علی گڑھ:علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبۂ تاریخ کے پروفیسر اور متعدد کتابوں کے مصنف پروفیسر محمد سجاد کی نئی کتاب ’بھگوا سیاست اور مسلم اقلیت‘ عنقریب منظر عام پر آنے والی ہے۔ اس کتاب میں انھوں ہندوستان کے موجودہ سماجی و سیاسی ماحول خصوصا فرقہ وارانہ سیاست کے عروج کے اسباب اور پس منظر کا جائزہ لیا ہے اور اس سلسلے میں اہم معلومات فراہم کی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کتاب کے ذریعے ایک مکالمہ شروع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایک تجویز رکھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ آج کے مشکل تر اور نا مساعد حالات کے پیش نظر ہندوستانی مسلمان اپنی ترجیحات کو از سر نو طے کرنے کی فکر یا ایسا تجربہ کر سکتے ہیں یا نہیں؟ سوشل میڈیا پر شمالی ہند کے مسلم نوجوانوں کی بڑی آبادی بہ ظاہر زیادہ دلچسپی انتخابی سیاست کی توڑ جوڑ، سیاست دانوں کے نجی و پبلک معاملات پر دکھاتی ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا لگنے لگتا ہے کہ انتخابی سیاست کی دنیا میں جو گراوٹ آئی ہے، اس کے خلاف بولتے ہوئے یا احتجاج کرتے ہوئے بیش تر کا مقصد شاید انہی خرابیوں میں ملوث ہو کر ذاتی مفادات حاصل کرنا ہے۔
پروفیسر سجاد کے مطابق اس کتابچہ کے ذریعے ایک ادنی کوشش کی جا رہی ہے کہ انتخابی سیاست کے رموز و نکات کو مطالعہ اور مشاہدہ کے ذریعہ باریکی سے سمجھنے کا عمل تو جاری رکھا جائے، لیکن فوقیت اور ترجیح دی جائے تعلیمی و اقتصادی ترقی پر۔ ساحلی صوبوں کیرالہ، حیدرآباد اور آسام میں جہاں مسلم سیاسی جماعتیں ہیں، وہاں ڈیموگرافکس کے علاوہ یہ بھی سچ ہے کہ ان علاقوں میں کئی تنظیمیں تعلیمی و اقتصادی میدان میں بھی قابل تعریف اقدام کر رہی ہیں۔ عمومی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ جنوبی ہند کے بیشتر بڑے شہروں اور خطوں میں مسلمانوں کی جدید تعلیم کے لئے کئی تنظیموں نے متعدد تعلیمی و تحقیقی ادارے بھی قائم کیے ہیں۔ مثلاً 1966 میں قائم شدہ، الامین ایجوکیشنل سوسائٹی بنگلور، مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی (کیرالہ قائم شدہ، 1964) اور 1955 میں قائم کیرل مسلم ایجوکیشنل ایسو سی ایشن اور 1902 میں قائم مسلم ایجوکیشنل ایسو سی ایشن آف ساؤدرن انڈیا (چینئی) وغیرہ۔ آندھرا پردیش، تلنگانہ میں بھی کئی ایسی تنظیمیں ہیں۔ سلطان العلوم ایجوکیشنل سوسائٹی، ادارۂ ادبیات اردو، دی مسلم ایجوکیشنل سوشل آرگنائزیشن، مدینہ گروپ آف ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنس وغیرہ۔
یہاں تک کہ مدھیہ پردیش اور راجستھان جیسے صوبوں (جہاں زعفرانی تسلط 1990 کی دہائی سے ہی قائم ہے) میں بھی مسلمانوں نے تمام مشکلات کے باوجود ایسے کچھ اقدام کیے ہیں۔ مثلاً مسلم ایجوکیشن سو سائٹی اور آل انڈیا مسلم بیک ورڈ کلاسز فیڈیریشن (مدھیہ پردیش)۔ ممکن ہے ایسی اور بھی تنظیمیں وہاں ہوں گی۔ راجستھان میں جودھپور ریاست کے راجہ امید سنگھ کی فراخ دلی سے 1929 میں قائم مارواڑ مسلم ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی نے بھی کئی (تقریباً 31) اسکول، کالج اور اسپتال قائم کیے ہیں۔
ایسے میں بہار، اتر پردیش، مغربی بنگال، جیسے صوبوں میں بھی ایسے اقدام اگر مسلمانوں کا اہل ثروت طبقہ اور دیگر خواص کرنے لگیں گے تو حالات میں خاطر خواہ تبدیلی آ سکتی ہے۔ اس کے برعکس ان صوبوں میں سر دست ایسے کئی لوگ اپنی دولت کا بہت بڑا حصہ الیکشن کا ٹکٹ حاصل کرنے اور چناؤ کی مہم میں (شکست کھا کر) خرچ کر دیتے ہیں۔ انتخابی سیاست چونکہ بری طرح جرم زدہ بھی ہے اور شدید بدعنوانی کی بھی شکار ہے، لہذا سیاسی عروج حاصل کرنے کے متمنی بعض لوگ جرم کا راستہ بھی اختیار کر رہے ہیں اور اس کے لئے مذہب کا بے جا استعمال اور وسیع تر سماجی یا فرقہ پرستانہ حمایت تیار کرنے کی چال بازیاں اور تگڑم بھی کی جاتی ہے۔ حصول اختیارات کے طریقوں میں ایک طریقہ جرم کو بھی مانا جاتا ہے اور اس طرح پڑھنے، لکھنے اور تجارت و ملازمت کرنے والے نوجوانوں کو گمراہ کر کے جرم کی اندھیری دنیا میں دھکیل دیا جاتا ہے۔
یعنی ایک وسیع تر اور مضبوط سماجی مہم جرائم کا راستہ اختیار کرنے کی روش کے خلاف بھی شروع کرنی ہوگی۔ اس کتاب کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ مسلمان اپنی سماجی و سیاسی ترجیحات از سر نو طے کریں،امید ہے کہ اس کتاب سے مسلمانوں کے درمیان ایک نیا ڈسکورس شروع ہوگا۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
اے ایم یو:شعبۂ عربی میں’’گاندھیائی فلسفہ اور عرب مصنفین‘‘ کے موضوع پر بین الاقوامی ویبینار کا اہتمام
علی گڑھ:علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے شعبۂ عربی میں گاندھی جینتی کے موقع پر ایک روزہ بین الاقوامی ویبینارمنعقد ہوا جس کی صدارت اے ایم یو وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کی۔ مہمان خصوصی کی حیثیت سے پروفیسر زکریا السرطی، ڈائریکٹر جنرل الضیا ء انسٹی ٹیوٹ برائے تحقیق، مراکش نے شرکت کی۔ ڈاکٹر یٰسین سعدان، سینئر ریسرچر ،جامعہ محمد الخامس مراکش اور ڈاکٹر حنا شبائکی ،پروفیسر امیر عبد القادر یونیور سٹی سنتینہ، الجزائر نے مہمان ذی وقار کی حیثیت سے اس پروگرام کو رونق بخشی۔پروفیسرطارق منصور نے اپنے صدارتی کلمات میں اس ویبنارکے ڈائریکٹر پروفیسر فیضان احمد صدر شعبہ عربی کو پروگرام کے انعقاد پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے دلی مبارکباد پیش کی۔ اس کے بعد گاندھی جی کی شخصیت اور ان کے فلسفۂ حیات کے چند نمایاں پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ گاندھی جی نے اپنی پوری زندگی مساوات اور عدم تشدد کا درس دیا۔ جنوبی افریقہ میں قیام کے دوران انہوں نے اپنے انہیں نظریات اور اصولوں کا عملی مظاہرہ کیا۔ ہندوستان کی آزادی میں ان کے فلسفۂ حیات کا بہت بڑا رول رہا ہے، وہ قومی یکجہتی اور ہندو مسلم اتحاد کے بہت بڑے علمبردار تھے اور تقسیم ہند کے مخالف تھے۔ علی برادران کے ساتھ خلافت تحریک میں شریک تھے ۔ وہ اہنسا اور ستیہ گرہ کے اصولوں پر چل کر پوری دنیا میں مقبول ہوئے، جس کی جیتی جاگتی مثال شعبہ عربی کا یہ ویبنار ہے۔ ڈین فیکلٹی آف آرٹس پروفیسر مسعود انور علوی نے ویبنار کے انعقاد پر شعبہ عربی کے تمام اساتذہ کرام کو مبارکباد پیش کی اور بحیثیت ڈین تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔صدر شعبہ عربی اور ویبنار کے ڈائریکٹر پروفیسر فیضان احمدنے مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے اپنے افتتاحی کلمات میں کہا کہ گاندھی جی کے فلسفۂ زندگی کی معنویت جس طرح سے سابقہ ادوار میں رہی ہے اسی طرح موجودہ دور میں بھی باقی ہے۔ گاندھی جی کی زندگی اور انکے کارنامے اور اصول و نظریات پر جس طرح دنیا کی مختلف زبانوں میں تفہیم و تشریح کی گئی ہے اسی طرح عربی زبان میں بھی عرب ادبا ء اور مصنفین کی بے شمار تحریریں ملتی ہیں۔مہمان خصوصی پروفیسر زکریا السرطی نے اپنے کلیدی خطاب میں گاندھی جی کے فلسفۂ انسانیت کو موضوع بحث بنایا اور عرب دنیا میں ان کی مقبولیت کا کھلے دل سے اعتراف کیا۔ عالم عرب میں جن ادبا ء و مصنفین نے گاندھی جی کی شخصیت اور ان کے فکرو فلسفہ کو موضوع بحث بنایا ان میں عباس محمود العقاد، احمد امین، سلامہ موسی اور احمد شوقی کے نام خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔
علی گڑھ:علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے سابق طالب علم زماں حبیب کو ویب سیریز ’’اشاروں اشاروں میں‘‘ کے نغمے ’’اِک چُپ تم اِک چُپ میں…. ‘‘ کے لیے اسکرین رائٹرس ایسوسی ایشن آف انڈیا (ایس ڈبلیو اے) ایوارڈ تقریب میں بہترین نغمہ کے ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ 49سالہ زماں حبیب ایک نغمہ نگار اور ٹیلی ویژن رائٹر کے طور پر اپنی شناخت قائم کرچکے ہیں اورانھوں نے سپنا بابل کا، بِدائی، سسرال گیندا پھول، ایک ہزاروں میں میری بہنا ہے، ساس بِنا سسرال اور نِمکی مکھیا جیسے مقبول عام سیریل کی اسکرپٹ لکھی ہے۔ زماں حبیب نے اے ایم یو سے بی اے اور ایم اے (انگریزی) کیا ۔ نوے کی دہائی میں پی ایچ ڈی کے دوران انھوں نے تفریحی صنعت کا رخ کیا اور پھر پیچھے مڑکر نہیں دیکھاہے۔ اے ایم یوکے ڈراما کلب میں انھیں پروفیسر زاہدہ زیدی کی سرپرستی حاصل ہوئی جو اُس وقت اے ایم یو کے جنرل ایجوکیشن سنٹر کی سربراہ تھیں۔ ان کے علاوہ اردو کے مشہور ادیب و ناقد پروفیسر ابوالکلام قاسمی نے ان کی حوصلہ افزائی کی اورپروفیسر ایف ایس شیرانی نے بھی رہنمائی کی۔ زماں حبیب اے ایم یو ڈراما کلب کے سکریٹری بھی رہے ہیں۔
اداس چھو ڑ گیا وہ ہر ایک موسم کو
گلاب کھلتے تھے کل جس کے مسکرانے سے
بہ قول’’ غالب مرحوم انسان ایک محشر خیال ہے ‘‘ مرزا دہلوی نے غالب کے اس قول میں مزید حسن اس قید سے پیدا کردیا کہ خیال میں حشر برپا کرنے کے لئے کسی بیرونی تحریک کا ہونا لازمی ہے۔امین عثمانی مرحوم کے دماغ، افکا ر اورخیالات میں تحرکات حیات کا نیا جذبہ اور آہنگ جس بیرونی تحریک نے پیداکیااور ساتھ ہی آپ کے گنجینۂ علوم کو نور، روشنی ،تحریک ،تحرک ،ڈھنگ، سلیقہ اور شعور عطا کیا وہ دنیا ئے اسلام کے عظیم فقیہ اور مفکر قاضی مجا ہد الاسلام قاسمی مرحوم ہیں ۔ انہی کی صحبت اور تربیت نے امین عثمانی صاحب کو جہاں بینی اور جہاں نوردی کے اصول سکھائے جس طرح قاضی مجا ہد ا لا سلام صاحب اپنی چشم بینا سے دنیا کے مسائل اور آنے والے حالات سے آگاہی حاصل کرلیتے تھے ۔یہی فہم اور ادراک قاضی صاحب کی چشم عنایت اور توجہ سے امین عثمانی صاحب کو حاصل ہو گیا تھا ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ امین عثمانی صاحب قاضی صاحب کے فکر و خیال اور ان کے تحریکی مزاج کے وارث اور امین تھے ۔جذبے کی وہی صدا قت اور لگن جو قاضی صاحب کے یہاں تھی اس کا اظہار اور نمونہ امین عثمانی صاحب کے یہاں بہ خوبی دیکھا جا سکتا تھا۔ مزید جس طرح قاضی صاحب مسائل کے استنباط اور دیگر معاملات میں فکر و نظر کے اعتبار سے بلاکی وسعت اور ذہنی کشادگی میں منفر د اور امتیازی شان رکھتے تھے اس حیثیت سے بھی امین عثمانی صاحب ان کے نمائندے اور مبلغ تھے۔
جناب امین عثمانی صاحب مرحوم سے قرب اور شناسائی کا وسیلہ ان کا غیرمعمولی علمی تبحر اور انتظامی امور میںان کی قابلیت اور شہرت بنی ۔ دراصل دہلی میں میرے قیام کی مدت دس سال کو محیط ہے اس طویل مدت میں جادۂ علم و کمال کی بہت سی عظیم ہستیوں کے دربارمیں نیاز مندانہ حاضری ہوئی۔ بلاشبہ ان سبھی کے علمی چشموں سے جرعہ نوشی بھی کی۔ تاہم امین عثمانی صاحب استفادہ کرنے والوںکی اس طویل فہرست میں ایک ممتاز اور منفرد شان رکھتے ہیں۔ میرے حوالے سے ان کی اس انفرادیت کے بہت سے پہلو ہیں، جن میں اور بھی ان کے بہت سے شنا سا شامل ہوں گے۔ لیکن بہت سے مسئلوں میں ان کا مجھ پر جو اعتماد اور اعتبار تھا اور جس رازدارانہ انداز سے وہ مجھ سے گفتگو کرتے تھے اور راز کی باتیں بتاتے تھے یہ ان کا میرے تئیں والہانہ تعلق ان کے اخلاق اور کردار اور خرد نوازی کا ایک خوبصورت عنوان و علامت تھی۔
