کامران غنی صبا
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو برسر منبر ٹوک دیا گیا۔ کسی نے ٹوکنے والے کو گستاخ، بدتمیز، بددین، کافر نہیں کہا۔ کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر "العلماء هم ورثة الأنبياء ” کا اطلاق نہیں ہوتا؟ کیا حضرت عمر سے سوال پوچھنا جائز اور ہم اپنے علماسے سوال کریں تو بددین ۔۔۔۔۔؟ صحابۂ کرام اور خلفائے راشدین سے اکثر مواقع پر برسرِ عام سوالات پوچھے گئے۔ الحمدللہ مسئول کے تئیں سائل کے احترام میں کبھی کوئی کمی بھی واقع نہیں ہوئی، کیا ہمارے عہد کے علمائے کرام کا رتبہ و مرتبہ صحابۂ کرام اور خلفائے راشدین سے بھی زیادہ بڑھا ہوا ہے کہ ہمیں ان سے سوال پوچھنے کا، ان کی کمزوریوں کی نشاندہی کرنے کا کوئی حق نہیں؟
بلاشبہ علمائے کرام کا احترام لازم ہے؛لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ علما کی شکل میں نظر آنے والے دین کے سوداگروں، بے ایمانوں، یتیموں کا مال اڑانے والوں کو عقیدت کی مسند عطا کی جائے۔
کیا علمائے کرام اور مولویوں کے احترام کا یہی مطلب ہے کہ "مولوی” کی شکل میں نظر آنے والا ایک بڑا گروہ قوم کو بے وقوف بنا کرلوگوں کو ہماری جگ ہنسائی کا موقع دیتا رہے اور ہم اس کا دفاع کرتے پھریں؟
اگر اساتذہ کی ایک بڑی جماعت درس و تدریس کے مقدس پیشے کا مذاق اڑائے،طلبہ و طالبات کے مستقبل سے کھلواڑ کرے تو کیا استاد کی عزت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہمیں خاموش رہ جانا چاہیے؟ اسی طرح اگر ایک مولوی "قال اللہ” و "قال الرسول” کی صدائیں لگا کر سیدھے سادے لوگوں کو ٹھگتا رہے،تو کیا ہمیں علما کے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے اسے معاف کر دینا چاہیے؟
یاد رکھیے معافی انفرادی معاملوں میں ہوتی ہے،اگر کسی نے آپ کو ذاتی طور پر تکلیف پہنچائی ہے، آپ کا مال ہڑپ کیا ہے، آپ کی بے عزتی کی ہے،تو آپ کو حق ہے کہ آپ اسے معاف کر دیں لیکن اگر کوئی شخص پوری قوم کو بے وقوف بنائے تو اس کےکرتوتوں سے لوگوں کو واقف کرانا آپ کی ذمہ داری ہےـ
اب ذرا چلتے چلتے کچھ احادیث بھی ملاحظہ فرما لیں :
حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عنقریب ایک زمانہ آئیگا،جس میں اسلام کا صر ف نام باقی رہ جائیگا اور قرآن کے صرف الفاظ باقی رہ جائیں گے،ان کی مسجدیں بڑی بارونق ہوں گی، مگر رشد وہدایت سے خالی اورویران ۔ان کے (نام نہاد) علما آسمان کی نیلی چھت کے نیچے بسنے والی تمام مخلوق سے بد تر ہوں گے ،فتنہ ان ہی کے ہاں سے نکلے گا اوران ہی میں لوٹے گا (یعنی وہی فتنہ کے بانی بھی ہوں گے اوروہی مرکزومحوربھی ) (بیہقی فی شعب الایمان ،مشکوۃ شریف ۳۸)
ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
میں ایک دن اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ تھا اور میں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
"مجھے میری امت کے لیے دجال سے بھی زیادہ خدشہ (ایک اور چیز کا) ہے”
آپ نے اس بات کو تین مرتبہ دہرایا ۔ میں نے کہا ! اے اللہ کے رسول ﷺ ، وہ کیا چیز ہے جس کا آپ دجال کے علاوہ اپنی امت پر خوف کر تے ہیں ؟ تو فرمایا "گمراہ ائمہ”( مسند امام احمد)
’اﷲ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ لوگوں کے سینے سے نکال لے؛بلکہ علما کو ایک ایک کرکے اٹھاتا رہے گا یہاں تک کہ جب کوئی عالم نہیں رہے گا تو لوگ جہلاء کو اپنا راہنما بنا لیں گے۔ ان سے مسائل پوچھے جائیں گے تو وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے، وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے‘‘۔ (صحیح بخاری)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان تاریک فتنوں کی آمد سے پہلے پہلے نیک اعمال کرلو جو اندھیری رات کی تہ بہ تہ تاریکیوں کے مثل ہوں گے ،آدمی صبح کو مومن اورشام کو کافر ، شام کو مومن ہوگا اورصبح کو کافر ،دنیا کے چند ٹکو ں کے بدلے اپنا دین بیچتا پھرے گا (معاذ اللہ) (صحیح مسلم ۱/۷۵)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت میں ایک جماعت ہوگی جو دین کا قانون خوب حاصل کرے گی اورقرآن بھی پڑھے گی پھر وہ کہیں گے آؤ ہم ان حاکموں کے پاس جاکر ان کی دنیا میں حصہ لگائیں اوراپنا دین ان سے الگ رکھیں؛ لیکن ایسا نہیں ہوسکتا جیسے کانٹے دار درخت سے سوائے کانٹوں کے اورکچھ حاصل نہیں ہوسکتا اسی طرح ان حکام کے پاس جاکر بھی گناہوں کے سوا کچھ نہیں ملے گا ‘‘۔ (ابن ماجہ ص ۲۲)