیکن اس غذا کو خود تناول نہیں فرماتے تھے۔ کھانے کے بعد ان کے سامنے خطبہ دیتے اور وعظ ونصیحت فرماتے تھے۔ ایک شب کھانے کے دوران ان کے درمیان گزشتہ شعرا پر بحث چھڑگئی، حضرت علیؓ نے کھانے کے بعدخطبہ ارشاد فرمایا اور اس کے ضمن میں کہا:
تمہارے امور کے لیے معیاردین ہے۔تمہارا محافظ ونگہبان تقویٰ ہے، تمہارا زیور ادب ہے اور تمہاری آبرو کا حصار علم پرہے اس کے بعد ابوالاسوددوؤلی کی طرف مخاطب ہوئے جووہاں موجود تھے اوراس کے قبل شعرا پر ہونے والی بحث میں شریک تھے اور فرمایا:
بتاؤ کہ میں بھی سنوں تمہاری نگاہ میں دنیائے عرب کا سب سے بڑا شاعر کون ہے؟ ابوالاسوددوؤلی نے ابوداؤد ایادی کا ایک شعر پڑھا اور کہا کہ یہ شخص میری نگاہ میں سب سے بڑا شاعر ہے۔ آپ نے فرمایا:تم نے انتخاب میں غلطی کی ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ لوگوں نے دیکھا کہ حضرت علیؓ ان کے درمیان مورد بحث موضوع کے بارے میں دلچسپی کا اظہار فرما رہے ہیں تو بیک زبان ہوکر سب نے آواز دی اے امیرالمؤمنین! آپ ہی بیان فرمادیں کہ دنیائے عرب کا سب سے عظیم شاعر کون ہے؟ آپ نے فرمایا اس موضوع میں فیصلہ صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ اگرتمام شعرا نے کسی ایک میدان میں طبع آزمائی کی ہوتی تو ان کے بارے میں فیصلہ کرنا اورجیتنے والے کی شناسائی کرانا ممکن تھا۔ پھربھی اگراظہار نظرضروری ہی ہوجائے تو اس شخص کو پیش کرنا چاہیے جو نہ ذاتی خواہشات سے متاثرہواور نہ خوف و ہراس نے اس کو متاثرکیا(بلکہ صرف قوت تخیل اور ذوق شعری) کی بنیاد پر اشعار کہے ہیں۔ وہ دوسروں سے آگے ہے۔ لوگوں نے دریافت کیا،اے امیرالمؤمنین وہ کون ہے؟ آپ نے فرمایا وہ فاسد و گناہ گار بادشاہ امرؤالقیس ہے۔“(بحوالہ:نہج البلاغہ کی سیر، مفکرشہیداستادمرتضیٰ مطہری)
امراؤالقیس کے فحش شعروں کواعلیٰ قراردیاجانا اس بات کا ثبوت ہے کہ تقییم شعر کا معیار اور پیمانہ اخلاقیات سے مختلف ہے۔ اس کا معیار فن ہے، تخلیقی جوہرہے اور لسانی لطافتیں ہیں نہ کہ نظری فکری مذہبی عناصر۔ اسی لیے توابوبکر صولی نے ابو تمام کی شاعری کومجموعہ کفر قراردینے والوں سے کہا کہ کفر سے شاعری میں انحطاط اورایمان سے ازدیادنہیں ہوتا۔ دونوں الگ الگ ہیں اور دونوں کے مابین ایک نقطہ انقطاع ہے۔ورنہ نظری مذہبی خطوط پرسوچاجائے توبہت سے شاعروں کا غیرضروری اخراج لازم آئے
گا اور بیشتر ان شاعروں کاجن پرتخلیق کی عظمت اورشاعری کی رفعت کادارومدار ہے۔
استفادی کتابیات
1۔دنیا کے بڑے مذہب‘عماد الحسن آزاد فاروقی۔مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ نئی دہلی(1986)
2۔اردو غزل‘ڈاکٹر یوسف حسین خاں۔دار المصنفین اعظم گڑھ (1996)
3۔ غزل اور مطالعہ غزل‘ڈاکٹر عبادت بریلوی۔ ایجوکیشنل بک ہاوس علی گڑہ (2005)