امین عثمانی صاحب کو لوگ صرف ایک متحرک اور فعال منتظم اور فہم و ادراک کے اعتبار سے ایک دور بیں مدبر اور دانشور کے طور پر جانتے تھے ، اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ امین عثمانی صاحب آسمان فضل و کمال کے ستارو ں کی بزم میں ستارہ سحر تھے ۔ اور نسیم سحر کی مانند ان کے وجود سے محفل علم و فن آباد اور شاد تھی ۔ بلکہ آپ خود چراغ محفل تھے جس سے ایک جہان روشن اور تابناک تھا ۔ لیکن ان کی حیثیت اضافی بھی تھی جس کا علم شاید بہت کم لوگوں کو حاصل ہو ۔
وہ چہار دیواری کے اندر گوشہ گیر رہتے ہوئے بھی جس طرح دنیا اور خاص طور سے عالم اسلام کے حالات سے نہ صرف واقف تھے بلکہ آپ کی وہاں کے سیاسی اور سماجی مسائل میں غیر معمولی دلچسپی اور ہرطرح کے بدلتے ہوئے حالات پر ان کی گہری نظر اور آگا ہی ان کی شخصیت کے معیار کو عالمی سطح پر اسلام کے عظیم مفکر کی حیثیت سے ممتاز اور منفرد بنادیتی ہے۔ دوہزار گیارہ میں عرب بہارکے نام سے عربوں میںجو انقلاب کی لہر تیونس سے شروع ہوئی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری عرب دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ امین عثمانی صاحب کبھی کبھی جب ان انقلا بات پر گفتگو اور تجزیہ پیش کرتے تھے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ شخص ان انقلابات کی خود پلاننگ بناکر آیا ہے ۔ حتی کہ کبھی کبھی یہ بھی بتا دیتے تھے کہ انقلابیوں کا اگلا قدم کونسا اور کیا ہوگا اور اب کس عرب ملک پر ان کا اگلا انقلابی اقدام ہوگا۔ یہاں کہنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ امین عثمانی صا حب خاک کے پردے میں تھے اور قطعی طور پر اپنے آپ کو اگلی صف میں کھڑا کرناپسند نہیں کرتے تھے۔ اس کے باوجود ان کی نظر نظریہ بن کر معمار جہاں کے تانے بانے بنانے میں مصروف تھی ۔ان کے پاس وہ بصیرت اور وہ ادا شناس فہم تھی جو حالات کو بھانپ کر اس کے دفاع اور اقدام کا خاکہ تیار کردیتی تھی، وہ تنہائی پسند ضرور تھے لیکن وہ وسعت افلاک میںتکبیر مسلسل کے ذریعہ قوموںکو بیدار کرنے میں ہر وقت سنگ نشاں کی جستجو اور تلاش میں منہمک تھے ۔ ان کی مثال اس جنوں شعار مسافر کی تھی جس کی کوئی منزل نہیں ہوتی وہ سفر در سفر کی ان دیکھی راہوں کو شاہین بن کر پہاڑوںکی اونچائیوں پر پہنچنے کے فراق میں سرگرم رہتے ہیں وہ ان لوگوں میں شامل ہیں جن کا مقصد حیات ہر وقت نیا لحظہ نیا طور اور نئی برق اور تجلی کا مصداق اور عمل ہے۔
امین صاحب کی عادت اور روش بلکہ مزاج تھا کہ وہ نئے نئے زاویہ نظر اورنئے افکار و خیالات کونئی نسل تک منتقل کرنے کے لئے ہر وقت مصروف عمل رہتے تھے جب بھی ان کی علمی بارگاہ میں ملاقات کی غرض سے جانا ہوتا ۔تو ان کے علمی کمالات اور علمی چشموں سے خوب سیرابی ہوا کرتی تھی۔ آپ کے یہاں ہمیشہ نئے نئے مضامین اور نئے خیالات سننے کو ملتے ۔ ایک مرتبہ میرے دوست مولا نا بدرعالم رائپوری نے اپنے اسلامیات میں پی ایچ ڈی مقالے کے عنوان کا مشورہ کیا تو مضامین نو کے انبار لگا دیے ۔ فرمایا کہ بہت سے عنوا نا ت ہیں جن پر کام کیا جا سکتا ہے مثلا قرآن کا اخلاقی تصور ۔ ہندستان کی فقہ اکیڈمیاں اور ان کی علمی خدمات وغیرہ اور بھی بہت سے فکری اور علمی مضامین ان کے ذہن کے نگار خانے سے جو چشموں کی مانند ابل رہے تھے ۔
قو موں کے عروج و زوال میں آپ نفسیات کا بڑا دخل مانتے تھے بلکہ اس کو وہ عروج و زوال میں بنیاد کا پتھر مانتے تھے یہی وجہ ہے کہ آپ کے یہاں قوموںکی نفسیات کے مطالعہ پر بڑا دھیان تھا وہ کہتے تھے کہ جب تک ہم قوموں کی نفسیات سے مکمل آگاہی حاصل نہیں کریں گے توہم سر بلندی کے نشان کو نہیں چھو سکتے ہیں۔ نفسیات کے حوالے سے ان کا نظر یہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے انبیاء کی دعوت او ر تعلیمات میں نفسیات کو خاص اور اہم مقام حاصل ہے۔تاہم کبھی نفسیات کے مطالعہ پر بہ حیثیت دعوت اور قوموں کے عروج و زوال کی حیثیت سے کے کوئی توجہ نہیں کی۔
ان کو ہندوستان کی موجودہ قیات اور خصوصا اہل علم سے کچھ شکایتیں تھیںدراصل ان کی مستقبل شناس نظر اور دور بیں نگاہیں آنے والے ہندوستان کا جو تماشہ دیکھ رہی تھیں وہ ان کے دل کو بے چین اور پریشان کر کے ر کھتی تھی اور ہر آنے والے شخص سے وہ کسی نہ کسی شکل میں اس کا کھل کر ا ظہار بھی کرتے تھے ۔ وہ کہتے تھے کہ ہم مسلمان اسلام کی اخلاقی ،تمدنی اور تہذیبی تعلیمات کو متعارف کرانے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو پائے۔
۔ اس کے لیے آپ زبان کو بڑی اہمیت دیتے تھے اور خصوصا اہل مدارس کو ہندی زبان سیکھنے میں ہمیشہ زور دیتے رہے ۔ان کا ماننا تھا کہ اس وقت اسلام کی اخلاقی تعلیمات کو اس حیثیت سے فروغ دینے اور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ دنیا کا کوئی مذہب بہ حیثیت اخلاقی بلندی اور سرفرازی کے اس کی تعلیمات کا مقابلہ نہیں کرسکتا ۔ آپ کا مقصد اس سے د ر ا صل یہ تھا کہ اس وقت دنیاکے تمام مذاہب یہ دعویٰ کررہے ہیں بلکہ اس کی اشاعت اور تر ویج میں دولت پانی کی طرح بہا ر ہے ہیں اور ہر مذہب والے کا یہی دعویٰ ہے کہ اخلاق کی تعلیمات کا ذخیرہ ہمارے مذہب میں بھی موجود ہے ۔ حالاں کہ اسلام کے مقابلے میں اخلاقی تعلیمات کا نظام کسی دوسرے مذہب کے پاس ہے ہی نہیں۔
مولانا امین عثمانی صاحب ایک اعلی بلکہ مفکرانہ خطیب کی حیثیت سے دنیا بھرمیں متعارف تھے ، فن خطا بت میں آپ کی اس امتیازی شان کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ آپ کے لہجے میں جوش اور گھن گر ج کے بجائے سنجیدہ اور خالص علمی اور فکری گفتگو سنائی دیتی تھی۔آپ کا صاف ستھرا اور ذوق جمال سے بھرا ہوا معتدل لہجہ اور آہنگ دل و دماغ کے دریچوں میں تازگی ، تحریک اور غور و فکر کا جذبہ بھر دیتا تھا ۔مزید آپ کی خطابت میں مایوسی اور نا امیدی کے نوحہ نہیں ہوتے تھے ۔ بلکہ آپ زندگی کے نغمہ گر کی حیثیت سے قوموںکی کمزوریاں اور خامیاں بھی بتاتے تھے لیکن مرض کی اس تشخیص کے ساتھ حاذق طبیب کی طرح نسخہ شفا بھی عطا کر تے تھے ۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وسیع ہال میں اہل علم و دانش کے ایک مجمع کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ یقینا یہ ایک اہل علم اور اہل فکر کی مجلس ہے بہت سی باتیں ہوچکی ہیں، میں ان کے بارے میں کچھ نہیں کہوں گا۔ میں صرف تین باتیں کہوں گا پہلی بات یہ ہے کہ قرآن کریم دعوت دیتا ہے امت مسلمہ کو تبدیلی کی تغییر کی ۔ اور چینجنگ (changing) کی اور یہ چینجنگ لا نے کی دعوت دیتا ہے وہ ہر سطح پر ، سماجی سطح پر سیاسی اور معاشی سطح پر تعلیمی اور دیگر سطح پر۔ اور یہ تبدیلی باہر سے نہیں آسکتی بلکہ یہ تبدیلی اندر سے آئے گی قرآنی آیات صاف طور پر بتاتی ہیں کہ جب تک یہ امت اور یہ ملت جو ہندوستان میں موجود ہے وہ ازخو د یہ طے نہیں کریگی کہ ہمیں اپنے اندر کیا تبدیلی لانی ہیں اپنے طریقہ کار سوچ اور موقف اور ایٹی ٹیوڈ attitude میںاس وقت تک کوئی تبدیلی نہیں آسکتی ۔ تقسیم ہند کے بعد سے ملک کے حالات تیزی سے بدل ر ہے ہیں۔ خاص طور سے نئی حکومت کے آنے کے بعد حالات اور مشکل ہوگئے ہیں اس لئے اپنے اندر تبدیلی لاکر بہتر پلاننگ کے ذریعہ ہی ان حالات کا مقابلہ ممکن ہے ۔ کچھ دنوں پہلے کی بات ہے قرآن کریم پر غیر مسلموں کی طرف سے کچھ اعتراض ہوئے تھے میں نے تلاش کیا کہ ایسے افراد جو مدرسہ بیک گراؤنڈ background سے ہوں اور وہ سنسکرت بھی اچھی جانتے ہوں اور انہوں نے ہندستانی مذاہب خصوصا ہندو مذہب اور جین مذہب کا مطالعہ ان کے بنیادی ماخذ سے کیا ہوکچھ مجھے مل جائیں لیکن نہیں ملے۔اس کا مطلب یہ ہو اکہ اگر ہم یہ سوچتے ہیں کہ آج کی تاریخ میںاکثریت سے کچھ گفتگو اور مکالمہ کر نا ہے کچھ ایشوز پر بات کرنی ہے تو ہمارے درمیان ایسے لوگ نہیں ہیں جو ہندوازم کو جانتے ہوں اس کے فلسفے اس کی تاریخ اس کی نفسیات اور اس کے لیڈراس کے بیانات کو جانتے ہوںتو ہمارے پاس نہیں ہیں اس لئے کوئی گفتگو بھی نہیں ہوسکتی معلوم ہو ا یہ کمی بھی ہے دیگر کم یوں کے سا تھ ساتھ‘‘ ۔
مولانا امین عثمانی صاحب نے اپنے افکار و خیالات کی ترسیل کی تجربہ گاہ اسلامک فقہ اکیڈ می کو بنایا ۔ زندگی کے آخری ایام تک فقہ اکیڈمی کی حیات نو میں ایک مالی اور باغباں کی طر ح لگے رہے اور اپنے خون جگر سے اس کی حیات نو میں ایسے پھول کھلائے جن کی مہک سے ایک دنیا محظوظ ہورہی ہے۔ یہ امین عثمانی صاحب کی غیر معمولی فہم ، زیرک نگا ہ اور اعتدال پسند طبیعت کا نتیجہ اور حصہ ہے کہ آج فقہ اکیڈمی کو معاصر دنیا میں نیک نامی، شہرت اعتبار اور محبوبیت حاصل ہے اور اکیڈ می کی علمی حیثیت کو پوری دنیا تسلیم کرتی ہے۔ یقینا امین عثمانی صاحب کے پاس جو نظر بلکہ نظر یہ تھا وہ ذرہ کو آفتاب اور غبارہ راہ کو کندن بنانے کا ہنر رکھتا تھا۔
بلاشبہ ہم نے جہاں نم آنکھوں کے ساتھ ایک اعلی مدبر ، مفکر ، مبصر ناقد اورمنتظم کو ہمیشہ کے لئے داغ مفارقت کے سا تھ الوداع کہہ دیا وہیں ایک معمار جہا ں اور قوموں کی نفسیات اور عروج و زوال کا و ا قف کا ر اور نبض شناس اور بہترین انسان کی جدائی کا غم بھی برداشت کرنا پڑا ۔ سچ بات یہ ہے کہ امین عثمانی جیسے بے نفس اور بے نیاز لوگ اب ہمارے پاس تعداد کے اعتبار سے چند ہی ہیں ۔بلکہ ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے ۔
علی گڑھ:ممتاز فارسی اسکالر پروفیسرآذرمی دخت صفوی، سابق ڈین، آرٹس فیکلٹی اور سابق صدر، شعبہ فارسی کو حکومت ہند کی وزارت ثقافت نے موقر ٹیگور نیشنل فیلوشپ برائے ثقافتی تحقیق (ٹی این ایف سی آر) سے سرفراز کیا ہے۔اس فیلو شپ کے تحت پروفیسر صفوی ہندوستانی ثقافت اور تاریخ سے متعلق فارسی کے قیمتی نسخوں پر کام کریں گی۔ اس فیلو شپ کے دوران 80 ہزار روپے ماہانہ اور سالانہ ڈھائی لاکھ روپئے کی ہنگامی گرانٹ دی جاتی ہے۔ یہ اعزاز ان اسکالرز کو دیا جاتا ہے جن کے پاس قابل قدر علمی یا پیشہ ورانہ اسناد ہیں اور جن کی علم کے فروغ میں نمایاں حصہ داری ہے۔پروفیسر صفوی نے کئی اعزاز حاصل کیے ہیں اور اپنی مادر علمی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا نام روشن کیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر معروف فارسی اسکالر کی حیثیت سے انہیں کئی موقر اعزازات سے سرفراز کیا جا چکا ہے جن میں پریسیڈنٹ آف انڈیاایوارڈ، لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ، ایران، غالب ایوارڈ اور حکومت ایران کا سعدی ایوارڈشامل ہیں۔ وہ ہندوستان میں پہلی فارسی اسکالر ہیں جنھوں نے ٹیگور قومی فیلوشپ حاصل کی۔پروفیسر صفوی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فارسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی بانی اور سابق ڈائریکٹر ہیں۔ فی الحال وہ اس انسٹی ٹیوٹ کی مشیرہیں۔