4۔اردو غزل اور ہندوستانی ذہن و تہذیب‘گوپی چند نارنگ۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی۔ (2002)
5۔سیکولرزم اور اردو شاعری‘ڈاکٹر اختر بستوی۔ اتر پردیش اردو اکادمی لکھنو (1996)
6۔اردو غزل‘کامل قریشی۔ اردو اکادمی دہلی۔(2006)
7۔نقد اقبال‘میکش اکبر آبادی۔ مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ نئی دہلی (2011)
8۔اردو اور مشترکہ ہندوستانی تہذیب‘ڈاکٹر کامل قریشی۔ اردو اکادمی دہلی (1987)
9۔اردو میں صوفیانہ شاعری‘ڈاکٹر محمد طیب ابدالی۔ مکتبہ صوفیا نالندہ (1984)
10۔نئی اردو غزل‘ ڈاکٹر سرور الہدی۔معیار پبلی کیشنز دہلی (2004)
غزل میں کفروالحاد کاتصور
[email protected]
(پہلی قسط)
عقیدوں یاعقیدتوں میں محصور معاشرہ خردافروزی، تعقل پسندی یا آزادہ روی کی روش کوپسند نہیں کرتا۔
کسی بھی مکیف معاشرہ میں مذہبی مسلمات یا معینہ اقدار سے انحراف اور اختلاف کی گنجائش کم ہی ہوتی ہے۔ نظری ادعائیت یا مذہبی نرگسیت تنقید یاطنز کی متحمل نہیں ہوتی، ذرا سی روشن خیالی، عقلیت پرستی، اعتزال پسندی کے اتہام کے لیے کافی ہوتی ہے۔
غزل کا جس معاشرہ سے سابقہ پڑا، وہ علمی اور ادراکی پسماندگی کا شکارتھا۔ ایک خلاقیت مخالف معاشرہ جہاں مذہب سے بڑی کوئی میزان نہیں تھی، قوت متخیّلہ، وجدانیہ کو معطل کرنے والا یہ ایسا معاشرہ تھاجہاں مذہبی پیراڈائم سے انحراف کفروالحاد کی حدوں میں پہنچا دیتاہے، شرعی سخت گیری کے ایسے ماحول میں متعینہ راہ وروش سے انحراف دارورسن کو دعوت دینے کے مترادف ہے،مگر اس معاشرتی اور مذہبی جبر کے باوجود بڑے خلاق ذہنوں نے فکری عبودیت اوربندگی کی بندشوں کو توڑکر حیات و کائنات کودیکھنے اور پرکھنے کے اپنے پیمانے وضع کیے۔ شاعروں کی محدود اقلیت نے معاشرے کی روش عام سے اجتناب کیااور فکرونظر کی نئی بستیاں آبادکیں۔ پرانے مسلمات کو شک کی نگاہ سے دیکھا اور اس طرح تشکیک پسندی کی ایک لہرنے جنم لیا۔جس سے مذہبی مسلمات کی طنابیں اکھڑنے لگیں۔ان اذہان نے اس روشنی کی جستجو کی جس کی سزاسنگ باری ہوتی ہے۔ خودآگہی کی منزل کی طرف ان ذہنوں نے یہ سوچ کر اپنے قدم بڑھائے کہ احتجاج یااختلاف سے عاری اورمقلدمعاشرہ کاارتقارک جاتا ہے۔
ایسے انحرافی اذہان کی منطق یہ تھی کہ اثبات یا انکار کا تعلق واضح حقائق سے ہوتاہے اور جب حقیقت ہی مبہم ہو تو اثبات یا انکار کاسوال ہی کہاں پیدا ہوتاہے۔ ان ذہنوں کی تشکیک تحقیق کی ایک نئی منزل کی متلاشی ہوئی،جس کے نتیجے میں تشکیک ایک حاوی اور غالب رویے اور رجحان کی صورت میں ابھری، مگر پس رو،تفکیر،تدبیر اور تعمیل سے عاری معاشرہ کو یہ رجحان ایک آنکھ نہیں بھایا۔ جبکہ یہ ایک صحت مندرویہ تھا، کیونکہ اسی رویے سے ہی خیروصداقت کے حقیقی سرچشمہ تک رسائی ممکن ہوسکتی ہے اور یہی رویہ تحقیق وتخلیق کاحقیقی منصب بھی ہے۔ جون ایلیا نے اپنے مضمون میں اس معنی خیزنکتہ کی طرف یوں اشارہ کیا ہے:
”عقیدوں کے نظام، غیرمشروط حسن، خیراور صداقت سے تضاد کی نسبت رکھتے ہیں چنانچہ مابعدالطبیعی حقائق کے شاعر، شاعر سے بلندتر مرتبے کے حق دار توہوسکتے ہیں مگرشاعرنہیں ہوسکتے
۔”شاعری ایک واقعے کو چار آنکھ سے دیکھنے اور ایک کیفیت کو دوذہنوں سے محسوس کرنے کاعمل ہے۔“
(ادبی شخصیات: ڈاکٹر ظفر مرادآبادی، ص-20)
تشکیک تخلیق کا عنصری جوہرہے اس لیے یہ رویہ اکتشاف حقائق تک پہنچنے کے لیے ناگزیر ہے۔
پروفیسر وحیداختر نے اس کی بابت لکھا ہے:
”تشکیک جو نسبتاً وسیع تر مفہوم میں استعمال ہوسکتی ہے ایک عام ذہنی رویہ ہے۔ علمیاتی یا مابعدالطبیعاتی نظریہ نہیں، یہ ایسا مثبت اورصحت مند رجحان ہے جو تمام رائج الوقت فلسفوں اور اقدار کوشک کی نگاہ سے دیکھتا انھیں جانچتا اور پرکھتاہے تاکہ حقیقت کی ماہیئت اور تہ تک پہنچ سکے۔یہ میلان آج ہماری پوری سماجی اور ذہنی زندگی پرمحیط ہوتا جارہاہے۔ پھربھی ناقدین نے نظریات کی عینک لگاکر اسے کبھی فراری ذہنیت کا نام دیا کبھی آزادی کی ایسی لگن بنایا جس میں ذمہ داری کا احساس نہ ہو۔ کبھی اسے مقصد کے فقدان کانام دیاگیا اورکبھی ذہنی کم مائیگی کہاگیا۔ انسان کے متجسس اور توانا ذہن کو مروجہ عقائد اور تصورات و اقدار کو جانچنے پرکھنے اور شک کی نظر سے دیکھنے کی اجازت ہی نہ دینے کا نام ادعائیت (Dogmatism)یا ملائیت برہمنیت ہے تشکیک کے اس مثبت رجحان ہی میں آئندہ کے تصورات واقدار تک پہنچنے کا امکان بھی ہے اور مستقبل کی صورت گری کی قوت بھی۔“(فلسفہ اور ادبی تنقید)
اردو کے جو شاعر مستقبل کی صورت گری کی قوت کے رمز سے آگاہ ہوئے،انھوں نے ایک انحرافی راہ اور اختراعی روش اختیار کی اور غزل کو محبوس معاشرہ کا محدود اظہاریہ بننے سے بچالیا اورغالب کے شکوے کے باوجود غزل کی صنف کو کچھ اور وسعت مل گئی۔حسن وعشق کے حدود سے نکل کر کائنات کے ان مسائل و موضوعات کو مس کرنے لگی جن کا تعلق انسان کی ذات کے اضطراب،المیے،بحران، انتشار، سماجی وقوعے،سیاسی واردات سے تھا۔ اس طرح غزل نے ایک طویل سفر طے کیا اور لمحہ لمحہ زندگی کے بدلتے رنگوں کو دیکھا۔ویسے بھی جس معاشرے میں غزل کی صنفی تشکیل ہوئی، وہاں سے ہندوستان تک آتے آتے اس کی صورت ہی نہیں سیرت بھی بدل گئی۔ غزل، یہاں ایک ’تیسری تہذیب‘ سے آشناہوئی جسے انڈومسلم کلچرکانام دیاگیا۔ اس تہذیب کے تصورات نے غزل کی فکر اور فرہنگ کو بدل دیا۔لسانی،فکری ’امتزاجیت‘ کے عناصر نے اس کی کتھارسس کی اور اس فلسفہ سے آشنا کیاجوآریائی ذہنوں کا وضع کردہ تھا جسے ’وحدت وجود‘ یا ’ہمہ اوست‘ کا عنوان دیاجاتاہے۔ اس فلسفہ کی رو سے موجود صرف ایک ہے اور وہ اللہ کی ذات ہے۔ اور اللہ کے سوا ہر چیز باطل ہے۔کائنات کا وجود خیالی ہے۔ اس کے ہر ذرہ میں خدا کی نمود ہے۔ اس طرح کائنات خدا کے وجود کا حصہ ہے اور اس کے مظاہر خداکی شکلیں ہیں۔ عرب دنیامیں اس تصور کی تشہیر اور تبلیغ محی الدین ابن عربی نے کی جبکہ ہندوستان میں اس فلسفہ کے محرک سری شنکر ہیں۔ یہ نظریہ ویدانت اور اپنشد سے ماخوذ ہے۔اہل دانش کی طرف سے اس کی شدت سے مخالفت ہوئی کہ اس میں ترک عمل اور نفی خودی پرزور ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے ایک مکتوب میں یہ بھی لکھ دیا کہ :
”مسلمانوں میں ایک ایسے لٹریچر کی بنیاد پڑی جس کی بنا وحدت الوجود تھی۔ ان شعراء نے عجیب و غریب اور بظاہر دل فریب طریقوں سے شعائر اسلام کی تردید و تنسیخ کی ہے“ (نقد اقبال: میکش اکبرآبادی، ص-24)
اسی نظریے کی مخالفت میں وحدت الشہود کا تصور سامنے آیا جس کے محرک شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی تھے۔ ان کے مطابق مخلوقات کا وجود وجود ظلی ہے اور خدا کا وجود ابدی اور ازلی ہے۔ اور کائنات کی ہر شے خدا کی ذات کا حصہ نہیں ہے ورنہ ہر شے قابل پرستش قرار پائے گی۔ اہل تصوف زیادہ تر وحدت الوجود کے قائل ہیں۔ اسی لئے بعض علما تصوف کو مشرکانہ عقائد کا مجموعہ کہتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ وحدت الوجود اور وحدت الشہود دونوں فلسفیانہ اور جدلیاتی مسائل ہیں۔ دونوں میں انتہا پسندی خطر ناک ہے۔ دونوں میں صرف تعبیرات کا فرق ہے۔ یہ معنیات کا اختلاف ہے جسے فکری مجادلے اور مناقشے میں بدل دیا گیا ہے۔ فتاوی عثمانی میں اس کی وضاحت یوں کی گئی ہے کہ:
”وحدت الوجود کا صحیح مطلب یہ ہے کہ اس کائنات میں حقیقی اور مکمل وجود صرف ذات باری کی ہے اس کے سوا ہر وجود بے ثبات‘فانی اور نا مکمل ہے“
وحدت الوجود کا فلسفہ اتنا گنجلک بنا دیا گیا کہ اس کی صحیح تعبیرات سامنے نہ آسکیں اور کائنات کی ہر شے میں معبود کی موجودگی اس طرح متصور کر لی گئی کہ خالق اور مخلوق کے درمیان کا فاصلہ ختم سا ہو گیا۔خدا کی ذات اور صفات میں بھی دوسری اشیاء کوشریک کر لیا گیا۔ اس طرح وحدت الوجود کے صحیح مفاہیم اور مقاصد سے مکمل آگہی نہ ہونے کی وجہ سے اس تصور کی سرحدیں کفر‘ الحاد اور زندقہ سے ملتی گئیں جبکہ وحدت الوجود کے نفس تصور میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔اگراس میں الحاد وزندقہ کا عنصرہوتا تو شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، مرزامظہرجاں جاناں،قاضی ثناء اللہ پانی پتی جیسے علمااس نظریے کی تائید نہ کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال نے بھی آخر میں وحدت الوجود کے فلسفے کی تصدیق و تائید کی جس کی تفصیل میکش اکبرآبادی کی کتاب ’نقد اقبال‘ میں دیکھی جاسکتی ہے۔