علی گڑھ:علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ویمنس کالج میں’’بہتر دنیا کے لئے صنفی مساوات:مسائل اور چنوتیاں‘‘ موضوع پر منعقدہ دو روزہ آن لائن بین الاقوامی کانفرنس کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہو گئی۔اس کانفرنس کا انعقاد ویمنس کالج، وزارت فروغ انسانی وسائل،محکمہ اعلی تعلیم اور یوجی سی کے مشترکہ تعاون سے کیا گیا تھا۔ کانفرنس کے دوران صنفی مساوات کے موضوع پر73 تحقیقی مقالے پیش کئے گئے اور دو اہم موضوعات پر پینل ڈسکشن کے آن لائن سیشن بھی منعقد ہوئے۔اختتامی اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے مہمان خصوصی ماہر امراض اطفال اور بیگم وائس چانسلر ڈاکٹر حمیدہ طارق نے کہا کہ صنفی مساوات ایک ایسا حساس موضوع ہے جس پر سبھی کو متحد ہو کر بہتر حکمت عملی کے ساتھ کوششیں کرنی ہوں گی۔انھوں نے کہا کہ غذا،تشدد،تعلیم او رصحت کے معاملے میں ہندوستانی خواتین خاصی پسماندگی کا شکار ہیں حکومت اور ہم سب کا اہم فریضہ ہے کہ اس پر غورو فکر کریں۔مجھے خوشی ہے کہ کانفرنس میں افکار و نظریات کے ساتھ ساتھ مستقبل کے لائحہ عمل کی طرف بھی مثبت فکر کا اظہار کیا گیا۔گھر کو چلانے کے لئے شوہر اور بیوی کے فرائض میں توازن،لڑکوں کو جنس مخالف کے ساتھ احترام کا رویہ اختیار کرنے،خواتین کو تعلیم اور ملازمتوں میں زیادہ مواقع فراہم کرکے صنفی مساوات کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ کانفرنس کی ڈائریکٹر اور پرنسپل ویمنس کالج پروفیسر نعیمہ خاتون گلریزنے کہا کہ دنیا کو بہتر بنانے کی کوششیں تب ہی کامیاب ہونگی جبکہ صنفی مساوات کو فروغ دیا جائے گا۔انھوں کہا کہ کانفرنس میں کثیر تعداد میںمقالے پیش کئے گئے جن میں حالات کو تبدیل کرنے کا جذبہ اور مثبت فکر نظر آتی ہے۔اختتامی تقریب کی مہمان ذی وقار یونائٹڈ نیشنس میں پروگرام آفیسر نبیلہ جمشیدنے صنفی مساوات کے لئے اضافی کوششیں کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اب وقت آ چکا ہے ہدف کو متحد ہو کر حاصل کیا جائے۔انھوں نے متعدد اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں مرد و خواتین کے درمیان کا فاصلہ خواتین کے خلاف تشدد کے حالات پیدا کر رہا ہے۔جنسی تشد د کے واقعات دنیا بھر میں معاشرہ کے لئے ایک بڑا چلینج بن گئے ہیں۔صنفی مساوات کی کوششوں کی سخت ضرورت ہے۔کانفرنس میں یوکے،کناڈا،آسٹریلیا،امریکہ،جاپان،کینیا،بنگلہ دیش،سوٹزر لینڈ،کے ساتھ ہندوستان کی مختلف یونیورسٹیوں سے پانچ سو سے زیادہ اسکالروں نے شرکت کی جبکہ 73 نے اپنے تحقیقی مقالے پیش کیے ہیں۔جے این یوکی پروفیسر کم کم رائے نے بدھ ازم پر خصوصی لیکچر دیا۔محترمہ سنبل رضوی(جنیوا)،آصفہ عثمانی(لندن)،ڈاکٹر ثبغت عثمانی(کناڈا) ،ڈاکٹر جوہی گپتا، پروفیسر عائشہ منیرا وغیرہ نے صنفی مساوات اور تشدد،ادب اورخواتین کی جد و جہدکے موضوعات پر پینل ڈسکشن میں شریک ہوکر دنیا کو بہتر بنانے کے عمل پر غور و خوض کیا۔اس سے قبل کانفرنس کی کوآرڈینیٹرپروفیسر نازیہ حسن نے شرکائے کانفرنس سے دنیا کو بہتر بنانے اور صنفی مساوات کے مسائل اور اس کے چلینجز پر غور و فکر کی دعوت کو عام کرنے میں تعاون کی اپیل کی۔پروفیسررومانا صدیقی،پروفیسر منیرا ٹی،پروفیسر سمیع رفیق،پروفیسر روبینہ اقبال،پروفیسر وبھا شرما،ڈاکٹر وسیم مشتاق،پروفیسر عذرا موسوی،پروفیسر ثمینہ خان،پروفیسر رخشندہ فاضلی وغیرہ نے مختلف سیشن کی صدارت کے فرائض انجام دیے۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر کسومیکا سرکار نے انجام دئیے ۔شکریہ کی رسم ادائیگی ڈاکٹرفوزیہ عثمانی نے کی۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی
ہندوستان کو 22 جنوری کا انتظار ہے. سپریم کورٹ اس دن کیا کہتا ہے، لوگ کان لگائے بیٹھے ہیں.حالانکہ ملک میں پہلی بار عدالتِ عظمیٰ کا وقار واعتبار اتنا گرا ہے کہ اب اس کا فیصلہ تسلیم کرنے کا رجحان کمزور ہوگیا ہےـ
اس کے باوجود سی اے اے کے سلسلے میں 22 جنوری کو سپریم کورٹ کا جو ردعمل ہوگا، اس سے عوامی تحریک کا اگلا رخ طے ہوگا.ذرا تصور کیجیے سی اے اے پر سپریم کورٹ کیا کیا کہہ سکتا ہے؟ میرے خیال میں چار امکانات ہیں :
(1) سپریم کورٹ سی اے اے کو خلافِ دستور قرار دے کر رد کردے گایا:
(2)سی اے اے کو جائز ٹھہرائے گاـ یا:
(3)سی اے اے کو کچھ ترمیم کے ساتھ مشروط کرکے ہری جھنڈی دکھادے گاـ یا:
(4) اس مسئلے کی شنوائی اگلی تاریخ تک ملتوی کردے گاـ
مجھے آخرالذکر تین امکانات پر تحریک کے سرد پڑنے کا خدشہ نہیں ہے، لیکن پہلا امکان میرے لیے بہت تشویش ناک ہے، پہلا امکان یعنی کہ اگر سپریم کورٹ نے سی اے اے کو خلافِ دستور قرار دے دیا تو سڑکوں پر نکلے ہوئے لاکھوں ماں، بہنیں، طلبہ و طالبات اور عوام الناس چین کا سانس لیں گے اور فتح و کامرانی کا جشن مناکرچٹائی سمیٹے ہوئے گھروں کو لوٹ جائیں گے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عوامی تحریک صرف سی اے اے کے خلاف ہے؟اگر ایسا ہے تو پھر این پی آر کا کیا ہوگا؟کیا این پی آر کا مسئلہ این آر سی کے برابر سنگین نہیں ہے؟ادھر بہار سرکار نے اعلامیہ جاری کردیا ہے کہ 15 مئی تا 28 جون 2020 این پی آر مکمل کرلیا جائے گا.نتیش کمار نے اسمبلی میں اعلان کیا ہے کہ بہار میں این آر سی نافذ نہیں ہوگا.لیکن دوسری طرف نتیش سرکار این پی آر کرانے جارہی ہے.کیا این پی آر خطرناک نہیں؟کچھ معصوم لوگ این پی آر اور مردم شماری کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں.جب کہ یہ دو الگ الگ دستاویز ہیں. این پی آر واضح طور پر این آر سی کا ہی پہلا قدم ہے. این پی آر میں ایک کالم ہے مشکوک شہری کا. مقامی رجسٹرار کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی کو بھی مشکوک شہری قرار دے.این پی آر میں والدین کی تاریخ پیدائش اور ان کی جائے پیدائش کے سوالات بھی ہیں.سوال یہ ہے کہ این پی آر کی تحریک کس طرح جاری رہے گی؟ اور اسے کامیاب کس طرح بنایا جائے گا؟
آخر میں اصل بات یہ کہنی ہے کہ اس عوامی تحریک کا اصل مقصد کیا ہے؟ کیا محض سی اے اے/این آر سی/این پی آر کا خاتمہ؟ یا پھر صحیح معنوں میں دستورِ ہند کا تحفظ؟
اگر اس تحریک کا مقصد صرف اول الذکر قوانین کو کالعدم کرنا ہے تو پھر یہ تحریک وقتی اور عارضی ہوگی. لیکن اگر اس کا مشن آئین اور ملک کی سلامتی ہے تو اس تحریک کو طویل مدتی، منصوبہ بند اور منظم کرنا ہوگا.سچ یہ کہ اصل مسئلہ ہندو راشٹر، ہندوتو،برہمن واد اور منوواد کا ہے.ایک فسطائی قوت جمہوری آئین کی جگہ منواسمرتی نافذ کرنا چاہتی ہے، گاندھی کی جگہ گوڈسے کو بابائے قوم بنانا چاہتی ہے. یہ جنگ سیکولرزم بنام فاشزم اور جمہوریت بنام آمریت ہے.لہذا ہندوستان کو طے کرنا ہوگا کہ وہ یہ لڑائی کس طرح لڑے گا؟
پٹنہ:معروف بالی ووڈایکٹر اور کانگریسی لیڈر شتروگھن سنہانے ایک نیوزچینل کو انٹرویودیتے ہوئے این آرسی اور سی اے اے پر زبردست تنقید کی ہے اور کہاہے کہ این آرسی دراصل انارکی ہے،جوپورے ملک کے امن وامان کو نقصان پہنچارہی ہے۔انہوں نے وزیراعظم مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ پر بھی نشانہ سادھااورکہاکہ یہ دونوں گرچہ عوامی حمایت ملنے کی وجہ سے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہیں مگراس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ دونوں ملک کے سب سے قابل لوگ ہیں،جس طرح انہوں نے بغیر سوچے سمجھے نوٹ بندی کا فیصلہ کیاتھا اسی طرح شہریت ترمیمی قانون پاس کیا ہے اور پورے ملک میں این آرسی کے نفاذ کا ارادہ رکھتے ہیں اور اب جب ملک بھرمیں احتجاجات ہورہے ہیں تو خبریں آرہی ہیں کہ یہ اس قانون پر نظر ثانی کررہے ہیں۔انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ کے ساتھ پولیس کی زیادتی کی بھی شدید مذمت کی اور کہاکہ پولیس نے مجرمانہ حرکت کی ہے اورجو لوگ اس معاملے میں ملوث ہیں ان کی نشان دہی ہونی چاہیے اورانہیں سزاملنی چاہیے،ساتھ ہی انھوں نے ملک بھر میں این آرسی اور سی اے اے کیخلاف احتجاج کرنے والے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ احتجاج کو پرامن رکھیں اور کسی قسم کے تشددسے پرہیز کرتے ہوئے اس غیر دستوری و غیر آئینی قانون کیخلاف احتجاج کریں۔
ڈی ایم کی طرف سے دارالعلوم دیوبند میں بھی تعطیل کرانے کی کوشش
دیوبند (ایس۔چودھری) ملک بھر میں ہورہے احتجاجی مظاہروں کے سبب دیوبند میں ہائی الرٹ ہے اور یہاں بھاری پولیس فورس تعینات ہے مگر دیوبند کو احتجاجی مظاہرے سے بچانے کے لئے تعینات افسران کی سانسیں اس وقت اٹک گئیں جب دارالعلوم دیوبند کے احاطے کے اندر جمع ہوئے طلباء نے جامعہ ، اے ایم یو اور ندو ۃ العلماء کے طلبا کی حمایت میں نعرے بازی شروع کردی۔ پولیس اور پی اے سی اہلکاروں کو آناً فاناً میں موقع پر بلایا گیا۔ کیمپس کے باہر فورس کو دیکھ کر طلباء مزید مشتعل ہوگئے، جس کے بعد افسران و فورس کو گیٹ سے پیچھے ہٹنے کو مجبور ہونا پڑا۔ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شدید احتجاج کے بعد ضلع اعلیٰ افسران نے دیوبند کو اس نوعیت کے احتجاجی مظاہرہ سے بچانے کے لئے پیر کی صبح یہاں کیمپ لگالیا تھا اور سارا دن پولیس اور پی اے سی اہلکار تعینات رہے،فورس اور افسران دن بھر دارالعلوم دیوبند کے علاقہ میں گشت کرتے رہے۔اسی دوران خانقاہ پولیس چوکی پر موجوداعلیٰ افسران پل پل کی اپڈیٹ لیتے رہے، شام کے وقت دیوبند میں موجود ضلع کے تمام اعلی افسران کی سانسیں اس وقت اٹک گئیں جب دارالعلوم دیوبند میں عصر کی نماز کے بعد اعظمی منزل کے احاطہ میں جمع ہوکر طلباء نے جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور لکھنؤ کے ندو ۃ العلماء کے طلبہ کی حمایت میںنعرے بازی شروع کردی، اس دوران طلبہ نے دہلی ،علی گڑھ اور لکھنؤ میں طلباء اور پولیس کے مابین ہونے والی جھڑپوں پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے نعرے بازی کی۔ آناً فاناً پولیس اور پی اے سی کے جوانوں کو موقع پر بلایا گیا ، جس کے بعد طلباء مزید مشتعل ہوگئے، حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے دارالعلوم دیوبند کے گیٹ پر تعینات فورس کو افسران نے پیچھے ہٹنے کی ہدایت دی ۔ جس کے بعد دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ طلبہ کے درمیان پہنچے اور انہیں سمجھا بجھا کر ٹھنڈا کیا ،جس کے بعد افسران نے بھی راحت کی سانس لی۔
عبدالمالک بلندشہری
خدا خود مختار ہے،وہ کسی کا محتاج نہیں ہے،جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے جسے چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے، جس کے ذریعہ چاہتا ہے ملت کو تقویت پہنچاتا ہے اور جس سے چاہے نقصان پہنچاتا ہےـ
آج علی گڑھ و جامعہ ملیہ اسلامیہ کے کوٹ پتلون زیب تن کرنے والوں نے ثابت کردیا کہ وہ اہل جبہ و دستار سے زیادہ قومی جذبہ اور ملی درد رکھتے ہیں،انہوں نے اپنے پر عزیمت عمل سے یہ ثابت کردیا کہ ان کا شعور و ادراک دین دار طبقے سے زیادہ پختہ، فیصلہ زیادہ دوراندیشانہ، عزم آہنی اور جذبہ فولادی ہےـ
افسوس کی بات یہ ہے کہ تمام مذہبی اداروں،ملی تحریکوں،روحانی خانقاہوں پر عجب پرہول سناٹا چھایا ہوا ہے،حق کی آواز لگانے والوں کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں، سیم وزر کی محبت، عہدوں کی حرص، ہوس اور خواہشات نے سفید پوشوں کو بزدل بناکر رکھ دیا ہےـ
وہ اسلاف جو قوم کے لئے اپنے تن من دھن کی بازی لگانے کے عادی تھے ، جنہوں نے ملت کے تحفظ کے لئے اپنی جان کا بے تکلف نذرانہ پیش کیا تھا ، تختۂ دار پر لٹکنے کو اپنے لئے نعمت عظمی،زنداں کو آرام گاہ اور قید خانہ کو سکون خانہ سمجھا تھاـ