اردو کے خمیر میں وحدت الوجود کا ہی تصور ہے اس کی کئی وجہیں ہو سکتی ہیں۔ سب سے بڑی وجہ مختلف مذاہب میں مشترکات اور مماثلات کی تلاش ہے دوسری وجہ اردو کی سیکولر روح ہے کہ اس کی جنم بھومی وہ سرزمین ہے جہاں مختلف مذاہب اور عقائد کے لوگ بستے ہیں۔ جہاں مذہبی تصلب، تقشف اہل ایماں کے وجود اور تشخص کے لئے ہی نہیں بلکہ اپنے تصور کی ترسیل اور تبلیغ کے لیے خطرہ بن جاتا۔ اس لئے پروانہ چراغ دیر و حرم نمی داند پر عمل کرنا لازمی ٹھہرا کہ اجنبی فضا میں ترابط اور تفاہم سے ہی آگے کی راہیں کھلتی ہیں۔۔مقامی مقتضیات کے مد نظر رواداری،آزادروی کے تصور کا فروغ فطری تھا۔
اردوغزل میں وحدت الوجود کے نظریات کی آمیزش رفتہ رفتہ ہوتی گئی اور اس طرح غزل ویدانتی فکر سے آشناہوکر مذہبی جذبات سے زیادہ صلح کل اور وسیع المشربی کی ترجمان بن گئی۔اردو کی غزلیہ شعری روایت خاص طور پرکلاسیکی شاعری وحدت الوجود کے تصور سے ہی متاثر رہی ہے۔پروفیسر گوپی چندنارنگ نے اردو غزل میں ہندوستانی ذہن و تہذیب کی تلاش کے دوران اس خاص نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔
”ہمہ اوست اورہمہ ازاوست کا بنیادی فرق یہی ہے کہ ایک کثرت آرائی عالم کو عین ذات کہتا ہے۔ دوسرا اسے مظہرصفات توتسلیم کرتا ہے لیکن عین ذات قرارنہیں دیتا۔ پہلے کی رو سے کائنات چونکہ وحدت کی تجلی ہے اس لیے کثرت حقیقی یا اصلی نہیں بلکہ واہمہ اورفریب حواس ہے۔ ہمہ ا زاوست کی رو سے کائنات کا ذرہ ذرہ چونکہ خالق باری کی تخلیق ہے،اس لیے عالم ظاہر،غیراصل،موہوم یا معدوم نہیں بلکہ ٹھوس حقیقت ہے۔ تصوف کا یہ دوسرا نظریہ وحدت وجود کے غیراسلامی رنگ کو ختم کرنے اور تصوف کو توحید اسلامی سے مطابقت دینے کے لیے بہت بعدمیں وجود میں آیا۔ ظاہرہے کہ یہ اسلامی مذہبی روح کا وہ ردعمل تھا جو اپنی بنیاد کے تحفظ کی خواہش کے تحت کسی بھی مذہب میں پیدا ہوجانافطری ہے۔ وحدت شہود کے نظریے کو فلسفیانہ بنیادوں پر قائم کرنے کاکام ہندوستان میں ہواکیونکہ وحدت وجود کے ہندی تصورات سے ملتے جلتے نظریات اسلام میں سب سے زیادہ عمل دخل یہیں پاگئے تھے،لیکن یہ اصلاحی کوشش چونکہ ایسے رجحان کے خلاف تھی جو بنیادی طورپر ہندوستانی مزاج سے گہری مناسبت رکھتاتھا اور مشترک تہذیب کی جڑوں تک اترگیاتھا، اسے پوری کامیابی حاصل نہ ہوئی اوروحدت وجود کا نظریہ بدستور مذہب، اخلاق، علمیت، قابلیت، شعروادب وغیرہ ہرشعبے پرصدیوں تک چھایارہا۔ماحول کے ان رجحانات سے اردوغزل نے جو تصوف کی گودمیں پروان چڑھی گہرا اثرقبول کیا اور روحانی ماورائیت کے یہ وجودی خیالات اس میں طرح طرح سے راہ پاگئے۔“
(اردوغزل اور ہندوستانی ذہن وتہذیب،ص-۲۴۳-۲۴۴)