افسوس صد افسوس! ان کے اخلاف مصلحت کوشی کے ایسے دیوانے ہوئے کہ جرات و بصیرت کو فراموش کربیٹھے، ملی غیرت، دینی حمیت اور ایمانی جرات ان کے دلوں سے آخری حد تک نکل گئی اور وہ بے حسی و غفلت کے گہرے دلدل میں پھنس کر رہ گئےـ
اے پتلون والو! ہمیں معاف کرنا،ایسے موقع پر ہم مدرسہ والے، خانقاہ والے، دینی تحریک والے، اسلامی مراکز والے اور مذہبی طبقہ سے وابستہ جملہ افراد آپ کے سامنے شرمندہ ہیں،ہمیں اعتراف ہے کہ ہم محض گفتار کے غازی ہیں، کردار کے اعتبار سے برباد ہوچکے ہیں، ،ہم صرف ماضی کی خوش فہمیوں میں جینے والے لوگ ہیں، ہماری صرف زبانوں پر ٹیپو سلطان، سید احمد شہید، مجدد الف ثانی،حافظ ضامن شہید،محمد علی جوہر، قاسم ناناتوی، ابوالکلام آزاد کے مجاہدانہ کارنامے اور سرفروشانہ واقعات ہیں ـ ہم حقیقت میں ان کی تاریخ، ان کے قصے صرف لطف لینے اور محظوظ ہونے کے لئے پڑھتے ہیں ـ حقیقت یہ ہے کہ عملی طور پر ہمیں ان سے کوئی مناسبت نہیں،ہم ان کے کارہائے نمایاں کو قابل ذکر تو سمجھتے ہیں لیکن قابل عمل نہیں سمجھتےـ
ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ کل تک ہم آپ کے رہنما تھے مگر آج سے ہم آپ کی رہبری اختیار کرتے ہیں، ہم آپ کے پیچھے چلنے پر مجبور ہیں کیوں کہ ہماری زبان گنگ ہوکر رہ چکی ہے، ہمارا دماغ ماؤف ہوگیا ہے اور ہم اپنے کو انتہائی شکست خوردہ محسوس کررہے ہیں ـ
خدا تمہارا حامی و ناصر ہو، تاریخ آپ کو ہمیشہ اچھے الفاظ سے یاد رکھے گی، آپ تاریخ سازی کررہے ہیں، کل کے معرکہ میں مولانا قاسم ، مولانا محمود حسن اور مولانا آزاد نے قیادت سنبھالی تھی لیکن آج ہماری نااہلی، بے حسی کی بناء پر قیادت کی ذمہ داری انجینئر فلاں، ڈاکٹر فلاں اور ایڈوکیٹ فلاں کے مضبوط کندھوں پر ڈال دی گئی ہے،ہمیں احساس ہے کہ ہم غنودگی اور نیم خوابی کے عالم میں ہیں، ہم آپ کے سامنے شرمندہ ہیں،بلکہ ہم خود اپنے وجود پر شرمندہ ہیں اور ہم سرِ عام اس کا اقرار کرنے پر مجبور ہیں کہ آج جبہ و دستار کے مقابلے میں پتلون جیت گئی ہےـ
اسد رضا
ناقدانہ ادب کی عزت ، سیاہ و سفید زلفوں سے آراستہ سر، دمکتی ہوئی پیشانی، تنقیدی بصارت کی نشانی، محققانہ ادب کی توقیر میں اضافہ کرنے والی ناک، اردو کے شعر وادب کی طرح بھرے بھرے رخسار، جن پر شرعی ریش اور غیر شرعی مونچھوں کی بہار، جمالیات کی بارش کرنے والے بلند ادبی قدلیکن جسمانی طور پر بوٹا سا قد اور فطری شرافت وذہانت کاحامل کوئی دانشور اگر کسی سمینار یا ادبی جلسے میں ناقدانہ انفرادیت اور عبرانی آمیز اردو میں فصاحت کی فرات اور بلاغت کی دجلہ بہاتا ہوا نظر آئے تو تسلیم کرلیجئے کہ آپ اکیسویں صدی کے مفکر اردو، منفرد ناقد ومحقق صحافت وادب کے دلکش امتزاج اور ادیب ناطق حقانی القاسمی کی زیارت بابرکت سے مشرف بہ تنقید ہوگئے۔
جناب حقانی القاسمی نے 15جولائی1970کو بہار پربہار کے ضلع ارریا میں ایک علم پرور خاندان میں آنکھیں کھولیں اور دارالعلوم دیوبند میں دینی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں دنیوی تعلیم حاصل کرکے بڑے دانشوران اردو کی آنکھیں کھول دیں اور ان کے ہوش اڑادیے۔ حقانی صاحب نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے عربی ادبیات میں ایم اے اورایم فل کیا اور عربی، فارسی، اردو، ہندی اور انگریزی زبانوں پر دسترس حاصل کی اور پیشے کے طور پر انہوںنے اپنے لئے اردو صحافت کو منتخب کیا لیکن ان کارجحان ادب اور تنقید کی جانب زیادہ ہے لہٰذا اردو راشٹریہ سہارا سے حقانی القاسمی نے صحافتی سفر شروع کیا پھر وہ ہفتے وار ’اخبار نو ‘اورویکلی ’’نئی دنیا ‘‘ سے وابستہ رہے۔ عالمی شہرت یافتہ میگزین ’’استعارہ‘‘ کو بام مقبولیت تک پہنچانے میں صلاح الدین پرویز کے ساتھ ساتھ حقانی صاحب کا بھی اہم رول تھا۔ اس میگزین کو حقانی القاسمی نے اپنی تنقیدی بصارت اور تحقیقی بصیرت سے آگے بڑھایا۔ استعارہ کے بند ہوجانے کے بعد حقانی صاحب نے ماہ نامہ ’’بزم سہارا‘‘ اور عالمی سہارا میں اپنے قلمی اور علمی جوہر دکھلائے اور نہایت اہم ادبی مباحث شروع کئے۔ اردو میں طنزومزاح کو گیا گزرا اور دوسرے تیسرے درجے کاادب تصور کرنے والے قد آور ناقدین کرام اور دانشوران عظام کے قائم کردہ نظریاتی بتوں کو توڑنے کے لیے ہی حقانی صاحب نے ماہ نامہ’’بزم سہارا‘‘ میں اس سوال پر بحث کرائی تھی کہ کیا طنزومزاح دوسرے درجے کا ادب ہے۔اس چھوٹے قد کے بڑے ناقد نے تنقید کو ایک نیا علمی وجمالیاتی رخ عطاکیا اورمغرب ومشرق کے من گھڑت اصولوں اور نظریات کی جم کر پول کھولی۔ چونکہ موصوف عربی، فارسی، اردو ، انگریزی اور ہندی کی ادبیات بالخصوص کلاسیکی ادبیات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ لہٰذا ان کی تنقید پر بڑے بڑے پروفیسر انگلی اٹھاتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ مثال کے طور پر حقانی القاسمی اپنے ایک مضمون ’واقیموالوزن بالقسط‘ میں رقم طراز ہیں: تنقید، تجسس اور تفحص کا عمل ہے، تنقید تخلیق کا مکاشفہ بھی کرتی ہے اور محاسبہ بھی، تنقید دراصل ایک طرح سے تخلیق کی توسیع وتفریج ہے، تنقید کوئی سائنسی ، طبیعیاتی یا ریاضیاتی عمل نہیں ہے۔‘‘
حقانی القاسمی کی تنقیدی بصیرت اور نظریاتی بصارت کا پرتو ہمیں ان کی کتب میں نظر آتا ہے۔ فلسطین کے چار ممتاز شعرائ، طواف دشت جنوں، لاتخف، دارالعلوم دیوبند: ادبی شناخت نامہ، تکلف برطرف، رینو کے شہر میں، خوشبو روشنی اور رنگ، بدن کی جمالیات، تنقیدی اسمبلاژ، ادب کو لاژ، شکیل الرحمن کاجمالیاتی وجدان اور آنگلیات وغیرہ حقانی القاسمی کی قابل ذکر کتب ہیں جن کی اردو دنیامیں کافی پذیرائی ہوئی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ہماری اردو زبان کا ہر چھوٹا بڑا،اعلیٰ وادنیٰ اور اہم وغیراہم مصنف ،مولف اور مترجم اپنے اور اپنی کتاب کے بارے میں حقانی صاحب سے مضمون لکھوانا او را س طرح اپنی قدر ومنزلت میں اضافہ کرانا چاہتا ہے۔ اب یہ بات دیگرہے کہ اپنی نسبی نجابت اور ادبی شرافت کے باعث حقانی القاسمی کسی کو مایوس نہیں کرتے۔ لیکن یہاں یہ تذکرہ بھی برمحل ہوگا کہ اپنی شرافت اور انکساری کے باوصف وہ غیور ہیں اور کسی بڑے سے بڑے افسر یا دانشور کی غلط باتوں کو برداشت نہیں کرتے۔ اگرچہ انہوںنے ماہ نامہ ’’بزم سہارا‘‘ اور ویکلی ’’عالمی سہارا‘‘ کو شہرت ومقبولیت کی بلندیوں تک پہنچایا لیکن راشٹریہ سہارا اردو، ادارہ کے ایک گروپ ایڈیٹر نے جب حقانی صاحب کی اَنا کو ٹھیس پہنچائی تو انہوںنے اس بڑی کمپنی کی ملازمت سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ حالانکہ گروپ ایڈیٹر کو اپنی غلطیوں کا احساس ہوا اور انہوںنے ادارہ کے کئی سینئر صحافیوں سے سفارش کرائی کہ حقانی صاحب سہارا میں دوبارہ اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں لیکن ہمارے اس غیر ت مند ادبی صحافی نے دوبارہ سہارا میں قدم نہیں رکھا۔ یہاں یہ بھی عرض کردوں کہ حقانی صاحب معاشی لحاظ سے ثروت مند نہیں ہیں البتہ ان کے پاس علم وادب کے بیش بہا خزانے ہیں جنہیں وہ اکثر اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے لٹاتے رہے ہیں۔ وہ اگرچہ خود حالات کی وجہ سے اپنی پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل نہیں کرسکے لیکن کئی ریسرچ اسکالروں کی تھیسس لکھنے میںعلمی وتحقیقی مدد کرکے انہیں ڈاکٹر آف فلاسفی بنواچکے ہیں۔ آج کل وہ یک موضوعاتی مجلہ ’انداز بیان‘ کی ادارت کررہے ہیں۔
حقانی القاسمی کی زبان قدرے مشکل ہوتی ہے۔ اس لیے مرحوم مظہر امام نے ایک مرتبہ ان کی اردو تحریروں اور فکر کی ستائش کرتے ہوئے فرمایاتھا: ’’ارے بھئی حقانی میاں اردو میں کب لکھو گے؟‘‘۔ یہ صحیح ہے کہ تنقید وتحقیق کی زبان عموماً مشکل ہوتی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ حقانی صاحب چونکہ عربی زبان کے بھی ماہر ہیں؛ لہٰذا ہمیں ان کے معنی عام اردو لغات میں نہیں ملتے ۔ دراصل اردو لغات میں عربی ،فارسی اور ہندی کے الفاظ کے معنی ومفہوم تو آسانی سے نظر آجاتے ہیں عربی ،عبرانی اور یونانی کے الفاظ واصطلاحات کے معنی تلاش وجستجو کے بعد بھی دکھائی نہیں دیتے۔ اسی لیے اردو کے بڑے بڑے پروفیسر اور دانشور حقانی القاسمی کی زبان وبیان کی روانی ،فکر کی جولانی اور بین السطور کی کہانی کو پڑھ کر انگشت بہ دنداں رہ جاتے ہیں۔اس لیے ڈاکٹر ایم صلاح الدین نے حقانی کو ’طرحدار ناقد‘ قرار دیاہے۔
حقانی القاسمی ایک ماہر مترجم بھی ہیں۔ انہوںنے انگریزی اور ہندی زبانوں سے اردو میں تراجم بھی کئے ہیں۔ وہ کسی بھی کتاب کا ترجمہ اس کی روح اور مفہوم کی گہرائی تک اتر کر اور جسم الفاظ ومعنی کو چھوکر کرتے ہیں۔ اسی لیے ان کے تراجم کی عموماً ستائش کی جاتی ہے۔ جس کازندہ جاوید ثبوت یہ ہے کہ انہوںنے گجراتی کے معروف ناول نگار جوزف میکوان کے مقبول ناول ’’انگلیات‘‘ کا اردو میں اتنا شاندار اور جاندار ترجمہ کیاتھا کہ اس پر حقانی القاسمی کو 2016میں پروقار ادارہ ساہتیہ اکادمی نے ایوارڈ برائے ترجمہ سے سرفراز کیاتھا۔ اگرچہ اردو دنیا اور ادبی حلقوں نے حقانی صاحب کی اتنی قدر نہیں کی جس کے وہ مستحق ہیں لیکن ایسا بھی نہیں کہ انہیں بالکل نظر انداز کردیا گیا ہو لہٰذا دہلی اردو اکادمی نے انہیں تخلیقی نثر کا ایوارڈ دیاتو اترپردیش اردو اکادمی اور مدھیہ پردیش اردو اکادمی نے بھی حقانی القاسمی کو ایوارڈ دے کر اپنی معتبریت اور توقیر میں اضافہ کیا۔ لیکن یہاں یہ تذکرہ بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حقانی صاحب اگرچہ متعدد اہم کتب کے مصنف ہیں لیکن وہ اپنی کتب مختلف اردو اکادمیوں کو برائے انعام نہیں بھجواتے۔ اس سلسلہ میں انہیں میں نے کئی بار سمجھایا بھی اور پیار سے ڈانٹا بھی لیکن اس بے لوث ادیب پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ دریں اثنا حقانی القاسمی کے حساس د ل پر ایک بہت بڑا غم کا پہاڑ ٹوٹ گیا۔ ان کی ہونہار، قابل اور پیاری منجھلی بیٹی انیقہ اپنے اسکول میں ایک حادثہ میں گرکر فوت ہوگئیں۔ تاہم اس صابر وشاکر ادیب نے اس صدمۂ عظیم کو برداشت کیا اور وہ پھر اپنی علمی تنقیدی اور صحافتی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے لیکن اب بھی کبھی کبھی اپنی اس چہیتی بیٹی کو یادکرکے ان کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔
تخلیقی نقاد حقانی القاسمی کی شہرت بین الاقوامی ہے۔ لہٰذا بڑی بڑی دانش گاہوں، ادبی اداروں اور اردو اکادمیوں میں انہیں سمیناروں، اردو میلوں اور جلسوں میں مقالات پیش کرنے اور ادبی موضوعات پر تقریریں کرنے کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔ چونکہ حقانی صاحب قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ادارتی شعبے سے وابستہ ہیں۔ بطور ایڈیٹوریل صلاح کار ذمے داری پوری کررہے ہیں لہٰذا وہ ہر دعوت کو مشکل ہی سے قبول کرپاتے ہیں۔ بہرحال اپنے اس شعر کے ساتھ میں حقانی القاسمی کایہ خاکہ تمام کرتا ہوں کہ:
یوں ہی چلتا رہے یارب قلم اس کا صدیوں
رنگ تنقید کو تخلیق دیا ہے جس نے
Asad Raza
97- F, Sector-7
Jasola Vihar
New Delhi – 110025
Mob.: 9873687378